ناچتے آدمی
تحریر: آرتھر کونن ڈائل
ترجمہ: محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہومز کافی دیر سے خاموش بیٹھا ایک شیشے کی بوتل کا معائنہ کر رہا تھا۔
’’تو واٹسن!‘‘وہ اچانک مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’تم کسی زمین کی خریداری کے سلسلے میں جنوبی افریقہ نہیں جا رہے؟‘‘ میں اس سوال پر بڑا حیران ہوا۔
’’تم کیسے کہہ سکتے ہو؟‘‘ وہ اپنی کرسی میری طرف گھما کر محدب عدسہ اٹھاتے ہوئے ہلکا سا مسکرایا۔
’’تم کچھ زیادہ ہی حیران نہیں ہو رہے واٹسن؟‘‘
’’ ہاں، بالکل‘‘
’’مجھے یہی بات ایک کاغذ پر لکھ کر تمہیں دے دینی چاہئے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ اس لیے کہ پانچ منٹ گزرنے دو تم خود کہو گے کہ یہ ایک بہت سادہ سی بات ہے۔‘‘
’’مجھے یقین ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔‘‘
’’ دیکھو، پیارے واٹسن!‘‘ اس نے محدب عدسہ دوبارہ میز پر رکھا اور مجھ سے ایسے مخاطب ہوا جیسے ایک استاد اپنی جماعت سے مخاطب ہو:
’’یہ بالکل آسان سی بات ہے کہ آپ کو ایک خیال آتا ہے، پھر خیال کا ہر ایک حصہ دوسرے حصے کو آگے بڑھاتاہے۔ پھر آپ پہلی اور آخری کڑی کو ملاتے ہیں تو نتیجہ حیران کن ہوتا ہے۔ جب میں نے دیکھا کہ تمہارے الٹے ہاتھ کے انگوٹھے کے نچلے حصے پر چاک کا نشان ہے، تو مجھے یقین ہو گیا کہ تم کسی زمین کی خریداری کے سلسلے میں جنوبی افریقہ نہیں جا رہے۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں۔‘‘
’’پہلی بات یہ کہ جب کل رات تم یہاں آئے تھے تو تم نے بائیں انگوٹھے اور بڑی انگلی کے درمیان چاک پکڑی ہوئی تھی۔ دوسری بات یہ کہ تم اپنے ہاتھ میں چاک ہمیشہ اس وقت پکڑتے ہو جب تم بلیئرڈ(اسنوکر) کھیلتے ہو کیوں کہ اس سے تمہیں بلیئرڈ کی اسٹک(چھڑی) پکڑنے میں مدد ملتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ تم بلیئرڈ صرف مسٹر تھرسٹن کے ساتھ کھیلتے ہو۔ چوتھی با ت یہ کہ تم نے مجھے چار ہفتے پہلے بتایا تھا کہ مسٹرتھرسٹن جنوبی افریقہ میں کوئی زمین تمہیں بیچنا چاہتے ہیں۔ پانچویں بات یہ کہ تمہاری بینک بک تو میری تجوری میں رکھی ہوئی ہے۔ اور تم نے مجھ سے اس کی چابی نہیں مانگی۔ چھٹی بات یہ کہ اس کا مطلب ہے کہ تمہیں کوئی رقم نہیں چاہئے، اس سے یہ معلوم ہوا کہ تم تھرسٹن سے کوئی زمین خریدنے نہیں جا رہے۔‘‘
’’کیوں، کیا یہ اتنی سیدھی بات ہے؟‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں، کیوں نہیں‘‘ہومز نے جواب دیا۔ ’’ہر بات بہت سادہ اور سیدھی ہو جاتی ہے جب آپ اسے سمجھنا چاہتے ہیں۔ اب ایک اور مسئلہ حل کرنے کے لیے در پیش ہے۔ اسے دیکھو، اس کا کیا مطلب ہے میرے دوست واٹسن؟‘‘
ہومز نے میرے ہاتھ میں ایک کاغذ کا ٹکڑا دیا اور دوبارہ پیچھے ہو کر میز پر رکھی شیشے کی بوتل کو دیکھنے لگا۔ میں نے کاغذ کے ٹکڑے کو دیکھا۔ اس پر قطار میں لگاتار عجیب سی تصاویر بنی ہوئی تھیں۔
’’کیوں ہومز! یہ تو کسی بچے کی بنائی ہوئی تصاویر ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’اوہ ! یعنی تمہارا یہی خیال ہے؟‘‘
’’تو پھر یہ کیا ہیں؟‘‘
’’یہ مسٹر ہلٹن کیوبٹ ہیں جنہوں نے نوفوک کے علاقے رڈلنگ تھورپی سے مجھے یہ کاغذ کا ٹکڑا بذریعہ پوسٹ بھیجاہے۔ وہی اس کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں اور وہ خود بذریعہ ریل یہاں پہنچا ہی چاہتے ہیں۔ ذرا آواز سنو! لگتا ہے کوئی سیڑھیاں چڑھ رہاہے۔ یقیناًمسٹر کیوبٹ ہی ہے۔‘‘
ہم نے سنا کہ کوئی سیڑھیاں چڑھ رہا ہے۔ پھر ایک لمبے قد کا آدمی کمرے میں داخل ہوا۔ چمکتی آنکھوں اور شفاف جلد کا مالک یہ شخص شہری باشندہ لگ رہا تھا۔ اس کی توجہ فوراً میز پر رکھے کاغذ کے ٹکڑے کی طرف گئی:
’’ہاں تو مسٹر ہومز! تم مجھے اس کے بارے میں کیا بتا سکتے ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔’’مجھے پتا ہے کہ تم پہیلیاں پسند کرتے ہو، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ تم یہ عجیب پہیلی بوجھ پاؤگے۔ میں نے یہ پہیلی تمہیں اس لیے بذریعہ خط بھیج دی تھی تاکہ میرے آنے سے پہلے تم اسے توجہ سے دیکھ لو۔‘‘
’’ہاں، یہ بہت ہی عجیب ہے مسٹر کیوبٹ! پہلی نظر میں تو یہ کسی بچے کے ہاتھ کا کام لگتا ہے، مگر تم یہ کیوں سوچ رہے ہو کہ یہ کوئی بہت اہم چیز ہے؟‘‘
’’میں تو نہیں سوچ رہا مگر مسٹر ہومز! میری بیوی ضرور سوچ رہی ہے۔ اگرچہ وہ مجھ سے کچھ کہتی تو نہیں ہے لیکن مجھے اس کی آنکھوں میں خوف نظر آتا ہے۔ لہٰذا میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ان تصاویر کا مطلب کیا ہے؟‘‘
ہومز نے کاغذ اٹھا کر اس کے پیچھے ہلکی سی روشنی ڈالی۔ یہ عام سا لکھنے کا کاغذ تھا جس پر پنسل سے اس طرح کی تصویر بنی ہوئی تھی۔
’’تو واٹسن!‘‘وہ اچانک مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’تم کسی زمین کی خریداری کے سلسلے میں جنوبی افریقہ نہیں جا رہے؟‘‘ میں اس سوال پر بڑا حیران ہوا۔
’’تم کیسے کہہ سکتے ہو؟‘‘ وہ اپنی کرسی میری طرف گھما کر محدب عدسہ اٹھاتے ہوئے ہلکا سا مسکرایا۔
’’تم کچھ زیادہ ہی حیران نہیں ہو رہے واٹسن؟‘‘
’’ ہاں، بالکل‘‘
’’مجھے یہی بات ایک کاغذ پر لکھ کر تمہیں دے دینی چاہئے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ اس لیے کہ پانچ منٹ گزرنے دو تم خود کہو گے کہ یہ ایک بہت سادہ سی بات ہے۔‘‘
’’مجھے یقین ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔‘‘
’’ دیکھو، پیارے واٹسن!‘‘ اس نے محدب عدسہ دوبارہ میز پر رکھا اور مجھ سے ایسے مخاطب ہوا جیسے ایک استاد اپنی جماعت سے مخاطب ہو:
’’یہ بالکل آسان سی بات ہے کہ آپ کو ایک خیال آتا ہے، پھر خیال کا ہر ایک حصہ دوسرے حصے کو آگے بڑھاتاہے۔ پھر آپ پہلی اور آخری کڑی کو ملاتے ہیں تو نتیجہ حیران کن ہوتا ہے۔ جب میں نے دیکھا کہ تمہارے الٹے ہاتھ کے انگوٹھے کے نچلے حصے پر چاک کا نشان ہے، تو مجھے یقین ہو گیا کہ تم کسی زمین کی خریداری کے سلسلے میں جنوبی افریقہ نہیں جا رہے۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں۔‘‘
’’پہلی بات یہ کہ جب کل رات تم یہاں آئے تھے تو تم نے بائیں انگوٹھے اور بڑی انگلی کے درمیان چاک پکڑی ہوئی تھی۔ دوسری بات یہ کہ تم اپنے ہاتھ میں چاک ہمیشہ اس وقت پکڑتے ہو جب تم بلیئرڈ(اسنوکر) کھیلتے ہو کیوں کہ اس سے تمہیں بلیئرڈ کی اسٹک(چھڑی) پکڑنے میں مدد ملتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ تم بلیئرڈ صرف مسٹر تھرسٹن کے ساتھ کھیلتے ہو۔ چوتھی با ت یہ کہ تم نے مجھے چار ہفتے پہلے بتایا تھا کہ مسٹرتھرسٹن جنوبی افریقہ میں کوئی زمین تمہیں بیچنا چاہتے ہیں۔ پانچویں بات یہ کہ تمہاری بینک بک تو میری تجوری میں رکھی ہوئی ہے۔ اور تم نے مجھ سے اس کی چابی نہیں مانگی۔ چھٹی بات یہ کہ اس کا مطلب ہے کہ تمہیں کوئی رقم نہیں چاہئے، اس سے یہ معلوم ہوا کہ تم تھرسٹن سے کوئی زمین خریدنے نہیں جا رہے۔‘‘
’’کیوں، کیا یہ اتنی سیدھی بات ہے؟‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں، کیوں نہیں‘‘ہومز نے جواب دیا۔ ’’ہر بات بہت سادہ اور سیدھی ہو جاتی ہے جب آپ اسے سمجھنا چاہتے ہیں۔ اب ایک اور مسئلہ حل کرنے کے لیے در پیش ہے۔ اسے دیکھو، اس کا کیا مطلب ہے میرے دوست واٹسن؟‘‘
ہومز نے میرے ہاتھ میں ایک کاغذ کا ٹکڑا دیا اور دوبارہ پیچھے ہو کر میز پر رکھی شیشے کی بوتل کو دیکھنے لگا۔ میں نے کاغذ کے ٹکڑے کو دیکھا۔ اس پر قطار میں لگاتار عجیب سی تصاویر بنی ہوئی تھیں۔
’’کیوں ہومز! یہ تو کسی بچے کی بنائی ہوئی تصاویر ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’اوہ ! یعنی تمہارا یہی خیال ہے؟‘‘
’’تو پھر یہ کیا ہیں؟‘‘
’’یہ مسٹر ہلٹن کیوبٹ ہیں جنہوں نے نوفوک کے علاقے رڈلنگ تھورپی سے مجھے یہ کاغذ کا ٹکڑا بذریعہ پوسٹ بھیجاہے۔ وہی اس کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں اور وہ خود بذریعہ ریل یہاں پہنچا ہی چاہتے ہیں۔ ذرا آواز سنو! لگتا ہے کوئی سیڑھیاں چڑھ رہاہے۔ یقیناًمسٹر کیوبٹ ہی ہے۔‘‘
ہم نے سنا کہ کوئی سیڑھیاں چڑھ رہا ہے۔ پھر ایک لمبے قد کا آدمی کمرے میں داخل ہوا۔ چمکتی آنکھوں اور شفاف جلد کا مالک یہ شخص شہری باشندہ لگ رہا تھا۔ اس کی توجہ فوراً میز پر رکھے کاغذ کے ٹکڑے کی طرف گئی:
’’ہاں تو مسٹر ہومز! تم مجھے اس کے بارے میں کیا بتا سکتے ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔’’مجھے پتا ہے کہ تم پہیلیاں پسند کرتے ہو، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ تم یہ عجیب پہیلی بوجھ پاؤگے۔ میں نے یہ پہیلی تمہیں اس لیے بذریعہ خط بھیج دی تھی تاکہ میرے آنے سے پہلے تم اسے توجہ سے دیکھ لو۔‘‘
’’ہاں، یہ بہت ہی عجیب ہے مسٹر کیوبٹ! پہلی نظر میں تو یہ کسی بچے کے ہاتھ کا کام لگتا ہے، مگر تم یہ کیوں سوچ رہے ہو کہ یہ کوئی بہت اہم چیز ہے؟‘‘
’’میں تو نہیں سوچ رہا مگر مسٹر ہومز! میری بیوی ضرور سوچ رہی ہے۔ اگرچہ وہ مجھ سے کچھ کہتی تو نہیں ہے لیکن مجھے اس کی آنکھوں میں خوف نظر آتا ہے۔ لہٰذا میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ان تصاویر کا مطلب کیا ہے؟‘‘
ہومز نے کاغذ اٹھا کر اس کے پیچھے ہلکی سی روشنی ڈالی۔ یہ عام سا لکھنے کا کاغذ تھا جس پر پنسل سے اس طرح کی تصویر بنی ہوئی تھی۔
ہومز نے چند بار کاغذ کو دیکھنے بعد میز پر رکھی کتاب میں رکھتے ہوئے کہا:
’’یہ معاملہ بڑی دل چسپی کی طرف جارہا ہے۔مگر مسٹرکیوبٹ ! تم نے اپنے خط میں کوئی تفصیل نہیں لکھی۔ مہربانی کر کے مجھے اور میرے دوست ڈاکٹر واٹسن کو ہر وہ چیز بتاؤ جو تم جانتے ہو۔‘‘
’’بالکل ٹھیک۔۔۔دیکھئے!‘‘ مسٹرکیوبٹ نے شروع کیا۔ ’’کہانی پچھلے سال اس وقت شروع ہوئی جب میں نے شادی کی۔۔۔میں کوئی امیر آدمی نہیں ہوں مسٹرہومز! مگر میرا خاندان صدیوں سے رڈلنگ تھورپی مینر میں آباد ہے اور نورفوک میں اچھی طرح جانا پہچانا جاتاہے۔
پچھلے سال میں لندن گھومنے آیا تو رسل اسکوائر کے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں ٹھہرا۔ یہاں میری ملاقات ایک امریکی خاتون ’ایلیس پیٹرک‘ سے ہوئی۔ چند ہفتوں بعد میں نے اسے شادی کی پیش کش کی، اور جب ہم نورفوک واپس گئے تو میاں بیوی تھے۔ شاید تم سوچ رہے ہوگے کہ میں کتنا بے وقوف ہوں کہ شادی کرنے میں اتنی جلدی کی ،کیوں کہ میں نہ تو اپنی بیوی کے خاندان کے بارے میں کچھ جانتا تھا اور نہ اس کے بارے میں، کہ مجھ سے ملنے سے پہلے وہ کون تھی اور کیا تھی۔ مگر آپ جب اس سے ملیں گے تو آپ ضرور یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ وہ آپ سے مخلص ہے۔
اس نے مجھ سے کہا کہ اس کی خواہش ہے کہ وہ سب کچھ بھول جائے اس لئے وہ اپنے خاندان کے بارے میں زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرے گی اور میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں تو اس کی پچھلی زندگی کے بارے میں کچھ نہ پوچھوں۔ میں اس سے شادی کرنا چاہتا تھا مسٹر ہومز! اس لیے میں نے خوشی سے یہ وعدہ کر لیا کہ میں وہی کروں گا جو وہ چاہے گی۔
چنانچہ ہم نے شادی کر لی اور اب ایک سال ہو گیا ہے۔ ہم بہت خوش بھی ہیں مگر ایک مہینہ پہلے جون کے آخر میں مصیبت کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک دن میری بیوی کو امریکہ سے ایک خط آیا۔
میں نے خود اس خط پر امریکی مہر دیکھی تھی۔ میری بیوی نے جیسے ہی وہ خط پڑھا، اس کا چہرہ سفید ہو گیا اور اس نے وہ آگ میں ڈال دیا۔ اس نے اس خط کے بارے میں کوئی بات نہیں کی مگر اسی وقت سے وہ خوف زدہ اور فکر مند رہنے لگی۔ اس کے باوجود میں نے اس سے کچھ نہیں پوچھا کیوں کہ میرا اس سے وعدہ تھا کہ میں اس سے کچھ نہیں پوچھوں گا، اس لیے میں اس سے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ تقریباً ہفتہ بھر پہلے میں نے کھڑکی پر ناچتے آدمیوں کی عجیب سے تصاویر بنی ہوئی دیکھیں بالکل اسی طرح جیسے میز پر رکھے اس کاغذ پر بنی ہوئی ہے۔ میں یہ سمجھا کہ کسی نے تفریح کے طور پر بنائے ہوں گے مگر جب میں نے اپنی بیوی کو اس بارے میں بتایا تو وہ فکر مند نظر آنے لگی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اگر دوبارہ کہیں ایسی چیز نظر آئے تو اسے بتاؤں۔
کل صبح مجھے دوبارہ باغیچے سے یہ کاغذ کا ٹکڑا ملا۔ میں نے جیسے ہی یہ ایلیس کو دکھایا اس کی طبیعت خراب ہو گئی، اس لئے میں نے تمہیں لکھا مسٹر ہومز!۔ میں پولیس کو نہیں بلانا چاہتا کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ وہ صرف ہنسیں گے۔ لہٰذا مہربانی کر کے میری مدد کرو مسٹر ہومز۔ اگرچہ میں کوئی امیر آدمی تو نہیں ہوں لیکن اپنی بیوی کی خوشی واپس لانے کے لئے وہ سب کچھ کروں گا جو میں کر سکوں گا۔‘‘
مسٹر کیوبٹ ایک مخلص اور سادہ آدمی تھا۔ ہومز نے دیکھا کہ وہ اپنی بیوی سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے۔ چند منٹ کی خاموشی کے بعد ہومز بولا:
’’مسٹر کیوبٹ! تم نے اپنی بیوی سے یہ کیوں نہیں کہا کہ وہ تمہیں بتائے کہ آخر اس میں راز ہے کیا؟‘‘
’’میں یہ نہیں کر سکتا مسٹر ہومز! جیساکہ میں نے پہلے بتایا کہ میں نے اس سے وعدہ کیا تھا اور میں اسی کی پاس داری کر رہا ہوں۔ اگر وہ خود مجھے بتانا چاہے تو ٹھیک ورنہ میں اس کی مدد کے بغیر ہی کچھ کرنا چاہتا ہوں جو بھی ممکن ہو۔‘‘
’’تو پھر میں تمہاری مدد کروں گا مسٹر کیوبٹ! پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے پچھلے چند ہفتوں میں اپنے گھر کے قریب کسی اجنبی کو دیکھا؟‘‘
’’نہیں میرا نہیں خیال‘‘
’’تم ملک کے ایک خاموش حصے میں رہتے ہو اس لیے تم کسی بھی اجنبی کی آمد سے با خبر رہ سکتے ہو۔‘‘
’’ ہاں! مگر وہاں گاؤں کے قریب بہت سے چھوٹے چھوٹے ہوٹل ہیں۔ اور بعض اوقات لوگ دیہاتیوں کے پاس بھی ٹھہرتے ہیں۔‘‘
’’ان عجیب و غریب تصاویر کا کوئی مطلب تو ضرور ہے مگر فی الحال میں تمہارے صرف اس خط سے تمہیں اس کا کوئی مطلب نہیں بتا سکتا۔ میں مزید دیکھنا چاہتا ہوں۔
مسٹر کیوبٹ! میں چاہتا ہوں کہ تم نورفوک واپس جاؤ اور دھیان سے مزید ناچتے آدمیوں کو تلاش کرو۔ اپنے قریب ٹھہرے ہوئے اجنبیوں کے بارے میں بتاؤ اور اگر کچھ نیا یا مختلف نظر آئے تو دوبارہ میرے پاس آؤ تب ہی میں تمہارے بارے میں کچھ بہتر کر سکوں گا۔ میں ہر وقت تمہاری مدد کو تیار ہوں جب تمہیں چاہئے ہو۔‘‘
مسٹر کیوبٹ ملاقات کے بعد چند دن تک شرلاک ہومز بالکل خاموش رہا۔ میں نے دیکھا کہ اس نے کاغذ کے ٹکڑے کوکتاب سے نکال کر کئی بار ناچتے آدمیوں کی تصاویر کو غور سے دیکھا مگر کچھ کہا نہیں۔ تقریبا دو ہفتے بعد جب میں باہر نکلنے لگا تو اس نے مجھے آواز دی:
’’واٹسن! مہربانی کرکے یہیں رکو۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’اس لئے کہ مجھے ابھی ابھی مسٹر کیوبٹ کی طرف سے تار موصول ہوا ہے۔‘‘ اس نے تار مجھے پکڑاتے ہوئے کہا۔
میں نے تار پڑھا، لکھا تھا۔ ’’کچھ ہوا ہے۔ میں صبح آپ کے کمرے میں بتاؤں گا۔ کیوبٹ۔‘‘
ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ تھوڑا وقت ہی گزرا تھا کہ مسٹر کیوبٹ آگیا۔ وہ بہت تھکا ہوا اور فکر مند لگ رہا تھا۔
’’یہ بہت ہی برا ہو رہا ہے مسٹرہومز!‘‘ اس نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔’’یہ پیغامات میری بیوی کو آہستہ آہستہ موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔۔۔ میں کیا کر سکتا ہوں اور انکا مطلب کیا ہے؟‘‘
’’اس نے تمہیں ابھی تک کچھ نہیں بتایا؟‘‘
’’نہیں،ابھی تک توکچھ نہیں۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے ان کے بارے میں بتانا چاہتی ہے مگر وہ ایسا کر نہیں سکتی۔ وہ اس بارے میں بات کرنے سے بہت زیادہ خوف زدہ ہے۔‘‘
’’مگر کیا تمہارے پاس کچھ نیا ہے مجھے بتانے کے لیے؟‘‘
’’ہاں مسٹرہومز! میرے پاس ناچتے آدمیوں کی چند مزید تصویریں ہیں اور میں نے اس آدمی کو بھی دیکھا ہے جو یہ بنا جاتا ہے۔‘‘
’’تم نے اس کو دیکھا ہے!‘‘
’’ہاں، میں نے دیکھا۔۔۔ مگر ٹھہرو میں تمہیں ہر چیز بتاتا ہوں۔۔۔ میرے پچھلی بار یہاں آنے کے بعد جو سب سے پہلی چیز میں نے دیکھی وہ اگلی صبح ناچتے آدمیوں کی مزید وہ تصاویر تھیں جو باغ میں بنے چھوٹے سے چبوترے پر بنی ہوئی تھیں۔‘‘
’’یہ معاملہ بڑی دل چسپی کی طرف جارہا ہے۔مگر مسٹرکیوبٹ ! تم نے اپنے خط میں کوئی تفصیل نہیں لکھی۔ مہربانی کر کے مجھے اور میرے دوست ڈاکٹر واٹسن کو ہر وہ چیز بتاؤ جو تم جانتے ہو۔‘‘
’’بالکل ٹھیک۔۔۔دیکھئے!‘‘ مسٹرکیوبٹ نے شروع کیا۔ ’’کہانی پچھلے سال اس وقت شروع ہوئی جب میں نے شادی کی۔۔۔میں کوئی امیر آدمی نہیں ہوں مسٹرہومز! مگر میرا خاندان صدیوں سے رڈلنگ تھورپی مینر میں آباد ہے اور نورفوک میں اچھی طرح جانا پہچانا جاتاہے۔
پچھلے سال میں لندن گھومنے آیا تو رسل اسکوائر کے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں ٹھہرا۔ یہاں میری ملاقات ایک امریکی خاتون ’ایلیس پیٹرک‘ سے ہوئی۔ چند ہفتوں بعد میں نے اسے شادی کی پیش کش کی، اور جب ہم نورفوک واپس گئے تو میاں بیوی تھے۔ شاید تم سوچ رہے ہوگے کہ میں کتنا بے وقوف ہوں کہ شادی کرنے میں اتنی جلدی کی ،کیوں کہ میں نہ تو اپنی بیوی کے خاندان کے بارے میں کچھ جانتا تھا اور نہ اس کے بارے میں، کہ مجھ سے ملنے سے پہلے وہ کون تھی اور کیا تھی۔ مگر آپ جب اس سے ملیں گے تو آپ ضرور یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ وہ آپ سے مخلص ہے۔
اس نے مجھ سے کہا کہ اس کی خواہش ہے کہ وہ سب کچھ بھول جائے اس لئے وہ اپنے خاندان کے بارے میں زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرے گی اور میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں تو اس کی پچھلی زندگی کے بارے میں کچھ نہ پوچھوں۔ میں اس سے شادی کرنا چاہتا تھا مسٹر ہومز! اس لیے میں نے خوشی سے یہ وعدہ کر لیا کہ میں وہی کروں گا جو وہ چاہے گی۔
چنانچہ ہم نے شادی کر لی اور اب ایک سال ہو گیا ہے۔ ہم بہت خوش بھی ہیں مگر ایک مہینہ پہلے جون کے آخر میں مصیبت کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک دن میری بیوی کو امریکہ سے ایک خط آیا۔
میں نے خود اس خط پر امریکی مہر دیکھی تھی۔ میری بیوی نے جیسے ہی وہ خط پڑھا، اس کا چہرہ سفید ہو گیا اور اس نے وہ آگ میں ڈال دیا۔ اس نے اس خط کے بارے میں کوئی بات نہیں کی مگر اسی وقت سے وہ خوف زدہ اور فکر مند رہنے لگی۔ اس کے باوجود میں نے اس سے کچھ نہیں پوچھا کیوں کہ میرا اس سے وعدہ تھا کہ میں اس سے کچھ نہیں پوچھوں گا، اس لیے میں اس سے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ تقریباً ہفتہ بھر پہلے میں نے کھڑکی پر ناچتے آدمیوں کی عجیب سے تصاویر بنی ہوئی دیکھیں بالکل اسی طرح جیسے میز پر رکھے اس کاغذ پر بنی ہوئی ہے۔ میں یہ سمجھا کہ کسی نے تفریح کے طور پر بنائے ہوں گے مگر جب میں نے اپنی بیوی کو اس بارے میں بتایا تو وہ فکر مند نظر آنے لگی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اگر دوبارہ کہیں ایسی چیز نظر آئے تو اسے بتاؤں۔
کل صبح مجھے دوبارہ باغیچے سے یہ کاغذ کا ٹکڑا ملا۔ میں نے جیسے ہی یہ ایلیس کو دکھایا اس کی طبیعت خراب ہو گئی، اس لئے میں نے تمہیں لکھا مسٹر ہومز!۔ میں پولیس کو نہیں بلانا چاہتا کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ وہ صرف ہنسیں گے۔ لہٰذا مہربانی کر کے میری مدد کرو مسٹر ہومز۔ اگرچہ میں کوئی امیر آدمی تو نہیں ہوں لیکن اپنی بیوی کی خوشی واپس لانے کے لئے وہ سب کچھ کروں گا جو میں کر سکوں گا۔‘‘
مسٹر کیوبٹ ایک مخلص اور سادہ آدمی تھا۔ ہومز نے دیکھا کہ وہ اپنی بیوی سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے۔ چند منٹ کی خاموشی کے بعد ہومز بولا:
’’مسٹر کیوبٹ! تم نے اپنی بیوی سے یہ کیوں نہیں کہا کہ وہ تمہیں بتائے کہ آخر اس میں راز ہے کیا؟‘‘
’’میں یہ نہیں کر سکتا مسٹر ہومز! جیساکہ میں نے پہلے بتایا کہ میں نے اس سے وعدہ کیا تھا اور میں اسی کی پاس داری کر رہا ہوں۔ اگر وہ خود مجھے بتانا چاہے تو ٹھیک ورنہ میں اس کی مدد کے بغیر ہی کچھ کرنا چاہتا ہوں جو بھی ممکن ہو۔‘‘
’’تو پھر میں تمہاری مدد کروں گا مسٹر کیوبٹ! پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے پچھلے چند ہفتوں میں اپنے گھر کے قریب کسی اجنبی کو دیکھا؟‘‘
’’نہیں میرا نہیں خیال‘‘
’’تم ملک کے ایک خاموش حصے میں رہتے ہو اس لیے تم کسی بھی اجنبی کی آمد سے با خبر رہ سکتے ہو۔‘‘
’’ ہاں! مگر وہاں گاؤں کے قریب بہت سے چھوٹے چھوٹے ہوٹل ہیں۔ اور بعض اوقات لوگ دیہاتیوں کے پاس بھی ٹھہرتے ہیں۔‘‘
’’ان عجیب و غریب تصاویر کا کوئی مطلب تو ضرور ہے مگر فی الحال میں تمہارے صرف اس خط سے تمہیں اس کا کوئی مطلب نہیں بتا سکتا۔ میں مزید دیکھنا چاہتا ہوں۔
مسٹر کیوبٹ! میں چاہتا ہوں کہ تم نورفوک واپس جاؤ اور دھیان سے مزید ناچتے آدمیوں کو تلاش کرو۔ اپنے قریب ٹھہرے ہوئے اجنبیوں کے بارے میں بتاؤ اور اگر کچھ نیا یا مختلف نظر آئے تو دوبارہ میرے پاس آؤ تب ہی میں تمہارے بارے میں کچھ بہتر کر سکوں گا۔ میں ہر وقت تمہاری مدد کو تیار ہوں جب تمہیں چاہئے ہو۔‘‘
مسٹر کیوبٹ ملاقات کے بعد چند دن تک شرلاک ہومز بالکل خاموش رہا۔ میں نے دیکھا کہ اس نے کاغذ کے ٹکڑے کوکتاب سے نکال کر کئی بار ناچتے آدمیوں کی تصاویر کو غور سے دیکھا مگر کچھ کہا نہیں۔ تقریبا دو ہفتے بعد جب میں باہر نکلنے لگا تو اس نے مجھے آواز دی:
’’واٹسن! مہربانی کرکے یہیں رکو۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’اس لئے کہ مجھے ابھی ابھی مسٹر کیوبٹ کی طرف سے تار موصول ہوا ہے۔‘‘ اس نے تار مجھے پکڑاتے ہوئے کہا۔
میں نے تار پڑھا، لکھا تھا۔ ’’کچھ ہوا ہے۔ میں صبح آپ کے کمرے میں بتاؤں گا۔ کیوبٹ۔‘‘
ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ تھوڑا وقت ہی گزرا تھا کہ مسٹر کیوبٹ آگیا۔ وہ بہت تھکا ہوا اور فکر مند لگ رہا تھا۔
’’یہ بہت ہی برا ہو رہا ہے مسٹرہومز!‘‘ اس نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔’’یہ پیغامات میری بیوی کو آہستہ آہستہ موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔۔۔ میں کیا کر سکتا ہوں اور انکا مطلب کیا ہے؟‘‘
’’اس نے تمہیں ابھی تک کچھ نہیں بتایا؟‘‘
’’نہیں،ابھی تک توکچھ نہیں۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے ان کے بارے میں بتانا چاہتی ہے مگر وہ ایسا کر نہیں سکتی۔ وہ اس بارے میں بات کرنے سے بہت زیادہ خوف زدہ ہے۔‘‘
’’مگر کیا تمہارے پاس کچھ نیا ہے مجھے بتانے کے لیے؟‘‘
’’ہاں مسٹرہومز! میرے پاس ناچتے آدمیوں کی چند مزید تصویریں ہیں اور میں نے اس آدمی کو بھی دیکھا ہے جو یہ بنا جاتا ہے۔‘‘
’’تم نے اس کو دیکھا ہے!‘‘
’’ہاں، میں نے دیکھا۔۔۔ مگر ٹھہرو میں تمہیں ہر چیز بتاتا ہوں۔۔۔ میرے پچھلی بار یہاں آنے کے بعد جو سب سے پہلی چیز میں نے دیکھی وہ اگلی صبح ناچتے آدمیوں کی مزید وہ تصاویر تھیں جو باغ میں بنے چھوٹے سے چبوترے پر بنی ہوئی تھیں۔‘‘
’’بہت خوب، بہت خوب، مہربانی کرکے بات جاری رکھو۔‘‘ ہومز نے کہا۔
’’درست۔۔۔ میں نے صاف کرنے سے پہلے ان کو نقل کر لیا۔ مسٹرہومز! مگر اگلی صبح مزید نو(9) دروازے کی کنڈی پر بنی ہوئی ملیں۔ دیکھئے !‘‘
’’درست۔۔۔ میں نے صاف کرنے سے پہلے ان کو نقل کر لیا۔ مسٹرہومز! مگر اگلی صبح مزید نو(9) دروازے کی کنڈی پر بنی ہوئی ملیں۔ دیکھئے !‘‘
ہومز خوش نظر آتے ہوئے مسکرایا:’’یہی تو میں چاہتا تھا‘‘ وہ بولا۔
’’تین دن بعد ایک اور موجود تھی اور وہ یہ ہے۔
’’تین دن بعد ایک اور موجود تھی اور وہ یہ ہے۔
یہ کاغذ کے ٹکڑے پر بنی باغیچے سے ملی۔ تم نے دیکھا!۔۔۔ یہ بھی بالکل دوسریوں جیسی ہے۔‘‘
کیوبٹ نے چند لمحے انتظار کیا تاکہ ہومز تصاویر کا معائنہ کرلے۔ پھر اس نے اپنی کہانی دوبارہ شروع کی:
’’اس سب کے بعد میں نے انتظار کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ جب وہ یہ سب کچھ کر رہا ہو اس وقت اسے پکڑنے کی کوشش کی جائے۔ چنانچہ میں اپنے دفتر میں بیٹھ گیا۔ میں بڑے آرام سے دفتر کی کھڑکی سے باغ پر نظر رکھ سکتا تھا۔ رات دو بجے یعنی تقریباً آدھی رات کے وقت جبکہ میں کھڑکی کے پاس بیٹھا ہوا تھا، مجھے اپنے پیچھے آہٹ محسوس ہوئی۔ یہ میری بیوی تھی جو مجھ سے کہنے آئی تھی کہ میں ناچتے آدمیوں کی فکر چھوڑوں اور سو جاؤں۔ اس نے مجھ سے کہا کہ ہم چھٹی والے دن کہیں باہر جائیں گے تاکہ ہر چیز کو بھلا سکیں۔ لیکن جس وقت وہ یہ کہہ رہی تھی۔ میں نے باہر باغ میں کوئی چیز حرکت کرتی دیکھی۔ یہ ایک آدمی تھا جو اندھیرے میں آہستہ آہستہ مکان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ میں نے اپنی بندوق سنبھالی مگر میری بیوی نے مجھے اپنے بازووءں میں زور سے جکڑلیا اور ہلنے سے منع کر دیا۔ اس نے مجھے اتنی زور سے پکڑا کہ میں باہر جانے قابل نہیں رہا۔ بالآخر میں نے اپنے آپ کو چھڑایا مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔
جب تک میں دروازہ کھول کر باغ میں پہنچا تو آدمی جا چکا تھا، مگر مجھے وہاں سے بالکل ویسی ہی ناچتے آدمیوں کی تصویر ملی جیسی پہلے ملی تھی۔ اگرچہ میں باغ میں کسی آدمی کو نہیں پا سکا مگر اگلی ہی صبح ایک اور تصویر ناچتے آدمیوں کی دروازے پر موجود تھی۔ اس بار بالکل ویسے ہی ناچتے آدمی جیسے پہلے مجھے ملے تھے خط کشیدہ میں بنے ہوئے تھے۔ دیکھو اس طرح!‘‘
کیوبٹ نے چند لمحے انتظار کیا تاکہ ہومز تصاویر کا معائنہ کرلے۔ پھر اس نے اپنی کہانی دوبارہ شروع کی:
’’اس سب کے بعد میں نے انتظار کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ جب وہ یہ سب کچھ کر رہا ہو اس وقت اسے پکڑنے کی کوشش کی جائے۔ چنانچہ میں اپنے دفتر میں بیٹھ گیا۔ میں بڑے آرام سے دفتر کی کھڑکی سے باغ پر نظر رکھ سکتا تھا۔ رات دو بجے یعنی تقریباً آدھی رات کے وقت جبکہ میں کھڑکی کے پاس بیٹھا ہوا تھا، مجھے اپنے پیچھے آہٹ محسوس ہوئی۔ یہ میری بیوی تھی جو مجھ سے کہنے آئی تھی کہ میں ناچتے آدمیوں کی فکر چھوڑوں اور سو جاؤں۔ اس نے مجھ سے کہا کہ ہم چھٹی والے دن کہیں باہر جائیں گے تاکہ ہر چیز کو بھلا سکیں۔ لیکن جس وقت وہ یہ کہہ رہی تھی۔ میں نے باہر باغ میں کوئی چیز حرکت کرتی دیکھی۔ یہ ایک آدمی تھا جو اندھیرے میں آہستہ آہستہ مکان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ میں نے اپنی بندوق سنبھالی مگر میری بیوی نے مجھے اپنے بازووءں میں زور سے جکڑلیا اور ہلنے سے منع کر دیا۔ اس نے مجھے اتنی زور سے پکڑا کہ میں باہر جانے قابل نہیں رہا۔ بالآخر میں نے اپنے آپ کو چھڑایا مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔
جب تک میں دروازہ کھول کر باغ میں پہنچا تو آدمی جا چکا تھا، مگر مجھے وہاں سے بالکل ویسی ہی ناچتے آدمیوں کی تصویر ملی جیسی پہلے ملی تھی۔ اگرچہ میں باغ میں کسی آدمی کو نہیں پا سکا مگر اگلی ہی صبح ایک اور تصویر ناچتے آدمیوں کی دروازے پر موجود تھی۔ اس بار بالکل ویسے ہی ناچتے آدمی جیسے پہلے مجھے ملے تھے خط کشیدہ میں بنے ہوئے تھے۔ دیکھو اس طرح!‘‘
ہومز بہت ہی پر جوش ہو گیا تھا۔’’مجھے بتاو مسٹر کیوبٹ کیا ناچتے آدمیوں کی دوسری ٹولی پہلے والی ٹولی کا حصہ تھی؟‘‘
’’یہ دروازے کے دوسرے حصے پر تھی مسٹر ہومز‘‘
’’بہت خوب…یہ بہت اہم ہے…اور کیا تم یہاں لندن میں زیادہ وقت ٹھہروگے؟‘‘
’’نہیں!میں لازمی آج ہی واپس جاؤں گا۔ میں رات کیلئے اکیلا اپنی بیوی کو گھر میں نہیں چھوڑ سکتا۔ وہ بہت خوف زدہ ہے۔‘‘
’’تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو…تو پھر یہ تصاویر چند دن کے لیے میرے پاس چھوڑ جاؤ۔۔۔ اس وقت تک جب تک میں تمہاری طرف چکر لگاؤں۔ مجھے امید ہے کہ تب تک میرے پاس تمہیں سنانے کے لیے اچھی خبر ہوگی۔‘‘
جیسے ہی مسٹر کیوبٹ گیا، ہومز نے ساری تصاویر میز پر رکھیں اور ان کا غور سے معائنہ کرنے لگا۔ دو گھنٹے کام کرنے کے بعد اس نے اپنی کتاب میں اعداد اور الفاظ لکھے۔ پھر اچانک اٹھ کر میری طرف مڑا:
’’واٹسن!میں چاہتا ہوں کہ تم یہ تار بھیج دو۔ اگر اس کا جواب آجاتا ہے تو مجھے امید ہے کہ ہم جلد ہی اس پہیلی کا مطلب جان جائیں گے۔‘‘
مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا سوچنا ہے، مگر میں نے اس وقت تک چپ رہنے کا سوچا جب تک کہ ہومز مجھے یہ نہ بتا دے کہ اس نے کیا سوچا ہے۔
دودن تک خاموشی رہی مگر دوسرے دن شام کو ہلٹن کیوبٹ کی طرف سے ایک خط موصول ہوا۔ اس میں ایک اور تصویر تھی۔ جو اسے صبح ہی باغ سے ملی تھی۔
’’یہ دروازے کے دوسرے حصے پر تھی مسٹر ہومز‘‘
’’بہت خوب…یہ بہت اہم ہے…اور کیا تم یہاں لندن میں زیادہ وقت ٹھہروگے؟‘‘
’’نہیں!میں لازمی آج ہی واپس جاؤں گا۔ میں رات کیلئے اکیلا اپنی بیوی کو گھر میں نہیں چھوڑ سکتا۔ وہ بہت خوف زدہ ہے۔‘‘
’’تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو…تو پھر یہ تصاویر چند دن کے لیے میرے پاس چھوڑ جاؤ۔۔۔ اس وقت تک جب تک میں تمہاری طرف چکر لگاؤں۔ مجھے امید ہے کہ تب تک میرے پاس تمہیں سنانے کے لیے اچھی خبر ہوگی۔‘‘
جیسے ہی مسٹر کیوبٹ گیا، ہومز نے ساری تصاویر میز پر رکھیں اور ان کا غور سے معائنہ کرنے لگا۔ دو گھنٹے کام کرنے کے بعد اس نے اپنی کتاب میں اعداد اور الفاظ لکھے۔ پھر اچانک اٹھ کر میری طرف مڑا:
’’واٹسن!میں چاہتا ہوں کہ تم یہ تار بھیج دو۔ اگر اس کا جواب آجاتا ہے تو مجھے امید ہے کہ ہم جلد ہی اس پہیلی کا مطلب جان جائیں گے۔‘‘
مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا سوچنا ہے، مگر میں نے اس وقت تک چپ رہنے کا سوچا جب تک کہ ہومز مجھے یہ نہ بتا دے کہ اس نے کیا سوچا ہے۔
دودن تک خاموشی رہی مگر دوسرے دن شام کو ہلٹن کیوبٹ کی طرف سے ایک خط موصول ہوا۔ اس میں ایک اور تصویر تھی۔ جو اسے صبح ہی باغ سے ملی تھی۔
ہومز نے تھوڑی دیر اس کا غور سے معائنہ کیا، اس کے بعد اچانک اس کا چہرہ سفید پڑ گیا۔
’’یہ تو حد ہونے جارہی ہے۔ آج رات جنوبی والشم کی کوئی ریل ہے؟‘‘
میں نے اخبار میں دیکھا، آخری ریل اسی وقت نکل چکی تھی۔
’’پھر ہم صبح کی پہلی ہی ریل پکڑیں گے۔‘‘ ہومز نے کہا۔
اسی وقت تار کا جواب آگیا۔ ہومز تار کو پڑھنے کے بعد بولا :
’’ہاں! بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ میں نے سوچا تھا۔ یہ بہت ضروری ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے ہم جنوبی والشم پہنچیں۔‘‘
اگلی صبح ہم نے جنوبی والشم کی پہلی ہی ریل پکڑ لی۔ ہم جب جنوبی والشم پہنچے تو ہم نے اسٹیشن ماسٹر سے کہا کہ اگر وہ مسٹر کیوبٹ کے گھر پہنچنے میں ہماری مدد کر سکے۔ وہ ہماری طرف مڑا تو اس کے چہرے پر فکرمندی کے آثار تھے۔
’’آپ لوگ سراغ رساں ہیں؟۔۔۔لندن سے؟‘‘
’’آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘ہومز نے پوچھا۔
’’اس لیے کہ تھوڑی دیر پہلے ایک پولیس کا سپاہی یہاں موجود تھا۔ اس نے بتایا کہ مینر میں ایک قتل ہو گیا ہے اور لندن سے کچھ سراغ رساں یہ دیکھنے آرہے ہیں کہ ہوا کیا ہے۔ آپ دونوں معززین میں سے کوئی ڈاکٹر ہے؟ اس نے کہا تھا کہ ایک ڈاکٹر بھی آرہاہے۔ مگر آپ لوگ جلدی کیجئے، وہ ابھی تک مری نہیں ہے۔‘‘
ہومز اسٹیشن ماسٹر کی جانب مڑا:
’’تمہارا مطلب ہے رڈلنگ تھورپی مینر؟ یعنی مسٹرکیوبٹ اور ان کی اہلیہ کے گھر؟….ہوا کیا ہے؟‘‘
’’اوہ جناب ! ہوا تو بہت برا ہے۔ میں تو خوف زدہ ہوں…مسٹر کیوبٹ اور ان کی اہلیہ پر وار کیا گیا ہے۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ مسٹر کیوبٹ کی اہلیہ نے پہلے ان پر وار کیا اور پھر خود کشی کی کوشش کی ہے۔ مسٹر کیوبٹ مرچکے ہیں مگر ان کی اہلیہ ابھی زندہ ہیں۔‘‘
ہم گاڑی میں بیٹھ کر کیوبٹ کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں ہومز ایک لفظ نہیں بولا، وہ چپ چاپ پچھلی سیٹ پر بیٹھا رہا اور ایک بار بھی کھڑکی سے باہر نہیں جھانکا۔ تھوڑی دیر میں ہم لال اینٹوں سے بنے ایک بڑے اور پرانے مکان کے سامنے جا رُکے۔
’’یہ ہے رولنگ تھورپی مینر۔‘‘ ڈرائیور نے کہا۔
ہم جیسے ہی گھر کی طرف بڑھے، ایک آدمی مرکزی دروازے سے نکل کر ہم سے مخاطب ہوا:
’’میں نورفوک پولیس سے ہوں۔۔۔انسپکٹر مارٹن اور آپ کون؟‘‘
اسے ہمارے بارے میں جان کر بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے ہم سے ہمارے وہاں ہونے کی وجہ پوچھی۔
’’ہم ناچتے آدمیوں کا مطلب جاننے کے لیے یہاں ہیں۔‘‘ ہومز نے جواب دیا۔’’میں تمہیں اس کے بارے میں سب کچھ بتاؤں گا انسپکٹر مارٹن۔ ہمیں بے چارے کیوبٹ کو بچانے کے لیے آنے میں بہت دیر ہو گئی مگر ہم جلد سے جلد ان کے قاتل تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
جیسے ہی ہم گھر میں داخل ہوئے، ایک ڈاکٹر سیڑھیوں سے اترا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ مسز کیوبٹ ابھی زندہ ہیں۔ ایک گولی ان کے سر کے سامنے والے حصے میں لگی تھی۔ وہ ابھی مری تو نہیں مگر بے ہوش ہے۔ البتہ ڈاکٹر نے یہ نہیں بتایاکہ مسز کیوبٹ نے خود اپنے سر پر گولی ماری یا کسی اور نے وار کیا۔ صرف ایک پستول کمرے میں پائی گئی تھی اور اسی میں سے دوبار گولی چلائی گئی تھی۔ مسٹر کیوبٹ کے سینے کو ہدف بنایا گیا تھا جبکہ مسزکیوبٹ نے خود کو گولی ماری تھی۔ جب کیوبٹ اور اہلیہ ملے تو پستول ان دونوں کے درمیان فرش پر پڑا ملا۔
’’کیا کیوبٹ کو منتقل کیا گیا؟‘‘ ہومز نے پوچھا۔
’’نہیں، ہم نے صرف مسز کیوبٹ کو منتقل کیا ہے۔‘‘
“تم کتنی دیر سے یہاں ہو ڈاکٹر؟‘‘
’’چار بجے سے‘‘
’’تم نے کسی چیز کو چھوا ہے؟‘‘
’’بالکل نہیں۔”‘‘
’’تمہیں یہاں کس نے بلایا تھا؟‘‘
’’ملازمہ لڑکی ساؤنڈرز نے۔‘‘
’’مسٹرکیوبٹ اور اہلیہ اسی کو ملے تھے؟‘‘
’’ہاں۔۔۔اس کو اور باورچن مسز کنگ کو۔‘‘
’’وہ دونوں اس وقت کہاں ہیں؟‘‘
’’باورچی خانے میں‘‘
’’ان کی کہانی سنتے ہیں۔‘‘
ہم ایک بڑے کمرے کی طرف بڑھ گئے جو پرانا ہال کہلاتا تھا۔ ہومز ایک بڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ انسپکٹر مارٹن، میں اور ڈاکٹر بھی ساتھ ہی تھے۔ ہم نے دونوں خواتین سے ان کی کہانی سنی۔
وہ سو رہی تھیں جب گولی کی آواز سے ان کی آنکھ کھلی۔ پھر دوسری گولی کے بعد دونوں سیڑھیوں سے اتریں۔ مسٹرکیوبٹ کے دفتر کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور میز پر موم بتی جل رہی تھی۔ مسٹرکیوبٹ اوندھے منہ کمرے کے فرش پر پڑے ہوئے تھے اور مرچکے تھے۔ ان کی اہلیہ کھڑکی کے پاس دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھیں۔ سرپر گولی لگنے سے ان کے چہرے کی ایک طرف خون آلود تھی۔ وہ زندہ تو تھیں مگر بول نہیں سکتی تھیں۔ کمرے اور ہال میں گولی چلنے کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ کھڑکی بند تھی اور اندر سے کنڈی لگی ہوئی تھی۔ خواتین نے ڈاکٹر اور پولیس کو بلا لیا۔ انہوں نے مسز کیوبٹ کو ان کے کمرے میں آکر تحویل میں لے لیا۔ انہوں نے کسی چیز کو نہیں ہلایا۔ انہوں نے مسٹرکیوبٹ اور اہلیہ کے درمیان کسی لڑائی یا بحث کی آواز نہیں سنی۔ انہیں یقین تھا کہ دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے۔ انسپکٹر مارٹن نے ان سے کچھ سوالات کیے۔ گھر کے سارے دروازے اندر سے بند تھے اور کوئی شخص گھر سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ خواتین نے ان کے سوالوں میں سے ایک کا جواب دیا۔
مسٹر ہومز نے ان سے گولی کی بو کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ اوپر والی منزل کی آرام گاہ سے باہر نکلیں تو انہوں نے گولی کی واضح بو محسوس کی۔
’’درست‘‘ ہومز نے کہا’’اب ہم کمرے کا قریب سے معائنہ کرنا چاہتے ہیں جہاں مسٹرکیوبٹ اور اہلیہ کا قتل ہوا۔‘‘
دفتر ایک چھوٹے سے کمرے میں تھا جس کی دیواروں پر کتابیں لگی ہوئی تھیں۔ لکھنے کیلئے ایک چھوٹی میز کھڑکی کے سامنے رکھی ہوئی تھی۔ کھڑکی سے باغ کا منظر آسانی سے دیکھا جا سکتا تھا۔ ہم نے سب سے پہلے بے چارے کیوبٹ کو دیکھا۔ اس نے شب خوابی کا لباس پہنا ہوا تھا اور یقیناًنیند سے بیدار ہوا تھا۔ اس پر وار سامنے سے کیا گیا تھا۔ گولی دل کو چیرتی ہوئی جسم میں ہی رک گئی تھی جس سے وہ تڑپے بغیر فوراً مر گیا تھا۔ اس کے علاوہ اس کے جسم یا لباس پر جلنے کا کوئی نشان نہیں تھا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ مسز کیوبٹ کا چہرہ خون آلود تھا مگر اس کے ہاتھوں پر خون کا کوئی دھبہ نہیں تھا۔
’’اب تم مسٹر کیوبٹ کی لاش کو لے جا سکتے ہو۔‘‘ ہومز نے کہا۔’’ اور کیا تم کیوبٹ کے جسم سے گولی نکال چکے ہو؟‘‘
’’نہیں ابھی تک تو نہیں مگر ابھی پستول میں چار گولیاں موجود ہیں۔ دو چلائی گئیں اور مسٹر کیوبٹ اور اہلیہ کو نشانہ بنایا گیا۔‘‘
’’درست، تو پھر کیا تم مجھے بتا سکتے ہوکہ تیسری گولی کہاں سے آئی؟ جو کھڑکی کی جوکھٹ میں آکر لگی۔‘‘
’’تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو، ہومز! میں نے نہیں دیکھا، تمہیں یہ کیسے ملا؟‘‘
’’مجھے اس لیے مل گیا کہ میرا دھیان اسی کی طرف تھا انسپکٹر۔‘‘ہومز نے جواب دیا۔
’’اسکا مطلب ہے کہ تیسری گولی بھی چلی ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔’’اس کا مطلب ہے یہاں ایک تیسرا آدمی ضرور تھا مگر وہ کون تھا اور وہ باہر کیسے نکل گیا؟‘‘
’’اسی کا تو میں کھوج لگانے جا رہا ہوں۔‘‘ شرلاک ہومز نے کہا۔
ہومز کرسی پر بیٹھ گیا اور انسپکٹر سے مخاطب ہوا:
’’تمہیں یاد ہے انسپکٹر مارٹن کہ جب ملازمائیں اپنے کمروں سے نکلیں تو انہیں بندوق کی بو آئی، یہ بہت اہم بات ہے۔‘‘
’’کیسے جناب! میں سمجھا نہیں‘‘انسپکٹر بولا۔
“اس کامطلب ہے کہ جب بندوق چلائی گئی اس وقت کمرے کی کھڑکی اور دروازہ کھلے ہوئے تھے۔ ہوا نے بندوق کی بو کو اوپر کی طرف پھیلایا مگر کھڑکی صرف تھوڑی دیر کیلئے کھلی رہی۔‘‘
’’ یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟‘‘
’’اس لئے کہ ملازمہ اور باورچن جب نیچے اتر کر آئیں تو شمع ابھی تک جل رہی تھی۔ اسکا مطلب ہے کہ کھڑکی زیادہ دیر کے لیے نہیں کھلی ورنہ ہوا شمع کو ضرور بجھا دیتی۔‘‘
’’اوہ یقینا، مگر میں نے یہ سب کیوں نہیں سوچا!‘‘
’’ تم نے دیکھا۔‘‘شرلاک ہومز نے کہنا شروع کیا۔’’مجھے یقین تھا کہ پہلی گولی کسی نے کھڑکی کے قریب کھڑے ہو کر کمرے کی طرف چلائی۔ دوسری گولی کمرے کے اندر سے باہر والے شخص کی طرف چلائی گئی۔ جو کھڑکی کی چوکھٹ کے نچلے حصے سے گزر گئی۔میں دیکھ چکا تھا کہ وہاں گولی ایک سوراخ بنا چکی ہے۔‘‘
’’مگر کھڑکی کی اندر سے کنڈی کیسے لگی ہوئی تھی؟‘‘
’’گولی چلنے کے بعد مسز کیوبٹ نے سوچا کہ کھڑکی بند کرکے اندر سے کنڈی لگا دے۔ مگر یہ کیا چیز ہے؟‘‘
یہ ایک زنانہ پرس تھا جو ایک چھوٹی سی میز پر رکھا ہوا تھا۔ ہومز نے اسے کھولا تو اس میں پچیس پاونڈ کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
’’ اسے رکھو‘‘اس نے پرس انسپکٹر کو دیتے ہوئے کہا ۔’’ہمیں ضرور تیسری گولی کے بارے میں سوچنا ہے۔ کھڑکی کے نچلے حصے والی لکڑی کی طرف دیکھو کس بری سے ٹوٹی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ گولی اندر سے چلائی گئی ہے۔ کیا میں باورچن سے دوبارہ بات کر سکتا ہوں؟‘‘
ڈاکٹر تیزی سے باہر نکلا اور جلد ہی مسز کنگ کے ساتھ واپس آگیا۔ ہومز نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک اور بہت اہم بات پوچھنا چاہتا ہے۔
’’تم بتاؤ مسز کنگ کہ جب تمہاری گولی کی آواز سے آنکھ کھلی تو تم نے دوسری گولی کی آواز سنی مگر یہ بتاؤ کہ جب پہلی بار آواز آئی تھی تو ایک گولی چلی تھی یا دو؟‘‘
’’میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتی مسٹر ہومز، آپ کو پتا ہے کہ میں سوئی ہوئی تھی۔‘‘
’’جیسا کہ آپ نے پہلی بار گولی کی آواز سنی۔ اس وقت تقریباً ایک ہی وقت میں دو گولیاں چلیں۔ سمجھے انسپکٹر، میرا خیال ہے کہ یہ کمرہ ہمیں سب کچھ بتا رہا ہے۔ مگر اب ہم باغ میں چل کر دیکھیں گے کہ وہاں سے ہم کیا ڈھونڈ پاتے ہیں۔‘‘
کھڑکی کی بیرونی طرف باغ میں پھولوں کی کیاریاں تھیں۔ ہم نے دیکھا کہ وہاں کوئی شخص کھڑا رہا تھا کیونکہ بہت سے پھول کچلے ہوئے ملے۔ ہمیں وہاں کسی کے چلنے کے نشانات بھی ملے۔ ہومز نے بڑے دھیان سے پھولوں کو دیکھا۔ پھر اس نے چھوٹا سا گول دھات کا ٹکڑا اٹھایا۔ جیسے گولیوں کی کچھ قسمیں چلنے کے بعد اپنے پیچھے دھات کے کچھ ٹکڑے چھوڑ جاتی ہیں۔
’’جیسا میں نے سوچا تھا۔‘‘ ہومز نے کہا۔’’اور یہی تو میں دیکھنے آیا تھا۔ میں نے حقیقتاًیہی سوچا انسپکٹر کہ ہمارا کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔‘‘
انسپکٹر کو ہومز کے کام کرنے کی رفتار کا یقین نہیں آرہا تھا۔
’’آپ یہ کیسے سوچ رہے ہیں؟‘‘ اس نے کہا۔
’’یہ میں تمہیں بعد میں بتاؤں گا۔ پہلے میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا یہاں قریب میں’ الرائجز‘ نام کا کوئی ہوٹل ہے؟‘‘
ملازمین میں سے کوئی بھی اس نام کے ہوٹل کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ البتہ باغ میں کام کرنے والا لڑکا الرائجز نام کے ایک باغبان کو جانتا تھا۔ اس نے بتایا کہ باغبان رڈلنگ تھورپی مینر سے کچھ دور اکیلا رہتا ہے۔
’’کیا وہ اکیلا باغ ہے؟‘‘
’’بالکل الگ تھلگ جناب، الرائجز کے باغ کے آس پاس دور تک کوئی دوسرا باغ نہیں ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ یہاں جو کچھ بھی ہوا، اس کی خبر ابھی تک وہاں نہیں پہنچی ہوگی؟‘‘
’’نہیں، میں نہیں سمجھتا جناب ! کہ وہ کوئی بھی چیز سن سکے ہوں گے۔‘‘
ہومز تھوڑی دیر کچھ سوچتا رہا پھر ایک عجیب سا تاثر اس کے چہرے پر ابھرا۔
’’لڑکے !ا پنا گھوڑا نکالو اور الرائجز کے باغ میں ایک رقعہ چھوڑ آؤ۔‘‘
ہو مز نے وہ سارے کاغذ کے ٹکڑے جیب سے نکال کر اپنے سامنے میز پر رکھ لئے جن پر ناچتے آدمیوں کی تصویریں تھیں۔ پھر اس نے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر کچھ لکھ کر لڑکے کو دیتے ہوئے کہاکہ یہ رقعہ اس آدمی کے حوالے کرنا جس کا نام اس پر لکھا ہوا ہے۔ اس نے لڑکے کو تاکید کی کہ وہ اس آدمی کے کسی بھی سوال کا جواب نہ دے۔ میں نے دیکھا کہ ہومز نے رقعے کے اوپر ’مسٹر ایبے سلانی، الرائجز فارم‘ لکھاتھا۔ مگر لکھائی اس سے بالکل مختلف تھی جیسی لکھائی میں ہومز عام طور پر لکھا کرتا تھا۔
’’انسپکٹر ! میرا خیال ہے کہ اب تم کچھ مزید پولیس کے سپاہیوں کو یہاں بلالو۔ کیونکہ اگر میں غلط نہیں ہوں تو بہت جلد تمہیں ایک انتہائی خطرناک مجرم کو جیل لے جانا پڑے گا۔
پھر ہومز ملازمین سے مخاطب ہوا۔ اس نے ملازمین سے کہا۔کہ اگر کوئی بھی شخص آئے اور مسٹر ہلٹن کیوبٹ کا پوچھے تو اسے کوئی بات نہ بتائیں۔ بلکہ اس آدمی کو میرے پاس لے آئیں۔ اس کے بعد ہومز، میں اور انسپکٹر ایک اور کمرے میں انتظار کرنے لگے۔ ڈاکٹر پہلے ہی جا چکا تھا اس لئے اب ہم تین ہی تھے۔
’’اب میں وضاحت کرتا ہوں کہ ناچتے آدمیوں والی پہیلی کا مطلب کیا ہے۔‘‘ ہومز نے کہا۔
’’جیساکہ تمہیں معلوم ہے واٹسن! کہ میں پچھلے کئی سالوں سے خفیہ لکھائی پڑھتا آرہا ہوں مگر یہ میرے لئے بالکل نئی تھی۔ جس آدمی نے بھی یہ تصویریں بنائی ہیں وہ یہ چاہتا تھا کہ لوگ اسے صرف بچوں کی بنائی ہوئی تصویریں سمجھیں، مگر میں جانتا تھا کہ ان میں ضرور کوئی پیغام ہے۔ مگر ان کا مطلب کیا تھا؟ اگر چہ پیغام بہت مختصر تھا مگر مجھے یقین تھا کہ اس شکل کا مطلب E ہے۔تم نے دیکھا ہوگا کہ حرف E انگریزی میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا حرف ہے۔ یہاں تک کہ ایک چھوٹے سے جملے میں بھی کئی بار استعمال ہو جاتا ہے۔ پہلے پیغام میں یہ چار بار استعمال ہوئی ہے ۔اس سے مجھے یقین ہو گیا کہ یہ E ہی ہے۔ کچھ شکلوں نے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ یہ شکلیں پیغام کو الفاظ میں تقسیم کرنے کے لیے استعمال کی گئی ہیں۔ اس کے بعد بہت مشکل مرحلہ پیش آیا کہ دوسرے حروف کیا ہیں؟جب دوسری بار مسٹر کیوبٹ میرے پاس آئے تو دو مزید جملے اپنے ساتھ لائے جن میں بہت مختصر پیغام تھا۔ میرا خیال تھا کہ یہ پیغام ایک ہی لفظ ہے کیونکہ اس میں کوئی جھنڈا نہیں تھا۔ پانچ حروف کے اس پیغام میں مجھے دوسرا اور چوتھا حرف E ملا۔_ _E _E اس طرح۔ میں نے سوچا کہ شاید یہ sever یا lever یا never ہے۔ پھر میں نے سوچا کہ اگر یہ never ہے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ یہ مسز کیوبٹ کی طرف سے اجنبی کے کسی جملے کا جواب ہے، اگر میں غلط نہیں۔ اور اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ باقی ضرور N ،V اور R ہیں۔ اب میں اس قابل ہوا کہ کچھ اور حروف کے معنی دریافت کر سکوں۔ اگر لکھنے والا پہلے سے مسز ایلیس کیوبٹ کو جانتا ہے تو ضرور اس نے پیغام میں کہیں اپنا نام استعمال کیا ہوگا۔ مجھے اس لفظ کو دریافت کرنے میں بڑی محنت کرنی پڑی جس کے شروع اور آخر کا حرف E ہے۔E_ _ _E. پیغام کے آخر میں مجھے وہ مل ہی گیا۔پھر میں نے L ،S اور I بھی نکال ہی لیے۔ اس سے پہلے کوئی بات تھی جو تین بار دہرائی گئی تھی۔ آخر وہ کیا کام تھا جو کوئی شخص ایلیس کو کرنے کا کہہ رہا تھا۔ یہاں صرف چار حرف تھے جو ایلیس کے نام سے پہلے تھے اور E پر ختم ہورہے تھے۔ میں نے سوچا کہ یہ COME لکھا ہوا ہے۔ اور اس طرح مجھے تین حروف اور مل گئے یعنی C ،O اور M۔ پھر دوبارہ میں پہلے پیغام پر گیا۔ میں نے اس کو الفاظ میں توڑا اور اس میں وہ سارے حروف رکھے جو مجھے مل چکے تھے۔ تو وہ یوں نظر آنے لگا۔
’’یہ تو حد ہونے جارہی ہے۔ آج رات جنوبی والشم کی کوئی ریل ہے؟‘‘
میں نے اخبار میں دیکھا، آخری ریل اسی وقت نکل چکی تھی۔
’’پھر ہم صبح کی پہلی ہی ریل پکڑیں گے۔‘‘ ہومز نے کہا۔
اسی وقت تار کا جواب آگیا۔ ہومز تار کو پڑھنے کے بعد بولا :
’’ہاں! بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ میں نے سوچا تھا۔ یہ بہت ضروری ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے ہم جنوبی والشم پہنچیں۔‘‘
اگلی صبح ہم نے جنوبی والشم کی پہلی ہی ریل پکڑ لی۔ ہم جب جنوبی والشم پہنچے تو ہم نے اسٹیشن ماسٹر سے کہا کہ اگر وہ مسٹر کیوبٹ کے گھر پہنچنے میں ہماری مدد کر سکے۔ وہ ہماری طرف مڑا تو اس کے چہرے پر فکرمندی کے آثار تھے۔
’’آپ لوگ سراغ رساں ہیں؟۔۔۔لندن سے؟‘‘
’’آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘ہومز نے پوچھا۔
’’اس لیے کہ تھوڑی دیر پہلے ایک پولیس کا سپاہی یہاں موجود تھا۔ اس نے بتایا کہ مینر میں ایک قتل ہو گیا ہے اور لندن سے کچھ سراغ رساں یہ دیکھنے آرہے ہیں کہ ہوا کیا ہے۔ آپ دونوں معززین میں سے کوئی ڈاکٹر ہے؟ اس نے کہا تھا کہ ایک ڈاکٹر بھی آرہاہے۔ مگر آپ لوگ جلدی کیجئے، وہ ابھی تک مری نہیں ہے۔‘‘
ہومز اسٹیشن ماسٹر کی جانب مڑا:
’’تمہارا مطلب ہے رڈلنگ تھورپی مینر؟ یعنی مسٹرکیوبٹ اور ان کی اہلیہ کے گھر؟….ہوا کیا ہے؟‘‘
’’اوہ جناب ! ہوا تو بہت برا ہے۔ میں تو خوف زدہ ہوں…مسٹر کیوبٹ اور ان کی اہلیہ پر وار کیا گیا ہے۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ مسٹر کیوبٹ کی اہلیہ نے پہلے ان پر وار کیا اور پھر خود کشی کی کوشش کی ہے۔ مسٹر کیوبٹ مرچکے ہیں مگر ان کی اہلیہ ابھی زندہ ہیں۔‘‘
ہم گاڑی میں بیٹھ کر کیوبٹ کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں ہومز ایک لفظ نہیں بولا، وہ چپ چاپ پچھلی سیٹ پر بیٹھا رہا اور ایک بار بھی کھڑکی سے باہر نہیں جھانکا۔ تھوڑی دیر میں ہم لال اینٹوں سے بنے ایک بڑے اور پرانے مکان کے سامنے جا رُکے۔
’’یہ ہے رولنگ تھورپی مینر۔‘‘ ڈرائیور نے کہا۔
ہم جیسے ہی گھر کی طرف بڑھے، ایک آدمی مرکزی دروازے سے نکل کر ہم سے مخاطب ہوا:
’’میں نورفوک پولیس سے ہوں۔۔۔انسپکٹر مارٹن اور آپ کون؟‘‘
اسے ہمارے بارے میں جان کر بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے ہم سے ہمارے وہاں ہونے کی وجہ پوچھی۔
’’ہم ناچتے آدمیوں کا مطلب جاننے کے لیے یہاں ہیں۔‘‘ ہومز نے جواب دیا۔’’میں تمہیں اس کے بارے میں سب کچھ بتاؤں گا انسپکٹر مارٹن۔ ہمیں بے چارے کیوبٹ کو بچانے کے لیے آنے میں بہت دیر ہو گئی مگر ہم جلد سے جلد ان کے قاتل تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
جیسے ہی ہم گھر میں داخل ہوئے، ایک ڈاکٹر سیڑھیوں سے اترا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ مسز کیوبٹ ابھی زندہ ہیں۔ ایک گولی ان کے سر کے سامنے والے حصے میں لگی تھی۔ وہ ابھی مری تو نہیں مگر بے ہوش ہے۔ البتہ ڈاکٹر نے یہ نہیں بتایاکہ مسز کیوبٹ نے خود اپنے سر پر گولی ماری یا کسی اور نے وار کیا۔ صرف ایک پستول کمرے میں پائی گئی تھی اور اسی میں سے دوبار گولی چلائی گئی تھی۔ مسٹر کیوبٹ کے سینے کو ہدف بنایا گیا تھا جبکہ مسزکیوبٹ نے خود کو گولی ماری تھی۔ جب کیوبٹ اور اہلیہ ملے تو پستول ان دونوں کے درمیان فرش پر پڑا ملا۔
’’کیا کیوبٹ کو منتقل کیا گیا؟‘‘ ہومز نے پوچھا۔
’’نہیں، ہم نے صرف مسز کیوبٹ کو منتقل کیا ہے۔‘‘
“تم کتنی دیر سے یہاں ہو ڈاکٹر؟‘‘
’’چار بجے سے‘‘
’’تم نے کسی چیز کو چھوا ہے؟‘‘
’’بالکل نہیں۔”‘‘
’’تمہیں یہاں کس نے بلایا تھا؟‘‘
’’ملازمہ لڑکی ساؤنڈرز نے۔‘‘
’’مسٹرکیوبٹ اور اہلیہ اسی کو ملے تھے؟‘‘
’’ہاں۔۔۔اس کو اور باورچن مسز کنگ کو۔‘‘
’’وہ دونوں اس وقت کہاں ہیں؟‘‘
’’باورچی خانے میں‘‘
’’ان کی کہانی سنتے ہیں۔‘‘
ہم ایک بڑے کمرے کی طرف بڑھ گئے جو پرانا ہال کہلاتا تھا۔ ہومز ایک بڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ انسپکٹر مارٹن، میں اور ڈاکٹر بھی ساتھ ہی تھے۔ ہم نے دونوں خواتین سے ان کی کہانی سنی۔
وہ سو رہی تھیں جب گولی کی آواز سے ان کی آنکھ کھلی۔ پھر دوسری گولی کے بعد دونوں سیڑھیوں سے اتریں۔ مسٹرکیوبٹ کے دفتر کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور میز پر موم بتی جل رہی تھی۔ مسٹرکیوبٹ اوندھے منہ کمرے کے فرش پر پڑے ہوئے تھے اور مرچکے تھے۔ ان کی اہلیہ کھڑکی کے پاس دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھیں۔ سرپر گولی لگنے سے ان کے چہرے کی ایک طرف خون آلود تھی۔ وہ زندہ تو تھیں مگر بول نہیں سکتی تھیں۔ کمرے اور ہال میں گولی چلنے کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ کھڑکی بند تھی اور اندر سے کنڈی لگی ہوئی تھی۔ خواتین نے ڈاکٹر اور پولیس کو بلا لیا۔ انہوں نے مسز کیوبٹ کو ان کے کمرے میں آکر تحویل میں لے لیا۔ انہوں نے کسی چیز کو نہیں ہلایا۔ انہوں نے مسٹرکیوبٹ اور اہلیہ کے درمیان کسی لڑائی یا بحث کی آواز نہیں سنی۔ انہیں یقین تھا کہ دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے۔ انسپکٹر مارٹن نے ان سے کچھ سوالات کیے۔ گھر کے سارے دروازے اندر سے بند تھے اور کوئی شخص گھر سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ خواتین نے ان کے سوالوں میں سے ایک کا جواب دیا۔
مسٹر ہومز نے ان سے گولی کی بو کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ اوپر والی منزل کی آرام گاہ سے باہر نکلیں تو انہوں نے گولی کی واضح بو محسوس کی۔
’’درست‘‘ ہومز نے کہا’’اب ہم کمرے کا قریب سے معائنہ کرنا چاہتے ہیں جہاں مسٹرکیوبٹ اور اہلیہ کا قتل ہوا۔‘‘
دفتر ایک چھوٹے سے کمرے میں تھا جس کی دیواروں پر کتابیں لگی ہوئی تھیں۔ لکھنے کیلئے ایک چھوٹی میز کھڑکی کے سامنے رکھی ہوئی تھی۔ کھڑکی سے باغ کا منظر آسانی سے دیکھا جا سکتا تھا۔ ہم نے سب سے پہلے بے چارے کیوبٹ کو دیکھا۔ اس نے شب خوابی کا لباس پہنا ہوا تھا اور یقیناًنیند سے بیدار ہوا تھا۔ اس پر وار سامنے سے کیا گیا تھا۔ گولی دل کو چیرتی ہوئی جسم میں ہی رک گئی تھی جس سے وہ تڑپے بغیر فوراً مر گیا تھا۔ اس کے علاوہ اس کے جسم یا لباس پر جلنے کا کوئی نشان نہیں تھا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ مسز کیوبٹ کا چہرہ خون آلود تھا مگر اس کے ہاتھوں پر خون کا کوئی دھبہ نہیں تھا۔
’’اب تم مسٹر کیوبٹ کی لاش کو لے جا سکتے ہو۔‘‘ ہومز نے کہا۔’’ اور کیا تم کیوبٹ کے جسم سے گولی نکال چکے ہو؟‘‘
’’نہیں ابھی تک تو نہیں مگر ابھی پستول میں چار گولیاں موجود ہیں۔ دو چلائی گئیں اور مسٹر کیوبٹ اور اہلیہ کو نشانہ بنایا گیا۔‘‘
’’درست، تو پھر کیا تم مجھے بتا سکتے ہوکہ تیسری گولی کہاں سے آئی؟ جو کھڑکی کی جوکھٹ میں آکر لگی۔‘‘
’’تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو، ہومز! میں نے نہیں دیکھا، تمہیں یہ کیسے ملا؟‘‘
’’مجھے اس لیے مل گیا کہ میرا دھیان اسی کی طرف تھا انسپکٹر۔‘‘ہومز نے جواب دیا۔
’’اسکا مطلب ہے کہ تیسری گولی بھی چلی ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔’’اس کا مطلب ہے یہاں ایک تیسرا آدمی ضرور تھا مگر وہ کون تھا اور وہ باہر کیسے نکل گیا؟‘‘
’’اسی کا تو میں کھوج لگانے جا رہا ہوں۔‘‘ شرلاک ہومز نے کہا۔
ہومز کرسی پر بیٹھ گیا اور انسپکٹر سے مخاطب ہوا:
’’تمہیں یاد ہے انسپکٹر مارٹن کہ جب ملازمائیں اپنے کمروں سے نکلیں تو انہیں بندوق کی بو آئی، یہ بہت اہم بات ہے۔‘‘
’’کیسے جناب! میں سمجھا نہیں‘‘انسپکٹر بولا۔
“اس کامطلب ہے کہ جب بندوق چلائی گئی اس وقت کمرے کی کھڑکی اور دروازہ کھلے ہوئے تھے۔ ہوا نے بندوق کی بو کو اوپر کی طرف پھیلایا مگر کھڑکی صرف تھوڑی دیر کیلئے کھلی رہی۔‘‘
’’ یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟‘‘
’’اس لئے کہ ملازمہ اور باورچن جب نیچے اتر کر آئیں تو شمع ابھی تک جل رہی تھی۔ اسکا مطلب ہے کہ کھڑکی زیادہ دیر کے لیے نہیں کھلی ورنہ ہوا شمع کو ضرور بجھا دیتی۔‘‘
’’اوہ یقینا، مگر میں نے یہ سب کیوں نہیں سوچا!‘‘
’’ تم نے دیکھا۔‘‘شرلاک ہومز نے کہنا شروع کیا۔’’مجھے یقین تھا کہ پہلی گولی کسی نے کھڑکی کے قریب کھڑے ہو کر کمرے کی طرف چلائی۔ دوسری گولی کمرے کے اندر سے باہر والے شخص کی طرف چلائی گئی۔ جو کھڑکی کی چوکھٹ کے نچلے حصے سے گزر گئی۔میں دیکھ چکا تھا کہ وہاں گولی ایک سوراخ بنا چکی ہے۔‘‘
’’مگر کھڑکی کی اندر سے کنڈی کیسے لگی ہوئی تھی؟‘‘
’’گولی چلنے کے بعد مسز کیوبٹ نے سوچا کہ کھڑکی بند کرکے اندر سے کنڈی لگا دے۔ مگر یہ کیا چیز ہے؟‘‘
یہ ایک زنانہ پرس تھا جو ایک چھوٹی سی میز پر رکھا ہوا تھا۔ ہومز نے اسے کھولا تو اس میں پچیس پاونڈ کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
’’ اسے رکھو‘‘اس نے پرس انسپکٹر کو دیتے ہوئے کہا ۔’’ہمیں ضرور تیسری گولی کے بارے میں سوچنا ہے۔ کھڑکی کے نچلے حصے والی لکڑی کی طرف دیکھو کس بری سے ٹوٹی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ گولی اندر سے چلائی گئی ہے۔ کیا میں باورچن سے دوبارہ بات کر سکتا ہوں؟‘‘
ڈاکٹر تیزی سے باہر نکلا اور جلد ہی مسز کنگ کے ساتھ واپس آگیا۔ ہومز نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک اور بہت اہم بات پوچھنا چاہتا ہے۔
’’تم بتاؤ مسز کنگ کہ جب تمہاری گولی کی آواز سے آنکھ کھلی تو تم نے دوسری گولی کی آواز سنی مگر یہ بتاؤ کہ جب پہلی بار آواز آئی تھی تو ایک گولی چلی تھی یا دو؟‘‘
’’میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتی مسٹر ہومز، آپ کو پتا ہے کہ میں سوئی ہوئی تھی۔‘‘
’’جیسا کہ آپ نے پہلی بار گولی کی آواز سنی۔ اس وقت تقریباً ایک ہی وقت میں دو گولیاں چلیں۔ سمجھے انسپکٹر، میرا خیال ہے کہ یہ کمرہ ہمیں سب کچھ بتا رہا ہے۔ مگر اب ہم باغ میں چل کر دیکھیں گے کہ وہاں سے ہم کیا ڈھونڈ پاتے ہیں۔‘‘
کھڑکی کی بیرونی طرف باغ میں پھولوں کی کیاریاں تھیں۔ ہم نے دیکھا کہ وہاں کوئی شخص کھڑا رہا تھا کیونکہ بہت سے پھول کچلے ہوئے ملے۔ ہمیں وہاں کسی کے چلنے کے نشانات بھی ملے۔ ہومز نے بڑے دھیان سے پھولوں کو دیکھا۔ پھر اس نے چھوٹا سا گول دھات کا ٹکڑا اٹھایا۔ جیسے گولیوں کی کچھ قسمیں چلنے کے بعد اپنے پیچھے دھات کے کچھ ٹکڑے چھوڑ جاتی ہیں۔
’’جیسا میں نے سوچا تھا۔‘‘ ہومز نے کہا۔’’اور یہی تو میں دیکھنے آیا تھا۔ میں نے حقیقتاًیہی سوچا انسپکٹر کہ ہمارا کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔‘‘
انسپکٹر کو ہومز کے کام کرنے کی رفتار کا یقین نہیں آرہا تھا۔
’’آپ یہ کیسے سوچ رہے ہیں؟‘‘ اس نے کہا۔
’’یہ میں تمہیں بعد میں بتاؤں گا۔ پہلے میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا یہاں قریب میں’ الرائجز‘ نام کا کوئی ہوٹل ہے؟‘‘
ملازمین میں سے کوئی بھی اس نام کے ہوٹل کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ البتہ باغ میں کام کرنے والا لڑکا الرائجز نام کے ایک باغبان کو جانتا تھا۔ اس نے بتایا کہ باغبان رڈلنگ تھورپی مینر سے کچھ دور اکیلا رہتا ہے۔
’’کیا وہ اکیلا باغ ہے؟‘‘
’’بالکل الگ تھلگ جناب، الرائجز کے باغ کے آس پاس دور تک کوئی دوسرا باغ نہیں ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ یہاں جو کچھ بھی ہوا، اس کی خبر ابھی تک وہاں نہیں پہنچی ہوگی؟‘‘
’’نہیں، میں نہیں سمجھتا جناب ! کہ وہ کوئی بھی چیز سن سکے ہوں گے۔‘‘
ہومز تھوڑی دیر کچھ سوچتا رہا پھر ایک عجیب سا تاثر اس کے چہرے پر ابھرا۔
’’لڑکے !ا پنا گھوڑا نکالو اور الرائجز کے باغ میں ایک رقعہ چھوڑ آؤ۔‘‘
ہو مز نے وہ سارے کاغذ کے ٹکڑے جیب سے نکال کر اپنے سامنے میز پر رکھ لئے جن پر ناچتے آدمیوں کی تصویریں تھیں۔ پھر اس نے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر کچھ لکھ کر لڑکے کو دیتے ہوئے کہاکہ یہ رقعہ اس آدمی کے حوالے کرنا جس کا نام اس پر لکھا ہوا ہے۔ اس نے لڑکے کو تاکید کی کہ وہ اس آدمی کے کسی بھی سوال کا جواب نہ دے۔ میں نے دیکھا کہ ہومز نے رقعے کے اوپر ’مسٹر ایبے سلانی، الرائجز فارم‘ لکھاتھا۔ مگر لکھائی اس سے بالکل مختلف تھی جیسی لکھائی میں ہومز عام طور پر لکھا کرتا تھا۔
’’انسپکٹر ! میرا خیال ہے کہ اب تم کچھ مزید پولیس کے سپاہیوں کو یہاں بلالو۔ کیونکہ اگر میں غلط نہیں ہوں تو بہت جلد تمہیں ایک انتہائی خطرناک مجرم کو جیل لے جانا پڑے گا۔
پھر ہومز ملازمین سے مخاطب ہوا۔ اس نے ملازمین سے کہا۔کہ اگر کوئی بھی شخص آئے اور مسٹر ہلٹن کیوبٹ کا پوچھے تو اسے کوئی بات نہ بتائیں۔ بلکہ اس آدمی کو میرے پاس لے آئیں۔ اس کے بعد ہومز، میں اور انسپکٹر ایک اور کمرے میں انتظار کرنے لگے۔ ڈاکٹر پہلے ہی جا چکا تھا اس لئے اب ہم تین ہی تھے۔
’’اب میں وضاحت کرتا ہوں کہ ناچتے آدمیوں والی پہیلی کا مطلب کیا ہے۔‘‘ ہومز نے کہا۔
’’جیساکہ تمہیں معلوم ہے واٹسن! کہ میں پچھلے کئی سالوں سے خفیہ لکھائی پڑھتا آرہا ہوں مگر یہ میرے لئے بالکل نئی تھی۔ جس آدمی نے بھی یہ تصویریں بنائی ہیں وہ یہ چاہتا تھا کہ لوگ اسے صرف بچوں کی بنائی ہوئی تصویریں سمجھیں، مگر میں جانتا تھا کہ ان میں ضرور کوئی پیغام ہے۔ مگر ان کا مطلب کیا تھا؟ اگر چہ پیغام بہت مختصر تھا مگر مجھے یقین تھا کہ اس شکل کا مطلب E ہے۔تم نے دیکھا ہوگا کہ حرف E انگریزی میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا حرف ہے۔ یہاں تک کہ ایک چھوٹے سے جملے میں بھی کئی بار استعمال ہو جاتا ہے۔ پہلے پیغام میں یہ چار بار استعمال ہوئی ہے ۔اس سے مجھے یقین ہو گیا کہ یہ E ہی ہے۔ کچھ شکلوں نے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ یہ شکلیں پیغام کو الفاظ میں تقسیم کرنے کے لیے استعمال کی گئی ہیں۔ اس کے بعد بہت مشکل مرحلہ پیش آیا کہ دوسرے حروف کیا ہیں؟جب دوسری بار مسٹر کیوبٹ میرے پاس آئے تو دو مزید جملے اپنے ساتھ لائے جن میں بہت مختصر پیغام تھا۔ میرا خیال تھا کہ یہ پیغام ایک ہی لفظ ہے کیونکہ اس میں کوئی جھنڈا نہیں تھا۔ پانچ حروف کے اس پیغام میں مجھے دوسرا اور چوتھا حرف E ملا۔_ _E _E اس طرح۔ میں نے سوچا کہ شاید یہ sever یا lever یا never ہے۔ پھر میں نے سوچا کہ اگر یہ never ہے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ یہ مسز کیوبٹ کی طرف سے اجنبی کے کسی جملے کا جواب ہے، اگر میں غلط نہیں۔ اور اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ باقی ضرور N ،V اور R ہیں۔ اب میں اس قابل ہوا کہ کچھ اور حروف کے معنی دریافت کر سکوں۔ اگر لکھنے والا پہلے سے مسز ایلیس کیوبٹ کو جانتا ہے تو ضرور اس نے پیغام میں کہیں اپنا نام استعمال کیا ہوگا۔ مجھے اس لفظ کو دریافت کرنے میں بڑی محنت کرنی پڑی جس کے شروع اور آخر کا حرف E ہے۔E_ _ _E. پیغام کے آخر میں مجھے وہ مل ہی گیا۔پھر میں نے L ،S اور I بھی نکال ہی لیے۔ اس سے پہلے کوئی بات تھی جو تین بار دہرائی گئی تھی۔ آخر وہ کیا کام تھا جو کوئی شخص ایلیس کو کرنے کا کہہ رہا تھا۔ یہاں صرف چار حرف تھے جو ایلیس کے نام سے پہلے تھے اور E پر ختم ہورہے تھے۔ میں نے سوچا کہ یہ COME لکھا ہوا ہے۔ اور اس طرح مجھے تین حروف اور مل گئے یعنی C ،O اور M۔ پھر دوبارہ میں پہلے پیغام پر گیا۔ میں نے اس کو الفاظ میں توڑا اور اس میں وہ سارے حروف رکھے جو مجھے مل چکے تھے۔ تو وہ یوں نظر آنے لگا۔
_M _ERE _ _E SL_NE_
انگریزی میں صرف ایک لفظ ایسا ہے جو دو حروف سے بنتا ہے اور اس کا اختتام M پر ہوتا ہے، اور وہ ہے am۔ اور اس کا پہلا حرف A ہے۔ اور یہی حرف مزید دو جگہ استعمال ہوا۔ مجھے یقین تھا کہ دوسرا لفظ Here ہے جو H سے شروع ہوتا ہے۔ اب پیغام یہ بن گیا۔
AM HERE A_E SL_NE_
دو لفظ AM HERE کے بعد لازمی کسی کا نام ہی ہے۔ اور انگریزی میں زیادہ نام ایسے نہیں ہیں جو تین حروف پر مشتمل ہوں اور A سے شروع ہوکر E پر ختم ہوتے ہیں۔ ABE، مخفف ہے ABRAHAM کا۔ یہی ممکن لگ رہا تھا۔ بہت سے امریکی مردوں کا نام ABE ہوتا ہے۔ دوسرے نام کے آخر میں کوئی موزوں ترین حرف ہو سکتا ہے تو وہ Y ہے۔ جو اسے SLANEY بنا رہا ہے۔
AM HERE ABE SLANEY
اب میرے پاس دوسری بار والے پیغام کو سمجھنے کے لئے کافی حروف مل چکے تھے۔ اب میں اتنا بنا سکتا تھا۔
A_ELRI_ES
میں اندازہ لگا سکتا تھا کہ پہلی خالی جگہ میں لازمی T اور دوسری میں G آئے گا۔ تو پھر یہ بنے گا۔
AT ELRIGES
پھر میں نے سوچا کہ ہمیں لازمی یہ پتا چلنا چاہئے کہ یہ شخص کہاں ہے۔‘‘
’’پھر آپ نے کیا کیا؟‘‘ انسپکٹر نے پوچھا۔
’’ مجھے یقین ہو گیا کہ ہم جس آدمی کا پتا چلانا چاہتے ہیں وہ Abe Slane نام کا ایک امریکی ہے۔‘‘ہومز نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
’’ایبے ایک امریکی نام ہے اور مسز کیوبٹ کو جو خط موصول ہوا تھا وہ بھی امریکہ سے ہی آیا تھا۔ مسز کیوبٹ اپنے شوہر کو اپنے ماضی کے بارے میں نہیں بتانا چاہتی تھیں۔ چنانچہ مجھے یقین ہو گیا کہ یہ کوئی پولیس کی مصیبت ہے۔ میں نے نیو یارک پولیس میں اپنے دوست ولسن ہارگریو کو تار بھیجا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں ایبے سلانی نام کے ایک شخص کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ اس کا جواب آیا کہ ’یہ شکاگو کا ایک انتہائی خطرناک آدمی ہے۔‘ جس دن شام کو مجھے شکاگو سے یہ خبر ملی، اسی دن مسٹر کیوبٹ نے مجھے وہ آخری پیغام بھیجا جو سلانی کی طرف سے ملا تھا۔ جو حرف میں جانتا تھا انہیں استعمال کرنے کے بعد پیغام یہ بن گیا۔
’’پھر آپ نے کیا کیا؟‘‘ انسپکٹر نے پوچھا۔
’’ مجھے یقین ہو گیا کہ ہم جس آدمی کا پتا چلانا چاہتے ہیں وہ Abe Slane نام کا ایک امریکی ہے۔‘‘ہومز نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
’’ایبے ایک امریکی نام ہے اور مسز کیوبٹ کو جو خط موصول ہوا تھا وہ بھی امریکہ سے ہی آیا تھا۔ مسز کیوبٹ اپنے شوہر کو اپنے ماضی کے بارے میں نہیں بتانا چاہتی تھیں۔ چنانچہ مجھے یقین ہو گیا کہ یہ کوئی پولیس کی مصیبت ہے۔ میں نے نیو یارک پولیس میں اپنے دوست ولسن ہارگریو کو تار بھیجا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں ایبے سلانی نام کے ایک شخص کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ اس کا جواب آیا کہ ’یہ شکاگو کا ایک انتہائی خطرناک آدمی ہے۔‘ جس دن شام کو مجھے شکاگو سے یہ خبر ملی، اسی دن مسٹر کیوبٹ نے مجھے وہ آخری پیغام بھیجا جو سلانی کی طرف سے ملا تھا۔ جو حرف میں جانتا تھا انہیں استعمال کرنے کے بعد پیغام یہ بن گیا۔
ELSIE _RE _ ARE TO MEET THY GO _
اس کو پڑھنے کے لیے اس کی خالی جگہوں میں مزید حروف پر کرنا زیادہ مشکل نہیں تھا۔
ELSIE PREARE TO MEET THY GOD
ایلیس اپنے خدا سے ملنے کو تیار ہو جاؤ
یہ الفاظ صرف اس وقت استعمال کیے جاتے ہیں جب کسی کی زندگی کا خاتمہ ہونے جا رہا ہو۔ اس وقت میں نے سوچا کہ مجھے اور ڈاکٹر واٹسن کو جتنی جلدی ممکن ہو سکے لازمی نورفوک پہنچنا چاہیے مگر ہمیں پہنچنے میں بہت دیر ہو گئی۔‘‘
’’مسٹر ہومز! یہ شخص سلانی بہت خطرناک آدمی ہے اور وہ واپس امریکہ بھاگنے کی پوری کوشش کرے گا۔ ہمیں ہر حال میں اسے روکنا ہے۔‘‘
’’میرا نہیں خیال کہ وہ بھاگے گا انسپکٹر!‘‘
’’مگر آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟‘‘
’’اس لیے کہ میں نے اسے ایک رقعہ بھیج کر یہاں آنے کا کہا ہے.. کیوں۔۔۔ہاں یہ دیکھنے والی بات ہے۔۔۔میرا خیال ہے کہ اب آہی رہا ہوگا۔‘‘
کالا کوٹ اور ہیٹ پہنے ایک لمبے قد کا پر کشش آدمی گھر کی طرف آرہا تھا۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
’’ انسپکٹر مارٹن اور ڈاکٹر واٹسن! مہربانی کرکے دروازے کے پیچھے ہوجاؤ۔ یہ ایک خطرناک آدمی ہے۔ اپنی ہتھکڑی سنبھالو انسپکٹر، میں اس سے بات کرتا ہوں۔‘‘
ہم نے ایک منٹ تک خاموشی سے اس کا انتظار کیا۔۔۔ وہ ایک منٹ جو میں کبھی نہیں بھلا سکتا۔ پھر دروازہ کھلا اور وہ آدمی اندر داخل ہوا۔ ہومز نے تیزی سے اس کے سر پر بندوق رکھی اور مارٹن نے فوراً اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنادیں۔
یہ اتنی تیزی سے ہوا کہ آدمی کچھ نہ کر سکا۔ اس نے ہم میں سے ہر ایک کو دیکھا اور پھر ہنسنے لگا:
’’یہ سب کیا ہے؟ میں یہاں اس لیے آیا ہوں کہ مسز ہلٹن کیوبٹ نے مجھے ایک رقعہ بھیجا تھا۔‘‘
’’مسز کیوبٹ کو گولی ماری گئی ہے اور وہ مرنے کے قریب ہے۔‘‘
آدمی نے ایک چیخ ماری ’’نہیں۔۔۔ اس کو نہیں۔۔۔میں نے اس کو گولی نہیں ماری۔ میں اسے کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتا۔۔۔ مہربانی کرکے مجھے حقیقت بتاؤ۔۔۔ یہ سچ نہیں ہے۔‘‘
’’وہ نیم مردہ حالت میں اپنے شوہر کے قریب پڑی ہوئی ملی تھی۔‘‘
آدمی کرسی پر بیٹھ گیا اور اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا۔ وہ پانچ منٹ تک اسی طرح خاموش بیٹھا رہا پھر اس نے ہاتھ نیچے کیے اور بولا:
’’میں تمہیں سچ بتاتا ہوں۔ ہاں، میں نے اپنی بندوق اس پر چلائی اور اس نے مجھ پر چلائی مگر میں خاتون کو تکلیف نہیں پہچانا چاہتا تھا۔ جتنا خیال مجھے اس کا تھا اتنا کسی کو بھی نہیں ہوگا۔ سالوں پہلے اس نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ مجھ سے شادی کرے گی۔ ایک انگریز اسے مجھ سے چھین کر لے آیا اور اب وہ مجھ سے کیوں شادی نہیں کرنا چاہتی تھی؟‘‘
’’وہ تم سے اس لیے بھاگ آئی تھی کیوں کہ وہ جان گئی تھی کہ تم کون ہو۔‘‘ ہو مز نے غصے سے جواب دیا۔’’ وہ امریکہ سے بھاگ آئی تاکہ تمہیں بھلا سکے اور اس نے ایک ایسے انگریز شخص سے شادی کی جو اس سے محبت کرتا تھا۔ تم نے اس کا پیچھا کیا، اسے غم دیا اور یہ کوشش کی کہ وہ تمہاری طرف واپس آجائے۔ اب تم اس کے شوہر کو قتل کر چکے ہو اور اس نے بھی خود کشی کی کوشش کی۔ تمہیں اس کی قیمت چکانی پڑے گی، مسٹر ایبے سلانی!‘‘
’’اگر ایلیس مرجاتی ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوتا ہے‘‘ امریکی شخص بولا۔
پھر اس نے اپنی مٹھی کھولی تو اس میں سے کاغذ کا ایک ٹکڑا نکل کر زمین پر گر گیا۔
’’تم نے دیکھا‘‘وہ بولا۔’’ میں جانتا ہوں کہ وہ مجھے چاہتی تھی۔ اس نے مجھے پیغام بھیجا اور یہاں آنے کو کہا۔‘‘
’’نہیں، وہ میں ہوں جس نے تمہیں یہ رقعہ لکھا۔‘‘
’’تم؟ مگر کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ناچتے آدمیوں کا راز جانتا ہو۔‘‘
ہومز مسکرایا۔’’ہمیں بتاؤ کہ اصل میں ہوا کیا، مسٹر سلانی!‘‘
’’ٹھیک ہے۔۔۔ میں اس خاتون کو اس وقت سے جانتا ہوں جب یہ بچی تھی۔ میں ایلیس کے والد کے لیے کام کرتا تھا۔۔۔ شکاگو کے جرائم کا سرپرست وہ ایک ہوشیار اور بدکردار شخص تھا۔ ناچتے آدمیوں کے ذریعے خفیہ پیغام کا طریقہ اسی کی ایجاد ہے۔ ایلیس کی دلی خواہش تھی کہ وہ مجھے اور اپنے والد کو اس سے نکال لے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اگر میں اپنا دھندا تبدیل کر لوں تو وہ مجھ سے شادی کر لے گی، مگر میں یہ نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ وہ برطانیہ آگئی، انگریز شخص سے ملی اور اس سے شادی کر لی۔ میں نے اسے کافی خط لکھے مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں خود یہاں آیا اور ایسی جگہ پیغامات رکھنا شروع کئے جہاں وہ دیکھ سکتی تھی۔ میں ایک مہینہ پہلے یہاں آیا اور اس چھوٹے سے باغ میں رہنے لگا۔ اور ایلیس کے لیے پیغام چھوڑنے کے لیے رات کو آتا رہا۔ مجھے پتا تھا کہ وہ یہ پیغامات پڑھ رہی ہے کیونکہ ایک دن ان میں سے ایک کے نیچے جواب لکھا ہوا تھا۔ مجھے اس پر اور غصہ آگیا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں اسے قتل کرنا چاہتا ہوں۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے شوہر کو اس کے اور میرے بارے میں کچھ پتا چلے۔ اس نے مجھے خط بھیجا اور رات تین بجے کھڑکی کے پاس انتظار کرنے کو کہاکہ اس وقت اس کا شوہر سو چکا ہوگا۔ وہ نیچے اتری اور اپنے ساتھ رقم لینے لگی۔ میں جلدی میں تھا۔ میں نے کھڑکی میں ہاتھ ڈال کر اسے اوپر اپنی جانب کھینچا۔ اسی وقت اس کا شوہر اپنی بندوق ہاتھ میں پکڑے کمرے میں داخل ہوا۔ میں خوف زدہ ہو گیا۔ اس نے بندوق چلائی مگر گولی مجھے نہیں لگی۔ اسی وقت میں نے بندوق چلائی اور وہ گر گیا۔ میں باغ کو پار کرتا ہوا باہر بھاگا۔ اور جس وقت میں بھاگ رہا تھا میں نے کھڑکی بند ہونے کی آواز سنی اور پھر ایک گولی چلی۔ یہ ہے سارا سچ۔ اس کے علاوہ میں کوئی چیز نہیں جانتا یہاں تک کہ لڑکا میرے پاس باغ میں آیا اور خط دے گیا۔‘‘
جیسے ہی گفتگو ختم ہوئی، دو مزید پولیس والے پہنچ گئے۔
’’یہ جانے کا وقت ہے مسٹرسلانی!‘‘
’’کیا پہلے میں اسے دیکھ سکتا ہوں؟‘‘
’’نہیں، وہ ابھی بولنے قابل نہیں ہے۔‘‘
ہم دیکھ رہے تھے کہ پولیس کے سپاہی اسے لے جا رہے رہے تھے۔ جیسے ہی میں کھڑکی کے پاس سے مڑا۔ میں نے وہ کاغذ کا ٹکڑا زمین پر پڑا ہوا دیکھا جو سلانی کے ہاتھ سے گرا تھا۔ یہ وہ پیغام تھا جو ہومز نے اسے بھیجا تھا۔
’’کیا تم اسے پڑھ سکتے ہو واٹسن؟‘‘ہومز نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
میں نے اسے دیکھا۔ یہ ایک بار پھر ناچتے ہوئے آدمی تھے۔
یہ الفاظ صرف اس وقت استعمال کیے جاتے ہیں جب کسی کی زندگی کا خاتمہ ہونے جا رہا ہو۔ اس وقت میں نے سوچا کہ مجھے اور ڈاکٹر واٹسن کو جتنی جلدی ممکن ہو سکے لازمی نورفوک پہنچنا چاہیے مگر ہمیں پہنچنے میں بہت دیر ہو گئی۔‘‘
’’مسٹر ہومز! یہ شخص سلانی بہت خطرناک آدمی ہے اور وہ واپس امریکہ بھاگنے کی پوری کوشش کرے گا۔ ہمیں ہر حال میں اسے روکنا ہے۔‘‘
’’میرا نہیں خیال کہ وہ بھاگے گا انسپکٹر!‘‘
’’مگر آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟‘‘
’’اس لیے کہ میں نے اسے ایک رقعہ بھیج کر یہاں آنے کا کہا ہے.. کیوں۔۔۔ہاں یہ دیکھنے والی بات ہے۔۔۔میرا خیال ہے کہ اب آہی رہا ہوگا۔‘‘
کالا کوٹ اور ہیٹ پہنے ایک لمبے قد کا پر کشش آدمی گھر کی طرف آرہا تھا۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
’’ انسپکٹر مارٹن اور ڈاکٹر واٹسن! مہربانی کرکے دروازے کے پیچھے ہوجاؤ۔ یہ ایک خطرناک آدمی ہے۔ اپنی ہتھکڑی سنبھالو انسپکٹر، میں اس سے بات کرتا ہوں۔‘‘
ہم نے ایک منٹ تک خاموشی سے اس کا انتظار کیا۔۔۔ وہ ایک منٹ جو میں کبھی نہیں بھلا سکتا۔ پھر دروازہ کھلا اور وہ آدمی اندر داخل ہوا۔ ہومز نے تیزی سے اس کے سر پر بندوق رکھی اور مارٹن نے فوراً اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنادیں۔
یہ اتنی تیزی سے ہوا کہ آدمی کچھ نہ کر سکا۔ اس نے ہم میں سے ہر ایک کو دیکھا اور پھر ہنسنے لگا:
’’یہ سب کیا ہے؟ میں یہاں اس لیے آیا ہوں کہ مسز ہلٹن کیوبٹ نے مجھے ایک رقعہ بھیجا تھا۔‘‘
’’مسز کیوبٹ کو گولی ماری گئی ہے اور وہ مرنے کے قریب ہے۔‘‘
آدمی نے ایک چیخ ماری ’’نہیں۔۔۔ اس کو نہیں۔۔۔میں نے اس کو گولی نہیں ماری۔ میں اسے کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتا۔۔۔ مہربانی کرکے مجھے حقیقت بتاؤ۔۔۔ یہ سچ نہیں ہے۔‘‘
’’وہ نیم مردہ حالت میں اپنے شوہر کے قریب پڑی ہوئی ملی تھی۔‘‘
آدمی کرسی پر بیٹھ گیا اور اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا۔ وہ پانچ منٹ تک اسی طرح خاموش بیٹھا رہا پھر اس نے ہاتھ نیچے کیے اور بولا:
’’میں تمہیں سچ بتاتا ہوں۔ ہاں، میں نے اپنی بندوق اس پر چلائی اور اس نے مجھ پر چلائی مگر میں خاتون کو تکلیف نہیں پہچانا چاہتا تھا۔ جتنا خیال مجھے اس کا تھا اتنا کسی کو بھی نہیں ہوگا۔ سالوں پہلے اس نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ مجھ سے شادی کرے گی۔ ایک انگریز اسے مجھ سے چھین کر لے آیا اور اب وہ مجھ سے کیوں شادی نہیں کرنا چاہتی تھی؟‘‘
’’وہ تم سے اس لیے بھاگ آئی تھی کیوں کہ وہ جان گئی تھی کہ تم کون ہو۔‘‘ ہو مز نے غصے سے جواب دیا۔’’ وہ امریکہ سے بھاگ آئی تاکہ تمہیں بھلا سکے اور اس نے ایک ایسے انگریز شخص سے شادی کی جو اس سے محبت کرتا تھا۔ تم نے اس کا پیچھا کیا، اسے غم دیا اور یہ کوشش کی کہ وہ تمہاری طرف واپس آجائے۔ اب تم اس کے شوہر کو قتل کر چکے ہو اور اس نے بھی خود کشی کی کوشش کی۔ تمہیں اس کی قیمت چکانی پڑے گی، مسٹر ایبے سلانی!‘‘
’’اگر ایلیس مرجاتی ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوتا ہے‘‘ امریکی شخص بولا۔
پھر اس نے اپنی مٹھی کھولی تو اس میں سے کاغذ کا ایک ٹکڑا نکل کر زمین پر گر گیا۔
’’تم نے دیکھا‘‘وہ بولا۔’’ میں جانتا ہوں کہ وہ مجھے چاہتی تھی۔ اس نے مجھے پیغام بھیجا اور یہاں آنے کو کہا۔‘‘
’’نہیں، وہ میں ہوں جس نے تمہیں یہ رقعہ لکھا۔‘‘
’’تم؟ مگر کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ناچتے آدمیوں کا راز جانتا ہو۔‘‘
ہومز مسکرایا۔’’ہمیں بتاؤ کہ اصل میں ہوا کیا، مسٹر سلانی!‘‘
’’ٹھیک ہے۔۔۔ میں اس خاتون کو اس وقت سے جانتا ہوں جب یہ بچی تھی۔ میں ایلیس کے والد کے لیے کام کرتا تھا۔۔۔ شکاگو کے جرائم کا سرپرست وہ ایک ہوشیار اور بدکردار شخص تھا۔ ناچتے آدمیوں کے ذریعے خفیہ پیغام کا طریقہ اسی کی ایجاد ہے۔ ایلیس کی دلی خواہش تھی کہ وہ مجھے اور اپنے والد کو اس سے نکال لے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اگر میں اپنا دھندا تبدیل کر لوں تو وہ مجھ سے شادی کر لے گی، مگر میں یہ نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ وہ برطانیہ آگئی، انگریز شخص سے ملی اور اس سے شادی کر لی۔ میں نے اسے کافی خط لکھے مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں خود یہاں آیا اور ایسی جگہ پیغامات رکھنا شروع کئے جہاں وہ دیکھ سکتی تھی۔ میں ایک مہینہ پہلے یہاں آیا اور اس چھوٹے سے باغ میں رہنے لگا۔ اور ایلیس کے لیے پیغام چھوڑنے کے لیے رات کو آتا رہا۔ مجھے پتا تھا کہ وہ یہ پیغامات پڑھ رہی ہے کیونکہ ایک دن ان میں سے ایک کے نیچے جواب لکھا ہوا تھا۔ مجھے اس پر اور غصہ آگیا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں اسے قتل کرنا چاہتا ہوں۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے شوہر کو اس کے اور میرے بارے میں کچھ پتا چلے۔ اس نے مجھے خط بھیجا اور رات تین بجے کھڑکی کے پاس انتظار کرنے کو کہاکہ اس وقت اس کا شوہر سو چکا ہوگا۔ وہ نیچے اتری اور اپنے ساتھ رقم لینے لگی۔ میں جلدی میں تھا۔ میں نے کھڑکی میں ہاتھ ڈال کر اسے اوپر اپنی جانب کھینچا۔ اسی وقت اس کا شوہر اپنی بندوق ہاتھ میں پکڑے کمرے میں داخل ہوا۔ میں خوف زدہ ہو گیا۔ اس نے بندوق چلائی مگر گولی مجھے نہیں لگی۔ اسی وقت میں نے بندوق چلائی اور وہ گر گیا۔ میں باغ کو پار کرتا ہوا باہر بھاگا۔ اور جس وقت میں بھاگ رہا تھا میں نے کھڑکی بند ہونے کی آواز سنی اور پھر ایک گولی چلی۔ یہ ہے سارا سچ۔ اس کے علاوہ میں کوئی چیز نہیں جانتا یہاں تک کہ لڑکا میرے پاس باغ میں آیا اور خط دے گیا۔‘‘
جیسے ہی گفتگو ختم ہوئی، دو مزید پولیس والے پہنچ گئے۔
’’یہ جانے کا وقت ہے مسٹرسلانی!‘‘
’’کیا پہلے میں اسے دیکھ سکتا ہوں؟‘‘
’’نہیں، وہ ابھی بولنے قابل نہیں ہے۔‘‘
ہم دیکھ رہے تھے کہ پولیس کے سپاہی اسے لے جا رہے رہے تھے۔ جیسے ہی میں کھڑکی کے پاس سے مڑا۔ میں نے وہ کاغذ کا ٹکڑا زمین پر پڑا ہوا دیکھا جو سلانی کے ہاتھ سے گرا تھا۔ یہ وہ پیغام تھا جو ہومز نے اسے بھیجا تھا۔
’’کیا تم اسے پڑھ سکتے ہو واٹسن؟‘‘ہومز نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
میں نے اسے دیکھا۔ یہ ایک بار پھر ناچتے ہوئے آدمی تھے۔
تم یاد کر سکتے ہو کہ آدمیوں کا مطلب کیا ہے؟ اگر تمہیں یاد ہوکہ میں نے تمہیں کیا بتایا تھا تو تم دیکھو گے اس کا مطلب ہے:
’’ایک بار دوبارہ آو‘‘
میں جانتا تھا کہ مسٹرسلانی یہ سمجھے گا کہ یہ پیغام مسز کیوبٹ نے اسے بھیجا ہے۔ تو میرے دوست واٹسن، ہم نے ناچتے آدمیوں کا ایک اچھا استعمال کیا۔ ہماری ریل ڈھائی بجے کی ہے۔ میں رات کے کھانے تک واپس بیکر اسٹریٹ جاوں گا۔‘‘
امریکی ایبے سلانی عمر بھر کے لیے جیل چلا گیا۔ میں نے پڑھا کہ مسز ہلٹن سلانی دوبارہ ٹھیک ہو گئی تھیں۔ اب وہ اپنے شوہر کے گھر میں اکیلی رہتی ہیں اور آس پاس کے غریبوں کی مدد کرتی ہیں۔
’’ایک بار دوبارہ آو‘‘
میں جانتا تھا کہ مسٹرسلانی یہ سمجھے گا کہ یہ پیغام مسز کیوبٹ نے اسے بھیجا ہے۔ تو میرے دوست واٹسن، ہم نے ناچتے آدمیوں کا ایک اچھا استعمال کیا۔ ہماری ریل ڈھائی بجے کی ہے۔ میں رات کے کھانے تک واپس بیکر اسٹریٹ جاوں گا۔‘‘
امریکی ایبے سلانی عمر بھر کے لیے جیل چلا گیا۔ میں نے پڑھا کہ مسز ہلٹن سلانی دوبارہ ٹھیک ہو گئی تھیں۔ اب وہ اپنے شوہر کے گھر میں اکیلی رہتی ہیں اور آس پاس کے غریبوں کی مدد کرتی ہیں۔
Facebook Comments