skip to Main Content
نارنگی کے پانچ بیج

نارنگی کے پانچ بیج

کہانی: The Five Orange Pips
مصنف: Arthur Conan Doyle

۔۔۔۔۔۔۔

سردی شروع ہوتے ہی لندن میں جھکڑ چلنے لگے۔ چونکہ میری بیگم اپنے والدین کے پاس گئی ہوئی تھی، لہٰذا میں اپنے پرانے دوست شرلاک ہومز کے پاس چلا آیا۔ ہم رات کو اکٹھے کھانا کھاتے اور گپ شپ لگاتے۔
اس دن بھی شام کو تیز ہوا چلنے لگی۔ جلد ہی سیاہ بادل گھر آئے اور بارش ہونے لگی۔ میں اور ہومز موسم کا مزہ لینے لگے۔ اچانک گھر کی بیل بجی اور ہم چونک گئے۔ میں نے ہومز سے کہا:”ایسے خراب موسم میں کون آسکتا ہے؟ شاید تمھارا کوئی دوست؟“
”ارے ڈاکٹر، تمھارے سوا میرا کوئی دوست نہیں۔ میں مہمانوں کی اِتنی حوصلہ افزائی نہیں کرتا کہ وہ میرے گھر چلے آئیں۔ لگتا ہے، مالکہ مکان کا کوئی مہمان ہے۔“
مگر ہومز کا اندازہ غلط نکلا۔ آنے والا ہمارا ہی مہمان تھا۔ وہ بیس بائیس سالہ خوش پوش نوجوان تھا۔ انداز و اطوار سے مہذب پن اور شائستگی عیاں تھی۔ اس نے برساتی اُتاری تو نیچے سے نفیس لباس برآمد ہوا۔ ہاتھ میں چھتری تھی۔
نوجوان کے چہرے سے پریشانی مترشح تھی۔ وہ ہم سے معذرت کرتے ہوئے بولا۔”مجھے اعتراف ہے کہ آپ کے آرام میں مُخِل ہوا اور مجھے فکر ہے کہ میرے جوتوں کے ذریعے بارش کی کچھ نشانیاں یہاں بھی چلی آئی ہیں۔“
ہومز نے کہا۔”اپنی برساتی اور چھتری مجھے دو۔ میں انھیں ٹانگ دیتا ہوں تاکہ جلد سوکھ جائیں۔ کیا تم جنوبی علاقے سے آرہے ہو؟“
”جی ہاں، میرا تعلق ہورشام قصبے سے ہے۔“ نوجوان حیرت سے بولا۔
”دراصل تمھارے جوتوں پہ چاک اور مٹی لگی ہے۔ اسی باعث میں جان گیا۔ بتائیے، آپ کیوں تشریف لائے؟“
”مسٹر ہومز! میں آپ سے مدد لینے آیا ہوں۔ مجھے پتا چلا ہے کہ آپ فن سراغ رسانی میں طاق ہیں۔“
”یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے۔ مجھے ناکامی بھی ملتی ہے، بس اس کی شرح کم ہے۔ آپ تشریف رکھیے اور اپنا مسئلہ بتائیے۔“
نوجوان قریب پڑی کرسی پہ بیٹھ گیا اور بولنے لگا:”میرا نام جان اوپن شا ہے۔ میں ایک خاندانی مصیبت میں گرفتار ہوں۔ اس کے متعلق تفصیل سے بتاتا ہوں۔
میرے دادا کے دو بیٹے تھے، چچا الیس اور میرے والد جوزف۔ میرے والد نوجوان ہوئے، تو انھوں نے سائیکل بنانے کی فیکٹری کھول لی۔ خدا نے اُنھیں ترقی دی اور ان کا کاروبار پھیل گیا۔ پانچ سال قبل انھوں نے اپنی فیکٹری بیچ ڈالی۔ جو رقم ملی،اسی کے ذریعے اطمینان سے فراغت کی زندگی بسر کرنے لگے۔
میرے چچا جوانی میں امریکا چلے گئے تھے۔ وہاں ریاست فلوریڈا میں زمین لی، فارم کھولا اور خوشحال زندگی گزارنے لگے۔ جب امریکی خانہ جنگی کا آغاز ہوا، تو وہ کنفڈریٹ فوج کی طرف سے لڑے اور کرنل کے عہدے تک پہنچے۔
1869ء میں انھوں نے اپنی زمینیں فروخت کیں اور واپس انگلستان چلے آئے۔ یہاں ہورشام میں بھی انھوں نے زمینیں خریدیں اور چھوٹے زمیندار کی حیثیت سے زندگی گزارنے لگے۔
چچا الیس درشت مزاج اور غصیلے آدمی تھے۔ اسی لیے قصبے میں ان کی کسی سے نہ بن سکی۔ فارم میں کام کرنے والے کسان بھی اپنے کام سے کام رکھتے۔ میرے والد بھی ان سے گھل مل نہ سکے، بس خیریت دریافت کرکے اپنی راہ لیتے۔
لیکن چچا مجھ سے جلد مانوس ہوگئے۔میں والد کے ساتھ جب بھی ان کے گھر جاتا، تو وہ مجھے مٹھائی، بِسکٹ یا بچوں کی دیگر پسندیدہ اشیا کھلاتے۔ اس باعث میں بھی انھیں پسند کرنے لگا۔ جب گیارہ بارہ سال کا ہوا، تو والد کی اجازت سے ان کے پاس رہنے آجاتا۔پھرہم تاش، لڈو اور شطرنج کھیل کر دل بہلاتے۔
رفتہ رفتہ میں گھر اور فارم میں ان کا نائب بن گیا۔ تاہم مجھ سمیت تمام ملازموں کا ایک کمرے میں جانا منع تھا۔ وہ کمرا طویل عرصے سے بند تھا اور وہاں کوئی چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تھی۔ میں نے دو تین بار چابی والے سوراخ سے اندر جھانک کر دیکھا، تو مجھے کاغذات کے ڈھیر ہی نظر آئے۔
ایک دن چچا کو پونڈیچری، ہندوستان سے ایک خط موصول ہوا۔ انھیں غیر ممالک سے خطوط آتے رہتے تھے۔ لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ ہندوستان سے خط آیا تھا۔ انھوں نے بے تابی سے خط کھولا۔ میں بھی ان کی میز کے قریب کھڑا تھا۔
خط کے اندر سے کاغذ نہیں مالٹے کے پانچ بیج برآمد ہوئے۔ یہ دیکھ کر مجھے ہنسی آگئی، لیکن جب چچا کے چہرے پہ نگاہ ڈالی، تو اس پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ وہ مجھے بہت پریشان اور خوفزدہ نظر آئے۔ انھوں نے لفافے کی پشت دیکھی، تو پکار اُٹھے ”کک۔کے۔کے… اُف اب مجھے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا۔“
میں نے گھبرا کر ان سے پوچھا۔”چچا! یہ کیا ہے؟“
”موت!“ وہ میز پر سے اٹھتے ہوئے بولے اور مردہ قدموں سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ میں نے خط اٹھا کر دیکھا، پشت پر سرخ قلم سے ”کے۔کے۔کے“ درج تھا۔ پانچ بیجوں کے علاوہ خط خالی تھا۔ نجانے کیوں چچا اتنے خوفزدہ ہوگئے تھے؟
کچھ دیر بعد میں نے چچا کو سیڑھیوں سے نیچے آتے دیکھا۔ انھوں نے ہاتھ میں پرانی سی چابی تھام رکھی تھی۔ یقینا اسی بند کمرے کی تھی۔ دوسرے ہاتھ میں ایک خاصا بڑا چوبی منقش ڈبا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے۔”میری سے کہو، میرے کمرے کاآتش دان جلا دے اور میرے وکیل، فورڈہیم کو پیغام بھجواؤ کہ وہ مجھ سے مل لے۔“
میں نے حکم کی تعمیل کی۔ جلد ہی فورڈہیم آپہنچا۔ میں اسے لیے چچا کے کمرے میں پہنچا۔ آتش دان میں آگ خوب بھڑک رہی تھی۔ بڑی تعداد میں سیاہ و سفید راکھ دیکھ کر احساس ہوا کہ اس میں سیکڑوں کاغذ جلائے گئے ہیں۔ خالی چوبی ڈبا کھلا پڑا تھا۔ تبھی مجھے اس پر ”کے۔کے۔کے“ کے لفظ کھدے نظر آئے اور میں چونک گیا۔
چچا مجھے مخاطب کرکے بولے۔”جان! میں تمھیں اپنی وصیت کا گواہ بنا رہا ہوں۔ میں نے اپنی ساری جائداد اپنے بھائی یعنی تمھارے والد کے نام کردی ہے۔ وہ پھر لامحالہ تمھیں ہی ملے گی۔ لیکن اس جائداد کے ساتھ خطرہ بھی وابستہ ہے۔ اگر تم خطرے کا مقابلہ نہ کرسکے، تو جائداد دشمن کے حوالے کردینا۔ اب وصیت پر دستخط کر دو۔“
میں نے کاغذات پر دستخط کردیے۔ وکیل فورڈ ہیم انھیں لے کر چلا گیا۔ اس انوکھے واقعے نے مجھے حیرت اور تشویش میں مبتلا کر دیا۔ میں کئی دن اس پر غور کرتا رہا لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکال سکا۔ اُدھر چچا کچھ بتانے کو تیار نہ تھے، میں کرید کرید کر تھک گیا۔
چچا پہ البتہ یہ اثر ہوا کہ وہ مزید تنہائی پسند ہوگئے اور شراب پینے لگے۔ کبھی کبھی نشے کی حالت میں کمرے سے برآمد ہوتے اور واہی تباہی بکنے لگتے۔ اگر میں نہ ہوتا، تو یقینا فارم کا سارا کام تباہ ہوجاتا۔ ایک بار وہ ریوالور تھامے گھر سے نکل گئے۔ میں بڑی مشکل سے انھیں قابو کرکے واپس لایا۔ مگر جب وہ ہوش و حواس میں ہوتے، تو بہت خوفزدہ رہتے۔ ان کا نیم مردہ چہرہ دیکھ کر لگتا جیسے موت سامنے کھڑی ہے۔
خیرمسٹر ہومز، میں اختتام کی طرف آتا ہوں۔ ایک رات وہ نشے کے عالم میں گھر سے نکلے، تو زندہ واپس نہ آئے۔ تلاش پر ان کی نعش ایک تالاب میں پائی گئی۔ چونکہ بدن پہ تشدد کے آثار نہ تھے، لہٰذا پولیس نے اِسے خودکشی کا کیس قرار دے کر بند کردیا۔ لیکن مجھے شک تھا کہ یہ خودکشی کا معاملہ نہیں، بلکہ شاید وہ ڈوب کر ہلاک ہوئے۔
بہرحال چند دن میں واقعے پر وقت کی گرد جم گئی۔ والد نے بھائی کی جائداد کا انتظام بھی سنبھال لیا اور میں ان کا نائب بن گیا۔“
اچانک ہومز بولا:”ایک لحظہ رکیے۔ اب تک آپ کا بیان دلچسپ اور حیران کن ہے۔ یہ بتائیے آپ کے چچا کو خط کب موصول ہوا؟“
نوجوان نے بتایا۔”انھیں خط 10مارچ 1883ء کو ملا۔ اسی کے سات ہفتے بعد2مئی کی رات وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔“
”شکریہ! اپنا بیان جاری رکھیے۔“
”جائداد ہمیں ملی، تو میں نے بند کمرا کھلوایا۔ اس میں سے چوبی منقش ڈبا برآمد ہوا۔ اب اُسے غور سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اندرونی حصے پر مجھے قلم سے ”خطوط، یادداشتیں اور رجسٹر“ کے الفاظ کھدے نظر آئے۔ گویا ڈبے میں یہ اشیا موجود تھیں۔
کمرے میں مختلف اقسام کے کاغذات بکھرے تھے۔ ایک ورق کے سوا ان سے کوئی کام کی شے نہ ملی۔ بہرحال کچھ عرصے بعد میرے والد بھی اپنے بھائی کے گھر چلے آئے جو زیادہ آرام دہ اور قصباتی شور غل سے دور آباد تھا۔
ہمیں سکون سے رہتے ہوئے ایک سال ہی گزرا تھا کہ 4جنوری 1885ء کو ایک دھماکا ہوگیا۔ ہوا یہ کہ والد صاحب کھانے سے فارغ ہوئے، تو اس دن آئے خط کھولنے لگے۔ میں اپنے کمرے میں تھا۔ اچانک مجھے والد کی چیخ سنائی دی۔ میں بھاگ کر ان کے پاس پہنچا۔ دیکھا کہ ایک ہاتھ میں کھلا خط موجود ہے، تو دوسرے کی ہتھیلی پر مالٹے کے پانچ بیج پڑے تھے۔ وہ حیرت سے انھیں گھور رہے تھے۔ میں نے انھیں بتایا تھا کہ چچا کو بھی مالٹے کے پانچ بیج ملے تھے۔ اس پہ انھوں نے مجھے ہنسی ٹھٹھے کا نشانہ بنادیا۔ اب وہ خودبیج پاکر متعجب اور کچھ خوفزدہ تھے۔
انھوں نے مجھے دیکھتے ہی پوچھا۔”جان!یہ کیا ہے؟“
میں نے کہا،”اندر دیکھیے، کیا کسی کاغذ پر کے۔کے۔کے درج ہے؟“
”خط کے اندر سے ایک پرچہ برآمد ہوا جس پر واقعی”کے۔کے۔کے“ لکھا تھا۔ مگر نیچے یہ بھی درج تھا:”کاغذات شمسی گھڑی(Sundial)کے اوپر رکھ دو۔“
والد نے دریافت کیا۔”کون سے کاغذات اور شمسی گھڑی، یہ کیا ہے؟“
میں نے بتایا:”شمسی گھڑی باغ کے پچھواڑے میں موجود ہے، جبکہ کاغذات وہی ہوں گے جو چچا نے جلا ڈالے تھے۔ وہ تو نابود ہوچکے۔“
کہنے لگے:”لگتا ہے، کسی نے مذاق کیا ہے۔ ورنہ میرا اَن دیکھے کاغذات اور شمسی گھڑی سے کیا تعلق؟ یہ بتاؤ، خط کہاں سے آیا ہے؟“
خط پر ڈینڈی (شہر) کی مہر لگی ہے۔
میں نے بتایا اور پوچھا۔”اچھااِس معاملے کی خبر پولیس کو دی جائے؟“
”نہیں نہیں، میں پولیس کے معاملات میں نہیں پڑنا چاہتا۔ تم اس خط کو مذاق سمجھ کر بھول جاؤ۔“
ناچار مجھے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ چار دن بعد وہ اپنے ایک دوست سے ملنے گئے جو پہاڑی قصبے میں رہتا تھا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ وہاں جاکر ان کا دھیان پانچ بیجوں سے بٹ جائے گا۔ لیکن میں غلطی پر تھا۔
تیسرے دن مجھے ان کے دوست، میجر فریبون کا تار ملا۔ معلوم ہوا کہ والد پہاڑ پر سیر کرنے گئے تھے کہ پھسل کر کھائی میں جاگرے اور شدید زخمی ہوگئے۔ میں فوراً پہاڑی قصبے پہنچا لیکن اس سے قبل ہی والد دنیا چھوڑ چکے تھے، مجھے بڑا صدمہ پہنچا۔
میں نے بہت کوشش کی کہ والد کی موت کو قتل قرار دے سکوں، مگر کوئی ٹھوس ثبوت حاصل نہ کرسکا۔ پولیس نے پھر اسے حادثاتی موت قرار دے کر کیس بند کردیا۔ وجہ یہی ہے کہ جائے حادثہ پر کسی قسم کی دھینگا مشتی، تشدد، چوری وغیرہ کے آثار نہ تھے۔ پھر بھی میرا دل یہی کہتا رہا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔
یوں اس المیے کے بعد میں نہ صرف والد بلکہ چچا کی جائداد کا بھی مالک بن گیا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ چچا اور والد کی اموات غیر فطری ہیں۔ میں ان کے پیچھے چھپا بھید جاننا چاہتا تھا۔ اسی لیے ہورشام ہی میں مقیم رہا۔
جنوری1885ء میں والد کے ساتھ حادثہ پیش آیا تھا۔ اس کے بعد اڑھائی سال گزر گئے اور میں ہورشام میں خیرو عافیت سے مقیم رہا۔ میں نے یہ عرصہ سکون سے گزارا حتیٰ کہ مجھے محسوس ہونے لگا کہ میرے خاندان سے چمٹی لعنت دور ہوچکی۔ لیکن گزشتہ دن ایک اور دھماکا ہوا جس سے میں ہل کر رہ گیا۔“
یہ کہہ کر پراگندہ حال نوجوان نے اپنے کوٹ میں ہاتھ ڈالا، خط نکالا اور اُسے میز پر کھول دیا۔ اندر سے پانچ بیج میز پر آ رہے۔ انھیں دیکھتے ہوئے وہ بولا:”خط میں سے ایک پرچہ برآمد ہوا، اس پہ وہی پرانا جملہ درج تھا۔”کے۔کے۔کے…کاغذات شمسی گھڑی پہ ڈال دو۔ یہ خط مشرقی لندن سے آیا ہے۔“
ہومز نے پوچھا:”تم نے کیا قدم اُٹھایا؟“
”کچھ نہیں۔“
”کیا مطلب؟“

نوجوان نے پریشانی کے عالم میں سرتھام لیا اور بولا۔”سچی بات یہ ہے کہ میں خود کو مجبور و بے کس محسوس کرتا ہوں۔ لگتا ہے میں کمزور خرگوش ہوں جو قوی سانپوں کے نرغے میں آچکا۔ اب کوئی شیطانی قوت آہستہ آہستہ میری جانب بڑھ رہی ہے اورمیں بدنصیب اسی کا چارہ بن کر رہوں گا۔“
”ارے جناب، حوصلہ مت ہارئیے۔ آپ کو فوری اقدام کرنا چاہیے ورنہ بچنے کی اُمید جاتی رہے گی۔ یہ ماتم نہیں جوش و جذبہ دکھانے کا وقت ہے۔“ ہومز تیزی سے بولا۔
”میں تھانے بھی گیا تھا۔“
”پھر؟“
”پولیس والوں نے مُسکراتے ہوئے میری کہانی سُنی۔ انسپکٹر کو یقین تھا کہ کوئی میرے ساتھ عملی مذاق کر رہا ہے اور یہ کہ میرے والد و چچا حادثاتی موت مرے۔“
ہومز نے بے بسی سے ہوا میں مکہ مارا اور بولا۔”مہا بے وقوفی“
”البتہ تھانے دار نے ایک سپاہی میرے ساتھ کردیا۔ وہ میرے ساتھ ہی گھر میں رہتا ہے۔“
”کیا وہ تمھارے ساتھ آیا ہے؟“
”جی نہیں، اُسے صرف گھر میں رہنے کا حکم ہے۔“
ہومز نے دوبارہ ہوا میں مکہ گھمایا اور خاصی تیز آواز میں بولا:”آپ اس کے بغیر میرے پاس کیوں آئے ہو اور پھر اتنی دیر بعد؟“
نوجوان نے بے چارگی سے کہا”مجھے آج دوپہر ہی کو آپ کی بابت علم ہوا۔“
”آپ کو خط ملے دو دن بیت چکے۔ ہمیں کل ہی حرکت میں آنا چاہیے تھا۔ بہرحال، کیا آپ اپنا بیان مکمل کرچکے؟ یا کوئی اور ثبوت بھی موجود ہے؟“
جان اوپن شا بولا:”میں نے بند کمرے سے ملنے والے ایک کاغذ کا ذکر کیا تھا۔ یہ کاغذ کسی نوٹ بُک سے پھاڑا گیا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ اس کا تعلق ان کاغذات سے ہے جو چچا نے جلا ڈالے تھے۔ شاید یہ دیگر کاغذوں میں شامل ہونے کے باعث جلنے سے رہ گیا۔ کاغذ کے اوپر مارچ 1869ء درج ہے اور اس کے نیچے یہ جملے درج ہیں:
”4مارچ …ہڈسن کی آمد۔ پلیٹ فارم وہی ہے۔
7مارچ…میکالے، پارا مور اور سینٹ آگسٹائن کے جان سوین کوبیج بھجوائے۔
9مارچ …میکالے کا صفایا۔
10مارچ …جان سوین سے بھی نمٹا گیا۔
12مارچ…پارا مور سے بھی بات ہوئی۔“
ہومز نے کاغذ لیا، بغور پڑھا، واپس کیا اور تیزی سے بولا۔”اب آپ ایک لمحہ ضائع نہ کریں اور گھر روانہ ہوجائیں۔“
”لیکن اگلے لائحہ عمل کے متعلق تو کچھ بتائیے؟“ نوجوان کچھ تشویش سے بولا۔
”آپ بس ایک کام کیجیے۔ ابھی جو کاغذ آپ نے دکھایا، گھر پہنچتے ہی اُسے چوبی ڈبے میں ڈالیے۔ پھر یہ نوٹ لکھ کر ڈبے میں رکھیے: ”سارے کاغذات چچانے جلا دیے تھے۔ بس یہ اکلوتا کاغذ بچا ہے۔ اس کے بعد ڈبا شمسی گھڑی کے اوپر رکھ دیجیے۔ آپ ساری بات سمجھ گئے؟“ ہومز نے پوچھا۔
”جی سمجھ گیا۔“
ابھی بدلہ لینے کا خیال دل میں نہ لائیے۔ میرا خیال ہے، انھیں قانون کے شکنجے میں کسَنا ممکن ہے۔ مگر اس کے لیے ہمیں جال بننا ہے، جبکہ وہ پہلے ہی بن چکے۔ لہٰذا پہلی ترجیح یہ ہے کہ آپ کو درپیش خطرہ ٹالا جائے۔ پھر معمہ حل کر کے گناہ گاروں کو سزا دی جائے گی۔“
جان اوپن شا اٹھتے ہوئے بولا”بہت شکریہ مسٹر ہومز!آپ کا مشورہ بہت صائب ہے۔ اس نے حقیقتاً مجھے نئی زندگی عطا کردی۔ میں چلتا ہوں۔“
”دوران ِ سفر اپنی حفاظت کیجیے گا۔ آپ ایک بڑے خطرے میں گرفتار ہیں۔ آپ کیسے واپس جائیں گے؟“
”واٹر لواسٹیشن سے ریل پکڑوں گا۔“
”ابھی نو بھی نہیں بجے۔ گلیوں میں خاصا ہجوم ہوگا۔ لہٰذا شاید ہی کوئی آپ پر حملہ کرنے کی جرأت کرے۔ کیا آپ اپنا دفاع کرسکیں گے؟“
”میرے پاس پستول موجود ہے۔“
”بہت خوب۔ میں کل صبح ہی آپ کے کیس پہ لگ جاؤں گا۔“
نوجوان نے کہا،”تب میں ہورشام میں آپ کا انتظار کروں۔“
”نہیں نہیں، آپ کا راز لندن میں پوشیدہ ہے۔ میں یہیں اُسے تلاش کروں گا۔“
نوجوان رخصت ہوا، تو ہومز نے پائپ سُلگایا، آرام کرسی سے ٹیک لگائی اور اپنی سوچوں میں گم ہوگیا۔ میں نے اس کی سوچ میں مخل ہونا مناسب نہیں سمجھا اور خاموش رہا۔ پندرہ بیس منٹ بعد آخر وہ خود ہی بولا”واٹسن! ہم نے اب تک جتنے کیس لیے ہیں، شاید ان میں یہ سب سے زیادہ انوکھا ہے۔“
”ہاں، مگر تم نے کچھ نتیجہ تو نکالا ہوگا۔“ میں نے دریافت کیا۔
”حالات کا بغور جائزہ لینے سے بعض حقائق ضرور سامنے آئے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ، کرنل اوپن شا تنہائی پسند آدمی تھا۔ لیکن کسی کے شدید خوف نے اُسے مجبور کردیا کہ وہ امریکا سے فرار ہوجائے۔ وہ خوف کیا تھا؟ اس کا اندازہ ان خطوط سے لگانا ممکن ہے، جو کرنل اور دیگر افراد خانہ کو موصول ہوئے۔ کیا تم نے نوٹ کیا کہ ان خطوط پہ کن شہروں کی مہر یں ثبت تھیں؟“
میں نے بتایا ”پہلا خط پونڈیچری سے بھیجا گیا۔ دوسرا ڈینڈی جبکہ تیسرا لندن سے سپرد ڈاک ہوا۔
ہومز! ان ثبوتوں سے تم نے کوئی نتیجہ نکالا؟“
”یہ تمام بندر گاہیں ہیں۔ گویا خطوط کا مصنف کسی جہاز پہ سوار ہے۔“
”بہت خوب! گویا ہمارے ہاتھ ایک اہم سراغ لگ گیا۔ یہ تقریباً یقینی ہے کہ مصنف کسی جہاز میں سوار ہے۔ اب ایک نکتہ اور دیکھو۔ پونڈیچری کے معاملے میں خط ملنے اور کرنل کے مرنے تک سات ہفتے گزر گئے۔ جبکہ ڈینڈی والے خط اور جان کے والد کی موت میں تین چار دن کا فاصلہ ہے۔ حقیقت کیا بتاتی ہے؟“
”یہی کہ جہاز نے طویل فاصلہ طے کیا۔“
”مگر خط کو بھی تو لمبا فاصلہ طے کرنا پڑا۔“
”تو پھر؟تمھارا مطلب کیا ہے؟“
”مطلب یہ کہ وہ آدمی بادبانی کشتی میں سفر کررہا ہے۔ لگتا ہے کہ اس نے ہر بار آغاز سفر میں دھمکی آمیز خط لکھا۔ چونکہ پونڈیچری سے بادبانی کشتی سات ہفتے میں لندن پہنچی، لہٰذا کرنل بھی اتنے عرصے زندہ رہا۔ ڈینڈی قریب ہے، لہٰذا جان کا باپ خط ملنے اور مرنے تک تین چار دن ہی زندہ رہا۔ گویا مصنف ڈاک لانے والی بھاپ کشتی میں سوار ہوتا، تو بھی خط کے ساتھ ہی برطانیہ پہنچتا۔ لیکن حقیقت برعکس ہے۔“
”تمھاری بات میں وزن ہے۔“ میں نے ہومز کو سراہتے ہوئے کہا۔
”مجھے یقین ہے کہ یہی بات ہے اور یہ حقیقت آشکار کرتی ہے کہ جان سخت خطرے میں ہے۔ کیونکہ مصنف اس شہر میں آچکا اور وہ کسی بھی وقت وار کرسکتا ہے۔“
”اُف میرے خدا!آخر یہ دھمکی آمیز خطوط لکھنے کا مقصد کیا ہے؟“
”کرنل اوپن شا کے ڈبے میں موجود کاغذات یقینا بادبانی کشتی میں سوار شخص یا اشخاص کے لیے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں ایک سے زیادہ افراد شریک ہیں۔ کیونکہ تنہا آدمی اس انداز میں دو انسانوں کو قتل نہیں کرسکتا کہ ان کا مرنا حادثاتی لگے۔ یہ ایسے گروہ کی کارروائی ہے جو وسائل اور مصمم ارادہ بھی رکھتا ہے۔ گویا کے۔کے۔کے کسی فرد نہیں ایک گروہ کی مہر بن جاتا ہے۔“
”مگر کون سا گروہ؟“ میں نے دریافت کیا۔
ہومز نے کچھ توقف کیا پھر رازدارانہ لہجے میں بولا۔”تم نے کبھی کو کلکس کلان کا نام سنا ہے؟“
”نہیں تو۔“

”اچھا میں بتاتا ہوں۔“ یہ کہہ کر ہومز امریکن انسائیکلو پیڈیا اٹھا لایا اور ورق گردانی کے بعد ایک مخصوص صفحہ پڑھنے لگا:”کوکلکس کلان کا عجیب و غریب نام رائفل کا گھوڑا چڑھانے کی آواز سے ماخوذ ہے۔یہ خطرناک خفیہ سوسائٹی ان امریکی راہنماؤں نے1865ء میں قائم کی جو خانہ جنگی میں ہار گئے تھے۔ سوسائٹی کے ارکان لوزیانا، فلوریڈا، جارجیا اور ٹینیسی کی ریاستوں میں سرگرم عمل رہے۔
شروع میں سوسائٹی نے سیاہ فام باشندوں کو دہشت زدہ کیا۔ پھر ان سفید فاموں کو بھی تنگ کرنے لگی جن کے فارموں میں سیاہ فام کسان کام کرتے تھے۔ فارموں کے مالکوں سے بھتّہ طلب کیا جاتا۔ اگر کوئی انکار کرتا، تو اُسے عجیب طریقے سے قتل کی دھمکی دی جاتی۔ مثلاً کبھی خط میں خشک پتے بھجوائے جاتے اور کبھی مالٹے کے بیج یا تربوز کے بیج۔
دھمکی ملنے پر مالک بھتّہ ادا کرتا یا پھر ناچار ملک سے فرار ہو جاتا۔ جو مزاحمت کرتا، سوسائٹی کے ارکان اُسے یوں ٹھکانے لگاتے کہ وہ سراغ رسانوں کی نظر میں بھی قتل قرار نہ پاتا۔ امریکی حکومت نے کوکلکس کلان کو ختم کرنے کی بہت کوششیں کیں مگر کامیاب نہ ہوسکی۔ آخر1869ء میں اچانک سوسائٹی کی سرگرمیاں ماند پڑگئیں اور اب کبھی کبھار ہی اس کے متعلق سننے کو ملتا ہے۔“
ہومز پھر انسائیکلو پیڈیا تپائی پر رکھتے ہوئے گویا ہوا: ”واٹسن! نوٹ کرو، جس سال کرنل اوپن شا ان کے جرائم افشا کرنے والے کاغذات لے اُڑا، تبھی سوسائٹی کی سرگرمی رک گئی۔ یقینا ان کاغذات میں ایسی شخصیات کے اصلی نام درج تھے جو جعلی ناموں سے سوسائٹی کی مجرمانہ کارروائیوں میں حصہ لیتے رہے اور جب کاغذات کرنل لے اُڑا، تو ان کی نیندیں حرام ہوگئیں۔ انھوں نے پھر کرنل کے پیچھے آدمی لگا دیے تاکہ کاغذات حاصل کرسکیں۔“
”گویا ہم نے جو کاغذ دیکھا وہ ان کا حصہ تھا۔“ میں نے پوچھا۔
”ہاں، اور اسی میں درج تھا کہ کن اشخاص کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ کاغذات دو انسانوں کی جانیں لے چکے، اب تیسرے کی زندگی بھی خطرے میں ہے۔ واٹسن! رات کافی ہوچکی۔ سونے کا وقت آپہنچا۔ اب خدا سے یہی دعا ہے کہ وہ جان کو اپنی امان میں رکھے۔ میں اپنے کمرے میں جارہا ہوں۔ صبح ملاقات ہوگی۔“
صبح میں اُٹھا، تو دھوپ چمک رہی تھی۔ منہ ہاتھ دھو کر ناشتے کی میز پر پہنچا، تو ہومز کو وہاں بیٹھے پایا۔ وہ ناشتا کر چکا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی بولا”واٹسن! معاف کرنا، جلدی تھی، اس لیے انتظار نہیں کیا۔ ایک مصروف دن میرا منتظر ہے۔“
وہ چائے کی آخری چُسکیاں لے رہا تھا کہ میں اخبار پڑھنے لگا۔ جلد ہی میری نظر سرخی”واٹر لو پُل پر المناک واقعہ“ پر ٹھہر گئی۔ اس میں جان اوپن شا کا نام پڑھ کر میں چوکنا ہوا اور ہومز کی توجہ بھی خبر کی جانب مبذول کرائی۔ لکھا تھا:
”رات سوا نو بجے سپاہی کک واٹرلو پُل کے نزدیک ڈیوٹی دے رہا تھا۔ اچانک اُسے ایک چیخ اور پھر چھپاکے کی آواز سنائی دی۔ پھر کوئی ”بچاؤ، بچاؤ“ پکارنے لگا۔ لیکن تاریکی اتنی زیادہ تھی کہ سپاہی گزرنے والوں کی مدد کے باوجود ڈوبنے والے تک نہ پہنچ سکا۔ مگر الارم بج چکا تھا۔ لہٰذا پولیس کے غوطہ خور آپہنچے۔ انھوں نے ڈوبنے والے کی لاش تلاش کرلی۔ مقتول کے کوٹ سے ایک خط برآمد ہوا۔ اس سے پتا چلا کہ نوجوان کا نام جان اوپن شا ہے۔ شاید وہ ریلوے اسٹیشن جا رہا تھا لیکن پھسل کر دریائے ٹیمز میں جاگرا۔ پولیس مزید چھان بین کررہی ہے۔“
ہم پر یہ خبر بجلی بن کر گری کہ جان دنیا میں نہیں رہا۔ ہومز اداسی اور غصے کے ملے جلے جذبات میں کہنے لگا”واٹسن!انھوں نے مجھے نیچا دکھا دیا۔ اب یہ میرا ذاتی معاملہ بن چکا۔ میں اس گینگ کو نہیں چھوڑوں گا۔ انھوں نے مجھ سے مدد لینے والے کو مار کر اپنی موت کو دعوت دی ہے۔ میں اب چلتا ہوں۔“
”تم پولیس کے پاس جارہے ہو؟“
”نہیں، میں پہلے ان کے گرد جالا بُن دوں، پھر پولیس”مکھیاں“پکڑلے گی۔“
میں حسبِ معمول اپنے کلینک چلا گیا اور شام کو واپس آیا۔ ہومز گھر پر موجود نہ تھا۔ میں اس کا انتظار کرنے لگا۔ وہ رات دس بجے آیا۔ تھکن اس کے انگ انگ سے ظاہر تھی۔ اس نے آتے ہی سب سے پہلے کھانا کھایا۔ مجھے بتایا کہ مصروفیت میں وہ کھانا کھانا ہی بھول گیا۔
جب اس کے اوسان بحال ہوئے، تو میں نے سارے دن کی سرگزشت کے متعلق دریافت کیا۔ وہ بولا”پاجی کہیں کے، میرے پھندے میں پھنس چکے۔ وہ اب زیادہ عرصہ آزاد نہیں گھوم سکتے۔ واٹسن! کیوں نہ انھیں انہی کے شیطانی طریقے سے جواب دیا جائے؟“
یہ کہہ کر ہومز نے سامنے طشتری میں پڑا ایک مالٹا اُٹھایا، اُسے کاٹا اور پانچ بیج نکال لیے۔ انھیں پھر ایک لفافے میں ڈالا اور ساتھ یہ نوٹ لکھ کر رکھا:”ایس۔ایچ کی طرف سے جے او کے لیے۔“ لفافے پر یہ پتا لکھا: ”کیپٹن جیمز کالون، لون سٹار، سوانا، جارجیا، امریکا۔“
یہ سرگرمی تمام کرکے ہومز بولا:”جیسے ہی بادبانی کشتی سوانا بندر گاہ میں داخل ہوگی، یہ خط اُسے مل جائے گا۔ اس کی کم از کم ایک رات تو شدید پریشانی کے عالم میں کروٹیں بدلتے گزرے گی۔“
”یہ کیپٹن جیمز کون ہے؟“
”کرنل، اس کے بھائی اور جان کو قتل کرنے والے گینگ کا لیڈر۔ میں دوسروں پر بھی ہاتھ ڈالوں گا، مگر پہلے اِسے پکڑ لوں۔“
”تم اس گینگ تک کیسے پہنچے؟“
ہومز نے جیب سے ایک لمبا کاغذ نکال کر دکھایا جس پر نام اور تاریخیں درج تھیں۔ کہنے لگا”میں صبح سیدھا رائڈررجسٹر آف شپنگ پہنچ گیا۔ وہاں سارا دن جہازوں کے اندراج والے رجسٹر اور فائلیں دیکھتا رہا۔ سب سے پہلے دیکھا کہ جنوری اور فروری 1883ء میں پونڈیچری کون سی بادبانی کشتیاں آئیں۔ معلوم ہوا کہ 36کشتیاں آئی تھیں۔ ان میں سے ”لون سٹار“ نے فوراً میری توجہ حاصل کرلی۔ کیونکہ امریکی ریاست ٹیکساس کو اس نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔“
”پھر کیا ہوا؟“
”میں نے پھر ڈینڈی کے ریکارڈ دیکھے۔ ان سے افشا ہوا کہ جنوری 1885ء میں لون سٹار وہاں موجود تھی۔ یوں میرا شک یقین میں بدلنے لگا۔ میں نے پھر یہ معلوم کیا کہ لندن میں کون سی بادبانی کشتیاں کھڑی ہیں اور …اور پتا چلا، لون سٹار پچھلے ہفتے لندن پہنچی تھی۔ میں فوراً بندر گاہ پہنچا، لیکن وہ پہلے ہی روانہ ہو چکی تھی۔“
”تم نے پھر کیا قدم اٹھایا؟“
میں نے فوراً یہ معلومات لیں کہ کشتی میں کون لوگ سوار تھے۔ بیشتر جرمنی یافن لینڈ سے تعلق رکھتے تھے، کپتان سمیت صرف تین آدمی امریکی نکلے اورمجھے ایک قلی سے معلوم ہوا کہ تینوں رات کو باہر گئے تھے۔ واٹسن! ہمیں یہی تینوں مطلوب ہیں۔ جب ان کی کشتی سوانا پہنچے گی، تو کیپٹن جیمز کو خط مل جائے گا۔ جبکہ اگلے دن یہ تار سوانا پولیس کو ملے گا کہ تینوں جینٹل مین قتل کے سلسلے میں لندن پولیس کو مطلوب ہیں۔“
انسان جس بات کا عزم کرے، وہ کبھی کبھی پوری نہیں ہوتی۔ ہمارے بھجوائے گئے مالٹے کے بیج مجرموں تک نہ پہنچ سکے کیونکہ دنیا ہی میں انھیں اپنے کیے کی سزا مل گئی۔ اس سال سمندروں میں طوفانوں کی کثرت تھی۔ لون سٹار جیسے ہی کھلے سمندر میں پہنچی،کسی زبردست طوفان کا نشانہ بن گئی۔
اِدھر ہم انتظار کرتے رہے کہ کشتی کب سوانا کی بندرگاہ پہنچتی ہے، مگر کوئی خبر نہ آئی۔ کئی ہفتے بعد یہ اطلاع ملی کہ ایک بہتا مستول دیکھا گیا جس پر لون سٹار درج تھا۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top