skip to Main Content

مخلص دوست

تحریر: The Devoted Friend
مصنف: Oscar Wilde
مترجم: محمد مصطفی نذیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک روشن صبح،چھوٹی چھوٹی چمک دار آنکھوں، بھورے رنگ اور لمبی کالی دم والے گندے پانی کے چوہے نے اپنے بل سے باہرسر نکالاتواس نے دیکھا کہ قریب ہی چند بطخ کے بچے تالاب میں تیر رہے ہیں۔ ان کی ماں جو کہ سفید رنگ کی تھی اور اس کی ٹانگیں لال تھیں، وہ اپنے بچوں کو سر کے بل پانی میں کھڑا ہونا سکھا رہی تھی۔
”کوئی کبھی بھی آپ کو اصلی بطخ نہیں سمجھے گا جب تک کہ آپ پانی میں اپنے سر کے بل کھڑا ہونا نہ سیکھ لیں۔“ ان کی ماں تیراکی سکھاتے ہوئے عملاً کرکے دکھاتی جاتی اور ساتھ ساتھ منہ سے بھی بتاتی جاتی۔لیکن چھوٹی بطخیں اپنی ماں طرف زیادہ توجہ نہیں دے رہی تھیں۔ وہ بہت چھوٹی تھیں اس لئے وہ سمجھ نہیں پا رہی تھیں کہ ان کی ماں کی بات کی کیا اہمیت ہے اور اس کی طرف توجہ دینا کتنا ضروری ہے۔
”کتنے نافرمان بچے ہیں؟“ گندے پانی کا چوہا چلایا:”انہیں تو ڈوب ہی جانا چاہیے۔“
”یہ نافرمان نہیں ہیں۔“ بطخ نے جواب دیا:”ہم سب کو کہیں نہ کہیں سے تو شروعات کرنی پڑتی ہیں اور ماں باپ ہمیشہ صبر کا دامن تھامے رکھتے ہیں۔“
”آہ! میں والدین کے جذبات کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔“ گندے پانی کے چوہے نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا:”میرا خاندان نہیں ہے۔ خاندانی زندگی انتہائی خوشگوار ہوتی ہے،لیکن مجھے لگتا ہے کہ دوستی اس سے بھی اچھی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ میں دنیا میں ایک سچے اور مخلص دوست سے زیادہ مقدس کسی چیز کو نہیں سمجھتا۔“
”ایک اچھے اور مخلص دوست کے کیا فرائض ہوتے ہیں؟“ قریب ہی درخت پر بیٹھے ایک خوبصورت پرندے نے ان سے سوال کیا، جو ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا۔
”یہ فرائض صرف وہی ہوتے ہیں جو ہماری چاہت ہوتے ہیں۔“ بطخ نے جواب دیا۔ لیکن وہ مزید وہاں نہ رکی اور تیرتی ہوئی تالاب کے آخر تک جا پہنچی اور اپنے بچوں کو سکھانے کے لئے سر کے بل کھڑی ہوگئی۔
”کیا فضول سوال ہے؟“ چوہا چلایا۔”یقینامیں اپنے مخلص دوست سے یہی امید رکھوں گا کہ وہ بھی مجھ سے مخلص ہو۔“
”اور بدلے میں تم اسے کیا دوگے؟“ خوبصورت پرندے نے سوال کیا۔
”میں سمجھا نہیں۔“ چوہے نے جواب دیا۔
”میں اس حوالے سے تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں۔“ خوبصورت پرندے نے چوہے سے کہا۔
”کیا یہ کہانی میرے لئے ہے؟“ چوہے نے پوچھا۔”اگر ایسا ہے تو میں اسے ضرور سنو ں گا۔“
”یہ تمہارے مطلب کی ضرور ہے۔“ خوبصورت پرندے نے جواب دیا۔
ہیری اور ہوگن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرندہ نیچے آیا اورایک دوست کی کہانی سنانا شروع کی:
”ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ ایک چھوٹے قد کاایمان دار مگر غریب آدمی رہا کرتا تھا، جس کا نام ’ہیری‘ تھا۔“ پرندے نے کہانی کا آغاز کیا۔
”کیا وہ بہت اہم آدمی تھا؟“ چوہے نے پوچھا۔
”نہیں۔“ پرندے نے جواب دیا۔”مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایک اہم شخص تھا، لیکن اس کا مہربان دل اور ہنستا مسکراتا چہرہ ضرور اہم تھا۔
وہ ایک چھوٹے سے جھونپڑی نما گھر میں اکیلا رہتا تھا اور روزانہ اپنے باغیچے میں کام کیا کرتا تھا۔ پورے علاقے میں اس کے باغیچے سے زیادہ خوبصورت کوئی باغیچہ نہیں تھا۔ اس کے باغیچے میں ہمیشہ خوبصورت پھول دیکھنے کو ملتے۔
غریب ہیری کے بہت سے دوست تھے مگر ان میں سب سے اچھا ایک ”ہوگن“ نامی دوست تھا جو ایک آٹے کی چکی کا مالک تھا اور خاصا امیر تھا۔ وہ پہاڑی کی چوٹی پر رہتا تھا۔ اگر چہ امیر ہوگن بھی ہیری کے لئے مخلص تھا لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ ہوگن ہیری کے باغیچے سے پھولوں کا ایک بڑا گلدستہ لے کرنہ گیا ہو۔اگر ان دنوں کسی پھل کا موسم ہوتا تو ہوگن آتا اور اپنی تمام جیبیں تازہ پھلوں سے بھر کر لے جاتا۔
”حقیقی دوست ہمیشہ اپنی چیزیں ایک دوسرے میں بانٹتے ہیں۔“ ہوگن ہمیشہ یہ جملہ کہا کرتا اور ہیری ہمیشہ اس سے اتفاق کرتا اور مسکرا دیتا۔ ہیری اپنے آپ پر بہت فخر محسوس کرتا کہ اس کے پاس ایک ایسا دوست ہے جس کے خیالات اتنے اچھے ہیں۔
کبھی کبھار ارد گرد کے لوگ ہیری کو سمجھاتے کہ امیر ہوگن کبھی بدلے میں اسے کچھ نہیں دے گا۔ اگر چہ اس کی چکی میں سینکڑوں آٹے کی بوریاں رکھی ہیں، اس کے پاس چھ گائیں ہیں اور بیس سے تیس اچھی خاصی موٹی بھیڑیں ہیں،لیکن ہیری ان سب چیزوں کے بارے میں کبھی نہیں سوچتا تھا وہ بس سچی دوستی کے متعلق ہوگن کے خیالات سن کر متاثر ہوتا رہتا اور خوش ہوتا۔
ایک اچھا بات کرنے والا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر روز ہیری اپنے باغیچے میں سخت محنت کرتا۔ بہار، گرمی اور خزاں کے موسم میں وہ بے حد خوش رہتا، لیکن جب سردی کا موسم آتا تو اس کے پاس کوئی پھول ہوتا اور نہ ہی کوئی پھل، جسے وہ بازار میں جا کر بیچ سکے۔ اس موسم میں اسے ٹھنڈ اور بھوک جیسی بڑی مشکلات کا سامنا ہوتا۔ زیادہ تر اس کے پاس سوکھی ہوئی ناشپاتیوں اور چند خشک میوہ جات کے علاوہ کھانے کے لئے کچھ نہ ہوتا۔سردیوں میں وہ بالکل اکیلا ہوجاتا اور ان دنوں ہوگن بھی اس سے ملنے کے لئے نہیں آتا تھا۔
”میں اتنی برف باری میں ہیری کے پاس نہیں جانا چاہتا۔“ سردیوں کی ایک رات ہوگن نے اپنی بیوی سے کہا۔”جب لوگ بہت غریب ہوتے ہیں تو اکیلا رہنا پسند کرتے ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ لوگ انہیں ہمیشہ دیکھنے کے لئے آتے رہیں۔اس سے ان کی زندگی انتہائی مشکل ہو جاتی ہے۔ میرا تو دوستی کے بارے میں یہی نظریہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ میں ٹھیک سوچتا ہوں۔ میں موسم بہار کے آنے کا انتظار کرو ں گا، پھر ہیری سے ملنے جاؤں گا، تب تک اس کے باغیچے میں نئے رنگ برنگے پھول بھی کھل چکے ہوں گے اور وہ مجھے پھولوں سے بھری ٹوکری بھی دے سکے گا، جسے دے کر اسے بہت اچھا لگتا ہے۔“
”تم ایک انتہائی مہربان شخص ہو۔“ ہوگن کی بیوی نے کہا، جو آگ کے الاؤ کے پاس ایک آرام کرسی پربیٹھی تھی۔”بہت ہی مہربان ہو تم!…… دوستی کے متعلق تمہارے خیالات کتنے اچھے ہیں، انہیں سن کر اچھا لگتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اتنا اچھا توکوئی تقریر کرنے والا بھی نہیں سوچتا ہوگا جتنی اچھی باتیں تم کرتے ہو۔“
”لیکن ہم غریب ہیری کو یہاں کیوں نہیں بلا سکتے؟“ ہوگن کے چھوٹے بیٹے نے سوال کیا۔”اگر بے چارہ ہیری اس وقت مشکل میں ہے تو میں اسے اپنا آدھا کھانا دے دوں گا اور میں اسے اپنے سفید خرگوش بھی دکھاؤں گا۔“
”کتنے ناسمجھ لڑکے ہو تم!“ ہوگن اپنے بیٹے کو ڈانٹتے ہوئے چلایا۔”مجھے سمجھ نہیں آتی کہ تم اسکول میں کیا سیکھنے جاتے ہو؟ تم کچھ نہیں سیکھتے، کچھ نہیں سمجھتے۔ اگر غریب ہیری یہاں اوپر آگیا اور اس نے ہماری اس گرم آگ کو دیکھ لیا اور ہمارے عیش و آرام کو دیکھ لیا تو ہو سکتا ہے کہ اس کے اندر حسد پیدا ہوجائے۔ حسد ایک خطرناک بیماری ہے جو غریب ہیری کو ایک اچھے انسان سے برے انسان میں تبدیل کر دے گی۔ میں نہیں چاہتا کہ میرا دوست ایک برا آدمی بن جائے۔ میں اس کا سب سے اچھا دوست ہوں اور میں اس کے لئے ہراس چیز کا خیال رکھوں گا جو اس کی اچھائی برقرار رکھے۔ اس کے علاوہ اگر وہ یہاں آگیا تو مجھ سے آٹا مانگے گا، جو کہ میں اسے نہیں دوں گا کیونکہ میں ایک چکی والا ہوں۔ آٹا بیچنا ہمارا کاروبار ہے۔ کاروبار ایک الگ چیز ہے اور دوستی الگ، ان دونوں کو کبھی ایک نہیں کرنا چاہیے۔“
”تم کتنا اچھا اچھابولتے ہو!“ ہوگن کی بیوی نے کہا۔
”بہت سے لوگ اچھے ہوتے ہیں۔“ ہوگن نے جواب دیا۔”لیکن بہت کم لوگ اچھی بات کر سکتے ہیں۔ اچھا ہونے اور اچھا بولنے میں فرق ہوتا ہے۔ اچھا بولنا ایک مشکل کام ہے اور یہی مشکل انسان کو اچھا بناتی ہے۔“
ہوگن نے میز کے قریب بیٹھے اپنے بیٹے کو دیکھا جو شرمندہ ہوکر رونے کے قریب تھا۔

ریڑھی
۔۔۔
جیسے ہی سردیوں کا موسم ختم ہوا اور پہلی بار موسم کے خوبصورت پھول کھلے،ہوگن نے اپنی بیوی سے کہا کہ اب وہ نیچے جائے گا اور غریب ہیری کو دیکھ آئے گا۔
”کتنا نرم دل ہے تمہارا!“ ہوگن کی بیوی نے کہا۔”تم ہمیشہ دوسروں کے بارے میں سوچتے ہو۔ پھولوں کے لئے اپنے ساتھ بڑی ٹوکری لے کر جانا مت بھولنا۔“
امیر ہوگن اپنے بازو میں ٹوکری لٹکائے غریب ہیری سے ملنے گیا۔
”صبح بخیر پیارے ہیری!“ ہوگن نے کہا۔
”صبح بخیر۔“ ہیری نے ہمیشہ کی طرح اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے جواب دیا۔
”کیسا گزرا تمہارا سردیوں کا موسم؟“ ہوگن نے پوچھا۔
”اچھا رہا!“ ہیری نے جواب دیا۔”مجھے اچھا لگا کہ تم نے پوچھا۔ میں گھبرا گیا تھا کیونکہ وہ ایک مشکل وقت تھا،لیکن اب بہار آگئی ہے۔ اب میں پوری طرح خوش و خرم ہوں۔“
”سردیوں میں ہم اکثرتمہارا ذکر کیا کرتے تھے ہیری۔“ ہوگن نے بتاتے ہوئے کہا۔”اور حیران ہوتے تھے کہ تم کیسے گزارا کرتے ہوگے۔“
”یہ تمہاری مہربانی ہے۔“ ہیری نے کہا۔”میں تھوڑا ڈر گیا تھا کہ کہیں تم مجھے بھول تو نہیں گئے۔“
”ہیری! مجھے تم پر حیرت ہوئی۔“ ہوگن نے سمجھاتے ہوئے کہا۔”دوستی کبھی نہیں بھولتی اور یہی اس کی خوبصورتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ تم یہ نہیں سمجھ پاؤ گے۔“
بولتے ہوئے ہوگن نے اس کے باغیچے پر ایک نظر دوڑائی۔”کتنے خوبصورت پھول کھلے ہیں!“ ہوگن نے تعریف کرتے ہوئے کہا۔
”یہ یقینا بہت ہی پیارے ہیں۔“ ہیری نے کہا۔”اور یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میرے پاس یہ بہت زیادہ ہیں۔ میں انہیں بازار لے جا کر بیچوں گا اور پھر ان پیسوں سے اپنی ریڑھی خرید کرواپس لاؤں گا۔“
”خرید کر واپس لاؤں گا؟ کیا تم نے اسے بیچ دیا تھا؟ کیا بے وقوفی کی تم نے؟“ ہوگن چلایا۔
”سچ یہ ہے کہ میں نے ایساہی کیا ہے۔“ہیری نے بتایا۔”تم جانتے ہو کہ سردیوں کا موسم میرے لئے کتنی خراب آزمائش لاتا ہے۔ میرے پاس روٹی خریدنے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ اسی لئے پہلے تو میں نے اپنے کوٹ کے خوبصورت بٹن بیچے، اس کے بعدمجھے اپنی گھڑی بیچنی پڑی اور آخر میں اپنی ریڑھی بھی بیچ ڈالی، لیکن اب میں یہ سب دوبارہ حاصل کر لوں گا۔“
”اوہ ہیری!“ ہوگن نے افسوس کرتے ہوئے کہا۔ ”میں تمہیں اپنی ریڑھی دینے کو تیار ہوں۔ وہ بہت اچھی تو نہیں ہے، ایک طرف سے تھوڑی ٹوٹی ہوئی ہے اور اس کے دائیں پہیے میں بھی تھوڑا مسئلہ ہے، لیکن میں پھر بھی وہ تمہیں دوں گا۔ میں جانتا ہوں کہ یہ میری طرف سے سخاوت ہے اور اس طرح کی سخاوت کرنے پر لوگ مجھے بے وقوف بھی کہتے ہیں،لیکن میں باقی لوگوں کی طرح نہیں ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کی سخاوت دوستی میں کتنی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ میں اپنے لئے ایک نئی ریڑھی پہلے ہی خرید چکا ہوں تو میں تمہیں اپنی پرانی ریڑھی ضرور دوں گا۔ اس کے بدلے تمہیں میرا شکریہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔“
”تم بہت سخی ہو!“ ہیری نے مسکراتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔”میں اسے آسانی سے مرمت کر لوں گا، میرے پاس گھر میں لکڑی کا ایک تختہ رکھا ہے۔“
”لکڑی کاایک تختہ؟“ ہوگن نے پوچھا۔”مجھے اپنی چھت کی مرمت کے لئے لکڑی کاایک تختہ چاہیے۔ میری چھت میں سوراخ ہوگیا ہے اور اگر میں نے اس کی مرمت نہ کی تو بارش کے دنوں میں اس سے پانی ٹپکنے لگے گا۔ کتنا اچھا ہے کہ تم نے لکڑی کے تختے کا ذکر کیا۔ یہ بھی کتنی حیرت کی بات ہے ناکہ ایک اچھا عمل دوسری اچھائی کی طرف لے جاتا ہے۔ میں تمہیں اپنی ریڑھی دے چکا ہوں اور تم مجھے لکڑی کا تختہ دینے جا رہے ہو، لیکن سچی دوستی میں ان چیزوں کی پروا نہیں کی جاتی۔ تم ایسا کرو کہ لکڑی کا تختہ مجھے ابھی لادو تا کہ میں آج شام میں ہی چھت کی مرمت کے کام کا آغاز کر دوں۔“
”ابھی لایا۔“ ہیری نے کہا اور لکڑی کا تختہ لینے چلا گیا۔
”یہ زیادہ بڑا تو نہیں ہے۔“ ہوگن نے تختے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”مجھے ڈر ہے کہ چھت کی مرمت کرنے کے بعد تمہارے پاس اپنی ریڑھی کو ٹھیک کرنے کے لئے لکڑی نہیں بچے گی،لیکن یقینا یہ میری غلطی نہیں کیونکہ میں تمہیں اپنی ریڑھی دینے والا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اس کے بدلے تم مجھے کچھ پھول ضرور دوگے۔ یہ رہی میری ٹوکری۔ خیال کرنا کہ یہ پوری بھر جانی چاہیے۔“ ہوگن نے ٹوکری ہیری کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”مکمل بھرنی ہے؟“ ہیری نے افسردگی سے پوچھا۔ کیونکہ یہ ایک بہت بڑی ٹوکری تھی اور ہیری جانتا تھا کہ اگر اس نے ٹوکری بھر دی تو اس کے پاس اتنے پھول نہیں بچیں گے کہ جنہیں وہ بازار میں فروخت کر کے اپنے کوٹ کے خوبصورت بٹن حاصل کر سکے۔
”ٹھیک ہے!“ ہوگن نے کہا۔”جیسا کہ میں نے کہا کہ میں تمہیں اپنی ریڑھی دوں گا تو مجھے نہیں لگتا کہ تم سے کچھ پھولوں کا مانگنا زیادتی ہے۔ ہو سکتا ہے میں غلط ہوں لیکن میں اس دوستی کے بارے میں سوچتا ہوں۔ سچی دوستی، جو کہ خود غرضی سے بالکل آزاد ہے۔“
”میرے پیارے دوست! میرے اچھے دوست!“ ہیری پکارا۔”تم میرے باغیچے کے سارے پھول لے سکتے ہو۔“ یہ کہتے ہوئے ہیری جلدی سے ہوگن کی بڑی سی ٹوکری پھولوں سے بھرنے لگا۔
”خدا حافظ پیارے ہیری!“ ہوگن نے جاتے ہوئے کہا کیو نکہ اسے لکڑی کا تختہ اپنے کندھے پر اٹھائے اور پھولوں کی بڑی ٹوکری سنبھالے پہاڑی چڑھنا تھی۔
”خدا حافظ۔“ ہیری نے جواب دیااور خوشی سے باغیچے میں کام کرنے لگ گیا۔ وہ ریڑھی کا سوچ کر انتہائی خوش تھا۔
آٹے کی بوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن جب ہیری اپنے باغیچے میں کام کر رہا تھا تبھی اس نے ہوگن کی آواز سنی جو اسے سڑک سے بلا رہا تھا۔ ہیری باغیچے سے نیچے اترا اور دیوار کے اوپر سے باہر دیکھا، وہاں ہوگن آٹے کی ایک بڑی بوری اٹھائے کھڑا تھا۔
”پیارے ہیری!“ ہوگن نے کہا۔ ”تم برا تو نہیں مانوگے، اگر تم یہ آٹے کی بوری بازار لے جاؤ، میری خاطر۔“
”اوہ! مجھے بہت افسوس ہے۔“ ہیری نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔”کیوں کہ میں آج بہت مصروف ہوں۔“
”چلو ٹھیک ہے۔“ ہوگن نے جواب دیا۔”تم جانتے ہو کہ میں تمہیں اپنی ریڑھی دینے جا رہا ہوں۔ یہ بالکل دوستانہ رویہ نہیں کہ بوری بازار لے جانے میں تم میری مدد نہ کرو۔“
”اوہ! ایسا مت کہو۔“ ہیری چلایا۔”میں تمہارے ساتھ اپنی دوستی کو بالکل بھی خرا ب نہیں کرنا چاہتا۔“ یہ کہتے ہی ہیری اپنی جھونپڑی میں گیا، اپنا کوٹ لیا اور آٹے کی بوری کو اپنے کاندھوں پر اٹھائے بازار کی طرف چل دیا۔
وہ ایک انتہائی گرم دن تھا اور سڑک پر بہت دھول تھی۔ لیکن ہیری ہمت کے ساتھ اس وقت تک چلتا رہا جب تک کہ وہ بازار نہیں پہنچ گیا۔ ہیری نے بازار میں تھوڑا آرا م کیا، اس کے بعد آٹے کی بوری کو بہت اچھے داموں فروخت کیا۔ اب وہ جلدی گھر جانا چاہتا تھا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ اسے زیادہ دیر ہوگئی تو راستے میں چوروں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
”آج کا دن ایک بہت ہی سخت دن تھا۔“ غریب ہیری نے پلنگ پر جاتے ہوئے اپنے آپ سے کہا۔”لیکن مجھے خوشی ہے کہ میں ہوگن کی مدد کرنے کے لئے راضی ہوا۔ وہ میرا اچھا دوست ہے اور وہ مجھے اپنی ریڑھی بھی دینے والا ہے۔“
اگلے دن صبح صبح ہوگن اپنی آٹے کی بوری کی رقم لینے کے لئے نیچے آیا۔ غریب ہیری ابھی تک نہیں اٹھا تھا۔ ہیری بہت تھک گیا تھا اسی لئے ابھی تک آرام کر رہا تھا۔
”کتنے سست ہو تم؟“ ہوگن چلایا۔ ”میں سوچ رہا ہوں کہ میں کیوں تمہیں اپنی ریڑھی دینے جا رہا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ تمہیں تھوڑی سخت محنت کرنی چاہیے اور مجھے یہ پسند بھی نہیں کہ میرا دوست اتنا سست ہو۔ سستی ایک بڑا گناہ ہے۔ تم میری باتوں کابرا مت ماننا کیوں کہ میں سچ بول رہا ہوں۔ اگر تم میرے سچے دوست نہ ہوتے تومیں یہ سب بالکل نہ کہتا۔ لیکن وہ سچی دوستی ہی کیا کہ ایک انسان اپنے دوست سے سچ بھی نہ بولے؟ ہر شخص اچھا اچھا بولتا ہے لیکن ایک اچھا دوست وہی ہوتا ہے جو دوسرے کو اس کی غلطی بتاتا ہے، جس کااسے برا نہیں ماننا چاہیے۔ اگر وہ ایک سچا دوست ہے تو اسے ضرور دوسرے کو غلطی بتانی چاہیے اور اسے پوچھنا چاہیے کہ وہ اسے درست کیسے کرے۔“
”مجھے معاف کردو دوست۔“ ہیری نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا۔ ”لیکن میں بہت تھک گیا تھا، تو میں نے سوچا آج تھوڑا اور آرام کر لوں اور چڑیوں کی چہچہاہٹ سن لوں۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ سن کر میرا دن اچھا گزرتا ہے اور کام بھی اچھی طرح سے ہوتا ہے۔“
”چلو اچھا ہے۔“ ہوگن نے مسکراتے ہوئے کہا۔”میں چاہتا ہوں کہ جیسے ہی تم تیار ہو جاؤ تو اوپر آجاؤ اور میری خاطر میری چھت کی مرمت کر دو۔“

ہیری کے لئے مزید کام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غریب ہیری چاہتا تھا کہ وہ اپنے باغیچے میں کام کرے۔ اس نے اپنے پھولوں کو دو دن سے پانی نہیں دیاتھا۔لیکن وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ ہوگن کو پھر سے منع کرے،وہ ایک بہت اچھا دوست تھا۔
”تمہیں کیا لگتا ہے کہ اگر میں تمہیں اپنی مصروفیت کا کہوں تو کیا یہ ایک غیردوستانہ رویہ ہوگا؟“ ہیری نے دبے الفاظ میں کہا۔
”اچھا ٹھیک ہے۔“ ہوگن نے کہا:”مجھے نہیں لگتا کہ تم سے پوچھنا اتنا ضروری ہے۔ تم جانتے ہی ہو کہ میں تمہیں اپنی ریڑھی دینے جا رہا ہوں لیکن اگر تم انکار کروگے تو میں چلا جاؤں گا اور خود مرمت کر لوں گا۔“
”اوہ نہیں!“ ہیری پلنگ سے اٹھتے ہوئے چلایا۔پھر وہ تیار ہوکر جلد ی سے اوپر مل میں پہنچا۔
ہیری دن بھروہاں کام کرتا رہا،یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ اب ہوگن وہاں آیا اور دیکھا کہ کتنا کام ہوگیا ہے۔
”پیارے ہیری! کیا چھت کی مرمت ہو گئی ہے؟“ ہوگن نے اچھے انداز میں پوچھا۔
”یہ مکمل مرمت ہو چکی ہے۔“ ہیری نے سیڑھی سے نیچے اترتے ہوئے جواب دیا۔
”آہ!“ ہوگن کہنے لگا:”اتنی خوشی کسی اور کام میں نہیں ہوتی جتنی کہ کسی دوست کے کام آ کر ہوتی ہے۔“
”تمہاری باتیں سن کر کتنا اچھا لگتا ہے۔“ ہیری نے بیٹھتے ہوئے اپنا پسینہ صاف کیا اور کہا:”لیکن میں سوچتا ہوں کہ ایسے خیالات میرے کبھی نہیں ہونگے جتنے اچھے تمہارے ہیں۔“
”اوہ! یہ تمہارے بھی ہو جائیں گے۔“ ہوگن نے جواب دیا:”لیکن تمہیں سخت محنت کرنا ہوگی۔ آج کل کی دوستی بس ایسے ہی ہے۔ ایک دن تم دوستی کا حقیقی مطلب ضرور سمجھ جاؤ گے۔“
”تمہیں لگتا ہے کہ میں سمجھ جاؤ ں گا؟“ ہیری نے سوال کیا۔
”مجھے اس میں کوئی شک نہیں۔“ہوگن نے کہا:”لیکن چو نکہ ابھی تم نے چھت کی مرمت کی ہے اس لئے تمہیں گھر جا کر آرام کرنا چاہیے۔ میں چاہتا ہوں کہ کل تم میری بھیڑوں کو پہاڑوں پر سیر کراؤ۔“
غریب ہیری کچھ بھی کہنے سے ڈر رہا تھا۔اگلے دن صبح ہوتے ہی ہوگن اپنی بھیڑوں کو ہیری کے پاس چھوڑ گیا۔ ہیری بھیڑوں کو لے کر پہاڑوں میں گیا۔ اسی میں اس کا پورا دن گزر گیا۔ جب وہ گھر پہنچا تو بہت تھک گیا تھا، وہ اپنی کرسی پر ہی سوگیااور اس وقت تک سوتا رہا جب تک کہ صبح نہ ہوگئی۔
”کتنا اچھا ہے کہ آج میں اپنے باغیچے میں کام کروں گا۔“ ہیری نے باغیچے میں کام کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔
ہیری کچھ دنوں سے اپنے پھولوں کی دیکھ بھال نہیں کر سکا تھا اور اس کی وجہ اس کا وہ دوست تھا جو روز اسے کہیں بھیج دیتا،کبھی یہاں کبھی وہاں اور کبھی اپنی مل میں کام کرنے کے لئے۔ پھولوں کو دیکھ کر ہیری بہت اداس ہو رہا تھا۔ وہ ڈر رہا تھا کہ اس کے پھول سوچیں گے کہ وہ انہیں بھول گیا ہے۔ لیکن ابھی بھی ہیری اپنے آپ سے کہہ رہا تھا کہ ہوگن اس کا بہترین دوست ہے اور وہ اپنی ریڑھی بھی اسے دینے جا رہا ہے۔ وہ اس کے ساتھ بہت مخلص ہے۔
عظیم قربانی
۔۔۔۔۔۔۔
ہیری ہوگن کے لئے کام کرتا رہتا اور ہوگن دوستی سے متعلق خوبصورت باتیں کرتا رہتا۔ ہیری ان باتوں کو اپنی اس کاپی میں لکھ لیتا، جسے وہ ہر رات پڑھتاتھا، تاکہ وہ بھی ہوگن کی طرح اچھی باتیں کرنا سیکھ جائے۔
ایک شام ہیری اپنے آتش دان کے پاس بیٹھا تھا کہ اچانک دروازے پر زور سے دستک ہوئی۔ موسم بہت خراب تھا۔ہوا زور سے چل رہی تھی اور بادلوں کی خطرناک گرج بھی سنائی دے رہی تھی۔ پہلے ہیری نے سوچا کہ دستک طوفان کی وجہ سے ہوئی ہے لیکن دوسری مرتبہ دستک ہوئی، پھر تیسری مرتبہ اور ایک کے بعد ایک زوردار دستک ہونے لگی۔
”ہو سکتا ہے کوئی غریب مسافر ہو۔“ ہیری نے دروازے کی جانب بڑھتے ہوئے اپنے آپ سے کہا۔
دروازے پر ہوگن کھڑا تھا جس نے ایک ہاتھ میں لالٹین اور دوسرے ہاتھ میں چھڑی پکڑی ہوئی تھی۔
”پیارے ہیری!“ ہوگن نے چلا کر کہا:”میں بہت مشکل میں ہوں۔ میرے چھوٹے بیٹے کو چوٹ لگی ہے اور میں ڈاکٹر کو بلانے جا رہا ہوں۔ وہ یہاں سے بہت دور رہتا ہے۔ یہ ایک بہت بھیانک رات ہے۔ میں نے سوچا کہ یہ اچھا ہوگا کہ میرے بجائے تم ڈاکٹر کے پاس جا کر اسے بلا لاؤ۔ تم جانتے ہو کہ میں تمہیں اپنی ریڑھی دینے والا ہوں تو یہ اچھا ہے کہ تم میری مدد کرو۔“
”اچھا!“ہیری نے سوچتے ہوئے کہا:”میں جاتا ہوں لیکن اس کے لئے تمہیں مجھے لالٹین دینا ہوگی کیونکہ رات بہت گہری ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اندھیرے میں کہیں گر نہ جاؤں۔“
”مجھے معاف کرنا۔“ ہوگن نے کہا:”یہ میری نئی لالٹین ہے اورکہیں تم نے اسے توڑ دیا تو یہ میرے لئے نقصان ہوگا۔“
”اچھا! چلو کوئی بات نہیں۔ میں اس کے بغیر ہی چلا جاتا ہوں۔“ہیری نے کہا اور اپنا کوٹ اٹھا کر ڈاکٹر کو بلانے چلا گیا۔
اس رات بہت خطرناک طوفان تھا۔ رات کا اندھیرا بہت گہرا تھا۔ ہیری مشکل سے آگے دیکھ پا رہا تھا۔ ہوا بھی بہت تیز چل رہی تھی۔ لیکن ہیری بہت بہادر تھا۔ وہ تین گھنٹے پیدل چلنے کے بعد ڈاکٹر کے گھر پہنچ گیا۔ ہیری نے دروازے پر دستک دی۔
”کون ہے باہر؟“ اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے ڈاکٹر نے پوچھا۔
”میں ہیری ہوں ڈاکٹر۔“ہیری نے جواب دیا۔
”تمہیں کیا چاہیے ہیری؟“ ڈاکٹر نے سوال کیا۔
”ہوگن کے بیٹے کو چوٹ لگی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ آپ اسے آکر دیکھ لیں۔“ ہیری نے جواب دیا۔
”اچھا!“ ڈاکٹر نے کہااور ساتھ ہی اپنے ملازم کو گھوڑا، بڑے جوتے اور لالٹین لانے کا بھی کہا۔ کچھ ہی دیر بعد ڈاکٹر اپنے کمرے سے نیچے اترا اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ہوگن کے گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔ ہیری اس کے ساتھ ساتھ دوڑنے کی کوشش کرتا رہا۔
طوفان اور زیادہ خطرناک ہوتا جا رہا تھا اور سخت بارش بھی برسنے لگی تھی۔ ہیری ڈاکٹر کا پیچھا نہ کر سکا، اسے نظر نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرف جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ہیری اپنا راستہ بھول گیا۔ راستے کی تلاش میں وہ ایک ایسی خطرناک جگہ پہنچ گیا جہاں بڑی بڑی کھائیاں تھیں۔ غریب ہیری ان میں گر گیا۔ اس کی لاش اگلے دن پانی میں تیرتی ہوئی ملی۔ اسے اس کی جھونپڑی میں لایا گیا۔
ہیری کے جنازے میں بہت سے لوگ آئے، اس لئے کہ وہ بہت مشہور تھا۔ ہوگن سوگ منانے والوں میں سب سے آگے تھا۔
”چونکہ میں اس کا بہترین دوست تھا،اس لئے یہ مناسب ہے کہ میں اس کے جنازے کی رسوم ادا کروں۔“ ہوگن نے کہا اور اپنا بڑا کالا کوٹ پہنے آگے آگیا۔ وہ اپنے بڑے رومال سے اپنے آنسو صاف کرتا رہا۔
”غریب ہیری کا جانا سب کے لئے ایک بڑا نقصان ہے۔“ ایک سوگوار نے کہا۔
جب جنازہ ختم ہوا تو سب آرام سے بیٹھے دعوت اڑانے لگے۔
”یقینا یہ میرے لئے بہت بڑا صدمہ ہے۔“ ہوگن نے تمام لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا:”میں اسے اپنی پرا نی ریڑھی دینے جا رہا تھا۔ اب مجھے نہیں پتا کہ میں اس کے ساتھ کیا کروں گا۔ میری ریڑھی ٹوٹ گئی ہے، میں اسے بیچ بھی نہیں سکتا۔ دیکھو ہیری نے مرنے کے بعد مجھے کس پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ اس واقعہ نے مجھے ایک سبق سکھایا ہے جو کہ میں آپ سب کو بتانا چاہوں گا۔ وہ سبق یہ ہے کہ بہت زیادہ سخی ہونا بھی دوسروں کے لئے اچھا نہیں ہوتا۔ میں آئندہ کبھی کسی کو کچھ نہیں دوں گا۔“
ایک کہانی ایک مقصد کے ساتھ
وہاں ایک طویل خاموشی طاری ہوگئی، کوئی کچھ بھی نہ کہہ سکا۔
”اچھا!“ پانی کے چوہے نے حیرت سے کہا۔
”ہاں!“ خوبصورت پرندے نے کہا:”یہی اس کا اختتام ہے۔“
”لیکن ہوگن کے ساتھ کیا ہوا؟ اور اس کی ریڑھی کا کیا ہوا؟“ پانی کے چوہے نے پوچھا۔
”اوہ! مجھے بالکل نہیں پتا۔“پرندے نے جواب دیا:”اور مجھے اس کی بالکل پروا نہیں۔“
”تو یہ واضح ہے کہ تم بہت بے رحم ہو۔“ چوہے نے کہا۔
”کیا تم نے اس کہانی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا؟“ پرندے نے پوچھا۔
”اور وہ کیا سبق ہے؟“ چوہا چیخا۔
”اس کہانی کا مقصد۔“ پرندے نے جواب دیا۔
”تم کیا یہ کہنا چاہتے ہو کہ یہ کہانی سنا کر تم مجھے کچھ سمجھانا چاہتے تھے؟“ چوہے نے پوچھا۔
”بالکل۔“ پرندے نے کہا۔
”اچھا! ایساہے۔“ چوہے نے بد تمیزی سے کہا:”تمہیں یہ کہانی سنانے سے پہلے بتانا چاہیے تھا، اگر تم بتا دیتے تو میں کبھی یہ کہانی نہ سنتا اور تمہیں ٹھینگا دکھا کر گھر چلا جاتا اور میں ابھی بھی یہی کروں گا۔“
چوہا ٹھینگا دکھا کر سیدھا اپنے بل میں چلا گیا۔
”تو تمہیں چوہا کیسا لگا؟“ بطخ نے پرندے سے پوچھا جو پانی میں تیرتی ہوئی اس کے پاس چلی آئی تھی:”ایسی بہت سی اچھی باتیں ہیں جو تم اس کے بارے میں کہہ سکتے ہو، تم جانتے ہو۔ لیکن میں ایک ماں ہوں اور مجھے یہ دیکھ بہت برا لگتا ہے جب کوئی اکیلا رہنا چاہتا ہے، جس طرح چوہا چاہتا ہے۔“
”مجھے بہت افسوس ہے کہ میں نے اسے غصہ دلایا۔“ پرندے نے جواب دیا:”حقیقت یہ ہے کہ میں اسے کہانی سنا کر کچھ سمجھانا چاہتا تھا۔“
”آہ! اور یہ بہت ہی برا طریقہ ہے۔“ بطخ نے کہا۔
اور میں بطخ کی بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top