skip to Main Content

عرب بچے

غلام عباس
۔۔۔۔۔۔۔

چاندنی رات ہے۔ہر طرف سناٹا ہے۔جہاں تک نظر کام کرتی ہے،ریت دکھائی دیتی ہے۔ایسے میں عرب سوداگروں کا ایک قافلہ اونٹوں پر مال اسباب لا دے ستاروں کو دیکھ دیکھ کر راستہ معلوم کرتا ریگستان میں چلا آرہا ہے۔ دور سے دیکھنے سے یہ قافلہ ایسا نظر آتا ہے،جیسے کوئی بہت لمبا سانپ بل کھاتا ہوا جا رہا ہو۔
سوداگروں اور ان کے غلاموں کے نیزے چاندنی میں چمک رہے ہیں۔سب نے سفید ڈھیلا ڈھالا لباس پہن رکھا ہے۔سر پر سیاہ فیتوں سے رنگین رومال باندھ رکھے ہیں۔سب سے اگلے اونٹ پر اس قافلے کا سردار شیخ ہے۔اس کے اونٹ کی مہار ایک بدو عرب نے پکڑ رکھی ہے اور ساتھ ساتھ پیدل چل رہا ہے۔وہ اپنی زبان میں کوئی گیت بھی گاتا جاتا ہے۔سب اونٹ اس کی آواز پر مست معلوم ہوتے ہیںاور آپ سے آپ اس کے پیچھے پیچھے چلے آتے ہیں۔
شیخ کے اونٹ کے قریب ہی ایک اور اونٹ ہے۔اس پر ننھاسا خیمہ تنا ہوا ہے جسے کجاوا کہتے ہیں۔اس میں آٹھ نو برس کا ایک عرب لڑکا بیٹھا ہے۔یہ شیخ کا اکلوتا بیٹا علی ہے۔اس نے بھی اپنے باپ کی طرح عربی لباس پہن رکھا ہے۔
علی ایک قصبے میں اپنی ماں کے پاس رہتا تھا۔اس کی بڑی خواہش تھی کہ میں باپ کے ہمراہ قافلے میں سفر کروں۔مگر شیخ جانتا تھاکہ ریگستان کے سفر میں قافلے والوں کو کیا کیا مصیبتیں پیش آتی ہیں۔اس لئے وہ ہمیشہ ٹال دیا کرتا۔اس دفعہ جب شیخ سوداگر کا سامان لے کر جانے لگاتو علی نے ساتھ چلنے کے لئے بہت ضد کی۔رویا گڑگڑایا۔اتفاق سے یہ سفر زیادہ لمبا نہ تھا۔اس لیے اس نے علی کو بھی ساتھ لے لیا۔
اس وقت علی کجاوے میں بیٹھا بڑے شوق سے آس پاس کے نظارے دیکھ رہا ہے۔ریت کے اونچے نیچے ٹیلوں پر چاند نی عجب بہار دکھا رہی ہے۔اونٹ کے چلنے سے ہچکولے لگتے ہیںتو اسے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے جھولے میں بیٹھا ہے۔عرب کا گیت لوری کا کام دے رہا ہے اور اس کی آنکھیں آپ سے آپ بند ہوئی جارہی ہیں۔
ایکا ایکی بدو چلتے چلتے ٹھہر گیا۔اس کا ٹھہرنا تھا کہ سارا قافلہ رک گیا۔بدو غور سے ایک طرف دیکھ رہا تھا۔شیخ نے پوچھا۔حمزہ کیا بات ہے؟
بدو نے زبان سے تو کچھ نہ کہا۔انگلی سے ایک طرف اشارہ کر دیا۔شیخ غور سے اس طرف دیکھنے لگا اور چاندنی میں اسے کچھ سائے سے ہلتے نظر آئے۔انہیں دیکھ کر شیخ گھبرا سا گیا۔یہ ڈاکو تھے۔گو شیخ کے ساتھ کافی آدمی تھے،وہ خود بھی بہادر تھا اور ڈاکوو¿ں کا مقابلہ آسانی سے کرسکتا تھالیکن اسے علی کی فکر تھی کہ کہیں لڑائی میں اسے صدمہ نہ پہنچ جائے۔چنانچہ اس نے حکم دیا کہ سب لوگ چپ چاپ کھڑے رہیں۔
حکم کی دیر تھی ایسا سناٹا ہو گیا کہ معلوم ہوتا تھا سانس تک نہیں لے رہے۔سب کے سب پندرہ بیس منٹ تک یونہی بت بنے کھڑے رہے۔شاید ڈاکوو¿ں کی نظر ان پر نہیں پڑی ۔ وہ شکار کی تلاش میں اور طرف نکل گئے۔صبح کو قافلہ چلا جا رہا تھا تو ایک جگہ علی کو کچھ درخت نظر آئے۔ان کے پتے انوکھی وضح کے تھے اور ان پر سنہری گیندیں سی لگی تھیں۔اس نے یہ عجیب و غریب درخت کبھی نہیں دیکھے تھے۔باپ کو پکار کر کہا۔ابا یہ کیا پھل ہیں؟یہ نہ تو نارنگیاں ہیں،نہ لیموں،نہ انار۔پھر ہیں کیا۔
شیخ نے اپنے ایک غلام کو اشارہ کیا۔وہ جھٹ سے تین چار پھل توڑ لایا۔علی نے خوشی خوشی ایک پھل کو کاٹاتو اس کے اندر سے راکھ کے رنگ کی مٹی نکلی۔یہ دیکھ کر شیخ نے قہقہہ لگایا اور علی نے شرمندہ ہو کر سر جھکا لیا۔پھر شیخ نے کہا۔دیکھا یہ ہے نتیجہ ظاہری شکل و صورت پر پھول جانے کا۔
دوپہر کے قریب اچانک ہوا بند ہوگئی۔علی بار بار ہائے گرمی ہائے گرمی پکارنے لگا۔شیخ کے چہرے پر گھبراہٹ ہے۔مگر وہ اسے چھپانے کے لئے مسکرا مسکرا کر علی کو تسلیاں دے رہا ہے۔بیٹا گھبراو¿ نہیں۔تھوڑی دیر میں ہم نخلستان میں پہنچا چاہتے ہیں۔وہاں چھوٹا سا گاو¿ں بھی آباد ہے اور گاو¿ں کے لڑکے کھجور کے پیڑوں کے سائے میں ٹھنڈے پانی کے چشمے کے کنارے مٹی کے کھلونے بنا بنا کر کھیل رہے ہیں۔تم بھی ان کے ساتھ کھیلنا اور دو لڑکوں کی کمر میں رسی باندھ کر انہیں گھوڑے بنانا اور خوب دوڑانا،خوب خوب دوڑاو¿ گے نا؟
گرمی پل پل میں بڑھتی جا رہی ہے۔اے لو۔گرم گرم ریت کے بگولے اٹھنے شروع ہوگئے۔ہر طرف ریت ہی ریت اڑنے لگی۔اونٹ آپ سے آپ رک گئے۔سوار بہتیرا ہانک رہے ہیں،مگر وہ ایک قدم نہیں چلتے۔انہیں معلوم ہے کہ ہم پر کیا مصیبت آنے والی ہے۔بات یہ تھی کہ ریگستان کی زہریلی آندھی جسے،بادسموم کہتے ہیں۔اٹھنی شروع ہو گئی تھی۔
شیخ نے فوراً حکم دیا کہ اسی وقت سب اونٹوں کو گھٹنوں کے بل بیٹھا دیا جائے اور ان پر سے تمام اسباب اتار لیا جائے۔ یہ سنتے ہی شیخ کے غلام جلدی جلدی اونٹوں پر سے سامان اتارنے لگے۔ریشمی کپڑوں کے تھان،قہوہ اور کھجوروں کے بورے۔گٹھڑیاں جن میں سونے چاندی کے زیور،جواہرات،ہاتھی دانت کے کھلونے،شتر مرغ کے پر،خوشبودار مصالحے اور ایسی ہی سودا گری کی اور چیزیں تھیں،سب اتار لی گئیں اورریت پر ان کا ایک بہت اونچا ڈھیرلگا دیا گیا۔پھر شیخ،علی کو گود میں لے کر اس کی اوٹ میں بیٹھ گیااور اسے اپنی چادر میں چھپا لیا۔دوسرے لوگ بھی اسی ڈھیر کے پاس آبیٹھے اور سب نے اپنے اپنے سراور منہ چادر میں لپیٹ لیے۔
بے زبان اونٹوں نے خود بخود اپنی گردنیں ریٹ پر پھیلا دیں اور اپنی آنکھوں اور نتھنوں کو بند کر لیا تاکہ گرم ریت کے ذرے اندر نہ گھسنے پائیں۔آندھی ہے کہ دم بدم بڑھتی ہی جاتی ہے او ریت ہے کہ ننھے ننھے چھروں کی طرح کپڑوں میں سوراخ کر کے بدن میں گھستی چلی جاتی ہے۔لیکن علی باپ کی گود میں چادر کے نیچے اس سے بالکل محفوظ ہے۔
ہر طرف اندھیرا چھا گیا ہے۔اسباب پرگز گز ریت کی تہہ جم گئی۔یہ بڑی ہی زبردست آندھی ہے۔سب لوگ دعائیں مانگ رہے ہیں کہ الٰہی اس مصیبت سے نکال۔آخر خدا خدا کرکے دو اڑھائی گھنٹے کے بعد یہ طوفان تھما تو سب نے شکر کا کلمہ پڑھا۔
علی نے باپ کی گود سے نکل کر ادھر ادھر نگاہ جو ڈالی تو حیران رہ گیا۔باپ سے پوچھنے لگا۔ابا یہ وہی جگہ ہے جہاں ہم اترے تھے؟
سچ مچ یہاں کا نقشہ ہی بدل گیا تھا۔جس جگہ پہلے ٹیلے تھے۔وہاں اب ان کا نشان تک نہ تھا۔جہاں ڈھلوانیں تھیں وہاں اونچے اونچے ٹیلے تھے۔شیخ جیسا تجربہ کار شخص بھی جس نے اپنی عمر اسی ریگستان میں گزاری تھی، نہیں بتا سکتا تھا کہ شمال کس طرف ہے اور جنوب کس طرف۔ مشرق کس طرف اور مغرب کدھر۔یہ سب آندھی کی کار سانی تھی۔
نئی مصیبت یہ پڑی کہ اونٹوں پر سے سامان اتارنے کی افراتفری میں پانی کے مشکیزوں کے منہ کھل گئے تھے اور سارا پانی ریت پر گر کر ضائع ہوگیا تھا۔گو نخلستان یہاںسے قریب ہی تھامگر شیخ آندھی کی وجہ سے راستہ بھول چکا تھا۔
شیخ خود تو وہیں ٹھہرااور اپنے غلاموں کو اونٹ دے کر چاروں طرف دوڑایاکہ جا کر راستہ معلوم کرو اور کوئی اور قافلہ ادھر سے گزر رہا ہو تو اس سے پانی لاو¿۔پیاس کے مارے سب کے حلق سوکھ رہے تھے اور پھر علی تو بچہ ہی تھا۔تھوڑی ہی دیر میں پانی کے بغیر اس کی حالت بری ہونے لگی۔پانی پانی کی رٹ لگانے لگا۔شیخ بیٹے کی حالت دیکھ کر کڑھتا اور اسے تسلی دیتا کہ بیٹا صبر کرو۔پانی ابھی آیا ہی چاہتا ہے۔علی یہ سن کر پل بھر کو چپ ہو جاتامگر جب آس پاس سے کسی کو آتا نہ دیکھتا تو پھر وہی رٹ لگانے لگتا۔اسے کچھ کچھ حرارت بھی ہوگئی تھی اور آنکھیں بھی سرخ ہو رہی تھیں۔
یکایک اس نے چلا کر کہا۔آہاہا! ابا وہ دیکھو سامنے دریا لہریں مار رہا ہے۔میں وہاں جاو¿ں گا۔شیخ نے کہا، بیٹا یہ دریا نہیں ہے۔تمہاری نظر دھوکا کھا رہی ہے۔ریگستان میں کسی کو سخت پیاس لگے تو ایسا دھوکا ہو جاتا ہے۔مگر جب قریب پہنچ کر دیکھتے ہیں توریت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
مگر علی کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی۔کیونکہ اس کی آنکھیں تو صاف صاف دریا کو دیکھ رہی تھیں۔ناچار شیخ اسے وہاں لے گیا۔علی نے دیکھا تو سچ مچ پانی کا نشان نہ تھا۔وہ مایوس ہو گیااور اس کی حالت پہلے سے بھی زیادہ بری ہونے لگی۔یوں تڑپنے لگا جیسے مچھلی پانی سے نکل کر تڑپتی ہے۔
ناگہاں شیخ کو ایک طرف ایک دھبہ سا دکھائی دیا۔جو پل پل میں بڑا ہوتا جاتا تھا۔ قریب آیا تو معلوم ہوا کوئی سانڈنی سواراچلا آتا ہے۔ شیخ کے غلام دوڑ کر اس کے پاس گئے اور پانی کا مشکیزہ لے آئے۔اس عرصے میں علی بے ہوش ہو چکا تھا۔شیخ نے اس کامنہ کھول کر پانی کی بوندیں اس کے حلق میں ٹپکائیں تو اسے کچھ ہوش آیالیکن پانی پیتے ہی وہ سو گیا۔شام کو اس کی آنکھ کھلی تو نخلستان میں تھا،جہاں کھجوروں کے جھنڈ تھے اور ٹھنڈے پانی کے چشمے جاری تھے۔اوران کے قریب ہی کچے مکانوں کی ایک چھوٹی سی بستی تھی۔
شیخ نے اپنے اکلوتے بیٹے کی جان بچ جانے پر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا اور علی نے کان پکڑے کہ پھر کبھی قافلے کے ساتھ جانے کا نام نہ لوں گا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top