skip to Main Content

سب سے بڑا کارنامہ

کلیم چغتائی

…..
جانیے! ایک نوجوان طالب علم کے متعلق جس نے سولہ برس کی عمر میں ستر ہزار احادیث کا علم حاصل کیا

…..

درس ِحدیث کا آغاز ہوچکا تھا۔
اُستاد درس دے رہے تھے اور تمام طالب علم سرجھکائے تیزی سے لکھنے میں مصروف تھے۔ ان میں ایک دُبلا پتلا طالب علم ایسا بھی تھا جس کے ہاتھ خالی تھے۔ وہ بڑے غور سے درس سن رہا تھا لیکن دوسرے طالب علموں کی طرح حدیثیں لکھ نہیں رہا تھا۔ دوسرے دن درس شروع ہوا۔ آج بھی تمام طالب علم حدیثیں لکھتے رہے اور وہ طالب علم خالی ہاتھ بیٹھا غور سے سنتا رہا۔ اسی طرح پندرہ دن گزر گئے۔ وہ طالب علم ایک مرتبہ بھی قلم اور کاغذ ساتھ نہیں لایا۔ اس کے ساتھیوں کو بڑی حیرت ہوئی کہ یہ نوجوان یہاں کیوں آتا ہے۔ انھوں نے اس نوجوان کو روک کر اس سے پوچھنا شروع کردیا کہ آپ لکھتے کیوں نہیں۔ آپ کی تو اتنے دن کی محنت ضائع ہوگئی۔ اس طالب علم نے کہا: ”اچھا، آپ وہ تمام احادیث لے آئیں جو اب تک لکھوائی گئی ہیں۔“ تمام طالب علم اپنے صفحات لے آئے۔ اس وقت تک استاد محترم کئی ہزار احادیث لکھوا چکے تھے۔ اس دبلے پتلے نوجوان طالب علم نے بولنا شروع کیا اور تمام کی تمام احادیث اسی ترتیب سے بیان کردیں، جس ترتیب سے استاد محترم نے بیان فرمائی تھیں۔
اتنے زبردست حافظے کا مالک یہ نوجوان، آگے چل کر امام بخاری ؒکے نام سے مشہور ہوئے۔ امام بخاریؒ وہ عظیم انسان ہیں جنھوں نے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے صحیح اور بھروسے کے قابل کتاب ترتیب دی۔ تمام علماء اس بات کو مانتے ہیں کہ اس دنیا میں قرآن پاک کے بعد سب سے صحیح کتاب ”صحیح بخاری“ ہی ہے۔
امام بخاریؒ کا نام ’محمد‘ اور والد کا نام اسماعیل ہے۔ آپؒ بخارا میں پیدا ہوئے اس لیے بخاری کہلاتے ہیں۔ امام بخاریؒ 13 شوال 194ھ (809ء) کو پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد اسماعیل بن ابراہیم بڑے عالم، بہت متقی اور دیانت دار انسان تھے۔
امام بخاریؒ ابھی بہت چھوٹے تھے کہ ان کے والد محترم کا انتقال ہوگیا۔ کچھ عرصے بعد ایک اور مشکل پیش آئی کہ امام بخاریؒ کی آنکھوں میں خرابی پیدا ہوگئی۔ اب وہ دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئے تھے۔ آپؒ کی والدہ بہت دعائیں کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے بچے کی آنکھیں ٹھیک کردے۔ اللہ نے یہ دعائیں سن لیں اور ننھے محمد کی آنکھیں بالکل ٹھیک ہوگئیں۔
اب امام بخاریؒ کی والدہ نے اپنے بچے کو بخارا کے علماء کرام کے پاس علم حاصل کرنے بھیج دیا۔ بچپن میں بھی آپؒ کی یادداشت بہت اچھی تھی۔ آپؒ نے صرف ایک سال میں احادیث کا بڑا حصہ حفظ کرلیا۔
امام بخاریؒ سولہ برس کے ہوئے تو آپؒ کو ستر ہزار احادیث یاد ہوچکی تھیں۔ اب آپ نے دوسرے علاقوں میں جا کر علم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ آپؒ کا پہلا سفر، حج کا سفر تھا جو آپؒ نے والدہ اور بھائی کے ساتھ 210ھ میں کیا۔ حج کے بعد آپ علم حاصل کرنے کے لیے مکہ میں ٹھہر گئے۔ امام بخاریؒ نے مکہ مکرمہ اور پھر مدینہ منورہ میں کئی محترم علماء سے علم حاصل کیا۔ آپؒ کے اساتذہ کی تعداد تقریباً 1080 ہے۔
امام بخاریؒ ابھی 18/ برس کے تھے کہ آپؒ نے ’فقہائے صحابہ والتابعین‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ یہ آپؒ کی پہلی کتاب تھی۔ اسی سال آپؒ نے ’التاریخ الکبیر‘ کے نام سے ایک اور کتاب لکھی۔ اس کتاب کا مسودہ آپؒ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہئ مبارک اور منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان بیٹھ کر لکھا۔ اس کتاب میں صحابہئ کرام، تابعین، تبع تابعین میں سے حدیث کے 40 ہزار راویوں کے نام، حروف تہجی کی ترتیب سے درج کیے گئے ہیں۔
امام بخاریؒ مدینہ منورہ سے بصرہ، پھر کوفہ اور پھر بغداد تشریف لے گئے۔ ہر شہر میں آپؒ نے درس دیے اور اساتذہ سے علم حاصل کیا۔ اس طرح آپؒ نے حدیث سننے کے لیے اسلامی دنیا کا سیکڑوں میل کا سفر کیا۔ آپؒ خود بتاتے ہیں کہ میں حدیث کا علم حاصل کرنے کے لیے مصر اور شام دو دفعہ گیا، چار مرتبہ بصرہ اور چھ مرتبہ حجاز گیا اور میں شمار نہیں کرسکتا کہ محدثین کے ساتھ کتنی مرتبہ کوفہ اور بغداد گیا۔
فقہ کے مشہور امام حضرت احمد بن حنبلؒ، امام بخاریؒ کو بہت پسند کرتے تھے۔
امام بخاریؒ کو تین لاکھ احادیث یاد تھیں۔ آپؒ کا بار بار امتحان لیا گیا لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ امام صاحبؒ نے احادیث سنانے میں کوئی غلطی کی ہو۔ ایک بار آپؒ بغداد تشریف لے گئے۔ وہاں کے لوگوں نے آپؒ کا امتحان لینے کے لیے دس محدثین کو ایک مجلس میں بلایا اور امام صاحبؒ کو بھی دعوت دی۔ مجلس میں ہر محدث نے دس حدیثیں سنائیں لیکن جان بوجھ کر ہر حدیث کی سند اور الفاظ میں کوئی تبدیلی کردی۔ امام صاحبؒ ہر حدیث سن کر کہتے رہے کہ مجھے معلوم نہیں۔ جب تمام احادیث بیان ہوگئیں تو امام صاحبؒ نے کہنا شروع کردیا۔ انھوں نے پہلے محدث کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ”آپ نے سب سے پہلے یہ حدیث بیان کی جو یوں تھی۔ پھر آپؒ نے بتایا کہ اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے سند میں یہ غلطی کی گئی اور الفاظ میں یہ تبدیلی کی گئی۔ اصل حدیث یہ ہے۔“ اس طرح آپؒ نے سو کی سو احادیث بیان کردیں۔
امام صاحبؒ کی دیگر کتابوں میں سے چند کے نام یہ ہیں۔ الادب المفرد (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق مبارک پر اچھی کتاب ہے)۔ التفسیر والکبیر، التاریخ الاوسط، الجامع الکبیر، کتاب المبسوط، الجامع الصغیر فی الحدیث، برالولدین، کتاب البرقاق، التاریخ الصغیر۔ امام صاحبؒ کا سب سے بڑا کارنامہ ”صحیح بخاری“ ہے۔ اس کتاب کے لیے آپؒ نے سولہ برس تک مزید محنت کی اور چھ لاکھ احادیث میں سے خوب اچھی طرح جانچ پڑتال کرکے 7275/ احادیث منتخب کیں۔ امام صاحبؒ نے صحیح بخاری میں احادیث درج کرنے کا کام ایک بار تو خانہئ کعبہ میں انجام دیا اور دوسری بار مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں۔
صحیح بخاری میں ہر حدیث کو درج کرنے سے پہلے امام صاحبؒ نے اس کے الفاظ، راویوں اور حوالوں کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرتے۔ ان 7275/ احادیث میں سے ہر ایک کو دینی کتاب میں شامل کرنے سے پہلے آپؒ غسل فرماتے، دو رکعت نفل نماز ادا کرتے، اس حدیث کے درست ہونے کے بارے میں استخارہ کرتے، جب اللہ تعالیٰ آپؒ کے دل کو اطمینان عطا کردیتے، تب آپؒ اس حدیث کو اپنی کتاب میں درج فرماتے۔
صحیح بخاری کو 90 ہزار افراد نے امام بخاری سے پڑھا۔ اس کتاب کی کئی شرحیں بھی لکھی جاچکی ہیں۔ امام بخاریؒ بہت متقی، سخی اور رحم دل انسان تھے۔ ایک بار آپؒ کے ایک شاگرد نے کچھ مال بھیجا۔ شام کے وقت چند تاجر آگئے انھوں نے کچھ رقم دے کر مال خریدنا چاہا۔ امام صاحبؒ نے فرمایا۔”صبح بات کروں گا۔“ اگلے دن کچھ اور تاجر آگئے۔ انھوں نے دُگنی رقم دے کر مال خریدنا چاہا۔ امام صاحبؒ چاہتے تو زیادہ فائدہ اُٹھا سکتے تھے۔ پہلے والے تاجروں سے کوئی وعدہ بھی نہیں کیا تھا مگر امام صاحبؒ نے فرمایا: ”میں پہلے والے تاجروں کو مال فروخت کرنے کی نیت کرچکا ہوں۔“
امام صاحبؒ بہت سادگی پسند کرتے تھے۔ معمولی غذا اور سادہ لباس استعمال کرتے تھے۔ تجارت سے جو آمدنی ہوتی، اس کا بڑا حصہ طالب علموں، مسکینوں اور محتاجوں پر خرچ کر دیتے تھے۔ آپؒ بہت نفل نمازیں پڑھنے والے، راتوں کو عبادت کرنے والے اور قرآن کریم کی بہت زیادہ تلاوت کرنے والے تھے۔
امام صاحبؒ اچھے شاعر بھی تھے۔ آپؒ تیر چلانے میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ ایک بار آپؒ دوستوں کے ساتھ نکلے تو تیر اندازی کی مشق ہونے لگی۔ اتفاق سے امام صاحبؒ کا چلایا ہوا تیر ایک نہر پر بنے ہوئے پل پر جا کر لگا، اس سے پل کا ایک حصہ ٹوٹ گیا۔ امام صاحبؒ نے پل کے مالک کو پیغام بھجوایا کہ آپ پل ٹوٹنے کا معاوضہ لے لیں۔ پل کے مالک نے جواب بھجوایا کہ میرا تمام مال اور دولت امام صاحبؒ پر قربان ہے۔ امام صاحبؒ نے سنا تو خوش ہو کر سو درہم محتاجوں میں تقسیم فرما دیے۔
امام صاحبؒ کا انتقال بخارا اور سمر قند کے درمیان واقع ایک بستی خرتنگ میں 256ھ میں ہوا۔ آپؒ کو خرتنگ ہی میں سپرد خاک کیا گیا۔

٭……٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top