skip to Main Content
پُراسرارقتل

پُراسرارقتل

موسم بہار 1894ء کی بات ہے، لندن میں رونالڈ اڈیر کے قتل نے ہلچل مچا رکھی تھی۔ پولیس نے سرتوڑ کوشش کی کہ قاتل کا پتا چلا لے، مگر ناکام رہی۔ حتیٰ کہ وہ یہی نہیں جان پائی کہ قتل کیونکر ہوا۔ تب مجھے اپنا سراغ رساں دوست شرلاک ہومز بہت یادآیا۔ وہ تین سال قبل دنیا کے ذہین ترین مجرم، پروفیسر موریارٹی کے ساتھ گھتم گتھا ہوتے سو ئٹزر لینڈ کی آبشار رایشاخ میں گر کر ہلاک ہوگیا تھا۔

رونالڈ اڈیرلندن کی اشرافیہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کا باپ ارل آف مے نو تو آسٹریلوی نوآ بادی، سڈنی کا گورنر تھا۔ اس کا گھرانا لندن کے علاقے، پارک لین کے مکان نمبر 427میں مقیم تھا۔ رونالڈ تاش کھیلنے کا شوقین تھا اور اکثر رات کو دوستوں کے ساتھ جوا بھی کھیلتا۔مارچ 1894ء کو رات کا کھانا کھا کر وہ بالڈون کلب چلا گیا۔ وہاں وہ اپنے تین دوستوں، مرے، سرجان ہارڈی اور کرنل کے ساتھ بازیاں کھیلنے میں مصروف رہا۔ اس رات وہ جوئے میں پانچ پاؤنڈ ہار گیا تاہم یہ زیادہ بڑی رقم نہیں تھی۔ پھر ایک ہفتہ قبل ہی اس نے سر جان ہارڈی کے سا تھ مخالف جوڑے کو ہرا کر جوئے میں چار سو پاؤنڈ کی خطیر رقم جیتی تھی۔

بالڈون کلب سے رونالڈ رات 10بجے کو واپس پہنچا۔ اس کی ماں اور بہن کسی رشتے دار کے ہاں گئی ہوئی تھیں۔ وہ پہلی منزل پر واقع اپنے کمرے میں چلا گیا۔ ملازمہ نے اُسے چائے دی اور پھر واپس چلی آئی۔ماں اور بہن ساڑھے گیارہ بجے لوٹیں۔ ماں کا معمول تھا کہ وہ سونے سے قبل بیٹے کا ماتھا چومتی تھی۔ ماں نے بیٹے کے کمرے کا دروازہ کھولنا چاہا، تو وہ خلاف معمول بند تھا۔ ماں نے کئی بار دستک دی، مگر دروازہ نہ کھلا تووہ متوحش ہوگئی۔ چنانچہ گھر کے ملازم کو بلایا گیا جس نے دروازہ توڑڈالا۔پریشان اہل خانہ اندر پہنچے تو دیکھا کہ رونالڈ اپنی میز کے نزدیک گرا پڑا ہے۔ اس کا سر و چہرہ خونم خون تھا۔ ریوالور کی ایک گولی نے کھوپڑی میں خاصا بڑا سوراخ کردیا تھا۔ میز پر کرنسی نوٹ تین چار ڈھیریوں کی شکل میں پڑے تھے۔ ساتھ ہی ایک کاغذ پڑا تھا جس میں رونالڈ کے دوستوں کے نام درج تھے۔ یہ عیاں تھا کہ وہ جیتی ہوئی رقم کا حساب کتاب کررہا تھا۔ پولیس کو کمرے میں سے آلہ قتل نہیں ملا۔ حقیقتاً قتل اتنا پُراسرار تھا کہ سراغ رساں اس کی گتھی سلجھا نہ سکے۔ پہلا سوال تو یہی تھا کہ رونالڈ نے اپنے کمرے کا دروازہ کیوں بند کیا؟پہلے پولیس یہی سمجھی کہ مجرم نے دروازہ بند کیا پھر کمرے کی کھڑکی سے فرار ہوگیا۔لیکن کھڑکی پورے 25فٹ بلند تھی۔ پھر اس کے عین نیچے ایک بڑی کیاری میں سیکڑوں پھول کھلے تھے۔ پولیس کو کیاری اور اس قطعہ گھاس سے بھی قدموں کے نشان یا ابتری کے آثار نہ ملے جو گھر اور سڑک کے مابین موجود تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مقتول نے خود دروازہ بند کیا۔

لیکن پھر اس کا موت سے سامنا کیسے ہوا؟ ظاہر ہے کوئی کھڑکی سے چڑھتا اور اترتا، تو وہ کچھ نشانی تو چھوڑ کر جاتا۔ شاید سڑک سے کسی نے اس پر فائر کیا۔ تب وہ یقیناماہر نشانے باز تھا جس نے ننھے ریوالور سے گولی مار کر رونالڈ کو ہلاک کردیا۔

مگر یہ مسئلہ بھی تھا کہ پارک لین میں ہر وقت خاصی گہما گہمی رہتی تھی۔گھر سے سو گز دور ہی تانگوں کا اڈہ تھا۔ لیکن کسی نے گولی کی آواز نہیں سنی اور نہ ہی کسی کو فائر کرتے دیکھا گیا۔ اس کے باوجود ریوالور سے گولی چلی جس نے ایک نوجوان کا دماغ چھید ڈالا۔ اس اسرار کو یہ بات مزیدگمبھیر بناڈالتی ہے کہ رونالڈ کی کسی سے دشمنی نہیں تھی۔ قاتل چور بھی نہیں تھا، ورنہ میز پر رقم نہ دھری ہوتی۔

یہ حادثہ اتنا پراسرار تھا کہ میں بھی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر پارک لین پہنچ گیا۔ گھر کے باہر خاصا ہجوم تھا۔ لوگ اپنے اپنے نقطہ نظر سے کیس کی تشریح کر رہے تھے۔ ہجوم کے باعث میں ایک بوڑھے اورخمیدہ کمروالے بوڑھے سے ٹکرا گیا۔ اس نے کچھ کتابیں تھام رکھی تھیں جو زمین پر جا گریں۔ بوڑھے نے مجھے غصے سے دیکھا، کتابیں اٹھائیں اور ہجوم میں گم ہوگیا۔

پارک لین کا جائزہ لینے سے میرے ذہن میں بنے تانے بانے مزید الجھ گئے۔ گھر اور سڑک کے درمیان چار فٹ اونچی دیوار حائل تھی۔ جہاں پر کوئی بھی بالغ اُسے پھلانگ کر اندر آسکتا تھا۔ لیکن کھڑکی کے قریب کوئی پائپ یا ایسی شے نہیں تھی جس کی مددسے کوئی چست و چالاک شخص اُوپر چڑھ جاتا۔

چنانچہ میں مزید اُلجھن میں مبتلا ہو کرگھر واپس آیا۔ اب میں اپنے کمرے میں بیٹھا ہی تھا کہ ایک انوکھا مہمان آ موجود ہوا133وہی بوڑھا جس سے میں پارک لین میں ٹکرا یا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ گھوم پھر کر قیمتی کتابیں فروخت کرتاہے۔ اور پھر دریافت کیا ’’کیا آپ کو برطانوی پرندوں، جنگوں یا ہما لیہ کے متعلق کتب درکار ہیں؟‘‘

میں نے کتابوں کی اپنی الماری پر کچھ دیر نگاہ جمائے رکھی اور پھر مہمان کو دیکھا، تو یہ دیکھ کر چونک اٹھا کہ وہاں شر لاک ہومز بیٹھا مسکرارہا تھا۔ اُسے زندہ دیکھ کرقدرتاً میں غش کھا گیا اور چند لمحے کے لیے اپنے حواس کھو بیٹھا۔

دس پندرہ منٹ بعد میں میرے حواس بحال ہوئے تو میں نے اپنے دوست کی داستان سنی۔اس نے بتایا ’’پروفیسرموریارٹی مجھے گھاٹی میں گرانا چاہتا تھا۔ لیکن آخری لمحے میں اس کی گرفت سے آزاد ہونے میں کامیاب رہا۔ یوں زندہ بچ گیا۔ یہ قدرت کی طرف سے بہترین انعام تھا۔

’’واٹسن! وجہ یہ ہے کہ مجھے علم تھا، ابھی میرے تین انتہائی خطرناک دشمن باقی ہیں۔ اب میری موت کی خبر کھلتی، تو وہ بے پروا ہوجاتے۔ تب اس عالم بے خبری میں انھیں دبوچناآسان تھا۔ اسی لیے میں گھاٹی کے نیچے سے ہوتاہوادوسری طرف جانکلا۔ یہ راستہ اوپر سے نظر نہیںآتا۔ا سی لیے تم ہمیشہ یہی سمجھتے رہے کہ میں مر چکا۔

’’میں واپس شہر کی طرف جارہا تھا کہ مجھ پہ کسی نے فائرکیا۔ اس کا مطلب تھا کہ پروفیسر موریارٹی تنہا نہیں تھا۔ اس کے کسی ساتھی نے اُسے مرتے دیکھا اور اب وہ میرے پیچھے تھا۔ لیکن خوش قسمتی نے پھر مجھے موت کے منہ میں جانے سے بچا لیا۔ میں پھر مختلف ملکوں میں گھومتا پھرتارہا۔ اپنے زندہ ہونے کی خبر صرف اپنے بھائی، مے کرافٹ کو دی تاکہ وہ میرے گھر کی دیکھ بھال کرتا رہے اور اُسے اجڑنے نہ دے۔ اور واٹسن! اگرمیں تمھیں اپنے زندہ ہونے کی خبر دیتا، تو تم اپنی کہانیوں میں بڑے دردناک انداز میں میری موت کی خبر نہ دیتے۔

’’میں چند روز قبل ہی لندن پہنچا ہوں۔ اس دوران پارک لین میں پراسرار قتل ہوگیا۔ یہ کیس میرے مزاج کے مطابق تھا،لہٰذا اُسی کی سن گن لینے وہاں پہنچا۔ اُدھر تم سے ملاقات ہوگئی اور اب تمھارے سامنے براجمان ہوں۔‘‘ یہ داستان سن کرمیرے ذہن میں کئی سوال چکر کھانے لگے۔ ہومز میرا مدعا تاڑگیااور مسکراکر بولا’’واٹسن، اگر میں نے تمھیں دکھ دیا، تو اُسے بھول جاؤ۔اب کام کرنے کا وقت ہے۔ آج رات ساڑھے نو بجے ہم نے خالی مکان میں پہنچنا ہے۔‘‘

ہومز رات کو نو بجے میرے گھر پہنچ گیا۔ میں نے اپنا ریوالور جیب میں رکھا اور اس کے ساتھ باہر ہو لیا۔ ہم پھر ٹم ٹم میں بیٹھے۔ دوران سفر ہومز خاموش رہا۔ اس پر مخصوص گہری سنجیدگی طاری تھی۔ سوچتے ہوئے وہ ہوا میں خیالی دائرے بھی بناتا رہا۔ میرا خیال تھا کہ ہم بیکر اسٹریٹ جا رہے ہیں، مگر اس نے کیونڈش سکوائر پہ ٹم ٹم روک لی۔ اترتے وقت ہومز نے بڑے غورسے اِدھراُھر دیکھا اور پھر مجھے لیے سامنے گلی میں ہولیا۔ اس دوران ہومز کی پوری کوشش رہی کہ یہ دیکھ سکے، کوئی ہمارا پیچھا تونہیں کررہا۔

ہم چھوٹی بڑی گلیوں میں چلنے لگے۔ ہومز لندن کے چپے چپے اور ہر کونے کھدرے سے واقف تھا۔ ہرگلی اورچوک سے وہ تیزی سے گزر تا، تاکہ کسی کی نظروں میں نہ آسکے۔ اس رات ہومز نے مجھے ایسی گلیوں کی سیر کرائی جومیں نے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔آخر ایک پتلی گلی سے ہوتے ہوئے ہم ایک وسیع و عریض ویران واُجاڑمکان کے پچھواڑے پہنچ گئے۔ ہم پچھلے حصے میں موجود دروازہ کھول کر اندرداخل ہوئے۔

مکان میں بالکل اندھیرا تھا۔ ہومز اپنی غیر معمولی حسّوں کے سہارے میراہاتھ پکڑے آگے بڑھتا رہا۔ لگتا تھا کہ وہ پہلے یہاں آچکا ہے۔ آخر ہم ایک بڑے کمرے میں داخل ہوئے جس کی کھڑکی سے روشنی چھن کر اندر آرہی تھی۔ میرا دوست میرے کانوں کے نزدیک اپنے لب لایا اور سرگوشی کی’’واٹسن! تم جانتے ہو کہ ہم کہاں ہیں؟‘‘

میں باہر جھانکتے اور گردو پیش پہچانتے ہوئے بولا ’’ارے ہم توبیکرا سٹریٹ میں ہیں۔‘‘

’’ہاں، یہ کیمڈن ہاؤس ہے جو طویل عرصے سے خالی پڑا ہے۔ اس کمرے کی کھڑکی سے میرے فلیٹ کا اندرونی منظر صاف نظر آتا ہے۔ اب ذرا کھڑکی سے دور رہتے ہوئے ہی میرے فلیٹ کو دیکھو، شاید وہاں ایک منظر تمھیں ششدر کردے۔‘‘

میں نے حیرت سے ہومز کو دیکھا اور پھر بغور اس کے فلیٹ کو دیکھا، واقعی وہاں کا منظر دیکھ کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کمرے میں ہوبہو ہومز کی شکل کاایک آدمی بیٹھا تھا۔ کمرے میں خوب روشنی تھی۔ لہٰذا وہ دورسے بھی واضح نظر آرہا تھا۔ وہ میز پر بیٹھا کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ اس کی شکل وہیئت ہومزسے اتنی زیادہ ملتی جلتی تھی کہ میں چکرا کر رہ گیا۔

میں نے مڑکر مدہم روشنی میں ہومز کو دیکھا، تو وہ مسکرارہا تھا۔میں نے کہا ’’دوست! خدا کے لیے مجھے فوراً سچ بتاؤ، ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گا۔ ‘‘ ہومز بولا’’ارے یہ میرا مومی مجسمہ ہے۔ بنانے والے کو داد دو کہ اس نے بڑی مہارت سے بنایا۔ قریب پہنچ کر بھی معلوم نہیں پڑتا کہ وہ بے جان ہے۔ یہ بتاؤ، یہی لگتا ہے نہ کہ میں وہاں بیٹھا ہوں۔‘‘

میں نے کہا ’’ میں قسم کھانے کو تیار ہوں کہ وہ تم ہی ہو۔ لیکن تم نے یہ مجسمہ کیوں بنوایا؟‘‘

’’میرے دوست واٹسن اس لیے کہ میری نگرانی شروع ہوچکی۔‘‘

’’نگرانی؟ مگر تمھاری نگرانی کون کررہا ہے؟‘‘

’’جو میری جان کے دشمن ہیں۔ میں نے کل صبح ایک مقامی مجرم کو اپنے فلیٹ کے آس پاس منڈلاتے دیکھا۔ مجھے اس سے کوئی خطرہ نہیں، لیکن مقامی مجرم کا باس بڑا خطرناک آدمی ہے۔ مجھے اسی کی فکر ہے۔ وہی اس وقت لندن کا سب سے شاطر اورخطرناک مجرم ہے۔ لیکن میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اُسے خبرنہیں، ہم اس کے پیچھے ہیں۔ واٹسن، صرف وہ اور اس ساتھی جانتے ہیں کہ میں زندہ ہوں۔اسی نے سوئٹزرلینڈمیں مجھ پرگولی چلائی تھی، لیکن میں بچ گیا۔‘‘

ہومز کی باتیں سن کر مجھے اس کا منصوبہ سمجھ آگیا۔ وہ اس ویران وسنسان مکان میں پوشیدہ رہ کر ان لوگوں کی تاک میں تھا جو اس کا پیچھا کر رہے تھے۔ گویا ہم شکاری بن گئے تھے اور ہم نے چارہ پھینک ڈالا تھا۔ ہم پھر کھڑکی سے کچھ دورکھڑے ہوکر مجرم یا مجرموں کا انتظار کرنے لگے۔

کھڑکی کے باہر کا منظر واضح نظر آتا تھا۔مردو خواتین آ جا رہے تھے اور رات ہونے کے باعث سرد ی بڑھ گئی تھی۔چنانچہ سبھی لوگ موٹے کپڑوں میں ملبوس تھے۔کافی وقت گزرگیا مگر کوئی مشکوک فردیا افراد نظر نہ آئے۔ ہومز فرش پہ جوتے بجا کراپنی بے چینی کا اظہار کرنے لگا۔ میں بھی بے صبری کاشکارتھا۔اچانک میں نے دیکھا کہ ہومز کے مومی مجسمے میں حرکت ہوئی اور اس نے پہلو بدل لیا۔ یہ دیکھ کر میرے حلق سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔

میں نے ہولے سے کہا ’’ارے وہ مجسمہ تو ہل رہا ہے۔‘‘ ہومز میری گھبراہٹ سے قطعاً پریشان نہ ہوا اور اطمینان سے بولا’’ارے بھئی میں ملازمہ کو کہہ آیا تھا کہ وہ ہر دس پندرہ منٹ بعد گھٹنوں کے بل چل کر مجسمے کے پاس جائے اور اسی کا رخ بدل دے، تاکہ کسی کو شک نہ ہو133’’ ارے یہ کیا؟‘‘

ہومزاچانک کوئی آواز سن کر ہوشیار ہوگیا۔ اس نے ساری حسیات آنے والی آواز پہ مرکوز کردیں۔ وہ تن کر کھڑا ہوا اورکسی چاق چوبند چیتے کے مانند نظر آنے لگا۔ اس نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کرمجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا، پھر میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کمرے کے کونے میں لے گیا جہاں گھپ اندھیرا تھا۔

ابتداً مجھے سمجھ نہیں آئی کہ ہومز یکایک کیوں پریشان ہوگیا۔ پھر مجھے بھی وہ آواز آنے لگی جو اس کی طاقتور سمعی حس نے سن لی تھی۔ یہ آواز بیکرسٹریٹ نہیں اسی مکان کے پچھواڑے سے آرہی تھی جس میں ہم چھپے بیٹھے تھے۔

کوئی شخص ہولے ہولے چلتا ہماری طرف آرہا تھا۔ چونکہ مکان خالی تھا، لہٰذا احتیاط سے رکھے قدم بھی خاصی آواز پیدا کررہے تھے۔ ہومز کونے میں مزید دبک گیا۔ میں بھی اس کے ساتھ تھا۔ البتہ میرا ہاتھ سرک کرجیب میں پہنچا اور ریوالور پر اس کی گرفت مضبوط ہوگئی۔

تھوڑی دیر بعد ہمیں ایک سایہ کمرے میں داخل ہوتا نظر آیا۔ اس نے ہماری طرح سیاہ لباس پہن رکھاتھا۔ لہٰذا کسی بے خبر آدمی کے لیے اُسے اندھیرے میں پہچاننا بڑا مشکل تھا۔ وہ کچھ دیررکا اور کھڑکی کی طرف دیکھا۔ تب میں ریوالور نکالنے کے لیے تیار ہوگیا۔ لیکن اس نے اِدھر اُدھر نگاہ نہ دوڑائی اور کھڑکی کی طرف چل پڑا۔

وہ پوری طرح اپنے آپ میں مگن تھا۔ وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے بغیر بہ سرعت اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔ اس نے پہلے بڑی آہستگی و صفائی سے کھڑکی کا شیشہ آدھا فٹ اْٹھایا۔ تب سڑک کی جانب سے آنے والی روشنی براہِ راست اس کے چہرے پہ پڑی۔ وہ ایک بوڑھا چہرہ تھا، طوطے جیسی لمبی ناک اور چوڑا ماتھا۔ اس کی آنکھیں ستاروں کے مانند چمک رہی تھیں۔

وہ ایک چھڑی تھامے ہوئے تھا۔لیکن جب اس نے اْسے زمین پر رکھا، تو کسی دھات کے مانند ٹن ٹن کی آواز آئی۔ اس نے پھر جیب سے کوئی بھاری شے نکالی اور اُسے بظاہرچھڑی میں نصب کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد ٹھک کی آواز آئی جیسے کوئی لیوراپنی جگہ جم گیا۔ وہ پھر جھک کر کچھ کرنے لگا اور جب اُٹھا تو اس کے ہاتھ میں بندوق نما کوئی شے نظر آئی۔ اس کادستہ یا بٹ غیر معمولی طور پر بڑاتھا۔

اس کارروائی کے بعد وہ گھٹنوں کے بل بیٹھا اور بندوق کی نالی کھڑکی کی کگر پر رکھ دی۔ اس کی نگاہیں ہومز کے فلیٹ پر جمی ہوئی تھیں۔ آدمی نے پھردستہ کندھا پر ٹکایا اور شست باندھ لی۔ تب وہ انتہائی ہوشیار نظر آرہا تھا۔ اچانک زوں کی خاصی بلند مگر عجیب سی آواز آئی اورپھر شیشہ ٹوٹنے کی!

اسی لمحے ہومز چیتے کی طرح اُچھلا اور بندوقچی پر جاپڑا۔ دونوں گتھم گتھا ہو کر فرش پر لیٹ گئے۔ آدمی نے ہومز کو لات ماری اور چاہا کہ فرار ہوجائے، لیکن میں نے پوری قوت سے اپنے بھاری ریوالور کادستہ اس کے سر پر دے مارا۔ وہ کراہتے ہوئے فرش پر ڈھیر ہوگیا۔

اسی وقت ہومز کے حلق سے سیٹی کی آواز بلند ہوئی۔ تھوڑی ہی دیر میں مجھے قدموں کی آوازیں سنائی دیں۔ جلد ہی تین آدمی وہاں آ پہنچے۔ ان میں سے ایک کو میں فوراً پہچان گیا، وہ مقامی پولیس کا سراغ رساں، جیمز لیسٹر تھا۔ اس کے ساتھ دو باوردی سپاہی تھے۔

ہومز اُسے دیکھتے ہی بولا ’’اخاہ لیسٹر! تم بروقت پہنچ گئے۔‘‘

لیسٹرنے کہا!’’مسٹر ہومز!آپ نے لندن پہنچتے ہی پہلا شکار قابو کرلیا۔ مبارک بادقبول فرمائیے۔‘‘

’’بس میں نے سوچا کہ پولیس کو غیرسرکاری مدد مل جائے۔ اس سال تین قتل کے کیس وہ حل نہیں کر پائی۔‘‘

اس دوران ہم سب اُٹھ کھڑے ہوئے۔ دونوں سپاہی قیدی کے دائیں بائیں کھڑے ہوگئے۔تبھی سپاہیوں نے ہاتھوں میں تھامی ٹارچیں بھی روشن کردیں۔ یوں قیدی مجھے اچھی طرح نظر آنے لگا۔اس کے چہرے سے درشتی اور خباثت ٹپک رہی تھی۔ وہ شعلہ بار نظروں سے ہمیں دیکھ رہا تھا۔ وہ پھر ہومز کو کھا جانے والی نگاہوں سے گھورنے لگا۔ تبھی وہ بولا’’ تو بہت چالاک نکلا، شیطان کہیں کے!‘‘

مگر ہومز پر اس جملے کا کچھ اثر نہ ہوا۔ وہ اپنا لباس درست کرتے ہوئے گویا ہوا ’ ’ہا کرنل! سفر اکثر عاشقوں کے ملاپ پہ اختتام پذیر ہوتے ہیں، جیسا کہ شیکسپئیر نے ایک ڈرامے میں لکھا ہے۔ میرا خیال ہے، آبشاروالے واقعے کے بعد آج تم سے ملاقات ہوئی ہے۔‘‘

کرنل بدستور غصیلی آنکھوں سے اُسے دیکھتا رہا اور بس یہی کہہ سکا ’’ تو بہت عیارو مکار ہے۔‘‘ ہومز پھر مجھ سے مخاطب ہوا ’’واٹسن! میں نے تم سے اس کا تعارف نہیں کرایا۔ اس جینٹل مین کا نام کرنل سباستین موران ہے۔ کسی وقت ہندوستان میں شاہی فوج کا افسر تھا۔ وہیں ماہر شکاری بن کر واپس آیا۔ کیوں کرنل! میں نے سنا ہے کہ تم نے ہی سب سے زیادہ ہندوستانی شیر مارے ہیں؟‘‘

طیش میں آیا بوڑھا کچھ نہ بولا، بس پہلے کے مانند اُسے گھورتا رہا۔ وہ اپنی وحشیانہ نظروں اور لمبی مونچھوں کی وجہ سے خود شیر لگتا تھا۔ہومز دوبارہ بولا ’’مجھے حیرت ہے کہ تم تجربے کار شکاری ہوتے ہوئے بھی میرے بچھائے دام میں پھنس گئے۔ البتہ تم نے بھی مجھے چھوٹی سی حیرت میں مبتلا کیا۔ میرے وہم و گمان میں نہ تھا کہ تم بھی اس خالی مکان میں پہنچ کراسی خالی کھڑکی سے فائدہ اٹھاؤ گے۔ میرا خیال تھا کہ تم سڑک سے وار کرو گے۔ اسی لیے پولیس بھی تمھارا وہیں ا نتظار کررہی تھی۔‘‘

کرنل موران نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ سرکاری سراغ رساں کی جانب مڑتے ہوئے بولا’’ قانون کے پاس مجھے گرفتار کرنے کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہوگی؟‘‘ جیمز لیسٹر بولا’’ تم نے مسٹر ہومز پہ قاتلانہ حملہ کیا ہے، یہ کوئی معمولی جرم نہیں۔ اگر ان کے گھر ڈمی کی جگہ وہ خود ہوتے، تو یقیناًعالم بالاپہنچ چکے ہوتے۔‘‘

اس دوران ہومز نے فرش پہ گری طاقتور ایئرگن اٹھائی اور اس کا جائزہ لینے لگا۔ میں نے آج تک ایسی انوکھی ایئرگن نہیں دیکھی تھی جو ریوالور کی گولی چلانے پر قادر تھی۔ ہومز اس کے میکنزم کی پڑتال کرکے بولا ’’یہ قابل تعریف اور یکتا ہتھیار ہے۔ زیادہ شور کیے بغیر ریوالور کی گولی دور تک پھینکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ ایئرگن ایک جرمن مکینک، وان ہرڈر نے پروفیسر موریارٹی کے لیے بنائی تھی۔ میں عرصہ دراز سے اس کی موجودگی سے باخبر تھا، لیکن آج ہی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ لیسٹر اِسے سنبھال کر رکھنا، یہ بہت نادر و نایاب شے ہے۔‘‘

لیسٹر ایئرگن لیتے ہوئے گویا ہوا’’مسٹر ہومز! آپ اطمینان رکھیے،ہم اس کی خوب حفاظت کریں گے۔ اچھا ہم چلتے ہیں۔ آپ کچھ اور کہنا چاہیں گے؟‘‘

’’یہ بتاؤ کہ کرنل پر چارج کیا لگاؤگے؟‘‘

’’یہی چارج کہ اس نے مسٹر شرلاک ہومز پر قاتلانہ حملہ کیا۔

’’نہیں نہیں لیسٹر، میں مقدمے بازی میں نہیں پڑنا چاہتا۔ اور نہ ہی یہ خواہش ہے کہ میرااس معاملے میں نام آئے۔ کرنل کوگرفتار کرنے پر ساری نیک نامی اور شہرت کا سہرا تمھارے ہی سر بندھناچاہیے۔ لیسٹر تمھیں مبارک ہوکہ تم نے بے مثال ذہانت اور پیشہ ورانہ مہارت کا استعمال کرتے ہوئے اسے پکڑ ہی لیا۔‘‘ سراغ رساں نے حیرت سے پوچھا’’پکڑ لیا؟مسٹر ہومز کسے پکڑ لیا؟‘‘

’’ارے بھئی جس کے پیچھے لندن کی ساری پولیس لگی ہوئی ہے۔ یہ کرنل سباستین موران ہی تو ہے جس نے رونالڈ اڈیر کو گولی ماری۔ آلہ قتل یہی ایئر گن ہے۔ 427،پارک لین کے سامنے والے فلیٹ کی دوسری منزل سے گولی چلائی گئی جس نے نوجوان کا کام تمام کر ڈالا۔لیسٹر،اس پہ یہی چارج ڈالو۔کیس کی تفصیل تمھیں بعدمیں بتاؤں گا۔‘‘

تھوڑی دیر بعد ہم ہومز کے گھر دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ اس کی ملازمہ، مسز اینڈرسن نے دروازہ کھولا۔ ہم تینوں اس کمرے میں پہنچے جہاں میرے دوست کا مومی مجسمہ رکھا تھا۔ مسز اینڈرسن اُسے دیکھ کر بولی’’ مسٹر ہومز! مجھے افسوس ہے کہ آپ کا یہ مومی مجسمہ خراب ہوگیا۔ گولی اس کا سرچھیدتی سامنے والی دیوار پر جا لگی۔ میں نے اُسے قالین سے اٹھایا۔ وہ یہ رہی!‘‘

ہومز نے گولی ہاتھ میں تھامی اور مجھے دیکھ کر بولا’’واٹسن! دیکھو، یہ ریوالور کی گولی ہے۔ یہی تو ان کم بختوں کی چالاکی ہے کہ کسی کو یقین نہیں آسکتا ، یہ گولی ایئرگن سے فائر ہوئی۔ آؤ ذرا بیٹھ کر اس سارے کیس پر گفتگو کرتے ہیں۔ کیا تم نے کرنل موران کا نام سنا ہے؟‘‘

میں نے نفی میں سر ہلایا، تو ہومز آپ بیتیوں کی تازہ کتاب اپنی الماری سے نکال لایا اور مجھے تھما دی۔ میں پڑھنے لگا۔موران،سباستین، کرنل۔پیدائش لندن۔ 1840ء میں پیدا ہوا۔ آج کل بے روزگار ہے۔ شاہی فوج میں ملازم رہا۔ ہندوستان اور افغانستان میں خدمات انجام دیں۔ ماہر شکاری ہے۔‘‘ اس پیراگراف کے نیچے ہومز نے پنسل سے لکھ رکھا تھا’’لندن کا خطرناک ترین آدمی۔‘‘

میں نے ہومز کو کتاب دیتے ہوئے کہا’’ بڑی عجیب بات ہے۔ اس کا کیرئیر معزز فوجیوں والا ہے۔‘‘

میرا دوست بولا’’ تم نے درست کہا۔ کرنل نے فوج میں کئی مواقع پر دلیری دکھائی۔ لیکن واٹسن، بعض درخت مخصوص بلندی پر پہنچ کر ٹیڑھے ہوجاتے ہیں۔یہ مسئلہ کچھ انسانوں کے ساتھ بھی پیش آتا ہے۔

’’جب کرنل موران فوج سے سبکدوش ہوکر لندن پہنچا، توکچھ ہی عرصے میں اس کی جمع پونجی ختم ہوگئی۔ وہ نوکری کی تلاش میں تھا کہ پروفیسر موریارٹی کے ہتھے چڑھ گیا۔وہ جانتا تھا کہ یہ سابق فوجی ماہر نشانے باز ہے۔ چنانچہ پروفیسر نے اُسے منہ مانگی رقم دی اور کرنل سے بحیثیت ٹارگٹ کلر کام لینے لگا۔

’’جب عام مجرم کسی مطلوبہ شخص کو ٹھکانے نہ لگا پاتے، تو پروفیسر اسی سے کام لیتا۔ مثلاً 1887ء میں لاؤڈر کی بیگم سٹیورٹ اندھی گولی کا نشانہ بنی تھی۔ پولیس اب تک قاتل دریافت نہیں کرسکی۔ مجھے اُمید ہے کہ یہ قتل کرنل ہی نے کیا تھا۔‘‘

’’کرنل سات پردوں میں چھپا ہوا تھا۔ اسی لیے موریارٹی گینگ ٹوٹ گیا، تب بھی وہ پکڑا نہ جاسکا۔ پولیس یا میرے پاس اس کے خلاف کوئی ثبوت ہی نہ تھا۔ تاہم مجھے خدشہ تھا کہ کرنل مجھ پہ حملہ کرے گا۔ اسی لیے تم نے دیکھا ہوگا کہ میں رات ہوتے ہی اس کمرے کی کھڑکیاں بند کر دیتا تھا۔ مجھے اس ایئرگن کاعلم تھا اور یہ بھی کہ وہ اب بہترین نشانے باز کے قبضے میں ہے۔

’’ لندن سے باہر رہ کر میں بغور اخبارات کا مطالعہ کرتا رہا۔ مدعا یہی جاننا تھا کہ کوئی ایسا واقعہ یا حادثہ جنم لے جو مجھے کرنل تک پہنچا دے۔ جب تک وہ زندہ تھا، میری زندگی کا چراغ ہر دم لندن میں گْل ہونے کا خدشہ رہتا۔ ظاہر ہے، میں اُسے گولی نہیں مار سکتا تھا، ورنہ خود جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ جاتا۔ قانون سے مدد لینے کا بھی کوئی فائدہ نہ تھا، کیونکہ اُسے ٹھوس ثبوت درکار ہوتے۔ اسی لیے میں موقع کی تلاش میں چپکا بیٹھا رہا۔

’’آخر رونالڈ ایڈیر کے قتل کی خبر آگئی۔ یوں عمل کرنے کا سنہرا موقع آپہنچا۔ قتل کی تفصیلات پڑھتے ہی مجھے یقین ہوگیا کہ یہ کرنل کی کارستانی ہے۔ اس نے نوجوان کے ساتھ کلب میں کارڈ کھیلے، پھر اس کا پیچھا کیا اور کھلی کھڑکی کے راستے اُسے گولی کا نشانہ بنا ڈالا۔

’’میں فوراً لندن آپہنچا۔ پھر جیسے ہی مقامی مجرم کو اپنے فلیٹ کے قریب منڈلاتے دیکھا، تو چھٹی حسِ بیدار ہوگئی۔ گویا کرنل موران کو اب معلوم تھا کہ میں لندن واپس آچکا۔ وہ بھی فوراً جان گیا کہ میں اس کی تازہ واردات کی سن گن لے کر لندن آیا ہوں۔ چنانچہ اس نے فی الفور مجھے اپنی راہ سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔

’’کرنل کو اپنے انوکھے ہتھیار اور دانش پر بہت اعتماد تھا۔ مگر میں نے بھی شاہ چال چلی اور کھڑکی کے سامنے اپنی ڈمی بٹھا دی۔ اُدھرپولیس میں اپنے دوستوں کو بھی مطلع کردیا کہ وہ ہوشیار رہیں۔ تاہم میرے وہم و گمان میں نہ تھاکہ کرنل وار کرنے کے لیے اسی جگہ کا انتخاب کرے گا جو میں نے مشاہدے کے لیے چنی تھی۔ واٹسن! اب بتاؤ، تمھارے ذہن میں کوئی سوال ہے؟‘‘

میں بولا’’ ہاں، تم نے یہ نہیں بتایا کہ کرنل موران نے رونالڈ اڈیر کو قتل کیوں کیا؟‘‘ ’’ ارے واٹسن، دماغ پرتھوڑا زور دینے سے یہ وجہ بھی سامنے آجاتی ہے۔ ایک ہفتہ قبل رونالڈ اس کے مخالف کھیلتے ہوئے 400پاؤنڈ ہارا تھا۔ اتنی بڑی رقم ہارنے کے بعد وہ نچلا نہیں بیٹھا اور اُسے کسی طرح علم ہوگیا کہ کرنل کھیلتے ہوئے چال بازی کرتا ہے۔‘‘

چنانچہ اس دن رونالڈ نے کرنل کو دھمکی دی کہ وہ اس کی رقم واپس کردے۔ ورنہ وہ شکایت کرکے اُسے بالڈون کلب سے نکلوا دے گا۔ اپنے مربی پروفیسر کی موت کے بعد کرنل کلب میں ایسی ہی چال بازیوں سے جوا کھیل کر کما رہا تھا۔ اگر اس کی جعل سازی افشا ہوتی، تو روزگار کا یہ ذریعہ چھن جاتا۔ لہٰذا جب رونالڈ اپنی بازیوں کا حساب کتاب کرنے میں محو تھا، کرنل نے اُسے قتل کر ڈالا۔ تب رونالڈ نے کمرے کا دروازہ خود بند کیا تھا، تاکہ گھر کی خواتین کام میں مخل نہ ہوں۔‘‘

ہومز کی بات میں بڑا وزن تھا۔ لہٰذا میں نے کہا ’’ تم نے درست کہا۔ ایسا ہی ہوا ہوگا۔‘‘ ’’سچائی مقدمے میں خود بخود سامنے آجائے گی۔ بہرحال مجھے خوشی ہے کہ کرنل موران کا کانٹا دور ہوا اور وان ہرڈر کی مشہور ایئرگن سکاٹ لینڈ یارڈ عجائب گھر کی زینت بنے گی۔ اب شرلاک ہومز پھر آزاد ہے133 وہ حیران کن ، گنجلک اور دلچسپ مسائل حل کرنے جو لندن کی پر پیچ زندگی میں خوب جنم لیتے ہیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top