ایک گھوڑے کی آپ بیتی
ناول: Black Beauty
مصنفہ: Anna Sewell
مترجم: سید وسیم حسنی
۔۔۔۔۔
دنیا میں کیسے کیسے لوگ ہوتے ہیں ……ایک گھوڑے سے سنیے۔
۔۔۔۔۔
جب میں اپنی پچھلی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ ایک چراگاہ تھی اور ایک چھوٹا سا تالاب تھا۔ سبز سایہ دار درخت تالاب پر جھکے ہوئے تھے اور تالاب کے آخری سرے پر کنول کے پھول کھلے ہوئے تھے۔ میں اس وقت چھوٹا سا بچہ تھا اور اپنی ماں کے دودھ پر گزاراکرتا تھا۔ میں دن میں اپنی ماں کے ساتھ تھوڑی دور دوڑتا تھا اور رات کے وقت ماں کے ساتھ ہی سوتا تھا۔ گرم موسم میں ہم سایہ دار درخت کے نیچے تالاب کے قریب کھڑے ہوتے تھے۔سردیوں میں سیب کے درخت کے سائے میں چلے جاتے جہاں ہم سردی سے محفوظ رہتے۔میرے علاوہ گھوڑے کے چھے اور بچے تھے، وہ بھی اتنے ہی بڑے تھے جتنا میں تھا۔ کچھ ان میں سے پورے گھوڑے کے برابر لگتے تھے۔ ان کے ساتھ دوڑنے میں مجھے بڑا مزہ آتا تھا۔ کبھی کبھی ہم دوڑتے ہوئے ایک دوسرے کو کاٹتے اور لاتیں مارتے تھے۔ ایک دن ہم نے ایک دوسرے پر بہت زیادہ لاتیں ماریں۔ اس دن میری ماں نے مجھے بلایا اور کہا: ”مجھے امید ہے کہ تم بڑے ہو کر شریف اور بہت اچھے بنو گے اور برے طور طریقے نہیں سیکھو گے۔تمہاری اچھائی اس میں ہے کہ جب تم چلو تو پاؤں اٹھا کر چلو، کسی کو مت کاٹو اور نہ ٹھوکر مارو۔ دیکھو، جب تم کھیل رہے ہو تب بھی ایسا مت کرنا۔“
میں اپنی ماں کی نصیحت کو کبھی نہیں بھولا۔ میں جانتا تھا کہ میری ماں بہت ہی عقل مند گھوڑی ہے۔ ہمارا مالک اس سے بہت محبت کرتا تھا۔ میری ماں کا نام ”ڈچس“ تھا، لیکن ہمارا مالک میری ماں کو ”پیٹ“ کہہ کر بلاتا تھا۔ ہمارا مالک بہت ہی اچھا آدمی تھا۔ وہ ہمیں بہت اچھا کھانا دیتا تھا۔ ہمارا مکان بھی بہت اچھا تھا۔ ہمارا مالک ہمارے ساتھ بہت مہربانی سے پیش آتا تھا۔ وہ ہم سے اس طرح باتیں کرتا تھا جیسے ہم اس کے بچے ہوں۔ ہم بھی اس سے بہت محبت کرتے تھے۔ جب میری ماں اسے آتا ہوا دیکھتی تو خوشی سے ہنہناتی اور اس کی طرف دوڑتی۔ مالک اس پر ہاتھ پھیرتا اور کہتا: ”ہاں بھئی پیٹ، تمھارے بلیکی کے کیا حال ہیں؟“
میں بہت زیادہ کالا تھا، اس لیے وہ مجھے بلیکی کہتا تھا۔ وہ مجھے روٹی کھلاتا اور میری ماں کو گاجریں۔ سارے گھوڑے اس کے پاس آتے تھے، لیکن میرا خیال ہے کہ ہم اسے بہت زیادہ پسند تھے، کیوں کہ جب ہمارا مالک بازار جانا چاہتا تو میری ماں ہی اس کو بگھی میں بٹھا کر شہر لے جاتی تھی۔
جس جگہ ہم رہتے تھے وہاں ایک چھوٹا لڑکا تھا جس کا نام”ڈک“ تھا۔ وہ کبھی کبھی ہمارے پاس آتا تھا اور درخت میں لگے ہوئے بیر توڑ کر کھاتا تھا۔ وہ ہمیں بہت تنگ کرتا تھا۔ کبھی ہمیں لکڑیاں مارتا اور کبھی پتھر۔ ہم گھوڑے کے چھے بچوں کو وہ بہت تنگ کرتا تھا۔ وہ یہ سب کچھ مذاق کے طور پر کرتا تھا، لیکن کبھی کبھی اس کے پتھروں سے ہمیں کافی تکلیف پہنچتی۔ ایک مرتبہ وہ لڑکا ہمیں پتھر مار رہا تھا۔ اس کو معلوم نہیں تھا کہ قریب ہی ہمارا مالک کھڑا اس کی حرکت کو دیکھ رہا ہے۔ جیسے ہی ڈک نے پتھر مارا،ہمارا مالک ڈک کی طرف لپکا اور اسے پکڑ لیا۔ مالک نے اس کے کان پر زور دار تھپڑ مارا۔ ڈک تکلیف سے چلایا اور تعجب سے دیکھنے لگا۔ جیسے ہی ہم نے مالک اور ڈک کو دیکھا، ہم یہ دیکھنے کو کہ کیا ہو رہا ہے مالک کے قریب ہو گئے۔
ہمارے مالک نے کہا:”گندے لڑکے! تم گھوٹوں کے بچوں کو بھگا کر لے جانا چاہتے ہو۔ تمہاری پٹائی پہلی نہیں آخری ہے۔ لو یہ پیسے اور گھر جاؤ اور آئندہ میں تمہیں کبھی یہاں نہ دیکھوں۔“
پھر ہم نے اس لڑکے کو کبھی نہیں دیکھا۔ بوڑھا ڈانیل جو گھوڑوں کے بچوں کی اور گھوڑوں کی دیکھ بھال کرتا تھا ہمارے مالک کی طرح شریف انسان تھا۔ اس لحاظ سے ہم بہت خوش قسمت تھے۔
بڑھتے ہوئے جسم نے میری خوب صورتی کو اور نکھار دیا تھا۔ میری کھال عمدہ اور چکنی تھی، بالکل گہرے کالے رنگ کی! میرا ایک پاؤں سفید تھا اور پیشانی پر سفید رنگ کا ایک ستارہ تھا۔ جو بھی مجھے دیکھتا،حیران رہ جاتا۔ میرا مالک مجھے اس وقت تک بیچنا نہیں چاہتا تھا جب تک کہ میں چار سال کا نہ ہو جاؤں۔ وہ کہتا تھا کہ جیسے انسان کے بچے کام نہیں کر سکتے اسی طرح گھوڑے کے بچے بھی پورے بڑے گھوڑوں کی طرح کام نہیں کر سکتے۔
جب میں چار سال کا ہوا تو ایک آدمی ”گورڈن“ مجھے دیکھنے آیا۔ اس نے میری آنکھیں دیکھیں، منہ دیکھا اور ٹانگیں دیکھیں۔ مجھے اس کے سامنے چلایا گیا۔ ایسا لگا کہ میں اسے پسند آگیا ہوں۔ آخر اس نے کہا:”یہ گھوڑا بہت خوب صورت ہے۔ جب اسے کاٹھی، لگام وغیرہ پہنائی جائے گی تو اور بھی خوب صورت لگے گا۔“
میرے مالک نے کہا کہ میں خود اس کو تربیت دوں گا۔ لگام، کاٹھی وغیرہ پہناؤں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ اس سے ڈر نہ جائے اور زخمی نہ ہو۔ کل میں یہ سارا کام کروں گا۔
اس بات کی تربیت اس طرح دی جاتی ہے کہ گھوڑا، سوار کو اپنی کمر پر کس طرح لے جائے! گھوڑے کو یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ بگھی کیسے چلائی جاتی ہے! تیزی سے چلا جاتا ہے یاآہستہ؟ یہ سب کچھ کو چوان کی مرضی پر ہوتا ہے۔ اگر وہ راستے میں کوئی چیز دیکھے تو گھبرائے نہیں اور دوسرے گھوڑے سے کچھ نہ کہے، نہ کاٹے اور نہ لاتیں مارے۔ اچھا گھوڑا ہمیشہ اپنے مالک کا کہنا مانتا ہے، اگر وہ تھکا ہوا اور بھوکا ہو تب بھی! لیکن سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ اگرکاٹھی رکھی ہو اور لگام پہنی ہو تو آرام نہ کرے۔
ایک عرصے تک تو میں نے رسا استعمال کیا تھا، اب مجھے لگام وغیرہ استعمال کرنی پڑی۔میرے مالک نے مجھے اناج کے دانے کھلائے اور بہت دیر تک میرے منہ پر ہاتھ پھیرتا رہا،پھر میرے منہ میں مالک نے لوہے کا ایک ٹکڑا رکھ دیا جس میں رسیاں بندھی ہوئی تھیں۔ یہ بڑی عجیب چیز تھی۔ اس سے مجھے بڑی تکلیف ہوئی۔ جب آپ اپنے منہ میں کسی قسم کا ٹکڑا رکھیں گے تو کیا محسوس کریں گے!ٹھنڈا سخت لوہے کا ایک کھلاٹکڑا، انسانی انگلی کے برابر میرے منہ میں دھکیل دیا گیا جو میرے دانتوں کے درمیان اور زبان کے اوپر تھا۔ اس کے دونوں سرے میرے منہ سے باہر نکلے ہوئے تھے جو چمڑے کی پٹیوں سے بندھے ہوئے تھے۔
میری ماں بھی جب باہر جاتی تو یہی چیز پہنتی۔ سبھی گھوڑے جب بڑے ہو جاتے تو یہی پہنتے تھے۔ میرے مالک کے محبت بھرے میٹھے میٹھے الفاظ اور محبت سے اناج کھلانا کام آیا۔ میں نے آخر لوہے کا ٹکڑا اور لگام پہننا سکھ لیا۔
اب دوسرے نمبر پر کاٹھی تھی۔ یہ کاٹھی حقیقت میں اتنی بری چیز نہیں تھی۔ میرا مالک بہت ہی محبت سے یہ کاٹھی میری کمر پر رکھ دیتا تھا اور بوڑھا ڈانیل میرا سر پکڑ لیتا تھا۔ میرا مالک مجھ سے میٹھی باتیں کرتا، مجھ پر ہاتھ پھیرتا رہتا اور اناج کے دانے بھی کھلاتا جاتا۔ اسی طرح یہ کام روزانہ ہوتا تھا۔
آخر ایک صبح میرا مالک مجھ پر سوار ہوا اور چراگاہ میں نرم نرم گھاس پر لے گیا۔ وہاں میں نے اجنبیت محسوس کی، لیکن مجھے فخر تھا کہ میں اپنے مالک کو لے جارہا ہوں۔
دوسری چیز تھی لوہے کے جوتے پہننا، یہ بڑا مشکل کام تھا۔ میرا مالک مجھے لوہار کی دکان پر لے گیا۔ لوہار نے میری ایک ٹانگ کو پکڑا اور میرے سموں کو کاٹا۔ اس طرح مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ میں تین ٹانگوں پر کھڑا رہا اور لوہار نے سارا کام کر دیا۔ تب اس نے لوہے کا ایک ٹکڑا میرے پاؤں کے ناپ کا لیا اور اسے میرے سموں میں لگا دیا۔ لوہے کے جوتے کی کچھ کیلیں اس نے میرے سموں میں گاڑ دیں۔ جو تا میرے پاؤں میں مضبوطی سے بیٹھ گیا۔ مجھے میرا پاؤں بھاری اور سخت لگنے لگا۔ کچھ ہی عرصے میں، میں اس کا عادی ہو گیا۔ ان جوتوں کو نعل کہتے ہیں۔
ایک اور چیز جو میرے مالک نے مجھے پہنائی وہ جھالر جیسا ایک ہار تھا جو گھوڑے کو پہنایا جاتا ہے۔ میں اس قسم کی چیزوں کے پہننے کا عادی ہو گیا تھا۔ سخت بھاری قسم کا کالر اور لگام میری گردن میں ڈال دی گئی اور آنکھوں پر لگانے کے لیے بلنکرز (Blinkers) جو چمڑے کی پٹیوں سے بنے تھے،مجھے پہنائے گئے۔ ان بلنکر ز کو پہن کر میں صرف سامنے کی طرف دیکھ سکتا تھا۔ کرو پر چمڑے کی بنی ہوئی ایک پٹی ہوتی ہے جو کاٹھی میں بندھی ہوتی ہے۔ مجھے کرو پر سے نفرت تھی، اس لیے کہ اسے دم کے نیچے سے گزارا جاتا تھا۔ اس وقت میرا دل لاتیں مارنے کو چاہتا تھا، لیکن مجھے اپنے مالک سے بہت زیادہ پیار تھا، اس لیے میں ایسا نہ کر سکا۔
پھر میرے مالک نے مجھے دو ہفتے کے لیے چراگاہ میں چھوڑ دیا۔ یہ چراگاہ ریل روڈ کے نزدیک راستے میں تھی۔ جب میں نے پہلی مرتبہ ٹرین کی آواز سنی اور اسے دیکھا تو بہت ڈرا۔ میں بہت تیز دوڑا مگر جلد ہی میں ٹرین کو دیکھنے کا عادی ہو گیا۔ ٹرین دیکھ کر میں نے بہت سے گھوڑوں کو بدکتے اور سواروں کو اپنی پشت سے پھینکتے ہوئے دیکھا تھا۔ میں اپنے مالک کی توجہ کا شکر گزار ہوں کہ مجھے اسٹیشن پر اتنا خوف محسوس نہیں ہوا۔ میں ایسا محسوس کر رہا تھا جیسے اپنے اصطبل میں ہوں۔ میرا مالک مجھے اکثر میری ماں کے ساتھ دہری جھالر والی گاڑی میں لگا کر چلاتا تھا۔ میری ماں مجھے سیدھا رکھتی تھی اور مجھے بہت ساری باتیں سکھاتی تھی۔ ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ اگر تم اچھا سلوک کرو گے تو تمھارے ساتھ بھی اچھا سلوک ہوگا۔ مالک کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھو اور مالک کو خوش رکھنے کی کوشش کرو۔ میری ماں نے یہ بھی بتایا کہ جب کوئی گھوڑا خریدتا ہے تو گھوڑا قابو سے باہر ہو جاتا ہے۔ میں اپنی ماں کی باتیں سن کر خوف زدہ سا ہو گیا اور سوچنے لگا کہ اگر میرا کسی ظالم و بے وقوف سے واسطہ پڑ گیا تو کیا ہو گا؟
مئی کے شروع دنوں میں میرے مالک نے مجھے بیچ دیا۔ مجھے ایک شخص گورڈن نے خریدا تھا جو برٹ پارک میں رہتا تھا۔ مجھے اپنے مالک کو چھوڑ کر بہت افسوس ہوا۔ میرے مالک نے نرمی کے ساتھ مجھ پر ہاتھ پھیرا اور اللہ حافظ کہا۔
گورڈن کا گھر بہت بڑا تھا۔ اصطبل بھی کافی بڑا تھا۔ اس اصطبل کے چار حصے تھے اور ایک بڑی ہلتی لہراتی ہوئی کھڑکی تھی جو کھلیان کی طرف کھلتی تھی۔ میں اپنے تھان پر بندھا نہیں رہتا تھا اور چاروں طرف جہاں چاہتا گھوم پھر سکتا تھا۔ یہ میرے لیے بہت اہمیت کا حامل تھا۔ میرا تھان صاف اور ہوا دار تھا۔ میں وہاں سے کھلیان اور دیواروں کو اچھی طرح دیکھ سکتا تھا۔ میں نے اپنے نئے گھر میں پہلی دفعہ کھانا کھایا اور اپنے برابر والے تھان کی طرف دیکھا تو وہاں ایک موٹا پونی بندھا ہوا تھا۔ اس کا رنگ بھورا تھا اور گردن پر گھنے بال تھے، دم چوڑی تھی، بہت ہی پیارا سا سر اور چپٹی سی ناک تھی۔
میں نے اپنا سر دیوار کے اوپر کیا اور کہا:”کیا حال ہیں اور تمہارا نام کیا ہے؟“
اس نے گھوم کر دیکھا اور بولا:”میرا نام’میرل‘ ہے۔ میں بہت خوب صورت ہوں۔ میں نوجوان عورتوں کو اپنی پیٹھ پر بٹھا کر لے جاتا ہوں۔ کبھی کبھی میں اپنے مالک کو بھی چھوٹی گاڑی میں بٹھا کر باہر لے جاتا ہوں۔ ہر ایک مجھے بہت پسند کرتا ہے۔ کیا تم بھی یہاں میرے ساتھ رہنے آئے ہو؟“
میں نے جواب دیا: ”ہاں۔“
”بہت اچھا! میں امید کرتا ہوں تم اچھے مزاج کے ہو گے اور کاٹتے بھی نہیں ہوگے۔“
ایک تھان پر مجھے لمبی چوڑی گھوڑی نظر آئی۔ اس کے کان پیچھے کی طرف جھکے ہوئے تھے۔ اس کی آنکھوں سے غصہ جھلک رہا تھا۔ جب میں اس سے بولا تو اس نے بڑی بے رحم اور ظالمانہ نگاہ مجھے پر ڈالی اور میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔
دوپہر میں جب وہ باہر گئی تو ’میرل‘ نے مجھے اس کے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔ میرل نے بتایا کہ اس کا نام’جنجر‘ہے۔ اس کے پچھلے مالک کا برتاؤ بہت بُرا تھا۔ اس وجہ سے وہ بد مزاج ہو گئی تھی، اسی لیے ہر ایک کو کاٹتی ہے۔ میرل نے یہ بھی بتایا کہ جنجر میں اب آہستہ آہستہ تبدیلی آتی جا رہی ہے۔ جون اور گروم ’جھاڑو دینے والے) جنجر کے ساتھ خاص طور پر مہربانی سے پیش آتے ہیں۔ میرل بھی جنجر کے مزاج کو کسی حد تک تبدیل کر رہا تھا۔
میں اپنے نئے گھر میں بہت خوش تھا، لیکن ایک چیز تھی آزادی، جو میں کھو چکا تھا۔ تین سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا تھا۔ پہلے میں آزاد تھا اور جہاں چاہتا تھا جاسکتا تھا، لیکن اب ہفتے کے بعد ہفتے مہینے کے بعد مہینے اور سال کے بعد سال آتے جارہے تھے۔ میں دن رات اصطبل ہی میں کھڑا رہتا تھا۔ جب میری ضرورت ہوتی، میں نکلتا ورنہ سیدھا اور خاموش کھڑا رہتا تھا۔ میرے جسم پر چمڑے کی پیٹیاں ہوتیں اور لوہے کا ایک ٹکڑا منہ میں ہوتا۔ چمڑے کے ڈھکن میری آنکھوں پر ہر وقت لگے رہتے۔ یہ سب کچھ میرے لیے بے آرامی تھی۔ میں جانتا تھا کہ گھوڑوں کو اسی طرح زندہ رہنا چاہیے، لیکن ایک نوجوان گھوڑا جو بھر پور طاقت رکھتا ہو، جو لمبے چوڑے میدان میں تیز دوڑ سکتا ہو، اپنے سر اور دم کو جس طرح چاہے ہلا سکتا ہو، روزانہ اصطبل میں کھڑا رہنا اس کے لیے بہت مشکل تھا۔
کبھی کبھی عادت کے مطابق جب میں کم دوڑتا، کچھ عجیب سا محسوس کرتا۔ جب جون مجھے دوڑانے کے لیے باہر نکالتا، میں مشکل ہی سے اپنے آپ کو سیدھا رکھ پاتا۔ جون سمجھ جاتا کہ میں تمام دن اس چھوٹے سے اصطبل میں کیا محسوس کرتا ہوں! جیسے ہی ہم گاؤں سے باہر نکلتے، وہ چند میل تک مجھے اچھی رفتار کے ساتھ دوڑنے دیتا۔
اتوار کے دن کچھ وقت گھوڑوں کو آزادی کا دیا جاتا تھا اور وہ میدان میں آزادی سے گھومتے۔ ہمارے لیے یہ اچھا برتاؤ تھا۔ ٹھنڈی اور نرم گھاس ہمارے پیروں کو اچھی لگتی تھی اور دوڑتے ہوئے ہم عجیب خوشی محسوس کرتے تھے۔
ایک دن مجھے جنجر کے ساتھ بات کرنے کا موقع مل گیا۔ میں اور جنجر شیڈ میں اکیلے کھڑے ہوئے تھے۔ اس نے میری زندگی کے حالات پوچھے اور کاٹھی اور لگام کے بارے میں بھی معلوم کیا۔ میں نے اسے سب کچھ بتا دیا۔
”اچھا جب کہ تم نے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے تو مجھے بھی تمہارے ساتھ اچھی طرح پیش آنا چاہیے، لیکن مجھے بہت دیر ہو گئی۔“
میں نے اس سے پوچھا:”کیوں؟“
جنجر نے مجھے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔ جب وہ نوجوان تھی، اسے اس کی ماں سے دور کر دیا گیا تھا۔ اسے گھوڑوں کے دوسرے بچوں کے ساتھ رکھا گیا تھا۔ وہاں اس کا خیال رکھنے والا کوئی نہ تھا اور نہ کوئی مہربان مالک تھا جو اس کی دیکھ بھال کرتا اور اچھی باتیں بتاتا۔ میدان میں جہاں وہ دوڑتی تھی، ایک نوجوان لڑکا تھا جو گھوڑوں کے بچوں کو پتھر مارتا تھا۔ جنجر کو پتھر کبھی نہیں لگا۔ دوسرے گھوڑوں کے بچوں کو پتھر لگتے تھے۔ ایک بار گھوڑے کے ایک بچے کے چہرے پر پتھر لگا۔ زندگی بھر اس کا وہ داغ نہ گیا۔
جب ”تربیت“ کا وقت آیا تو جنجر کو بے رحم آدمیوں کے حوالے کر دیا گیا اور وہ زبردستی جنجر کے منہ میں لوہے کا ٹکڑا ڈالنے لگے۔ جب جنجر احتجاج کرنے لگتی تو اس کی پچھلی ٹانگوں پر زور دار چابک مارتے۔ اس کے بعد جنجر کو چھوٹے اور اندھیرے تھان پر باندھا گیا۔ اس کے مالک کا لڑکا بے رحم اور شرابی تھا۔ وہ جنجر کو تیز دوڑاتا تھا۔ اگر جنجر تیز نہ دوڑتی تو اس سے ناراض ہوتا۔ وہ جنجر کو ٹریننگ فیلڈ میں لے جاتا اور خوب دوڑاتا۔ جنجر تھک کر چور چور ہوجاتی۔
ایک دن مالک کے لڑکے نے جنجر کو خوب دوڑایا۔ وہ لیٹ گئی۔ بہت تھک گئی تھی اور تنگ بھی آگئی تھی۔ وہ سخت غصے میں تھی۔ پھر مالک کا لڑکا صبح آیا اور جنجر کو اسی راستے پر دیر تک دوڑاتا رہا۔ اس نے جنجر کو آرام بھی نہیں کرنے دیا۔ جنجر نے تھکن ظاہر کی تو اس نے اپنے چابک سے خوب مارا۔ غریب جنجر کے ساتھ بہت ظلم ہو رہا تھا۔ پھر جنجر نے لاتیں مارنا اور اچھلنا شروع کر دیا۔ جنجر نے ایسا پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ آخر بڑی جدو جہد کے بعد جنجر نے اس بے رحم لڑکے کو زمین پر گرا دیا۔ اس کے بعد پیچھے دیکھے بغیر وہ فیلڈ میں دوڑتی ہوئی دور نکل گئی۔ جنجر کافی دیر تک وہاں ٹھیری رہی۔ وہ بہت بھوکی اور پیاسی تھی۔ گرم دھوپ میں مکھیاں بھی اس پر بھنبھنا رہی تھیں۔ آخر جیسے ہی دھوپ کم ہوئی، ایک بوڑھا آدمی فیلڈ کی طرف آیا جو بہت مہربان تھا۔ اس نے جنجر کو کچھ اناج کے دانے اور تازہ پانی دیا۔ وہ نرم لہجے سے بولا اور جنجر کی حالت کا خیال کرتے ہوئے مہربانی سے پیش آیا۔
وہ بوڑھا جنجر کو اصطبل میں لے آیا۔ اس نے جنجر کے زخموں کو گرم پانی سے صاف کیا اور اس کے پاس کھڑا اس کو تھپکتا رہا۔ وہ آرام کرتی رہی۔ بوڑھا اکثر اس کو دیکھنے آتا رہتا۔
اب جنجر کو نیا سکھانے والا مل گیا تھا۔ اس کا نام ’جاب‘ تھا۔ وہ شریف تھا اور دوسروں کا خیال کرنے والا تھا۔ جنجر اس سے جلد ہی سب کچھ سیکھ گئی۔
دوسری دفعہ جنجر اور میں ایک ساتھ اکیلے کھڑے تھے۔ اس نے مجھے اپنے دوسرے گھر کے بارے میں بتایا۔ تربیت پانے کے بعد وہ ایک شریف آدمی کو بیچ دی گئی جو اسے شہر لے آیا۔
اس کا نیا مالک فیشن ایبل تھا۔ وہ ہر چیزا پنی پسند کے مطابق چاہتا تھا۔ وہ اسی لیے جنجر کی لگا میں کھینچ کر رکھتا تھا۔ جنجر کو اس لیے گھنٹوں اپنا سر اونچا رکھنا پڑتا۔ وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ جنجر ذرا بھی حرکت نہ کر سکے۔ اسے لوہے کے دو ٹکڑے پہننے پڑتے تھے۔ لوہے کے یہ ٹکڑے اتنے تیز تھے کہ ان سے جنجر کی زبان کٹ گئی اور خون بہنا شروع ہو گیا۔ کبھی کبھی اسے اپنے مالک کا ایک ہی جگہ انتظار کرنا پڑتا تھا۔ اگر وہ اپنی جگہ سے ہل جاتی اور اپنے سر کو نیچے کر لیتی تو اسے مارا جاتا تھا۔ اس طرح سے چلنا اسے پاگل کر دینے کے لیے کافی تھا۔ جب وہ بہت زیادہ تنگ ہو جاتی تو غصے میں آجاتی اور اس کا اظہار کرتی،پھر اسے گندے الفاظ بھی سننے کو ملتے اور مار بھی پڑتی۔ جنجر اپنے مالکوں کا کام کرنا چاہتی تھی، لیکن مالک اس کی پروا نہیں کرتے تھے اور اسے تکلیف دیتے تھے۔خنجر کی گردن اور منہ میں نا قابل برداشت تکلیف ہو گئی تھی۔ جب کوئی اس کو جھالر اور لگام وغیرہ پہنانے آتا تو وہ خوب اچھلتی اور لاتیں مارتی۔ اس حالت میں جنجر کے لیے زیادہ دیر کھڑا رہنا ممکن نہ ہوتا۔ اس نے وہ جھالر اور رسا تو ڑ دیا، پھر دور بھاگ گئی۔ اس کے بعد وہ مختلف لوگوں میں بکتی رہی۔ لوگ اس کی بد مزاجی سے ڈر گئے تھے۔ وہ کسی کے گھر بھی زیادہ عرصے نہیں ٹھہر سکی۔
جنجر کا آخری مالک بہت ہی برا تھا۔ اگر جنجر سے کوئی غلطی ہو جاتی تو اس کا مالک کانٹے والے چابک سے اسے بُری طرح مارتا۔ ایک دن وہ جنجر کو چابک سے مار رہا تھا کہ جنجر نے اس کے بازو کاٹ لیا۔ اس وقت سے وہ جنجر کے نزدیک نہیں آتا تھا اور ڈرتا تھا۔ جنجر نے اس طرح گھوڑوں کو ایک نیا طریقہ سکھا دیا کہ ظالم لوگوں سے کیسے نمٹا جاتا ہے۔
جنجر نے یہ بھی بتایا کہ جب سے میں اس محلے میں آئی ہوں، میری زندگی کا طریقہ ہی بدل گیا ہے۔ جون اور اصطبل کی جھاڑو دینے والا گروم بہت ہی مہربان ہیں۔
میں نے سوچا کہ جیسے ہی اس کی کمزوری دور ہو گی یہ اور بھی شریف ہو جائے گی۔ اس کاغصہ ختم ہو جائے گا۔
’بلوم فیلڈ‘ ایک پادری تھا۔ وہ ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ اس کا بہت بڑا خاندان تھا، بہت سے بچے تھے۔ جب وہ اصطبل میں آیا تو تمام بچے میرل پر سواری کرنا چاہتے تھے۔ ایک دو پہر میرل ان لوگوں کے ساتھ باہر گیا ہوا تھا۔ جب جیمس، میرل کو واپس اندر لایا اور رسا پہنانے لگا تو میرل نے مجھ سے کہا۔”وہاں اب تم سمجھ سے کام لو گے ورنہ ہم مشکل میں پڑ جائیں گے۔“
”کچھ بتاؤ میرل! کیا ہوا؟“ میں نے پوچھا۔
اس نے اپنا چھوٹا سا سر ہلایا اور کہا:”میں ان بچوں کو سبق دے کر آرہا ہوں۔ انھوں نے مجھے بہت تنگ کیا۔ میں نے انھیں اپنی پیٹھ پر سے نیچے پھینک دیا۔ انھیں سمجھانے کا یہ ایک واحدطریقہ تھا۔“
مجھے میرل کی یہ بات سن کر بڑی تکلیف ہوئی۔
اس نے یہ بھی بتایا کہ میں بچوں کے ساتھ بہت ہوشیار رہتا ہوں۔ خاص طور پر لڑکیوں کا خیال رکھتا ہوں۔ جب میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ وہ ڈر رہی ہیں اور سیدھی نہیں بیٹھی ہیں تو میں انھیں آرام سے لے جاتا ہوں جیسے بلی چلتی ہے۔
میرل مزید بتانے لگا۔”جب وہ رفتار تیز چاہتے تو میں اپنی رفتار تیز کر لیتا تھا، لیکن اس وقت انھیں میری سواری کرتے کرتے دو گھنٹے ہو گئے تھے۔ لڑکے اور زیادہ تفریح کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے بید کی لکڑیاں کاٹیں اور مجھے مارا۔ میں رک گیا۔ دو تین دفعہ میں نے ایسا ہی کیاتا کہ ان لوگوں کو پتا چل جائے کہ میں تھک گیا ہوں لیکن لڑکے مجھے مشین سمجھ رہے تھے۔ وہ مجھ پر بیٹھ کر بہت دور جانا چاہتے تھے۔ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ میں تھک بھی سکتا ہوں اور مجھے غصہ بھی آسکتا ہے۔ وہ لڑکا جو مجھ پر سوار تھا اس نے میری ٹانگوں پر بُری طرح مارنا شروع کیا تومیں نے اسے نیچے گرا دیا۔“
حقیقت میں میرل بچوں سے بہت محبت کرتا تھا، لیکن اس نے ان بچوں کو سبق سکھانے کے لیے ایسا کیا تھا۔ ہر ایک میرل پر بھروسا کرتا تھا اور خود میرل بھی یہی کوشش کرتا تھا کہ یہ بھروسا قائم رہے۔جتنا ممکن تھا وہ بچوں کے ساتھ شریفانہ طریقے سے پیش آتا تھا۔
یہ سب کہنے کے بعد وہ میری طرف مڑا اور کہا۔ ”میں بھی نہیں چاہوں گا کہ لاتیں ماروں اور بد مزاجی سے پیش آؤں۔ اگر میں نے ایسا کیا تو میں بیچ دیا جاؤں گا اور کام کرتے کرتے مر جاؤں گا، یا میں سمندر کے کنارے چلا جاؤں گا اور کسی کو میری پروا نہیں ہوگی یا پھر ایسا ہوگا کہ مجھے کسی ظالم اور بے رحم آدمی کے ہاتھ بیچ دیا جائے گا جو شراب کے نشے میں مست مجھے مارتا پیٹتا رہے گا۔ میں بہت ہوشیاری سے اپنا کام کرتا رہوں ہوگا، بدمزاجی سے پیش نہیں آؤں گا۔میں کبھی ایسا نہیں چاہوں گا۔“
ایک گرم دو پہر کو سایہ دار درختوں کے نیچے ہم باغ میں چرر ہے تھے اور باتیں بھی کر رہے تھے۔ میں اولیور کے برابر کھڑا تھا جو بوڑھا، لیکن بہت خوبصورت گھوڑا تھا۔ میں اکثر حیران ہوتا تھا کہ اولیور کی دم کیسے چھوٹی ہو گئی تھی؟ اس کی دم چھے یا سات انچ کی رہ گئی تھی۔ اس میں سے پھندنے دار بال لٹک رہے تھے۔ میں نے اس سے ایک مرتبہ پوچھ ہی لیا کہ اس کی دم کیسے غائب ہو گئی؟
اولیور غرایا: ”یہ کوئی حادثہ نہیں تھا۔ یہ بے رحم اور شرم ناک حد تک بری بات تھی۔ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب میں جوان تھا۔ مجھے اس طرح باندھ دیا گیا تھا کہ میں مل نہیں سکتا تھا۔ تب وہ لوگ آئے اور میری لمبی خوب صورت دم کاٹ دی۔ انھوں نے دم،ہڈی اور گوشت کی طرف سے کاٹ دی۔ کیسی درد ناک تکلیف تھی! تکلیف تو اپنی جگہ، انھوں نے مجھے بے عزت بھی کر دیا تھا۔ اتنی خوب صورت چیز مجھ سے الگ ہو گئی تھی۔ میں اس سے مکھیاں اڑانے کا کام لیتا تھا۔ میں بتا نہیں سکتا کہ یہ مکھیاں مجھے کتنا تنگ کرتی ہیں! میرے جسم پر بیٹھ جاتی ہیں اور مجھے کاٹتی ہیں۔ میرے پاس کوئی چیز نہیں جس سے میں یہ مکھیاں اڑاؤں۔ میں تمھیں بتا نہیں سکتا کہ میری کیا حالت ہوئی، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ انھوں نے میری دم اور زیادہ نہیں کاٹی۔“
”انھوں نے ایسا کیوں کیا؟“ جنجر نے پوچھا۔
بوڑھے اولیور نے اپنا پاؤں زمین پر مارا اور کہا:”فیشن کے لیے! کسی نے ان لوگوں کے دماغ میں یہ بات ڈال دی تھی کہ گھوڑوں کی دم کاٹنے سے گھوڑے اچھے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ہی ہماری دم کو چھوٹا کر دیتا تو یقیناوہ کوئی دوسرا راستہ بھی بتا دیتا۔“
میں سمجھتی ہوں، یہی وہ فیشن ہے کہ ان لوگوں نے میرے سر کو باندھا، خوف ناک لوہے کے ٹکڑوں سے مجھے زخمی کیا اور پریشان کیا۔“ جنجر نے کہا۔
اولیور نے جواب دیا:”حقیقت میں ایسا ہی ہوا ہے۔ جو خیال ان کے ذہنوں میں آیا، بہت ہی ذلیل تھا۔ مثال کے طور پر دیکھو، ان لوگوں نے کتوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ہے۔ ان لوگوں نے کتوں کی دمیں بھی کائیں اور پیچھے کی طرف سے ان کے کانوں کو چھیدا۔ ان کے خیال میں دم کٹنے سے کتے خوب صورت دکھائی دیتے ہیں۔ بھورے رنگ کی ایک کتیا اسکائی میری پیاری دوست تھی۔ وہ مجھے بہت پسند کرتی تھی اور میرے تھان میں سوتی تھی۔ اس کے پانچ چھوٹے اور خوب صورت بچے تھے۔ وہ ان سے بہت محبت کرتی تھی۔ ایک دن ایک آدمی آیا اور ان بچوں کو لے گیا۔ شام ہوئی تو غریب اسکائی ان بچوں کو اپنے منہ میں دبا کر باری باری واپس لائی۔ وہ بچے خوش نہیں تھے۔ ان کے کانوں اور دموں سے خون بہ رہا تھا اور وہ چلا رہے تھے۔ ان سب کی دمیں کئی ہوئی تھیں اور ان کے کان کے اوپر کے حصے کٹے ہوئے تھے۔ اسکائی انھیں چاٹ رہی تھی اور ان کے لیے پریشان تھی۔ میں یہ واقعہ کبھی نہیں بھول سکتا۔
ان بچوں کے زخم جلد ہی بھر گئے اور وہ اپنی تکلیف بھی بھول گئے۔ ان کے کان کا لٹکا ہوا حصہ جو انہیں چوٹ اور دھول سے بچاتا تھا ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا تھا۔”آخر یہ لوگ اپنے بچوں کے ناک کان کیوں نہیں کٹوا دیتے؟ اس طرح وہ بہت حسین اور خوب صورت نظر آئیں گے۔ ان کو سوچنا چاہیے۔ یہ لوگ ہمارے ساتھ ایسا کیوں کرتے ہیں؟“ اولیور شریف اور بوڑھا سا تھی تھا، لیکن ان تمام باتوں پر اسے بہت غصہ آیا۔
مجھے بھی یہ باتیں عجیب لگیں اور ان پر بہت غصہ آیا۔ میں نے ان لوگوں کے بارے میں کچھ اچھا محسوس نہیں کیا۔ یہ کہانیاں جو میں نے اپنے ساتھیوں سے سنی تھیں،انھیں سن کر مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ لوگ اتنے ظالم بھی ہو سکتے ہیں؟
جنجر نے بھی ہماری بات چیت سنی۔ اپنے سر کو اٹھایا اور نتھنے پھلا کر کہا کہ آدمی ظالم ہوتے ہیں اور ان میں عقل نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔
”کون باتیں کر رہا تھا، کم عقل لوگوں کی؟“ میرل نے پوچھا۔
جنجر نے جواب دیا: ”یہ باتیں اولیور ہمیں بتا رہے تھے۔“
میرل نے کہا:”یہ سچ ہے۔ میں بھی ایسا کئی دفعہ دیکھ چکا ہوں۔ جو کچھ کتوں کے ساتھ ہوا، وہ بھی مجھے معلوم ہے، لیکن ہمیں یہاں ایسی بات نہیں کرنی چاہیے۔ تم جانتے ہو کہ جون اور جیمس کتنے اچھے ہیں! جہاں اچھے آدمی ہوتے ہیں وہاں بُرے بھی ہوتے ہیں۔ ہمیں تو شکر اداکرنا چاہیے کہ یہاں ہمارے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جا رہا ہے۔“
اولیور نے بھی کہا: ”میرا مالک بھی بہت اچھا ہے اور میری زندگی اچھی گزر رہی ہے،اس لیے ہم اپنی بات چیت کو یہیں ختم کرتے ہیں۔“
کچھ ہی عرصے بعد میں اپنے نئے گھر میں آگیا۔ میرے مالک نے یہ طے کیا کہ مجھے خاص نام سے پکارا جائے۔ میرا مالک مجھے بڑی توجہ سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے میرے سر کو تھپتھپایا۔
کچھ دیر بعد میرے مالک نے جون اور جیمس کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ بلیک بیوٹی کیسانام ہے؟
”بلیک بیوٹی بہت ہی پیارا نام ہے اور اس کے لیے بالکل مناسب ہے۔“جون نے کہا۔
میں بہت خوش تھا،مجھے کتنا پیارا نام دیا گیا ہے۔ میرا نیا گھر بھی بڑا پیارا تھا۔
میرے مالک کو اپنے کاروبار کے سلسلے میں جانا پڑا۔ مجھے کتے والی گاڑی کھینچنی پڑی۔ جون بھی مالک کے ساتھ روانہ ہوا۔ میں ہمیشہ ہی سے کتے والی گاڑی پسند کرتا تھا، کیونکہ یہ بہت ہلکی تھی اور اس کے پہیے بہت ہی اچھی طرح چلتے تھے۔
راستے میں زبردست بارش شروع ہو گئی۔ ہوا بھی بہت تیز چل رہی تھی۔ ہم اچھی رفتار سے چل رہے تھے۔ پھر لکڑی کا پل آگیا۔ پل کے دروازے پر ایک آدمی تھا۔ اس نے کہا کہ دریا بہت تیز بہہ رہا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ یہ رات بہت سخت ہو گی۔ تمام چرا گا ہیں پانی سے بھر گئی تھیں اور سڑک پر گھٹنوں پانی کھڑا تھا۔ مالک نے بڑی ہوشیاری اور شریفانہ طریقے سے گاڑی کو چلایا۔ جب ہم گاؤں پہنچے تو میں نے اچھی طرح آرام کیا۔ مالک کے کام میں کافی وقت لگا، اس لیے ہمیں دیر ہوگئی اور دو پہر کو ہم وہاں سے روانہ نہیں ہو سکے۔ اس وقت بھی ہوا بہت تیز چل رہی تھی۔ میں نے مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں طوفان میں کبھی باہر نہیں رہا۔
ہم آگے چلے تو دیکھا کہ درختوں کے حصے ٹوٹ کر گر رہے تھے اور ہوا کی خوفناک آواز یں آ رہی تھیں۔
میرے مالک نے کہا۔”ہم ان لکڑیوں کی زد سے باہر ہیں۔“
جون بولا۔”ہاں جناب، مگر اس وقت بہت خطرہ ہوتا ہے جب کسی درخت کا تنا راستے میں گر جائے۔“
اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ ایک گڑ گڑاہٹ کے ساتھ کسی شاخ کے ٹوٹنے اور گرنے کی آواز سنائی دی۔ شیشم کا ایک درخت جڑ سمیت اکھڑ کر ہمارے سامنے سڑک پر گر گیا۔ اس نے اور درخت بھی توڑ دیے تھے۔ میں ڈر گیا اور کھڑے ہو کر کا نپنے لگا، مگر نہ بھاگا اورنہ واپس ہوا۔
میرے مالک نے کہا۔”درخت قریب ہی گرا ہے۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟“
جون نے جواب دیا: ”اب ہمیں آگے نہیں بڑھنا چاہیے بلکہ لکڑی کے پل کی طرف واپس جانا چاہیے۔“
ہم واپس مڑ گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم پل پر پہنچ گئے۔ اس وقت اندھیرا ہو گیا تھا، مگر ہم دیکھ سکتے تھے کہ پانی پل کے بیچ تک آگیا ہے۔ میرا مالک جانتا تھا کہ سیلاب کے زمانے میں بھی ایسا ہوتا ہے، اس لیے وہ رکا نہیں۔ ہم بڑی اچھی رفتار سے جا رہے تھے۔ اچانک میرا پاؤں پل کے ایک حصے سے ٹکرایا۔ میں سمجھ گیا کہ کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ہو گئی ہے۔ میں رک گیا اور آگے نہیں بڑھا۔
”آگے چلو بلیک بیوٹی!“میرا مالک بولا اور مجھے چابک مارا لیکن میں نے چلنے سے انکار کر دیا۔ اس نے مجھے ذرا زور سے چابک مارا لیکن میں پھر بھی نہیں ہلا۔
”کچھ نہ کچھ ہے، کوئی بات ضرور ہو گئی ہے جناب!“ جون نے مالک سے کہا،پھر وہ گاڑی سے کودا اور میرے آگے آکر کھڑا ہو گیا۔ اس نے مجھے آگے چلانے کی بہت کوشش کی۔
”آؤ بلیک بیوٹی، چلو! کیا بات ہے؟“ اس نے پوچھا۔
میں اسے کچھ نہیں بتا سکتا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ پل محفوظ نہیں ہے۔ تب دور سے ٹارچ ہاتھ میں لیے پل کے دروازے کا محافظ ہماری طرف دوڑتا ہوا آیا۔ اس نے چیخ کر بتایا:”پل بیچ میں سے ٹوٹ گیا ہے اور پل کا ایک حصہ بہ بھی گیا ہے۔ اگر آگے جانے کی کوشش کرو گے تو تم دریا میں گر جاؤ گے۔“
”اللہ کا شکر ہے کہ ہم بچ گئے۔ ہمیں بلیک بیوٹی نے بچالیا۔“جون نے بھی اس بات سے اتفاق کیا اور لگام کو کھینچ کر مجھے شریفانہ طریقے سے واپس موڑ لیا۔
سورج کو چھپے ہوئے کافی دیر ہو گئی تھی۔ ہوا اب تیز نہیں تھی۔ اندھیرا بڑھ رہا تھا اور لکڑی ٹوٹنے کی آوازیں بھی نہیں آرہی تھیں۔ میں خاموشی سے چل رہا تھا اور پہیوں ں کی آوازیں بھی مشکل سے سنائی دے رہی تھیں۔ مالک اور جون دھیمی آواز میں باتیں کر رہے تھے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ پل پر میرے آگے نہ بڑھنے سے ان کی جانیں بچ گئی تھیں۔
مالک نے کہا:”حالانکہ آدمی بھی ہر بات کا سبب جاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن جانوروں میں یہ صلاحیت کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ جو لوگ جانوروں سے پیار کرتے ہیں، جانور ان کی حفاظت کرتے ہیں اور انھیں خطرے سے بچالیتے ہیں۔“
جون نے بھی ان باتوں کو تسلیم کیا اور بہت ساری کہانیاں سنا کر رات گزار دی کہ کتے اور گھوڑے اپنے مالک کی جان بچاتے ہیں! جون اور میرا مالک اس بات سے متفق تھے کہ لوگ اپنے جانوروں کی اتنی قدر نہیں کرتے جتنی کرنی چاہیے۔ آخر ہم برٹ پارک کے دروازے پر آگئے۔
برٹ پارک کا محافظ ہمیں آتا دیکھ رہا تھا۔ اس نے کہا کہ مالکہ آپ لوگوں کے لیے رات بھر پریشان رہیں اور آرام بھی نہیں کیا۔
تب ہم نے ہال میں لائٹ جلتی ہوئی دیکھی۔ مالکہ گھر کے باہر دوڑتی ہوئی آئی اور بولی: ”میں آپ لوگوں کی وجہ سے بہت پریشان ہو گئی تھی۔ کوئی حادثہ وغیرہ تو پیش نہیں آیا؟“
مالک نے جواب دیا:”نہیں، لیکن یہ سب بلیک بیوٹی کی مہربانی ہے ورنہ ہم لوگ دریا میں بہ جاتے۔“
میں نے اس سے زیادہ کچھ نہیں سنا اور وہ لوگ گھر کے اندر چلے گئے۔
جون مجھے اصطبل میں لے آیا۔ اس نے مجھے بہت اچھا کھانا دیا اور تنکوں کا موٹا بستر تیار کیا۔ میں اس کا بہت شکر گزار تھا۔ اس وقت بہت رات ہو گئی تھی اور میں بھی بہت تھک گیا تھا۔
دسمبر کی صبح جون مجھے روزانہ کی ورزش کرانے کے بعد اصطبل میں لے کر آیا۔ اسی وقت میرا مالک بھی اصطبل میں آگیا۔ وہ بہت سنجیدہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک کھلا خط تھا۔
میرے مالک نے کہا: ”جون! تم بتاؤ کیا تمہارے پاس جیمس کی کوئی شکایت آئی ہے؟“
جون نے جواب دیا:”نہیں جناب! وہ اچھا کام کرنے والا شریف آدمی ہے۔ گھوڑوں کے لیے بھی وہ اچھا ہے۔“
جون قریب آگیا اور مالک اس سے کچھ دیر باتیں کرتا رہا۔
باتیں ختم ہو گئیں تو مالک مسکرایا اور جیمس کی طرف دیکھا۔ جیمس دروازے کے پاس کھڑا تھا۔ مالک نے اسے مخاطب کیا:”جیمس، میرے بچے! میں نے جون سے تمہارے بارے میں پوچھا تھا۔ کچھ باتیں تمھارے بارے میں معلوم کرنی تھیں جن کا تعلق تمہارے مستقبل سے ہے۔ میرے پاس میرے سالے کا خط آیا ہے۔ اسے ایمان دار اور محنتی سائیس چاہیے۔ تم جانتے ہو کہ اس کا کام کتنا اچھا ہے۔ میرا سالا اچھا آدمی ہے۔ اگر تم یہ نوکری کرو تو اچھے رہو گے۔ تمھیں چھوڑ کر مجھے بہت تکلیف ہو گی۔ خاص طور پر جون کو۔ مجھے خبر ہے کہ تم جون کی کتنی مدد کرتے ہو، لیکن یہ عمدہ موقع ہے۔ میں تمہارے راستے میں نہیں آؤں گا۔ تم اس بارے میں سوچو اور اپنے گھر والوں سے بھی مشورہ کرو۔ پھر مجھے بتانا کہ تم نے کیا طے کیا۔“
اس بات چیت کے کچھ دن بعد یہ طے ہو گیا کہ جیمس ہمیں چھوڑ کر چلا جائے گا۔ اس عرصے میں جو بھی کام اسے دیے گئے وہ اس نے کیے۔ اب میں اور جنجر گاڑی میں ہوتے تھے اور جیمس گاڑی چلاتا تھا۔ ہم شہر کی بہت سی جگہوں پر گئے۔ جب میں دوسرے گھوڑوں اور گاڑیوں کو دیکھتا، روٹیوں اور تمباکو کی خوشبو سونگھتا تو مجھے بہت خوشی ہوتی۔
اس وقت جیمس اپنی کار کردگی بڑھا رہا تھا۔ جنجر اور میں زندگی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
ایک گرم دوپہر کو میرے مالک اور مالکہ نے اپنے دوستوں سے ملنے کے لیے جانے کا فیصلہ کیا جو تقریباً پینتالیس میل دور رہتے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جیمس نے اتنا لمبا سفر کیا۔ وہاں بہت بڑے اور بھاری پہاڑ تھے، لیکن جیمس نے اتنے عمدہ طریقے سے گاڑی چلائی کہ ہمیں بالکل تھکن محسوس نہیں ہوئی۔ ہمیں یہ بھی پتا نہ چلا کہ ہم پہاڑ سے نیچے اتر رہے ہیں۔ وہ ہمیں صحیح وقت پر آرام سے لے گیا۔
ہم دو ایک مرتبہ سڑک پر رکے۔ جیسے ہی سورج نیچے ہوا ہم اس گاؤں میں پہنچ گئے جہاں ہمیں رات گزارنی تھی۔
ہم سرائے پر رک گئے جو مارکیٹ کے بیچ میں تھی۔ یہ سرائے بہت بڑی تھی۔ جہاں ہمیں جانا تھا وہ ایک کمان دار راستہ تھا جو لمبے صحن پر ختم ہو تا تھا۔ صحن کے آخری سرے پر اصطبل تھے اور کو چوانوں کے گھر تھے۔ دو آدمی ہم سے ملنے آئے۔ ایک آدمی نے میرے سر کو تھپتھپایا اور دوسرا ہمیں اصطبل میں لے گیا۔ وہاں جیمس کھڑا ہوا تھا۔ اس نے ہماری مالش کی۔
شام کو بہت دیر ہو گئی تھی۔ میں تھان میں آرام کر رہا تھا۔ میں نے ایک گھوڑے کی آواز سنی۔ وہ اصطبل میں لایا جا رہا تھا۔ وہ گھوڑا صاف ستھرا دکھائی دے رہا تھا۔ ایک نوجوان آدمی اصطبل میں آیا اور وہاں کام کرنے والے سے باتیں کرنے لگا۔ اس کے منہ میں پائپ دبا ہوا تھا۔ کچھ منٹ بعد سائیس نے اس نوجوان سے کہا کہ آپ اپنا پائپ ایک طرف رکھ دیں اور کچھ سوکھی گھاس گھوڑے کے تھانوے میں ڈالیں۔
میں نے اس آدمی کے قدموں کی آواز سنی۔ اس نے نیچے گھاس پھینکی۔ اب دروازہ بند ہو گیا۔ ہم رات بھر اندر سوتے رہے۔ مجھے پتا نہیں کہ میں کتنی دیر سویا اور اس وقت رات کا کیا بجا تھا! ہوا میں گھٹن سی محسوس ہو رہی تھی۔ میں مشکل سے سانس لے رہا تھا۔ میں نے سنا کہ جنجر کھانس رہی ہے۔ دوسرے گھوڑے بھی بے آرام تھے۔ اس وقت بہت اندھیرا تھا۔ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اصطبل میں دھواں ہی دھواں بھرا ہوا تھا۔ فرشی دروازہ کھل چکا تھا۔ بھیڑ بھاڑ کا شور اور توڑ پھوڑ کی آواز یں مجھے سنائی دے رہی تھیں۔ میں نے کا نپنا شروع کر دیا۔ دوسرے گھوڑے بھی اٹھ گئے۔ کچھ گھوڑے اپنے رسے کھینچ رہے تھے اور کچھ زمین پر پاؤں پٹخ رہے تھے۔ آخر میں نے کسی کو آتے دیکھا۔ سائیس آخری گھوڑا لے کر آیا تھا، وہ اصطبل میں گھسا۔ اس کے ہاتھ میں لالٹین تھی۔ اس نے گھوڑوں کو باہر نکالنے کی بڑی کوشش کی، لیکن وہ اتنی جلدی میں تھا اور ڈرا ہوا تھا کہ اس نے مجھے بھی خوف زدہ کر دیا۔ اس نے پہلے، دوسرے اور تیسرے گھوڑے کو باہر نکالنے کی بڑی کوشش کی، لیکن کوئی اس کے ساتھ نہیں گیا۔ آخر وہ میرے پاس آیا اور مجھے باہر نکالنے کی بھی بڑی کوشش کی، لیکن میں بھی اس کے ساتھ نہیں گیا۔ اس نے تمام گھوڑوں کو ایک ایک کر کے باہر نکالنے کی کوشش کی مگر کوئی بھی نہیں نکل سکا۔ وہ اصطبل چھوڑ کر چلا گیا۔
ہم گھوڑوں نے باہر نہ جاکر بڑی بے وقوفی کی تھی۔ ہماری بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہو رہا تھا۔ کوئی ایسا نہ تھا جس پر ہم بھروسا کر سکتے۔ تازہ ہوا دروازوں سے آرہی تھی جس سے سانس لینا آسان ہو گیا تھا۔ توڑ پھوڑ کی آوازوں کا شور بڑھ رہا تھا۔ میں دور اوپر چمکتی ہوئی سرخ روشنی دیکھ سکتا تھا۔ میں نے کسی کو چلاتے ہوئے سنا: ”آگ لگ گئی ہے۔“
تب میں نے جیمس کی آواز سنی:”آؤ بلیک بیوٹی اٹھ جاؤ اور میرے ساتھ چلو!“
میں کھڑا ہو گیا اور دروازے کے قریب پہنچ گیا۔ وہ میرے پاس آیا اور میری ناک تھپکی۔
ہم جلد ہی اصطبل سے باہر آگئے۔ اب ہم صحن میں محفوظ کھڑے تھے۔ کسی نے مجھے دیکھا۔ میں زور سے ہنہنایا۔ میں نے دیکھا کہ جیمس جنجر کو لینے اصطبل میں چلا گیا تھا۔ بعد میں جنجر نے مجھے بتایا کہ تم نے میرے لیے بہت اچھا کیا۔ جیسے ہی میں نے صحن میں تمہاری آواز سنی تو اصطبل چھوڑ کر چلی آئی۔
صحن میں بھیڑ بھاڑ ہو گئی تھی۔ دوسرے گھوڑے اصطبل سے آگئے تھے۔ چاروں طرف لوگ شور مچا رہے تھے۔ میں اصطبل کے دروازے کو دیکھ رہا تھا جہاں سے گاڑھا گاڑھا دھواں نکل رہا تھا۔
جلد ہی میں نے اپنے مالک کی آواز سنی:”جیمس! جیمس! تم کہاں ہو؟“
جواب میں کوئی آواز نہیں آئی۔ میں ٹوٹنے،گرنے اور جلنے کی آوازیں سن رہا تھا۔ دوسرے ہی لمحے میں خوشی سے ہنہنایا۔ جیمس، جنجر کو لے کر آرہا تھا۔ جنجر بہت زور سے کھانس رہی تھی۔
جیمس بولنے کے قابل نہیں تھا۔ میرے مالک نے جیمس سے کہا: ”کیا تم ٹھیک ہو؟“
جیمس نے اقرار میں سر ہلایا۔ ہم نے اسی رات،اسی وقت وہ گاؤں چھوڑ دیا۔ جیمس نے بتایا کہ اصطبل کی چھت گر گئی تھی۔ جو گھوڑے باہر نہیں نکالے جاسکے تھے، ملبے کے ڈھیر میں دفن ہو گئے تھے۔
سورج چھپنے سے ذرا پہلے ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے اور صاف ستھرے اصطبل میں لے جائے گئے۔ وہاں ایک رحم دل خدمت گزار شخص تھا۔ اس نے ہمیں بہت آرام پہنچایا۔ جب اس نے آگ کے بارے میں سنا تو کہنے لگا: ”نوجوان آدمی! ایک چیز بالکل صاف ہے۔“
وہ جیمس سے مخاطب تھا: ”تمہارے گھوڑے جانتے ہیں کہ کس پر بھروسا کرنا چاہیے! گھوڑوں کو اصطبل سے باہر نکالنا اس وقت بڑا مشکل کام ہے جب کوئی سیلاب آگیا ہویا آگ لگ گئی ہو۔“
وہاں ہم تین دن ٹھیرے اور پھر گھر واپس آگئے۔ ہم بہت خوش تھے کہ اپنے اصطبل میں واپس آگئے تھے۔ جون بھی ہمیں صحیح سلامت دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس سے پہلے کہ جون اور جیمس ہمیں رات کو چھوڑ کر جاتے وہ ایک لڑکے ”جو گرین“ کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔ جو گرین کو جیمس کی جگہ پر رکھا گیا تھا۔ حالانکہ جو گرین چودہ سال کا تھا لیکن با صلاحیت تھا۔ اس میں کام سیکھنے کی لگن تھی۔
دوسرے دن ہم نے جو گرین کو دیکھا۔ وہ اصطبل میں کام سیکھنے آیا تھا۔ جو کچھ جیمس کرتا تھا، اس نے سیکھ لیا۔ کس طرح جھاڑو دینی ہے اور کس طرح گھاس ڈالنی ہے! وہ بہت چھوٹا سا تھا۔ مجھے، جنجر اور میرل کو کس طرح سنبھال سکتا تھا!
جیمس نے اسی لیے پہلے اسے میرل کے کام سکھائے۔ میرل اس کو پسند نہیں کرتا تھا۔ اس نے شکایت کی کہ ہمیں کیسا سائیں دیا گیا ہے جو بالکل بچہ ہے اور کچھ نہیں جانتا۔ دو ہفتے کے بعد اس نے تسلیم کر لیا کہ جو گرین بہت کچھ سیکھ گیا ہے اور سب کام ٹھیک ٹھیک کرنے لگا ہے۔ آخر وہ دن بھی آگیا جب جیمس ہمیں چھوڑ کر چلا گیا۔ وہ بہت ناخوش نظر آرہا تھا۔ ہم نے جون سے اسے یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ مجھے اپنے خاندان کے لوگ،دوست اور وہ گھوڑے جن سے مجھے محبت تھی، بہت یاد آئیں گے۔
جون نے اس کا دل بہلایا اور کہا کہ وہاں نئے گھر میں تم بہت اچھے دوست بنا لو گے اور تمہارے خاندان کے لوگ تم پر فخر کریں گے۔
ہر ایک کو جیمس کے جانے پر افسوس تھا۔ میرل بہت غمگین تھا۔ کئی دن تک اس نے کچھ نہیں کھایا۔ جون صبح سویرے اسے میدان میں لے جاتا تھا، دوڑاتا تھا تاکہ اس کی پریشانی دور ہو جائے۔ یہ سوچتے ہوئے ہمیں دکھ ہو رہا تھا کہ ایسا دوست پھر کبھی نہیں ملے گا۔ وہ بہت اچھا آدمی تھا۔ اس کا برتاؤ ہمارے ساتھ بہت رحم دلانہ تھا۔
ایک رات میں نیچے تنکوں پر گہری نیند سو رہا تھا کہ اچانک گھنٹی کی تیز آواز سن کر اٹھ بیٹھا۔ میں نے سنا کہ جون کے گھر کا در وازہ کھلا ہوا تھا۔ وہ تیز دوڑتا ہوا ہال کی طرف گیا اور کچھ دیر میں واپس آگیا۔ اس نے اصطبل کے دروازے کو تالا نہیں لگایا تھا۔
وہ دور ہی سے چیخا:”اٹھ جاؤ بلیک بیوٹی! تمھیں بہت تیز دوڑنا پڑے گا۔“
اس سے پہلے کہ میں جانتا کہ کیا معاملہ ہے، اس نے کاٹھی میری پیٹھ پر رکھ دی۔ لگام وغیرہ چڑھا کر وہ مجھے ہال کے دروازے تک لے آیا۔ بٹلر وہاں اپنے ہاتھ میں لیمپ لیے کھڑا تھا۔
جون سے بٹلر نے کہا:”اتنا تیز دوڑو جتنا تیز دوڑ سکتے ہو۔ ہماری مالکہ کی زندگی کا دارو مدار اسی بات پر ہے۔ کوئی لمحہ ضائع مت کرنا! یہ پرچہ ڈاکٹر وائٹ کو دے دینا اور یہ بھی یقین کر لینا کہ باقی گھوڑے سرائے میں ہیں۔ جلد از جلد ہو کر آؤ۔“
جب میں سڑک پر پہنچا تو جون مجھے سے مخاطب ہوا: ”بلیک بیوٹی! جو کچھ کرنا ہے، اچھا کرنا ہے۔ ہمیں اپنی مالکہ کی زندگی بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔“
یہ باتیں سننے کے بعد مجھے نہ چابک کی اور نہ ایڑ لگانے کی ضرورت پڑی۔ میں دو گھنٹے اتناتیز دوڑا جتنا تیز دوڑ سکتا تھا۔
جب ہم پل پر پہنچے تو جون نے مجھے ذرا سا کھینچا اور میری گردن تھپتھپائی: بہت اچھے بلیک بیوٹی!“ اس نے کہا اور مجھے آہستہ آہستہ چلنے دیا۔ میری روح ابھی بیدار تھی میں دوبارہ تیز دوڑنے لگا۔
جیسے ہی ہم ڈاکٹر وائٹ کے گھر پہنچے، جون نے دوبارہ گھنٹی بجائی اور دروازے پر دستک دی۔ آخر ڈاکٹر وائٹ نے کھڑکی کھولی اور پوچھا:”جون! کیا چاہتے ہو؟“
جون نے بیان کیا: ”ہماری مالکہ بہت زیادہ بیمار ہے اور آپ کو فوراً بلایا ہے۔“
ڈاکٹر نے کہا:”انتظار کرو۔ میں ابھی آتا ہوں۔“
کچھ دیر میں ڈاکٹر وائٹ دروازے پر تھا۔ جون نے ڈاکٹر کو پرچہ تھما دیا۔
ڈاکٹر بولا:”میرا گھوڑا بیمار ہے۔ یہ تمہارا گھوڑا ہم دونوں کو لے جاسکتا ہے؟“
جون یہ جانتا تھا۔ میں بہت زیادہ گرم ہوں اور تھک گیا ہوں، لیکن اسے یہ بھی معلوم تھا کہ ڈاکٹر کو بھی مالکہ کے پاس ضرور پہنچنا ہے۔ فوراً واپس چلنے پر میں کچھ نہیں بولا۔ ڈاکٹر عمر رسیدہ آدمی تھا اور اتنا اچھا گھڑ سوار نہیں تھا، لیکن میں نے اپنی جانب سے جو کچھ کیا، اچھا کیا۔ ہم جلد ہی برٹ پارک پہنچ گئے۔ مالک نے ڈاکٹر کو گھر کے اندر بلا لیا۔ جو گرین مجھے اصطبل میں لے گیا۔ میں خوش تھا کہ گھر آگیا ہوں۔ مسلسل تیز دوڑنے کی وجہ سے میرے پیر کانپ رہے تھے۔ میں پسینے میں تر تھا اور میرا جسم آگ کی طرح تپ رہا تھا۔ جو گرین نے میرے سینے اور ٹانگوں کی مالش کی۔ اس نے میرے جسم پر کوئی کپڑا نہیں ڈالا، کیونکہ میں بہت گرم تھا۔ اس نے مجھے ٹھنڈا پانی، کچھ سوکھی گھاس اور بھٹے دیے۔ پھر وہ اصطبل کا دروازہ بند کر کے چلا گیا۔ میرا جسم اب تک قابو میں نہیں آیا تھا اور پورا جسم ہی دکھ رہا تھا۔
ایک بار پھر میرا جسم کانپنے لگا۔ میں نے سوچا کہ کسی طرح گرم کمبل حاصل کروں؟ میری خواہش تھی کہ جون میرے پاس ہو، لیکن وہ تو ڈاکٹر کے پاس پیدل گیا تھا، اس لیے میں تنکوں پر لیٹ گیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر کے بعد میں نے دروازے پر جون کے قدموں کی آواز سنی تو کراہنے لگا۔ مجھے بہت زیادہ تکلیف ہو رہی تھی۔ اس نے میرے کراہنے کی آواز سن لی۔ چند ہی لمحوں میں وہ میرے پاس پہنچ گیا۔ میں اسے کچھ بھی نہیں بتا سکا کہ کیا محسوس کر رہا ہوں! پھر بھی وہ مجھے دیکھ کر سب کچھ سمجھ گیا۔ اس نے دو کمبلوں سے مجھے ڈھانک دیا اور بھاگ کر گرم پانی لینے گھر گیا۔ میں نے سنا کہ جون، جو گرین کی شکایت کر رہا تھا کہ بلیک بیوٹی کراہ رہا تھا اور اس بد تمیز لڑکے نے نہ اسے کمبل سے ڈھکا اور نہ کوئی گرم چیز کھانے پینے کو دی۔
میں بہت بیمار تھا۔ مجھے سانس لینے میں بڑی دشواری ہو رہی تھی۔ جون کسی نرس کی طرح دن رات میری خدمت میں لگا رہا۔ میرا مالک بھی مجھے دیکھنے کئی دفعہ آیا۔
ایک دن اس نے کہا:”میرے عزیز بلیک بیوٹی! تم نے اپنی مالکہ کی جان بچائی اور اب تم خود بیمار پڑ گئے!“
یہ سن کر میں اپنے آپ پر فخر کرنے لگا کہ میں نے اپنی مالکہ کی جان بچائی۔ میں نے جون کو مالک سے یہ کہتے ہوئے سنا: ”میں نے اپنی زندگی میں اتنا تیز دوڑنے والا گھوڑا کبھی نہیں دیکھا۔“
کافی عرصے کے بعد میں اپنے آپ کو بہتر محسوس کرنے لگا تھا۔ گھوڑوں کا ڈاکٹر بھی دن میں کئی دفعہ مجھے دیکھنے آتا تھا۔ اس کی دوا سے میرا بخار اور جلن ختم ہو گئی تھی۔ جون جو گرین پر بہت ناراض ہوا، لیکن آخر جون سمجھ گیا کہ لڑکے کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اس کا مقصد مجھے تکلیف دینا نہیں تھا بلکہ وہ خود بھی یہ نہیں سمجھ سکا کہ میرے لیے اس وقت کس چیز کی ضرورت تھی۔
برٹ پارک میں رہتے ہوئے تین سال کا عرصہ خوش اسلوبی کے ساتھ گزر گیا۔ اس کے ساتھ جانے کیوں مجھے احساس ہو گیا تھا کہ جلد ہی کوئی بہت زیادہ غم کی خبر ملنے والی ہے۔ ہم وقفے وقفے سے سن رہے تھے کہ ہماری مالکہ بہت سخت بیمار تھی۔ ڈاکٹر ایک ہفتے میں کئی دفعہ گھر آتا تھا۔ ہمارا مالک بہت زیادہ پریشان دکھائی دے رہا تھا۔ تب ہم نے یہ بھی سنا تھا کہ ہماری مالکہ کو یہ گھر فوراً چھوڑ دینا چاہیے اور کچھ برسوں کے لیے کسی گرم موسم والی جگہ چلا جانا چاہیے۔
یہ خبر گھر میں رہنے والوں کے لیے موت کی گھنٹی تھی۔ ہر ایک ناخوش تھا اور ہمارا مالک جانے کے انتظامات میں مصروف تھا۔ ہر چیز تیزی سے ہو رہی تھی۔ جون اپنے کام سے آتا تھا اور مشکل سے بات کر پاتا تھا۔ اس کے لبوں سے مسکراہٹ ختم ہو گئی تھی۔ جو گرین بالکل خاموش رہتا تھا۔ ہم نے یہ سن رکھا تھا کہ ہم بھی جلد ہی دوسری جگہ منتقل ہو جائیں گے۔ مالک نے مجھے اور جنجر کو اپنے ایک پرانے دوست کے ہاتھوں بیچ دیا تھا۔ اس کے باوجود ہمارے مالک کو یہ احساس تھا کہ جہاں ہم جائیں وہ گھر اچھا ہو۔ میرل ایک پادری کے حصے میں آیا۔ پادری پر مالک نے یہ پابندی عائد کر دی کہ وہ میرل کو بیچے گا نہیں۔ اگر میرل زیادہ عرصے کام نہ کر سکے تو اسے گولی مار دی جائے۔
جب آخری دن آیا تو جنجر اور میں آخری دفعہ ہال کے دروازے کی طرف گاڑی میں لائے گئے۔ نوکر قالین اور گھر کی دوسری چیزیں لا رہے تھے۔ جب ہر چیز گاڑی میں رکھ دی گئی تو مالک مالکہ کو ہاتھوں پر اٹھائے ہوئے نیچے آیا۔ اس نے سب نوکروں کو اللہ حافظ کہا اور ان لوگوں کی وفاداری کا شکریہ ادا کیا۔
ہم اسٹیشن کی طرف آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ آخر جب ہم وہاں پہنچ گئے تو مالکہ نے جون کو مخاطب کیا: ”جون! ہم تمھیں کبھی نہیں بھولیں گے۔ اللہ تمھیں ہمیشہ خوش رکھے۔“
میں نے محسوس کیا کہ میری باگ موڑی گئی۔ جون نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ غم کی وجہ سے شاید کچھ بول نہیں سکا تھا۔ جلد ہی جو گرین نے تمام چیزیں گاڑی میں سے باہر نکالیں۔
جون نے جو گرین سے کہا: ”گھوڑوں کے پاس کھڑے رہو! پھر جون پلیٹ فارم کی طرف چلا گیا اور جو گرین ہمارے نزدیک کھڑا ہو گیا اور اپنے آنسوؤں کو چھپانے لگا۔ جلد ہی ٹرین گرجتی ہوئی اسٹیشن پر آئی۔ کچھ ہی دیر میں دروازے بند ہو گئے۔ گارڈز نے سیٹی بجائی اور ٹرین چل پڑی۔
جب ٹرین آنکھوں سے اوجھل ہو گئی تو جون واپس آیا اور اس نے کہا:”ان لوگوں کو اب ہم کبھی نہیں دیکھ سکیں گے۔“
جون نے ہماری لگاموں کو تھاما اور جو گرین کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اس نے آہستہ آہستہ ہمیں گھر کی طرف چلایا، لیکن وہ گھر اب ہمارا گھر نہیں تھا۔
صبح ناشتے کے بعد جو گرین نے آتے ہی ہمیں سلام کیا اور میرل نے صحن میں ہنہنانا شروع کردیا۔ تب جون نے کاٹھی جنجر کی پیٹھ پر رکھی اور لگا میں مجھ پر ڈالیں اور ہم ارل شل پارک کی طرف روانہ ہوئے، اپنے نئے گھر کی طرف! جیسے ہی ہم پہنچے جون نے مالک کے داروغہ یورک کے بارے میں پوچھا۔ ہم کافی دیر تک انتظار کرتے رہے۔ پھر وہ ہم سے ملنے باہر آگیا۔ وہ اچھادکھائی دے رہا تھا۔ اس کی آواز میں سختی تھی، لیکن وہ جون سے دوستانہ انداز میں ملا۔ یورک نے ہماری طرف دیکھا اور ہمیں اصطبل لے جانے کے لیے سائیس کو بلایا۔
اصطبل ہوادار اور روشن تھا اور تھان ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔ آدھے گھنٹے کے بعدجون اور یورک ہمیں دیکھنے آئے۔ یورک نے جون سے ہماری عادتوں کے بارے میں پوچھا۔
جون نے بتانا شروع کیا: ”یہ بہت پیارے گھوڑے ہیں۔ یہ ٹیم ورک کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اگر ان سے اچھا برتاؤ کیا جائے گا تو یہ بہت اچھے رہیں گے۔“
پھر اس نے جنجر کے بارے میں بتایا:”جنجر کی پچھلی زندگی بڑی سخت گزری ہے۔ اگر اس کے ساتھ بُرا برتاؤ کیا جائے گا تو یہ بھی بُری طرح پیش آئے گی۔“
وہ باتیں کرتے ہوئے اصطبل سے باہر چلے گئے، مگر جون کی آواز اب بھی آرہی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا: ”ہم نے کبھی سخت لگام استعمال نہیں کی اور کالے گھوڑے کو تو کبھی استعمال نہیں کرائی۔ لوہے کے بڑے ٹکڑے نے جنجر کے مزاج کو خراب کیا تھا۔ میں اسی لیے ہلکی والی لگام استعمال کرتا تھا۔“
لیکن مالک کی بیوی کچھ اور طبیعت کی تھی۔ وہ فیشن ایبل عورت تھی۔ اس کا یہی مطالبہ تھا کہ گھوڑے کی لگام سخت ہو۔
جون بولا:”مہربانی کر کے گھوڑوں سے اچھا برتاؤ کریں۔ اگر آپ گھوڑوں سے اچھا برتاؤکریں گے تو وہ بھی اچھا برتاؤ کریں گے۔“
پھر جون گھوم کر ہماری طرف آیا۔ اس کے ہر انداز میں ہمارے لیے پیار ہی پیار تھا۔ میں نے اپنا چہرہ اس کے نزدیک کر لیا۔ اللہ حافظ!
پھر جون چلا گیا تھا اور میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔
دوسرے دن ہمارا مالک ہمیں دیکھنے آیا۔ وہ بہت خوش نظر آرہا تھا۔ جون نے جو کچھ کہا تھا،وہ تمام باتیں سمجھ گیا تھا، لیکن اس کی بیوی اسے سخت اور تنگ لگام استعمال کرنے کے لیے مجبور کر رہی تھی۔ نئے مالک نے یورک سے کہا کہ گھوڑوں کے ساتھ شروع سے اچھا رویہ رکھنا چاہیے۔ سخت لگام تھوڑے وقت کے لیے استعمال کرنی چاہیے۔
دوسرے دن ہمیں جھالر اور رسے پہنا کر گاڑی میں جو تا گیا۔ مالکہ ہمیں دیکھنے آئی۔ وہ لمبی،خوب صورت اور اچھی عورت تھی، لیکن کچھ چیزیں اس کو پریشان کر رہی تھیں۔ اس نے کہا:”وہ چیزیں اس گاڑی میں لگاؤ!“
یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے سخت قسم کی لگام پہنی تھی۔ یہ آرام دہ نہیں تھی۔ اس کو پہن کر میں ایک لمحے کے لیے بھی اپنا سر نیچے نہیں کر سکتا تھا اور سر کو زیادہ اونچا رکھنا بھی ممکن نہیں تھا۔ آخر میں اس کا عادی ہو گیا۔ میں جنجر کی طرف سے پریشان تھا، لیکن وہ بہت صبر سے کام لے رہی تھی۔
دوسرے دن دو پہر کو ہمیں پھر گاڑی میں جو تا گیا اور ہماری مالکہ ہم سے ملنے نیچے آئی۔ اس نے یورک سے کہا:”تمھیں ان گھوڑوں کے سر اونچے رکھنے چاہئیں۔ میں اسے پسند نہیں کرتی جیسے یہ دکھائی دے رہے ہیں۔“
یورک نے کہا کہ ہم سخت قسم کی لگامیں استعمال نہیں کرتے۔
مالکہ نے زور دیا کہ ہمیں سخت قسم کی لگامیں ہی پہنائی جائیں!
جلد ہی میں نے یہاں کے بارے میں تمام باتیں سمجھنا شروع کر دی تھیں۔ روز بہ روز ہماری لگاموں کے سوراخوں کو کم کیا جانے لگا۔ یہ سختی ہمارے لیے برداشت سے باہر تھی۔ رسا اور جھالر پہن کر اپنے آپ کو سیدھا رکھنے کا تو میں عادی ہو گیا تھا، مگر سخت لگام پہن کر ایک ہی حالت میں رہنا میرے لیے مشکل تھا۔ جب ہم پہاڑی پر گاڑی کھینچتے تو اسی کے ساتھ مجھے اپنا سر اوپر رکھنا پڑتا تھا۔ اس طرح چلنا میرے لیے دشوار ہو جاتا۔ میری کمر اور ٹانگیں درد کرنے لگتیں۔ جنجر بھی اس وقت بے سکون تھی، لیکن وہ بہت کم بات کرتی۔
آخر ہمارے ساتھ جو سختی تھی وہ کسی حد تک ختم ہو گئی اور ہماری لگاموں کو بھی چھوٹا نہیں کیا گیا، لیکن ہمیں پتا چلا کہ یہ لوگ ہمارے ساتھ سخت قسم کا رویہ اختیار کرنے والے ہیں۔
ایک دو پہر ہماری مالکہ نیچے آئی۔ وہ بہت غصے میں تھی۔ اس نے یورک کو حکم دیا کہ ہمارے سروں کو اوپر اٹھائے۔ یورک پہلے میری طرف آیا،اس نے میرے سر کو پیچھے کی طرف کھینچا اور لگام کو ایک جگہ قائم کر دیا، مگر لگام اس نے اتنی تنگ کر دی تھی کہ مجھ سے برداشت نہ ہو سکا۔ پھر وہ خنجر کے پاس گیا۔ جنجر اپنے سر کو اوپر ہلا جلا رہی تھی۔ جو لوہے کے ٹکڑے اسے پہنائے گئے تھے، وہ تکلیف دے رہے تھے۔ پھر جنجر کو ایک ترکیب سوجھ گئی۔ یورک لگام کو چھوٹا کرنے کے لیے جیسے ہی جنجر کے پاس آیا، جنجر اچانک دونوں ٹانگوں پر کھڑی ہو گئی اوریورک کی ناک پر زور دار لات ماری۔ سائیس بھی قریب ہی کھڑا تھا۔ جنجر نے اس کے بھی ٹھو کر ماری، پھر دونوں نے جنجر کو پکڑنے کی کوشش کی، لیکن وہ مرنے مارنے پر اتر آئی تھی۔ اس نے اچھلنا، جھٹکے دینا اور ٹھوکریں مارنا شروع کر دیا۔ اس نے گاڑی کے پول کو بھی ٹھو کر مار کر نیچے گرا دیا۔ یورک اگر اس کے سر کو نہ پکڑ لیتا تو وہ نہ رکتی۔ سائیس نے مجھے جنجر سے الگ کیااور گاڑی واپس اصطبل میں آگئی۔ اس سے پہلے جنجر نے دو سائیسوں کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا۔اس نے ان کو خوب ٹھوکریں ماری تھیں اور خود بھی زخمی ہوئی تھی۔
یورک اپنی بیوی کے ساتھ آیا اور ہم دونوں کو دیکھنے لگا۔ وہ بہت پریشان تھا۔ اسے افسوس تھا کہ اس نے اپنی مالکہ کے حکم پر کیوں عمل کیا۔ جب اس کی مالکہ نے لگاموں کو چھوٹا کرنے کا حکم دیا تھا تو اسی وقت اسے منع کرنا چاہیے تھا۔
خنجر کو اس روز کے بعد گاڑی میں نہیں جو تا گیا۔ اس کے زخم بھر گئے تو مالک کے لڑکے نے جنجر کو اپنے لیے مانگ لیا، کیونکہ جنجر شکار کے لیے بہت مناسب تھی۔
میں گاڑی کھینچنے کا عادی ہو گیا تھا۔ اس دفعہ مجھے نیا ساتھی مل گیا۔ چار مہینوں تک ہم نے ان لگاموں کے ساتھ جو تکلیفیں اٹھائیں، وہ نا قابل بیان تھیں۔
یہ تکلیفیں اب نا قابل برداشت ہوتی جارہی تھیں۔ کچھ دن اگر اور یہ سلسلہ جاری رہتا تو نہ جانے کیا ہوتا۔ میرے منہ سے جھاگ آنے لگے تھے۔ لوہے کے تیز ٹکڑے کی وجہ سے میری زبان اور جبڑے زخمی ہو گئے تھے، سر کی حالت بھی خراب تھی۔ میری سانس کی نالی میں بھی دباؤ بڑھ گیا تھا۔ جب میں اصطبل میں واپس آتا تو میرے منہ اور زبان میں درد ہوتا تھا۔ میری گردن اور سینے میں زخم ہو گئے تھے۔ میں بے جان، سست اور تھکا ہوا سا رہنے لگا تھا۔
میرے پرانے گھر میں جون اور میرا مالک ہمیشہ دوستوں کی طرح رہے تھے، لیکن یہاں میرا کوئی دوست نہیں تھا۔ یورک کو پتا تھا کہ لگام نے مجھے کتنی تکلیف پہنچائی ہے، لیکن اس نے میری کوئی مدد نہیں کی۔
ایک بار یورک کو کام سے جانا پڑا تو وہ ایک شخص اسمتھ کو اصطبل کی نگرانی کے لیے چھوڑ گیا۔ وہ شریف اور ذہین آدمی تھا، گھوڑوں کا خیال رکھنا خوب جانتا تھا، لیکن شراب بہت پیتا تھا۔ وہ ہر وقت تو شراب نہیں پیتا تھا، لیکن جب تھکن محسوس کرتا تو بہت پیتا تھا۔ نشے میں وہ اپنی بیوی پر ظلم کرتا تھا۔ ایک بیوی ہی کیا وہ ہر ایک کو پریشان کرتا تھا۔ ریوبن اسمتھ کی اس عادت کے بارے میں یورک جانتا تھا۔ یورک نے اس سلسلے میں ریوبن سے بات کر لی تھی۔ریوبن نے وعدہ کر لیا تھا کہ جب تک وہ اصطبل میں کام کرے گا، شراب بالکل نہیں پئے گا۔
اپریل کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ خیال تھا کہ یورک کے خاندان والے مئی میں گھر آئیں گے۔ ریوبن نے گاڑی اچھی رفتار سے چلائی۔ جب ہم گاؤں پہنچے تو پیٹ بھرنے اور آرام کے لیے میں اصطبل میں پہنچا دیا گیا۔ میری نعل کی ایک کیل ڈھیلی ہو گئی تھی۔ اس پر اصطبل کے سائیس نے کوئی توجہ نہ کی۔ کافی دیر بعد ریوبن واپس آیا اور بتایا کہ ہم ایک گھنٹے تک نہیں جائیں گے۔ اسے کچھ پرانے دوستوں سے ملنا تھا۔ وہ ان لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا چاہتا تھا۔ اسی وقت سائیس نے ریوبن کی توجہ میری نعل کی کیل پر کرائی جو بہت ڈھیلی ہو گئی تھی اور کہا:”اس کا کیا کرنا چاہیے؟“
ریوبن نے جواب دے دیا:”یہ بالکل ٹھیک ہے۔ ہم گھر پہنچ جائیں گے۔“
میں سمجھ گیا کہ اس وقت میری نعل کو دیکھنا ریوبن کو اچھا نہیں لگا۔ حالانکہ وہ ہر معاملہ پر بھر پور توجہ کرتا تھا۔ اس وقت اسے غصہ آ رہا تھا۔ رات نو بجے وہ واپس آیا تو نشے میں دھت تھا۔ ہم گھر کی طرف چل پڑے۔ ریوبن نے فوراً ہی مجھے تیز دوڑانا شروع کر دیا۔ سڑک سخت پتھریلی تھی۔ تیز بھاگنے سے میری نعل ڈھیلی ہو کر راستے میں گر چکی تھی۔ اگر ریوبن نشے میں نہ ہوتا تو اس پر ضرور توجہ کرتا، لیکن وہ تو مجھے تیز دوڑنے پر مجبور کرتا رہا۔ میرے پاؤں میں شدید درد شروع ہو گیا۔ نوکیلے پتھروں پر تیز چلنے سے کھر ٹوٹ گیا۔ کھر کے نیچے شگاف ہو گیا تھا اور اندر زخم ہو گیا تھا۔ درد میرے لیے برداشت سے باہر تھا۔ میں لڑکھڑایا اور گھنٹوں کے بل زور سے زمین پر گر پڑا۔ ریوبن اسمتھ بھی میری پیٹھ سے گر گیا۔ میں نے خود کو سنبھالا اور سڑک کے ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ چاند پوری اپنی آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ سامنے ریوبن زمین پر پڑا ہوا تھا۔ وہ ہل نہیں سکتا تھا۔ میں اس کے سانسوں کی تیز آواز سن سکا تھا۔
یہ اپریل کی ایک خاموش رات تھی۔ میں گرمیوں کی راتوں کے بارے میں سوچ رہا تھا جب میں اپنی ماں کے ساتھ سرسبز چراگاہ میں ہوتا تھا، لیکن اب میں شدید درد میں مبتلا تھا۔
پھر بہت دور سے کسی گاڑی کے پہیوں کی آوازیں میرے کانوں میں آئیں۔ مجھے امید تھی کہ کوئی نہ کوئی ہماری مدد کو ضرور آئے گا۔
آدمی رات کے بعد جب میں نے کسی گاڑی کے پہیوں اور اس کے ساتھ گھوڑے کی ٹاپوں کی آوازیں سنیں۔ جیسے ہی یہ آوازیں نزدیک ہو ئیں مجھے یوں لگا کہ جیسے وہ خنجر کے قدموں کی آوازیں ہوں۔ قریب آنے پر میں نے دیکھا وہ جنجر ہی تھی۔ میں زور سے ہنہنایا۔ گاڑی آہستہ سے رک گئی۔ ریوبن اندھیرے میں بے حرکت پڑا تھا۔ گاڑی میں سے ایک آدمی کود کر نیچے آیا اور ریوبن کے پاس پہنچا۔ اس آدمی نے کہا:”یہ مرچکا ہے۔ اس کے ہاتھ پیر ٹھنڈے ہو چکے ہیں۔“
انھوں نے ریوبن کو اوپر اٹھایا، لیکن اس میں زندگی کے آثار نہیں نظر آئے۔ پھر انھوں نے ریوبن کو زمین پر لٹا دیا۔ اس کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوئے۔ انھوں نے میرے کٹے ہوئے گھٹنوں اور میرے خراب پاؤں کا جائزہ لیا۔ دونوں آدمی سمجھ گئے کہ کیا ہوا ہے۔ وہ یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ ریوبن نے شراب پی تھی۔ انھوں نے شاید شراب بھی سونگھ لی تھی۔ وہ کچھ دیر باتیں کرتے رہے، پھر غم زدہ سے گھر کی طرف چل پڑے۔
میں لنگڑا رہا تھا۔ مجھے چلنے میں بڑی تکلیف ہو رہی تھی۔ آخر میں اصطبل پہنچ گیا۔ میرے گھٹنے کیلے کپڑے سے لپیٹ دیے گئے اور میرے پاؤں کو دوا لگا کر باندھ دیا گیا۔ میں لیٹنے کی کوشش کرنے لگا۔ اب میں سو جانا چاہتا تھا۔
دوسرے دن گھوڑوں کا ڈاکٹر آیا۔ اس نے میرے پاؤں کا اچھی طرح معائنہ کیا۔ ڈاکٹر نے کہا: ”یہ پاؤں ٹھیک ہو جائے گا۔ اسے زیادہ نقصان نہیں پہنچا البتہ چوٹ کے نشانات نہیں جائیں گے۔“
ڈاکٹر نے میرا توجہ سے علاج کیا اور کچھ عرصے بعد میں بہتر ہو گیا۔
اب ریوبن کی موت کی تحقیقات شروع ہوئی۔ سرائے کے مالک نے بتایا تھا کہ جب ریوبن گاؤں سے گیا تو وہ بہت شراب پئے ہوئے تھا۔ پھر اس نے گھوڑا بھی بہت تیز دوڑایا۔
میری نعل پتھروں پر سے مل گئی تھی، اس لیے موت کا سبب واضح ہو گیا اور مجھ پر کوئی الزام نہیں آیا۔
جب میرے گھٹنوں کے زخم بھر گئے تو مجھے ایک دو مہینے کے لیے چھوٹی سی چراگاہ میں پہنچا دیا گیا۔ وہاں اور جانور نہیں تھے۔ میں آزادی کے ساتھ پیاری پیاری گھاس پر پھرتا رہا، مگر میں اکیلا تھا۔ جنجر مجھے بہت یاد آتی تھی۔
ایک صبح دروازہ کھلا ہوا تھا کہ جنجر آتی دکھائی دی۔ میں خوشی سے ہنہنایا۔ دراصل وہ بھی اپنے مالک کے لیے کام کرتے کرتے اب تھک چکی تھی۔ اسے یہاں اس لیے بھیجا گیا تھا کہ وہ تھوڑا سا آرام کرے۔
جنجر نے مجھے بتایا کہ ہم جوانی میں ہی ختم ہو گئے ہیں۔ زندگی ہمارے لیے بہت مشکل ہو گئی ہے۔ہم دونوں نے محسوس کیا کہ ہم کیا تھے اور کیا ہو گئے ہیں۔
ایک دن ہمارا مالک چراگاہ میں آیا۔ وہ لمبے سفر سے واپس آیا تھا۔ یورک اس کے ساتھ تھا۔وہ بہت ہوشیاری کے ساتھ ہمارا معائنہ کر رہے تھے۔
ہمارا مالک بہت پریشان تھا۔ وہ کہنے لگا:”یہ گھوڑے مجھے میرے دوست نے دیے تھے۔اس کا خیال تھا کہ انھیں اچھا گھر ملے گا اور یہ میرے ساتھ رہیں گے، مگر اب تو یہ برباد ہو چکے ہیں۔جنجر کو کچھ مہینے کے لیے یہیں رہنے دو، لیکن اس کالے کو بیچ دیتے ہیں۔ یہ اب کام کانہیں رہا ہے۔“
پھر میرے مالک نے یورک کو تاکید کی:”ا سے کسی ایسے شخص کو بیچنا جو اس کا خیال رکھے۔“
پھر مجھے ٹرین کے ذریعے سے بھیج دیا گیا۔ غرض میں ایک آرام دہ اصطبل میں پہنچا، لیکن یہ اصطبل نہ بڑا تھا نہ ہوا دار۔ میرے نئے مالک کے پاس بہت سے گھوڑے اور گاڑیاں تھیں۔ وہ گاڑیوں اور گھوڑوں کو کرائے پر چلاتا تھا۔ کبھی ان گاڑیوں کو اس کے اپنے آدمی چلاتے تھے اور کبھی صرف گھوڑے کرائے پر دیے جاتے تھے۔ کبھی گاڑیاں عورتوں کو بھی کرائے پر دی جاتی تھیں۔ کچھ شریف لوگ خود بھی گاڑیاں چلاتے تھے۔ اس سے پہلے میں ہمیشہ ایسے لوگوں کے پاس بھیجا گیا جو کم از کم گھوڑا چلانا جانتے تھے، لیکن اس جگہ مجھے ہر طرح کے لوگوں نے چلایا۔
ایک دفعہ ایک شخص نے مجھے اپنے پورے خاندان کے لیے کرائے پر لیا۔ اس نے میری لگا میں بڑے بے ڈھنگے پن سے کھینچیں۔ جیسے ہی ہم روانہ ہوئے، اس شخص نے مجھے چابک سے مارنا شروع کر دیا حالانکہ میں اچھی خاصی رفتار سے چل رہا تھا۔ سڑک پر بہت سے پتھر بکھرے ہوئے تھے۔ میرے کھر میں ایک پتھر لگا۔ معمول کے خلاف کوئی بات ہو جائے تو ایک اچھے گھڑ سوار کو جلد ہی پتا چل جاتا ہے، مگر وہ تو اناڑی تھا۔ باتیں کرنے اور ہنسی مذاق میں اتنا مگن تھا کہ اس نے میری تکلیف پر کوئی توجہ نہیں کی۔ آخر اسے پتا چل ہی گیا کہ میں لنگڑا رہا ہوں۔ اس کے ایک کسان دوست نے ہمیں رکوایا اور وہ پتھر نکال دیا۔
کچھ عرصے بعد مجھے ایک شریف آدمی کو کرائے پر دیا گیا۔ وہ اس بات سے اچھی طرح واقف تھا کہ گھوڑا کیسے چلانا چاہیے۔ وہ پرانے وقتوں کا دکھائی دیتا تھا۔ اس کے برتاؤ سے میں بہت خوش ہوا۔ وہ شریف آدمی مجھے بہت پسند کرنے لگا۔ آخر اس نے مجھے خرید لیا۔
میرا نیا مالک ’بیری‘ چھوٹے سے ایک گھر میں رہتا تھا۔ وہ تاجر تھا۔ ڈاکٹر نے اس سے کہا تھا کہ گھوڑے کی سواری کرنا تمہاری صحت کے لیے بہت اچھا ہے۔ اس نے ایک اصطبل کرائے پر لیا اور ایک سائیس بھی رکھ لیا جس کا نام ’فلیچر‘ تھا۔ میرا مالک گھوڑوں کے بارے میں بہت کم جانتا تھا، لیکن وہ مجھ سے اچھا برتاؤ کرتا تھا۔ مالک نے میرے لیے گھاس، اناج،کٹی ہوئی پھلیاں اور بھوسی منگوانے کو کہا۔ میں نے سنا تو خوش ہوا۔ کچھ دن تک ہر چیز ٹھیک ٹھاک ملتی رہی۔ سائیس اصطبل اور مجھے صاف رکھتا تھا۔ کچھ دن کے بعد میں نے محسوس کیا کہ مجھے وہ کھانا نہیں مل رہا ہے جو پہلے مل رہا تھا۔ مجھے پھلیاں اور بھوسی ہی ملتی اور اناج غائب ہو گیا۔ دو تین ہفتے تک یہی کچھ دیا جاتا رہا۔ میں کم زور اور سست رہنے لگا۔
کئی مہینے اسی طرح گزر گئے۔ میں حیران تھا کہ میرے مالک نے میری خبر کیوں نہ لی!
ایک دو پہر میرا مالک مجھ پر سوار ہو کر اپنے دوست سے ملنے گیا۔ اس کا یہ دوست گھوڑوں کے بارے میں بہت کچھ جانتا تھا۔ اس نے مجھے دیکھ کر کہا:”تمہارا گھوڑا مجھے پھر تیلا اور صحت مند دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ شاید اسے خوراک صحیح نہیں مل رہی ہے۔“
میرے مالک نے بتایا کہ میں تو اسے اچھی خوراک دے رہا ہوں۔
دونوں آدمی کچھ دیر سوچتے رہے۔ میرا مالک سمجھ گیا کہ میرے کھانے میں کچھ گڑبڑ ضرور ہو رہی ہے۔ اگر میں بول سکتا تو بتاتا کہ میرا اناج غائب ہے۔ میرا سائیس میرے پاس صبح سویرے آتا تھا۔ اس کے ساتھ ایک چھوٹا لڑکا ڈھکی ہوئی ٹوکری لاتا تھا۔ وہ کمرے میں چلا جاتا اور ایک چھوٹا تھیلا اناج کے دانوں سے بھر لیتا اور لڑکا اسے لے کر گھر چلا جاتا۔
میرے مالک کو اپنے دوست سے ملے ہوئے پانچ یا چھے دن ہوئے تھے۔ جیسے ہی لڑکا اصطبل سے نکلا اور دروازے کو بند کیا، ایک پولیس والے نے اسے پکڑ لیا۔ لڑکا ڈر گیا۔ پولیس والے نے پوچھا کہ تم ہر صبح اناج کہاں سے لاتے ہو؟ اور اناج کے دانے کہاں رکھے ہوئے ہیں؟
جلد ہی پولیس والے نے فلیچر کو بھی پکڑ لیا۔ دونوں کو جیل میں بند کر دیا گیا۔ بعد میں لڑکاتو رہا ہو گیا، فلیچر کو دو مہینے کی سزا ہو گئی۔
پھر میرے مالک نے ایک نیا سائیس ملازم رکھ لیا۔ صورت شکل سے وہ اچھا معلوم ہوتا تھا، گھوڑوں کو بھی پسند کرتا تھا۔ جیسے جیسے دن گزرتے گئے اس نے مجھ پر توجہ کم کر دی۔ وہ مشکل ہی سے میری مالش کرتا تھا۔ ہفتوں اصطبل کی صفائی نہ کرتا تھا۔ اصطبل کی گندگی میں کھڑے رہنے کی وجہ سے میرے سموں میں تکلیف ہو گئی۔ میرا مالک بہت مایوس ہوا۔ دو سائیسوں کا برتاؤ وہ دیکھ چکا تھا۔ اس نے سوچا کہ گھوڑا رکھنا بہت مشکل کام ہے۔ کچھ دن بعد اس نے مجھے بیچنے کا فیصلہ کر لیا۔
ایک دن مجھے گھوڑوں کے میلے میں پہنچا دیا گیا۔ مجھے دو یا تین مضبوط گھوڑوں کے ساتھ رکھا گیا تھا۔ بہت سے لوگ مجھے دیکھنے آئے۔ مجھے جو بات سب سے زیادہ بری لگی، وہ لوگوں کا رو یہ تھا۔ وہ کھینچ کر میرا منہ کھولتے، آنکھیں اور پاؤں دیکھتے، یہاں تک کہ گوشت اور کھال بھی کھینچ کر دیکھتے۔ ان لوگوں میں کم ہی ایسے تھے جن کا رویہ صحیح تھا اور جو شریفانہ انداز میں مجھے تھپک کر دیکھتے اور نرم لہجے میں مجھ سے باتیں کرتے۔ آخر چھوٹے قد کے ایک آدمی نے مجھے پسند کرلیا۔ اس کی آنکھیں بھوری تھیں۔ وہ میرے ساتھ اچھی طرح پیش آیا، مگر اس نے میری جو قیمت لگائی وہ قبول نہیں کی گئی اور وہ چلا گیا۔ پھر سخت چہرے والا ایک آدمی میرا سودا کرنے آیا۔ اس کی آواز تیز تھی۔ میں اسے دیکھتے ہی ڈر گیا، لیکن وہ بھی چلا گیا۔ پھر کچھ اور لوگ مجھے دیکھنے آئے لیکن انھوں نے میری کوئی قیمت نہیں لگائی۔ پھر وہی سخت چہرے والاآدی دوبارہ آگیا اور میرا بھاؤ تاؤ کرنے لگا۔ اسی وقت بھوری آنکھوں والا بھی واپس آگیا۔ میں نے اپنا سر باہر کیا اور اس کے قریب ہو گیا۔ اس نے میری ناک کو تھپکا اورسخت چہرے والے سے زیادہ قیمت لگائی اور مجھے خرید لیا۔ میرے نئے مالک نے میرا رسا پکڑا اور میلے سے باہر نکل آیا۔ اس نے مجھے اناج کھلایا۔ پھر ہم گھر کی طرف روانہ ہوئے۔
بہت دور چلنے کے بعد میرا مالک چھوٹے سے ایک گھر کے سامنے رکا اور سیٹی بجائی۔
روازہ فوراً کھل گیا۔ ایک جوان عورت، ایک چھوٹی لڑکی اور ایک لڑکا دوڑ کر باہر آئے۔ ہمارابھرپور استقبال کیا گیا۔ وہ سب میرے چاروں طرف کھڑے ہو گئے اور مجھ سے پیاری پیاری آوازوں میں باتیں کرنے لگے۔ مجھے بہت خوشی محسوس ہوئی۔
میرے مالک کا نام ’جیری‘ تھا اور اس کی بیوی کا نام ’پولی‘۔ وہ بہت خوب صورت تھی۔ اس کے بال چمکیلے اور کالے، آنکھیں کالی اور دہانہ چھوٹا تھا۔ ان کے دو بچے تھے۔ لڑکا، بارہ سال کا اور لڑکی، ڈولی آٹھ سال کی تھی۔ وہ ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے۔ اس سے پہلے میں نے ایسا خوش حال خاندان نہیں دیکھا تھا۔ جیری شہر میں بگھی چلاتا تھا۔ میں دوسرے گھوڑے کے ساتھ گاڑی کھینچا تھا جس کا نام کیپٹن تھا۔
دوسرے دن پولی اور ڈولی میرے لیے سیب لائے۔ انھوں نے مجھے روٹی کے ٹکڑے بھی کھلائے۔ وہ حیران تھے کہ میرے گھٹنے کیسے خراب ہوئے۔
پہلی مرتبہ دوپہر کے وقت مجھے گاڑی میں جو تا گیا۔ جیری بہت احتیاط کرتا تھا۔ وہ دیکھتا تھا کہ جھالر اور لگام صحیح طرح لگے ہوئے ہیں یا نہیں۔ یہاں سخت لگام نہیں تھی۔
پہلے ہفتے گاڑی کو کھینچتا مجھے بہت مشکل کام لگا۔ میں شہر کے ٹریفک کی آواز کا عادی نہیں تھا لیکن جلد ہی مجھے شور سننے کی عادت ہو گئی۔ بہت تھوڑے وقت میں جیری اور میں ایک دوسرے کو سمجھ گئے تھے۔ جیری میرا اور کیپٹن کا بہت خیال رکھتا تھا۔
اتوار کا دن آرام کا ہوتا تھا۔ کیپٹن اور میں پورے ہفتے محنت سے کام کرتے تھے۔ اتوار کے دن ہمیں آرام مل جاتا تھا۔ تھوڑے وقت میں ہم بہت اچھے دوست بن گئے۔ میں نے ہر نئے اصطبل میں جا کر اپنے ساتھیوں سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ میں جلد ہی نئے گھر سے محبت کرنے لگا۔ مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے میں بہت عرصے سے یہاں رہتا ہوں۔
اپنے مالک سے زیادہ اچھا آدمی میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ وہ مجھ پر بہت مہربان تھا۔ وہ کسی سے نہیں لڑتا تھا۔ اسے وقت ضائع کرنا پسند نہ تھا۔ ایک اور چیز جو اسے پسند نہیں تھی،یہ تھی کہ گھوڑے کو تیز دوڑانے کے لیے چابک ماری جائے۔
ایک دوپہر دو دیہاتی سے نوجوان ٹیورن سے آئے۔ انھوں نے جیری کو بلایا: ”بگھی والے! جلدی چلو ہمیں دیر ہو رہی ہے۔ ہمیں اسٹیشن وقت پر پہنچا دو۔ گاڑی کے آنے میں ایک گھنٹہ ہے۔ ہم تمھیں انعام بھی دیں گے۔“
جیری نے جواب دیا:”میں تمھیں جلدی لے جاؤں گا اور اتنے ہی پیسے لوں گا جتنے بنتے ہیں۔“
ان آدمیوں نے کچھ سوچا اور پھر خاموش ہو گئے۔ شہر میں گاڑی کو تیز چلانا مشکل ہوتا ہے خاص طور پر دن کے وقت جب سڑکیں ٹریفک سے بھری ہوتی ہیں، لیکن ایک اچھا گھوڑے چلانے والا اور ایک اچھا گھوڑا مل کر کام کریں تو یہ کوئی مشکل بات نہیں۔ جیری اور میں بھیڑوالی گلیوں میں چلنے کے عادی ہو گئے تھے۔
اس دن ٹریفک رکا ہوا تھا۔ جیری اور میں بڑی ہوشیاری سے ٹریفک میں سے نکلے اور اسٹیشن پہنچ گئے۔ گاڑی آنے میں پانچ منٹ باقی تھے۔ ہماری سواریاں بہت خوش تھیں کہ انھیں ٹرین مل گئی۔
”اللہ کا شکر ہے کہ ہم وقت پر پہنچ گئے۔ تمہارا شکریہ میرے دوست اور تمہارے اچھے گھوڑے کا بھی شکریہ، تم نے ہمارے بہت سے پیسے بچا دیے۔“ ان میں سے ایک بولا اور زیادہ پیسے دینے چاہے، مگر میرے مالک نے زیادہ پیسے لینے سے انکار کر دیا۔
اس شام جب جیری نے میرے برش کیا اور کھانے کو اناج دیا تو ڈولی اور پولی کو مسافروں والاواقعہ سنایا۔ انھوں نے میرے سر کو تھپکا اور میرا شکریہ ادا کیا۔
ایک دن ہماری گاڑی پارک کے باہر کھڑی تھی۔ ہماری طرح دوسرے گاڑی والے بھی مسافروں کا انتظار کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک شخص پھٹے کپڑے پہنے، پرانی گاڑی چلاتا ہوا ہمارے قریب سے گزرا۔ گاڑی میں جتی ہوئی گھوڑی بھی بوڑھی تھی۔ اس کا سینہ پھٹا ہوا تھا۔ ہڈیاں صاف نظر آرہی تھیں۔ اس کے گھٹنے کی ہڈی اوپر کی طرف اٹھی ہوئی تھی اور اس کے پاؤں بھی ٹھیک طرح نہیں اٹھ رہے تھے۔ میں کچھ گھاس کھا چکا تھا۔ ہوا نے تھوڑی سی گھاس اس کی طرف دھکیل دی تھی۔ اس غریب مخلوق نے اپنی لمبی پتلی گردن آگے بڑھا کر گھاس اٹھا لی۔ تب وہ مڑی اور گھور کر دیکھا۔ بہت دیر تک وہ ادھر ادھر دیکھتی رہی۔ مجھے اس کی آنکھوں میں نا امیدی نظر آئی۔ میں اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ نے اسے پہلے کہیں دیکھا ہے۔
اچانک اس نے میری طرف دیکھا اور کہا: ”بلیک بیوٹی!“
وہ جنجر تھی، جو سخت کام کرتے کرتے بہت بدل گئی تھی۔ وہ میرے قریب آگئی اور درد بھری آواز میں اپنی کہانی سنانے لگی۔ ایک سال پہلے میں نے اسے کھیت میں دیکھا تھا۔ اسے پھر کام پر لگا دیا گیا تھا اور ایک نئے مالک کے ہاتھ بیچ دیا گیا تھا۔ کچھ دن وہ ٹھیک رہی، لیکن زیادہ تیزدوڑ کر کام کرنے سے اسے پرانی تکلیف دوبارہ ہو گئی۔ کچھ عرصے بعد اسے پھر بیچ دیا گیا۔ اسے کئی لوگوں نے خریدا۔ آخر وہ ایک آدمی کو بیچ دی گئی جو گھوڑوں اور گاڑیوں کو کرائے پر دیتا تھا۔
جنجر مجھے بتانے لگی: ”جب وہ میری کم زوری کو دیکھ لیتے تو کہتے کہ یہ بے کار ہے۔ وہ میری قیمت وصول کرتے اور مجھے ان لوگوں کے ساتھ جانا پڑتا۔ اس طرح وہ اپنی مرضی سے مجھے استعمال کرتے رہتے اور جو ان کا دل چاہتا،کرتے۔ وہ مجھے چابک مارتے اور مجھ سے کام لیتے۔ یہ نہ سوچتے کہ آخر میری بھی جان ہے۔ مجھے کبھی اتوار کے دن بھی آرام نہیں ملتا تھا۔“
میں نے کہا:”جب تم سے برا برتاؤ کیا جاتا تھا تو تم احتجاج کیوں نہیں کرتی تھیں؟“
اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بولی:”میں نے ایک مرتبہ ایسا کیا تھا، لیکن اس سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ انسان بہت مضبوط اور طاقت ور ہے۔ اگر وہ بے رحم بن جائے تواس کے احساسات اور جذبات سب ختم ہو جاتے ہیں۔ ہمیں کام کرنا ہی پڑتا ہے اور سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے چاہے اس میں ہماری جان ہی نکل جائے! اب تو دل چاہتا ہے کہ مرجاؤں تاکہ آنے والے دنوں کی تکلیف سے بچ جاؤں۔“
میں جنجر کے دکھ بھرے الفاظ سن کر پریشان ہوا۔ میں نے اپنی ناک اس کے اوپر رکھ دی۔اس کے سوا میں اور کیا کر سکتا تھا۔
اس نے کہا:”صرف تمہی میرے دوست ہو۔ اس سے پہلے میں نے کبھی کسی کو دوست نہیں بنایا۔“
پھر اس کی گاڑی چلانے والا آگیا۔ جنجر کو اس نے ایک جھٹکے کے ساتھ منہ کی طرف سے گھسیٹا اور چلا گیا۔
تھوڑا ہی وقت گزرا ہو گا کہ میں نے ایک مرا ہوا گھوڑا ایک گاڑی میں پڑا ہوا دیکھا۔ وہ گاڑی ہمارے اڈے سے گزری۔ گھوڑے کا سر گاڑی سے باہر لٹکا ہوا تھا اور زبان سے آہستہ آہستہ خون ٹپک رہا تھا۔ وہ منظر بڑا خوف ناک تھا۔
لوگوں کے لیے کرسمس، نئے سال کی چھٹیاں اور دوسری چھٹیاں خوشی کا سبب ہوتی ہیں لیکن گاڑی چلانے والوں اور گھوڑوں کے لیے ایسا نہیں ہے۔ کبھی کبھی کو چوان اور گھوڑے کو گھنٹوں سواری کا انتظار کرنا پڑتا ہے، چاہے سخت سردی ہو، بارش ہو یا برف باری ہو۔ خوش نصیب لوگ گھروں کے اندر خوشیاں منا رہے ہوتے ہیں اور ہمیں سخت کام کرنا پڑتا تھا۔ جیری کو کھانسی ہو رہی تھی، اس کے باوجود وہ کبھی چھٹی نہ کرتا بلکہ واپسی میں اکثر ہمیں زیادہ رات ہو جاتی۔
پولی کو ہمارا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جیری کی صحت خراب ہونے کی وجہ سے وہ فکر مند رہتی تھی۔
نئے سال کی شام کو ہم نے سٹی اسکوائر جانے کے لیے ایک گھر سے دو آدمیوں کو لیا۔ ہم نے انھیں نو بجے چھوڑا۔ انھوں نے کہا کہ ہم گیارہ بجے واپس ہوں گے۔ ہم پارٹی میں جارہے ہیں، دیر بھی ہو سکتی ہے، انتظار کر لینا۔
جب گھڑی نے گیارہ بجائے تو ہم دروازے پر تھے۔ انتظار کرتے کرتے ہمیں بارہ بج گئے۔پھر بھی دروازہ نہیں کھلا۔ ہوا بہت ٹھنڈی تھی۔ برف بھی پڑنے لگی تھی۔ جیری گاڑی سے نیچے اترا اور کمبل میری گردن پر ڈالا۔ جیری خود بھی کھانس رہا تھا۔ وہاں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی،جہاں ہوا، بارش اور برف سے بچا جاسکتا۔ سوابجے کے قریب وہ دونوں باہر نکلے اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔ انھوں نے جیری سے معذرت بھی نہ کی۔ سردی سے میرے پاؤں کانپ رہے تھے۔ جیری ڈر رہا تھا کہ کہیں گر نہ جاؤں! جب وہ آدمی گاڑی سے اترے تو بھی انھوں نے کچھ نہیں کہا اور نہ شکریہ ادا کیا۔
آخر ہم گھر پہنچ گئے۔ کھانسی کی وجہ سے جیری کی حالت خراب تھی۔ پولی کچھ نہیں بولی،لیکن وہ پریشان تھی۔ میں بھی بہت تھکا ہوا تھا۔ جیری نے مجھے کچھ کھلایا اور میرے جسم کی مالش کی۔
صبح بہت دیر ہو گئی تھی۔ اس سے پہلے کہ کوئی اصطبل میں آتا، جیری کا بیٹا آیا۔ اس نے اصطبل صاف کیا اور مجھے کھانے کو دیا۔ وہ بہت خاموش تھا۔ میں سمجھ گیا کہ کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے۔ تھوڑی دیر بعد پولی اصطبل میں آئی۔ وہ اپنے بچوں سے جو بات کر رہی تھی، میں سن رہا تھا۔ مجھے پتا چلا کہ جیری بہت سخت بیمار ہو گیا ہے۔ ڈر تھا کہ کہیں وہ مر نہ جائے۔
ایک ہفتے بعد پتا چلا کہ جیری کی حالت بہتر ہو رہی ہے، لیکن ڈاکٹر نے اس کے گاڑی چلانے پر پابندی لگا دی ہے۔ بچے باتیں کر رہے تھے کہ اب ہم کیا کریں گے؟ کس طرح اپنے باپ کی مدد کریں؟ پھر جیری کی صحت بہتر ہونے لگی۔ اسی عرصے میں اسے ایک پرانی دوستکا خط ملا۔ وہ ایک بوڑھی بیوہ عورت تھی جو کنٹری میں رہتی تھی۔ اس نے لکھا تھا کہ یہاں ایک مکان ہے جس میں تم لوگ آرام سے رہ سکتے ہو۔ یہ مکان اس کے گھر کے قریب تھا۔ وہاں جیری کوچ مین کی حیثیت سے کام بھی کر سکتا تھا۔ قریب ہی ایک اچھا اسکول بھی تھا۔ آخر یہ طے ہو گیا کہ جیسے ہی جیری تن درست ہو گا وہ کنٹری چلے جائیں گے۔ گاڑی اور گھوڑے کے لیے یہ فیصلہ ہوا کہ انھیں بیچ دیا جائے گا۔ یہ میرے لیے دکھ کی خبر تھی۔ میری صحت بھی اچھی نہیں تھی۔ میں اپنے مالک سے بہت پیار کرتا تھا۔
آخر وہ وقت بھی آگیا کہ میں اس جگہ سے رخصت ہو گیا۔ جیری کو بستر سے اٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔ میں نے اسے پھر کبھی نہیں دیکھا۔ پولی اور اس کے بچے مجھے اللہ حافظ کہنے آئے۔ پولی نے مجھ سے نرمی کے ساتھ بات کی اور کہا:”میری خواہش تھی کہ تمھیں اپنے ساتھ رکھوں،مگر……“
اس نے اپنا ہاتھ میری گردن میں ڈال دیا اور مجھے پیار کیا۔ پھر میں اپنے نئے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔
اس بار میں گندم اور بیکری کے ایک سوداگر کو بیچا گیا تھا۔ جیری اس آدمی کو اچھی طرح جانتا تھا۔ اسے یقین تھا کہ میں اچھا کام کروں گا۔ میرا نیا مالک کارکنوں کو دیکھنے ہمیشہ نہیں آتا تھا۔ وہاں اصطبل میں ایک افسر تھا جو ہمیشہ جلدی میں رہتا تھا اور ہر ایک سے تیز کام کرنے کو کہتا رہتا تھا۔ اکثر وہ مجھ پر بہت زیادہ سامان لاد دیتا تھا اور میں آرام سے کھینچ لیتا تھا۔ میرا کوچوان ’جیک‘ اکثر افسر سے کہتا تھا کہ مجھ پر زیادہ وزن نہ لادے، لیکن افسر اس کی بات کو نظر انداز کر دیتا تھا۔ اس نئی جگہ بھاری سامان اٹھاتے اٹھاتے مجھے چار مہینے ہو گئے تھے۔ میری طاقت جواب دے گئی تھی۔
ایک دن مجھ پر عام دنوں سے زیادہ وزن لاد دیا گیا۔ سڑک بھی چڑھائی والی تھی۔ میں نے اپنی پوری طاقت لگا دی، لیکن ہل بھی نہ سکا اور مجھے رکنا پڑا۔ جیک غصے میں آگیا اور مجھ پر چلانا شروع کیا: ”چلو تم سست گھوڑے ہو! چلو ورنہ میں تمھیں چابک سے ماروں گا!“
پھر اس نے مجھے بری طرح مارا۔ تیز چمڑا میرے گوشت میں گھس رہا تھا۔ میری حالت بہت خراب تھی۔ اتنے میں، میں نے ایک عورت کی آواز سنی:”ارے! مہربانی کر کے اس اچھے گھوڑے کو زیادہ مت مارو! یہ ابھی چلنا شروع کر دے گا، تم اس کی لگام کو ڈھیلا تو کرو!“
جیک نے عورت کی باتیں سنیں اور لگام کو ڈھیلا کر دیا۔ میں نے اپنے منہ کو نیچے کیا اور وزن کو ہمت کر کے کھینچا۔ آخر میں وزن اٹھا کر پہاڑی پر لے گیا۔ بوڑھی عورت فٹ پاتھ پر چلتی رہی، پھر وہ سڑک کے درمیان میں آئی اور میری گردن کو تھپکا۔ مجھے بہت اچھا لگا۔
اس نے جیک سے کہا: ”کسی گھوڑے کے لیے اتنا سامان کھینچ کر پہاڑی پر چڑھنا وہ بھی اتنی سخت لگام کے ساتھ بہت مشکل کام ہے مجھے امید ہے، آئندہ تم کبھی سخت لگام استعمال نہیں کرو گے۔“
جیک نے اقرار میں گردن ہلائی۔
اس وقت سے جیک نے میری لگام ڈھیلی ہی رکھی، لیکن پھر بھی مجھ پر بہت بھاری وزن لادا جانے لگا۔ میں برابر کم زور ہوتا جارہا تھا۔ مجھے اندھیرے اصطبل میں رکھا جاتا تھا۔ ان رویوں سے میں بہت پریشان ہوتا جارہا تھا۔ میری آنکھوں کی روشنی بھی ختم ہو رہی تھی۔ میں ہر وقت غمگین رہنے لگا تھا۔ میں اپنے نئے گھر میں بہت پریشان تھا۔ میری طاقت اور صحت جواب دے گئی تھی۔ میں زیادہ بھاری وزن اٹھانے کے قابل نہیں رہا تھا، اس لیے مجھے ایک بارپھر بیچ دیا گیا۔ میرے لئے مالک’نکولس‘ کے پاس بہت سی گاڑیاں تھیں۔ وہ بہت ظالم تھا۔اس کی آنکھیں کالی اور ناک چپٹی تھی۔ اس کا چہرہ سخت تھا۔ مسکراہٹ نام کو نہیں تھی۔ آوازبھی بہت سخت تھی۔
نکولس کے پاس بہت سی گندی گاڑیاں تھیں۔ ان گاڑیوں کو چلانے والے بھی غریب لوگ تھے۔ نکولس نے ان کی زندگی عذاب کر دی تھی۔ اس جگہ مجھے اتوار کو بھی آرام نہیں ملتا تھا۔گرمیوں کی تیز دھوپ میں بھی بہت کام کرنا پڑتا تھا۔ کبھی کبھی اتوار کی صبح مجھے شہر کے باہر بہت سارے لوگوں کو لے جانا پڑتا تھا۔ وہ مجھے اونچی نیچی پہاڑیوں پر تیز دوڑنے پر مجبور کرتے۔ میں تھک کر چور ہو جاتا۔ مجھے یاد تھا کہ جیری سخت گرمیوں کی رات میں کتنا عمدہ کھانا مجھے دیتا تھا۔
اس نئی نوکری میں نہ آرام تھا اور نہ اچھا کھانا۔ میرا اپنا کوچوان اور مالک سب سخت تھے۔ اتنی بے رحمی کے ساتھ چابک مارتا تھا کہ کبھی کبھی خون بھی کھنچ کر آجاتا تھا۔ وہ چابک میرے پیٹ اور سر پر مارتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ زندگی میں کچھ نہیں رہا اور زندہ رہنا بے کار ہے۔ میں وہ دن یاد کرتا تھا جو میں نے جیری اور اس کے خاندان کے ساتھ گزارے تھے۔ یہاں مجھ سے ایسا برتاؤ کیا جاتا تھا جیسے میں کوئی مشین ہوں۔ شاید ان کے دل میں جانوروں کے لیے محبت نہیں تھی۔ انھیں یہ احساس ہی نہیں تھا کہ جانور بھی جان دار ہوتے ہیں۔ میری زندگی بہت سخت اور مشکل ہو گئی تھی۔ مجھے کئی دفعہ جنجر کا خیال آیا۔ اب میری بھی یہ خواہش تھی کہ میں بھی مر جاؤں اور تمام تکلیفوں سے نجات پالوں۔
ایک دن صبح آٹھ بجے میں اڈے پر کھڑا تھا۔ ہمیں ایک آدمی کو اسٹیشن چھوڑنے کے لیے جانا پڑا۔ اس آدمی کو ٹرین میں سوار کرانے کے بعد کوچوان سواری کے انتظار میں وہیں رک گیا۔ تھوڑی دیر میں کچھ لوگ ہمارے پاس آئے اور کو چو ان سے گاؤں چلنے کو کہا۔ کوچوان راضی ہو گیا۔ مسافروں کے پاس بہت بھاری سامان تھا۔ لڑکی کے باپ نے گاڑی میں سامان رکھنا شروع کر دیا تھا۔ لڑکی گھوم کر میرے پاس آئی اور مجھے غور سے دیکھنے لگی۔ اس نے کہا: ”یہ غریب گھوڑا ہمیں اور ہمارے سامان کو اتنی دور نہیں لے جاسکتا۔ یہ بہت کم زور اور تھکا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ذرا آپ اس کی طرف دیکھیں تو!“
میرے کو چوان نے کہا:”بہ ظاہر یہ کم زور لگتا ہے، مگر بہت طاقت ور ہے۔“
لڑکی کا باپ بھی شک میں مبتلا ہو گیا، لیکن میرا کو چوان بہت تیز تھا۔ اس نے کچھ اس طرح میری باتیں کیں کہ وہ بھی چلنے کو تیار ہو گیا۔ انھوں نے بہت بھاری ٹرنک بھی گاڑی میں رکھ دیا۔ وزن بہت زیادہ ہو گیا تھا۔ میں نے صبح سے نہ کھانا کھایا تھا اور نہ آرام کیا تھا۔ پھر بھی اچھی رفتار سے چل رہا تھا۔ آخر ہم ایک اونچی پہاڑی پر آگئے۔ میری حالت اور بھاری سامان نے ثابت کر دیا تھا کہ میرے ساتھ بہت زیادتی ہوئی ہے۔ میں اپنے آپ کو سنبھال کر چل رہا تھا۔ مجھ پر چابک بھی پڑ رہے تھے۔ اچانک میرے پیر پھسل گئے اور میں زمین پر گر گیا۔ مجھ میں طاقت نہیں تھی کہ میں ہل بھی سکتا۔ میں نے سوچا کہ میری موت کا وقت قریب آگیا ہے۔میں غصے سے بھری ہوئی آواز یں سن رہا تھا۔ سامان اتارنے کی آوازیں بھی مجھے سنائی دے رہی تھیں۔ یہ سب مجھے خواب کی طرح لگ رہا تھا۔
پھر پیاری سی ایک آواز سنائی دی: ”ارے یہ غریب گھوڑا! یہ سب ہمارا قصور ہے۔“
کوئی آیا اور میری لگام اور کالر کو ڈھیلا کیا۔
میں نے سنا کوئی کہہ رہا تھا: ”گھوڑا مر گیا ہے۔ اب یہ کبھی نہیں اٹھ سکے گا۔“
میں نے ایک پولیس والے کو بھی حکم دیتے سنا لیکن آنکھیں نہیں کھولیں۔ میں ہلکے ہلکے سانس لے سکتا تھا اور بس! کچھ ٹھنڈا پانی میرے سر پر ڈالا گیا اور کوئی چیز میرے منہ کو کھول کرڈالی گئی۔ پھر مجھے ایک کمبل سے ڈھک دیا گیا۔ میں ٹھنڈی گلی میں کافی دیر تک پڑا رہا۔ جلد ہی میں نے محسوس کیا کہ میرے اندر جان آرہی ہے۔ میں نے ایک مہربان آواز سنی۔ وہ مجھے تھپک رہا تھا اور مجھے اٹھنے کے لیے کہہ رہا تھا۔ ایک دو دفعہ کوشش کرنے سے میں اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا۔
مجھے قریب ہی اصطبل میں لے جایا گیا۔ یہاں مجھے آرام سے رکھا گیا اور کچھ گرم کھانا دیا گیا۔ شام تک میں کافی بہتر ہو گیا اور اپنے مالک کے اصطبل میں آگیا۔
دوسرے دن صبح نکولس مجھے دیکھنے آیا۔ اس نے کہا کہ اگر میں چھے مہینے اسے مکمل آرام دوں تو پھر یہ کام کے قابل ہو جائے گا لیکن میرے پاس وقت نہیں ہے اور نہ پیسہ کہ بیمار گھوڑے کا علاج کراؤں۔ یا تو اس سے خوب کام لو یا بیچ دو۔
نکولس نے مجھے دس دن آرام کرنے دیا تاکہ میں بہتر نظر آؤں اور میری صحیح قیمت مل جا ئے۔
میں ایک بار پھر میلے میں تھا جہاں مجھے بوڑھے گھوڑوں کے ساتھ رکھا گیا۔ کچھ گھوڑے لنگڑے تھے، کچھ بوڑھے اور کچھ زخمی۔ کچھ ان میں گولی مارے جانے کے قابل تھے۔ خریدار اور بیچنے والے، غریب گھوڑوں کو زیادہ اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہے تھے۔ غریب اور بوڑھے لوگ کوشش کر رہے تھے کہ انھیں کوئی سستا سا گھوڑا مل جائے۔ گھوڑوں کے مالک کوشش کر رہے تھے کہ ان کا تھکا ہوا گھوڑا چند ڈالر میں بک جائے۔
اتنے میں، میں نے ایک مہربان انسانی آواز سنی۔ وہ آدمی کسان لگ رہا تھا۔ اس کے ساتھ چھوٹا لڑکا بھی تھا۔ وہ کسان بڑا رحم دل تھا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں عجیب چمک دیکھی۔ اس نے میری گردن کو محبت سے تھپکا۔ میں نے جواب میں اپنی ناک اس کے قریب کرلی۔
لڑکے نے کسان سے کہا: ”دادا ابا! یہ کتنا سمجھ دار ہے؟ کیا آپ اسے خرید سکتے ہیں؟ اسے آپ پھر سے جوان بنا دیں، جیسا آپ نے لیڈی برڈ کے ساتھ کیا تھا۔“
لڑکے کے دادا نے جواب دیا: ”لیڈی برڈ بوڑھی گھوڑی نہیں تھی۔ دراصل اس کو بُری طرح استعمال کیا گیا تھا، اسی لیے اس کی حالت خراب ہوئی تھی۔“
لڑکے نے کہا: ”یہ بھی بوڑھا نہیں ہے۔ بس ذرا تھکا ہوا ہے۔ اسے کچھ دن آرام کی ضرورت ہے۔“
آخر دادا نے پوتے کی بات مان لی۔ چند ڈالر میں اس نے مجھے خرید لیا۔ پھر وہ اور اس کادادا مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔
کسان کا نام ”تھارو گڈ“ تھا۔ اس نے مجھے اپنے پوتے ولی کے حوالے کر دیا۔ مجھے کھانے کواناج اور سوکھی گھاس دی گئی۔ دن میں مجھے چراگاہ میں ٹہلانے کے لیے لاتا۔ ولی میرے لیے گاجر لے آیا۔ گھنٹوں وہ میرے پاس گزار دیتا اور مجھے تھپتھپاتا رہتا۔ میں آہستہ آہستہ صحت مند ہوتا جا رہا تھا۔ میرے پاؤں بھی اچھے ہو گئے تھے۔
میں ولی اور اس کے دادا کو گاؤں کے تمام راستوں پر عمدہ گاڑی میں سیر کراتا رہتا تھا۔ تھارو گڈ بہت خوش تھا اور مجھ پر فخر کرتا تھا۔ دادا، پوتا دونوں باتیں کر رہے تھے۔ انھوں نے طے کیا کہ میرے لیے بہت اچھا سا گھر ہونا چاہیے۔
گرمی کے موسم میں میرے سائیس نے مجھے اتنا برش کیا اور میرا اتنا خیال کیا کہ میں اپنے اندر تبدیلی محسوس کرنے لگا۔ ولی بہت بے چین اور جذباتی تھا۔ جیسے ہی وہ اپنے دادا کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا، کہنے لگا: ”مجھے یقین ہے کہ عورتیں اسے پسند کریں گی۔“
دادا نے کہا:”اور یہ بھی وہاں خوش رہے گا۔“
ہم تقریباً دو میل چل کر چھوٹے سے ایک گھر میں پہنچ گئے۔ ساتھ ہی لان تھا اور اس کے سامنے درخت تھے۔ ولی نے گھنٹی بجائی اور تین بڑی عمر کی عورتیں گھر کے باہر آئیں۔ وہ مجھ سے ملنے کو بے چین نظر آرہی تھیں۔ ان میں سے ایک کا نام مس ایلن تھا۔ وہ مجھے فوراً ساتھ لے گئی۔ میرے بارے میں تھارو گڈ سے اس نے بہت سے سوال کیے۔ تھارو گڈ نے میرے بارے میں اسے سب کچھ بتایا۔
وہ عورتیں مجھے اپنے ساتھ رکھنے پر راضی ہو گئیں۔ ولی اور اس کے دادا نے مجھے تھپکا اور اللہ حافظ کہا۔
مجھے نئے اصطبل میں لایا گیا اور گرم کھانا کھلایا گیا۔ جلد ہی میرا سائیس مجھے دیکھنے آیا۔ وہ مجھے کچھ دیر گھورتا رہا:”وہ ستارہ اس کے چہرے پر ہے۔ بلیک بیوٹی پر بھی اسی قسم کاستارہ تھا۔ اس کا قد بھی بالکل اتنا ہی تھا۔“
جلد ہی وہ میری گردن کے پاس آیا اور کہا:”بہت دن پہلے یہاں میں نے انجکشن لگایاتھا۔“
پھر اس نے مجھ سے باتیں شروع کر دیں: ”سفید ستارہ اس کی پیشانی پر، ایک پاؤں سفید اور کمر پر سفید بالوں کا تھوڑا سا گچھا۔ یہ بلیک بیوٹی ہونا چاہیے۔ بلیک بیوٹی! کیا تمھیں یاد آیا کہ میں جو گرین ہوں؟ میں اس وقت ایک لڑکا تھا۔ میں اس ٹھنڈی رات میں تمھیں کمبل اڑھانا بھول گیا تھا جب تم سخت بیمار تھے۔“ اس نے مجھے تھپکنا شروع کیا۔
وہ بہت خوش دکھائی دے رہا تھا۔ میں بھی بہت خوش تھا۔ میں نے اپنی ناک اس کے اوپر رکھ دی۔ میں نے ایسا محبت کرنے والا اور خوش ہونے والا انسان کبھی نہیں دیکھا۔
اس دن کے بعد مجھے ہر تیسرے پہر کو وہ باہر لے جایا کرتے تھے۔ مس ایلن اور اس کی دو بہنیں مجھے بہت پیار کرتی تھیں۔ میں پورے سال یہاں خوش رہا۔ جو گرین بہت ہی مہربان سائیس تھا۔ میں نے اس سے پہلے ایسا سائیس کبھی نہیں دیکھا۔
میری طاقت ہر روز بڑھتی جارہی تھی۔ ولی اور تھا رو گڈ اکثر مجھے دیکھنے آتے رہتے تھے۔ اس عورت نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے کبھی نہیں بیچے گی۔ میری تکلیفیں ختم ہو گئی تھیں۔ آخر میں ایک اچھے گھر میں پہنچ گیا تھا۔