skip to Main Content

گٹر کے شیطان

ترجمہ: گل رعنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر آپ کی ملاقات آج تک کسی ننھے شیطان سے نہیں ہوئی تو آپ خود کو خوش قسمت سمجھ سکتے ہیں۔ یہ بھتنے شیطان بہت چھوٹے اور بدصورت ہوتے ہیں۔ وہ کبھی اپنی صفائی نہیں کرتے اور سخت بدبودار ہوتے ہیں۔ وہ اندھیری اور نم دار جگہوں پر رہتے ہیں اور صرف رات کے اندھیرے میں باہر نکلنا پسند کرتے ہیں مگر ان کے بارے میں جو سب سے بُری بات ہے وہ یہ کہ وہ ہر چیز سے اور ہر کسی سے نفرت کرتے ہیں۔ ان شیطانوں کے لیے دنیا میں جو سب سے زیادہ ناقابل برداشت ہستی ہے وہ ایک خوش باش انسان ہے۔ مسکراتے ہوئے چہرے پر ایک نظر پڑنے سے ایک شیطان کا پورا ہفتہ بُرا گزرتا ہے۔
اب سنیے! ایک شہر میں ایک ننھی لڑکی رہتی تھی۔ جس کا نام رُومی تھا۔ وہ ہمیشہ بہت خوش رہتی تھی۔ وہ اپنے امی ابو سے بہت محبت کرتی تھی۔ اس کے بڑے بھائی کا نام فارس تھا۔ اب اگر آپ کا کوئی بڑا بھائی ہو تو شاید آپ کا خیال ہو کہ رومی اپنے بھائی سے بہت تنگ ہوگی لیکن آپ کا یہ خیال بالکل غلط ہے۔ رومی کے خیال میں فارس جیسا بھائی دنیا کے سب سے بڑی نعمت تھا۔ رومی کو اپنا اسکول بھی بہت پسند تھا۔ حساب کے سوال حل کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ سوال جتنا مشکل ہو، رومی کو اسے حل کرنے میں اتنا ہی مزہ آتا تھا۔ اسے اپنے سارے اُستاد بہت پسند تھے۔
رومی کے گھر کے باہر سڑک پر ایک نالی تھی جو گٹر سے جا کر ملتی تھی۔ اگر آپ اس کی جالی سے جھانک کر اندر دیکھیں گے تو آپ کو اس کی تہہ میں صرف گندا اور بدبودار پانی نظر آئے گا یا پھر لالی پاپ کی پرانی ڈنڈیاں، سوکھے پتے اور مکڑیاں۔ اس گٹر میں شیطان بھی رہتے تھے۔ آپ ان کو دیکھ تو نہیں سکتے لیکن اگر آپ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اپنے کان زمین سے لائیں تو شاید آپ ان کو بحث و تکرار کرتے ہوئے سن سکیں۔ یہ شیطان بھتنے ہر وقت آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ اصل میں جب پانی کی پائپ لائن ڈالنے کے لیے مرکزی شاہراہ کھودی گئی تو ان شیطانوں کو وہاں کے گٹر سے بھاگنا پڑا۔ ان کو شور مچانے والی روڈ ڈرل کی آوازوں سے تو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا لیکن ہنستے مسکراتے گپیں ہانکتے، خوش باش مزدور ان کے ہاضمے کے لیے سخت مضر تھے لہٰذا رات کے اندھیرے میں ان شیطانوں نے اپنا سامان باندھا اور رومی کے گھر کے باہر موجود گٹر میں شفٹ ہو گئے لیکن جلد ہی اِنھیں اس بات کا احساس ہوگیا کہ یہ ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ 
’’ جب بھی میں اس بچی کو اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلتے دیکھتا ہوں تو خود کو بیمار محسوس کرنے لگتا ہوں کیونکہ اس کے چہرے پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ ہوتی ہے۔ ایسے بچوں کو تو گرفتار کرا دینا چاہیے جو یوں ہنستے، مسکراتے اسکول جاتے ہیں۔‘‘ کرول جو سب سے بوڑھا اور غصیلا بھتنا تھا، چلایا۔
’’ میرا خیال ہے کہ ہمیں اس بچی کو ایسا سبق سکھانا چاہیے کہ یہ ہمیشہ کے لیے مسکرانا بھول جائے۔‘‘ ایک موٹے شیطان نے کہا جس کا خیال تھا کہ دنیا کے تمام بچوں کے تکے کباب بنا دینے چاہییں۔
’’اگر میں نے اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب نہ کردی تو میں شیطان کہلانے کے لائق نہیں۔‘‘تیسرے نے دانت پیسے۔ 
اگلی صبح دو شیطانوں نے اپنے سر نالی کی جالیوں سے باہر نکالے۔ ان کی ننھی، مکار آنکھوں نے فوراً ہی جائزہ لے لیا کہ اس وقت سڑک پر سناٹا ہے۔ وہ کود کر نالی سے باہر نکل آئے۔ ان کے ہاتھوں میں ایک پرانا، باریک اور لمبا سا تار تھا جس کا ایک سرا اُنھوں نے نالی کی جالی سے باندھا اور دوسرا سرا رومی کے گھر کے باہر باغیچے کی جالی سے باندھ دیا۔ 
’’بچوں کو رُلانے کے لیے پھوٹے ہوئے گھٹنوں سے بہتر میں نے آج تک کوئی چیز موثر نہیں پائی۔‘‘ ایک پھنکارا۔ 
’’ ہم اُمید کرتے ہیں کہ آج وہ ننھی لڑکی اپنے سفر کا خوب مزہ اٹھائے گی۔‘‘ دوسرا بولا اور دونوں واپس نالی میں کود گئے۔
چند لمحوں بعد ہی ایک چیخ اور پھر شور و غل کی آوازیں اُبھریں۔ شیطانوں نے خوشی، خوشی اپنا کارنامہ دیکھنے کے لیے نالی سے سر باہر نکالا۔ مگر اُنھوں نے جسے سڑک پر گرے ہوئے دیکھا وہ رومی نہیں تھی بلکہ ایک بوڑھا آدمی تھا جو زمین پر پڑا بے بسی سے اُٹھنے کی کوشش کررہا تھا۔
’’اُف خدا! یہ کیا ہوا۔ شکر ہے کہ کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی۔‘‘ وہ کہہ رہا تھا۔ 
بوڑھے آدمی کی مدد کرنے کے لیے وہاں کئی لوگ جمع ہوگئے تھے جن میں رومی کے ابو، امی بھی شامل تھے۔ ’’ آپ کو زیادہ چوٹ تو نہیں آئی؟‘‘ رومی کی امی نے پوچھا۔ 
’’اندر آکر ہمارے ساتھ ایک کپ گرم چاے پی لیجیے۔ اس طرح آپ خود کو بہتر محسوس کریں گے۔ کتنے بدتمیز بچے ہیں جنھوں نے یہ تار راستے میں باندھ رکھا ہے۔ اگر مجھے مل گئے تو میں اُن کی خوب پٹائی کروں گا۔‘‘ رومی کے ابو نے کہا۔
’’چاے کے بعد اگر آپ کو اپنے گھر جانے میں کوئی دشواری ہو تو مجھے بتا دیجیے گا، میں آپ کو اپنی گاڑی سے گھر چھوڑ آؤں گا۔‘‘ ایک پڑوسی نے ہمدردی سے کہا۔ 
’’ بہت بہت شکریہ۔‘‘بوڑھے نے جواب دیا ۔’’ میں اس محلے میں دو سال سے رہ رہا ہوں مگر مجھے یہ بات آج تک معلوم نہیں تھی کہ یہاں کے سب لوگ کتنے ہمدرد اور مخلص ہیں۔‘‘ 
وہ سب رومی کے گھر کے اندر چلے گئے۔ 
’’ آپ جب چاہیں ہمارے گھر چاے پینے آسکتے ہیں۔۔۔‘‘ اُدھر گٹر کے شیطان جل بھن کر خاک ہورہے تھے۔ 
’’ کیا مصیبت ہے!‘‘ ایک نے پاؤں پٹخے۔ 
’’ ہمارا شکار غلط آدمی بن گیا۔ اب ہمیں سوچ سمجھ کر اگلا قدم اٹھانا ہوگا۔ ہماری اس حرکت سے تو اُلٹا ایک اور شخص خوش ہوگیا۔‘‘ دوسرے نے مٹھیاں بھینچیں۔
اس رات موٹا شیطان گندے پانی کی نکاسی کے پائپ کے ذریعے رومی کے گھر کے کچن میں پہنچ گیا۔ فرج میں رومی کا لنچ بکس رکھا ہوا تھا جسے رومی کی امی ہمیشہ ایک رات پہلے ہی تیار کرکے رکھ دیتی تھیں۔ موٹے شیطان نے کوڑے کے ڈرم میں سے مچھلی کا ایک بدبودار، ادھ کھایا ٹکڑا اور پھر رومی کا لنچ بکس کھولا۔ سینڈوچز میں لگے ہوئے تمام پنیر نکالنے کے بعد اس نے سڑی ہوئی مچھلی کے ٹکڑے کرکے سینڈوچز کے بیچ میں رکھ دیے اور پنیر کوڑے میں پھینک دیا۔ پھر اس نے چاکلیٹ کیک اپنی جیب میں ٹھونس لیا۔ 
’’اگر کل یہ لنچ دیکھ کر یہ بچی نہیں روئی تو میں نہیں جانتا کہ اس کو کیا چیز رُلا سکتی ہے؟‘‘ موٹے شیطان نے ناک سکیڑ ی اور پائپ سے ہوتا ہوا واپس نالی میں لوٹ گیا۔
صبح رومی خوشی، خوشی گھر سے اسکول جانے کے لیے نکلی۔ اس کے ہاتھ میں ٹفن تھا ۔ کچھ ہی دیر بعد اس نے محسوس کیا کہ ایک ننھی سی بلی اس کے پیچھے پیچھے آرہی ہے۔ وہ ٹفن کی طرف بار بار اچھل کر اسے اپنے پنجوں سے پکڑنے کی کوشش کررہی تھی۔ ’’ہیلو۔‘‘ رومی نے جھک کر پیار سے اسے تھپکا اور پھر بولی۔ ’’ارے ! تم تو بہت ہی دبلی پتلی کمزور سی بلی ہو اور بہت میلی بھی۔ کیا تمھارا کوئی گھر نہیں ہے؟‘‘ ننھی بلی نے کمزور سی میاؤں کی اور رومی کے ٹفن کو پھر پنجوں سے پکڑنے کی کوشش کی۔ 
’’اگر تم بھوکی ہو تو تم میرے سینڈوچز کھا سکتی ہو۔‘‘ رومی نے یہ کہہ کر اپنا ٹفن کھولا اور باسی مچھلی کے سینڈوچز دیکھ کر کھل کھلا کر ہنس پڑی۔ 
’’لگتا ہے کہ بے چاری امی کل رات بہت مصروف تھیں۔ اُنھوں نے غلطی سے پنیر کے بجاے سینڈوچز میں مچھلی رکھ دی۔ ‘‘ اس نے کہا۔ ’’لو! یہ کھالو اور میرے ساتھ گھر چلو۔ تمھیں دیکھ بھال کی ضرورت ہے اور فارس ہمیشہ سے ایک بلی پالنا چاہتا تھا۔‘‘ رومی نے بلی کو گود میں اٹھا لیا اور اسے گھر لے آئی۔ فارس اسے دیکھ کر خوش ہوگیا۔
اس شام شیطانوں نے دیکھا کہ رومی اور فارس بلی کے بچے کے ساتھ خوشی خوشی باغ میں کھیل رہے ہیں۔ بلی کا بچہ بھی خوشی سے آوازیں نکال رہا تھا۔ شیطانوں کا غصے کے مارے بُرا حال ہوگیا۔
’’ارے احمقو! یہ تم لوگوں نے کیا کیا؟ بجاے اس بچی کو رُلانے کے تم نے اس کے بھائی کو بھی خوش کر دیا اور اس ننھی مظلوم بلی کو بھی۔‘‘ بوڑھا بُھتنا شیطان چِّلایا۔
اس رات شیطانوں نے ایک خاص میٹنگ بلائی۔ وہ بہت لڑرہے تھے، چِّلا رہے تھے، ایک دوسرے کو مار رہے تھے اور ایک دوسرے کے پاؤں کچل رہے تھے۔ یہاں تک کہ وہ ایک حتمی فیصلے پر پہنچ گئے۔
صبح رومی نے اپنی بلی کو پیار کیا اور اپنے امی، ابو کو خدا حافظ کہتے ہوئے باہر نکلی۔ اُنھیں اس دن زخمی ہونے والے خاور صاحب آتے ہوئے نظر آئے جن کو رومی نے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا اور خوشی خوشی اسکول کی جانب روانہ ہو گئی۔ راستے میں وہ اس تاریک گٹر کے پاس سے بھی گزری جہاں آج بہت خاموشی تھی۔
شیطان یہاں سے جا چکے تھے۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top