ننھی انّا
تحریر: Enid Blyton
ترجمہ: محمد اقبال ثاقب
۔۔۔۔۔۔۔
انا اپنے ابو کا انتظار کر رہی تھی۔یہ لڑکی ایک ایسے قصبے میں رہتی تھی جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اکثر آیا کرتے تھے۔
”انا تم کہاں ہو؟“امی نے اسے آوازدی۔
”میں ابو کا انتظار کررہی ہوں۔“سیاہ آنکھوں اور سیاہ بالوں والی انا نے جواب دیا۔”میں ان کے ساتھ کھیلوں گی۔“
بارہ سالہ انا اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی۔اس کے ابو کا نام جیرس تھا۔وہ اپنی پیاری بیٹی کے ساتھ کھیل کر بہت خوش ہوتا تھا۔انا بھی اپنے ابو کے ساتھ بہت خوش رہتی تھی۔اس لیے وہ آج بھی اس کی واپسی کا بے چینی سے انتظار کر رہی تھی۔
”وہ آگئے!“انّا خوشی سے چلائی اور دوڑ کر جیرس سے لپٹ گئی۔اب وہ دونوں کھیلنے میں مشغول ہوگئے۔انا کی امی انا کو باپ کے ساتھ کھیلتے اور قہقہے لگاتے دیکھ کر بے حد خوش ہو رہی تھی۔
لیکن اگلے کی روز انا کے والدین غم زدہ تھے،کیونکہ انا بیمار پڑ گئی تھی۔”میرا سر گرم ہے اور کچھ کھانے کو بھی دل نہیں چاہتا۔“انا نے بتایا۔
انا کے بیمار ہونے پر اس کی امی اور ابو بہت پریشان ہوئے۔جیرس نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم انا کو بستر پر لٹا دو۔میں ڈاکٹر کو لے کر آتا ہوں۔
انا کو اس کی امی نے بستر پر لٹا دیا۔وہ بخار کی وجہ سے بستر پر کروٹیں بدلنے لگی۔اتنے میں جیرس ڈاکٹر کو لے آیا۔ڈاکٹر نے انا کو کچھ دوائیں دیں اور واپس چلا گیا۔شام ہوگئی لیکن انا کو دواسے کچھ فرق نہ پڑا۔امی نے جیرس سے کہا۔”کوئی دوسرا ڈاکٹر لے آؤ،ہوسکتا ہے اس کی دوا سے انا ٹھیک ہو جائے۔“
جیرس دوسرے ڈاکٹر کو بلا لایا۔لیکن اس کی دواؤں نے بھی کچھ اثر نہ کیا۔دودن بعد انا کی بہت بری حالت ہوگئی اور اس کے بچنے کی کوئی امید نہ رہی۔اس کے والدین سخت پریشان تھے۔
”تم نے اس مسیحا کے بارے میں سنا ہے جس کا نام عیسیٰ ہے اور جو بیماروں کو بھلا چنگا کردیتا ہے؟“جیرس نے اچانک اپنی بیوی سے پوچھا۔
”میں بھی اسی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔میرے خیال میں وہ ابھی یہیں ہوگا۔“بیوی نے جواب دیا۔”جاؤ اس کو تلاش کرکے لے آؤ۔ہو سکتا ہے وہ ہماری بیٹی کو اچھاکردے۔“
”ٹھیک ہے میں اسے ابھی ڈھونڈ کر لاتا ہوں۔وہ ایک اچھا انسان ہے اور بچوں سے بہت پیار کرتا ہے۔مجھے یقین ہے کہ وہ میرے ساتھ ضرور آئے گا۔“یہ کہہ کر جیرس نے اپنی بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور حضرت عیسیٰ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔
اس نے قصبے کے لوگوں سے مسیحا کے بارے میں پوچھا اور بالآخر اس گھر کے پاس پہنچ گیا جہاں حضرت عیسیٰ مسیح ٹھہرے ہوئے تھے۔لیکن جیرس کی بدنصیبی کہ وہ اس وقت وہاں موجود نہ تھے۔اس گھر کی ایک عورت نے جیرس کو بتایا۔”وہ جھیل کی طرف تبلیغ کرنے کے لیے گئے ہیں۔تم وہاں چلے جاؤ،شاید وہاں مل جائیں۔“
جیرس جھیل کی طرف چلا گیا۔وہاں اس نے لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم دیکھا۔وہ ہجوم میں جا پہنچا اور لوگوں سے پوچھا،”مسیحا کہاں ہیں؟“
”وہ یہاں نہیں ہیں۔“لوگوں نے اسے بتایا۔”پچھلی رات وہ یہیں تھے۔اس کے بعد کشتی میں بیٹھ کر جھیل کے پار چلے گئے۔ان کے جانے کے بعد طوفان آگیا۔مگر ہمیں یقین ہے کہ وہ محفوظ ہوں گے۔ہم سب انہی کی واپسی کا انتظار کر رہے ہیں۔“
یہ سن کر جیرس بھی ان لوگوں کے ساتھ بے چینی سے حضرت عیسیٰ کا انتظار کرنے لگا۔اس کا ذہن انا کی طرف اور آنکھیں جھیل کی طرف تھیں۔
”کیا انا ابھی زندہ ہوگی؟“ہر منٹ کے بعد یہ سوال جیرس کو پریشان کردیتا۔وہ اسی تذبذب کا شکار تھا کہ اسے ایک کشتی آتی دکھائی دی۔لوگ بھی چلائے۔”کشتی آرہی ہے۔“
کشتی قریب آئی تو ایک شخص نے کہا۔”یہ وہ کشتی نہیں ہے جس میں مسیحا کو آنا تھا۔“ یہ تو کوئی دوسری کشتی ہے۔“
یہ سن کر جیرس کا دل ڈوب گیا۔تھوڑی دیر بعد ایک دوسرا شخص چلایا۔”دیکھو!ایک اور کشتی آرہی ہے۔“
حضرت عیسیٰ کی کشتی آہستہ آہستہ نزدیک آرہی تھی۔اس کشتی میں جیرس کو ایک لمبے قد کا آدمی نظر آیا۔یہ حضرت عیسیٰ تھے۔جوں ہی کشتی کنارے سے لگی، بہت سارے ہاتھ حضرت عیسیٰ کو اتارنے کے لئے آگے بڑے۔حضرت عیسیٰ کنارے پر آگئے۔ان کے ارد گرد لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم تھا۔
حضرت عیسیٰ جیرس سے کافی دور تھے۔ جیرس ہجوم کو چیرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا اور چلا چلا کر کہہ رہاتھا۔”مجھے جانے دو۔مجھے آگے جانے دو۔“
لوگوں کو اندازہ ہو گیا کہ یہ شخص حضرت عیسیٰ سے کوئی بہت ضروری بات کرنا چاہتا ہے۔انہوں نے اسے راستہ دے دیا۔تھوڑی دیر بعد جیرس حضرت عیسیٰ کے قریب پہنچ گیااور بولا:”مسیحا! میرے ساتھ چلئے۔میری بیٹی کو دیکھئے، وہ مر رہی ہے۔“
حضرت عیسیٰ نے جیرس کے پریشان چہرے کی طرف دیکھا اور فرمایا۔”میں ابھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔“حضرت عیسیٰ جیرس کے ساتھ اس کے گھر کی طرف چل دیے۔ لوگ حضرت عیسیٰ کا معجزہ دیکھنے کے لیے بے چین تھے۔وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ابھی وہ جیرس کے گھر سے کچھ دور تھے کہ قصبے کی طرف سے چند لوگ آتے دکھائی دیے۔
”جیرس کہاں ہے؟“ان میں سے ایک آدمی نے پوچھا۔
جیرس نے ان لوگوں کے افسردہ چہرے دیکھے تو اس کے دل کی دھڑکن اورتیز ہوگئی۔
”جیرس اب مسیحا کو تکلیف نہ دو۔تمہاری ننھی انا مرچکی ہے۔“ایک آدمی نے کہا۔
جیرس نے مایوس چہرے اور اشک بھری آنکھوں سے حضرت عیسیٰ کی طرف دیکھا اور کہا،”مسیحا! بہت دیر ہوگئی!“
حضرت عیسیٰ نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔”گھبراؤ مت، اللہ پر بھروسا کرو۔“
حضرت عیسیٰ، جیرس کے گھر کے قریب پہنچے تو آپ نے لوگوں سے کہا۔”تم لوگ یہیں ٹھہرو۔“
یہ کہہ کر آپ جیرس کے ساتھ گھر میں داخل ہو گئے،جہاں آپ کو عورتوں کے رونے دھونے اور چیخ و پکار کی آوازیں سنائی دیں۔ آپ نے عورتوں سے کہا:
”تم کیوں رورہی ہو؟ننھی بچی مری نہیں ہے۔یہ تو سورہی ہے۔“
عورتیں یہ سن کر حیران رہ گئیں۔کیوں کہ انا نے ان کے سامنے دم توڑا تھا۔حضرت عیسیٰ نے عورتوں کو انا کے قریب سے ہٹایا اور خود جیرس کے ہمراہ اس کی چارپائی کے قریب چلے گئے۔اناکی ماں چارپائی کے قریب بیٹھی رو رہی تھی۔
”جیرس! تم نے بہت دیر کردی۔تم اپنی ننھی انا کو خدا حافظ بھی نہ کہہ سکے۔“جیرس کی بیوی نے روتے ہوئے کہا۔
جیرس نے افسردہ نگاہوں کے ساتھ پہلے بیوی کی طرف دیکھا اور پھر حضرت عیسیٰ کی طرف۔حضرت عیسیٰ انا کی چارپائی کے قریب کھڑے اسے دیکھ رہے تھے۔وہ بالکل بے جان پڑی تھی اور اس کے گال زرد پڑچکے تھے۔حضرت عیسیٰ نے بچی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا:
”پیاری بچی اٹھ!خدا کے حکم سے۔“
آپ کا یہ کہنا تھا کہ انا نے آنکھیں کھول دیں اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔اس نے اپنے ارد گرد دیکھا۔وہ کمرے میں ایک اجنبی شخص کو دیکھ کر حیران ہو رہی تھی۔اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور کھل کر مسکرائی۔پھر وہ چارپائی سے اتر کر اِدھر اُدھردوڑنے لگی۔
انا کی امی اور ابو کو یقین نہیں آرہا تھا۔انہوں نے انا کو گلے لگایااور چوما۔ان کی پیاری بیٹی دوبارہ زندہ ہو چکی تھی اور ویسے ہی مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہی تھی جیسے پہلے کیا کرتی تھی۔
”اس کے بارے میں کسی کو مت بتانا۔“حضرت عیسیٰ نے جیرس سے کہا اور باہر تشریف لے گئے۔