بھنڈی
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
اسکول کی وین گلی میں مڑی اور ایک مکان کے سامنے رک گئی۔ ڈرائیور نے مخصوص انداز سے ہارن بجایا۔ چند لمحوں میں دروازہ کھل گیا۔ وین کا بھی دروازہ کھل چکا تھا اور اس میں سے ایک بچی اپنا بستہ سنبھالے اتر رہی تھی۔ وہ بچی، ڈرائیور اور اپنی ساتھی طالبات کو سلام کر کے، مکان کے اندر چلی گئی۔
مکان کا دروازہ ایک خاتون نے کھولا تھا۔ بچی نے خاتون کو دیکھتے ہی خوشی سے کہا:
”السلام علیکم امی جان۔“
”وعلیکم السلام بیٹی۔“ خاتون نے بچی کے ہاتھ سے بستہ لے لیا۔
”امی جان، آج تو بڑا مزہ آیا۔۔۔ پتا ہے کیا ہوا۔۔۔ آج ہماری استانی صاحبہ نے۔۔۔“ بچی نے جلدی جلدی کہنا شروع کیا تو امی جان نے ٹوک دیا۔
”عائشہ! بیٹی آپ کی یہ عادت اچھی نہیں ہے۔ اسکول سے آتے ہی نہ منہ ہاتھ دھوئیں گی، نہ لباس تبدیل کریں گی، بس باتیں جتنی چاہے کر والو۔“
امی جان۔ بس ابھی میں لباس بدل کر آتی ہوں، بھوک بھی لگ رہی ہے۔“
عائشہ جلدی سے اندرونی کمرے میں چلی گئی۔
ذرا دیر بعد عائشہ دستر خوان پر بیٹھی ہوئی تھی، اسی وقت ندیم بھائی اور سلیم بھائی کمرے میں داخل ہوئے، دونوں نے بلند آواز سے کہا:”السلام علیکم“ اور دونوں دستر خوان پر جم کر بیٹھ گئے۔
امی جان نے ڈانٹا:
”کیا ہو گیا ہے تم دونوں کو؟ کھانے سے پہلے ہاتھ دھوئے ہیں۔“
دونوں بھائی شرمندہ ہو کر ہاتھ دھونے کے لیے چلے گئے۔ آج امی جان نے بریانی پکائی تھی۔ سب نے بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا۔ عائشہ بول اٹھی:
”امی جان، آپ نے بھنڈی نہیں پکائی؟“
”سبحان اللہ۔ بریانی کی موجودگی میں تمہیں بھنڈی کیسے یاد آ گئی؟“ندیم بھائی مُسکرا کر بولے۔
”مجھے بھنڈی کھانے کے لیے نہیں چاہیے!“ عائشہ نے کہا۔
”پھر کس لیے چاہیے؟“ سلیم بھائی نے پوچھا۔
”مجھے تو بھنڈی کے ٹھپے بنانے ہیں۔ مجھے تو بھنڈی بہت بُری لگتی ہے مگر آج استانی صاحبہ نے بھنڈی کے سر کاٹ کر ان سے رنگ برنگے ڈیزائن بنانا سکھایا تھا۔“
”افوہ! یہ قصہ ہے۔ خیر میں نے بھنڈیاں آج منگوائی ہیں۔ رات میں پکانے کا ارادہ تھا۔“ امی جان نے کہا۔
”پھر تو میں رات کے لیے کچھ بریانی رکھ لیتی ہوں، مجھ سے تو بھنڈی نہیں کھائی جائے گی۔“ عائشہ نے جلدی سے کہا۔
”عائشہ! کھانے کی کسی چیز کو بُرا نہیں کہتے۔ اللہ تعالیٰ نے کھانے کی ہرشے میں کوئی نہ کوئی خوبی رکھی ہے۔ بھنڈی تو بہت مفید سبزی ہے۔“ امی جان نے سمجھایا۔
”امی جان۔ بھنڈی میں بھلا کیا خوبی ہوگی۔“ ندیم بھائی بولے۔
”آپ لوگ کھانا کھا لیں، میں برتن وغیرہ دھونے کے بعد بتاؤں گی کہ بھنڈی کتنی فائدہ مند سبزی ہے۔“
سب لوگ کھانا کھانے میں مصروف ہو گئے۔ کھانے کے بعد سب نے اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کیا۔ عائشہ نے برتن سمیٹے۔ برتن دھونے میں امی جان کی مدد کی، پھر امی جان دالان میں آ بیٹھیں تو عائشہ نے کہا:
”امی جان، بھنڈیاں کاٹ لیں۔“
”میں سمجھ گئی تمہیں بھنڈیوں کے سرے چاہئیں، تاکہ ڈیزائن بنا سکو، مگر پہلے یہ سن لو کہ بھنڈی میں اللہ نے کتنے فائدے رکھ دیے ہیں۔“
”جی بتائیے امی جان۔“ عائشہ سنبھل کر بیٹھ گئی۔ ندیم بھائی بھی آکر بیٹھ گئے۔ انھوں نے سنا کہ امی جان بھنڈیوں کے متعلق کچھ بتا رہی ہیں تو انھوں نے آواز دے کر سلیم بھائی کو بھی بلا لیا۔ امی جان نے کہنا شروع کیا:
”بھنڈی میں بڑی غذائیت ہے۔ اس میں لحمیات (پروٹین) اور نشاستہ کے علاوہ فولاد، کیلشیم، فاسفورس، آئیوڈین بھی ہوتی ہے، یہ سب معدنیات ہمارے جسم کے لیے بہت ضروری ہیں۔ پھر یہ کہ گرمی کے موسم میں ہمارا نظام ہاضمہ کمزور ہو جاتا ہے۔ ذرا بے احتیاطی سے پیچش ہو جاتی ہے یا دست آنے لگتے ہیں۔ بھنڈی استعمال کرنے سے آنتوں میں خراش اور سوزش وغیرہ ختم ہو جاتی ہے۔“
”یہ تو بس ایک فائدہ ہوا۔“ ندیم بھائی بولے۔
”نہیں! اور بھی فائدے ہیں۔ مسالے دار چیزیں کھانے سے اکثر گلے خراب ہو جاتے ہیں۔ گلے میں خراش اور درد محسوس ہونے لگتا ہے۔ اس صورت میں بھنڈی کا استعمال مفید رہتا ہے۔ بھنڈی میں لیس ہوتا ہے، وہ معدے اور آنتوں کو چکنا رکھتا ہے۔ غذا میں تیز مسالوں اور ترش اشیا سے معدے اور آنتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے لیکن بھنڈی، معدے اور آنتوں کی حفاظت کرتی ہے۔ اس میں موجود لیس کی وجہ سے غذا معدے اور آنتوں میں آسانی سے آگے بڑھتی ہے اور قبض نہیں ہوتا۔“ امی جان نے یہ کہا اور باورچی خانے میں بھنڈیاں پکانے چلی گئیں۔