skip to Main Content

ننھا سبز گدھا

کہانی: The little green donkey
مصنف: Enid Blyton

ترجمہ: گل رعنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک بڑے سے گھر کی الماری میں ایک ننھا سبز گدھا رہتاتھا جس کی صرف تین ٹانگیں تھیں۔اس کی چوتھی ٹانگ کھلونوں کی الماری سے گرنے کی وجہ سے ٹوٹ گئی تھی اور اس وجہ سے گدھا بہت بدصورت ہوگیا تھا۔گھر کا کوئی بچہ گدھے کو پسند نہیں کرتا تھا۔”یہ سبز رنگ کا کیوں ہے؟“وہ حقارت سے کہتے:”کیا کبھی کسی نے سبز رنگ کا گدھا دیکھا ہوگا؟ہم اس فضول کھلونے سے نہیں کھیلیں گے۔“گدھا بہت اداس رہتا تھا۔وہ اپنے رنگ کو تبدیل نہیں کر سکتاتھا، نہ ہی اس نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی اصلی گدھا دیکھا تھا ،اس لیے وہ یہ بھی نہیں سمجھ سکتا تھا کہ وہ سبز،نیلا، پیلا یا کسی اور رنگ کا کیوں نہیں ہو سکتا۔جب اس نے اپنی ایک ٹانگ کھودی تو وہ پہلے سے زیادہ اداس رہنے لگا۔کسی نے اس کی مرمت نہیں کی۔وہ تین ٹانگوں والا ایک بدصورت کھلونا تھا۔دوسرے تمام کھلونے اس کا مذاق اڑاتے تھے۔
ایک دن تینوں بچوں نے کھلونوں کی الماری سے اپنے سارے کھلونے باہر نکالے اور ان میں سے اپنے بہترین کھلونے چھانٹ کر الگ رکھ دیے۔باقی سب کھلونے انہوں نے ڈھیر کی صورت میںایک جگہ جمع کرنا شروع کیے تاکہ انہیں مالی کے بیمار بیٹے کو دے سکیں۔جب ان کی نظر سبز گدھے پر پڑی تو وہ ہنس پڑے،”اس گدھے کو تو مالی کا بیٹا بھی لینا پسند نہیں کرے گا۔اس کا ہم کیا کریں؟“
”اسے کھڑکی سے باہر پھینک دو!“ایک بچے نے کہا۔لہٰذا انہوں نے ننھے گدھے کو اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دیا اور یہ دیکھنے کی بھی زحمت نہیں کی کہ وہ کہاں گرا ہے۔اب ہوا یہ کہ اس وقت گھرکے باہر سے ایک سبزی والا گزررہا تھا۔گدھا سر کے بل بند گوبھی کی ٹوکری میں جا گرا۔گرتے ہوئے وہ بہت خوف زدہ تھا کہ اگر وہ زمین پر گرا تو اس کی باقی ٹانگیں بھی ٹوٹ جائیں گی۔مگر سبزیوں کے ٹوکرے میں گرنے کی وجہ سے اسے کوئی چوٹ نہیں آئی۔وہ ٹوکری میں پڑا سوچتا رہا کہ اب اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔اس سے کبھی کسی نے محبت نہیں کی،نہ ہی کوئی اسے اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا۔اٹھا کر باہر پھینکے جانے کا احساس کس قدر تکلیف دہ تھا!!
سبزی والا اپنا ٹھیلا لے کر دکان پر واپس لوٹا تو اس کے ملازم نے بتایا کہ ایک بوری گوبھی کا آرڈر آیا ہے۔لہٰذا اس نے بند گوبھی کی ٹوکری بوری میں الٹ کر بوری کا منہ بند کردیا۔ننھا گدھا بھی بوری میں جا گرا۔جلد ہی بوری اٹھا لی گئی اور کوئی اسے لے کر چلنے لگا۔آخر کار اسے نیچے رکھ دیا گیااور ایک آوازآئی:”لو باورچی !یہ آگئی تمہاری گوبھی!“آج گھر کے مالک نے اپنے تمام دوستوں کو کھانے کی دعوت پر بلایا تھا ۔بند گوبھی ،بھنے ہوئے گوشت اور آلو کے قتلوں کے ساتھ پیش کی جانے والی تھی۔
اس دن کچن میں اتنا زیادہ کام تھا کہ گھر کے ملازمین کے علاوہ ایک غریب بوڑھی عورت دعوت کے کاموں میں ہاتھ بتانے کے لیے بلوائی گئی تھی تاکہ کھانا وقت پر تیار ہو سکے۔وہ گوبھی دھونے اور کاٹنے کا کام کررہی تھی کہ اچانک اس کو سبزیوں کے ڈھیر میں پڑا ہوا ننھا سبز گدھا نظر آگیا۔”اوہ!یہ دیکھو!“وہ چلائی اور گدھا اٹھا کر دوسرے ملازموں کو دکھایا:”سبزی والے نے گوبھی کے ساتھ یہ کیا دے دیا؟“
”اسے کوڑے میں پھینک دو!“باورچی نے کہا۔
”یہ صرف ٹوٹا ہوا کھلوناہے۔اگرتم لوگ برا نہ مانو تو میں اسے اپنے پوتے کے لیے گھر لے جاتی ہوں ۔آج اس کی سال گرہ ہے۔اسے اور تو کوئی تحفہ ملے گا نہیں!کیوں کہ اس کے باپ کے پاس نوکری نہیں ہے اور اس کی ماں بہت بیمار ہے۔وہ اس کھلونے سے خوش ہوجائے گا۔“بوڑھی عورت نے کہا۔
”ٹھیک ہے!پھر تم اسے لے جاﺅ اپنے ساتھ!“باورچی نے کہا۔بوڑھی عورت نے اسے اپنے تھیلے میں ڈال لیا۔کام ختم ہونے کے بعد وہ اپنے گھر چل پڑی۔راستے میں وہ اپنے بیٹے کے گھر رکی مگر اس کا پوتا گھر پر موجود نہیں تھا۔اس نے وہ سبز گدھا اپنے بیٹے کو دیتے ہوئے کہا:”یہ میرے پوتے کو دے دینا،آج اس کی سال گرہ ہے نا!“
”ہاں !مگر اس سال گرہ پر اسے ایک بھی تحفہ نہیں ملا،نہ ہی کیک کٹا!“بیٹے نے آہ بھرتے ہوئے کہا:”لیکن آپ بڑا اچھا کھلونا لائی ہیں۔ میں اس کی ایک اور ٹانگ لگا سکتا ہوں اور اس پر تازہ سبز رنگ کر سکتاہوں۔جمی بہت خوش ہوگا۔“
لڑکے کا باپ ننھے سبز گدھے کی مرمت کرنے بیٹھ گیا۔اس نے جلدہی گدھے کی ایک اور ٹانگ جوڑدی۔اب وہ اچھی طرح اپنے چاروں پیروں پر کھڑا ہو سکتا تھا۔پھر اس نے گدھے پر سبز رنگ کیا اور اس کو آگ کے پاس سوکھنے کے لیے رکھ دیا۔جب جمی گھر آیا تو اس وقت تک گدھا اس کے لیے بالکل تیار ہوچکا تھا۔”کتنا خوب صورت گدھا ہے!“جمی اسے اٹھاتے ہوئے چلایا”امی!امی!میری سال گرہ کے تحفے کو دیکھیں۔کیا آپ نے کبھی اتنا اچھا کھلونا دیکھا ہے؟اور یہ کتنے خوب صورت رنگ کا ہے۔ابو!میں اس کے لیے ایک اصطبل بناﺅں گا۔“
ننھے گدھے کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا کیوں کہ اس سے پہلے ہمیشہ اس کا مذاق ہی اڑایا جاتا تھا اور اب یہ ننھا لڑکا اسے خوب صورت کہہ رہا تھا۔وہ بہت خوش ہوا۔رات کو جمی گدھے کو اپنے تکیہ کے ساتھ رکھ کر سویا۔گدھا ساری ر ات وہاں کھڑا ہو کر پہرہ دیتا رہا۔وہ کسی بھی کیڑے مکوڑے سے لڑنے کے لیے بالکل تیار تھا۔اگر وہ اس کے مالک کو تنگ کرنے آئے۔اگرچہ ایسا کچھ نہیں ہوا مگر ننھا گدھا اپنے آپ کو بہت بہادر محسوس کرتا رہا۔
صبح جمی اس کے لیے اصطبل بنانے بیٹھا۔یہ ایک شان دار اصطبل تھا۔اس کی دیواریں اس کے والدنے گہرے بھورے رنگ سے پینٹ کردی تھیں اور دو شیشے کی کھڑکیاں بھی لگادی تھیں۔گدھا بہت فخر محسوس کررہا تھا۔دوسرے سب کھلونے اس سے دوستی کرنا چاہتے تھے۔جمی کے پاس ایک ہاتھ والی گڑیا تھی،ایک بے دُم کا چینی گھوڑا تھا،ایک شیر جس کی پیشانی میں سوراخ تھا اور ایک پیتل کا سپاہی جس کی بندوق نہیں تھی۔ننھا گدھا کھلونوں کی الماری کا بادشاہ تھا اور وہ بے حد خوش تھا۔
ایک دن جمی کی ماں سے ملنے ان تینوں بچوں کی امی آئیں جن کے پاس پہلے یہ گدھا ہوتا تھا۔بچے بھی ساتھ آئے تھے۔انہوں نے جمی سے کہا کہ وہ انہیں اپنے کھلونے دکھائے۔”یہ میرا بہترین کھلونا ہے!“جمی نے اپنا اصطبل باہر نکالتے ہوئے کہا:”دیکھو، اس کے اندر میرا پیارا ننھا سبز گدھا کھڑاہے!اچھا ہے نا؟“
”اوہ ہاں!“تینوں بچوں نے کہا جو سوچ رہے تھے کہ اصطبل میں کھڑا ہوا گدھا واقعی بہت خوب صورت لگ رہا ہے۔”کاش!ہمارے پاس بھی ایسا ہی ایک شان دار کھلونا ہوتا!“انہوں نے رشک سے کہا۔یہ سن کر ننھا گدھا دل ہی دل میں ہنس پڑا۔واقعی تھوڑی سی محنت،محبت اور توجہ ہر چیز کو قابل رشک بنا سکتی ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top