گانے والی کیتلی
کہانی: The Little Singing Kettle
مصنفہ: Enid Blyton
مترجمہ: گل رعنا صدیقی
۔۔۔۔۔
کرلی اپنے گھر میں اکیلا رہتا تھا۔وہ بے حد مکار تھا لیکن وہ ہمیشہ خود کو بہت نیک ظاہر کرتاتھا۔اگر وہ کبھی ٹافیوں کا پیکٹ خریدتا تو فوراً اپنی جیب میں ڈال کر گھر کا رخ کرتا اور اگر راستے میں وہ کسی دوست سے ملتا تو کہتا:”اگر میرے پاس ٹافیوں کا پیکٹ ہوتا تو میں تمہیں ضرور پیش کرتا۔“
دوست کہتا:”کوئی بات نہیں،یہ تمہاری اچھا ئی ہے کہ تم نے ایسا سوچا۔“اور وہ یہ سوچتا ہوا چلا جاتا کہ کرلی کس قدر ہمدرد اور سخی شخص ہے۔
ایک دن جب کرلی گھر جا رہا تھا تواس نے ایک عجیب سے شخص کو اپنے آگے جاتے دیکھا۔وہ ایک کبڑا شخص تھا جس نے اپنی کمر،کندھوں اور سینے پر ساس پین،پتیلیاں اور کیتلیاں لٹکا رکھی تھیں۔جب وہ چلتا تو برتن شور مچانے لگتے،لیکن اس شور سے بھی تیز کبڑے شخص کی آواز تھی۔وہ گا رہا تھا:
”کیا تمہیں ایک ساس پین،کیتلی یا پتیلی چاہیے؟
اگر تمہیں چاہیے تو میں کبڑا آدمی ہوں!
میں پتیلیوں اور کیتلیوں کے وزن سے زمین کو لگا جا رہا ہوں۔
ہے،ہے،ہے، میں کبڑا آدمی ہوں!
”کیا تمہیں ایک ساس پین،کیتلی یا پتیلی چاہیے؟“
کرلی کو ایک نئی کیتلی کی سخت ضرورت تھی،کیوں کہ اس کی اپنی کیتلی میں سوراخ ہو گیا تھا۔ لہٰذا وہ کبڑے کے پیچھے دوڑا اور اسے آوازیں دیں۔کبڑا اس کی طرف پلٹا اور مسکرا دیا۔وہ ایک خوش مزاج آدمی تھا۔
”مجھے ایک اچھی،سستی اور چھوٹی کیتلی چاہیے۔“ کرلی نے کہا۔
”میرے پاس ایک اچھی کیتلی ہے۔“ کبڑے نے کہا اور ایک چھوٹی چمک دار کیتلی کی طرف اشارہ کیا جو اس کی کمر پر لٹکی ہوئی تھی۔
”یہ کتنے کی ہے؟“کرلی نے پوچھا۔
”چھے پینس۔“ کبڑے نے جواب دیا۔
اگرچہ یہ بہت کم قیمت تھی،لیکن مکار کرلی اسے چھے پینس میں نہیں خریدنا چاہتا تھا۔اس نے قیمت سن کر چونکنے کی اداکاری کرتے ہوئے ایک سرد آہ بھری:”اوہ! میں اتنا امیر نہیں ہوں کہ اتنی زیادہ قیمت ادا کر سکوں۔“میں صرف تین پینس ادا کر سکتا ہوں۔“
کبڑے نے سختی سے کہا:”یہ بہت کم ہیں،تمہیں ہر حالت میں چھے پینس دینے ہوں گے۔“
وہ کھڑے ہو کر دیر تک بحث کرتے رہے۔کبڑا کہتا چھے پینس اور کرلی کہتا تین پینس۔آخر کبڑے نے ایک قہقہہ لگایا اور اپنے برتن چھنکاتا ہوا وہاں سے یہ کہہ کر چل پڑا:”تم ایک مکار اور کنجوس بوڑھے ہو،میں تمہیں کچھ بھی نہیں بیچوں گا۔اللہ حافظ مسٹر کنجوس۔“
کرلی تھوڑی دیر تک اسے غصے میں کھڑا دیکھتا رہا اور پھر چلنے لگا۔وہ کبڑے کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا،کیوں کہ اس کے گھر جانے کا راستہ بھی یہی تھا، مگر اس نے اس بات کا خیال رکھا کہ کبڑے سے بہت قریب ہو کر نہ چلے۔ وہ خوف زدہ تھا کہ کبڑااسے پھر کچھ سخت باتیں کہہ دے گا۔
اس دن بہت گرمی تھی۔کبڑا بری طرح تھک چکا تھا۔اس نے سوچا کہ اسے کہیں بیٹھ کر آرام کرنا چاہیے۔لہٰذا وہ ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گیا اور جلد ہی سوگیا۔کرلی نے اس کے خراٹے سن لیے۔اس کے ذہن میں ایک خیال آیا کہ میں اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی پسندیدہ کیتلی حاصل کر سکتا ہوں۔اس کے بدلے میں تین پینس اس کے پاس رکھ دوں گا۔جب یہ اٹھے گا تو اسے کتنا غصہ آئے گا کہ میں آخر تین پینس میں کیتلی حاصل کرنے میں کامیاب ہوہی گیا۔
کرلی دبے پاؤں چلتا ہوا کبڑے کے پاس پہنچا۔وہ گہری نیند سو رہا تھا۔کرلی نے بغیر آواز پیدا کیے ایک چھوٹی چمک دار کیتلی اتارلی اور تین چمک دار پینس گھاس پر رکھ کر ہنستا ہوا گھر کی طرف چلا گیا۔گھر پہنچتے ہی اس نے کیتلی کو پانی سے بھر کر آگ پر رکھ دیا۔پانی بہت جلد ابلنے لگااور کیتلی کی ٹونٹی سے دھواں نکلنے لگا۔کرلی نے چائے تیار کی اور پینے لگا۔اتنے میں کوئی اس کے باغ کے راستے چلتاہواآیا اور دروازے سے جھانکا۔یہ کبڑا تھا۔جب اس نے دیکھا کہ کرلی نے کیتلی چولہے پر رکھی ہوئی ہے تو اس کے چہرے پر ایک خوف ناک سی مسکراہٹ آگئی۔ اس نے دل میں کرلی سے کہا:”بہت خوب، اب تم یہ کیتلی اپنے پاس رکھو،یہ تم سے بہت اچھا سلوک کرے گی۔“ پھر کیتلی کی طرف منہ کرکے کوئی منتر پڑھااور کہا:”سنو کیتلی! کرلی کو وہ سبق سکھاؤ جس کی اسے ضرورت ہے۔“
کبڑا اچھلتا کودتا اور ہنستا ہوا واپس چلا گیا۔
کرلی نے خود کو بے چین سا محسوس کیا:”وہ اس طرح کیوں ہنس رہا تھا؟اوہ، وہ صرف مجھے خوف زدہ کرنا چاہتا تھا۔“
کرلی نے خود کو مخاطب کیا:”احمق بوڑھا کبڑا۔“
اس نے اپنی پیالی دھوئی اور کیتلی میں پانی بھر کر دوبارہ چڑھادی۔وہ میلے برتن دھو رہا تھا کہ اس کے دروازے پر ایک دستک ہوئی اور اس کی پڑوسن ڈیم پٹ نے اندر جھانکا:”کرلی! کیا تم مجھے تھوڑی سی چائے کی پتی ادھار دے سکتے ہو؟میرے پاس چائے کی پتی ختم ہو گئی ہے اور دکانیں بہت دور ہیں۔“
کرلی کے پاس چائے کی پتی سے بھرا ہوا پورا ٹن موجود تھا،لیکن وہ ڈیم پٹ کو تھوڑی سی بھی چائے ادھار نہیں دینا چاہتا تھا۔وہ برتنوں کی الماری کی طرف گیا اور ایک خالی ٹن اٹھالایا۔
اس نے پڑوسن سے کہا:”ہاں بالکل!میں تمہیں چائے کی پتی دے سکتا ہوں۔اوہ!ٹن تو خالی ہے! کتنے افسوس کی بات ہے۔اگر میرے پاس چائے ہوتی تو میں تمہیں آدھی چائے دے دیتا،لیکن میں ساری چائے استعمال کر چکا ہوں۔“
ڈیم پٹ نے خالی ٹن کو دیکھااور پھر جانے کے لیے مڑگئی۔اس نے کہا:”میں معافی چاہتی ہوں کرلی کہ میں نے تمہیں تکلیف دی۔یہ تمہاری اچھائی ہے کہ تم نے کہا کہ اگر تمہارے پاس چائے ہوتی تو تم مجھے اس کا آدھا دے دیتے۔“
اچانک ایک حیرت انگیز بات ہوئی۔چولہے پر رکھی کیتلی کی ٹونٹی سے بہت سارا دھواں باہر آیا اور وہ ایک باریک مگر واضح آواز میں گانے لگی:
”مسٹر کرلی کے پاس چائے کی کمی نہیں ہے!
وہ اتنا ہی کنجوس ہے جتنا کوئی انسان ہو سکتا ہے!
اس ٹن میں دیکھو جو شیلف کے اوپر بائیں جانب ہے!
اوردیکھو اس کے پاس اپنے لیے کتنی زیادہ چائے ہے۔“
پھر کیتلی نے ایک گہری سانس لی اور چلائی:
”گھٹیا بوڑھا آدمی! کنجوس بوڑھا آدمی! اووووہ! اس کو دیکھو!“
ڈیم پٹ اس قدر حیرت زدہ ہوئی کہ وہ کئی لمحوں کے لیے ساکت کھڑی رہی۔وہ سمجھ نہیں سکی کہ گانے کی آواز کہاں سے آرہی ہے،لیکن کرلی کو معلوم ہو گیا تھا کہ یہ آواز کیتلی میں سے آرہی ہے۔وہ بے حد غصے میں تھا۔ڈیم پٹ شیلف کے پاس گئی اور بائیں جانب رکھے ہوئے ٹن کو نیچے اتارا۔ اس نے اسے کھول کر دیکھا تو وہ چائے کی پتی سے لبالب بھرا ہوا تھا۔ اس نے کہا:”بہت خوب کرلی!تم نے کہا تھا کہ اگر تمہارے پاس چائے ہوتی تو تم مجھے اس کا آدھا حصہ دے دیتے،لہٰذا میں تمہارے الفاظ کے مطابق آدھی چائے لے لیتی ہوں۔“
اس نے ٹن میں سے آدھی چائے اپنے برتن میں الٹ لی جو وہ اپنے ساتھ لائی تھی اور باہر چلی گئی۔
کرلی کیتلی سے اس قدر ناراض تھا کہ اس نے کیتلی کو ایک چھڑی سے مارنے کا فیصلہ کیا،لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنے فیصلے پر عمل کرتا، کسی نے اپنا سر اس کی کھڑکی میں ڈال کر اسے آواز دی:”مسٹر کرلی!مہربانی کرکے کیا آپ مجھے اپنی چھتری ادھار دیں گے؟میری چھتری کھوگئی ہے اور اس وقت بڑے زور کی بارش ہو رہی ہے۔“
یہ کیپرز تھا جو اس کا پڑوسی تھا۔وہ ہمیشہ کرلی کو چیزیں ادھار دیتا تھا اور آج وہ خود اپنے لیے کچھ مانگنے آیا تھا، مگر کرلی کا موڈ بہت خراب تھا۔ اس نے کہا:”میری چھتری بھی کھوگئی ہے،میں بہت معذرت خواہ ہوں کیپرز! اگر میرے پاس چھتری موجود ہوتی تو میں تمہیں ضرور دے دیتا۔“
کیپرز نے کہا:”اوہ اچھا، کوئی بات نہیں۔یہ تمہاری اچھائی ہے کہ تم نے مجھے ادھار دینے کے لیے کہا۔“مگر اس سے پہلے کہ وہ واپس لوٹتا، چمک دار کیتلی نے چولہے پر سے چھوٹی سی چھلانگ لگائی اور گانا شروع کردیا:
”مسٹر کرلی کے پاس ایک چھتری ہے!
وہ بے حد خراب اور کنجوس ہے۔
وہ کہتا ہے کہ اس کے پاس چھتری نہیں ہے۔
لیکن تم جاؤ، ہال میں دیکھو!“
کیپرز یہ گانا سن کر اس قدر حیران ہوا کہ وہ کھڑکی کے اندر آدھا لٹک آیا۔کرلی غصے سے چقندر کی طرح سرخ ہو رہا تھا۔کیپرز کچن کے دروزے سے گزر کر ہال میں آیا جہاں کرلی کی چھتری رکھی ہوئی تھی۔کیپرز نے چھلانگ لگائی اور فوراً چھتری اٹھالی۔اس نے چھتری کو کرلی کے آگے لہرایا:”تم نے کہا تھا کہ اگر تمہارے پاس چھتری ہوتی تو میں اسے ادھار دے دیتا۔چھتری یہاں موجود ہے،لہٰذا میں اسے ادھار لے رہا ہوں۔بہت شکریہ۔“
کیپرز چلا گیا اور کرلی غصے میں ایک چھڑی اٹھا کر کیتلی کو مارنے لپکا، مگر کیتلی اس سے زیادہ پھرتیلی نکلی۔وہ ہوا میں بلند ہو گئی اور ایک اونچی الماری پر چلی گئی۔پھر اس نے ابلتے ہوئے پانی کا صرف ایک قطرہ کرلی کے ہاتھ پر گرایا۔کرلی نے درد سے چلانا شروع کردیا۔اسی وقت کسی نے اس کے دروزے پر دستک دی۔کرلی نے دروازہ کھولا۔وہاں ریگ اور ٹیگ کھڑے مسکرا رہے تھے:”مسٹر کرلی!ہم غریب مسٹر ٹیمبل کے لیے پیسے جمع کر رہے ہیں جن کا گھر کل آگ لگنے سے جل گیا تھا۔آپ بے حد نیک آدمی ہیں اور اس لیے ہم نے سوچا کہ آپ یقینا ہمیں ایک پینی ضرور دیں گے۔“
کرلی جانتا تھا کہ اس کی جیبوں میں کوئی پیسہ نہیں ہے۔لہٰذا وہ انہیں لے کر اندر آگیا اورکہنے لگا:”اوہ ہاں!میرے پاس جتنے پیسے ہیں تم وہ سب لے سکتے ہو۔“
پھر اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا:”اوہ خدایا!میری جیب میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔میں بہت خوشی محسوس کرتا اگر تمہاری مدد کر سکتا، لیکن افسوس کہ میرے پاس تمہیں دینے کے لیے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے۔“
”کوئی بات نہیں،آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے کم از کم ہمیں پیسے دینے کا ارادہ تو کیا۔“لیکن اس سے پہلے کہ وہ جاتے، چھوٹی کیتلی دوبارہ گانے لگی:
”اگرچہ وہ کہتا ہے کہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔
لیکن اس کے پاس چاندی کا ایک سکہ ہے۔
اس کے پرس میں دیکھو جو میز پر رکھا ہے۔
اور لے لو وہ پیسے وہ تمہیں بخوبی دے سکتا ہے۔“
ریگ اور ٹیگ پورے باورچی خانے کو غور سے دیکھنے لگے تاکہ اس آواز کا سراغ لگا سکیں، مگر انہوں نے وہاں کرلی کے سوا کسی کو نہیں پایا۔
کرلی بہت غصے میں تھا اور شرمندہ بھی نظر آرہا تھا۔دونوں نے پرس کو میز پر پڑے ہوئے دیکھا اور دوڑ کر اسے اٹھا لیا۔اس میں چاندی کا ایک چھے پینس والا سکہ موجود تھا۔انہو ں نے سکہ نکال کر اپنے بکس میں رکھ لیا۔
انہوں نے کہا:”بہت خوب مسٹر کرلی! آپ نے کہا تھا کہ ہم وہ سارے پیسے لے سکتے ہیں جو آپ کے پاس ہیں۔لہٰذا ہم یہ چاندی والا سکہ لے رہے ہیں۔اللہ حافظ۔“
وہ ہنستے ہوئے باہر چلے گئے، لیکن وہ بے حد پریشان بھی تھے کہ مکان کے اندر وہ کون تھاجس نے کرلی کا پول کھول دیا۔
کرلی اس قدر غصے میں تھا کہ اس نے دودھ کا جگ اٹھا کر کیتلی پر دے مارا جو اب بھی الماری پر موجود تھی۔کیتلی پھدک کر ایک طرف ہو گئی اور جگ سامنے والی دیوار سے ٹکرا کر کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔دودھ بہ کر کرلی کے سر پر گرنے لگا۔کیتلی نے ہنسنا شروع کردیا۔کرلی کو اور بھی غصہ آیا۔اس نے ایک ہتھوڑی اٹھا کر کیتلی پر دے ماری، مگر وہ پھر ایک طرف ہٹ گئی اور الماری کے اوپر رکھا ہوا آلو بخارے کے مربے کا خوب صورت جار ٹکڑے ٹکڑے ہوگیااور سارا مربہ کرلی کے اوپر گرنے لگا۔کیتلی ہنستے ہنستے بے حال ہو گئی۔کرلی نل کے نیچے بیٹھ کر نہایا۔
وہ اب کیتلی سے خوف محسوس کر رہا تھا۔کرلی نے سوچا کہ اسے کسی بھی طرح کیتلی سے نجات حاصل کرلینی چاہیے ورنہ کیتلی سب لوگوں کو اس کی اصلیت بتا دے گی۔میں رات ہونے کا انتظار کروں گا۔جب وہ سو جائے گی تو میں اسے اٹھا کر دور پھینک آؤں گا۔لہٰذا اس نے کیتلی کے بارے میں سوچنا بند کردیا۔چونکہ کوئی اور شخص اس کے بعد نہیں آیا،لہٰذا کیتلی خاموش رہی۔
نو بجے رات کو کرلی بستر پر چلا گیا۔کیتلی چھلانگ لگا کر نیچے چولہے پر اتر آئی اور سو گئی۔کرلی نے تھوڑی دیر انتظار کیا اور پھر وہ دبے پاؤں بستر سے اتر کر چولہے کے پاس آیا اور کیتلی اٹھالی۔کیتلی جاگ گئی اور چلانے لگی، مگر کرلی نے اسے ہینڈل سے پکڑ لیا۔کیتلی کے اندر پانی اب گرم نہیں رہا تھا لہٰذا وہ کرلی کو زخمی نہیں کر سکتی تھی۔وہ کیتلی کو اٹھا کر اپنے باغ کے پچھلے حصے میں آیا۔یہاں کوڑے کباڑ کا ایک ڈھیر تھا۔ کرلی نے کچرے کے ڈھیر میں اسے پھینک دیا۔پھر خوشی خوشی واپس لوٹ آیا اور سو گیا۔
آدھی رات کو وہ کھڑکی پر ہونے والی دستک کی آواز سے جاگ گیا۔کسی کی آواز آئی:”مجھے اندر آنے دو۔میں گندی ہوگئی ہوں اور نہانا چاہتی ہوں۔“
کرلی نے خوف زدہ ہوتے ہوئے سوچا:”یہ وہی کیتلی ہے۔ خیر اب چاہے یہ ساری رات دستک دیتی رہے، میں اسے اندر نہیں لاؤں گا۔“
کیتلی پھر بھی دستک پر دستک دیتی چلی گئی اور آخر اس نے خود کو شیشے سے ٹکرا دیا۔شیشہ ٹوٹ گیا اور کیتلی اندر آگئی اور کرلی کے بستر پر چلی گئی۔ اس نے کہا:”مجھے دھو دو،میں گندی اور بدبو دار ہو گئی ہوں۔تمہیں مجھے غلیظ کچرے کے ڈھیر پر نہیں پھینکنا چاہیے تھا۔“
”نکل جاؤ میرے صاف ستھرے بستر سے!“کرلی غصے میں چلایا،لیکن کیتلی نیچے نہیں اتری اور آخر کرلی اس کو اٹھا کر لے گیا اور اسے خوب دھویا پھر اس نے زور سے چولہے پر پٹخا اور سونے چلا گیا۔
دوسرے دن کیتلی اس کے بارے میں دوبارہ گانے لگی اور کرلی یہ گانے سن سن کر عاجز آگیا۔بہت سے لوگوں نے کرلی کے مکان میں پیش آنے والے عجیب و غریب واقعات کے بارے میں سنا۔لہٰذا لوگ سارا دن مختلف چیزیں مانگنے اس کے مکان میں آتے رہے اور بے چارہ کرلی اپنی جان سے بیزار ہو گیا۔اس نے سوچا میں اس کیتلی کو آج رات اپنے کنویں میں غرق کردوں گا۔لہٰذا اگلی رات اس نے کیتلی کو اٹھا کر کنویں میں پھینک دیا۔اس کا خیال تھا کہ وہ وہاں سے نہیں نکل سکتی، لیکن رات کو تقریباً تین بجے اس کی کھڑکی پر دستک ہوئی۔کیتلی واپس آچکی تھی:”کرلی مجھے اندر آنے دو۔میں ٹھھ.. ٹھھ..ٹھنڈی اور گگ..گگ..گیلی ہوں۔“
کرلی خوف زدہ تھا کہ کہیں اس کھڑکی دوبارہ نہ ٹوٹ جائے۔لہٰذا وہ اپنے بستر سے چھلانگ لگا کر اترا اور کپکپاتی ہوئی کیتلی کو اندر لے آیا۔وہ اس کے بستر میں گھس گئی۔
”کنویں میں بہت سردی اور نمی تھی۔مجھے گرم کرو کرلی!“
کرلی بہت غصے میں تھا،لیکن اسے کیتلی کے ساتھ سونا پڑا اور رات بھر اس کی ٹونٹی اسے چبھتی رہی۔
صبح اس نے کیتلی کو چولہے پر رکھا اور ناشتا کرنے کے دوران اس نے سوچنا شروع کردیا:
”میں اس کیتلی سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا۔اور یہ بات یقینی ہے کہ جب تک یہ یہاں ہے مجھے لوگوں کے سامنے شرمندہ کراتی رہے گی۔ اگر میں لوگوں کو چیزیں ادھاردینا شروع کر دوں تو یہ کیا کرے گی؟ٹھیک ہے۔ اب میں یہ بھی کرکے دیکھوں گا۔“
ایک دن جب مدر ہومی آئی اور صابن کا ایک ٹکڑا ادھار مانگا تو کرلی نے بغیر کسی بہانے کے انہیں صابن کی بڑی نئی ٹکیا دے دی۔مدر ہومی حیران اور خوش ہوئی:”تمہارا بہت بہت شکریہ کرلی۔تم ایک ہمدرد انسان ہو۔“
کیتلی نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔کرلی نے اپنے آپ کو بہت خوش محسوس کیا۔کسی کی مدد کرنا بہت ہی خوب صورت بات تھی۔اس نے طے کرلیا کہ وہ اس عمل کو پھر دہرائے گا کہ کیتلی کچھ کہتی ہے یا نہیں۔اس نے جلد ہی محسوس کرلیا کہ جب تک وہ جھوٹ نہ بولے اور بہانے بازی نہ کرے کیتلی ایک لفظ بھی نہیں کہتی۔کرلی نے یہ بھی اندازہ لگایا کہ دوسروں کے کام آنا بہت اچھی بات ہے۔
اس نے خود سے کہا:”میں غلطی پر تھا، میں زندگی کا نیا ورق الٹوں گا اور نیک بننے کی کوشش کروں گا اور اس کیتلی کا جو دل چاہے، یہ کہہ سکتی ہے۔“
اب کیتلی کے پاس کہنے کو کچھ نہ رہا، کیوں کہ کرلی واقعی ہمدرد اور سخی ہو گیا تھا۔ایک دوبار وہ بھولا،لیکن جیسے ہی کیتلی نے گانا شروع کیا اسے فوراً یاد آگیا اور جب وہ سیدھے راستے پر چلنے لگا تو کیتلی نے اپنا گانا بند کردیا۔
ایک دن برتن والے بوڑھے کبڑے نے دروازے کے اندر جھانکا۔اس کے چہرے پر پہلی جیسی مسکراہٹ تھی:”ہیلو کرلی! کہو کیتلی پسند آئی؟ کیایہ تین پینس کے بدلے سستی تھی؟میں اسے واپس لینے آیا ہوں، جو کچھ تمہارے ساتھ ہوا نامناسب تھا، لیکن میرا خیال ہے کہ تم اس کے مستحق تھے۔“
کرلی نے مسکراتے ہوئے کبڑے کی طرف دیکھا اور جیب سے تین پینس نکال کر کبڑے کی طرف بڑھائے۔
”تم کیتلی چھے پینس میں فروخت کرنا چاہتے تھے،لیکن میں نے اسے تین پینس میں حاصل کر لیا۔یہ بہت بری بات تھی۔یہ لو باقی تین پینس۔“
کبڑے نے حیران ہو کر پوچھا:کیا تم کیتلی مجھے واپس نہیں کرنا چاہتے؟ دراصل میں نے اس پر ایک منتر پھونک دیا تھا۔“
کرلی نے کہا:”ہاں میں جانتا ہوں، لیکن میں اس کا مستحق تھا۔ اب میں بدل چکا ہوں۔میں کیتلی کو بھی پسند کرنے لگا ہوں۔ہم گہرے دوست ہیں۔“
کبڑے نے حیران ہوتے ہوئے کہا:”اچھا! حیرت ہے، اب تین پینس کے بارے میں زحمت نہ کرو کرلی! مجھے یہ نہیں چاہئیں۔“
کرلی نے کہا:”اچھا اگر تم نہیں لینا چاہتے تو میرے ساتھ ایک کپ چائے پیو جو گانے والی کیتلی میں تیار ہوگی۔“
کبڑا یہ جان کر بہت خوش ہوا کہ کرلی بہت ہی ہمدرد ہوگیاہے۔وہ خوشی خوشی میز پر بیٹھ گیا۔دونوں نے چائے پی اور کیک کھایا۔ دونوں نے باتوں کے دوران محسوس کیا کہ اب وہ ایک دوسرے کو بہت پسند کرنے لگے ہیں۔
اب مسٹر کرلی اور کبڑا بہت گہرے دوست ہیں اور گانے والی کیتلی صرف اس وقت گنگناتی ہے جب وہ ان کی چائے کے لیے پانی گرم کرتی ہے۔آپ اس کا گانا سن سکتے ہیں۔