وہ شکریہ کہنا بھول گئی
کہانی: She always forget to say thank you
مصنف: Enid Blyton
ترجمہ: گل رعنا
۔۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی قصبے میں ایک ننھی بگڑی ہوئی لڑکی رہتی تھی جب کبھی وہ کسی کی دعوت میں جاتی تو آخر میں میزبان کا شکریہ ادا کرنا ہمیشہ بھول جاتی تھی۔
ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی دعوت کے اختتام پر خدا حافظ کہنے کے ساتھ ہمیشہ میزبان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں دعوت دی اور ہمیں شریک ہونا بہت اچھا لگا۔ لوسی بھی یہ بات جانتی تو تھی مگر کہنا ہمیشہ بھول جاتی تھی۔
”لوسی کو تمیز تہذیب تو چھو کر بھی نہیں گزری“۔ مسز براﺅن نے کہا۔
”کل میں نے اسے اپنے بچوں کے ساتھ چائے پینے کی دعوت دی اور وہ چائے پی کر ایک لفظ کہے بغیر گھر چلی گئی“۔ ”بالکل صحیح! میں اسے اپنے بچوں کے ساتھ پکنک پر لے گئی تھی میں نے اونٹ کی سواری کے لیے اس کی طرف سے پیسے بھی ادا کیے پھر بھی وہ بغیر شکریہ کہے گھر چلی گئی۔ بہت بداخلاق لڑکی ہے“۔ مسز جونز نے ہاں میں ہاں ملائی۔
ایک دن لوسی اپنی نانی کے ہاں سے جنگل کے راستے گھر واپس آرہی تھی کہ ایک ننھا منا آدمی کہیں سے دوڑتا ہوا آیا اور اس سے ٹکراگیا۔
”افوہ“۔ لوسی نے غصے سے کہا۔ ”ذرا دیکھ کر چلا کرو۔ تم نے اس بیگ میں موجود سارے انڈے توڑ دیے جو میری نانی نے مجھے ناشتے کے لیے دیے تھے۔ ”اوہ، میں بہت معذرت خواہ ہوں۔ پتا نہیں، تم مجھے پہچانی یا نہیں۔ میں ایک بونا ہوں۔ میں تمہارا نقصان کرنے کی تلافی کرنا چاہتا ہوں“۔ وہ کیسے؟ لوسی نے پوچھا۔ ”کیا تم آج سہ پہر دعوت پر آنا پسند کرو گی؟ ” بونے نے کہا۔ ”میں اپنے چھ دوستوں کو چائے کی دعوت دے رہا ہوں کیوں کہ آج میری سالگرہ ہے۔ اگر تم شریک ہونا پسند کرو تو تین بجے یہاں برگد کے درخت کے پاس آجانا“۔ اوہ ہاں۔ کیوں نہیں۔ لوسی نے خوشی سے اچھلتے ہوئے کہا۔
گھر جا کر اس نے اکیلے ہی دن کا کھانا کھایا کیوں کہ اس کی امی کہیں گئی ہوئی تھیں۔ ڈھائی بجے تیار ہو کر وہ برگد کے درخت کی طرف چل پڑی۔ بونا وہاں موجود تھا۔ وہ اسے جنگل کے بیچ ایک آبادی میں لے گیا جہاں عجیب و غریب چھوٹے چھوٹے گھر بنے ہوئے تھے۔ بونا اسے اپنے گھر لے گیا۔ یہاں چھ بونے موجود تھے۔ سب نے لوسی سے ہاتھ ملایا اور خوشی کا اظہار کیا۔ میز پر عظیم الشان کیک موجود تھا۔ لوسی نے اتنا خوب صورت کیک کبھی نہیں دیکھا تھا۔ چائے کے ساتھ سولہ مختلف طرح کے سینڈوچ، پانچ طرح کے بن، سات طرح کے بسکٹ اور سات رنگ کی جلیبیاں تھیں۔ اس کے علاوہ آئس کریم الگ تھی۔
چائے کے بعد انہوں نے مل کر بہت سارے کھیل کھیلے۔ آخر میں سب نے ایک ڈبے میں ہاتھ ڈال کر ایک ایک تحفہ حاصل کیا۔ لوسی کو چھوٹا سا میوزیکل بکس ملا وہ بہت خوش ہوئی۔ پھر ایک ایک کرکے سب مہمان فراخ دل بونے سے ہاتھ ملانے لگے۔ ہمیں دعوت میں بلانے کا بہت شکریہ۔ ہمیں بہت مزہ آیا۔ وہ سب اخلاق سے کہتے۔ پھر لوسی کے خدا حافظ کہنے کی باری آئی۔ اس نے بونے سے ہاتھ ملایا اور گھر چل پری۔ حسب معمول وہ بونے کا شکریہ اد اکرنا بھول گئی تھی۔
مگر جنگل کا راستہ اسے پھر بونے کی بستی میں واپس لے آیا۔ وہ ایک بار پھر بونے کے گھر کے باہر کھڑی تھی۔
بونا یہ امید کرتے ہوئے دروازے پر آیا کہ ننھی لڑکی کو کچھ تمیز تہذیب کا خیال آگیا ہوگا اور وہ اس کا شکریہ ادا کرنے آئی ہوگی مگر وہ شکریہ ادا کرنے نہیں آئی تھی۔
”کیا مصیبت ہے“۔ اس نے پاﺅں پٹخ کر کہا۔ ”میں غلطی سے واپس پلٹ کر پھر یہیں آگئی“۔ وہ پھر چل پڑی مگر صرف بیس منٹ بعد ہی وہ واپس اسی جگہ پہنچ گئی جہاں سے چلی تھی، کتنی عجیب بات تھی۔
بونا پھر یہ سوچتے ہوئے دروازے پر آیا کہ اس بار وہ اس سے معافی مانگنے آئی ہوگی کہ وہ اس کا شکریہ ادا کرنا بھول گئی تھی مگر نہیں۔ اس نے غصے سے پاﺅں پٹخے اور واپس چلی گئی۔ مگر وہ جتنی بار بھی جنگل سے نکلنے کی کوشش کرتی، واپس پلٹ کر وہیں پہنچ جاتی۔ وہ خوفزدہ ہوگئی اور بونے کا دروازہ کھٹکھٹا کر اسے بلایا۔ ”پتا نہیں کیا ہورہا ہے، میں جو بھی راستہ پکڑ کر گھر جانا چاہتی ہوں وہ راستہ مجھے واپس یہیں لے آتا ہے“۔
”میرے خیال میں اس کا مطلب یہ ہے کہ تم کچھ بھول رہی ہو“۔ بونے نے کہا۔ ”ہمارے قصبے سے نکلنے والے راستے عجیب ہیں۔ اگر کوئی مہمان کوئی چیز بھول جائے تو راستہ اسے واپس یہیں لے آتا ہے۔ ایک دفعہ میرے دادا اپنی چھتری بھول گئے تھے۔ راستہ ان کو واپس یہاں لے آیا تاکہ وہ اسے اٹھاسکیں“۔
”لیکن میں تو کوئی چیز نہیں بھولی“۔ لوسی نے غصے سے کہا۔ ”کیوں کہ میں اپنے ساتھ کچھ لائی ہی نہیں تھی، نہ چھتری، نہ بیگ، نہ ٹوپی“۔
”عجیب بات ہے“۔ بونے نے کہا۔ ”یہ تو درست ہے کہ تم ایسی کوئی چیز نہیں لائی تھیں جو تم بھول کر جاسکو“۔ ”پتا نہیں، سوچو آخر میں کیا بھول رہی ہوں؟“ لوسی نے کہا۔ بونے نے غور کیا پھر اچانک اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ ”میں تمہیں بتانا نہیں چاہتا، وہ ایک بہت چھوٹی سی چیز ہے اور یہ بہت عجیب بات ہے کہ راستے تمہیں اس وجہ سے بار بار لوٹاتے رہے۔ مگر اس کے علاوہ اور کوئی وجہ ہو بھی نہیں سکتی“۔ اور وہ کیا بات ہے؟۔ لوسی نے حیران ہو کر کہا۔ ”میں بتاتے ہوئے شرمندگی محسوس کررہا ہوں کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ تم بھی یہ سن کر شرمندہ ہوجاﺅ گی“۔
”اب بتا بھی دو“۔ لوسی بے صبری سے چلائی۔
”تم آداب بھول گئی تھیں“۔ بونے نے کہا۔ ”تم نے دعوت میں شرکت کے بعد میرا شکریہ ادا نہیں کیا جب کہ باقی سب مہمانوں کو یاد رہا کیوں کہ میرے سب دوستوں کی اچھی تربیت ہوئی ہے مگر تم نے کچھ نہیں کہا شاید تمہاری تربیت اچھی نہیں ہوئی۔ چچ چچ…. بے چاری بچی۔“ بونے نے افسوس سے کہا۔ یہ سن کر لوسی کا چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا۔ ”میری تربیت اچھی ہوئی ہے، میں ایک اچھے گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں“۔ اس نے دھیمی آواز میں کہا۔ ”میں جانتی ہوں کہ مجھے شکریہ کہنا چاہیے تھا اور میں بہت شرمندہ ہوں کہ میں بھول گئی۔ یہ میری بد تہذیبی تھی۔
”مجھے اتنی اچھی دعوت دینے کا شکریہ بونے! مجھے بہت مزہ آیا“۔ کوئی بات نہیں۔ بونا خوش ہو کر بولا۔ ” میں تو سوچ رہا تھا کہ تم میری دعوت میں آکر بور ہوئی ہو جب ہی تو چپ چاپ چلی گئیں۔ میں یہ جان کر خوش ہوا کہ تم نے انجوائے کیا۔ ”خدا حافظ! پھر ملیں گے“۔ لوسی نے بونے سے ہاتھ ملاتے ہوئے اخلاق سے کہا تاکہ اپنی بدتہذیبی کا ازالہ کرسکے۔
”اگلے ہفتے میری سالگرہ ہے، میں اپنی سالگرہ کا کیک چکھانے کے لیے لاﺅں گی“۔ وہ ایک دفعہ پھر گھر کی طرف چل پڑی اور اس دفعہ بڑی آسانی سے گھر پہنچ گئی۔
اگلے ہفتے اس کی سالگرہ تھی۔ وہ اپنی سالگرہ کے کیک کا ٹکڑا لے کر جنگل کی طرف گئی مگر اسے بونوں کی بستی جانے والا راستہ نہیں مل سکا۔
لیکن ایک بات وہ زندگی بھر نہیں بھولی۔ دعوتوں میں شرکت کے بعد میزبان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
٭….٭….٭