skip to Main Content

۱ ۔ ایک غلام بچہ

نظرزیدی

۔۔۔۔۔۔۔

بہت عرصہ گزرا ‘جنگل بیابان میں ایک چھوٹا سا قافلہ سفر کر رہا تھا ۔بہت سے مسافر مل کرسفرکررہے ہوں تو اسے قافلہ کہتے ہیں ۔اس زمانے میں لوگ قافلے بنا کر ہی سفر کیا کرتے تھے ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ نہ تو ایسی سڑکیں تھیں جن پر آرام اور حفاظت کے ساتھ سفر کیا جا سکے اور نہ مسافروں کی دیکھ بھال کا کوئی انتظام تھا ۔چور ‘ڈاکو عام طور پر مسافروں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔
اس قافلے میں دوسرے مسافروں کے علاوہ ایک عورت اور اس کا کم عمر بیٹابھی تھا ۔عورت اپنے بھائی‘ یعنی اپنے بیٹے کے ماموں سے ملنے کے لیے جا رہی تھی ۔یہ سب مسافر ملک یمن کے رہنے والے تھے اور اسی ملک کے ایسے علاقے میں سفر کر رہے تھے جو بہت ہی ویران تھا ۔
قافلہ بہت تیزی سے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا ۔مسافر اپنے اونٹوں اور گھوڑوں کو خوب تیز دوڑا رہے تھے ۔وہ چاہتے تھے کہ اس ویران علاقے سے جلدی سے جلدی نکل جائیں ۔لیکن ابھی انہوں نے آدھا راستہ بھی طے نہ کیا تھا کہ ڈاکوؤ ں نے حملہ کر دیا اور قافلے والوں سے کہا ’’چپکے سے اپنا اپنا مال اسباب ہمارے حوالے کر دو ‘ورنہ سب کو قتل کر دیں گے!‘‘
قافلے کے مسافروں پر اچانک ہی یہ مصیبت آ پڑی تھی۔پہلے تو وہ گھبرا گئے‘لیکن پھر سنبھل کر ڈاکوؤں کے مقابلے پر ڈٹ گئے۔مسافروں اور ڈاکوؤں میں خوب لڑائی ہو ئی۔مسافروں نے اپنی طاقت سے زیادہ ہمت دکھائی‘لیکن وہ گنتی میں ڈاکوؤ ں سے کم تھے اس لیے ہار گئے اور لٹیروں نے ان کا مال اسباب لوٹنا شروع کر دیا اورتھوڑی دیر ہی میں مسافروں کا سامان گٹھڑیوں میں باندھ لیا اور سامان کے ساتھ بہت سے مسافروں کو بھی قیدی بنا کر اپنے ساتھ لے گئے۔
جو عورت قافلے کے ساتھ سفر کر رہی تھی ۔اس نے کسی طرح اپنی جان تو بچا لی ‘لیکن اپنے پیارے بیٹے کو نہ بچا سکی ۔ظالم ڈاکو ننھے منے معصوم بچے کو اٹھا کر لے گئے اور عورت روتی پیٹتی رہ گئی۔
جس زمانے کا یہ واقعہ ہے اس زمانے میں ایسے واقعات عام طور سے ہوتے رہتے تھے اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ لوگوں نے نیکی کا راستہ چھوڑ کر برائی کا راستہ اختیار کر لیا تھا ۔خاص طور سے ملک عرب کی حالت تو بہت ہی خراب تھی۔اس ملک کے باشندے برائی میں اتنے بڑھ گئے تھے کہ وہ بے گناہوں کو قتل کر دیتے ‘اور ان کا مال اسباب لوٹ لینے کو بہادری کی بات خیال کرتے تھے ۔کوئی عورت ‘بچہ یا آدمی اکیلا مل جاتا ‘تو اسے پکڑ کر لے جاتے اور بازار میں فروخت کر دیتے۔
ان لوگوں کے ایسا برا بن جانے کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ نہ تو ان کے ملک میں کو ئی ایسا حاکم رہ گیا تھا جو انصاف کرتا اور لوگوں کو ظالموں کے ظلم سے بچاتا اور نہ کو ئی ایسا عالم تھا جو انہیں یہ بتاتا کہ کون سا کام اچھا ہے اور کون سا برا۔
سردار اور مذہبی رہنما تھے ضرور ‘لیکن بروں کے ساتھ وہ بھی برے بن گئے تھے۔اگر کوئی مظلوم ان کے پاس جا کر فریاد کرتا تو وہ اس کی مدد کرنے کے بجائے ظالموں کی طرف داری کرتے۔ان کی فریاد سننے کے بجائے ڈراتے دھمکاتے اور مار پیٹ کر بھگا دیتے تھے۔
لوٹ مار اور بے گناہوں کا خون بہانے کے علاوہ ان میں اور بہت سی برائیاں بھی تھیں۔مثال کے طور پر وہ اپنی لڑکیوں کوزمین میں زندہ گاڑ دیا کرتے تھے۔جو ا کھیلتے تھے اور نشے والی چیزیں کثرت سے استعمال کرتے تھے۔معمولی معمولی باتوں پر غصے میں بھر جاتے اور ایک دوسرے پر حملہ کر دیتے ۔ان کی ایسی لڑائیاں کئی کئی برس جا ری رہتیں اور دونوں طرف سے سینکڑوں آدمی مارے جاتے۔
بچے اندازہ کر سکتے ہیں جب ایسے حالات ہوں تو کمزوروں اور غریبوں کی حفا ظت کیسے ہو سکتی ہے۔چنانچہ اس زمانے میں کوئی بھی کمزور اور کوئی بھی غریب اطمینان سے زندگی نہ گزار سکتا تھا۔
مظلوم زید
شروع میں جس بچے کا ذکر کیا گیا اس کا نام زید تھا اور وہ یمن کے قبیلے بنو قضاعہ یا بنو کل کے سردار حارثہ بن شرحبیل کا بیٹا تھا۔اس کی والدہ کا نام سعدی بنت ثعلبہ تھا جو یمن کے ایک اور بہت مشہور قبیلے بنی طے کے سردار کی بیٹی تھی۔یہ وہی قبیلہ ہے جس میں حاتم طائی پیدا ہوا تھا۔آپ نے حاتم طائی کی کوئی کہانی ضرور پڑھی یا سنی ہو گی ۔
زید کے باپ نے اپنے پیارے بیٹے کو بہت ڈھونڈا‘لیکن اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوا۔ کامیاب کس طرح ہوتا ظالم ڈاکو اسے یمن کے علاقے سے بہت دور حجاز کے علاقے میں لے گئے تھے۔حجاز وہ علاقہ ہے جس میں مکہ اور مدینہ ہیں۔
اس زمانے میں بھی عرب کا سب سے مشہور شہر مکہ ہی تھا۔اس شہر کے قریب ایک بازار لگا کرتا تھا جسے عکاظ بازار یا عکاظ کا میلہ کہتے تھے۔جب یہ بازار لگتا تھا تو عرب کے تمام علاقوں سے سود اگر اپنا مال لے کر آتے تھے۔گھوڑوں کی دوڑ ،نیزہ بازی اور دوسرے کھیل تماشو ں کا بھی انتظام ہوتا تھا اور ان مظلوم بچوں ،عورتوں اور مردوں کی خریدو فروخت بھی ہوتی تھی جنہیں ڈاکو پکڑ لاتے تھے۔
جن ڈاکوؤ ں نے معصوم زید کو پکڑا تھا وہ اسے عکاظ کے بازار میں لے آئے اورشہر مکہ کے رہنے والے ایک سردار حکیم بن حزام کے ہاتھ فروخت کر دیا۔جو لوگ اس طرح فروخت کئے جاتے تھے انہیں غلام کہا جاتا تھا اور انہیں خریدنے والا اسی طرح ان کا مالک بن جاتا تھا جس طرح آج کوئی گھوڑے اور بیل کا مالک بن جاتا ہے۔جو عورتیں فروخت کی جاتی تھیں انہیں لونڈیاں یا کنیزیں کہا جاتا تھا اور ان کی آزادی بھی بالکل ختم ہو جاتی تھی۔
معصوم زید غلام بن کر بکا تو اس کی بھی آزادی بالکل ختم ہو گئی۔اب وہ مکہ کے سردار حکیم بن حزام کے قبضے میں تھااور حکیم کو یہ حق حاصل ہو گیا تھا کہ زید کے ساتھ جیسا چاہے سلوک کرے‘زید کی قسمت اچھی تھی‘حکیم بن حزام نے اسے اپنے پاس رکھنے او راپنی خدمت کرانے کے بجائے اپنی ایک ایسی رشتہ دار خاتون کو دے دیاجو بہت ہی نیک اور رحم دل تھیں ۔
نیک اور رحم دل ہو نے کے ساتھ ساتھ وہ خاتون بہت امیر بھی تھیں اور کچھ دن پہلے انہوں نے مکہ کے ایک سردار کے ساتھ شادی کی تھی جو ان سے بھی زیادہ نیک اور رحم دل تھے ۔خاتون نے زید کو اپنے خاوند کی خدمت پر مقرر کر دیا اور اس سے کہا کہ اگر ان کا کوئی کام ہوا کرے تو کر دیا کرو ۔یہ کام بالکل معمولی تھا ‘کیونکہ نیک دل سردار اپنے زیادہ تر کام خود کر لیا کرتے تھے ۔
جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں ۔زید کے ماں باپ اور رشتہ داراسے برابر ڈھونڈ رہے تھے ۔کچھ دنوں بعد خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک آدمی کی زبانی انہیں یہ معلوم ہو گیا کہ انکا پیارا بیٹاحجاز کے شہر مکہ میں ہے اور قبیلہ قریش کے ایک سردارکے گھر میں رہتا ہے ۔
یہ خبر سن کر زید کے والد صاحب اپنے بھائی ‘یعنی زید کے چچا کعب اور اپنے دوسرے بیٹے جبلہ کو ساتھ لے کر مکہ آئے اور قریشی سردار سے مل کر ان سے درخواست کی :’’اے معزز سردار‘مہربانی کر کے میرے پیارے بیٹے زید کو میرے ساتھ بھیج دیجئے ۔اس کی ماں اسے بہت یاد کرتی ہے اور اس کی جدائی میں میرا بھی برا حال ہے۔‘‘
قریشی سردار نے زید کے والد صاحب ‘حارثہ بن شرحبیل کی بات سن کر فرمایا ۔’’ٹھیک ہے‘میں بہت خوشی سے اجازت دیتا ہوں ‘ تم زید کو اپنے ساتھ لے جاؤ ‘لیکن ضروری بات یہ ہے کہ زید خوشی سے تمہارے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو ۔‘‘
باپ نے کہا ۔’’ہاں یہ بات ٹھیک ہے۔‘‘پھر زید کی طرف دیکھ کر بولا :’’بیٹے تم میرے ساتھ چلو گے نا!‘‘
’’بالکل نہیں ۔‘‘زید نے فوراًجواب دیا۔’’میں اپنے آقا کو چھوڑ کر آپ کے ساتھ نہیں جا سکتا ۔‘‘
اچھے بچو!زید کے والد صاحب یہ سن بات کر بہت حیران ہوئے۔انہوں نے بہت کوشش کی کہ زید اپنے گھر جانے کے لیے تیار ہو جائے ‘لیکن وہ یہی کہتا رہا :’’میں تو اپنے آقا ہی کے پاس رہوں گا۔‘‘
یہ ایک نرالی بات تھی کہ ایک کم عمر بچہ اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر ایک ایسے آدمی کے پاس رہنا چاہتا تھا جس کے گھر میں اس کی حیثیت غلام کی تھی۔
قریشی سردار نے ننھے زید کی یہ بات سنی ‘تو بہت خوش ہو کر کہا:’’لوگو میری یہ بات اچھی طرح سن لو ‘آج سے زید میرا غلام نہیں ‘بلکہ بیٹا ہے۔‘‘
دو باتیں ۔دو آدمی
اس کہانی میں دو الگ الگ قسم کے آدمیوں سے آپ کی جان پہچان ہوئی جن میں ایک ظالم ڈاکو تھا جس نے کم عمر زید کو اس کی ماں کی گود سے چھین کر عکاظ کے بازار میں بیچ دیا تھا اور دوسرا قریشی سردار ‘جس نے ایک کم عمر بچے کو ایسا پیار دیا کہ وہ اپنے ماں باپ کی محبت کو بھول گیا اور اپنے گھر جانے کے بجائے سردار کے گھر رہنا پسندکیا۔
اگر آپ اپنے آس پاس رہنے والے لوگوں کے کاموں پر غور کریں گے ‘تو وہ آپ انہی دو ٹولیوں میں بٹے ہوئے نظر آئیں گے۔کچھ اچھے ہوں گے اور دن رات ایسے کاموں میں لگے رہتے ہوں گے جن سے دوسروں کو فائدہ اور آرام پہنچے اور کچھ ایسے ہوں گے ‘جو دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں بس برائیاں ہی برائیاں کرتے رہتے ہوگے ۔اور ان کی وجہ سے لوگوں کو بہت تکلیف پہنچتی ہو گی۔
ان باتوں کے علاوہ ایک اور بات بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا کی حالت آج کل ہی کچھ ایسی نہیں ہے‘بلکہ زندگی کے پہلے ہی دن سے انسان کچھ اس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں ۔کچھ اچھے ہیں جو برائیوں سے بچتے ہیں اور دوسروں کو بھی بچانا چاہتے ہیں ۔اسی طرح کچھ لوگ بری باتوں کو اپنائے ہوئے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ سب انہی کی طرح برے بن جائیں ۔
برائی اور بھلائی یا نیکی اور بدی کا یہ مقابلہ اس وقت سے ہو رہا ہے جب ہم سب کے باپ حضرت آدم علیہ السلام زمین پر آباد ہوئے تھے ‘ان کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل میں سے ہابیل نیکی کے راستے پر چلنے والا تھا اور قابیل برائی کے راستے پر چلتا تھا اور قابیل نے اپنے نیک دل بھائی ہابیل کو قتل کر دیا تھا۔پس اسی دن سے نیکی اور برائی کی یہ جنگ جاری ہے۔
نیکی کی جیت کا انتظام
برائی کی مثال آگ کی سی ہے ۔جس طرح آگ ہر چیز کو جلا دیتی ہے اسی طرح برائی ہر چیز کو تباہ کر دیتی ہے ۔اگر برائی کے راستے پر چلنے والوں کو کھلی چھٹی دے دی جائے ‘تو دنیا میں کوئی بھی آرام اور اطمینان سے زندگی نہ گزار سکے ۔بس ویسی ہی حالت ہو جائے جیسی بہت پرانے زمانے میں ملک عرب کی تھی۔ڈاکو لوگوں کو لوٹ لیا کریں اور کمزوروں کو پکڑ کر فروخت کر دیا کریں۔
دنیا کو اس حالت سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام کیا کہ برائی کے نقصانات بتانے اور نیکی کے فائدے سمجھانے کے لیے اپنے خاص بندوں کو دنیا میں بھیجا اور ایسی کتا بیں نازل کیں جن میں وہ ساری باتیں لکھی ہوئی ہیں جن سے نیکی پھیلتی اور برائی کا زور ٹوٹتا ہے۔
اللہ کے ان نیک بندوں کو نبی ‘رسول اور پیغمبر کہا جاتا ہے۔زندگی کے پہلے دن سے اب تک ایک لاکھ چوبیس ہزار رسول اورنبی دنیا میں آئے اور چار آسمانی کتا بیں نا زل ہوئیں جن کے نام یہ ہیں:
(۱)تورات (۲)زبور (۳)انجیل (۴)قرآن۔
ان چار کتا بوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے بعض پیغمبروں پر صحیفے بھی نازل کئے ۔
پیغمبروں‘آسمانی کتا بوں اور صحیفوں کے دنیامیں بھیجنے کا مقصد یہی ہے کہ برائی کے راستے پر چلنے والوں کا زور ٹوٹے اور بھلائی پھیلے اور اللہ کے بندے اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزاریں ۔
یہ چند باتیں بتانے کے بعد ہم پھر کہانی شروع کرتے ہیں

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top