skip to Main Content

چاند کا قتل

کہانی: The Pixie who killed the moon
مصنف: Enid Blyton

ترجمہ: گل رعنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک زوردار دھماکہ ہوا تو سارے بونے زمین پر آگرے۔ایک مزے دار کہانی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنگل میں بھوندو نام کا چھوٹا سا بونا رہتا تھا۔وہ بہت بے وقوف تھا ۔اپنی عقل استعمال کرنے کے بجائے وہ دوسروں کی باتوں پر آسانی سے یقین کرلیتا ۔ایک دفعہ ایک بلبل کو گاتے سن کربھو ندو کا دل چاہا کہ وہ اسے اپنے ساتھ گھرلے جائے لیکن بلبل نے اس کے ساتھ جانے سے صاف انکار کردیا۔بلبل جھاڑیوں میں بیٹھا مزے سے گاتا رہااور بھوندو کی باتوں پر کان نہ دھرا۔
”تم جھاڑیوں کے چاروں طرف جنگلا بنا دو،پھر بلبل وہاں سے نہیں نکل سکے گا۔“دوسرے بونوں نے بھوندو کو مشورہ دیا۔بھوندو نے ان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے بہت سی لکڑیاں جمع کیں اور ایک چھوٹا سا مضبوط جنگلا جھاڑیوں کے چاروں طرف تعمیر کرنے لگا۔بلبل اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔
”یہ کس لیے بنا رہے ہو بھوندو؟“اس نے آخر کار پوچھ ہی لیا۔
”بس تم دیکھتے جاﺅ!“بھوندو نے فخر سے کہااور بلبل اسے دیکھتا رہا۔
جب جنگلا مکمل ہوگیا تو بھوندو اس پر چڑھ گیا اور بولا:”اب میں تمہیں اپنے ساتھ گھرلے جاﺅں گا پیارے بلبل!“
”ہر گز نہیں!“بلبل نے کہا۔
”لیکن تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا۔“بھوندو نے پاﺅں پٹخے۔
”تم مجھے نہیں پکڑ سکتے۔“بلبل نے ہنس کر کہا۔
”کیوں نہیں پکڑ سکتا؟میں نے تمہارے چاروں طرف اسی لیے تو جنگلا بنایا ہے۔اب تم مجھ سے بچ کر نہیں جا سکتے۔“بھوندو فخر سے مسکرایا۔
”ٹھیک ہے! تو مجھے پکڑ کر دکھاﺅ۔“بلبل چلایا اور اپنے پر پھیلا لیے۔وہ ہوا میں سیدھا اوپر اٹھا اور غائب ہو گیا۔تمام بونے جو ارد گرد کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے،ہنسنے لگے۔
”تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے بھوندو!کیا تم نہیں جانتے کہ بلبل اڑ سکتا ہے۔“سب نے ہنستے ہوئے کہا۔بھوندو بہت شرمندہ ہوا لیکن چپ رہا۔
ایک دن ایک بچی ان درختوں کے پاس سے گزری جہاں بھوندو رہتا تھا۔اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا پیلا غبارہ تھا۔اچانک تیز ہوا کا جھونکا آیا اور غبارے کا دھاگا اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔غبارہ اڑتا ہوا دور درختوں میں چلا گیا۔وہ ہوا میں بہت دیر تک تیرتا رہا اور آخر کار وہ اس جگہ آکر اترا جہاں بھوندو رات کا کھانا کھا رہا تھا۔غبارہ اس کے بالکل سامنے آکر رک گیا کیوں کہ اس کا دھاگا کسی جھاڑی میں پھنس گیا تھا۔بھوندو خوف سے اچھل پڑاکیوں کہ اس نے غبارہ آتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔اس نے اپنی پلیٹ اٹھا کر پھینک دی اور خوف سے چیختے ،چلاتے ہوئے بھاگا۔
”ارے،ارے!کیا ہو گیا؟کیوں ایسے بدحواس ہو رہے ہو؟“دوسرے بونے اسے اس طرح دوڑتا،بھاگتا دیکھ کر چلائے۔
”میرے اوپر چاند گر پڑا ہے۔“بھوندو نے روتے ہوئے کہا:”بڑا سا پیلا چاند!وہ اچانک ہی میرے گھر میں گھس گیاجب میں کھانا کھا رہا تھا۔اگر وہ میرے سر پر گرتا تومیری موت یقینی تھی۔“
بونے اس کے گھر گئے اور جب دیکھا کہ بھوندو جس کو چاند سمجھ رہا ہے وہ محض ایک غبارہ ہے تو وہ ہنس ہنس کر دہرے ہو گئے لیکن تفریح کے خیال سے انہوں نے بھوندو پر ظاہر نہیں کیا کہ وہ صحیح کہہ رہا ہے یا غلط۔
”کتنی بری بات ہے کہ چاند نے تمہیں اس طرح گھر میں گھس کر ڈرایا۔اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو اس کو سخت سزا دیتا۔“ایک شرارتی بونا آنکھ جھپکتے ہوئے بولا۔
”سزا؟وہ کیسے؟“بھوندو نے سر کھجایا۔
”اس کو ایک پن چبھودو،اس سے چاند کی چیخیں نکل جائیں گی اور اسے اچھی سزا ملے گی،لیکن اس کو صبح کے وقت پن چبھونا جب یہ سورج کی روشنی میں سو جائے۔“دوسرے بونے نے بہ مشکل ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا۔
بھوندو نے صبح تک انتظار کیا۔اس نے ایک بہت لمبی سی پن لی اور قریبی جھاڑیوں میں چھپ گیا۔سورج نکلنے کے بعد جب اس کے خیا ل میں چاند سو گیا تھا تو وہ دبے قدموں باہر نکلا اور کپکپاتے ہاتھوں سے پن موٹے پیلے غبارے میں چبھودی۔ایک زوردار دھماکا ہوا اور غبارہ پھٹ گیا۔بھوندو خوف کے مارے اچھل پڑا۔سارے تماشائی بونے بھی اپنے قدموں پر کھڑے نہ رہ سکے اور الٹ کر جھاڑیوں میں گرے۔ بھوندوجان بچا کر بھاگا اور ایک خرگوش کے بل میں چھپ گیا۔
”اوہ خدایا!میں نے چاند کو قتل کردیا۔“وہ خوف سے کانپنے لگا:”پریوں کی ملکہ مجھے سخت سزا دے گی۔چاند دھماکے سے پھٹ گیا اور یہ میرے پن چبھونے سے ہوا لیکن مجھے کیاپتاتھاکہ وہ مر ہی جائے گا۔میں تو صرف اسے سزا دینا چاہتا تھا۔اب رات کو روشنی کیسے ہوگی؟اف!“وہ اس بارے میں جتنا سوچتا،اتنا ہی کانپتا اور لرز جاتا۔بے چارا بھوندو سارا دن وہیں جھاڑیوں میںچھپا رہا۔
اگلے دن شام تک جب بھوک پیاس سے اس کی حالت غیر ہونے لگی تو اس نے ملکہ کی عدالت میں جا کر اپنے جرم کے اقرار کرنے کا فیصلہ کیا۔وہ بل سے باہر نکلا اور ملکہ کی عدالت میں پہنچا۔ابھی بھی وہ کانپ رہا تھا۔
”کیا ہوا بھوندو؟“ملکہ نے حیران ہو کر پوچھا۔
”مم….میں نے ایک بہت خطرناک کام کیا ہے ملکہ!میں نے چاند کو قتل کردیا ہے،لیکن یقین جانیے کہ میری نیت صرف اسے سزا دینے کی تھی کیوں کہ اس نے مجھے گھر میں گھس کرڈرایا تھا،مگر وہ تو مر ہی گیا۔“بھوندو نے روتے ہوئے کہا۔
”لیکن تم چاند کو کیسے قتل کر سکتے ہو؟“ملکہ نے حیران ہو کر پوچھا۔
”میں ایسا کر چکا ہوں ملکہ!میںنے اسے پن چبھودی اور وہ دھماکے سے پھٹ گیا۔“
ملکہ پری یہ سنتے ہی ہنس پڑی۔پھر وہ بھوندو کو بازو سے پکڑ کر لے گئی اور اسے دور پہاڑی کے اوپر اشارہ کرکے کہا:”وہ دیکھو!پہاڑی کے پیچھے سے کون جھانک رہا ہے!“بھوندو نے دیکھا تووہ چاند تھا جو پہاڑیوں کے پیچھے سے ابھر رہا تھا۔وہ اسے حیرت سے تکنے لگا۔
”تو….تومیں نے اسے قتل نہیں کیا؟“وہ ہکلایا۔
”ہاں!دوسرے بونے مدد کرنے کے بجائے تمہارا مذاق اڑاتے ہیں اور تمہیں مزید بے وقوف بناتے ہیں،اس لیے انہیں سزا ملے گی اور تم!تم اپنا دماغ استعمال کیا کرو۔اگر تم نے کچھ تعلیم حاصل کی ہوتی تو آج ایسی احمقانہ حرکتیں نہ کررہے ہوتے۔کل سے تم بونوں کے اسکول میں روزانہ پڑھنے جایا کرو گے۔سمجھ آگئی؟“ملکہ نے حکم دیتے ہوئے کہااوربھوندونے دھیرے سے سر ہلادیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top