شاطر چال
تحریر: The Three Gables
مصنف: Arthur Conan Doyle
ترجمہ وتلخیص:شہباز شاہین
………
میں آپ کو اپنے دوست کے ایک ایسے کارنامے کے بارے میں بتانے لگا ہوں جو انتہائی ڈرامائی انداز میں شروع ہوا۔ میں نے ہومز کو کئی دنوں سے نہیں دیکھا تھا اور مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ آج کل وہ کس قسم کی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ لیکن اس صبح جب میں اس کے پاس پہنچا تو وہ خوش باش تھا۔ ہم دونوں آتش دان کے سامنے آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ ہومز نے ہم
دونوں کے لیے چائے منگوائی۔ہم اسے پینے ہی لگے تھے کہ ہمارا مہمان آگیا۔ اگر میں یہ کہوں کہ ایک پاگل بیل کمرے میں آگیا، تو اس جملے سے صورتحال مزید واضح ہوجائے گی۔
دروازہ اچانک کھلا اور ایک دیوہیکل حبشی دندناتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔ وہ اگر اتنا خوفناک نہ ہوتا تو یقینا مضحکہ خیز شخصیت کا مالک ہوتا کیوں کہ اس نے بھڑکیلے سرخ رنگ کا سوٹ اور پیلے رنگ کی ٹائی لگا رکھی تھی۔ منہ بڑا سا تھا اور ناک بڑی لمبی اور اس کی آنکھیں بھی خاصی دہشت ناک سی تھیں۔
اس نے پوچھا: ”دونوں میں سے ہومز کون ہے؟“
ہومز نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنا ہاتھ بلند کر دیا۔ ہمارا مہمان درشتگی سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کہنے لگا: ”اچھا! تو تم ہو…… ہونہہ! میری بات غور سے سنو، مسٹر ہومز! تم دوسروں کے معاملات میں اپنی ٹانگ مت اڑایا کرو، سمجھ میں آیا۔ دوسروں کو اپنا کام کرنے دو۔ بات سمجھ میں آگئی؟“
ہومز بولا: ”گفتگو کرتے رہو، مجھے لطف آرہا ہے۔“
حملہ آور طیش میں آکر بولا: ”آہا……! مزہ آرہا ہے، بہت خوب! میں ابھی اپنے گھونسے سے تمہاری خبر لے لوں تو شاید پھر تمہیں مزہ نہیں آئے گا۔ میں تمہارے جیسے لوگوں کو خوب اچھی طرح جانتا ہوں۔ اگر وہ میرے ہاتھوں میں آجائیں تو پھر اچھے نظر نہیں آتے۔ مسٹر ہومز! اچھی طرح یہ بات سمجھ لو۔“ وہ یہ کہہ کر اپنا بھاری بھر کم گھونسہ میرے دوست کے سامنے لہرانے لگا۔ ہومز نہایت دلچسپی سے اس کا مشاہدہ کررہا تھا۔ اس نے دریافت کیا: ”تمہاری باتوں کو ہم سنجیدگی سے لیں یا……“
میرے دوست کی آواز میں برف جیسی سردی تھی۔ میں نے مہمان کے سخت رویے کو دیکھتے ہوئے اپنا آہنی ڈنڈا مزید سختی کے ساتھ پکڑ لیا تھا۔ وہ ہم دونوں کے بدلتے انداز دیکھ کر کچھ نرم پڑگیا، کہنے لگا: ”میں نے آپ کو خبردار کر دیا ہے۔ میرا ایک دوست یہ چاہتا ہے کہ تم بیرنی کے راستے سے ہٹ جاؤ…… تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں …… تم اپنی ٹانگ نہ اڑاؤ۔ سمجھ میں آگیا؟ تم قانون نہیں اور میں بھی قانون نہیں ہوں۔ اگر تم ہماری راہ میں آئے تو ہمارے ہاتھ کھل جائیں گے، یہ مت بھولنا۔“
ہومز نے پرسکون آواز میں کہا: ”میں کچھ عرصے سے تمہاری ہی تلاش میں تھا۔ میں تم سے بیٹھنے کے لیے نہیں کہوں گا کیونکہ تم سے سخت بدبو آرہی ہے لیکن کیا تم مشہور مکے باز، سٹیوڈ ہی ہو؟“
”ہاں، میرا یہی نام ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تم یہ باتیں اپنے تک ہی محدود رکھوگے۔“
ہومز مہمان کے چوڑے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا: ”مجھے علم ہے کہ تم کیوں چھپتے پھر رہے ہو۔ ابھی حال ہی میں ایک کافی کی دکان کے باہر نوجوان ”پر کنس“ کا قتل ہوا ہے…… ارے یہ کیا، تم کہاں جا رہے ہو؟“
حبشی حیران اور پریشان ہو کر چند قدم پیچھے ہٹ گیا تھا اور اس کا چہرہ زرد ہوگیا۔ وہ کہنے لگا: ”میں تمہاری بکواس سننے کے لیے نہیں آیا۔ مسٹر ہومز! پرکنس سے میرا کیا تعلق؟ جب یہ لڑکا اس دنیا سے رخصت ہوا تو میں برمنگھم میں تھا۔“
ہومز بولا: ”سٹیوڈ! مجھے امید ہے کہ تم جج کو سب کچھ صاف صاف بتاؤگے۔ میں تمہاری ہی نگرانی کررہا تھا اور بیرونی سٹاک ڈیل بھی……“
”مسٹر ہومز! آپ یہ کیسی باتیں کررہے ہیں۔“
”مجھے سب کچھ معلوم ہو چکا ہے۔ اچھی طرح سمجھ لو۔ مجھے جب تمہاری ضرورت ہوئی، تمہیں اٹھوا لوں گا۔“ہومز نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
”اوہ…… مسٹر ہومز! صبح بخیر! میں اب چلتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ آپ میرے جاتے ہی آج کی یہ ملاقات بھول جائیں گے۔“
”تم یہاں سے صرف اس وقت ہی جا سکتے ہو جب یہ بتاؤ گے کہ تمہیں کس نے یہاں بھیجا ہے؟“ شرلاک ہومز نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”ارے آپ کو نہیں معلوم مسٹر ہومز؟ یہ کوئی راز کی بات نہیں، یہ وہی شخص ہے جس کا ابھی آپ نے نام لیا ہے۔“
”اور اسے کس نے کام میں لگایا ہے؟“
”میں نہیں جانتا۔ اس نے مجھے صرف یہ کہا تھا کہ شرلاک ہومز کے پاس جاؤ کہ اگر تم بیرنی کے راستے میں آئے تو تمہاری زندگی کی خیر نہیں۔“
ہمارے مہمان نے جواب کا بھی انتظار نہیں کیا اور جس تیزی کے ساتھ آیا تھا، اسی تیزی کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گیا۔ ہومز مسکراتے ہوئے پائپ پینے لگا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ کہنے لگا: ”واٹسن! مجھے خوشی ہے کہ تم نے اس کا سر نہیں کھولا، میں نے دیکھ لیا تھا کہ تمہاری انگلیاں آہنی ڈنڈے پر جم گئی ہیں لیکن یہ شخص دراصل بے ضرر ہے۔ لمبا چوڑا ضرور ہے لیکن احمق ہے۔ اسے آسانی سے خوفزدہ کیا جا سکتا ہے۔ تم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ یہ سپنر جان گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ بھی کچھ گندے کاموں میں ملوث رہا ہے۔ میں ذرا فارغ ہو جاؤں، تو اس گینگ سے نمٹوں گا۔ اس کا سرغنہ، بیرنی خطرناک آدمی ہے۔ وہ قاتلانہ حملوں، دہشت گردی اور اسی قسم کے کاموں میں خصوصی مہارت رکھتا ہے۔ لیکن فی الحال میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟“
”لیکن یہ شخص تمہیں دھمکیاں کیوں دے رہا تھا؟“
”ہیروویلڈ معاملے کی وجہ سے، میں نے یہ کیس اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ خاصا جاندار ہے۔“
”لیکن یہ ہے کس قسم کا؟“
”میں تمہیں بتانے ہی والا تھا کہ یہ مزاحیہ شخص درمیان میں آگیا۔ یہ لو، یہ بیگم مبرلی کا خط ہے۔ اسے پڑھ لو پھر ہم بات کریں گے۔“
میں خط پڑھنے لگا: ”جناب شرلاک ہومز! آج کل میں جس گھر میں ہوں، اس سے متعلق عجیب و غریب حادثات مسلسل ظہور پذیر ہو رہے ہیں۔ میں اسی سلسلے میں آپ سے مدد چاہتی ہوں۔ آپ کل کسی بھی وقت گھر میں مجھ سے مل سکتے ہیں۔ میرا گھر ویلڈ اسٹیشن سے چند قدم فاصلے پر ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ میرے مرحوم شوہر، مورٹمر مبرلی کو نہیں بھولے ہوں گے جو آپ کے ابتدائی گاہکوں میں سے تھے۔
آپ کی مخلص
میری مبرلی
گھر کا پتا یہ درج تھا……”دی تھری گبیل، ہیروویلڈ“
ہومز کہنے لگا: ”واٹسن! آؤ اب ہم تار بھجوا آئیں۔ مجھے امید ہے کہ معاملہ تم سمجھ گئے ہو گے۔“
٭……٭
ریل کے مختصر سے سفر اور مختصر سی چہل قدمی کے بعد ہم گھر کے سامنے پہنچ گئے۔ اینٹوں اور لکڑی سے تعمیر کردہ عالیشان کوٹھی ایک ایکڑ کے رقبے پر پھیلی ہوئی تھی مگر باغات وغیرہ خاصے اجڑے ہوئے نظر آرہے تھے۔ گھر کے اوپری حصے میں تین تکونیں بنی ہوئی تھیں، انہیں کی وجہ سے مکان کو ’دی تھری گیبل‘ کہا جاتا تھا۔ یہ جگہ پہلی نظر میں اجاڑ اور سنسان نظر آئی اگرچہ گھر کے اندرونی حصے کی تزئین و آرائش خوبصورت اور قیمتی تھی۔ خاتون نے بڑے پرتپاک انداز میں ہمارا استقبال کیا۔ وہ خاصی بوڑھی خاتون تھیں مگر انتہائی معزز اور مہذب!
ہومز ان سے کہنے لگا: ”مادام! مجھے آپ کے شوہر اچھی طرح یاد ہیں حالاں کہ خاصا عرصہ پہلے انہوں نے اپنے کسی معاملے کو حل کرنے کے لیے میری خدمات حاصل کی تھیں۔“
”آپ پھر میرے بیٹے ڈگلس سے بھی واقف ہوں گے۔“
ہومز نے نہایت دلچسپی سے انہیں دیکھا اور پھر پوچھا: ”اف! میرے خدا! آپ ڈگلس مبرلی کی والدہ ہیں؟ میں اسے زیادہ نہیں جانتا لیکن یقینا سارا لندن اس نام سے واقف ہے۔ آہا! وہ بڑی شاندار شخصیت کا مالک ہے! وہ اب کہاں ہے؟“
”مر چکا ہے، مسٹر ہومز! وہ مر چکا ہے! وہ روم میں اتاشی بن کر گیا تھا۔ پچھلے ہی مہینے بے ہوشی کے عالم میں اس جہان سے چل بسا۔“
”مجھے یہ سن کر بہت افسوس اور صدمہ ہوا۔ وہ بہت زندہ دل اور باغ و بہار شخصیت کا مالک تھا۔ وہ تو زبردست طریقے سے زندگی گزار رہا تھا، اس کا ریشہ ریشہ زندگی کو پوجتا تھا۔“
”جی ہاں مسٹر ہومز! اس نے زندگی کو کچھ زیادہ ہی شدت سے لے لیا اور زندگی نے آخر اسے تباہ کر ڈالا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ وہ ایک خوبصورت اور ہنس مکھ نوجوان تھا لیکن آپ نے مایوس، پژمردہ اور بیمار ڈگلس کو نہیں دیکھا۔ اس کا دل ٹوٹ گیا تھا۔ صرف ایک ماہ میں میرا ہنس مکھ بچہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا۔“
”کوئی کاروبار میں نقصان وغیرہ ……ایسا تو کچھ نہیں تھا؟“
”کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے۔ لیکن مسٹر ہومز! اس وقت میں نے آپ کو اپنے بدقسمت بیٹے کے بارے میں گفتگو کرنے نہیں بلایا۔“
”ڈاکٹر واٹسن اور میں آپ کی ہر ممکن مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔“
”پچھلے چند دنوں سے یہاں عجیب و غریب واقعات ظہور پذیر ہو رہے ہیں۔ میں ایک سال سے اس گھر میں مقیم ہوں چوں کہ میں ایک پرسکون اور فارغ شدہ زندگی گزارنا چاہتی ہوں، اس لیے پڑوسیوں سے نہیں ملتی جلتی۔ تین دن پہلے مجھے ایک شخص کی طرف سے پیغام ملا جو اپنے آپ کو اسٹیٹ ایجنٹ بتاتا تھا۔ لکھا تھا کہ اس کے ایک گاہک کو یہ گھر بہت پسند آیا ہے۔ اگر آپ فروخت کرنے کی حامی بھر لیں تو وہ منہ مانگی قیمت دینے کے لیے تیار ہے۔ مجھے اس پیش کش پر خاصی حیرت ہوئی کیوں کہ اس علاقے میں خاصے گھر خالی پڑے ہیں اور انہیں بھی پسند کیا جا سکتا تھا لیکن ظاہر ہے میں اس پیش کش میں دلچسپی لینے لگی۔ میں نے اسے قیمت بتائی اور جس قیمت پر یہ مکان خریدا تھا، اس سے پانچ سو پاؤنڈ زیادہ رکھے۔ ایجنٹ نے فوراً میری بولی قبول کرلی۔ اس نے پھر یہ بتایا کہ اس کا گاہک مکان کا فرنیچر بھی خریدنا چاہتا ہے۔ اس کی بھی بولی لگادیں۔ میرے گھر کا فرنیچر خاصا پرانا اور قیمتی ہے، آپ خود دیکھ سکتے ہیں۔ اس لیے میں نے اس کی خاصی بھاری قیمت بتائی۔ اس نے یہ قیمت بھی فوراً منظور کرلی۔ میں بچپن سے سیر و سیاحت کی بہت شوقین ہوں۔ اب مجھے اتنی رقم مل رہی تھی جس کے ذریعے نہ صرف میں آسانی سے دنیا گھوم لیتی بلکہ بقیہ زندگی آرام سے کاٹ سکتی تھی۔“
”وہ شخص جب کل میرے پاس آیا تو معاہدہ مکمل کر لایا۔ خوش قسمتی سے میں نے وہ معاہدہ ’سٹرو‘ صاحب کو دکھایا جو میرے وکیل ہیں اور قریب ہی رہتے ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا، یہ بہت انوکھی دستاویز ہے کیوں کہ اگر آپ نے اس پر دستخط کر دیئے تو قانونی طور پر آپ اپنے گھر سے کوئی چیز، باہر نہیں لے جا سکیں گی…… حتیٰ کہ اپنا ذاتی سامان بھی نہیں؟“
”جب وہ ایجنٹ شام کو میرے پاس آیا تو میں نے اس طرف اس کی توجہ دلائی اور اسے بتایا کہ میں نے صرف فرنیچر فروخت کرنے کی ہامی بھری تھی۔ وہ کہنے لگا: ”نہیں، نہیں، ہم سب چیزیں خریدنا چاہتے ہیں۔“
”کیا میرے کپڑے بھی؟ میرے زیور بھی؟“ میں نے پوچھا۔
”وہ بولا ٹھیک ہے، آپ اپنی ذاتی اشیا اپنے ساتھ لے جائیں لیکن گھر سے باہر جانے والی ہر چیز جانچ پڑتال کے بعد باہر جائے گی۔ میرا گاہک بہت آزاد خیال ہے لیکن اس کی اپنی روش ہے اور وہ اپنے طریقے سے کام کرنا پسند کرتا ہے۔ وہ سب کچھ لیتا ہے یا پھر کبھی نہیں لیتا۔“
”میں نے اس سے کہا، میں کچھ بھی نہیں دوں گی۔ یوں اس مقام پر آکر معاملہ رک گیا لیکن یہ سب کچھ مجھے اتنا غیر معمولی معلوم ہوا کہ میں نے سوچا کہ……“
اس موقع پر پراسرار انداز میں گفتگو رک گئی کیوں کہ ہومز نے ہاتھ بلند کرکے خاتون کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا تھا۔ وہ پھر ایڑیوں کے بل چلتا ہوا بند دروازے کی طرف گیا اور جھٹکے سے دروازہ کھول دیا۔ ایک موٹی تازی عورت اپنے وزن کے بوجھ سے اندر چلی آئی۔ ہومز نے ہاتھوں سے اسے پکڑا تو اس کی گرفت میں آکر مچھلی کی طرح مچلنے تڑپنے لگی۔ وہ اپنے آپ کو چھڑوانے کے لیے بھرپور کوشش کررہی تھی۔
آخر وہ پھولی ہوئی سانسوں میں کہنے لگی: ”مجھے چھوڑو تم کیا کررہے ہو؟“
”سوزان! یہ کیا ہورہا ہے؟ یہ سب کیا ہے؟“
”مادام! میں آپ کے پاس یہ پوچھنے کے لیے آرہی تھی کہ کیا آپ کے مہمان کھانا کھائیں گے کہ اچانک اس آدمی نے مجھے اندر گھسیٹ لیا۔“
”مجھے پچھلے پانچ منٹ سے اس کی موجودگی کا علم تھا لیکن میں آپ کے دلچسپ بیان کو توڑنا نہیں چاہتا تھا۔ شاید تمہیں پتا نہیں سوزان کہ تم خرخراتے ہوئے سانس لیتی ہو؟ جاسوسی کے لیے تمہاری سانسیں بہت اونچی ہیں، یہ کام چھوڑ دو۔“ ہومز سنجیدگی سے بولا۔
سوزان غصے سے ہومزکو دیکھنے لگی لیکن اس کے چہرے پر حیرت کے تاثرات زیادہ نمایاں تھے۔ ”ویسے تم کون ہو؟ اور اس طریقے سے مجھے گھسیٹنے کا حق تمہیں کس نے دیا؟“
”دراصل میں تمہاری موجودگی میں تمہاری مالکن سے ایک سوال پوچھنا چاہتا تھا۔ بیگم مبرلی! کیا آپ نے کسی کو بتایا ہے کہ آپ مجھے خط لکھ کر مجھ سے مدد مانگ رہی ہیں؟“
”جی نہیں، مسٹر ہومز، میں نے کسی کو نہیں بتایا۔“
”خط کس نے سپرد ڈاک کیا تھا؟“
”سوزان نے۔“
”آہا، میرا بھی یہی خیال تھا۔ سوزان، اب تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے کس کو یہ پیغام بھجوایا کہ تمہاری مالکن میری خدمات حاصل کررہی ہے؟“
”یہ جھوٹ ہے، میں نے کسی کو پیغام نہیں بھجوایا۔“
”سوزان! ایک بات اچھی طرح یاد رکھو۔ خر خر کرنے والے لوگ زیادہ عرصہ تک زندہ نہیں رہتے اور جھوٹ بولنا بہت بری بات ہے۔ بتاؤ، تم نے کسے پیغام بھجوایا تھا؟“
اس کی مالکن چلا کر کہنے لگیں: ”سوزان! مجھے یقین ہو گیا ہے کہ تم ایک دھوکے باز عورت ہو۔ مجھے اب یاد آیا کہ تم صحن میں کھڑی کسی سے باتیں کررہی تھیں۔“
وہ عورت روکھے انداز میں بولی: ”وہ میرا ذاتی معاملہ ہے، آپ اپنے کام سے کام رکھیں۔“
ہومز بولا: ”فرض کرو، اگر ہمیں یہ علم ہوجائے کہ تم نے بیرنی سٹاک سے باتیں کی تھیں تو پھر؟“
”اگر تمہیں یہ بات معلوم ہے، تو مجھ سے کیا پوچھنا چاہتے ہو؟“
”مجھے پہلے شک تھا لیکن اب یقین ہوگیا۔ سوزان! میری بات غور سے سنو، اگر تم یہ بتا دو گی کہ بیرنی کے پیچھے کون ہے، تو تمہاری جیب میں دس پاؤنڈ آسکتے ہیں۔“
”وہ ایک ایسی شخصیت ہے جو تمہارے ہر دس پاؤنڈ کے مقابلے میں ایک ہزار پاؤنڈ دے سکتا ہے۔“
”آہا یعنی وہ ایک امیر آدمی ہے؟ نہیں نہیں، تم مسکرا رہی ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ کوئی عورت ہے۔ دیکھواب ہم اتنی دور تک آگئے ہیں، تم اس کا نام بتاؤ اور اپنے پیسے کھرے کرو۔“
”میں جہنم میں چلی جاؤں گی لیکن……“
”سوزان! منہ سنبھال کر بات کرو، تم کیسی زبان استعمال کررہی ہو۔“
”میں ابھی یہاں سے جا رہی ہوں۔ میں نے بہت باتیں برداشت کرلیں۔“ یہ کہہ کر وہ تیزی سے دروازے کی طرف بڑھی۔
”سوزان خدا حافظ۔ خرخراہٹ کا فوری توڑ وہ دوا ہے جو……“ لیکن وہ ناراض عورت جلدی سے باہر نکل گئی اور دروازہ دھماکے سے بند ہو گیا۔
ہومز اس کے جاتے ہی مڑتے ہوئے کہنے لگا: ”یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ آپ نے دیکھا ہے کہ یہ گینگ کتنی ہوشیاری سے کھیل کھیل رہا ہے۔ آپ کا خط رات کے دس بجے سپرد ڈاک کیا گیا لیکن اس کے باوجود سوزان نے نہایت سرعت کے ساتھ بیرنی کو اطلاع دے دی۔ بیرنی کے پاس اپنے گاہک کے پاس جانے اور اس سے ہدایات لینے کا وقت تھا۔ اس آدمی یا عورت نے…… عورت اس لیے کہ جب میں نے آدمی کہا، تو سوزان ہولے سے مسکرائی تھی اور مجھے شک ہو گیا کہ وہ عورت ہے…… منصوبہ ترتیب دے دیا یعنی حبشی سٹیوڈ کی خدمات حاصل کرکے صبح گیارہ بجے مجھے دھمکی دی گئی۔ یہ سارا کام بہت تیزی سے ہوا۔“
”لیکن یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟“ بیگم مبرلی نے حیرت سے پوچھا۔
”جی ہاں، یہ ہی تو بنیادی سوال ہے۔ آپ سے پہلے یہ گھر کس کا تھا؟“
”ایک ریٹائرڈ بحری کپتان کا جس کا نام فرگوسون تھا۔“
”وہ کس قسم کی شخصیت کا مالک تھا؟“
”مجھے اس کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں۔“
”میرا خیال تھا کہ شاید اس نے کوئی ایسی چیزگھر میں کسی جگہ دفن کررکھی ہو۔ آج کل لوگ اپنی قیمتی اشیا بینک میں رکھتے ہیں لیکن بعض لوگ دیوانے ہوتے ہیں۔ وہ نہ ہوں تو ان کے بغیر یہ دنیا بوجھل اور اداس ہو کر رہ جائے۔ میرا خیال تھا کہ یہ لوگ کسی دفن کی ہوئی شے کے پیچھے ہیں لیکن پھر وہ فرنیچر کیوں خریدنا چاہتے ہیں۔ آپ کے پاس یقینا شیکسپیئر کے زمانے کا فرنیچر تو نہیں۔“
”جی نہیں، میرے پاس صرف ایک نایاب چیز ہے…… ایک سو سال پرانا ٹی سیٹ۔“
”لیکن یہ بات معمے کو حل نہیں کر سکتی۔ اس کے علاوہ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ واضح طور پر یہ کیوں نہیں بتا رہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ اگر آپ کے ٹی سیٹ پر ان کی نظر ہے تو وہ کیا چاہتے ہیں؟ اگر آپ کے ٹی سیٹ پر ان کی نظر ہے تو وہ باآسانی منہ مانگی قیمت دے کر اسے خرید سکتے ہیں۔ ہونہہ، اب میں سمجھنے لگا ہوں کہ آپ کے پاس کوئی ایسی چیز ہے جس کی اہمیت کا اندازہ آپ کو نہیں اور اگر آپ کو اس چیز کے بارے میں علم ہو گیا تو پھر آپ کبھی اسے فروخت نہیں کریں گی۔“ شرلاک ہومز گہری فکرمندی کے ساتھ بول رہا تھا۔
میں نے فوراً کہا: ”ہاں میرا بھی یہی خیال ہے۔“
”ڈاکٹر واٹسن بھی یہ سمجھتے ہیں۔ یوں ایک اہم نکتہ ہمارے سامنے آگیا ہے۔“
”لیکن مسٹر ہومز، وہ کون سی شے ہو سکتی ہے؟“
”میں آپ سے چند سوالات پوچھنا چاہتا ہوں، ہوسکتا ہے ذہنی ورزش کے ذریعے کوئی اور قیمتی نکتہ ہمارے سامنے آجائے۔ آپ اس گھر میں کب سے رہ رہی ہیں؟“
”تقریباً ایک سال سے۔“
”ہونہہ! یہ خاصا عرصہ ہے۔ اس طویل عرصے کے دوران کسی نے آپ سے کوئی چیز نہیں مانگی لیکن اب اچانک تین چار روز سے آپ کے سامنے مطالبات آنے لگے ہیں۔ آپ اس بات سے کیا سمجھیں؟“
”میرا خیال ہے کہ اس بات سے یہی ظاہر ہے کہ وہ چیز جیسی بھی ہے، حال ہی میں گھر میں آئی ہے۔“
ہومز بولا: ”آہا، ایک اور نکتہ طے ہو گیا۔ بیگم مبرلی، اب آپ نے حال ہی میں کوئی شے خریدی ہے؟“
”جی نہیں، میں نے اس ہفتے کوئی نئی چیز نہیں خریدی۔“
”میرا بھی یہی خیال تھا۔ یہ بہت انوکھی بات ہے۔ میرا خیال ہے آنے والا وقت ہمیں یقینا کچھ نہ کچھ بتائے گا۔ آپ کے وکیل کیا بااعتماد شخص ہیں؟“
”سٹرو صاحب بہت قابل اعتبار آدمی ہیں۔“
”آپ کی کوئی اور ملازمہ بھی ہے یا صرف سوزان ہی تھی جو ابھی آپ کے دروازے کو توڑتے توڑتے رہ گئی۔“
”ایک نوجوان لڑکی بھی میرے ہاں کام کرتی ہے لیکن وہ رات یہاں نہیں رکتی۔“
”آپ پھر ایسا کریں کہ دو تین راتوں کے لیے سٹرو صاحب کو اپنے ہاں بلالیں۔ آپ کی جان کو خطرہ ہے۔“
”لیکن مجھ پر کون حملہ کرے گا؟“
”یہ کسی کو نہیں معلوم کیونکہ ابھی تک معاملہ انتہائی پیچیدہ ہے۔ میں یہ نہیں جان سکا کہ وہ کسی چیز کے پیچھے ہیں، اسی لیے میں معاملہ دوسرے پہلو سے جاننے کی کوشش کرتے ہوئے مرکزی شخصیت تک پہنچنے کی کوشش کروں گا۔ اس اسٹیٹ ایجنٹ نے کیا آپ کو اپنا کارڈ دیا تھا؟“
”جی ہاں لیکن اس کارڈ پر صرف اس کا نام اور پیشہ ہی لکھا ہوا ہے۔ پینس جانسن۔ سٹیٹ ایجنٹ۔“
”میرا خیال ہے۔ یہ نام فون ڈائریکٹری میں نہیں ملے گا۔ دیانت دار لوگ اپنے کاروبار کا پتا نہیں چھپاتے۔ بہرحال اگر کوئی نئی بات سامنے آئے تو آپ فوراً مجھ سے رابطہ قائم کیجئے۔ میں نے آپ کا معاملہ ہاتھ میں لے لیا ہے اوراعتماد رکھیں کہ میں پوری چھان بین کروں گا۔“
جب ہم ہال میں گزرنے لگے تو ہومز کی آنکھیں چاروں طرف کا جائزہ لینے لگیں۔ ان سے کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی تھی۔ جب اس نے کونے میں پڑے ہوئے بیسیوں ٹرنکوں اور بیگوں کو دیکھا تو وہ چمکنے لگیں۔ ان پر یہ لیبل چسپاں تھے:
”میلان…… لوسرن۔“ یعنی ٹرنک اٹلی سے آئے تھے۔ خاتون کہنے لگیں: ”یہ میرے بدقسمت بیٹے ڈگلس کی اشیاء ہیں۔“
”آپ نے انہیں کھولا کیوں نہیں؟ یہ یہاں کب آئے تھے؟“
”پچھلے ہی ہفتے آئے ہیں۔“
”لیکن آپ نے تو کہا تھا کہ…… یقینا کھوئے ہوئے سراغ کا تعلق ان سے ہو سکتا ہے۔ ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ ان کے اندر کوئی قیمتی چیز نہیں؟“
”مسٹر ہومز، ان ٹرنکوں میں یقینا کوئی قیمتی شے نہیں۔ بیچارے ڈگلس کی تنخواہ معمولی تھی اور سامان بھی مختصر تھا۔ اس کے پاس کونسی قیمتی شے ہو سکتی ہے؟“
ہومز گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ آخر وہ کہنے لگا۔”بیگم مبرلی، آپ دیر مت کریں۔ ان چیزوں کو ابھی اوپر اپنی خواب گاہ میں لے جائیں، انہیں کھول کر ان کا معائنہ کریں اور دیکھیں کہ اندر کیا کیا چیزیں ہیں؟ میں کل آکر آپ سے تفصیل سنوں گا۔“
جب ہم باہر آئے تو ہمیں جلد علم ہو گیا کہ دی تھری گیبل کی سخت نگرانی ہو رہی ہے کیونکہ جب ہم گلی کے کونے تک آئے تو ہم نے دیکھا کہ حبشی باکسر ایک سائے کی اوٹ میں کھڑا ہوا ہے۔ اس کی پشت ہماری طرف تھی۔ ہم نے اچانک اسے جا لیا۔ وہ اس اجاڑ جگہ پر زیادہ خوفناک اور ڈراؤنا نظر آرہا تھا۔ ہومز اسے دیکھتے ہی اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ تلاش کرنے لگا۔
”مسٹر ہومز، آپ شاید اپنا پستول تلاش کررہے ہیں؟“
”ارے نہیں، سٹیوڈ، میں اپنی عطر کی شیشی ڈھونڈ رہا ہوں۔“
”مسٹر ہومز، آپ بہت مزاحیہ انسان ہیں، میں نے ٹھیک کہا ہے نا؟“
”سٹیوڈ، میری بات غور سے سنو۔ اگر میں تمہارے پیچھے لگ گیا، تو تمہارے لیے یہ کوئی مزاحیہ بات نہیں ہوگی۔ میں نے آج صبح ہی تمہیں خبردار کر دیا تھا۔“
”مسٹر ہومز! بات یہ ہے کہ میں آپ کی کہی ہوئی باتوں پر غور کر چکا ہوں اور اب آپ کی مدد کرنے کے لیے تیار ہوں۔“
”بہت خوب! مجھے اب یہ بتاؤ کہ اس سارے بکھیڑے کے پیچھے کون ہے؟“
”مسٹر ہومز، خدا کی قسم مجھے کچھ نہیں معلوم میں آپ کو پہلے بھی بتا چکا ہوں۔ میں صرف اپنے باس بیرنی سے احکامات لیتا ہوں اور بس۔“
”ٹھیک ہے مگر یہ بات کان کھول کر سن لو کہ گھر کی خاتون اور ان کی ہر چیز میری حفاظت میں ہے۔ یہ بات مت بھولنا۔“
”مسٹر ہومز، میں یاد رکھوں گا۔“
جب ہم اسٹیشن کی طرف چلنے لگے تو ہومز کہنے لگا: ”واٹسن! میں نے اسے بتادیا ہے کہ اگر کوئی ایسی ویسی حرکت ہوئی تو سب سے پہلے وہ پھنسے گا۔ اگر وہ جانتا ہے کہ اس سارے بکھیڑے کے پیچھے کون ہے تو وہ دھوکا دینے کی کوشش کرے گا۔ میری خوش قسمتی ہے کہ میں سپنسر جان کے گروہ کے بارے میں کچھ جانتا ہوں۔ خیر واٹسن یہ معاملہ لینگڈیل پائک کا ہے، میں اسی سے ملنے جا رہا ہوں۔ امید ہے کہ مسئلہ صاف کر لوں گا۔“
میں نے پھر ہومز کو دن کے بقیہ حصے میں نہیں دیکھا لیکن مجھے علم تھا کہ وہ اپنا وقت کیسے گزار رہا ہے۔ لینگڈیل پائک وہ انسانی کتاب تھی جس کے ذریعے ہر قسم کے معاشرتی سکینڈلوں کا علم ہوجاتا تھا۔ یہ پراسرار سا پست قامت شخص اپنا زیادہ تر وقت سینٹ جیمز سٹریٹ کے کلب میں گزارتا تھا۔ یہ شہر میں گھومنے والی سب افواہوں کو وصول بھی کرتا اور بھجواتا بھی تھا۔ وہ ردی اخبارات کو سنسنی خیز خبریں دے کر اپنی روزی کماتا تھا۔ لندن کی خفیہ اور پوشیدہ زندگی کے راز اس سے چھپے نہیں رہ سکتے تھے۔ ہومز اکثر اس کی مدد کرتا اور بدلے میں اس سے معلومات لیتا تھا۔
جب میں اگلی صبح اپنے دوست سے ملا تو اس کے رویے سے مجھے علم ہو گیا کہ سب کچھ ٹھیک ہے لیکن ہمیں علم نہیں تھا کہ جلد ہی ایک پریشانی ہمارے پاس آنے والی ہے۔ وہ تار کی شکل میں آئی۔
”براہ کرم فوراً آجائیں۔ میری موکلہ کے گھر رات کو چوری ہو گئی ہے۔ پولیس تفتیش کررہی ہے…… سٹرو۔“
ہومز اسے پڑھ کر سیٹی بجاتے ہوئے کہنے لگا: ”ڈرامہ میری توقع سے بہت پہلے بحران میں داخل ہو گیا ہے۔ واٹسن، اس سارے کھیل کے پیچھے ایک طاقت ور شخصیت کا ہاتھ ہے اور مجھے حیرت اس لیے نہیں کیونکہ میں نے اس کے بارے میں بہت سی باتیں سن لی ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے ایک نہیں بلکہ بہت سی باتیں سن لی ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے ایک فاش غلطی کر دی۔ رات کو تمہیں وہاں سونا چاہیے تھا۔ وکیل صاحب تو مٹی کے مادھو ثابت ہوئے، خیر، اب کیا ہوسکتا ہے۔ ہمیں دوبارہ ہیرو ویلڈ جانا پڑے گا۔“
جب ہم دی تھری گیبل پہنچے تو وہاں حالات کل کی بہ نسبت بالکل مختلف تھے۔ گھر کے اجڑے باغ میں آس پڑوس کے کچھ لوگ گفتگو میں مصروف تھے۔ جب ایک بوڑھے سے بات ہوئی تو انہوں نے اپنا تعارف وکیل کی حیثیت سے کروایا۔ ان کے ساتھ ہی سرخ و سفید چہرے والا انسپکٹر کھڑا تھا۔ اس نے ہومز کا استقبال ایک پرانے دوست کی طرح کیا۔
”مسٹر ہومز، یہ مقدمہ آپ جیسی ہستی کے لیے غیر اہم ہے۔ عام سی چوری ہوئی ہے، ہماری بیچاری عام سی پولیس اسے سنبھال لے گی۔ کسی قسم کے ماہر کی ضرورت نہیں۔“
ہومز کہنے لگا: ”مجھے یقین ہے کہ تفتیش بہت اچھے ہاتھوں میں ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ ایک عام سی چوری ہے۔“
”جی ہاں! ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ چور کون ہیں؟ ہم جلد انہیں گرفتار کرلیں گے۔ یہ بیرنی سٹاک ڈیل کے گروہ کا کارنامہ ہے۔ خصوصاً ایک لمبے حبشی کا…… لوگوں نے اسے گھر کے آس پاس دیکھا تھا۔“
”بہت خوب! چور کیا چیزیں چرا کر لے گئے ہیں؟“
”خوش قسمتی سے انہوں نے زیادہ چیزیں نہیں چرائیں۔ بیگم مبرلی کو کلوروفارم دے دیا گیا اور گھر تو پہلے ہی…… آہا، خاتون خود آرہی ہیں۔“
ہماری موکلہ بہت کمزور اور بیمار نظر آرہی تھیں۔ انہیں ایک نوخیز لڑکی نے سہارا دیا ہوا تھا۔
وہ کمرے میں داخل ہوتے ہی شرمندہ مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگیں: ”مسٹر ہومز، آپ نے مجھے بہت اچھا مشورہ دیا تھا لیکن صد افسوس کہ میں نے اس پر عمل نہیں کیا۔ میں دراصل سٹرو صاحب کو تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی مگر اس طرح خود غیر محفوظ ہوگئی۔“
وکیل وضاحت کرتے ہوئے کہنے لگے: ”میں نے آج صبح ہی ساری تفصیل سنی ہے۔“
خاتون بولیں: ”مسٹر ہومز نے مجھے گھر میں کسی دوست کو ٹھہرانے کا مشورہ دیا تھا۔ میں نے ان کا مشورہ نظر انداز کر دیا اور اب قیمت چکا رہی ہوں۔“
ہومز نے کہا: ”آپ خاصی بیمار نظر آرہی ہیں۔ شاید آپ یہ نہیں بتا پائیں گی کہ کیا واقعہ پیش آیا ہے۔“
انسپکٹر اپنی نوٹ بک تھپتھپاتے ہوئے کہنے لگا: ”اس میں ساری باتیں درج ہیں۔“
”لیکن پھر بھی خاتون اگر زیادہ تھکی ہوئیں نہیں تو کیا وہ……“
”میں آپ کو سب کچھ بتاتی ہوں۔ ویسے بھی بتانے کے لیے چند ہی باتیں ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس مکار سوزان نے چوروں کو گھر کے اندر آنے کا راستہ بتایا ہوگا۔ وہ گھر کے کونے کونے سے واقف تھے۔ جب میرے منہ پر کلوروفارم سے بھیگا ہوا کپڑا رکھا گیا، تو میں ایک لمحے کے لیے ہوش میں آئی لیکن جلد بے ہوش ہو گئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں کتنے عرصے تک بے ہوش رہی۔ جب ہوش میں آئی تو دیکھا کہ ایک آدمی میرے بستر کے پاس کھڑا ہے جب کہ دوسرا میرے بیٹے کا ایک ٹرنک کھولے بیٹھا تھا۔ اس نے ہاتھ میں ایک پیکٹ سا پکڑا ہوا تھا۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ چھلانگ مار کر اس شخص کو پکڑ لیا۔ وہ فرار ہونے سے پہلے میرے شکنجے میں آگیا۔“
انسپکٹر کہنے لگا: ”آپ نے بہت بڑا خطرہ مول لیا۔“
”میں اس سے چمٹ گئی لیکن اس نے مجھے پیچھے دھکیل دیا۔ اسی دوران دوسرے نے شاید میرے سر پر کوئی وزنی چیز ماری کیونکہ میں دوبارہ بے ہوش ہو گئی۔ میری چیخوں کی آواز سن کر میرے سامنے والے پڑوسی آگئے۔ انہوں نے پولیس کو بلا لیا لیکن پولیس کے آنے سے پہلے ہی بدمعاش فرار ہو گئے تھے۔“
”وہ کیا لے کر گئے ہیں؟“ ہومز نے پوچھا۔
”مجھے یقین ہے کہ وہ کوئی قیمتی چیز لے کر نہیں گئے۔ میرے بیٹے کے ٹرنکوں میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی۔“
”انہوں نے کوئی سراغ نہیں چھوڑا۔“
”جب میں نے اس شخص کو پکڑا، تو اس نے ہاتھ میں ایک کاغذات کا پلندہ سا پکڑا ہوا تھا۔ چھینا جھپٹی میں ایک کاغذ کا آدھا ورق میرے ہاتھ میں رہ گیا۔ اس میں لکھی ہوئی تحریر میرے بیٹے کی ہے۔“
انسپکٹر کہنے لگا: ”وہ ورق کسی کام کا نہیں، اب سوال یہ ہے کہ اگر چور……“
ہومز مداخلت کرتے ہوئے بولا:”ایک منٹ ٹھہریے جناب! اس قسم کے معمولی سراغ بھی کبھی کبھی بہت اہم ثابت ہوتے ہیں۔ میں وہ ردی ورق دیکھنا چاہتا ہوں۔“
انسپکٹر نے اپنی جیب سے جیبی کتاب نکال کر اس میں سے ایک ورق نکال لیا۔ وہ خودنمائی کرتے ہوئے کہنے لگا: ”میں نے آج تک اتنی خراب تحریر نہیں پڑھی، مسٹر ہومز، یہ میں آپ کو بتا رہا ہوں اور میں نے یہ بات اپنے پچیس سالہ تجربے سے اخذ کی ہے۔ ویسے اسی قسم کے کاغذات پہ انگلیوں کے نشان موجود ہونے کا امکان ضرور ہوتا ہے۔“
ہومز اس ورق کا غور سے معائنہ کرتے ہوئے کہنے لگا: ”انسپکٹر، آپ کے خیال میں یہ ورق کسی مسودے کا حصہ ہے؟“
ہومز بولا: ”میرے خیال میں تو یہ کسی بے تکے ناول کا آخری حصہ ہے۔“
ہومز بولا: ”میرے خیال میں بھی یہ کسی انوکھی کہانی کا آخری حصہ ہے۔ اس ورق کے اوپر صفحہ نمبر بھی درج ہے۔ یہ دو سوپچیس ہے۔ بقیہ دو سو چوبیس صفحات کہاں ہیں؟“
”بھئی ظاہر ہے چور انہیں اڑا کر لے گئے۔ خدا ہی ان سے پوچھے۔“
”لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں کہ اس حقیر سی تحریر کو چرانے کے لیے انہوں نے گھر میں نقب لگائی۔ انسپکٹر، اس نکتے سے آپ کے ذہن میں کسی خاص بات نے سر ابھارا؟“
”جی ہاں، یہی بات کہ بدمعاش بہت جلدی میں تھے اور ان کے سامنے جو چیز آئی، وہ اسے لے اڑے۔ اب وہ بغلیں بجا رہے ہوں گے۔“
بیگم مبرلی کہنے لگیں: ”لیکن میرے بیٹے کی چیزوں کی خصوصی طور پر تلاشی کیوں لی گئی؟“
”اس لیے کہ جب انہیں نیچے کوئی قیمتی چیز نہیں ملی، تو انہوں نے اس پر قسمت آزمانے کا فیصلہ کر لیا۔ میری سمجھ میں تو یہی آتا ہے۔ مسٹر ہومز! آپ کا کیا خیال ہے؟“
”انسپکٹر، مجھے سوچنے کے لیے کچھ وقت چاہیے، واٹسن، تم میرے ساتھ کھڑکی کے قریب آؤ۔“ جب ہم دونوں کھڑکی کے پاس ساتھ ساتھ کھڑے ہوگئے تو ورق پڑھنے لگا۔ وہ جملے کے درمیان سے شروع ہو رہا تھا۔ اس میں لکھا ہوا تھا۔
”اس کے زخموں سے مسلسل خون بہہ رہا تھا لیکن جب اس نے وہ خوبصورت سا چہرہ دیکھا تو ساری تکلیف بھول گیا، وہ اس چہرے کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے کے لیے تیار تھا۔ وہ چہرہ اس کی تکلیف اور ذلت دیکھ رہا تھالیکن وہ مسکرا رہا تھا۔ ہاں، خدا کی قسم وہ مسکرا رہا تھا۔ وہ ایک بے حس بدروح نظر آرہا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب اس کے اندر سے محبت مرگئی اور نفرت زندہ ہوئی۔ انسان کسی نہ کسی مقصد کے لیے زندہ رہتا ہے۔ میرے پیارے دوست، میرے لیے اگر تمہارے دل میں کوئی جگہ نہیں تو تمہیں آنے والے وقت کے لیے تیار رہنا ہوگا، میں بدلہ لے کر رہوں گا۔“
ہومز نے انسپکٹر کو مسکراتے ہوئے ورق واپس کیا اور بولا: ”اس میں واقعی انوکھے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ لیکن کیا آپ نے یہ دیکھا کہ آخر میں، اس بڑی تیزی سے ’میں‘ تبدیل ہو گیا ہے۔ لگتا ہے کہ لکھاری کہانی میں اتنا جذب ہو گیا کہ وہ نقطہ عروج کے وقت اپنے آپ کو ہیرو کی جگہ سمجھنے لگا۔“
انسپکٹر ورق کو دوبارہ اپنی نوٹ بک میں رکھتے ہوئے کہنے لگا: ”میرے خیال میں یہ بے کار سا پرزہ ہے۔ مسٹر ہومز، آپ کو یہ اہم کیوں لگ رہا ہے؟“
”میرا خیال ہے کہ یہ مقدمہ اب انتہائی تجربہ کار ہاتھوں میں ہے لہٰذا یہاں میرا کوئی کام نہیں۔ بیگم مبرلی، آپ نے مجھے بتایا تھا کہ آپ سیر و سیاحت کی بہت شوقین ہیں۔“
”مسٹر ہومز! میں ہمیشہ سے اس کا خواب دیکھتی چلی آئی ہوں۔“
”آپ سب سے پہلے کہاں جانا چاہیں گی…… قاہرہ، میڈرڈ یا ایتھنز؟“
”اگر میرے پاس رقم آگئی تو میں پوری دنیا کی سیر کرنا چاہوں گی۔“
”آہا، دنیا کی سیر…… اچھا، صبح بخیر، میں شام کو آپ سے رابطہ کرنے کی کوشش کروں گا۔“
جب ہم کھڑکی کے قریب سے گزرے تو میں نے دیکھا کہ انسپکٹر ہمیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے سر ہلا رہا ہے۔ میں نے اس کی مسکراہٹ کا مطلب یہی نکالا: ”عقل مند لوگ ہمیشہ کچھ نہ کچھ پاگل ضرور ہوتے ہیں۔“
٭……٭
جب ہم مرکزی لندن کے شور و غل میں چل رہے تھے، تو ہومز کہنے لگا: ”واٹسن، ہمارے سفر کی آخری منزل آنے والی ہے۔ میرا خیال ہے کہ معاملہ اب صاف ہوجانا چاہیے اور اسی لیے میں نے تمہیں اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے۔ یہ سچ ہے کہ جب آپ کا سامنا راجر جیسے شخص سے ہو تو مناسب ہے کہ کوئی گواہ آپ کے ساتھ ہو۔“
ہم نے بگھی پکڑی اور جنوبی لندن کی کسی گزر گاہ کی طرف چل پڑے۔ ہومز اپنے خیالات میں گم تھا۔ اچانک وہ اپنے حواس میں آتے ہوئے کہنے لگا: ”واٹسن، ویسے مجھے یقین ہے کہ معاملہ اب تک تمہاری سمجھ میں آگیا ہوگا؟“
”نہیں، میں ابھی یہ نہیں کہہ سکتا۔ میں صرف یہی سمجھا ہوں کہ ہم اس شخص سے ملنے جا رہے ہیں جو اس تمام خرابی کی جڑ ہے۔“
”بہت خوب! لیکن راجر کے نام سے کیا کوئی بات تمہارے سامنے نہیں آئی؟ تم جانتے ہو گے کہ یہ شخص مشہور زمانہ کامیاب بزنس مین ہے۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ اس شہر میں اس جیساکامیاب شخص کوئی نہیں۔ وہ خالصتاً ہسپانوی ہے۔ اس کی رگوں میں شاہی خون دوڑ رہا ہے۔ اس کے خاندان والے برسوں اسپین کے حکمران رہے ہیں۔ اس نے شکر کے بہت بڑے جرمن تاجر کی بیٹی سے شادی کرلی تھی۔ اب وہ اس زمین پر ایک نہایت امیر شخص ہے۔ امیر ہونے کے بعد اس کے ہاتھ پاؤں کھل گئے، اس نے اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے اپنے دوستوں کو استعمال کیا۔ ان میں سے ایک ڈگلس ملبری بھی تھا…… ڈگلس کے پاس کچھ عرصہ پہلے اچانک ڈھیر ساری دولت آگئی تھی۔ کہتے ہیں وہ اپنے بیوی اور سسر کے ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال کے بعد اپنے سسر کی ساری دولت کا مالک بن بیٹھا…… اس کے علاوہ اس خاندان کا کوئی وارث نہیں تھا۔ وہ ایک شریف اور معزز شخص تھا۔ وہ جسے سب کچھ دیتا اس سے سب کچھ مانگتا بھی تھا۔ لیکن بدقسمتی سے اس کے دوست راجر کی نظر اس کی دولت پر تھی۔ وہ ڈگلس کی مکمل دولت لے کر اسے چھوڑ دینا چاہتا تھا لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر کوئی معاملہ ختم نہیں کرنا چاہتا، تو اسے اس کے گھر کیسے پہنچایا جاتا ہے۔“
”اس کا مطلب ہے کہ ڈگلس نے اپنی کہانی لکھی تھی۔“
”بہت خوب! اب تم معاملات سمجھنے لگے ہو۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ…… اوہو! ہم اپنی منزل تک پہنچ گئے ہیں۔“
وہ گھر شاید اس علاقے کا شاندار اور خوبصورت ترین گھر تھا۔ ملازم نے ہمارے کارڈ لیے اور پھر واپس آکر بتایا کہ راجر گھر میں نہیں۔ ہومز یہ سن کر مسکراتے ہوئے کہنے لگا:”ہم یہاں رک کر دیکھتے ہیں کہ وہ ہمیں کب بلاتے ہیں۔“
یہ سن کر ملازم کہنے لگا: ”راجر گھر میں نہیں ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ ’آپ‘ کی وجہ سے نہیں ہیں۔“
ہومز کہنے لگا: ”بہت خوب! بہرحال راجر اگر مصروف ہیں تو اپنے مالک کو میرا یہ پیغام لے جا کر دے دو۔ مجھے امید ہے کہ ہمیں انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔“
اس نے اپنی جیبی ڈائری سے ایک ورق پھاڑا، اس پر تین چار لفظ لکھے اور پھر اسے تہہ کرکے ملازم کو دے دیا۔ ملازم چلا گیا تو میں نے ہومز سے پوچھا: ”تم نے کاغذ پر کیا لکھا ہے؟“
”میں نے سادہ سا یہ جملہ لکھا ہے کہ ہم کیا پھر پولیس کے پاس چلے جائیں؟“ میرا خیال ہے اب وہ ہمیں بلا لے گا۔“
واقعی ایسا ہی ہوا…… اور نہایت سرعت کے ساتھ۔ ایک ہی منٹ بعد ہم الف لیلوی ڈرائنگ روم میں موجود تھے۔ وہ بہت وسیع اور خوبصورت تھا۔ قیمتی اشیاء سے اس کی آرائش کی گئی تھی۔ راجر آیا تو وہ واقعی پروقار شخصیت کا مالک تھا۔ اس کی آنکھیں خطرناک انداز میں ہمیں گھور رہی تھیں۔
وہ کاغذ بلند کرتے ہوئے کہنے لگا: ”یہ مداخلت کیوں؟ اور اس گھٹیا پیغام کا کیا مطلب؟“
”مسٹر راجر! میرے خیال میں مجھے بتانے کی کوئی ضرورت نہیں، میں تمہاری ذہانت کی بہت قدر کرتا ہوں اور میرا خیال تھا کہ تم فوراً مجھے اندر سے بلاؤ گے اگرچہ تمہاری ذہانت نے کچھ غلطیاں بھی کی ہیں۔“
”وہ کونسی جناب؟“
”مثلاً تمہارا یہ یقین کہ اپنے کرائے کے غنڈوں کے ذریعے مجھے خوفزدہ کرنے میں کامیاب ہوجاؤگے۔ تمہیں علم ہونا چاہیے کہ میں اس پیشے سے تعلق رکھنے کے باعث خطرات سے کھیلنے کا عادی ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ تمہاری وجہ سے میں نے یہ معاملہ اپنے ہاتھوں میں لیا۔“
”آپ پتا نہیں کس قسم کی باتیں کررہے ہیں۔ کرائے کے غنڈوں سے میرا کیا تعلق ہو سکتا ہے؟“
ہومز نہایت مایوسی کے عالم میں دروازے کی طرف مڑتے ہوئے کہنے لگا: ”اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ تمہاری ذہانت مشکوک ہے۔ اچھا خدا حافظ۔“
”کیا مطلب! آپ کہاں جا رہے ہیں؟“
”اسکاٹ لینڈ یارڈ کی طرف۔“
ہم ابھی دروازے کے قریب بھی نہیں پہنچے تھے کہ وہ تیزی سے چلتا ہوا ہمارے قریب آگیا اور اس نے ہومز کا بازو پکڑ لیا۔ وہ ایک لمحے میں لوہے سے بدل کر موم ہو چکا تھا۔
”جناب، آپ تشریف رکھیے، میں اس معاملے پر کھل کر باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ مسٹر ہومز، مجھے اب یقین ہو گیا ہے کہ میں آپ سے دل کا حال کہہ سکتا ہوں۔ آپ ایک شریف انسان ہیں۔ اب میں آپ کو ایک دوست سمجھوں گا۔“
”لیکن مسٹر راجر! میں تمہاری مدد کرنے کا وعدہ نہیں کر سکتا کیونکہ میں قانون نہیں، بس اپنی ناتواں قوتوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ، قانون کی نمائندگی کرتا ہوں۔ بہرحال میں تمہاری باتیں سننے کے لیے تیار ہوں، پھر بتاؤں گا کہ میں کیا کچھ کر سکتا ہوں۔“
”اس میں کوئی شک نہیں کہ میں نے آپ جیسے بہادر آدمی کو دھمکی دے کر سخت حماقت کی ہے۔“
”مسٹر راجر! تم نے اصل حماقت یہ کی کہ چند غنڈوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن گئے۔ وہ اب کسی بھی وقت تمہیں بلیک میل کرسکتے ہیں۔“
”نہیں، نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا، میں اتنا سادہ نہیں چونکہ اب آپ سے کھل کر بات کررہا ہوں اس لیے بتا رہا ہوں کہ بیرنی اور اس کی بیوی، سوزان کے علاوہ کسی کو نہیں پتا کہ آقا کون ہے اور جہاں تک ان دونوں کا تعلق ہے، یہ پہلی بار نہیں ہے کہ……“ مسٹر راجر اتنا کہہ کر مسکرانے لگا اور تسلیم بجالایا۔
”میں سمجھ گیا تم نے پہلے بھی ان سے کام کروا رکھے ہیں۔“
”ہاں، وہ بہت اچھے شکاری بھیڑئیے ہیں جو خاموشی سے کام کرتے ہیں۔“
”لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس قسم کے شکاری بھیڑیے جلد یا بدیر ان ہاتھوں کو بھی کاٹ لیتے ہیں جو ان کی پرورش کریں۔ بہرحال، انہیں چوری کے الزام میں ضرور گرفتار کیا جائے گا۔ پولیس ان کے پیچھے ہے۔“
”ان پر جو مصیبت آئی وہ خود اس کا سامنا کریں گے۔ انہیں اسی بات کے لیے تو بھاری رقم دی جاتی ہے۔ میں اس معاملے میں سامنے نہیں آؤں گا۔“
”لیکن میں تمہیں لا سکتا ہوں۔“
”نہیں، نہیں آپ ایسا نہیں کرسکتے۔ آپ ایک شریف آدمی ہیں۔“
”پھر سب سے پہلے یہ کرو کہ مسودے کا بقیہ حصہ واپس کر دو۔“
یہ سن کر مسٹر راجر نے بلند آواز میں قہقہہ لگایا اور آتش دان کے قریب جا کر کھڑا ہوا۔ اس نے کٹہرے میں پڑے ہوئے ایک جلے بجھے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا اور پوچھا: ”آپ کیا اسے لینا چاہتے ہیں؟“ وہ اس وقت ہمارے سامنے کھڑا اتنا غیر معمولی نظر آرہا تھا کہ وہ سوچنے لگا، ہومز کا مقابلہ ایک خطرناک اور چالاک مجرم سے ہے۔ اس شخص کا سامنا کرنا واقعی دشوار ہے۔ لیکن میرا دوست کسی بھی جذباتی سوچ سے پاک تھا۔
وہ سرد مہری سے کہنے لگا: ”تم نے یہ اچھا نہیں کیا، اب تمہاری قسمت پر تالا لگ گیا ہے۔ مسٹر راجر! تم یقینا سوچ بچار کے بعد عمل کرتے ہوگے لیکن یہ کام تم نے نہایت احمقانہ کیا ہے۔“
مسٹر راجر نے زور سے کٹہرے پر پاؤں مارا اور تقریباً چیخنے کے انداز میں کہنے لگا: ”آپ اتنے سخت کیوں ہیں؟ ٹھیک ہے، میں آپ کو پوری کہانی سناتا ہوں۔“
”میرے خیال میں، میں تمہیں کہانی سنا سکتا ہوں۔“
”لیکن مسٹر ہومز، آپ معاملے کو میری آنکھوں سے دیکھئے۔ اگر آپ کا کوئی دوست آپ کو بلیک میل کرے تو کیا ایسے شخص پر اپنی حفاظت کرنے کا الزام رکھا جا سکتا ہے؟“
”حقیقی جرم یقینا تم ہی نے کیا ہے۔“
”ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں۔ ڈگلس بہت اچھا لڑکا تھا لیکن وہ بدقسمتی سے میرے منصوبے میں موزوں نہیں بیٹھ سکا۔ وہ مجھ سے۰۸ فیصدمنافع لینا چاہ رہا تھا اور نہ دینے کی صورت میں مجھے ٹیکس چور قرار دے کر لوگوں کی نظروں میں گرانا چاہ رہا تھا۔ میں نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی بات پر اڑا رہا۔ آخر کار وہ سرکش ہو گیا۔ آخر میں اسے یہ احساس دلانے میں کامیاب ہو گیا۔“
”آپ نے یہ کیا کہ اپنے کرائے کے غنڈوں کے ذریعے اپنے ہی گھر میں اس کی خوب مرمت کروا ڈالی۔“
”اس کا مطلب ہے کہ آپ واقعی سب کچھ جانتے ہیں۔“
”جی ہاں۔“
”یہ سچ ہے۔ بیرنی اور اس کے لڑکوں نے اسے کھینچ کر باہر نکال دیا اور میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ انہوں نے خاصی سختی دکھائی لیکن اس نے بعد میں کیا کیا؟ آپ یہ نہیں دیکھ رہے؟ کیا ایک شریف آدمی اس قسم کی حرکت کرسکتا ہے؟ اس نے ایک ایسا ناول لکھا جس میں میرے خلاف کاروباری قسم کے اوٹ پٹانگ الزامات لگائے گئے۔ ظاہر ہے میں اس میں بھیڑیا تھا اور وہ بھیڑ! گو اس نے ساری کہانی مختلف ناموں سے لکھی مگر سب کچھ لکھ دیا۔ لندن میں ہر شخص اس تحریر سے اندازہ لگا لیتا کہ اس ناول کے ہیرو اور ولن کون ہیں۔ مسٹر ہومز، آپ کا کیا خیال ہے؟“
”میرے خیال میں اس نے اپنا حق استعمال کیا۔“
”نہیں بلکہ اس کے وجود میں کسی ظالم اطالوی کی روح رچ گئی تھی۔ اس نے مجھے خط کے ساتھ یہ کہانی بھی بھیجی تاکہ میں رات دن اذیت میں مبتلا رہوں۔ اس نے لکھا تھا کہ اس نے اپنی کہانی کی دو نقول تیار کی ہیں …… ایک میرے لیے اور ایک اپنے ناشر کے لیے۔“
”آپ کو کیسے علم ہوا کہ ناشر نے اس سے رابطہ قائم نہیں کیا ہے؟“
”مجھے علم تھا کہ اس کا ناشر کون ہے۔ آپ کو پتا ہوگا کہ اس نے صرف یہی ناول ہی نہیں لکھا تھا۔ میں نے پتا لگا لیا کہ ناشر کو اٹلی سے کوئی مسودہ موصول نہیں ہوا۔ پھر اچانک ڈگلس مر گیا۔ لیکن جب تک دوسری نقل اس دنیا میں موجود تھی، مجھے کسی صورت چین و سکون نہیں آسکتا تھا۔ ظاہر ہے وہ اس کے سامان کے ساتھ تھی جو اس کی ماں کو ملنے والا تھا۔ میں نے اپنے گروہ کو نقل کے پیچھے لگا دیا۔ اس میں شامل ایک عورت گھریلو ملازمہ کی صورت میں بیگم مبرلی کے گھر داخل ہو گئی۔ میں سیدھے سادے طریقے سے اپنا مطلب پورا کرنا چاہتا تھا اور میں نے ایسا ہی کیا۔ میں اس گھر اور اس میں موجود ہر چیز کی منہ مانگی قیمت دینے کے لیے تیار تھا۔ میں نے دوسرا راستہ اسی وقت اختیار کیا جب میری ہر تدبیر ناکام ہو گئی۔ مسٹر ہومز، مجھے اعتراف ہے کہ میں ڈگلس کے ساتھ برے طریقے سے پیش آیا۔ لیکن خدا جانتا ہے کہ میں اس پر شرمندہ ہوں! …… مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ میرا مستقبل داؤ پر لگا ہوا تھا اور میں کیا کرسکتا تھا؟“ شرلاک ہومز اپنے کاندھے اچکا کر رہ گیا۔
تھوڑی دیر بعد وہ کہنے لگا: ”تم نے ایسا جرم ضرور کیا ہے جس کی سزا تمہیں ضرور ملنی چاہیے۔ بہترین طریقے سے دنیا کے گرد چکر لگانے میں کتنی رقم خرچ ہوگی؟“
مسٹر راجر اسے حیرت سے گھورتے ہوئی کہنے لگا: ”شاید یہ کام پانچ ہزار پاؤنڈ میں ہو سکتا ہے۔“
”ہوں ……! میرا بھی یہی خیال ہے…… ٹھیک ہے مسٹر راجر! تم ایسا کرو کہ اس رقم کا چیک کاٹ کر مجھے دے دو۔ میں خود اسے بیگم مبرلی کو دوں گا۔ تم ان کے خاصے قرض دار ہو……تم اس کے بیٹے کا حصہ بھی اسے جلد از جلد دے دو، اس غریب عورت کو معلوم ہی نہیں کہ اس کے بیٹے نے ناصرف شادی کرلی تھی بلکہ وہ ایک بڑی جائیداد کا بھی مالک بن گیا تھا……مجھے امید ہے کہ تم اسے حصے دیتے ہوئے انصاف کروگے۔ اس دوران، مسٹر راجر!“…… وہ مسٹر راجر کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے کہنے لگا: ”احتیاط سے چلو، احتیاط سے! تم کند ہتھیاروں سے زیادہ دیر تک فتوحات حاصل نہیں کرسکتے۔ ایک نہ ایک دن تمہارے ہاتھ کٹ کر رہیں گے۔“
٭……٭