غار کا بچہ
سائبیر ین کہانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رضوانہ سید علی
بہار کا موسم تھا۔برف میں دبے پودے سر اٹھا رہے تھے اور ان پر لگے خوبصورت پھول اور خوش ذائقہ رسیلے پھل فضا کو رنگینی بخش رہے تھے۔ایسے میں ایک سائبیرین عورت اپنے ننھے سے بچے کوکمر سے باندھ کربیری جیسے کھٹے میٹھے پھل جمع کرنے نکلی۔وہ پھل چن رہی تھی اور ننھا مسلسل رو رہا تھا۔شاید اسے سردی لگ رہی تھی۔اس نے سوچھاکیوں نہ اسے غار میں لٹا دوں۔چنانچہ اس نے برفانی ریچھ کی کھال میں ننھے کو اچھی طرح لپیٹا اور ایک غار میں لٹا دیا۔واقعی غار میں گرمی تھی۔ننھا وہاں لیٹتے ہی خاموش ہو گیااور کچھ دیر بعد سو گیا۔ماں مطمئن ہو کر جھاڑی جھاڑی پھر کر پھل چننے لگی۔پھل چنتے چنتے وہ دور نکل گئی۔اچانک اسے خیال آیا کہ اب واپس چلنا چاہئے۔ایسا نہ ہو کہ منا اٹھ کررورہا ہو۔چنانچہ وہ واپس پلٹی۔لیکن جب وہ غار کے قریب پہنچی تو یہ دیکھ کر اس کا دل دھک سے رہ گیا کہ غار کے دہانے پر ایک مادہ برفانی ریچھ کھڑی غرارہی ہے۔ماں نے بہت کو شش کی کہ کسی نہ کسی طرح وہ وہاں سے چلی جائے مگر جب وہ اپنے نوکیلے پنجوں اور دانتوں کو کھول کر اس پر لپک ہی پڑی تو اس عورت کو مجبوراً وہاں سے ہٹنا پڑا۔وہ زور زور سے روتی ہوئی اپنے گھر پہنچی تو قبیلے کے تمام لوگ اس کے گرد جمع ہو گئے۔اس وقت تک مچھلی کے شکار کو جانے والے مردوں میں سے بھی کافی لوگ واپس آچکے تھے۔تمام واقعہ سن کر بہت سے لوگ بندوقیں لے کر عورت کے ساتھ ہو لیے۔لیکن جب وہ غار تک پہنچے تو غار خالی تھا۔وہاں نہ بچہ تھا اور نہ ہی مادہ ریچھ۔
دراصل وہ غار بہت گہرا تھا اور اس کی گہرائی میں مادہ ریچھ اپنے چار بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔اس نے ریچھ کی کھال میں لپٹا ہوا بچہ دیکھا تواسے اٹھا کر اپنے بچوں کے پاس لے گئی۔اور اپنے بچوں کے ساتھ اسے بھی پالنے لگی۔یوں وہ بچہ ریچھوں میں پلتا بڑھتا چلا گیا۔وہ ریچھوں کے خاندان کا ہی فرد بن گیا۔انہی کی طرح چشموں پر جا کر مچھلی شکار کرتا۔درختوں اور جھاڑیوں سے پھل اور شہد لیتا اور ریچھوں کے ساتھ خوب کھیلتا۔مادہ ریچھ اس کے ساتھ اسی طرح لاڈ کرتی جیسے اپنے بچوں کے ساتھ کرتی تھی۔اس طرح کئی موسم بیت گئے۔اب ریچھ کے بچے خوب بڑے ہوچکے تھے۔لڑکے کی عمر بھی دس سال ہوگئی تھی۔اب وہ سب الگ الگ شکار پر جاتے تھے۔لڑکا ایک روز ٹہلتا ہوا سمندر کی طرف جا نکلا۔اسے کچھ شور سا سنائی دیا تو وہ ایک بڑے برفانی تودے کے پیچھے چھپ کر دیکھنے لگا۔اسے کچھ انسان دکھائی دئیے۔اس نے آج تک انسان نہیں دیکھے تھے۔مگر کچھ دیر دیکھنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ یہ جانور تو مجھ جیسے ہیں۔چنانچہ وہ انہیں غور سے دیکھتا پھر اپنے آپ کو دیکھتا۔اس کے بدن پر آج تک وہ کھال لپٹی تھی، جس میں اس کی ماں نے اسے لپیٹا تھا۔لیکن اب وہ اس کے آدھے دھڑ کو ہی ڈھانپ سکتی تھی۔اس کے ناخن اور بال خوب بڑھ چکے تھے۔پھر بھی اسے محسوس ہوا کہ جو جانور اس کے سامنے پھر رہے ہیں وہ اس جیسے ہی ہیں۔چنانچہ وہ حیرت زدہ سا ہو کر آہستہ آہستہ با ہر نکل آیا۔
’’ارے وہ دیکھو!وہ کیسا جانور ہے؟‘‘شکاریوں میں سے ایک کی نظر اس پر پڑی تو وہ حیران ہو کر چلااٹھا۔لڑکا ڈر کر پھر تودے کے پیچھے چھپنے جا رہا تھاتو اسے ان لوگوں نے چاروں طرف سے گھیر لیااور حیرت سے دیکھنے لگے۔اچانک ان میں سے ایک چلایا’’جونی!دیکھو تو اس کی شکل تو تم سے بہت ملتی ہے۔‘‘
جونی چونکا’’کہیں یہ میرا وہ بیٹا تو نہیں جو برسوں پہلے گم ہو گیا تھا۔‘‘وہ اسے بہ مشکل پکڑ دھکڑکر کشتی میں بٹھانے میں کامیاب ہوئے اور گھر لے گئے جہاں اس کی ماں نے نہ صرف اسے پہچان لیا بلکہ اس کھال کو بھی جس میں اس نے اسے لپیٹا تھا۔
اسے انسانی تہذیب اپنانے میں زمانے لگے،مگراپنی ریچھ ماں کی شفقت کو وہ کبھی نہ بھلا سکا۔