skip to Main Content

۳ ۔ جوانی کی عمر

نظرزیدی

۔۔۔۔۔

بچپن اور لڑکپن کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جوان ہوئے‘تو آپؐکے خیالات اور بھی پاک اور آپؐ کی عادتیں اور بھی اچھی ہوگئیں۔
اس زمانے میں عام نوجوانوں کا حال تو یہ تھا کہ وہ برائی اور گناہ کے کام کرکے یوں خوش ہوتے تھے جیسے کوئی بڑی کامیابی حاصل کی ہو۔گناہ کرکے شیخی بگھارنا بہادری کی نشانی خیال کرتے تھے اور دن رات ایسے ہی کاموں میں لگے رہتے تھے‘لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر قسم کی برائیوں سے دور رہ کر ایسی پاکیزہ زندگی گزارتے تھے کہ جو بھی آپؐ کو دیکھتا تھا تعریف کرتا تھا۔
اگر کسی کو تکلیف میں دیکھتے تھے تو ا س کی مدد کرتے تھے ۔ہمیشہ سچ بولتے تھے۔وعدہ کرتے تھے تو ہر حالت میں پورا کرتے تھے۔سب کا بھلا چاہتے تھے اور سب کی عزت کرتے تھے ۔کوئی بھلائی کاکام ہوتا دیکھتے تھے تو شوق سے اس میں شامل ہو جاتے تھے اور برائیوں سے الگ رہتے تھے۔نہ کبھی کھیل تماشوں میں شامل ہوتے اور نہ اپنا وقت فضول کاموں میں گنواتے تھے۔
آپؐکی زندگی کیسی پاک اور نورانی تھی اس کا ندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ لوگ آپ کو صادق اور امین کہہ کر بلاتے تھے۔ صادق کا مطلب ہے سچ بولنے والا۔اور امین اس شخص کو کہتے ہیں جو پوری طرح ایماندار ہو۔شہر کے لوگوں نے یہ نام اس لیے دیئے تھے کہ انہوں نے آپؐ کو ہمیشہ سچ بولتے سنا تھا اور ہر معاملے میں امانتدار پایا تھا۔
جنگ میں شرکت
کسی آدمی کے عقل مند ‘نیک اور شریف ہونے کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے دکھ درد کا ساتھی رہتا ہے ۔یہ نہیں کرتا کہ بس اپنے کام سے کام رکھے اور ہر بات میں اپنا ہی فائدہ سوچے ۔اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اگر گھر والے کسی مصیبت میں پھنس گئے ہوں‘تو ان کی وہ پریشانی دور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ہر کام میں ان کا ساتھ دیتا ہے۔
اس کے علاوہ انسان کی اچھائیوں میں ایک بڑی اچھائی اس کا بہادر اور دلیر ہونا بھی ہے۔بزدل اور چھپ کر بیٹھ جانے والا آدمی بڑائی کا کوئی کام نہیں کر سکتا ۔وہ تو معمولی جانوروں کی طرح کچھ دن زندہ رہ کر یوں دنیا سے چلا جاتا ہے کہ اس کانام و نشان بھی باقی نہیں رہتا اور نہ اس کی موت کے بعد کوئی اسے یاد کرتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں اچھائیاں ‘یعنی اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر پیار محبت سے رہنا اور بہادری بھی سب سے زیادہ دی تھی۔
اس بات کا ثبوت ایک واقعے سے ملتا ہے ۔ایک بار ایسا ہوا کہ قبیلہ قریش ‘یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قبیلے اور بنو قیس نامی ایک اور قبیلے میں لڑائی چھڑ گئی ۔یہ اس وقت کی بات ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر صرف چودہ برس تھی۔
جب یہ لڑائی شروع ہوئی‘ تو آپؐ اس میں شامل ہوئے۔تاریخ کی کتا بوں میں لکھا ہے آپؐ وہ تیر اٹھا اٹھا کر اپنے قبیلے کے تیر اندازوں کو دیتے تھے جو دشمن قبیلے کے تیر انداز چلا رہے تھے۔
اس جنگ میں قریش جیت گئے اور اس فتح میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی حصہ تھا ۔اس واقعے سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ آپؐ اپنے قبیلے اور خاندان کے سب کاموں میں اسی طرح شامل رہتے ہوں گے۔
تجارتی سفر
بچے یہ بات پڑھ چکے ہیں کہ قبیلہ قریش کے زیادہ تر لوگ تجارت کرتے تھے۔اپنے خاندان کے لوگوں کی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تجارت ہی کا پیشہ اختیار فرمایا۔
اس زمانے میں ایک قریشی خاتون حضرت خدیجہ بنت خویلد اپنی تجارت کا سامان دوسرے ملکوں کا سفر کرنے والے سودا گروں کو دے دیا کرتی تھیں اور جب وہ واپس آتے تھے تو اپنا منا فع خود رکھ لیتی تھیں اور سامان فروخت کرنے والوں کو ان کا حصہ دے دیتی تھیں ۔
یہ خاتون بیوہ تھیں ‘یعنی ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا تھا ۔باپ جن کا نام خویلد تھا بہت بوڑھے ہو چکے تھے‘گھر میں کوئی مرد نہ تھا جو دیکھ بھال کرتا ‘لیکن وہ ایسی عقل مند اور ہمت والی تھیں کہ اپنے کاروبار کی نگرانی خود کرتی تھیں۔
حضرت خدیجہ عقل مند ہونے کے ساتھ ساتھ نیک بھی بہت تھیں اور ان کی نیکی اور پاکیز گی کی وجہ سے سب انہیں طاہرہ کہا کرتے تھے۔طاہرہ کا مطلب پاکیزہ ہے۔انہوں نے ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نیکی اور سچائی کی شہرت سنی تو یہ خواہش ظاہر کی کہ آپؐ ان کا سامان لے جائیں اور تجارت کریں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات منظور کر لی اور حضرت خدیجہ کاسامان لے کر ملک شام کا سفر کیا ۔اس سفر میں حضرت خدیجہ کا ایک غلام جس کا نام میسرہ تھا آپؐ کے ساتھ گیا۔
اس بات کو سب مانتے ہیں کہ تجارت میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری بات ایمانداری ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو سب سے زیاد ہ ایماندار تھے۔اس لیے آپؐ کا یہ تجارتی سفر بہت کامیاب رہا ۔دوسرے سوداگروں کوجتنا نفع ہوتا ہے آپؐ کو اس سے بہت زیادہ نفع حاصل ہوا ۔
زیادہ نفع ملنے کے علاوہ آپؐ کے اچھے اخلاق کی وجہ سے لوگوں نے آپؐ کی بہت زیادہ عزت کی۔جہاں تشریف لے گئے ہاتھوں سے چھاؤں کی گئی ۔ان دونوں باتوں کے علاوہ اس سفر میں کچھ اورایسی باتیں بھی ہوئیں جن سے یہ ظاہر ہوا کہ آپؐ دوسرے لوگوں جیسے نہیں ‘بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو بہت سی ایسی خوبیاں دی ہیں جو کسی اور میں نہیں ہیں ۔مثال کے طور پر آپؐ چلتے تھے‘تو بادل آپؐ کے اوپر سایہ کردیتا تھا اور آپؐ کے ہر کام میں بر کت اور پاکیزگی ظاہر ہوتی تھی۔
شادی
حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے یہ ساری باتیں انہیں بتائیں‘تو وہ سمجھ گئیں کہ ابوطالب کے اس بھتیجے کو اللہ تعالیٰ نے خاص ہی شان اور عزت دی ہے۔وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں سن کر او ر اپنے سامان کے نفع میں برکت دیکھ کر ایسی خوش ہوئیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی اور اپنی ایک سہیلی کے ذریعے پیغام بھیجا ۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ پیغام حضورؐ کے چچا حمزہ کے ذریعے بھیجا گیا ۔بہرحال حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ پیغام ملا‘تو آپؐنے اپنے چچا ابو طالب سے مشورہ کر کے منظور کر لیا اور مکہ کی اس محترم خاتون کے ساتھ آپؐ کی شادی ہو گئی ۔
بیان کیا جاتا ہے شادی کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر پچّیس سال اورحضرت خدیجہ کی عمر چالیس سال تھی۔
ایک اور بڑا کارنامہ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شروع زندگی سے ایسے تمام کاموں میں بہت شوق سے حصہ لیا کرتے تھے جن سے برائی کم ہوتی تھی اوربھلائی پھیلنے کا یقین ہوتا تھا ۔لوگوں کی مدد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے ‘ کسی کو بھاری بوجھ اٹھائے ہوئے دیکھتے ‘تو آگے بڑھ کر اس کا بوجھ بانٹ لیتے ۔بیوہ عورتوں کو سودا سلف لا دیتے ۔کوئی کسی کو ناجائز طور پر ستا رہا ہوتا ‘تو اسے روکتے ‘غرض آپ کا زیادہ وقت نیکی کے کاموں ہی میں گزرتا ۔
ان اچھے کاموں کے علاوہ جوانی کی عمر میں آپؐ نے ایک ایساکام بھی کیاکہ سب نے آپؐ کی تعریف کی اور یہ مان لیا کہ جس طرح نیکی کے کاموں میں آپ سے بڑھا ہوا کوئی نہیں اسی طرح عقل مندی اوردانائی میں بھی آپؐ سب سے بڑھے ہوئے ہیں ۔
ہوا یہ کہ مکہ کی رہنے والی ایک عورت کعبہ شریف کے اندر خوشبودینے والی چیزیں لوبان اور عود وغیرہ جلا رہی تھی کہ اس مقدس عمارت کو آگ لگ گئی اور کافی نقصان پہنچ گیا ۔ویسے بھی یہ عمارت بہت پرانی ہو گئی تھی ۔آگ لگنے سے نقصان پہنچا تو سب نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ اسے نئے سرے سے بنایا جائے ۔اس فیصلے کے مطابق سب قبیلوں نے مل کر نئی عمارت بنانی شروع کر دی ۔
یہ کام سب ہی خوشی خوشی کر رہے تھے لیکن جب حجر اسود کو دیوار میں لگانے کا موقع آیا ‘تو اس بات پر جھگڑا شروع ہو گیا کہ یہ مقدس پتھر اس کی جگہ کون لگائے گا ۔ہر قبیلہ چاہتا تھا یہ عزت اسے ملے ۔صلاح مشورے سے اس بات کا فیصلہ نہ ہو سکا تو لڑائی جھگڑے تک بات پہنچ گئی ۔لوگوں نے تلواریں نکال لیں اور قسمیں کھانے لگے کہ اپنی بات منوا کر رہیں گے۔
لڑائی جھگڑا اس زمانے کے عربوں کے لیے ایک معمولی بات تھی ۔ذراذرا سی بات پر تلواریں سونت کرلڑنے کے لیے تیار ہوجاتے تھے ۔اب بھی یہی صور تحال پیدا ہوگئی تھی ۔اس نازک موقع پر جب خون خرابہ ہو نے ہی والا تھا ایک عقل مند سردار’ ابوامیہ بن المغیرہ‘ نے کہا ’’بھائیو!لڑتے کیوں ہو ‘یوں کرتے ہیں کہ جو آدمی سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہو وہی حجراسود کو اس کی جگہ لگا دے۔‘‘
یہ بات اچھی تھی ۔اس لیے سب نے مان لی اور انتظار کرنے لگے ۔جب حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے پہلے کعبہ شریف میں داخل ہوئے تو یہ جان کر سب خوش ہوگئے ۔کہنے لگے ’’محمدؐصادق اور امین ہیں ۔یہ انہی کا حق تھا کہ مقدس پتھر کو کعبہ کی دیوار میں لگائیں ۔‘‘
کوئی اور ہوتا تو اس کامیابی کو اپنی بڑائی کا ثبوت سمجھتا اور اس بات سے خوش ہوتا کہ اسے سب سے زیادہ عزت مل گئی‘لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسی تدبیر کی کہ سب اس عزت میں شریک ہو گئے ۔آپؐ نے اپنی چادر زمین پر بچھا کر حجر اسود اس پر رکھ دیا اور فرمایا سب قبیلوں کے سردار چادر کے کونے پکڑ کر اسے اٹھا لیں اور اس جگہ لے جائیں جہاں یہ دیوار میں لگایا جائے گا ۔لوگوں نے ایسا ہی کیا اور جب وہ چادر کے کونے پکڑ کر حجر اسود کو اس جگہ لے گئے تو آپؐ نے اٹھا کر کعبہ شریف کی دیوار میں لگا دیا ۔اس عمدہ تدبیر سے لڑائی جھگڑا بھی ختم ہو گیا اور سب قبیلے بھی نیکی اور عزت کے اس کام میں شریک ہوگئے ۔
حجر اسوداور کعبہ
حجر عربی زبان میں پتھر کو کہتے ہیں اور اسود کا مطلب ہے کالا ۔یوں حجر اسود کا مطلب ہوا کالا پتھر ۔یہ ایک بہت ہی مقدس پتھر ہے جو اب بھی کعبہ شر یف کی دیوار میں لگا ہوا ہے۔جو لوگ حج کرنے جاتے ہیں ان کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ وہ حجر اسود کو چومیں ۔جو لوگ وہاں تک نہ پہنچ سکیں ‘ان کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ حجر اسود کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے اپنے ہاتھ کو چوم لیں ۔ایساکرنا حج کی شرطوں میں سے ایک ضروری شرط ہے۔
بیان کیا جاتا ہے یہ پتھر حضرت آدم علیہ السلام جنت سے لا ئے تھے ۔اس خاص بات کے علاوہ حجر اسود کو مقدس سمجھنے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ یہ دنیا کے تمام مسلمانوں کے اتحاد ‘یعنی مل کر رہنے اور ایک جیسا عقیدہ رکھنے کی ایک نشانی ہے ۔
مسلمانوں کے بعض دشمن جو خود پتھروں اور درختوں اور دریاؤ ں وغیرہ کی پوجا کرتے ہیں یہ بات کہتے ہیں کہ مسلمان بھی پتھر کی پوجا کرتے ہیں ۔اسی لیے تو حج کے موقع پر حجر اسود کو چومتے ہیں ‘لیکن یہ بات بالکل غلط ہے ۔دنیا میں ایک مسلمان بھی ایسا نہیں جو یہ سمجھ کر حجر اسود کو چومتا یا اس کی عزت کرتا ہو کہ وہ اسے کسی طرح کا فائدہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے۔اس کا چومنا یا ادب کرنا تو بس اس لیے ہے کہ ایساکرنے کا حکم دیا گیا ہے ‘اور یہ حکم اس لیے دیا گیاہے کہ دنیا کے سب مسلمانوں کو ایک بات پراکٹھا کرنے کے لیے ایک چیز یا نشان کی بہرحال ضرورت تھی۔دوسرے اس پتھر کا تعلق جنت سے ہے ۔
یہ بات پوری طرح سمجھنے کے لیے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اگر سب مسلمان کعبہ شریف کی طرف منہ کر کے نماز نہ پڑھا کرتے تو ہر مسجد میں یہ تماشہ نظرآیا کرتا کہ ایک مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہا ہے ‘تو دوسرا مغرب کی طرف ۔ایک کا رخ شمال کی طرف ہے تو دوسرے کاجنوب کی طرف ‘لیکن اب ایسا نہیں ‘دنیا کے سب مسلمان ایک طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں اور وہ سمت ‘یعنی طرف ہے کعبہ شریف کی جس کی ایک دیوار میں حجر اسود لگا ہوا ہے ۔
بہت مشہور بات ہے ۔ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کی طرف دیکھ کر فرمایا تھا ’’اے پتھر ‘میرے نزدیک تو صرف ایک پتھر ہے ۔میں تیری عزت اس لیے کرتا ہوں کہ مجھے ایسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘
مطلب یہ ہوا کہ مسلمانوں کے نزدیک حجر اسود کی حیثیت صرف ایک ایسے نشان کی ہے جس پر وہ سب اکٹھے ہو سکتے ہیں ‘یہ کوئی بھی نہیں سمجھتا کہ یہ پتھر کسی قسم کا فائدہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے ۔
کعبہ شریف کی بات یہ ہے کہ وہ سب سے پہلی مسجد ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے زمین پر بنائی گئی ۔عربی زبان میں کعبہ اس جگہ یا عمارت کو کہتے ہیں جو چوکور ہو ‘یعنی اس کی لمبائی چوڑائی ایک سی ہو ۔حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ کی عبادت کرنے کے لیے یہ مسجد بنائی ‘تو اس کی لمبائی اور چوڑائی ایک جیسی تھی‘اسی لیے اس کا نام کعبہ پڑگیا ۔
تاریخ لکھنے والے عالموں کا کہنا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد جب یہ مسجد موسموں کے اثر اور پوری طرح دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ گئی تو اسے حضرت شیث علیہ السلام نے دوبارہ بنایا جو حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے تھے اور حضرت آدم علیہ السلام کی طرح وہ پیغمبر بھی تھے ۔
حضرت شیث علیہ السلام کے بعد یہ مسجد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے بنائی ۔ان کے بعد شہر مکہ میں سب سے پہلے آباد ہونے والے قبیلے بنو جرہم نے اسے تعمیر کیا۔پھر عمالقہ نے اور پھر قریش کے ایک سردار الحارث بن مضاض الاصغرنے‘یہاں تک کہ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آگیا او ر آگ سے نقصان پہنچنے کی وجہ سے اسے نئے سرے سے بنانے کی ضرورت سمجھی گئی ۔
مسلمانوں کے نزدیک کعبہ شریف کی حیثیت بھی ایک مسجد کی ہے ۔اور اس کی بہت زیادہ عزت اس وجہ سے کی جاتی ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان اسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں ۔خاص اس کی پوجا کوئی بھی نہیں کرتا ۔عبادت کرنے کے معاملے میں اسلام کا صحیح حکم یہی ہے کہ صرف اللہ کو اپنا رب ‘یعنی پالنے والا سمجھنا چاہیے اور صرف اسی کی عبادت کرنی چاہیے ۔
ایک اور بڑا کار نامہ
کعبہ کی تعمیرکے وقت ایک بہت اچھا فیصلہ کر کے قبیلوں کو خون خرابے سے بچانے کے علاوہ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نیکی کا ایک اوربہت ہی بڑا کام یہ کیا کہ کمزوروں کو ظالموں کے ظلم سے بچانے والی ایک انجمن میں شرکت کی ۔
اس انجمن کا نام حلف الفضول تھا اور یہ مکہ میں رہنے والے ان نیک دل لوگوں نے بنائی تھی جو برائی کے کا موں سے بہت نفرت کرتے تھے اور یہ چاہتے تھے کہ کوئی اپنا ہو یاپرایا سب کے ساتھ انصاف ہونا چا ہیے اور ہر شخص کو اس کا حق ملنا چاہیے ۔
اس انجمن کے بارے میں یہ بات بتائی جاتی ہے کہ اس کی بنیاد قبیلہ بنی جرہم کے تین نیک دل سرداروں نے ڈالی تھی ۔ان سرداروں کے نام یہ ہیں :
(۱) فضل بن وداعہ (۲) فضل بن فضاعہ (۳) فضل بن حارث
چونکہ لفظ فضل ان تینوں کے نام کا حصہ تھا ۔اس لیے لوگوں نے اسے حلف الفضول کا نام دے دیا۔حلف پکا وعدہ کرنے کو کہتے ہیں اور فضول اسے اس لیے کہا گیا کہ فضل نام کے تین سرداروں نے یہ حلف اٹھایا تھا‘یعنی پکا وعدہ کیا تھا ۔وعدہ یا حلف یہ تھا کہ ہم کسی پر ظلم نہ ہونے دیں گے ۔جس پر ظلم کیا جائے گا اس کی مدد کریں گے اور جو ظلم کرے گا ‘اسے سزا دیں گے۔
قبیلہ بنو جرہم کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دودھ پیتے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی ایڑی رگڑنے سے زم زم کا چشمہ جاری ہوا تو اس چشمے کو دیکھ کر یہ قبیلہ اسی جگہ آباد ہو گیا ۔
اس زمانے میں یہ جگہ چٹیل میدان تھی جہاں اب شہر مکہ آباد ہے ۔اس جگہ سب سے پہلے قبیلہ بنو جرہم ہی آباد ہوا اور پھر آبادی بڑھتے بڑھتے اس جگہ ایک بڑا شہر آباد ہو گیا ۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حلف ا لفضول ایک بھولی بسری بات بن گیا۔اسے دوبارہ قائم کرنے کا خیال اس وقت آیا جب شہر مکہ کے با شندے پہلے کی طرح ظالم اور بے انصاف بن گئے ۔
اس سلسلے میں یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک بار بنو زبید نامی قبیلے کا ایک سوداگر اپنا سامان لے کر مکہ آیا اور قریش کے ایک سردار عاص بن وائل نے اس سے کچھ چیزیں لے کر قیمت دینے سے انکار کر دیا ۔اس ظلم اور بے انصافی پر سودا گر نے دوسرے قریشی سرداروں سے شکایت کی اور کہا ۔مجھے میرا حق دلواؤ ‘ لیکن کسی نے اس کی فریاد نہ سنی ۔
اس زمانے میں ایسی بے انصافیاں ہو تی ہی رہتی تھیں ‘ پھر بھی اس شہر میں کچھ ایسے نیک دل لوگ رہتے تھے جو برائی کے ایسے کاموں پر بہت افسوس کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ سب کے ساتھ انصاف ہو ۔کوئی کسی پر زیادتی نہ کر سکے ۔
زبیدی سوداگر کے ساتھ کھلی بے انصافی ہوئی‘ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت زبیر اور ایک اور قریشی سردار عبداللہ بن جدعان نے آپس میں مشورہ کر کے عاص بن وائل سے سوداگر کے مال کی قیمت وصول کر کے اسے دینے کا فیصلہ کیا اور اس کام میں مکہ کے کچھ اور نیک دل لوگوں کو بھی ساتھی بنایا۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے عبداللہ بن جدعان کے مکان پر ایک جلسہ ہواجس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جس طرح قبیلہ بنو جر ہم نے برائیوں کے خاتمے کے لیے حلف الفضول کے نام سے انجمن بنائی تھی ہمیں بھی ایسی ایک انجمن بنانی چاہیے اور یہ حلف اٹھانا چاہیے کہ کسی شخص کے ساتھ بھی ناانصافی نہ ہونے دیں گے۔اس جلسے میں حضور ﷺ نے بھی شرکت کی اور سب کے ساتھ آپ ﷺ نے یہ وعدہ کیا کہ اگر کوئی کسی کو ناحق ستائے گا تو مظلوم کو اس کے ظلم سے بچانے کی پوری پوری کوشش کریں گے۔
جن لوگوں نے یہ نئی انجمن بنائی، ان میں ایک بھی ایسا نہ تھا جس کا نام فضل ہوتا ‘ لیکن انہوں نے اس کا نام حلف الفضول ہی رکھا ۔پرانی انجمن کی یاد تا زہ کرنے کے علاوہ یہ نام اس لیے بھی پڑ گیا کہ قریش نے اسے ایک ایسا کام سمجھا جو ضروری نہ تھا‘بلکہ انہوں نے یونہی ‘یعنی فضول ہی اپنے ذمے لے لیا تھا۔
مکہ کے معزز لوگوں نے کمزوروں کی مدد کرنے کا حلف اٹھایا تو زبیدی سوداگر کی رقم دبا لینے والا عاص بن وائل ڈر گیا اور اس نے سوداگر کی چیزوں کی قیمت دے دی۔اور یوں بے انصافی کا خاتمہ ہوا۔
جس وقت یہ انجمن بنی حضور ﷺ کی عمر ۳۵ سال تھی۔حلف الفضول میں شامل ہو جانے کے واقعے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے حضور ﷺ اپنی عمر کے اس حصے میں ایسی باتوں کو بہت برا سمجھتے تھے جن سے کسی کا حق مارا جاتا ہو یا کسی کو تکلیف پہنچتی ہو ۔عام لوگوں کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ جوانی کی عمر میں زیادہ تر کھیل تماشوں میں لگے رہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ انہیں زیادہ سے زیادہ آرام حاصل ہو ‘ لیکن حضور ﷺ دوسروں کی تکلیف دور کرکے اور انہیں آرام پہنچا کر خوش ہوتے تھے۔آپﷺ اپنا زیادہ وقت ایسے ہی کاموں میں خرچ کرتے تھے۔
حضور ﷺ کی زندگی کے جو حالات اب تک لکھے گئے ان سے جو بات خاص طور پر ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو سچی عزت اور اصلی کامیابی اسی وقت ملتی ہے جب وہ نیکی اور شرافت کو اپناتا ہے ۔
حضورﷺ یتیم پیدا ہوئے تھے ۔زیادہ امیر بھی نہ تھے ‘ لیکن آپﷺ کی شرافت اور نیکیوں کی وجہ سے آپ ﷺ کو شہر کے بڑے بڑے سرداروں سے بھی زیادہ عزت ملی اور ایک بہت بڑے خاندان کی بہت امیر خاتون نے خود خواہش کر کے آپﷺ کے ساتھ شادی کی۔ یاد رہے یہ ساری کامیابیاں آپﷺ کو اس وقت حاصل ہوئیں جب مکہ کے دوسرے باشندوں کی طرح زندگی گزار رہے تھے ۔نبوت کا اعلان نہ کیا تھا۔
ہم سب کو چاہیے ابھی سے نیک اور شریف بننے کی کوشش کریں ۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top