پیغام رساں
کہانی: A tale of two boys and a kitten
مصنف: Enid Blyton
ترجمہ: گل رعنا
۔۔۔۔۔۔۔۔
”کیا تمھیں پیغام رسانی کرنا ابھی بھی یاد ہے؟“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی شدید نزلہ بخار کی وجہ سے ان دنوں بستر پر پڑا۔ وہ بہت بُری طرح سے کھانس اور چھینک رہا تھا۔ ”پریشان نہ ہو۔ تم کل تک بہتر محسوس کرنے لگو گے۔“ اس کی امی نے تسلی دی۔
اگلے دن علی واقعی بہت بہتر محسوس کررہا تھا۔ وہ بستر سے اٹھنا چاہتا تھا مگر اس کی امی نے اسے اجازت نہیں دی۔
”نہیں! ابھی تم پوری طرح ٹھیک نہیں ہوئے۔ دیکھو! یہ تمھارے بستر کے پاس میں یہ چھڑی رکھ رہی ہوں۔ اگر تمھیں مجھ سے کوئی کام ہو تو اس چھڑی کو زور سے میز کے پائے پر مارنا اس کی آواز نیچے مجھ تک پہنچ جائے گی۔“
علی کی کوشش ہوتی تھی کہ اسے کم سے کم بار اپنی امی کو بلانا پڑے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کی امی بہت مصروف رہتی ہیں۔ عام طور پر وہ اپنی ضرورت کا سارا سامان ایک ہی ساتھ اپنی امی کو بتا دیا کرتا تھا تاکہ انھیں بار بار اوپر نہ آنا پڑے۔ ” میرے کھلونے، میری ڈرائنگ بک، پینسل اور ربر لا دیجیے امی۔“ وہ کہتا۔ ”اور ہاں پلیز فیٹی کو بھی اوپر بھیج دیں۔“ فیٹی بلی کا بچہ تھا۔ وہ چھ ماہ کا موٹا تازہ، شرارتی اور ذہین بچہ تھا۔
فیٹی علی سے محبت کرتا تھا۔ علی بھی فیٹی کا بہت خیال رکھتا تھا۔
”ہاں! تم فیٹی سے کھیل سکتے ہو۔ وہ بھی تمھیں یاد کررہاہو گا۔“ امی نے کہا۔
لہٰذا جلد ہی فیٹی اس کے بستر کے اردگرد چھلانگیں لگا رہا تھا۔ کھیلتے کھیلتے اچانک علی کی طبیعت خراب ہونے لگی۔ اس نے بے چین ہو کر چھڑی کی طرف ہاتھ بڑھایا مگر وہ نیچے گرگئی۔ اس کا سر چکرا رہا تھا اور وہ زمین سے چھڑی اٹھانے کے قابل نہ تھا۔ اچانک اسے ایک خیال آیا۔ وہ فیٹی کے ذریعے نیچے اپنی امی کو پیغام بھیج سکتا تھا۔ اس نے اپنی ڈرائنگ بک سے ایک صفحہ پھاڑا اور پینسل سے اس پر اپنی امی کے لیے پیغام لکھا اور پھر ایک دھاگے کی مدد سے وہ صفحہ فیٹی کے گلے میں باندھ دیا۔
”بھاگ کے جاؤ اور یہ پیغام امی کو دے آؤ۔“ اس نے بلی کو تھپ تھپایا۔ فیٹی نے پلٹ کر علی کو دیکھا۔ وہ اس سے کیا چاہتا ہے؟ یہ کیا چیز ہے جو اس نے اس کی گردن سے باندھی ہے۔ کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی وہ بھاگتا ہوا نیچے کچن میں چلا گیا۔ امی وہاں کیک بنا رہی تھیں۔ فیٹی میاؤں، میاؤں کرنے لگا۔ امی نے نیچے دیکھا اور ان کی نظر فوراً ہی اس کے گلے میں بندھے کاغذ پر پڑی۔
انھوں نے جلدی سے کاغذ فیٹی کے گلے سے اتارا۔
”امی ! میری طبیعت خراب ہورہی ہے۔“ علی نے لکھا تھا۔ امی دوڑ کر اوپر گئیں اور علی کو دوا کھلائی۔ علی جلد ہی بہتر محسوس کرنے لگا۔
”تمھاری بلی بہت ذہین ہے۔“ امی مسکرائیں۔
”جی امی! اب میں اس کو پیغام لانے اور لے جانے کی تربیت دوں گا تاکہ مجھے کسی چھڑی یا گھنٹی کی ضرورت نہ رہے۔“ علی نے کہا اور واقعی اس نے اپنی بیماری کا یہ عرصہ فیٹی کو تربیت دینے میں گزارا۔ علی کی صحت یابی تک وہ دنیا کا بہترین ننھا پیغام رساں بن چکا تھا۔
علی کی صحت یابی کے کچھ عرصے بعد ایک دن پڑوسی بچے نے فیٹی کو پکڑ لیا ۔ بے چارے فیٹی نے خود کو چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔
”میں تمھیں تیرنا سکھاؤں گا۔“ اس نے فیٹی کو سوئمنگ پول میں ڈالتے ہوئے کہا۔ فیٹی کو پانی بالکل پسند نہیں تھا۔ وہ زور سے چلایا تو علی نے اس کی آواز سن لی۔
”ارے! تم میری بلی کے بچے کے ساتھ کیا کررہے ہو احمد؟ رُک جاؤ، اگر تم نے اسے تیرانے کی کوشش کی تو وہ ڈوب جائے گا۔“ مگر احمد نے سنی ان سنی کردی۔
بلی کا بچہ خوف زدہ ہو کر چیخ رہا تھا۔ علی سے رہا نہ گیا۔ اس نے احمد کے باغ میں دیوار سے چھلانگ لگا دی اور اس کی طرف دوڑا۔
”تم سن نہیں رہے ہو میں کیا کہہ رہا ہوں؟“ اس نے غصے میں احمد کو پول میں دھکا دیا اور فیٹی کو پانی سے نکال کر واپس دیوار پر چڑھنے لگا۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ دیوار کے اوپر چڑھتا، احمد پانی سے باہر نکل آیا اور غصے میں علی کے پیچھے دوڑا۔
”تم نے مجھے پانی میں دھکا کیسے دیا؟ اب میں تمھیں سبق سکھاتا ہوں۔ میں ایک درجن دفعہ دھکا دے کر تمھیں گراؤں گا اور میں اس بلی کے بچے کو بھی پانی میں ڈبو دوں گا۔“
علی جانتا تھا کہ وہ احمد کے پہنچنے سے پہلے دیوار نہیں کود پائے گا۔ لہٰذا وہ احمد کے لان میں دوڑ لگا کر باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگا مگر احمد بہت تیز رفتار تھا، اس نے علی کو جالیا۔ علی نے ایک جھکائی دی اور باغ کے کونے میں بنے ایک چھوٹے سے اسٹور کی جانب بھاگا۔ احمد جب تک وہاں پہنچا، علی نے اسٹور روم میں گھس کر دروازہ بند کر لیا۔
”دروازہ کھولو اور دیکھو کہ میں تمھیں کتنی بُری طرح مارتا ہوں۔ علی نے اندر سے چلّا کر کہا ۔ مگر احمد نے دروازہ کھولنے کے بجائے باہر سے تالا لگا دیا۔ علی نے احمد کا بلند قہقہہ سنا۔
”تم ایک قیدی ہو۔ اور تم یہاں اس وقت تک قید رہو گے جب تک تم باہر آکر گھٹنوں کے بل جھک کر مجھ سے معافی نہیں مانگو گے۔ پھر میں تمھارے دونوں کانوں پر دو دومکے ماروں گا اور بلی کے بچے کی دُم زور سے کھینچوں گا۔ کہو منظور ہے؟“
”اگر تم ایک سال بھی انتظار کرو گے تو بھی میں ایسا نہیں کروں گا۔ دروازہ کھولو۔“ علی زور سے چلایا۔
”نہیں کھولوں گا۔“ احمد چلایا۔
”اس کمرے کی کھڑی اتنی چھوٹی ہے کہ تم اس سے باہر نہےں نکل سکتے اور دروازے پر تالا ہے۔ اگر تم چاہو تو رات بھر یہاں رہ سکتے ہو ۔ یہاں کوئی نہیں آتا ۔ ہاہا۔“
علی نے اس کے قدموں کی چاپ سنی۔ وہ دروازے کے پاس گیا اور زور سے بجایا۔ مگر دروازہ نہیں کھلا۔ اس نے مایوس ہو کر کھڑکی کھول کر دیکھا لیکن وہ اتنی چھوٹی تھی کہ وہ اس میں سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔
”احمد انتہائی بدتمیز ہے۔“ علی نے بلی کے گیلے بچے کو سہلاتے ہوئے کہا اور پھر اپنی جیب سے رومال نکال کر اسے خشک کرنے لگا۔ اچانک اسے یاد آیا کہ آج دن میں ساڑھے تین بجے والی ٹرین سے اسے اپنی امی کے ساتھ نانی کے گھر جانا تھا ۔
”امی مجھے گھر پر نہ پا کر کتنی پریشان ہوں گی!“ اس نے فکر مند ہو کر سوچا۔
”کیا مصیبت ہے احمد!“ وہ بڑبڑایا۔
”مجھے یہاںسے ہر حال میں باہر نکلنا ہوگا۔ احمد! احمد! دروازہ کھولو۔“ اس نے دروازے کی کنڈی زور، زور سے بجائی۔ جلد ہی احمد آگیا۔
”گھٹنوں کے بل گر کے معافی مانگنے اور اپنے کان پر مکے کھانے کے لیے تیار ہو جاؤ؟“ احمد چلایا۔
”احمد! احمق نہ بنو۔ مجھے آج ساڑھے تین بجے والی ٹرین سے اپنی امی کے ساتھ نانی کے گھر جانا ہے جو بیمار ہیں۔ مجھے باہر نکالو۔“ علی نے کہا۔
”ہر گز نہیں۔ یہاں بیٹھے رہو اور اگر وہ کرنے کا ارادہ ہوجائے جو میں کہہ رہا ہوں تو آواز دے دینا۔“احمد سیٹی بجاتا ہوا چلا گیا۔
علی اس قدر غصے میں تھا کہ اس نے دروازہ توڑنے کی کوشش کی مگر وہ بہت مضبوط تھا اور اسے توڑنا اس کے بس کی بات نہیں تھی ۔پھر اچانک علی کو ایک خیال آیا اور وہ کھل اٹھا۔
”فیٹی! تم ہی ہمیں اس قید سے نجات دلا سکتے ہو۔ کیا تمھیں پیغام رسانی کرنا ابھی بھی یاد ہے؟ آج تمھیں میرا ایک پیغام لے کر جانا ہوگا۔“ اس نے جیب سے نوٹ بک نکال کر پینسل سے اس پر کچھ لکھا۔ پھر صفحہ پھاڑ کر ایک دھاگے سے فیٹی کے گلے میں باندھ دیا۔ وہ فیٹی کو گود میں اٹھا کر کھڑکی کے پاس آیا۔
”امی کے پاس جاؤ! جلدی کرو فیٹی!“ فیٹی کھڑکی سے باہر کود گیا۔ اسے اپنے گھر کا راستہ معلوم تھا۔ وہ جلد ہی لان کی دیوار پھلانگ کر علی کے گھر میں کود چکا تھا۔
علی کی امی اپنے کمرے میں نانی کے گھر جانے کے لیے تیار ہورہی تھیں۔ نیچے لاؤنج میں علی کے ابو بیٹھے تھے۔ وہ آج جلدی گھر آگئے تھے تاکہ علی کی نانی کے گھر سب کے ساتھ جاسکیں۔ بلی نے ان کی گود میں چھلانگ لگا دی۔ ابو نے اس کی گردن میں بندھا کاغذ دیکھ لیا۔ انھوں نے حیران ہو کر کاغذ بلی کے گلے سے نکال لیا۔ کاغذ پر لکھا تھا:
”امی!احمد نے مجھے اپنے باغ کے اسٹور روم میں بند کر دیا ہے۔ اس نے فیٹی کو سوئمنگ پول میں ڈبونے کی کوشش کی تھی۔ میں اس کے باغ میں فیٹی کو بچانے گیا تھا۔ اب میں یہاں سے باہر نہیں نکل سکتا ۔ علی۔“
”اُف ! یہ بدتمیز لڑکا احمد۔“ علی کے والد نے غصے میں کہا ۔ وہ احمد کو ویسے بھی پسند نہیں کرتے تھے لیکن بلی کے بچے کو پول میں ڈبونا اور ان کے بچے کو اسٹور روم میں بند کرنا۔ یہ توحد تھی۔ اب اس لڑکے کا کچھ کرنا ہی پڑے گا۔
وہ پڑوس میں گئے۔ احمد کے والد گھر پر موجود تھے۔ علی کے ابو نے بتایا کہ احمد نے ان کے بیٹے کو اپنے اسٹور روم میں قید کیا ہوا ہے اور وہ اسے لینے آئے ہیں۔
”اوہ! یہ کیسے ہوسکتا ہے؟“ احمد کے والد نے کہا۔
” چلیے! میں بھی آپ کے ساتھ باغ میں چلتا ہوں۔“ لہٰذا وہ دونوں باغ میں گئے۔ جوں ہی وہ اسٹور روم کے قریب گئے، انھوں نے دونوں لڑکوں کو آپس مےں چلا کر باتیں کرتے ہوئے سنا۔
”کیا تم اب بھی گھٹنوں کے بل معافی مانگنے اور کانوں پر مکا کھانے کے لیے تیار نہیں ہو؟“احمد کہہ رہا تھا۔
”اور ہاں! میں اس بلی کو بھی دوبارہ پانی میں ڈبوؤں گا۔“
”تم بزدل ہو، دروازہ کھولو! تم نے پہلے ہی میری بلی کو مارنے میں کیا کسر چھوڑی ہے۔ میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر تمھارے والد کو تمھاری ان حرکتوں کے بارے میں پتا چل گیا تو تمھاری شامت آجائے گی۔“ علی اندر سے چلایا۔
”ہونہہ! مجھے ڈیڈ کی کوئی پروا نہیں ہے۔ میں وہی کروں گا جو میرا دل چاہے گا۔ میں تو ویسے بھی اپنے ابو کی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہوں۔ مجھے ان کا کوئی ڈر نہیں۔“ پرویز بھی چلّایا۔
احمد کے والد کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ علی کے والد دھیرے سے مسکراے۔ شاید احمد کے والد اب یہ جان چکے تھے کہ ان کا بیٹا ویسا نہیں جیسا وہ سمجھتے تھے۔وہ دونوں احمد کے سامنے پہنچے تو وہ گھبرا گیا۔ وہ جلدی سے کوئی وضاحت پیش کرنے ہی والا تھا کہ اس کے اپنے والد نے اسے بولنے نہ دیا۔
”علی کو باہر نکالو۔ تمھاری ہمت کیسے ہوئی ایسی حرکت کرنے کی؟ اور ابھی تو مجھے اس بارے میں بھی تمھاری خبر لینی ہے جو تم نے بلی کے بچے کو پول میں ڈبویا تھا۔ مزید یہ کہ مجھے اپنے بارے میں تمھارے خیالات جان کر دھچکا لگا۔ تو تم اپنے والد کی باتوں کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیتے اور انھیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہو۔ تم نے یہی کہا تھا ناں ابھی؟ بہت خوب! اب تم آئندہ سے میری باتوں کا اتنا زیادہ نوٹس لینے لگو گے کہ یہ تمھارے لیے فل ٹائم جاب ہوجائے گی۔“
احمد نے دروازہ کھول دیا۔ اس کے گھٹنے کانپنے لگے تھے۔ اس کے والد بہت خوش مزاج اور ہنس مکھ انسان تھے۔ لیکن اگر وہ کبھی غصے میں آتے تو ان کے عتاب سے بچنا ناممکن تھا۔ علی اسٹور سے باہر نکل آیا۔
”بلی کا بچہ کہاں ہے؟“ احمد کے والد نے پوچھا۔
” وہ کھڑکی سے باہر چلا گیا تھا۔“ علی نے کہا۔
”مجھے یہاں سے باہر نکالنے کا شکریہ ابو! اس نے اپنے ابو سے کہا اور دونوں اپنے گھر چلے گئے۔ احمد اپنے والد کے ساتھ اکیلا رہ گیا۔ وہ بہت خوف زدہ لگ رہا تھا۔ اس کے والد نے اس کا ایک کان پکڑ لیا۔ احمد کا کان دُکھنے لگا۔
”اب میرے ساتھ آؤ اور سنو جو کچھ تمھارے ساتھ ہونے جارہا ہے۔“ اس کے والد نے سختی سے کہا۔
”تم وہی کرتے ہو ناں جو تمہارا دل چاہتا ہے؟ خوب! اب ایسا نہیں ہوگا۔ گھر کے اندر چلو احمد۔“ علی خوش تھا کہ اس دن وہ احمد کی جگہ نہیں تھا۔ اس نے بلی کو بہت پیار کیا اور انعام کے طور پر اسے بالائی والے دودھ کی ایک طشتری دی۔ پھر اس نے جلدی جلدی صاف ستھرے کپڑے پہنے اور اپنی نانی کے ہاں روانہ ہو گیا۔
”خدا حافظ ننھی بلی! اب ہم دونوں کو آئندہ احمدسے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ اس نے جاتے جاتے کہا۔ ادھر احمد اپنے رویے کے بارے میں بہت محتاط تھا۔ وہ اب اپنے والد کی بہت عزت کرتا تھا۔ مگر ایک بات آج بھی اسے حیرت میں ڈال دیتی تھی۔ آخر علی کے والد کو یہ کیسے پتا چلا کہ ان کا بیٹا، اس کے اسٹور روم میں قید ہے؟ کسی نے اسے آج تک اس سوال کا جواب نہیں دیا۔
فیٹی اب ایک بڑا بلاِّ ہے اور آج بھی ایک بہترین پیغام رساں ہے۔
٭….٭