skip to Main Content

میلے کا ٹکٹ

کہانی: He wouldn’t buy a Ticket

مصنفہ: Enid Blyton

ترجمہ: گل رعنا

۔۔۔۔۔۔۔

ٹام کسی ضرورت مند کی مدد کے لیے ایک ٹکٹ بھی خریدنا نہیں چاہتا تھا

۔۔۔۔۔۔

ٹام بے حد کنجوس آدمی تھا۔ ایپل ٹری قصبہ میں سب ہی اسے ناپسند کرتے تھے۔ ”وہ کبھی کسی بچے کو انعام میں ایک پائی نہیں دیتا، نہ ہی کسی کی سالگرہ پر تحفہ دیتا۔“ سب کہتے۔ ” کنجوس مکھی چوس ٹام!“
ٹام صرف اپنے اوپر پیسہ خرچ کرنا پسند کرتا تھا۔ اسے خوبصورت چیزیں پسند تھیں، جو ایک عجیب بات تھی کیوں کہ وہ خود ایک بدصورت فطرت رکھنے والا سخت دل انسان تھا۔ وہ مہنگی سے مہنگی تصاویر خرید کر گھر میں لگاتا تھا۔ قیمتی قالین، خوبصورت آئینے، فانوس، غیر ملکی برتن اور دیگر آرائشی سامان خریدنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ وہ ہر وقت ان چیزوں کو چمکاتا اور صاف کرتا رہتا تھا۔ اپنے گھر کے قیمتی سامان کو دیکھ، دیکھ کر اسے بے حد فخر کا احساس ہوتا لیکن جب وہ اپنے ان قیمتی خزانوں کو دکھانے کے لیے لوگوں کو اپنے گھر دعوت دیتا تو انھیں ایک کپ چاے بھی پلانے کا روادار نہ ہوتا تھا۔
”میں کل اس کے گھر نیا گلدان دیکھنے گئی تھی، ساتھ میں گھر کا بنا ہوا تازہ مکھن بھی لے گئی تھی۔ گلدان واقعی بہت خوبصورت تھا۔ ٹام اپنے لیے چاے بنا رہا تھا۔ میز پر بسکٹ بھی موجود تھے مگر اس نے مجھے ایک کپ چاے کا بھی نہیں پوچھا۔“ مس پلمپ نے کہا۔ ”حد ہوگئی۔“
سب نے سن کر کہا۔ ”ان حرکتوں کی وجہ سے ایک دن وہ تنہا رہ جائے گا۔ پورے قصبے میں اس کا کوئی دوست نہیں رہے گا۔“
ٹام کو دوست نہ ہونے کی کوئی پروا نہیں تھی۔ دوستوں کا مطلب ان کو چاے پلانا، جس کا وہ بالکل بھی قائل نہیں تھا۔ اچھا ہے سب دور ہی رہیں، خواہ مخواہ کی مہمان داری کا خرچہ تو بچے گا۔ اس طرح وہ اپنے گھر کی آرائش کے لیے زیادہ سے زیادہ پیسے بچاسکے گا۔
ٹام کی بوڑھی والدہ دوسرے قصبے میں رہتی تھیں۔ ٹام ہفتے میں ایک بار ان سے ملنے جاتا تھا۔ مگر وہ ان کے لیے کبھی کوئی تحفہ لے کر نہیں جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اپنے باغ کے تازہ پھول یا اپنی والدہ کی پسندیدہ مٹھائی تک نہیں لے جایا کرتا تھا۔ کون اتنا خرچہ کرے بھئی! ایک دن وہ اپنے خوب صورت گملوں پر پینٹ کررہا تھا کہ ایک شخص نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ یہ شخص اس کی ماں کے قصبے سے پیغام لے کر آیا تھا۔ ”مسٹر ٹام! آپ کی والدہ سخت بیمار ہیں۔ وہ سارا دن آپ کو پکارتی رہتی ہیں۔ بہتر ہوگا کہ آپ جا کر کچھ دن ان کے ساتھ گزاریں۔ ”اوہ میری ماں! پچھلے ہفتے تک تو وہ بالکل ٹھیک تھیں۔“ ٹام نے حیران ہو کر کہا۔ ”دو روز قبل وہ گر گئیں تھی اور اب وہ بستر پر ہیں۔“ آدمی یہ کہہ کر واپس مڑ گیا۔ ٹام کے لیے اس کی ماں دنیا کی وہ واحد ہستی تھی جس کے لیے وہ پریشان ہوسکتا تھا۔ وہ دوڑ کر اپنی پڑوسن کے گھر گیا۔
”مسز ہیلپ فل! میری امی سخت بیماری ہیں۔ مجھے وہاں جانا ہوگا مگر میرے پیچھے میری مرغیوں کا خیال کون رکھے گا؟“
اوہ! پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں تمھاری مرغیوں کا خیال رکھوں گی، تم بے فکر ہو کر جاﺅ۔“ مسز ہیلپ فل نے ہمدری سے کہا۔ ”میرے باغ سے اپنی امی کے لیے کچھ پھول توڑ کر لے جانا اور یہ مٹھائی کا ڈبہ بھی میری طرف سے انھیں دے دینا۔ وہ تمھیں دیکھ کر یقینا تندرست ہوجائیں گی۔“ ٹام نے مسز ہیلپ فل کے باغ سے بہت سارے پھول توڑ لیے، لیکن اپنے باغ سے ایک بھی پھول نہیں توڑا۔ یہ پھول وہ اپنی طرف سے امی کو پیش کردے گا، انھیں بھلا کیا پتا چلے گا! اس نے سوچا۔ گھر آکر اس نے اپنا ضروری سامان باندھنا شروع کیا۔ اتنے میں اس کے بہت سے پڑوسی اس کے گھر جمع ہوگئے۔ وہ اس کی ماں کے بارے میں جان کر افسوس کا اظہار کررہے تھے۔ ”مائیں بڑی قیمتی ہوتی ہیں۔“ مسز پلمپ نے کہا۔ ”اپنی ماں کی بہت دیکھ بھال کرنا، میری طرف سے انھیں یہ گھر کا بنا ہوا مکھن دے دینا۔“ اور ہم سب کی طرف سے انھیں سلام کہنا اور ان کی خیریت دریافت کرلینا۔“ دوسرے پڑوسی نے کہا۔ ٹام اگلی بس پکڑ کر دوسرے قصبے پہنچ گیا۔ اس کی ماں واقعی سخت بیمار تھیں مگر اسے دیکھ کر خوش ہوگئیں۔ ”میرے بیٹے! میں تمھیں دیکھ کر بے حد خوش ہوں، امید ہے کہ تم کچھ دن میرے ساتھ گزاروگے۔“ انھوں نے ٹام کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ ”کس قدر خوبصورت پھول ہیں، اور میری پسندیدہ مٹھائی اور یہ تازہ مکھن! بیٹا! تم میرے لیے اتنی ساری چیزیں لائے ہو۔ تمھیں پتا ہے جب تم مجھ سے ملنے ہمیشہ خالی ہاتھ آتے تھے تو میں سوچتی تھی کہ تم بڑے سخت دل ہو اور میں پریشان ہوجایا کرتی تھی کیوں کہ سخت دل لوگ کبھی بھی خوش نہیں رہتے۔ مگر آج مجھے پتا چلا کہ تم اندر سے بہت نرم دل ہو۔ میری بیماری نے تمھارا دل پگھلادیا۔ خوش رہو میرے بیٹے!“ یہ سب باتیں سن کر ٹام یہ بتانے کی جرا¿ت نہ کرسکا کہ وہ آج بھی خالی ہاتھ آیا ہے اور یہ سب تحائف دوسروں نے بھجوائے ہیں۔ وہ صرف سر ہلا کر رہ گیا، پھر بولا۔ ”امی! آپ آرام کریں، جب تک آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوجاتی، میں آپ کے پاس رہوں گا۔“
ٹام نے اپنی امی کے لیے دوبارہ پھول خریدنے کی زحمت نہیں کی، نہ ہی ان مہمانوں کو چاے پانی کا پوچھا جو اس کی امی کی عیادت کے لیے آئے تھے۔ ایک دن کوئی چندہ مانگنے دروازے پر آیا۔ وہ ایپل ٹری کے کسی رہائشی کی مدد کے لیے پیسے جمع کررہا تھا۔ مگر ٹام نے اس کے منھ پر دروازہ بند کردیا۔ ”کیا فضول بات ہے۔“ اس نے اپنی امی سے کہا۔ ”ایپل ٹری میرا اپنا قصبہ ہے اور میں جانتا ہوں کہ وہاں کوئی بھی اتنا غریب نہیں ہے جس کے لیے چندہ جمع کیا جائے۔ میں نے تو ایک پائی نہیں دی۔ ”تم نے یہ نہیں پوچھا کہ وہ کس کے لیے چندہ جمع کررہے ہیں؟ شاید کوئی واقعی ضرورت مند ہو۔“ اس کی ماں نے پوچھا۔ ”اگر کوئی ایسا ہوتا تو میرے علم میں ہوتا۔“ ٹام نے جواب دیا۔
اگلے دن ایک عورت نے دروازہ بجایا۔ وہ کسی میلے کے ٹکٹ فروخت کررہی تھی جو ایپل ٹری میں ہونے والا تھا۔ ”دراصل ہم وہاں کے ایک رہائشی کے لیے پیسے جمع کررہے ہیں جو….“ عورت ابھی بات کرہی رہی تھی کہ ٹام غصے میں چلایا۔ ”پھر وہی! میں جانتا ہوں کہ میرے قصبے میں ایسا کوئی غریب اور ضرورت مند نہیں جس کے لیے چندہ اکٹھا کیا جائے۔ آپ جا کر کسی اور کو بے وقوف بنائیں۔“ اس نے دھڑ سے دروازہ بند کردیا۔
چند روز بعد جب اس کی امی کی طبیعت بہتر ہوگئی تو اس نے اپنا سامان باندھا اور گھر کی طرف روانہ ہوا۔ قصبے میں داخل ہوتے ہی اسے میلہ نظر آیا۔ رنگ برنگے جھولے اور کھانے، پینے کے اسٹالز دور سے ہی نظر آرہے تھے۔ ”جناب! میلے کا ٹکٹ خرید کر تفریح بھی کریں اور کسی کی مدد بھی!“ ایک بچہ اسے آتے دیکھ کر بولا۔ ”پھر وہی ٹکٹ!“ ٹام پھنکارا پھر مسز پلمپ کو دیکھ کر چلایا۔ ”مسز پلمپ! آخر یہ کون اتنا غریب ہمارے قصبے میں آگیا ہے جسے مدد کی اس قدر ضرورت ہے؟“ مسز پلمپ کچھ دیر خاموش رہیں پھر بولیں۔ ”یہاں کسی کے گھر میں چوری ہوگئی ہے۔ چوروں نے ایک کرسی اور ایک چولہے کے علاوہ گھر میں کچھ نہیں چھوڑا۔ ہم اس شخص کے لیے پیسے جمع کررہے ہیں تاکہ وہ اپنے لیے دوبارہ فرنیچر اور دوسرا ضروری سامان خرید سکے۔“
”کیا حماقت ہے!“ ٹام نے سر ہلایا۔ ”اگر کسی کے گھر چوری ہوگئی ہے تو یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ اس شخص کو ذرا خود ہاتھ پاﺅں ہلانے دیں۔ وہ محنت مزدوری کرکے روپیہ کمائے اور خود اپنے لیے دوبارہ سامان خریدے۔“
”ہوں مسز ٹام! آپ کے مشورے کا شکریہ! واقعی یہ ہمارا مسئلہ تو نہیں ہے۔ مگر اب تک ہم جو پیسے جمع کرچکے ہیں، اس کا کیا کریں؟“ مسز پلمپ نے پوچھا۔ ”اس سے اپنے لیے کچھ خریدلیں۔ جو چاہے کریں مگر مجھ سے یہ توقع نہ رکھیں کہ میں میلے کا ٹکٹ خریدوں گا۔“ ٹام نے کندھے اچکائے اور اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔
اس نے گھر کا دروازہ کھولا اور چکرا کر رہ گیا۔ گھر بالکل خالی پڑا تھا۔ اس کی خوبصورت پینٹنگز، قیمتی فرنیچر، قالین اور آرائشی سامان سب غائب تھا۔ ”اوہ! میں لٹ گیا! برباد ہوگیا۔“ وہ چلایا۔ اتنے میں اس کے چند پڑوسی اندر داخل ہوئے۔ ان کے چہرے سنجیدہ تھے۔
”ٹام! ہمیں بے حد افسوس ہے کہ تمھارے گھر چوری ہوگئی۔ اسی لیے ہم نے چندہ اکٹھا کرنا شروع کیا اور اس میلے کا اہتمام کیا تاکہ پیسے جمع کرکے تمھارے لیے کچھ سامان خریدسکیں۔“ مسز پلمپ نے کہا۔ ”لیکن اب ہمیں تمھارے خیالات سے معلوم ہوا کہ ایسا سوچنا حماقت تھی اور یہ ہمارا مسئلہ نہیں تھا۔ لہٰذا اب ہم تمھارے مشورے کے مطابق یہ پیسہ اپنے اوپر خرچ کرلیں گے۔“
”تم کس قدر کنجوس اور گھٹیا آدمی ہو ٹام!“ مسز ہیلپ فل بولیں۔ ”تم اپنے قصبے کے کسی ضرورت مند آدمی کے لیے ایک ٹکٹ تک نہیں خریدنا چاہتے تھے لیکن اب جب تمھیں پتا چل گیا ہے کہ وہ ضرورت مند تم خود ہو تو ہمیں امید ہے کہ تمھارے خیالات بدل گئے ہوں گے۔“
”میں اپنے خیالات پر بے حد شرمندہ ہوں۔“ ٹام نے سرجھکا کر کہا۔ ”اب جب کہ میں خود غریب و محتاج ہوچکا ہوں تو مجھے احساس ہورہا ہے کہ ایسے لوگ دوسروں کی مدد کے لیے کیسے ترستے ہوں گے لیکن میری اب کوئی مدد نہیں کرے گا اور میں اس قابل بھی نہیں!“ اس نے افسردگی سے کہا۔ سب پڑوسیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ”اگر تم واقعی اپنے رویے پر شرمندہ ہو تو ہم تمھارے لیے اکٹھا کیے ہوئے پیسے تم پر ہی خرچ کریں گے۔“ مسز پلمپ نے کہا۔ ”اوہ! آپ سب لوگ کتنے اچھے ہیں، کس قدر مخلص اور رحم دل! میں کیسے آپ لوگوں کا شکریہ ادا کروں!“ ٹام کھل اٹھا۔ ”دوسروں کا خیال رکھ کر اور ان کے کام آکر! بس اور ہم کچھ نہیں چاہتے۔ خدا بھی ہم سے یہی چاہتا ہے کہ سب انسان ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہیں اور ایک دوسرے کی مشکل میں کام آئیں۔“ مسز ہیلپ فل نے کہا۔
ٹام اب ایک مختلف انسان ہے۔ اس کے بہت سے دوست ہیں اور کوئی شخص اس کے گھر سے چاے پیے بغیر نہیں جاسکتا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top