skip to Main Content
عذاب

عذاب

سید وجاہت علی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ لڑکا مجھے بہت دیر سے عجیب نظروں سے گھور رہا تھا۔ پہلے پہل میں سمجھا تھا کہ ایسے ہی کھڑا ہے۔ کچھ دیر گزر گئی میں نے سوچا، شاید کسی کا انتظار کر رہا ہو۔ لیکن اس کی نظریں اسٹور کی جانب ہی جمی ہوئی تھیں۔ میرا یہ احساس فزوں تر ہوگیا کہ وہ میری ہی حرکات وسکنات پر نظر رکھا ہوا ہے۔
میں نے اس کو بلا کر پوچھنا چاہا، مگر اسٹور پر لگا رش اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا۔
میں گاہکوں کو نپٹاتے ہوئے ایک آدھ نظر اس پر بھی ڈالتا جارہا تھا۔
رش کم ہوا اور گاہک تھوڑے رہ گئے۔ میں نے سوچا، ان گاہکوں کو نپٹا کر اسے بلا کر استفسار کرلوں گا۔اب صرف ایک گاہک رہ گیا تھا۔
’’جی۔۔۔؟ کیا چاہیے آپ کو۔۔۔؟‘‘ میں نے معروف کاروباری جملہ ادا کرتے ہوئے خوش اخلاقی سے پوچھا۔ 
جواباً اس نے چھوٹی سی لسٹ تھما دی۔ میں نے لسٹ پڑھ کر مطلوبہ چیزیں نکالیں اور لفافے میں رکھ کر اسے دے دیں اور پیسے وصول کرلیے۔
اسٹور پر اب کوئی گاہک نہیں تھا۔
میں نے لڑکے کی طرف یکھا۔ اسے آواز دینے ہی والا تھا کہ ایک کار اسٹور کے سامنے رکی۔ کار کے عقبی دروازے کھلے اور دو لڑکیاں برآمد ہوئیں۔ ان میں سے ایک نے مجھے مخاطب کیا۔
’’یہ صابن اور شیمپو ہیں۔۔۔؟‘ اس نے ایک مشہور ومعروف کمپنی کے صابن اور شیمپو کا نام لیا۔
’’صابن تو نہیں مل سکے گا کیون کہ یہ ختم ہوگیا ہے۔ تاہم شیمپو موجود ہے۔‘‘
’’اچھا۔۔۔‘‘ پھر اس نے ایک دوسرے صابن کانام بتایا۔ ’’یہ تو ہوگا آپ کے پاس۔‘‘
’’جی ہاں۔۔۔ یہ موجود ہے۔‘‘
’’دے دیں۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔ یہ اسٹور کے اندرونی حصے میں چلا گیا۔ اور انہیں صابن و شیمپو لاکے دے دیئے۔ دوسری لڑکی نے پرس میں سے پیسے نکال کر ادا کردیئے۔
میں نے ادھر دیکھا۔جہاں لڑکا کھڑا تھا۔ وہ اب وہاں موجود نہیں تھا۔
’’پتا نہیں کیوں گھور رہا تھا۔ کیا مقصد تھا اس کا مجھے اس آگے سوچنے کی مہلت نہیں مل سکی۔ کیوں کہ مزید گاہک آگئے تھے۔ میں ان کو نمٹانے میں مصروف ہوگیا۔
میرا نام صالح احمد ہے۔ میرا اسٹور سپر اسٹور ٹائپ کا ہے۔ کیونکہ اس میں تقریباً ہر چیز ہی دستیاب ہے۔ اسٹور ایسی جگہ پر ہے۔ جہاں کوئی اور اسٹور نہیں۔ چنانچہ ماشاء اللہ سے میرا اسٹور خوب چلتا ہے۔ اسٹور کے بورڈ پر میں نے ایک جملہ درج کرایا ہوا ہے۔ ھذا من فضل ربی۔‘‘ کہ شاید اسی جملہ کے لکھنے سے خوش ہوکر اللہ تعالیٰ میرے ڈنڈی مارنے کے فعل کو درگزر کر جائے۔
اسٹور کھولتے وقت میرے ذہن میں یہ تصور تھا کہ ایمان داری سے کام نہیں چلے گا۔ لہٰذا بے ایمانی سے ہی ابتدا کردی۔ کسی بھی چیز میں پانچ دس روپے کی ڈنڈی آسانی سے مار جایا کرتا تھا۔ پانچ دس روپے میں ایک دن میں اچھی ڈاکٹر رقم ہوجاتی تھی۔ بے ایمانی کے باوجود میرے اسٹور پر رش ہوا کرتا ہے۔ اس کے دو وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو بتا ہی چکا ہوں کہ آس پاس واحد میرا ہی اسٹور تھا۔ دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہاں ماشاء اللہ سے سب کھاتے پیتے لوگ رہتے ہیں۔ متوسط طبقے کا تو ایک آدھ ہی ہوگا۔ پانچ دس روپے کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں تھی۔ پر میرے لیے یہ ان قطروں کی حیثیت رکھتے ہیں جو مل کر دریا بناتے ہیں۔
اگلے دن وہ لڑکا پھر موجود تھا۔ اور تیکھی نگاہوں سے مجھے گھور رہا تھا۔
آج تو اس سے ضرور بات کرنی ہے۔ نہ جانے کیوں تکتا رہتا ہے۔ اسٹور کے ادھر کھڑے ہوکے۔‘‘ اسٹور پر کھڑے گاہکوں کو نمٹاتے ہوئے میں یہ ہی سوچ رہا تھا۔
آخری گاہک کو فارغ کرتے ہی میں نے اسے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ وہ اسٹور کی سیڑھیوں کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔
’’کیا نام ہے تمہارا۔۔۔؟‘‘ میں نے اس سے دریافت کیا۔
’’کیوں۔۔۔؟‘‘ الٹا اس نے سوال داغ دیا۔ ’’آپ کو میرے نام سے کیا مطلب ہے بھئی۔۔۔!؟‘‘
’’مجھے کسی بات سے مطلب نہیں۔‘‘ اس کے سوال کرنے سے میرا لہجہ نفسیاتی طور پر کرخت ہوگیا تھا۔ ’’سوائے اس کے کہ میرے اسٹور کے پاس کھڑے ہوکر …………… کیوں لگاتے ہو۔‘‘
’’میں سمجھانا چاہتا ہوں کہ آپ جو کام کر رہے ہیں اچھا نہیں۔‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔‘‘ میں چونک گیا تھا۔
’’اتنا انجان مت بنئے۔‘‘ اس کے چہرے سے عمیق مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔
’’میں سمجھا نہیں۔۔۔‘‘ میرے چہرے پر الجھن کے تاثرات پھیل گئے۔ ’’کیا کہنا چاہتے ہو تم۔‘‘
پیش تراس کے کہ وہ کچھ کہتا ایک گاہک آگیا۔ اسے ایک کریم درکار تھی۔ میں نے کریم دے کر فارغ کیا۔
’’یہ لیجئے جناب!‘‘ گاہک کے جاتے ہی وہ بولا۔ ’’آپ نے کریم کے پینتالیس روپے وصول کرلیے۔ جب کہ وہ صرف چالیس روپے کی ہے۔ میں آپ کو یہ ہی سمجھانا چاہتا ہوں۔‘‘
میں حیراں رہ گیا۔ وہ مجھے جو سمجھانا چاہتا تھا۔ میں اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔ میں نے اس کی بات رد کرتے ہوئے کہا۔
’’وہ کریم پینتالیس روپے کی ہی ہے۔ تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘
’’آپ کے پاس دوسری کریم تو ہوگی۔ اس میں سے قیمت دیکھ لیں۔ یا پھر کسی اور دوکان سے معلوم کرلیتے ہیں۔ ‘‘ اس نے پر اعتماد لہجے میں کہا۔
میں لاجواب ہوگیا۔ اور انتہائی سرد لہجے میں بولا۔
’’تمہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیئے کہ میں کیا کررہا ہوں۔ اتنا ہی اگر تمہیں تکلیف ہے تو دوسرے لوگوں کو اسٹور سے سامان خریدنے سے منع کردو۔‘‘
’’میرا یہ مقصد نہیں۔ میں صرف یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ آپ بے ایمانی کا کام نہیں کریں۔ ایمان داری سے کریں گے تو اللہ واقعی اپنا فضل کرے گا۔‘‘ اس نے بڑے اچھے انداز میں سمجھاتے ہوئے بورڈ کی طرف اشارہ کیا جس پر ایک آیت کا ٹکڑا درج تھا۔
’’مجھے سمجھانے کی ضرورت نہیں‘‘ میں نے اسے جھڑک دیا۔ ’’اپنا برا بھلا میں خود سمجھتا ہوں۔‘‘
’’مرضی آپ کی۔۔۔‘‘ اس نے کندھے اچکائے۔ ’’میرا کام تو آپ کو صرف یہ بتایا تھا کہ ناپ تول میں کمی یا ڈنڈی مارنے پر بڑا عذاب ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ادھر سے چل دیا۔
میں چند لمحات کے لیے ششدر رہ گیا۔ پتا نہیں اسے کیسے علم ہوا کہ میں ڈنڈی مارتا ہوں۔ ایک لمحے کے لیے اس کی باتیں میرے دل پر لگی تھیں۔ پھر میں نے انہیں جھٹک دیا۔ اور اپنی توجہ سیڑھیاں پڑھتے گاہک کی طرف کرلی۔

*۔۔۔*۔۔۔*

اگلے دن جمعہ تھا۔
جمعہ کے دن میں اسٹور جلدی بند کردیتا ہوں۔ اور پھر شام کو ہی کھولتا ہوں۔
معمول کے مطابق میں نے اسٹور نماز سے ڈیڑھ گھنٹے پہلے بند کیا اور گھر کی راہ لی۔
میرا گھر دوسرے علاقے میں ہے۔ کسی گاڑی سے دس منٹ اور پیدل آنے میں بیس منٹ لگتے ہیں۔
گھر آکر میں نے نہا دھوکے کپڑے بدلے۔ جمعہ کی پہلی اذان ہوچکی تھی۔ میں علاقے کی مرکزی مسجد کی طرف چل دیا۔ مولوی صاحب بیان دے رہے تھے۔ نصف کے قریب نمازی آچکے تھے۔ بیٹھتے ہی مولوی صاحب کا ایک جملہ میری سماعت سے ٹکرایا اور مجھے ایک جھٹکا لگا۔
’’بے شک ناپ تول میں کمی کرنا یا ڈنڈی مارنا بہت سخت گناہ ہے۔ ایسا کرنے والا اللہ کے عذاب سے بچ نہیں سکتا۔‘‘ اتنے میں میرا دوست عابد مسکرا کر میرے قریب آبیٹھا۔ مولوی صاحب کی بات سنتے ہی اس کے چہرے پر میرے جیسے تاثرات نمودار ہوگئے۔
مولوی صاحب نے اپنی بات جاری رکھی۔
’’ایک قوم پر بھی اسی وجہ سے عذاب ہوا ناپ تول میں کمی اور ڈنڈی مارنا ان کا شیوہ تھا۔ بے شک اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ہمیں اس کام سے منع فرمایا ہے۔‘‘
ماجد اور ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اور ہمیں یوں لگ رہا تھا جیسے مولوی صاحب براہ راست ہم سے مخاطب ہوں۔ 
’’بہ حیثیت مسلمان ہماری پالیسی میں ایمان داری ہونی چاہئے۔ محض دو کانداری نہیں۔۔۔ ہر چیز میں۔۔۔ غیر مسلموں کو دیکھیں۔ ان کی مصنوعات پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ محض ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی سے اجتناب کی وجہ سے ان کی یہ پالیسی کاروباری بنیاد پر ہے۔ جب کہ یہ ہمارے لیے دین وایمان کا مسئلہ ہے۔‘‘
مولوی صاحب کا بیان سن کر ہم دونوں کوتھوڑی بہت پشیمانی ہورہی تھی۔ مولوی صاحب کا بیان ختم ہونے کے بعد سنتیں ادا ہوئیں، خطبہ ہوا او ر پھر نماز ۔۔۔‘‘
نماز کے بعد ہم دونوں باہر آگئے۔
’’مولوی صاحب کے بیان کے بارے میں کیا خیال ہے تمہارا؟‘‘ میں نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’بات تو ان کی صحیح ہے لیکن۔۔۔‘‘ عابد نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا تھا۔
’’لیکن کیا۔۔۔‘‘
’’لیکن یہ کہ اگر ہم ایمان داری سے چلیں گے تو گزارہ کہاں ہوگا پھر۔۔۔‘‘
’’ٹھیک کہتے ہو۔‘‘ میں نے اس کی تائید کی۔ ’’اور اپنی جہاں دوکان ہے، ادھر کوئی غریب تو رہتا نہیں۔ پانچ دس روپے کی ڈنڈی مارلیں گے ہم تو کیا فرق پڑے گا ان کو ۔۔۔‘‘
’’بس یار! اللہ معاف کرے۔‘‘ عابد نے آسمان کی طرف منہ کرلیا تھا۔
’’ایسے ہی ایک لڑکا میرے دوکان پر آکے کہنے لگا کہ آپ یہ ڈنڈی نہ مارا کریں۔‘‘
’’اچھا۔۔۔‘‘ عابد کے منہ سے تجسس آمیز لہجے میں نکلا۔ ’’ہوا کیا تھا۔؟ پوری بات بتاؤ۔‘‘ اور پھر میں عابد کو اس دن والی بات کی تفصیل بتانے لگا۔
عابد میرا گہرا دوست ہے۔ بہت سچا اور مخلص۔ ایک ہی گلی میں ہم دونوں کا گھر ہے۔ اس کا بھی ایک سپر اسٹور ہے۔ اور ایسی جگہ جہاں اس کا اسٹور واحد اسٹور ہے۔ بالکل میری طرح۔ ہم نے ساتھ ہی اسٹور کھولا تھا۔ اور پہلے ہی ذہن بن گیا تھا کہ ایمان داری سے کام نہیں چلے گا۔ صرف بے ایمانی کر کے ہی ہم آسودہ زندگی گزار سکتے ہیں۔ چناں چہ اسٹور چلنے سے پہلے ہی ڈنڈیاں مارنی شروع کردیں۔ یہ چھوٹی رقم جمع ہو کے ہر مہینے اچھی خاصی رقم بن جاتی تھی۔ تقریباً اصل آمدنی کے برابر

*۔۔۔*۔۔۔*

پھر یکایک ہی وہ ہوگیا جو میرے وہم وگمان میں بالکل نہیں تھا۔ اس دن میں معمول کے مطابق اسٹور پر بیٹھا تھا۔ فی الحال کوئی گاہک نہیں تھا۔ میری نظر سامنے کی جانب گئی۔ ادھر سے میرا چھوٹا بھائی نوید چلا آرہا تھا۔ میں گھبرا گیا۔ مجھے احساس ہوا کہ نوید کی آمد کے پیچھے کوئی خطرے والی بات ضرور ہے۔
’’بھائی جان! وہ۔۔۔ وہ عابدبھائی کا انتقال ہوگیا ہے۔‘‘ اس نے آتے ہی خبر دی۔ خبر کیا تھی، اعصاب کے لیے بم کا دھماکہ تھی۔
’’کیا۔۔۔ کیا کہہ رہے ہو۔۔۔؟ عابد کا انتقال ہوگیا۔‘‘ میں مرجانے کی حد تک متحر رہ گیا تھا۔ ’’یقین ہی نہیں کرسکتا میں۔ کل ہی رات کو تو ملا تھا وہ مجھے۔۔۔ بالکل ٹھیک تھا وہ۔۔۔‘‘
’’ہماری خود سمجھ میں نہیں آرہا بھائی جان!‘‘ نوید نے استجابیہ لہجے میں کہا۔ ’’آپ جلدی کریں۔ مجھے ادھر عابد بھائی کے بھائی نے بھیجا ہے‘‘
’’یہ ہوا کیسے۔۔۔؟ کل رات کو خوب باتیں کی تھیں ہم نے۔۔۔ ایک دم صحیح تھا وہ اور پھر اچانک۔۔۔‘‘ 
’’پتا نہیں۔۔۔ مجھے تفصیل نہیں معلوم۔ ان کے بھائی گھر پر اطلاع دینے آئے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ فوراً جاکر آپ کو بتاؤں۔ میں ادھر آگیا۔ تفصیل سن ہی نہیں سکا۔‘‘
پھر میں نے جلدی سے اسٹور بند کیا اور نوید کے ساتھ گھر آگیا۔ گلی میں شامیانہ بندھا ہوا تھا۔ نیچے دری بچھی ہوئی تھی جس پر محلے کے کچھ بزرگ اور جوان بیٹھے تھے۔ ان کے چہرے پر حیرت وغم کے تاثرات تھے۔
میں نے عابد کے گھر جاکر اس کے گھر والوں کو دلاسہ دیا۔ عابد کی بیوی اور والدہ تو انتہائی صدمے کے سبب بے ہوش ہوگئی تھیں۔ اس کے بڑے بھائی سب کی ہمت بندھا رہے تھے۔ عابد کا ایک سال کا بچہ معصومانہ نگاہوں سے ایک ایک چیز کو دیکھ رہا تھا۔ اس کو کیا معلوم کہ ان پر کیا بیت رہی۔ وہ تو اس بات سے بھی بالکل لاعلم تھا کہ وہ یتیم ہوگیا ہے۔ باپ کا دست شفقت اس کے سر پر اٹھ گیا ہے۔
زندگی کتنی بے ثبات وبے اعتبار ہے۔ کل اس گھر میں سب نہیں بول رہے ہوں گے اور آج وہی گھر ماتم کدہ بنا ہوا تھا۔ عابد کے بھائی نے بتایا کہ اسے دل کا دورہ پڑھا تھا اور وہ اسپتال پہنچنے سے قبل موت کی تاریک وادیوں میں اتر گیا تھا۔ کسی کو بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ عابد مر گیا ہے۔
عابد کو غسل دے کر کفن پہنایا گیا۔ میت اٹھانے سے پہلے آخری مرتبہ سب کو عابد کی صورت دکھائی گئی۔ اس کی شکل عجیب سی ہوگئی تھی۔ ایسی کہ دیکھ کر ڈر سا لگ رہا تھا۔ مجھے وہ واقعہ دیا آگیا جو مولوی صاحب نے سنایا تھا۔ ایک آدمی تھا۔ مرتے وقت اس کی صورت بھی اپنی تن ہوگئی تھی، وہ بھی ناپ تول میں کمی اور ڈنڈیاں مارا کرتا تھا۔ اس وقت تو مجھ پر واقعے کا اثر نہ ہوا۔ مگر اب عابد کی ایسی شکل دیکھ کر میرا دماغ گھوم گیا۔ پھر مجھے نہیں معلوم، کس طرح عابد کی نماز جنازہ ادا کی اور کس طرح اس کی تدفین کی۔
میں گھر آکر لیٹ گیا۔ بار بار عابد کی آخری شکل میرے ذہن میں گھوم رہی تھی۔ مولوی صاحب کا سنایا ہوا واقعہ یاد آرہا تھا۔
’’کیا ہوا۔۔۔؟ مرگیا عابد۔۔۔؟ کیا لے کر گیا وہ اپنے ساتھ۔۔۔؟ کچھ بھی نہیں صرف اعمال۔۔۔صرف اعمال اس کے ساتھ قبر میں گئے۔ یہ جو پانچ دس روپے کی ڈنڈیاں مارتا تھا۔ کیا اس کے ساتھ چلے گئے۔۔۔کیا وہ اسے قبر کے عذاب سے بچا سکیں گے۔ ناپ تول اور ڈنڈی مارنے کا عذاب۔۔۔ کیسی بھیانک شکل ہوگئی تھی اس کی مرتے وقت۔۔۔ 
ایک ناگہانی موت نے اسے آلیا۔ اس کا سب کچھ یہیں رہ گیا۔ نہ جانے اس کے ساتھ قبر میں کیا ہورہا ہوگا۔‘‘ میرا ذہن بری طرح منتشر ہورہا تھا۔
’’اور اگر میں اس طرح مرگیا تو میرے ساتھ بھی کچھ نہیں جائے گا۔ میں ہوں گا اور قبر کا گھپ اندھیرا۔ میں تو ڈنڈیاں بھی مارتا ہوں۔ ناجائز منافع وصول کرتا ہوں۔ تو کیا میرا بھی اس آدمی اور عابد کی طرح انجام ہوگا۔ مرنے کے بعد میری صورت بھی اتنی بھیانک ہوجائے گی۔ پھر اس کے بعد قبر کی گھور تاریکی۔ میری قبر دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا بن جائے گی۔۔۔‘‘ اس سے آگے میرے اندر سوچنے کی ہمت نہیں تھی۔ میں چلا چلا کے اپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگنے لگا۔ میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ پچھتاوا اور احساس گناہ کے۔۔۔ جو اپنے ساتھ بے ایماں اور ڈنڈی مار صالح کو بھی لے گئے۔ بہت دور جہاں سے واپسی ناممکن تھی۔ اور صرف اپنے نام کی طرح پاک صالح بچا تھا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top