skip to Main Content

نئے کپڑے

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔

”بالکل نہیں! میں نہیں پہنتا یہ پرانے موزے!!“
سلمان میاں نے سفید رنگ کے موزے زمین پر پھینکتے ہوئے کہا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔
”مگر بیٹا یہ موزے تو ابھی دو ماہ پہلے آپ کے ابو لے کر آئے تھے۔“ امی نے سمجھایا۔
”جی نہیں۔ میں نئی کلاس میں گیا ہوں۔ سب بچے نئے جوتے، نئے موزے، نئی یونیفارم پہن کر آئیں گے اور میں پرانے موزے جوتے پہن کر جاؤں۔ میری ٹوپی بھی پرانی ہے اور بستہ بھی۔“ سلمان میاں رونے لگے۔
”بیٹا یہ چیز یں خراب تو نہیں ہو گئیں؟ اگر خراب ہو گئی ہو تیں تو ہم آپ کو نئی چیزیں دلوا دیتے۔“ امی نے پھر سمجھایا۔
”اچھا! تو میں ان کو خراب کر دیتا ہوں۔“ سلمان میاں نے لپک کر قینچی اٹھالی۔
”ارے، ارے پاگل تو نہیں ہو گئے آپ؟ اگر آپ کو یہ چیزیں نہیں چاہئیں تو انہیں خراب تو نہ کیجئے۔ کسی غریب ہی کے کام آجائیں گی۔“ امی نے اٹھ کر سلمان میاں کے ہاتھ سے قینچی چھین لی۔
”پھر میں کچھ نہیں جانتا، مجھے نئے موزے اور نئے جوتے دلائیں۔“
سلمان کی امی نے رات میں سلمان کے ابو سے بات کی۔ وہ ساری بات سن کر بولے:
”بھئی، اخراجات بڑھتے جارہے ہیں، اسے سمجھاؤ۔“
”کیسے سمجھاؤں؟ اسکول کے سارے بچے نئی نئی چیزیں لے کر آئیں گے اور وہ پرانے موزے اور پرانے جوتے پہن کر جائے گا۔ آپ نے اسے بستہ بھی نہیں دلایا اور بے چارہ ٹوپی بھی پرانی چلا رہا ہے۔“
”مگر تم دیکھو تو سہی۔ اس کے پاس جو چیزیں ہیں وہ اب بھی ٹھیک ٹھاک ہیں۔ مگر خیر……“ ابو سوچ میں پڑ گئے۔”چلو میں اسے کل تمام چیزیں نئی دلوا دوں گا۔“
”لیجئے، ابھی تو کہہ رہے تھے کہ اخراجات بڑھ گئے ہیں، پورے مہینے کا خرچ کیسے چلے گا، عید بھی قریب ہے۔“
”بس ٹھیک ہے بچے کا دل تو میلا نہ ہو۔“
اگلے دن سلمان میاں کے ابو نے سلمان میاں کو نیا بستہ، نئے جوتے، نئے موزے اور نئی ٹوپی دلوا دی۔ سلمان صاحب خوشی کے مارے ناچتے پھر رہے تھے۔
چند دنوں بعد رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو گیا۔ سلمان میاں نے بھی ضد کر کے چھ روزے رکھے۔ آخر ان کی عمر صرف آٹھ سال ہی تو تھی۔ گرمی کا موسم تھا، سلمان میاں کی امی اور ابو نے ان سے کہا تھا کہ آپ ابھی چھوٹے ہیں، اگلے سال روزے رکھ لیجئے گا، لیکن سلمان میاں نہ مانے۔
عید کے دن نہا دھو کر سلمان میاں نے اپنا نیا جوڑا پہنا جو ان کے ابو چند دن پہلے لے کر آئے تھے۔سلمان میاں کے ابو بھی تیار ہو کر آگئے۔ مگر یہ کیا؟ سلمان میاں نے حیرانی سے دیکھا۔ ابو نے کئی بار کے استعمال شدہ کپڑے پہن رکھے تھے۔ بادامی رنگ کی شلوار قمیص۔ سلمان میاں کو یاد تھا کہ اس نے اس قمیص میں ایک جگہ رفو بھی دیکھا تھا۔ ان کے ابو نے پوچھنے پر بتایا تھا کہ ان کی قمیص منی بس میں ٹین کی پتری لگنے سے ذراسی پھٹ گئی تھی۔
سلمان میاں ابھی سویاں کھا ہی رہے تھے کہ ان کے ابوامی سویاں ختم کر کے بولے۔”جلدی چلو بھئی نماز کا وقت ہونے والا ہے۔“
نماز کے بعد خطبہ ہوا، پھر دعا کے بعد لوگ ایک دوسرے سے گلے ملنے لگے۔ سلمان کے ابو بھی کئی افراد سے گلے ملے۔ سلمان میاں نے سب کو سلام کیا۔ ابو کے دوست ہاشمی صاحب نے تو وہیں عید گاہ میں سلمان میاں کو پانچ روپے عیدی دے دی اور ہنس کر بولے۔ ”لو بھئی تمہاری تو کمائی شروع ہو گئی!“
گھر آکر سلمان میاں ابو کے ساتھ ناشتہ کرنے لگے۔ وہ ایک بات پوچھنے کے لیے بے چین تھے، انہوں نے کہا۔”ابو……!“
ابو ناشتہ کرنے کے ساتھ ساتھ اخبار پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے اخبار پر سے نظریں ہٹائے بغیر کہا۔”جی بیٹے!“
”ابو ایک بات پوچھوں؟“
”ہاں بیٹے کیا بات ہے؟ عیدی چاہیے……؟“
”نہیں ابو، عیدی کی بات نہیں، یہ بتائیے کہ آج تو عید ہے، آپ نے نئے کپڑے کیوں نہیں پہنے……؟“
”نئے کپڑے؟“ ابو گڑ بڑا گئے۔”آں ہاں، نئے کپڑے۔ مگر بیٹے یہ تقریباً نئے ہی توہیں، صرف دو مہینے پہلے تو بنوائے تھے۔“
”مگر ابو بالکل نئے تو نہیں ہیں۔“
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے بیٹے۔“
”بتائیے نا، ابو، آپ نے نئے کپڑے کیوں نہیں بنوائے۔“
”او ہو اچھا خیر، تم اتنا اصرار کر رہے ہو تو سنو۔ میں نے نئے کپڑے اس لئے نہیں بنوائے کہ ہمارے وطن پاکستان کو اچھے سائنس دانوں کی ضرورت ہے۔!“
”جی؟!“ آٹھ سالہ سلمان میاں کا ننھا سا ذہن اس جملے کو سمجھ نہ سکا۔
”جی ہاں بیٹے……“
”مگر ابو میں تو نئے کپڑوں کی بات کر رہا تھا اور آپ سائنس دانوں کی بات کرنے لگے۔“
”بیٹے میں بھی نئے کپڑوں ہی کی بات کر رہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ خوب محنت سے پڑھیں۔بہت بڑے سائنس دان بنیں اور ملک میں خوشحالی لائیں۔“
”مگر میں سمجھا نہیں ابو۔“
”میں سمجھاتا ہوں۔“ ابو نے پیار سے کہا۔ ”دیکھئے بیٹے آپ کو یاد ہو گا، اسکول کھلنے پر آپ نے نئے جوتوں، نئے موزوں، ٹوپی اور بستے کے لئے ضد کی تھی۔ ہم نے نئی چیزیں آپ کو اس لئے نہیں دلوائی تھیں کہ آپ کے جوتے، موزے، ٹوپی اور بستہ ابھی تک بہت اچھی حالت میں تھے اور کوئی بھی ان چیزوں کو دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ پھٹی پرانی چیزیں ہیں۔ لیکن آپ نے ضد کی تو میں نے سوچا کہ اگر میں نے آپ کو یہ چیزیں نہ دلوائیں تو آپ رنجیدہ رہیں گے، آپ کا دل پڑھنے میں نہیں لگے گا اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ پڑھ لکھ کر بڑے سائنس دان نہیں بن سکیں گے۔ سمجھ رہے ہیں نا بیٹے؟“
”جی؟ جی ابو!“
”تو بیٹا، اسی لئے میں نے اسکول کھلنے پر آپ کو ہر چیز نئی دلوا دی، مگر اس کے لئے مجھے تھوڑی سی قربانی دینی پڑی۔“
”قربانی؟ مگر ابو قربانی والی عید تو بہت دنوں بعد آئے گی۔“
”قربانی بیٹے صرف گائے یا بکری کی نہیں ہوتی، قربانی اور چیزوں کی بھی ہوتی ہے، جیسے میں نے آپ کے لئے اپنے نئے کپڑوں کی قربانی دے دی، یعنی جو پیسے میں نے اپنے نئے کپڑے سلوانے کے لئے رکھے تھے، ان سے میں آپ کی نئی چیزیں لے آیا۔ میں نے سوچا کہ میں تو استعمال شدہ کپڑے پہن لوں گا مگر میرے بیٹے کا دھیان پڑھائی سے ہٹنا نہیں چاہئے۔“
”ابو! صرف میری وجہ سے آپ نے نئے کپڑے نہیں بنائے نا؟“ سلمان میاں شرمندہ ہو گئے۔
”بیٹا، ہم آپ کے ابو جو ہیں، ہم آپ سے محبت جو کرتے ہیں، ہماری خواہش یہی ہے کہ آپ پڑھ لکھ کر ملک کے کام آئیں۔ اس ملک کے بچے دل لگا کر پڑھیں گے تو بڑے بڑے سائنس دان اور مختلف چیزوں کے ماہر بنیں گے، کھیتی باڑی کے نئے طریقے ایجاد کریں گے، جانوروں کی پرورش کے نئے طریقے بتائیں گے، بہت اچھے اسپتال قائم کریں گے؟ تو انائی کے جدید اور کم خرچ ذرائع تلاش کریں گے۔ بہت سی چیزیں پاکستان ہی میں بننے لگیں گی اور وہ اتنی اچھی ہوں گی کہ دوسرے ملک ان چیزوں کو فرمائش کر کے اپنے ہاں منگوایا کریں گے اور کسی چیز کے اچھا ہونے کے لئے یہ کہہ دینا کافی ہو گا کہ یہ چیز پاکستان میں بنی ہوئی ہے۔ میں چاہتا ہوں بیٹے کہ پاکستان کا ہر شہری خوب خوشحال اور دولت مند ہو جائے تاکہ ہر پاکستانی بچہ تعلیم حاصل کرے اور کوئی پاکستانی بچہ ایسا نہ رہے جس کے پاس نیا بستہ، نئی کتابیں، نئی یونی فارم، نئے جوتے اور نئے موزے نہ ہوں ……ہے نا بیٹے؟“
”جی ابو۔“ سلمان میاں نے سر جھکا لیا۔
ابو نے جھک کر سلمان میاں کو پیار کیا۔ ”بیٹے آپ شرمندہ نہ ہوں، میرا مقصد آپ کو شرمندہ کرناتھوڑا ہی تھا۔“
”ابو، اب میں پوری محنت سے پڑھوں گا اور بہت بڑا سائنس دان بنوں گا۔“ سلمان میاں جوش سے بولے۔
”ضرور بیٹے، ان شاء للہ کہنا چاہئے، یعنی اگر اللہ نے چاہا۔“
اگلے دن سلمان کے ابو سو کر اٹھے تو ان کے سرہانے سبز رنگ کا ایک لفافہ رکھا ہوا تھا۔ انہوں نے حیرانی کے ساتھ لفافہ اٹھا کر دیکھا، لفافے پر لکھا تھا:
”میرے پیارے ابو کے لئے۔“
سلمان کے ابو نے لفافہ کھول کر دیکھا، اندر دس پانچ اور ایک روپے کے نئے نوٹ رکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے گنے، ایک سو دس روپے تھے۔ ساتھ ہی ایک پرچہ بھی رکھا تھا۔ انہوں نے پرچہ کھول کر پڑھا لکھا تھا:
”میرے اچھے ابو……! السلام علیکم!
اگر آپ میرے اچھے ابو ہیں تو میں بھی آپ کا اچھا بیٹا ہوں، آپ نے میری وجہ سے نئے کپڑے نہیں سلوائے نا، میں نے اپنی ساری عیدی آپ کو دے دی ہے۔ آپ اس میں اور پیسے ملا کر نئے کپڑے سلوا لیجیے گا۔ دیکھئے ابو انکار نہیں کیجئے گا ……اور ہاں ابو، اب میں آپ سے نئی چیزوں کے لئے کبھی ضد نہیں کروں گا۔ خوب دل لگا کر پڑھوں گا۔ مجھے بہت بڑا سائنس دان جو بننا ہے۔ آپ دعا کیجئے گا میرے لیے۔
آپ کا بیٹا، سلمان۔“
سلمان کے ابو نے پرچے کو چوم لیا اور تیز تیز قدموں سے باورچی خانے کی طرف بڑھ گئے جہاں سلمان میاں کی امی ناشتہ تیار کرنے میں مصروف تھیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top