الیکٹران پر رہنے والے
حماد ظہیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سمندر کی طرف بلا رہا ہے اور ہم بے وقوف اس دنیا میں دل لگا رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے تو یہی دیکھا کہ خدا دے اور مرزا لے! شجاعت مرزا کی صلاحیتوں کا اندازہ چراغ کی موجودگی میں نہیں ہوتا، اس کے لئے کم از کم سورج کا ہونا ضروری ہے۔
شجاعت نے کلاس میں ایک نئی روایت کی داغ بیل ڈالی۔ قصہ بہت عام سا تھا، مگر مرزا کی موجودگی نے اسے آلودہ بنادیا۔
گھنٹہ تبدیل ہوا تو اگلے مضمون کی مس نے آنے میں تھوڑی دیر کردی۔ میدان خالی دیکھتے ہی شجاعت حسبِ عادت، حسبِ ضرورت، حسب منشا اور حسبِ فرمائش غرض سارے حسب نسب کے ساتھ بورڈ پر پہنچ گیا۔
دنیا کے آٹھوں عجوبے یکشمت دیکھ لینے پر بھی ہماری کلاس اتنی خاموش نہ ہوتی جتنی ایک اکیلے مرزا کو بورڈ پر د یکھ کر ہوئی۔ خاموشی کا درجہ صفر سے بھی نیچے منفی میں چلا گیا تھا اور باہر شاخ پر بیٹھا کوا پریشان تھا کہ وہ اپنا حلق تو پھاڑ رہا ہے لیکن دوسروں کے کان کیوں نہیں (پھٹ رہے)
مرزا بولے ’’کیوں نہ خالی پریڈ میں دماغ خالی کریں اور سب سے پہلے میں!‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ بہت سے لوگ، بلکہ سارے ہی کچھ نہ سمجھ سکے۔ شجاعت کو چونکہ پتا تھا کہ اس کی اکثر باتوں پر لوگ یہی کہتے ہیں۔ لہٰذا وہ بھی فوراً بولا۔
’’مطلب یہ ۔۔۔ کہ اسے فلسفہ کی کلاس بناتے ہیں، اور ہر کوئی باری باری آکر اپنا فلسفہ جھاڑے!‘‘
’’پہلے بگھارے، پھر جھاڑے، ہمیں بغیر بگھار کی چیزیں زیادہ پسند نہیں!‘‘ ہم بولے۔
’’لیکن ہر کسی کے پاس کہاں کوئی فلسفہ ہے؟‘‘ ایک بے چین سی صدا آئی!
’’بھئی انسان کے ذہن میں ہر وقت سیکڑوں قسم کے خیالات آتے رہتے ہیں، ان میں سے اچھے اچھوں کی چھانٹی کرکے یہاں پیش کردے!‘‘
کچھ لوگوں کو تشویش شروع ہوگئی کہ ہمیشہ انوکھی اور نت نئی باتیں کرنے والا شجاعت کہیں آج انہیں بور نہ کردے، لیکن وہ شجاعت ہی کیا جو کسی کی اُمیدوں پر یا کم از کم تشویش ہی پر پورا اُتر جائے، ہنہنا کر بولا۔
’’ہوں۔۔۔ ہاں۔۔۔ ہم!‘‘ الفاظ تو کسی جانی پہچانی زبان ہی کے تھے۔ مگر مطلب کے لئے مرزا کو مطب جانے کی ضرورت تھی۔
شجاعت نے میز پر اپنی شہادت کی انگلی پھیری اور کلاس کو دکھا کر پوچھا۔
’’آپ کو پتا ہے میری انگلی میں کیا لگ چکا ہے؟‘‘
’’تمہاری انگلی میں دھول ہی تو لگی ہے، کوئی پھول تو نہیں لگ گئے‘‘۔ ہم جلدی سے بول اُٹھے۔
’’بہت سوں کو تو شاید یہ نظر بھی نہ آرہی ہو، لیکن بحیثیت سائنس کے طالب علم کے، آپ سب ہی جانتے ہیں کہ اس میں ہزاروں لاکھوں ایٹم موجود ہیں!‘‘
’’ہاں یہ تو ہے!‘‘ ایک تائیدی آواز آئی۔
’’تو کون ہے جو مجھ سے یہ خرید لے!‘‘ مرزا نے پیشکش کی۔
ہر طالب علم نے کسی بڑے بے وقوف کی تلاش میں ایک دوسرے کی شکلیں دیکھیں، لیکن آخر میں سب مرزا ہی کو گھور رہے تھے۔
’’میں اس کی زیادہ نہیں صرف دس ہزار روپے قیمت لیتا ہوں‘‘۔ شجاعت نے یہ کہہ کر تو رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔
’’قیمت نہیں مفت کہو‘‘۔
’’نیا انداز ہے پیسے مانگنے کا‘‘۔
’’ہمارے سروں پر تمہیں کتنے سینگ نظر آرہے ہیں؟‘‘
’’کیا یہ گرد کسی مقدس مقام کی ہے؟‘‘
’’اس میں کیا ہیرے موتی جڑے ہوئے ہیں؟‘‘
’’نہیں‘‘۔ شجاعت نے سلسلۂ سوالات کو ایک ہی جواب سے توڑ ڈالا۔
’’پھر تو ہم ایسی دس گنا مقدار کے لئے بھی ایک سکہ خرچ نہ کریں!‘‘ ہم نے فیصلہ سنایا۔
’’کیا آپ سب کا یہی فیصلہ ہے؟‘‘ شجاعت نے پوری کلاس سے سوال کیا۔
’’ہاں!‘‘ تقریباً سب ہی کا یہی جواب تھا۔
’’اچھا تو پھر سنیے۔۔۔ اس گرد کی خاصیت!‘‘ مرزا نے کہا تو ہم سمجھ گئے کہ اب وہ اس کو کسی تاریخی واقعہ یا شخصیت سے منسوب کرنے کے لئے من گھڑت کہانی شروع کردے گا۔ لیکن یہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی، لہٰذا ہم ہمہ تن گوش ہوگئے!
’’بہت غور و خوض کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں ۔۔۔‘‘ شجاعت یہ کہہ کر پوری کلاس کو دم سادھ کر سننے پر مجبور کرچکا تھا۔
’’میری انگلی پر لگے ہزاروں ایٹم کی آپ کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں تو ان میں سے ایک کی تو کوئی بساط ہی نہیں۔۔۔ ہے نا؟‘‘
سب نے اثبات میں سر ہلائے۔
’’ہم نے سائنس میں پڑھا ہی ہے کہ ہر ایٹم کے گرد بے شمار الیکٹران گردش کررہے ہوتے ہیں‘‘۔
’’ہاں تو پھر‘‘۔ ہم بے چینی سے بولے۔ یہ سوچتے ہوئے کہ وہ شجاعت ہی کیا جو روایت کے مطابق چلے۔ وہ ہماری توقعات سے الگ چل رہا تھا۔
’’اس کا مطلب میری انگلی میں اس وقت لاکھوں کروڑوں الیکٹران بھی گردش کررہے ہیں!‘‘
’’اوہ‘‘۔ حقیقت تھی لیکن شاید کسی نے پہلے سوچی نہیں تھی۔
’’اب اگر میں یہ کہوں کہ ہر الیکٹران پر ایک دنیا آباد ہے اور ہر دنیا میں بے شمار مخلوقات ہیں تو آپ میں سے کون اس کی مخالفت کرے گا!‘‘
مرزا کے اس جملے پر چند لمحوں تک تو لوگوں کو سمجھ ہی نہ آیا کہ بات کیا کی گئی اور یہ کہ مخاطب وہ خود تھے، لیکن دیر آئید، غلط آئید سب ہی بول اُٹھے۔
’’ناممکن‘‘۔
’’جھوٹ‘‘۔
’’گھڑی گھڑائی‘‘۔
’’لامحال‘‘۔ وغیرہ وغیرہ۔
ہم بھی اپنی تھوڑی سہلا رہے تھے کہ اچھے بھلے شجاعت کو کہاں اتنی مخالفتیں مفت لینے کی سوجھی۔
’’بڑے بڑے سائنس دان ابھی الیکٹران کا خوردبینی مشاہدہ نہیں کرسکے، آپ کیسے کہہ سکتے ہو کہ یہ ناممکن ہے‘‘۔ شجاعت نے سب کو گہری سوچ میں ڈال دیا۔
’’جب کسی چیز کی تردید کا ثبوت نہ ہو تو اسے تسلیم کیا جاسکتا ہے‘‘۔ شجاعت نے اپنی بات منوا ہی کر چھوڑی۔ بلکہ چھوڑی کہاں، یہیں سے تو اس نے بات پکڑی، زور پکڑا اور رفتار پکڑی۔
’’ان میں سے ایک الیکٹران کی کئی مخلوقات میں سے ایک مخلوق کی تعداد چھ ارب کے قریب ہے!‘‘
شجاعت نے تؤقف کیا، لیکن کسی کے سانس لینے کی بھی آواز نہ آئی۔
’’ان میں سے تقریباً چار ارب یہ سمجھتی ہے کہ میرا نام شجاعت مرزا نہیں ہے۔۔۔ کیا اس سے مجھے کوئی فرق پڑا؟؟؟ شاید مرزا نے بہت عام سی بات کی ہو، لیکن ایک مماثلت محسوس کرنے کی وجہ سے میرا تو دل اُچھل کر حلق میں آگیا۔
’’ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں میرا وجود ہی نہیں، تو کیا ایسا سمجھنے سے میرا وجود ختم ہوجائے گا؟‘‘ شجاعت بولے چلا جارہا تھا۔
’’ان میں سے اگر سب بھی مجھے دنیا کا سب سے ذہین انسان مان لیں تو کیا میری ذہانت میں کچھ اضافہ ہوجائے گا، یا مجھے سب سے بڑا احمق مان لیں تو میری حماقت میں کچھ کمی ہوجائے گی؟‘‘ مرزا نے پے در پے سوالات کی بوچھاڑ کردی۔
’’کیا وہ سب مل کر بھی مجھے کوئی فائدہ یا نقصان پہنچا سکتے ہیں؟؟؟۔۔۔ نہیں‘‘ شجاعت نے خود ہی جواب دیا۔
ہر ذہن کو مرزا نے کچھ نہ کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا، لیکن میں تو صرف اس کے لئے دعائے مغفرت ہی کررہا تھا۔
’’اگر میں آپ کو بتاؤں کے الیکٹران کے اندر دو قومیں ایک دوسرے سے جنگ لڑرہی ہیں تو کیا آپ کو دلچسپی ہوگی کہ ان میں سے کون جیتتی ہے اور کون ہارتی؟‘‘
’’ہو بھی سکتی ہے‘‘۔ ہم نے ہر امکان کو مدنظر رکھا۔
’’یاد رہے میری انگلی پر لگے کروڑوں الیکٹران پر جنگ جاری ہے۔ اس کے علاوہ ہماری دنیا کی تو بات الگ رہی صرف ہماری کلاس ہی میں لاتعداد ایٹم اور ان پر لاتعداد الیکٹران موجود ہیں!‘‘
مرزا کی اس بات سے ہمارا امکان خود ہی رد ہوگیا۔
مرزا پھر بولے ’’مثال کے طور پر آپ لوگ الیکٹران پر بسنے والی مخلوق سے بات کرنے کے قابل ہوجائیں تو انہیں کیا بتائیں گے؟‘‘ مرزا نے ہماری طرف اشارہ کیا تو ہم سوچ سوچ کر بولے۔
’’ہم بتائیں گے کہ تم جس دنیا میں رہتے ہو یہ تو اصل دنیا کے مقابلے میں صفر ہے۔ اس جیسی کئی دنیا جو تمہارے آگے پیچھے گھوم رہی ہیں مل کر بھی صرف ایک ایٹم بناتی ہیں جو کہ اکیلا تو خوردبین سے بھی نظر نہیں آتا۔ اس جیسے کئی ایٹم مل کر ایک دھات یا گیس بناتے ہیں۔ تب جاکر کوئی شکل سامنے آتی ہے۔ دنیا میں بے شمار دھاتیں اور گیسیں موجود ہیں۔ مگر تم کیا جانو، انسانوں نے ان سے کیسی کیسی کارآمد اور دلچسپ چیزیں بنا ڈالی ہیں!‘‘ ہم بھی بولنے میں استاد تھے بولتے چلے گئے!
’’ارے ایک اہم بات تو میں بتانا ہی بھول گیا‘‘۔ شجاعت نے ہماری بات کاٹی اور بولنا شروع ہوا۔
’’وہ مخلوق بالکل بے حس ہے۔ نہ ان میں سونگھنے کی صلاحیت ہے کہ خوشبوئیں سونگھیں، نہ چکھنے کی صلاحیت ہے کہ ذائقے چکھیں، نہ دیکھنے کی صلاحیت ہے کہ طرح طرح کے رنگ اور چیزیں دیکھیں، نہ ہی سننے کی صلاحیت ہے کہ کانوں کو بھلی لگنے والی آوازیں سنیں، نہ ہی وہ چھو کر کسی چیز کو محسوس کرسکتے ہیں۔ یہی ہیں بلکہ ان کی دنیا یعنی الیکٹران میں کسی قسم کی چیزیں بھی نہیں ہیں، یعنی خوشبوئیں، آوازیں، رنگ، ذائقے وغیرہ!‘‘
شجاعت ٹھہرا تو ہم نے کچھ لوگوں کے چہروں پر بوریت اور ناگواری کے آثار دیکھے۔ شاید مرزا نے بھی دیکھے ہوں تبھی سب کو مخاطب کرکے بولا۔
’’اب میرا آپ سب سے سوال ہے کہ اگر آپ اس قابل ہوجائیں کہ اس مخلوق کو یہاں اس دنیا میں انسان کی صورت میں لے آئیں تو یہ آپ کا ان پر کتنا بڑا احسان ہوگا!!!‘‘
’’ہاں۔۔۔ بالکل۔۔۔‘‘
’’مگر وہ مخلوق کہے کہ ہمیں کہیں اور نہیں جانا۔ ہم یہیں خوش ہیں۔ ہماری دنیا اتنی بڑی تو ہے۔ اس میں اتنا کچھ تو ہے۔ ہمیں دینا ہی ہے تو اسی الیکٹران کا فلاں خطہ دلوادو۔ فلاں کے پاس یہ یہ ہے، ہمیں بھی دلادو۔۔۔ ان کی چھوٹی عقل میں یہ بات آئی ہی نہیں کہ اس بے رنگ و بو سے باہر بھی ایک بہت بڑی اور حسین دنیا بے شمار لذتیں، ذائقے اور مزے لئے موجود ہے۔۔۔ تو۔۔۔‘‘ شجاعت کی سوئی اٹکی۔
بات ہی ایسی کرنے جارہا تھا کہ اٹکنی چاہئے بھی تھی۔ ہم نے دیکھا اس نے آنکھیں بند کیں، بہت ہمت کی اور یہ جملہ بولا۔
’’تمہاری دنیا تو مچھر کے پَر کے برابر بھی نہیں ہے!‘‘
یہ جملہ تھا یا گویا بم، ساری کلاس کا ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ دروازے کے پاس ہم نے کچھ آہٹ سنی تھی۔ وہ مس کی صورت میں برآمد ہوئیں، لیکن انہوں نے بھی کلاس کے امن و امان کی صورتحال کو بالائے طاق رکھ کر شجاعت ہی پر دھاوا بولا۔
’’تم ہوش میں تو ہو شجاعت؟ کیا بکے جارہے ہو؟‘‘
بوکھلانے اور ہکلانے میں بھی مرزا کا کوئی ثانی نہیں، ایسے موقعوں پر وہ یہی ثابت کیا کرتا تھا، لیکن اس نے پرسکون انداز میں آنکھیں کھولیں اور بولا۔
’’مس آپ خود ہی سوچیں، جس کو رنگوں کا نہ پتا ہو، خوشبوؤں سے ناواقف ہو، ذائقوں سے ناآشنا اور آوازوں سے بے بہرہ ہو، جس کو ہاتھ سے ہاتھ سجھائی نہ دیتا ہو جس نے روشنی اور اندھیرے کو نہ برتا ہو اس کو آپ یہی کہہ کر شوق دلائیں گے نا کہ یہاں ایسی چیزیں ہیں جن کا تم نے سوچا تک نہیں، جن کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے!‘‘
مس سمجھی تھیں کہ شجاعت کوئی معذرت وغیرہ کرے گا، تبھی چپ چاپ اس کی بات سننے کھڑی ہوگئی تھیں، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ وہی مرزا کی ایک ٹانگ تو غصے سے کھول اُٹھیں۔
’’تمہاری عقل ہی نہیں، بلکہ دماغ اور زبان بھی جگہ پر نہیں ہیں۔۔۔ نکل جاؤ کلاس سے باہر!‘‘
’’ہوسکتا ہے یہ حقیقت ہی ہو۔ لیکن جب تک ثابت نہیں ہوجاتی آپ اس کو مثال ہی سمجھ لیں۔ میری، آپ کی اور اس دنیا کی مثال۔ جو اللہ رب العزت کے سامنے اس سے بھی بہت زیادہ حقیر ہے۔ جتنا ہمارے نزدیک ایک الیکٹران!‘‘ شجاعت نے منہ کھولا تو مس کو اندازہ ہوا کہ مرزا کا دماغ چلا نہیں ہے بلکہ چل رہا ہے!
’’جب الیکٹران پر ہونے والی جنگوں اور لوگوں کے خیالات سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا تو بھلا خدا کو ہماری کیا پروا ہوسکتی ہے۔ مگر یہ ہمارے رب کی بڑائی ہے کہ ہم جیسے حقیر لوگوں کو بھی وہ مستقل اپنے کرم سے اور ہدایت سے نواز رہا ہے اور اس ہدایت پر یقین کرلینے والے کو وہ اگلے جہاں میں ان چیزوں سے نوازے گا، جن کا نہ کسی نے تصور کیا ہوگا نہ ہی کسی دل پر اس کا گمان بھی گزرا ہوگا‘‘۔
مس چپ ہوگئیں، لیکن کلاس میں سے کسی کی آواز آئی۔
’’مگر ہم تو پہلے ہی ذائقہ، رنگ، خوشبو وغیرہ سے آشنا ہیں‘‘۔
’’عقلمند یہ تو سوچو جس خالقِ کائنات نے اتنے ذائقے بنائے وہ اس سے اچھے اور مختلف اور کتنے پیدا کرسکتا ہے۔ جس نے یہ حسین دنیا اور خوبصورت چہرے بنائے وہ ان کو مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں کہہ رہا تو جس کو بہت کچھ کہہ رہا ہے وہ کیسا ہوگا۔
اور یہ تو ہم سائنس میں پڑھتے ہی ہیں کہ ہمیں صرف سات رنگ نظر آتے ہیں وگرنہ ان کے اوپر اور نیچے بھی بے شمار رنگ ہیں۔ یہی حال آوازوں کا ہے اور پھر یہاں تو ہمیں پانچ حس دی گئی ہیں جن سے ہم لطف اور مزہ اُٹھاتے ہیں، دینے والا وہاں پانچ ہزار بھی دے سکتا ہے، سوچو اس صورت میں خوشی اور شادمانی اور عیش کا کیا عالم ہوگا!‘‘
مرزا کی تقریر جاندار تھی، لیکن بات ابھی باقی تھی۔
’’یہ سب تو وہ ہے جس کا ہم تصور کررہے ہیں، ہم اس سے بہت زیادہ کا بھی تصور کرسکتے ہیں، مگر ہم تصور کرتے جائیں اور اللہ غنی سے مانگتے جائیں، مانگتے جائیں یہاں تک کہ ہمارے پاس مانگنے کو اور سوچنے کو مزید کچھ نہ بچے اور اللہ کریم ہمیں وہ سب کچھ اس سے کئی گنا بڑھا کر بھی دے تب بھی اس کے خزانے میں اتنی کمی نہ ہوگی کہ ایک سوئی کو سمندر میں ڈبویا جائے تو اس کے ناکے میں جو پانی آجائے اور سمندر سے کم ہوجائے۔
خدا ہمیں اس سمندر کی طرف بلا رہا ہے اور ہم بے وقوف اس دنیا میں دل لگا رہے ہیں، جس جیسی نہ جانے کتنی اپنے سورج کے گرد الیکٹران کی طرح گھوم کر جنت کے کسی ذرے کا نہ نظر آنے والا فقط ایک ایٹم بنا رہی ہیں!‘‘