ہنری کی شرارتیں
عمیر صفدر
……
Francesca Simon کی مختلف تحریروں سے ماخوذ
……
ہنری کی شرارتوں سے سب ہی تنگ تھے۔ اس کا چھوٹا بھائی پیٹر اس کا خاص نشانہ تھا۔ ہنری اپنے بھائی پیٹر کی بالکل ضد تھا۔ ہنری کے مشاغل اور اس کے چھوٹے بھائی کی دلچسپیوں میں بہت فرق تھا۔ ہنری نے اسکول سمیت تمام محلے، بچوں کے بھی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ یوں تو ہنری اسکول میں کم ہی دلچسپی لیتا تھا لیکن اس کو اسپورٹس ڈے میں کوئی مزہ نہیں آتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ اس نے کبھی کوئی میڈل یا انعام نہیں جیتا تھا۔ اس کو کھیل میں جیتنے سے زیادہ کھیل کو خراب کرنے میں مزہ آتا تھا۔ پچھلے سال اس نے انڈہ اور چمچہ والی ریس میں انڈہ گرادیا تھا جبکہ تین ٹانگوں والی دوڑ میں جان کر ایرک کو گرا کر اس کے اوپر گر گیا تھا۔ اس کے علاوہ بوری ریس میں ٹکرانا اس کو بہت پسند تھا۔
کلاس جاری تھی اور مس جیسمین نے ایک نظر کلاس پر ڈالی ار اپنی گرجدار آواز میں سب کو اسپورٹس ڈے میں آنے کا کہا۔
”امید ہے اس مرتبہ کوئی بھی اسپورٹس ڈے کو خراب نہیں کرسکے گا۔“ مس جیسمین نے ”خراب“ کے لفظ پر زور دیتے ہوئے ہنری کی طرف غصیلی آنکھوں سے دیکھا۔
وہ جانتی تھیں کہ ہنری اس مرتبہ بھی اسپورٹس ڈے کو خراب کرے گا لیکن وہ بھی اس کو روکنے کے لیے پوری طرح تیار تھیں۔
اگر اسپورٹس ڈے میں ٹی وی دیکھنے، چپس کھانے یا چاکلیٹ کھانے کے مقابلے ہوتے تو یقینا ہنری جیت جاتا، ہنری سوچ رہا تھا کہ جب وہ ”بادشاہ“ بنے گا تو تمام ٹیچرز کو ریس لگوائے گا اور جیتنے والے ٹیچر کو ”سزا“ ملے گی۔
”تمھیں پتا ہے میں نے کیا کہا؟“ مس جیسمین نے ہنری سے پوچھا۔
”جی ہاں! اسپورٹس ڈے کینسل ہوچکا ہے۔“ ہنری نے اعتماد سے جواب دیا۔
اب مس جیسمین نے ہنری کو گھور کے دیکھا تو پھر سب کی طرف دیکھ کر کہا۔
”کوئی بھی ٹافیاں لے کر نہیں آئے گا۔ اسپورٹس ڈے میں سب کو ایک نارنگی دی جائے گی۔“ ہنری سوچ رہا تھا کہ کاش بارش ہوجائے اور اسپورٹس ڈے خراب ہوجائے۔
آخر کار اسپورٹس ڈے کا دن آپہنچا۔ صبح سے ہی ہنری نہ جانے کے بہانے تلاش کررہا تھا لیکن اس کے تمام منصوبے ناکام جارہے تھے۔ گزشتہ سال اس نے ٹانگ میں درد کا بہانہ کیا تھا لیکن اس کے ابو نے اس کو کمرے میں اچھلتا ہوا دیکھ لیا تھا اور اس کا بہانہ کسی کام نہ آسکا۔
”ہرررے!! آج اسپورٹس ڈے ہے۔“پیٹر صبح اٹھ کر چلایا۔ ”مجھے انڈے اور چمچے لے جانے ہیں۔“ پیٹر نے جب ہنری کی طرف بڑھ کر یہ کہا تو اس نے اس کو جھٹک کر دور کردیا۔ ”چلے جاؤ یہاں سے۔“ ہنری چیخا۔
”ہنری! اپنے بھائی کے ساتھ ایسے مت کرو۔“ اس کے ابو بولے۔ ”ورنہ اس ہفتے کوئی پاکٹ منی نہیں ملے گی۔“
ہنری کو اسکول میں ٹافیاں کھانے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ وہ نہایت ہوشیاری سے کلاس میں ٹافیاں کھا رہا ہوتا اور ٹیچر کو پتا بھی نہ چلتا۔ کسی میں ہنری کی شکایت لگانے کی ہمت بھی نہ تھی ورنہ وہ ہنری کی شرارتوں کا نشانہ بن جاتا۔ اس دن بھی ہنری نے اپنی جیبیں ٹافیوں سے بھرلیں اور پکا ارادہ کرلیا کہ وہ یہ ٹافیاں اسپورٹس ڈے میں اس وقت سب کے سامنے کھائے گا جب سب کو نارنگی ملے گی۔
اب پیٹر نے اپنے انڈوں کے کارٹن پیک کیے تاکہ ان کو اسپورٹس ڈے میں لے جاسکے۔ اس کو اس دوڑ کے لیے یہ لانے کو کہا گیا تھا۔
”مجھے امید ہے کہ تم دونوں جیت کے جذبے سے کھیلو گے۔ کون جیتے کون ہارے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“
”پیٹر تم اپنے بال سنوار کر جاؤ تاکہ ٹرافی کے ساتھ اچھی فوٹو آئے۔“ ہنری امی کی بات سن کر برا سا منہ بنانے لگا، اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ان انڈوں کو (جو ابلے ہوئے تھے) پیٹر سے چھین کر دیوار پر مار دے۔
اس خیال کے ساتھ ہی اچانک ہنری کے دماغ میں ایک شیطانی منصوبہ آیا۔ اس کو پتا تھا کہ پیٹر کے انڈے ابلے ہوئے ہیں اور ریس میں ابلے ہوئے انڈے لے جانے کی اجازت ہے۔ ہنری نے خاموشی سے انڈوں کے کارٹن کو وہاں سے کھسکالیا۔ اس نے فریج کو کھولا اور اس کارٹن میں فریج سے تازہ کچے انڈے ڈال کر ابلے ہوئے فریج میں رکھ دیے۔ امی نے اس کی اس حرکت کو نہ دیکھا اور کارٹن کو پیٹر کے بیگ میں رکھ دیا۔
اسکول پہنچ کر ایلکس سب سے زیادہ اچھل رہا تھا۔ اس نے نہایت محنت سے اس دن کے لیے تیاری کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے ابو نے ایک خاص انعام اس کے لیے رکھا ہے جب وہ ٹرافیاں جیت کر آئے گا تو ملے گا۔
مس جیسمین نے میگا فون پر اعلان کیا۔ ”سب تین ٹانگوں والی دوڑ کے لیے تیاری کرلیں اور اپنے پارٹنر کے ساتھ تعاون کریں۔“
اس کے ساتھ ہی انھوں نے ریس میں حصہ لینے والے لڑکوں کا نام لینا شروع کردیا۔
ہنری کے ساتھ نام آنے پر میکس چیخ اٹھا۔ ”نہیں!!!“ میکس کے لیے یہ کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا لیکن اب کچھ نہ ہوسکتا تھا۔ آخر ریس شروع ہوئی۔ میکس نے ہنری کو لائن کے سیدھی طرف دوڑنے کا کہا لیکن ہنری نے بائیں جانب کی طرف رخ کرکے دوڑنا شروع کردیا۔ اس طرح دونوں نے اپنے برابر والے لڑکوں کو دھکا دے دیا جو صرف ہنری کی میکس کی بات نہ ماننے سے ہوا، اس طرح ہنری نے کسی خاص محنت کے بغیر ہی دوڑ میں افراتفری مچادی اور سب ایک دوسرے پر گر پڑے۔
اگلا مرحلہ انڈوں اور چمچے کی ریس کا تھا اور ہنری اسی لمحے کے انتظار میں تھا۔ سب لڑکوں نے قطار بنائی۔ انڈے چوں کہ پیٹر کے ذمہ تھے اس لیے ہنری نے ایک نظر پیٹر پر ڈالی اور کھسیانی سی ہنسی ہنسا۔
انڈے کچے تھے لیکن کسی کو اس کا اندازہ نہیں ہوا کیوں کہ وہ چمچ پر رکھ کر دیے گئے تھے، جب سب نے دوڑ میں آگے بڑھنے کی کوشش کی تو انڈے کی زردی اندر سے ہلی اور انڈہ کسی سے بھی بیلنس نہ ہوسکا۔ اب کے باری باری انڈے گرنے لگے۔
”آہ! میرے جوتے خراب ہوگئے۔“ ایرک نے روتے ہوئے کہا۔
”میری نئی بین ٹین والی قمیض!“ اسمتھ نے اپنی قمیض کو پکڑ کر چیختے ہوئے کہا۔
”انڈے لانے کی ذمہ داری کس کی تھی؟“ مس جیسمین نے گرجتے ہوئے پوچھا۔
”میری! لیکن میں تو ابلے ہوئے لایا تھا۔“ پیٹر روہانسا ہو کر بولا۔
”تم اب کھیلوں سے باہر ہوگئے ہو۔“ پیٹر یہ سن کر رو پڑا۔ ہنری اس کو روتا دیکھ کر بڑی مشکل سے اپنی خوشی چھپا سکا۔ اس کے لیے یہ اسپورٹس ڈے ”سب سے اچھا“ بنتا جارہا تھا۔
”والدین! پلیز آپ لوگ واپس جائیں۔ ہم اگلی دوڑ کی طرف جارہے ہیں۔“ مس جیسمین نے میگا فون پر اعلان کیا۔
ہنری نے اب تک ہر ریس کو خراب ہی کیا تھا، چاہے وہ بوری والی ریس میں ایلکس کو دھکا دینا ہوتا، اپنی ہی ٹیم کو ساتھ پڑی کیچڑ میں کھینچ کر لانا ہو۔ اس کے علاوہ رکاوٹوں والی ریس میں آنے والی ہر رکاوٹ کو گرا کر دوسروں کے لیے بھی مشکلات کھڑی کیں لیکن آخری دوڑ میں نہ جانے کیوں ہنری کو جیتنے کا خیال سوجھا۔ سو میٹر کی اس دوڑ میں سب کو سیدھے ٹریک پر بھاگنا تھا۔ جب تمام شرکاء اپنی جگہوں پر پہنچ گئے تو سیٹی بجی اور ریس شروع ہوگئی۔“
سب کے والدین اپنے بچوں کے نام لے کر ان کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔
ہنری نے اپنی جیبیں ٹافیوں سے بھری ہوئی تھیں اور اس کو پتا تھا کہ تمام بچے آج صبح ہی ٹافیوں کے ”بھوکے“ ہیں۔ اس نے اپنی جیب سے ٹافیاں نکالیں اور سب سے پہلے گراہم کی جانب اچھالیں جو ٹافیوں کا سب سے زیادہ لالچی تھا۔ گراہم نے اپنی جانب آتی ٹافیاں دیکھ کر رکنا چاہا۔ ٹافیاں زمین پر گر گئیں اور ان کو اٹھانے کے لیے جھکا۔
”اس کو جھکتا دیکھ کر باقی بچے بھی ٹافیاں حاصل کرنے کے لیے لپکے۔
ہنری کا منصوبہ کامیاب ہوگیا تھا۔ اس نے اپنے سے آگے بھاگنے والے کو ٹافیاں دکھاتے ہوئے پیچھے کی طرف پھینک دیں۔ مس جیسمین نے اب تک نارنگیاں نہیں تقسیم کی تھیں اور تمام بچے کسی ”ٹافی نما“ چیز کے لیے بے چین تھے جو کہ وہ خود مس جیسمین کے ڈر کی وجہ سے نہ لاسکے تھے۔
”اور ونر ہیں …… ہن…… ہنری۔“ مس جیسمین نے بمشکل ونر کا نام پکارا۔
جب سب نے ٹافیوں سے فرحت حاصل کی تو انہیں پتا چلا کہ ان کے ساتھ ”دھوکا“ ہوا ہے۔ ہنری نے اپنے چھوٹے بھائی پیٹر کا کندھا تھپتھپایا اور کہا۔ ”کوئی بات نہیں پیٹر، تم نے جیت کے جذبے سے کھیلا، اگر نہیں جیت سکے تو کیا ہوا۔“ اور ساتھ ہی ایک قہقہہ بلند کیا۔
ہنری کی شرارتیں روز بروز جاری تھیں۔ ہنری کی پسندیدہ چیزوں میں ”پیسہ“ بھی شامل تھا۔ اس کو پیسہ پکڑنے میں جو لطف آتا وہ اس کو بیان نہیں کرسکتا تھا لیکن ایک مسئلہ تھا۔ ہنری کے پاس کبھی پیسے ہوئے ہی نہیں تھے۔ اس نے اپنا خالی پیسے جمع کرنے کا ڈبہ ہلایا اور تعجب کے ساتھ سوچا کہ آخر وہ محض پچاس پینی فی ہفتہ میں کیسے کچھ بچا بھی سکتا ہے۔ آخر اس کے امی ابو اس کی تمام ضروریات کیوں نہیں پوری کرتے۔
کامک بکس، چاکلیٹ اور نئی فٹ بال اس کے علاوہ اس کو اپنے ”قلعہ“ کے لیے مزید سپاہی درکار تھے۔ یہ صحیح ہے کہ اس کے کمرے میں ہر طرف کھلونے بکھرے تھے لیکن وہ ان سے نہیں کھیلنا چاہتا تھا۔
”مم“۔ ہنری نے اپنے کمرے سے ہی پکارا۔
”چیخنا بند کرو۔ اگر کچھ کہنا ہے تو نیچے آکر کہو۔“ ہنری کی امی نے اس کو جھاڑا۔
”مجھے مزید پاکٹ منی چاہیے۔ ایلکس ہر ہفتے دو پاؤنڈ لیتا ہے۔“
”میرے خیال میں پچاس پینی مناسب ہیں۔“ ہنری کا چھوٹا بھائی پیٹر بولا۔ ”میں تو اپنی پاکٹ منی سے خوش ہوں اور اس سے تیس پینی ہر ہفتے بچاتا بھی ہوں۔“
ہنری سے یہ برداشت نہ ہوسکا اور پیٹر کو زور سے چٹکی بھری۔
”آ…… آ“ پیٹر کے چیختے ہی امی نے ہنری کی پہلے والی پاکٹ منی بھی بند کرنے کا اعلان کردیا۔
”نہیں!!!“
”اب تم خود ہی پیسے اکٹھے کرو۔ میں تم کو نہیں دوں گی۔“ امی نے فیصلہ سنایا۔
”کیا! میں خود پیسے اکٹھے کروں!“ اس کے ساتھ ہنری کے دماغ میں ایک اور خیال کوندا۔ اس نے اپنی امی کی طرف فیصلہ کن انداز میں دیکھا اور کہا۔ ”ٹھیک ہے لیکن میں اسٹال لگا کر سارا کباڑ فروخت کروں گا تاکہ آپ کو بھی روزانہ کی صفائی سے آزادی ملے۔“
”ٹھیک ہے لیکن ایک شرط پر۔“ امی نے کہا۔ ”تم کو پیٹر کو بھی ساتھ ملانا ہوگا اس سارے کام میں۔“
ہنری پہلے تو سٹپٹایا لیکن پھر پیسے آنے کے خیال سے مان گیا۔
ہنری نے گھر کا پرانا سامان اکٹھا کرنا شروع کیا اور سارا اسٹور چھان مارا۔ ہنری نے جب اسٹال پر سامان رکھا اور پیٹر نے ایک نظر سامان کو دیکھا اور حیران ہوگیا۔
”یہ تو ابو کا پسندیدہ ریکٹ ہے۔ تم نے اس کو یہاں کیوں رکھا۔“ پیٹر نے ہنری کی طرف دیکھا لیکن ہنری غصے میں آگیا۔
”تم چپ کھڑے رہو اور سامان بیچنے میں میری مدد کرو۔“
ہنری کو معلوم تھا کہ وہ پیٹر کے بغیر اسٹال نہیں لگا سکتا جو کہ امی کی واحد شرط تھی لیکن اب پیٹر سے چھٹکارا حاصل کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا ورنہ وہ اس کے ”سامان“ کا سارا پول کھول کر رکھ دیتا۔ اس کے شیطانی دماغ میں ایک اور ترکیب آئی۔ اس نے پیٹر کی طرف ایک نظر دیکھا۔
اس کے ذہن میں قدیم رومیو کے اس سلوک کے بارے میں ایک خیال آیا تھا جو وہ اپنے قیدیوں کے ساتھ کرتے تھے۔ اس نے ایک بار پھر سوچا اور پھر پیٹر سے مخاطب ہوا۔
”پیٹر کیا تمھیں معلوم ہے کہ تم بھی پیسے کماسکتے ہو۔“
”وہ کیسے؟“ پیٹر نے حیرانی سے پوچھا۔
”ہم تمھیں ایک ”غلام“ کی حیثیت سے فروخت کرسکتے ہیں۔“ ہنری نے اپنا منصوبہ پیش کیا۔
”مجھے کتنے ملیں گے۔“
”روز کے دس پینی۔“ ہنری نے کہا۔
”ٹھیک ہے۔ اس طرح میں اپنا پیسے جمع کرنے کا ڈبہ بھی بھرسکوں گا۔“ پیٹر خوش ہوگیا۔
ہنری نے اپنے چھوٹے بھائی کے گلے میں ”برائے فروخت، صرف ۵ پینی“ کی تختی لٹکادی اور پھر اس کو اسٹال پر کھڑا کردیا۔
اتنی دیر میں سامنے سے مارک آتا ہوا دکھائی دیا۔
”یہ سامان کیسا ہے۔ کیا بیچنے کے لیے ہے۔“ مارک نے پوچھا اور تعجب سے پیٹر کی طرف دیکھا۔
”جی ہاں۔ ہمارے پاس کھلونے، پزل، کامیکس اور یہ ایک غلام بھی ہے۔“ ہنری نے پیٹر کی طرف اشارہ کیا۔
”غلام! کیسا غلام۔“ مارک نے حیرت انگیز انداز میں کہا۔
”اگر آپ کو ہوم ورک سے لے کر اپنے کمرے کی صفائی وغیرہ کرانی ہو تو یہ غلام حاضر ہے صرف ۵ پینی میں۔“
”ٹھیک ہے۔ ڈن!“ مارک نے اپنے ڈھیر سارے ہوم ورک کے لیے پیٹر جیسے ”پڑھاکو“ بچے کی آفر کو فوراً قبول کرلیا اور اس کو گھر لے جا کر ڈھیر سارا ہوم ورک اس کے آگے کردیا جو پٹر کے لیے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ جب پیٹر ”دوسرے“ کے ہوم ورک سے فارغ ہوا تو اس کے سامنے مارک نہایت پھیلا ہوا کمرہ تربیت سے کرنے کا کہا جو کہ اس نے کبھی زندگی میں نہیں کیا تھا لیکن پیٹر روزانہ اپنے کمرے کو سمیٹ کر رکھتا تھا اس لیے یہ بھی اس نے فوراً ہی کردیا۔ ادھر ہنری نے پیٹر کی ”ایڈوانس بکنگ“ کر رکھی تھی۔
اس طرح ہنری نہ صرف پیٹر کو اسٹال سے دور رکھنے میں کامیاب ہوگیا بلکہ اس نے پیٹر کے کمائے ہوئے اضافی پیسے بھی ہڑپ کرلیے۔ اس کے ساتھ ہی وہ ویسا سارا سامان بیچنے میں کامیاب ہوگیا جو پیٹر کی موجودگی میں ناممکن تھا۔
ہنری کی پیسے کی لالچ ناصرف بڑھ چکی تھی بلکہ اب اس کو مونوپلی کھیلنے میں زیادہ سے زیادہ پیسے حاصل کرنے میں مزہ آرہا تھا لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا۔ اس کے دوستوں میں شامل وہ دوست جو اس کے ساتھ یہ کھیل کھیلنے کے خواہش مند تھے، وہ ہنری کی چالوں سے اچھی طرح واقف ہوچکے تھے اور اب کسی طرح ہنری کو ”بے ایمانی“ کرنے سے باز رکھتے تھے۔
اس دن جب ہنری کے گھر کھیلنے کے لیے اس کا دوست مارک آیا تو ہنری نے اسے ”مونوپلی“ کھیلنے کی آفر کی۔ پیٹر بھی ہنری کے اس خیال سے خوش ہوگیا کیوں کہ اسے بھی مونوپلی بہت پسند تھا۔
”میں بینک ہوں کیوں کہ میں مہمان آیا ہوں۔“ مارک نے فوراً بینک بننے کی ضد شروع کردی۔
”ٹھیک ہے۔ ویسے بھی جیتنا میں نے ہی ہے۔“ ہنری نے پکا ارادہ کرلیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو وہ آج تمام جائیدادیں حاصل کرکے ان کے ذریعے سب سے زیادہ رقم اکٹھی کرکے جیت جائے گا۔
اس نے اسٹال سے ”اصلی پیسہ“ کمالیا تھا لیکن اس کا ”مونوپلی منی“ کمانے کا خواب پورا ہونا مشکل دکھائی دے رہا تھا۔
کھیل شروع ہوا اور قسمت نے ہنری کا ساتھ نہیں دیا، پیٹر نے ہمیشہ کی طرح اپنی ذہانت سے جائیدادیں اکٹھی کرنا شروع کردیں۔
مارک جو کہ بینک بھی خود تھا اپنے اثاثے بڑھانے میں ناکام رہا۔ آخر کار ہنری اپنی ”ذلت“ کو برداشت کرنے میں ناکام ہوگیا۔ وہ کسی طرح بھی ”مونو پلی منی“ حاصل کرنا چاہتا تھا کیوں کہ اس کے نزدیک اب اس کی اہمیت ”اصلی“ سے زیادہ ہوچکی تھی۔
پیٹر نے بینک سے تمام پیسہ اپنی طرف سمیٹ لیا اور مارک بھی اچھا خاصا پیسہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا لیکن ہنری اپنی چالاکیاں نہ دکھا سکا اور سب سے کم جائیداد اور پیسہ حاصل کرکے شکست کے قریب پہنچ گیا۔
پھر اچانک ہنری کے ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا۔ وہ نظر بچا کر بینک سے پیسے اٹھا کر اپنی طرف ڈالنے کا سوچنے لگا لیکن اس کا یہ حربہ بے کار ہوچکا تھا کیوں کہ مارک بینک بن کر پیسے کی حفاظت کررہا تھا اور اس نے ہنری سے بینک کو کافی دور رکھا ہوا تھا۔ ہنری نے اپنے نئے خیال کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے واش روم جانے کا بہانہ کیا اور پھر اگلے ہی لمحے وہ مارک کے گھر کے دروازے کی گھنٹی بجا رہا تھا۔ اس کی امی نے دروازہ کھولا اور حیرت سے ہنری کی طرف دیکھا۔
”آنٹی ہم لوگ مونوپلی کھیلنا چاہتے ہیں۔ آپ پلیز مارک کا مونو پلی گیم بھی لادیں۔“
”تو مارک خود کیوں نہیں آیا لینے۔“ اس کی امی نے حیرت سے کہا۔
”وہ دراصل میں اپنی سائیکل اس کو نہیں دینا چاہ رہا تھا اور وہ صرف میری سائیکل لے جانے کی شرط پر گیم لانے کا کہہ رہا تھا۔“
مارک کی امی نے تعجب سے ہنری کی طرف دیکھا اور اس کو مارک کا مونوپلی گیم لا کر دے دیا۔
اب ہنری نے گھر میں داخل ہوتے ہی اس میں سے ڈھیر سارے پیسے اپنی جیب میں ڈالے اور دوبارہ گیم میں آن شامل ہوا۔
”تم نے اتنی دیر لگادی۔ پیٹر نے بینک کے سارے اثاثے حاصل کرلیے ہیں اور اب وہ سب سے زیادہ امیر ہے۔“ مارک نے ہنری سے کہا لیکن ہنری نے نہایت ہوشیاری سے جیبیں خالی کرکے مارک کی مونوپلی کے پیسے اپنے پاس جمع کرلیے۔
”تو پھر میں جیت گیا۔ ہورے ے!“ پیٹر نے خوش ہو کر کہا لیکن ہنری نے اس کی ساری خوشی اس وقت ختم کردی جب ہنری نے اپنی فتح کا اعلان کیا۔
آخر کار جب اختتام پر ٹوٹل ہوا تو واقعی ہنری کے اثاثے اور پیسے سب سے زیادہ تھے۔ پیٹر کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیسے ہوا اور مارک اپنے دماغ مونوپلی جیسے گیم کے بجائے اپنے ”ہوم ورک“ میں استعمال کرنا چاہتا تھا۔ اس نے ہنری کو جیت کی مبارکباد دی اور اپنے گھر ہولیا۔
پیٹر حساب کرتا رہ گیا اور ہنری اپنی ”کامیابی“ پر بہت خوش تھا۔
(انگریزی ادب سے ماخوذ)