پندرہ سال بعد
میرزا ادیب
۔۔۔۔۔
رات کا وقت تھا۔ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔شہر کی ایک لمبی گلی کے آخر میں ایک غریب عورت رہتی تھی۔وہ اپنی بیمار بچی کی چارپائی کے پاس ایک پرانی کرسی پر بیٹھی تھی اور بار بار بیٹی سے پوچھتی تھی:
”کیوں خالدہ بیٹی، سر میں درد تو نہیں ہوتا؟“
خالدہ منہ سے کچھ نہ کہتی ،ماتھے پر اپنا دایاں ہاتھ پھیر کر یہ بتادیتی کہ سر میں درد ہورہاہے۔ماں کے ہونٹوں سے آہ نکل جاتی اور وہ اپنی بیٹی کے اوپر جھک کر اس کا ماتھا آہستہ آہستہ سہلانے لگتی۔
خالدہ کئی ہفتوں سے بیمار تھی اور اس کی بیماری روز بروز بڑھتی جارہی تھی۔دودن سے اس کے سر میں اتنی شدت سے درد ہو رہا تھا کہ کبھی کبھی تو اس کے منہ سے بے اختیار چیخ نکل جاتی تھی۔چیخ سن کر اس کی ماں بڑی بے تاب ہو جاتی اور آہستہ آہستہ بیٹی کا ماتھا سہلانا شروع کر دیتی۔
خالدہ ایک یتیم لڑکی تھی۔باپ کو فوت ہوئے دو برس گزرچکے تھے۔ماں لوگوں کے کپڑے سی کر یا ہمسایوں کے گھر میں کچھ کام کرکے اتنے پیسے کما لیتی تھی جس سے گھر کا خرچ چل جاتا تھا۔وہ سوچا کرتی تھی کہ کاش اس کے پاس اتنی رقم ہوتی کہ وہ اپنی خالدہ کو کسی اچھے ہسپتال میں داخل کرکے اس کا باقاعدہ علاج کروا سکتی،مگر ایسا ممکن نہیں تھا۔ماں بیٹی روکھا سوکھا کھا کر اور معمولی کپڑے پہن کر زندگی کے دن پورے کررہی ہیں۔اس حالت میں علاج کے لیے روپیہ کہاں سے آتا؟
خالدہ کا علاج ایک حکیم کررہا تھا جو اس کی بیماری کو سمجھ ہی نہیں سکا تھا۔رات آدھی بیت گئی تھی۔بارش بڑھتی جا رہی تھی اور خالدہ کی طبیعت پہلے سے زیادہ خراب ہوگئی تھی۔
”خالدہ!“ماں نے اسے آواز دیتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
”جیامی؟“خالدہ نے بڑی مشکل سے کہا۔
”ذرا سا دودھ پی لو بیٹی۔صبح سے تم نے کچھ نہیں کھایا۔“
خالدہ چپ رہی۔ماں نے اس کے دونوں ہاتھ اس طرح تھام لیے جیسے وہ اسے اٹھانے کی کوشش کررہی ہو۔
”نہیں امی۔“
”کیا نہیں بیٹی۔“
”جی نہیں چاہتا دودھ پینے کو۔“
ماں نے اسے دوبارہ اٹھانے کی کوشش کی۔گاﺅ تکیہ اس کی پیٹھ سے لگا دیا اور بولی۔”بس ابھی آجاتی ہوں،ایک منٹ میں۔“یہ کہہ کر باورچی خانے کی طرف جانے لگی ،چند منٹ کے بعد وہ باورچی خانے سے نکلی تو اس نے ہاتھوں میں دودھ کا گلاس پکڑا ہوا تھا۔
”لو خالدہ پی لو میری بیٹی۔“
”امی۔“
”کیا ہے؟دروازے کی طرف کیوں دیکھ رہی ہو۔“
”امی باہر کوئی ہے۔“
”باہر کون ہوگا بیٹی۔تیز ہوا چل رہی ہے۔لوپی لو۔“
خالدہ برابر دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی۔
”امی میں نے سچ مچ آواز سنی ہے۔کوئی ضرور دروازہ کھٹکھٹارہا ہے۔“
ماں بولی۔”نہیں،دروازے پر کوئی نہیں ہے۔بھلا آدھی رات کو ہمارے گھر کون آئے گا۔کسی کو یہاں آنے کی کیا ضرورت ہے۔اور وہ دھیرے دھیرے خالدہ کی پیٹھ سے تکیہ کھسکا نے لگی تاکہ وہ سر نیچے رکھ کر لیٹ جائے۔
”امی آپ دیکھ لیں شاید باہر کوئی کھڑا ہو۔“
”اچھا بیٹی دیکھتی ہوں۔“وہ دروازے کی طرف گئی۔”کون ہے؟“اس نے بلند آواز سے کہا۔ کوئی جواب نہ ملا۔
”دروازے پر کون ہے؟“اس نے دوبارہ پوچھا۔
اب دروازے پر زور زور سے دستک ہونے لگی۔
”بتاتا نہیں کہ میں کون ہوں،دروازہ کھٹکھٹا ئے جا رہا ہے۔“خالدہ کی امی بڑبڑائیں اوردروازہ کھولنے لگیں۔
دروازہ کھل گیا،مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔اچانک اس نے ایک آدمی کو دیکھا جو ذرا دور جا کر اندھیرے میں غائب ہوگیا۔
”کون ہے امی؟“خالدہ نے پوچھا۔
”کوئی نہیں۔ شاید چلا گیا۔“
”کون چلا گیا ہے؟“
”کون جانے کون تھااور کیاکرنے آیا تھا۔“یہ کہہ کر خالدہ کی امی دروازہ بند کرنے والی تھی کہ دروازے کے نیچے اس نے کوئی چیز چمکتی ہوئی دیکھی۔جھک کر اس نے وہ چیز اٹھالی۔
یہ سفید رومال میں لپٹی ہوئی کوئی شے تھی۔وہ دروازہ بند کرکے آگئی اور خالدہ کی چارپائی کے پاس کرسی پر بیٹھ گئی۔
”کیا ہے امی؟“
”پتا نہیں کیا ہے۔رومال میں کچھ بندھا ہے۔“
”کھولیے تو۔“
خالدہ کی امی نے رومال کی گرہ کھولی۔نوٹوں کی ایک گٹھی اس کے ہاتھ میں تھی۔دونوں ماں بیٹی نوٹوں کی گٹھی کو دیکھ کر حیران رہ گئیں۔
”امی،معلوم ہوتا ہے جس شخص نے دروازہ کھٹکھٹا یا تھا وہ یہی نوٹ دینے کے لیے آیاتھا۔“
”ہاں، میں نے کچھ دورایک سایہ دیکھا تھا۔“
خالدہ غور سے رومال دیکھنے لگی۔”امی یہ کاغذ کا پرزہ آپ نے نہیں دیکھا۔رومال ہی میں تھا۔“
خالدہ نویں جماعت میں پڑھتی تھی،اس کی امی ان پڑھ تھیں۔
”دیکھو کچھ لکھا ہے اس پر۔“
خالدہ نے کمر گاﺅ تکیے سے لگا دی اور کاغذ کے اس پرزے پر جو الفاظ لکھے گئے تھے وہ پڑھنے لگی۔
”امی لکھا ہے۔”بیمار بچی کے علاج کے لیے۔“
”اور کچھ نہیں ہے؟“
”امی اور توکچھ نہیں ہے۔لکھنے والے نے اپنا نام بھی نہیں لکھا۔“
ماں بیٹی خاموش ہوگئیں۔ماں کے ہاتھ میں نوٹوں کی گٹھی تھی اور بیٹی کے ہاتھ میں کاغذ کا پرزہ اور دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھیں۔
۔۔۔۔۔
وقت گزرتا گیا ۔دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہو گئے۔خالدہ کو اس کی ماں نے ایک ہسپتال میں داخل کرادیا۔اب اسے اچھی سے اچھی دوائیں ملنے لگی تھیں۔ڈاکٹر صبح شام اسے دیکھنے کے لیے آتا تھا۔ڈیڑھ ماہ تک علاج کرانے کے بعد خالدہ صحت یاب ہوگئی ۔
صحت یاب ہونے کے بعد اس نے تعلیم جاری رکھی۔کالج میں پہنچی، پورے صوبے میں اول ا ٓئی۔وظیفہ پایا۔ایم اے کرنے کے بعد ایک کالج میں پڑھانے لگی۔
اسے معقول تنخواہ ملتی تھی۔ایسی حالت میں ایک خراب اور خستہ اور پرانے مکان میں رہنا مناسب نہیں تھا۔یہ مکان بیچ کر ماں بیٹی شہر کے ایک بڑے شان دار حصے میں ایک کوٹھی میں رہنے لگیں۔
خالدہ کی شادی اونچے عہدے کے ایک سرکاری افسر سے ہوئی اور وہ سب راضی خوشی رہنے لگے۔
۔۔۔۔
اتوار کا دن تھا۔پندر سال بیت گئے تھے۔ چند روز پہلے خالدہ، اس کی امی اور خالدہ کا شوہر یورپ کی سیر کرکے اپنے گھر لوٹے تھے۔ عظیم تو اپنے کسی دوست کے ہاں کھانے پر مدعو تھا،بچوں کے ساتھ وہاں چلا گیا۔اس کے جانے کے بعد خالدہ اور امی کہیں جانے کا پروگرام بنا نے لگیں۔خالدہ اپنی ایک سہیلی کے گھر جانا چاہتی تھی، مگر اس صورت میں اس کی امی گھر میں اکیلی رہ جاتی تھی اور خالدہ کو یہ بات پسند نہیں تھی۔
وہ کوئی اور پروگرام سوچنے لگی۔یکایک خالدہ بولی:
”امی!کیوں نہ آج ہم اپنے پرانے محلے میں جائیں۔کبھی ادھر گئے ہی نہیں۔“
خالدہ کی امی بولیں:
”میرا بھی بہت جی چاہتا ہے کہ پرانے ہمسایوں سے ملاقات کروں۔خدا جانے کون کون زندہ ہے اور کون کون زندہ نہیں۔“ماں بیٹی گاڑی میں بیٹھ کر اپنے پرانے محلے کی طرف روانہ ہوگئیں۔
پرانے محلے میں گئیں تو انہیں کئی جانی پہچانی شکلیں نظر آگئیں اور کئی دکھائی نہ دیں۔وہ کئی گھروں میں دس دس پندرہ پندرہ منٹ بیٹھ کراپنے پرانے مکان کے قریب جا پہنچیں۔
ان کا مکان پہلے ہی خراب و خستہ تھااور اب تو لگتا تھا کہ جیسے یہ کوئی مکان نہیں بلکہ ایک کھنڈر ہے۔
”امی آﺅ اندر چلیں۔“خالدہ نے ماں سے کہا۔
”اندر جا کر کیا کریں گی آپ،وہاں توکوئی بھی نہیں ہے۔“ایک ہمسائے نے کہا جو وہاں آگیا تھا۔
”پھر بھی ہم اندر جائیں گے۔“خالدہ بولی۔
دونوں اندر چلی گئیں۔وہی چھت تھی جس کے نیچے انہوں نے اپنی تنگی کا بڑا حصہ گزارا تھا۔یہی وہ درو دیوار تھے جنہیں وہ اچھی طرح پہچانتی تھیں۔جن سے انہیں محبت تھی۔جنہوں نے ان کو اور ان کے خاندان کے باقی لوگوں کو آرام اور سکھ دیا تھا۔
اس گھر میں انہوں نے بڑی غربت کے دن بسر کیے تھے۔اب وہ بڑی دولت مند ہو چکی تھیں، لیکن اس مکان کی محبت ان کے دلوں سے ختم نہیں ہوئی تھی۔کمرے سے نکل کر جب وہ دالان میں پہنچی تو خالدہ نے وہاں ایک چارپائی بچھی ہوئی دیکھی۔
”یہاں کوئی رہتا ہے امی!“خالدہ نے چارپائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ماں سے کہا۔
”کون ہے۔“
ایک بوڑھا آدمی لاٹھی کے سہارے چارپائی کی طرف جا رہا تھا۔دونوں نے اسے دیکھا۔
”باباجی ! کیا آپ یہاں رہتے ہیں؟“خالدہ نے بوڑھے سے مخاطب ہو کر کہا۔
”ہاںمیںیہاں رہتا ہوں۔“بوڑھے نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے جواب دیا۔خالدہ اور اس کی امی اس کے قریب چلی گئیں۔
”بابا جی ایک بات بتائیے۔“
”کیا بات۔“
”آپ کا کوئی عزیز نہیں ہے جو آپ اس کھنڈر میں رہتے ہیں۔“سوال خالدہ کی امی نے کیا تھا۔
بوڑھے نے چند لمحے خاموش رہ کر اپنی سانس درست کی۔کھانسی کی وجہ سے وہ آسانی سے بول نہیں سکتا تھا۔
”کیا پوچھا ہے آپ نے؟“بوڑھے نے سانس ذرا درست کرکے کہا۔خالدہ کی امی نے اپنا سوال دہرایا۔
”میرے عزیزنہیںپرمیں کیا بتاﺅں یہاں کیوں چلا آیاہوں۔“
”بتائیے نا بابا جی۔“
”چھوڑو اس قصے کو۔بس یہ سمجھ لو کہ یہاں مجھے تنہائی نصیب ہوتی ہے۔اطمینان سے پڑا رہتا ہوں۔“نہ جانے خالدہ کے دل میں یہ خیال کیوں پیدا ہوگیا کہ بوڑھا اصل بات چھپا رہا ہے، وہ اصرار کرنے لگی۔
”بتائیے نا بابا جان،آپ یہاں کیوں رہنا پسند کرتے ہیں؟“
”تمہیں اس سے کیا۔میں جہاں چاہوں رہوں۔یہ میرا اپنا معاملہ ہے۔“بوڑھا خفا ہو کربولا۔
خالدہ کی امی نے بیٹی کو گھر سے نکلنے کے لیے اشارہ کیا اور خود دروازے کی طرف جانے لگیں۔خالدہ وہیں بوڑھے کی چارپائی کے پاس کھڑی اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
”خالدہ۔“اس کی امی نے پکارا۔
”ٹھہرئیے امی!میرا جی چاہتاہے کہ بابا جی سے کچھ باتیں کروں۔“اور بوڑھے سے کہنے لگی۔”اچھا بابا آپ کے کھانے پینے کا کیا انتظام ہے؟یہاں کوئی تکلیف تو نہیں؟“بوڑھے نے اسے بتایا کہ اس کے پاس کھانے کے لیے ہر وقت پیسے رہتے ہیں۔اور اسے کوئی تکلیف نہیںہوتی۔
تھوڑی دیر بعد بوڑھے کا غصہ اتر گیا اور جب خالدہ نے محسوس کیا کہ اب اس کا لہجہ نرم ہو گیا ہے تو بولی:
”بابا جی میرے سوال کا جواب دیں۔کیوں اس پرانے مکان میں رہتے ہیں۔میں آپ سے عرض کرتی ہوں کہ میری بات کا ضرور جواب دیں۔ممنون ہوں گی۔“بوڑھا کچھ لمحے خاموش رہا جیسے کوئی بات سوچ رہا ہے،پھربو لا:
”میں نہیں جانتا تم کون ہو،کہاں سے آئی ہو۔مگر میرا دل مجھے مجبور کر رہا ہے کہ اصل معاملہ تمہیں بتا دوں۔“ بوڑھا کھانسنے لگا۔ خالدہ نے صراحی سے گلاس بھر کر اس کے ہونٹوں سے لگا دیا۔کھانسی کی شدت کم ہو گئی تو وہ کہنے لگا۔
”میں اس محلے سے دور رہتا تھا۔ایک دفتر میں چپراسی تھا۔اچھی گزر بسر ہو جاتی تھی۔میری بیوی مر چکی تھی۔صرف ایک بیٹی تھی جو میرے لئے زندگی کا سہارا تھا۔اسی کو دیکھ کر جیتا تھا۔“
بوڑھا کھانسنے لگا۔خالدہ نے پھر اس کے ہونٹوں سے گلاس لگا دیا۔
”میری بیٹی بیمار پڑ گئی اور اس کی بیماری بڑھتی چلی گئی۔میں نے فیصلہ کر لیا کہ زندگی میں جتنا روپیہ جمع کر رکھا ہے اس کے علاج معالجے پر خرچ کردوں گا۔مگر ایک ہفتے کے بعد ہی وہ مر گئی۔میری ساری کی ساری پونجی دھری کی دھری رہ گئی۔“
خالدہ اور اس کی امی جو بوڑھے کی چارپائی کے پاس ایک کچیلی سی چٹائی پر بیٹھ گئی تھیں،افسوس کا اظہار کرنے لگیں۔
”میرا دل ٹوٹ گیا تھا۔زندہ رہنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔انہی دنوں مجھے خبر ملی کہ اس مکان میں ایک بیوہ اور اس کی بیٹی رہتی ہیں۔بیٹی سخت بیمار ہے اور اس کا علاج نہیں ہو رہا ہے کیونکہ ماں بہت غریب ہے۔میں نے سوچا، میں نے اپنی بیٹی کے علاج کے لیے اپنی ساری جمع پونجی خرچ کرنی چاہی تھی،لیکن اللہ کو یہ منظور نہ ہوا۔میرا پیسہ میرے پاس رہا اور بیٹی پاس نہ رہ سکی۔کیوں نہ اپنا سارا پیسہ اس بیوہ عورت کو دے دوں تاکہ وہ اپنی بچی کا علاج وغیرہ کروا سکے۔“
بوڑھا کہے جا رہا تھا اور وہ دونوں سانس روکے اس کے الفاظ سن رہی تھیں۔
”میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگوں کو دکھا کر نیکی کروں،اور یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس عورت کو میرے نام کا پتا چلے۔اس لیے ایک رات ساری رقم رومال میں باندھ کر اس کے گھر کے دروازے پر پہنچا۔دروازے پر دستک دی اور جب معلوم ہوا کہ وہ دروازہ کھولنے والی ہے تو میں نوٹوں کی پوٹلی دروازے کے آگے رکھ کر اندھیرے میں غائب ہوگیا۔
بوڑھے نے مشکل سے کھانسی دبا رکھی تھی،مگر اب ضبط کرنا ممکن نہیں تھا۔وہ کھانسنے لگا۔خالدہ اسے پانی کا گلاس دینا بھول کر ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھ رہی تھی اور یہی حالت اس کی ماں کی بھی تھی۔بوڑھے کی حالت قدرے سنبھلی تو وہ کہنے لگا:
”میں شہر چھوڑ کر آوارہ گردی کرتا رہا۔کبھی ایک شہر میں ہوں اور کبھی دوسرے شہر میں۔جب تھک گیا تو اپنا شہر اور اپنا محلہ یاد آیا۔واپس آیا تو پتا چلا کہ بیوہ اور اس کی بیٹی کافی مدت ہوئی اس مکان سے جا چکی ہیں اور مکان کی حالت بڑی خراب ہے۔خیال آیا میں بڑا بے تاب اور بے قرار رہتا ہوں،شاید یہ مکان مجھے اطمینان دے سکے کیونکہ یہاں میں نے ایک نیکی کی تھی اور میرا خیال صحیح ثابت ہوا۔یہاں آیا تو جیسے میرا کھویا ہوا اطمینان مجھے واپس مل گیا۔“
بوڑھا خاموش ہوگیا۔خالد اور اس کی امی دونوں کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔خالدنے بوڑھے کا ہاتھ پکڑااور اسے اپنے سر پر رکھ کر بولی:
” بابا جان! آپ نے کہا تھا کہ آپ کی بیٹی مر گئی تھی۔“
”ہاں مر گئی تھی۔“بوڑھے نے کہا۔
”نہیں بابا جان!یہ آپ کی بیٹی ہے جس کے سر پر آپ نے اپنا ہاتھ رکھا ہوا ہے۔“