skip to Main Content

ساؤ کے آدم خور

تحریر: کرنل جان پیٹرسن
تلخیص و ترجمہ: عمیر صفدر

………

افریقہ کے دور دراز جنگل میں سینکڑوں مزدوروں کے قاتل آدم خور شیروں کی سنسنی خیز داستان

………

وہ زمانہ مجھے آج بھی یوں یاد ہے جیسے کل ہی کی بات ہو۔ بعض اوقات سوچتا ہوں تو ذہن حیرت میں ڈوب جاتا ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ کیا واقعی ساؤ کے آدم خوروں کو میں نے مارا تھا جنہوں نے کئی سو مزدور ہڑپ کر ڈالے تھے۔ یہ سب واقعات میرے حافظے کی لوح پر روشن ہیں۔ ان حالات میں آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ریلوے لائن کی تعمیر کا کام کس قدر دشوار اور مشکل تھا۔ کبھی کبھار ریلوے لائن کی تعمیر کا کام سامان وقت پر نہ پہنچنے کے باعث رک بھی جاتا اور کئی کئی دن تک رکا رہتا۔ ان دنوں مجھے ادھر ادھر علاقے میں دور دور تک گھومنے کا اچھا موقع مل جاتا تھا۔ اسی طرح ایک دن میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ شکار کا پروگرام بنایا۔ جب میں ہر طرح کیل کانٹے سے لیس ہو چکا تو ہم پانچ چھ آدمیوں کا گروہ دریائے سابا کی طرف روانہ ہوا۔ اس گروہ میں میرے علاوہ ایک ہندوستانی ملازم مہینا، باورچی مبارک اور ایک سقہ شامل تھا۔ یہ ہندوستانی مزدور نہایت محنتی اور نڈر ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے علاوہ سامان اور کھانے پینے کی چیزیں اٹھانے کے لیے میں نے چند مقامی مزدور بھی ساتھ لے لیے۔ سیر و شکار میں کئی ایسے مواقع بھی آتے کہ ہمیں اپنے کیمپ سے کئی کئی روز غیر حاضر رہنا پڑتا۔
دریائے سابا کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کا پاٹ کہیں بہت تنگ اور کہیں بہت وسیع ہوجاتا ہے کہ اسے عبور کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ واپسی پر ہم نے دریا کا وہ کم چوڑا پاٹ کھو دیا جس سے دریا عبور کرکے آئے تھے۔ ہم ایک ہرن کے تعاقب میں بہت آگے نکل گئے۔ ہمیں قطعاً احساس نہ ہوا کہ کتنا وقت گزر گیا اور رات کب سر پر آگئی۔ درختوں پر چھپے ہوئے پرندے بولنے لگے۔ بندر چیخنے لگے اور دور کہیں ہم نے کسی شیر کے دھاڑنے کی آواز بھی سنی۔
شیر کی دھاڑ سنتے ہی ہمارے ہوش اڑ گئے۔ اگرچہ میں ایک تجربہ کار شکاری ہوں لیکن خدا نے اس درندے کی آواز میں دہشت کا ایسا عنصر رکھ دیا ہے کہ دل کانپ جاتا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ شیر خواہ کتنی ہی دور دھاڑ رہا ہو یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہم سے بہت قریب ہے۔ شیر کی آواز سن کر مہینا کی حالت مجھ سے زیادہ ابتر تھی۔ بے چارہ تھر تھر کانپ رہا تھا۔ ”آقا خدا کے واسطے یہاں سے جلد نکل چلئے۔ شیر ہمارے آس پاس پھر رہا ہے۔“ دل تو میرا بھی ڈر رہا تھا مگر میں نے زبردستی ہنس کر کہا۔
”ارے پاگل یہ شیر جس کی آواز تم سن رہے ہو یہاں سے کئی میل دور ہے۔ جتنی دیر میں وہ ادھر آئے گا۔ ہم کہیں کے کہیں پہنچ چکے ہوں گے۔ آؤ اب واپس چلیں۔“
دسمبر ۸۹۸۱ء میں ریلوے لائن کلندنی کے مقام تک پہنچ چکی تھی۔ چوں کہ ان دنوں برطانیہ عظمیٰ کی سلطنت کئی براعظموں تک وسیع تھی۔ اس لیے دوسری جگہوں مثلاً ہندوستان وغیرہ سے بھی بڑی تعداد میں مزدور پٹری بچھانے کے لیے لائے گئے تھے۔ کام زور و شور سے جاری تھا۔ ہزارہا مزدور اور کاریگر لگے ہوئے تھے۔ میرا خیال تھا کہ یہ کام جلد ہی مکمل ہوجائے گا لیکن حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ صورتحال بالکل بدل گئی۔ ایک روز جب میں منہ اندھیرے اٹھا تو مجھے بتایا گیا کہ انگن سنگھ جمعدار کو آدھی رات میں خیمے کے اندر سے ایک شیر گھسیٹ کر لے گیا اور اسے ہڑپ کر گیا۔ یہ خبر سن کر مجھے بہت صدمہ ہوا۔ میں فوراً وہاں پہنچا۔ بلاشبہ یہ کام شیر ہی کا تھا۔ خیمے کے باہر ریت پر شیر کے پنجوں کے نشانات موجود تھے۔
یہ پہلا موقع تھا کہ ساؤ کے آدم خور شیروں سے میرا تعارف ہوا۔ اسی رات میں نے انگن سنگھ کے خیمے کے قریب ایک مضبوط اور بلند درخت پر شیر کا انتظار کرنے کا پروگرام بنایا اور سر شام ہی تیاری کے ساتھ پہنچ گیا۔ میں نے مزدوروں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے خیموں کے دروازے اچھی طرح بند رکھیں۔ میرے پاس اعشاریہ ۳۔۳ اور ۲۱ بور کی دو بندوقیں تھیں اور میں پکا ارادہ کیے ہوئے تھا کہ ان آدم خوروں کو ضرور ختم کروں گا۔ رات آہستہ آہستہ اپنا سفر کررہی تھی۔
یکایک شیر کی خوفناک دھاڑ سے جنگل لرز اٹھا۔ مجھے احساس ہو رہا تھا کہ وہ ضرور دبے پاؤں اپنے شکار کی تلاش میں پھر رہا ہے اور عنقریب ادھر آنے والا ہے۔ لیکن شیر نہ آیا۔ وہ رات آنکھوں میں کٹ گئی اور جب میں دوسرے قبیلوں کے ساتھ اپنے کیمپ میں پہنچا تو ایک تازہ خبر میرا انتظار کر رہی تھی۔ ریل ہیڈ کیمپ میں آدم خور شیروں نے حملہ کیا اور ایک مزدور کو پکڑ کر لے گئے۔ وقت وہی تھا۔ جب میں نے رات شیر کے دھاڑنے کی آواز سنی تھی۔ میں اس طرف گیا اور ایک درخت پر مچان بندھوائی۔ اس سے دس فٹ کے فاصلے پر ایک دوسرے درخت تک نیچے میں نے ایک بکرا بندھوایا۔ روشنی کے لیے میں نے تیل کی لالٹین بھی روشن کرکے ایک شاخ پر لٹکا دی۔
بکرا پہلے تو کافی دیر تک چپ چاپ بندھا رہا۔ لیکن جونہی رات گہری ہوئی تو وہ خوف سے چلانے لگا۔ اس کی آواز یقینا دور تک پہنچ رہی تھی کیوں کہ میں نے فوراً شیر کے دھاڑنے کی آواز سنی۔ یہ آواز سنتے ہی بکرا فوراً چپ ہو گیا۔ غالباً شیر کی دہشت سے اس کی آواز بند ہو گئی تھی۔ بکرے کا یوں چپ ہوجانا مجھے اور الجھن میں ڈال رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ بکرا اور زور سے چلائے تاکہ شیر اس کی آواز پر ادھر چلے آئے۔ اسی اثناء میں بادل گرجے اور بارش شروع ہو گئی۔ ہوا اور بارش کا یہ طوفان ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا۔ خدا خدا کرکے بار ش تھمی۔ بکرا ایک مرتبہ پھر حلق پھاڑ پھاڑ کر چلایا۔ مجھے خیال ہوا کہ یہ رات بھی ضائع ہوگئی۔ شیر اب ادھر کا رخ نہ کرے گا۔ آدھی رات کے بعد میں نے کسی آدمی کے چیخنے کی آوازیں سنیں۔ یہ آوازیں میرے پیچھے سے آرہی تھیں۔ افسوس کہ ایک بار پھر آدم خوروں نے نجانے کہاں اپنا شکار مار لیا تھا۔
اسی طرح ایک رات شیر قلیوں کے خیمے میں گھس آیا۔ خیمہ کافی بڑا تھا۔ جس میں چودہ پندرہ قلی سوئے ہوئے تھے۔ اسی خیمے میں گندم اور چاولوں کی چند بوریاں بھی رکھی تھیں۔ شیر نے پہلے تو ایک قلی کے کندھے پر زور سے پنجہ مارا۔ اس بدنصیب کا کندھا جسم سے الگ ہو گیا۔ اس کے منہ سے چیخ نکلی تو دوسرے قلی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ شیر بدحواس ہو گیا اور جلدی میں اپنے شکار کو چھوڑ کر چاولوں کی ایک بوری منہ میں پکڑی اور گھسیٹ کر خیمے سے باہر لے گیا۔ کافی دور جانے کے بعد جب شیر نے بوری کو چیرا پھاڑا تو اس میں سے چاول نکل کر بکھر گئے۔ شیر کو اپنی حماقت کا احساس ہوا اور وہ بوری وہیں چھوڑ کر کسی اور طرف چلا گیا۔ یہ واقعات شروع شروع کے ہیں۔ بعد میں ان شیروں کو اپنا شکار حاصل کرنے میں بڑی مہارت ہو گئی تھی اور وہ حد سے زیادہ چالاک اور نڈر ہو گئے تھے۔ انہوں نے کیمپ کا وہ ہسپتال بھی نہ چھوڑا جس کے گرد میں نے خاص طور پر خاردار باڑ لگوائی تھی۔ لیکن ایک رات شاید وہ کسی حصے سے جھاڑیاں کم اونچی پا کر کود آیا۔ اب جو اس نے بغیر کسی آواز کے ہسپتال کے ایک دروازے سے جھانکا تو اس کے سامنے ایک کمرے میں پانچ مریض اپنے بستروں پر بے خبر سوئے ہوئے تھے۔ اس نے ایک غراہٹ کے ساتھ چھلانگ لگائی اور تیسرے مریض پر کود گیا۔ ابھی وہ چیخ و پکار مچا ہی رہا تھا کہ شیر نے اس کی ٹانگ دبوچ لی اور گھسیٹتا ہوا باڑھ میں سے کسی ایسے حصے میں لے گیا جہاں سے اسے لے جانے میں کوئی دقت بھی نہ ہوئی۔ صبح جھاڑی کے ایک حصے سے اس کے پنجوں اور پیروں کے نشانات مل گئے اور ساتھ اس بدنصیب مریض کے خون کے دھبے بھی۔ میں نے فوری طور پر ہسپتال وہاں سے منتقل کرا دیا۔
میری سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ ان درندوں سے کس طرح خلق خدا کو نجات دلائی جائے۔ ان آدم خوروں کو مارنے کی تدبیریں سوچتے سوچتے میرا دماغ ماؤف ہو گیا۔ آخر ایک روز ایک نہایت ہی عمدہ ترکیب میرے ذہن میں آئی۔ میں نے ریل کے سلیپر اور آہنی گارڈ جمع کیے اور پھر ایک بڑا سا پنجرہ بنایا کہ شیروں کو زندہ گرفتار کیا جا سکے۔ پنجرے کے دو حصے تھے، سامنے کا حصہ شیروں کے لیے اور عقبی حصہ مویشیوں یا آدمیوں کے لیے، تاکہ شیر ان کی بو پر پنجرے میں داخل ہو اور جونہی اس کے بھاری بھر کم جسم کا بوجھ ایک کمانی دار تختے پر پڑے، اوپر سے لوہے کی سلاخوں کا دروازہ فوراً گرے اور شیر کے باہر نکلنے کی راہ بند ہوجائے۔ اس کے بعد میں نے پنجرے سے ذرا فاصلے پر ایک خیمہ نصب کرایا اور اس کے چاروں طرف کانٹوں کی مضبوط باڑ لگوائی اور پوری تیاری کے ساتھ رات کو خیمے میں بیٹھ گیا۔ آپ یقین کیجئے کہ میں نے تین راتیں آنکھوں میں کاٹ دیں مگر شیر نہ آیا۔ نا معلوم کب میری آنکھ لگی ہوئی تھی کہ اتنے میں وہ موذی شیر وہاں آپہنچا۔شیر کی گرج سن کر میری آنکھ کھل گئی۔ مگر اب بچنے کا موقع کہاں تھا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ شیر خیمے کی رسیوں میں الجھ گیا۔ اس نے دو تین جھٹکے دیے تو پورا خیمہ ہم دونوں کے اوپر آن پڑا۔ میرے ہوش و حواس تو پہلے ہی گم ہو چکے تھے۔ رائفل تک اٹھانا بھول گیا۔ شیر نے خیمے کو نوچنا شروع کر دیا۔ میں خیمے کے اندر لیٹے ہوئے بستر کی مانند چھپا ہوا تھا۔ شیر نے مجبور ہو کر اس بستر کو منہ میں پکڑا اور بار سے گھسیٹ کر باہر لے آیا اور اس کی یہی حرکت مجھے دوبارہ زندگی بخشنے کا باعث بنی، ورنہ کانٹوں کی باڑ ایسے نازک وقت میں عبور کرنا میرے لیے ناممکن سی بات تھی۔ حسن اتفاق سے میری قمیض کا بڑا ٹکڑا پھٹ کر اس کے منہ میں رہ گیا اور میں اپنے ہی لگائے جانے والے زور سے دس پندرہ گز کے فاصلے پر جا گرا۔ بجلی کی تیزی میں اٹھا اور دوڑ کر پنجرے کے اندر چلا گیا۔ کمانی دار تختے پر جونہی میرا بوجھ پڑا، اوپر سے لوہے کی سلاخوں کا دروازہ گرا اور میرے اور شیر کے درمیان حائل ہو گیا۔ آدم خور اب میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ صبح تک اس نے پنجہ ڈال کر بار بار پکڑنے کی کوشش کی۔ آخر تھک ہار کر وہ وہاں سے چلا گیا۔ مجھے افسوس صرف اس بات کا تھا، میرے پاس رائفل ہوتی تو اس کا کام یہیں کر دیتا۔

مزدوروں کے تیور تو ان شیروں کی ابتدائی سرگرمیوں کے باعث پہلے ہی بگڑے ہوئے تھے۔ لیکن جب معاملہ حد سے گزر گیا اور ساٹھ ستر آدمی اس طرح ہلاک ہو گئے تو ان کا ایک وفد میرے پاس آیا اور مزید رکنے سے انکار کر دیا۔ میں نے ان لوگوں کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر وہ نہ مانے اور ریل میں بھر بھر کر ممباسہ جانے لگے۔ اس اثناء میں میں نے منت سماجت کرکے بقیہ مزدوروں کو اس شرط پر روک لیا کہ ان کے لیے ٹین کی چادروں کے چھوٹے چھوٹے کوارٹر بنائے جائیں گے۔
چند دن میں سرکار کی طرف سے میری مدد کے لیے ایک ماہر شکاری مسٹر وائٹ کو بھیجا گیا۔ میں نے شیر پکڑنے کا جو آہنی پنجرہ بنایا تھا اس کا معائنہ کیا گیا اور طے ہوا کہ شیر کو ہلاک کرنے کی یہی تدبیر ہے کہ اس کو پنجرہ میں پھنسا لیا جائے۔ شام ہوتے ہی ہم سب اپنی اپنی مچانوں پر بیٹھ گئے۔ پنجرے کے عقبی حصے میں دو سپاہیوں کو رائفلوں، کارتوسوں کے ایک ڈبے اور لالٹین کے ساتھ بند کیا گیا اور حکم دیا گیا کہ جیسے ہی شیر پنجرے میں بند ہوجائے اس پر گولیوں کی بارش کر دی جائے۔ سب لوگ نہایت بے صبری سے شیروں کی آمد کا انتظار کررہے تھے۔ رات کے دوسرے پہر شیر کے گرجنے کی اور دھاڑنے کی آواز سنائی دی۔ ہم گھپ اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر شیر کا سراغ پانے کی کوشش کر رہے تھے۔ دفعتہ ایک پرشور آواز کے ساتھ پنجرے کا آہنی دروازہ گرا اور شیر کے گرجنے اور پنجرہ ہلنے کی آوازیں آئیں۔ فوراً ہی مچانوں پر لالٹینیں روشن ہو گئیں۔
ہم نے دیکھا کہ آدم خور پنجرے میں پھنس چکا ہے۔ وہ سلاخوں کے اندر غیظ و غضب سے اچھل رہا تھا اور اتنی قوت سے دھاڑ رہا تھا کہ دل دہل جاتا تھا لیکن تعجب اس امر پر تھا کہ دوسرے حصے میں موجود سپاہی کیوں اس پر فائر نہیں کرتے۔ کئی منٹ اس طرح گزر گئے اور فائر کی کوئی آواز نہ آئی۔ آدم خود کو اپنے اس قدر قریب پا کر ان پر اس قدر وحشت طاری ہو گئی تھی کہ رائفلیں تک ان کے ہاتھوں میں کانپ رہی تھیں۔ اب جو انہوں نے فائر شروع کیے تو بالکل اندھا دھند شیر کو تو کوئی گولی نہ لگی البتہ جا کر درختوں میں پیوست ہوتی رہیں۔ پھر پوری قوت لگا کر اس نے لوہے کی سلاخیں لچکا ڈالیں اور ان کے درمیان میں سے نکل گیا اور یہ سارا کھیل ان بزدل اور بیوقوف سپاہیوں کے باعث کرکراہو گیا۔ اس ناکامی کا مسٹر وائٹ پر ایسا اثر پڑا کہ وہ اپنے علاقے میں واپس چلے گئے اور ایک بار پھر میں تنہا رہ گیا۔
ایک ہفتے بعد کا ذکر ہے میں کسی کام سے باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک حبشی دوڑا ہوا میرے پاس آرہا ہے۔ معلوم ہوا کہ دریا کے نزدیک ایک جگہ شیر نے اس پر حملہ کیا۔ یہ گدھے پر بیٹھا ہوا تھا کسی نہ کسی طرح یہ خود تو بچ کر آگیا مگر شیر نے گدھے کو وہیں چیر پھاڑ دیا۔ میں فوراً اپنی رائفل کندھے لٹکا کر ساتھ چل دیا۔ شیر وہاں موجود تھا اور غالباً نہایت بھوکا ہونے کے باعث گدھے کے ”بدمزہ“گوشت ہی پر قناعت کر رہا تھا۔ میں نہایت احتیاط سے پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھا رہا تھا لیکن میرے راہنما حبشی نے اپنی حماقت سے ایک جگہ سوکھی شاخوں پر پیر رکھ دیا۔ آہٹ ہوئی تو شیر چوکنا ہوکر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
اس نے اپنے قریب خطرے کی بو سونگھ لی تھی۔ وہ غراتا ہوا جنگل میں گھس گیا۔ میں واپس آیا۔ کیمپ سے چار پانچ سو قلی جمع کیے۔ جمعداروں سے کہا کہ خالی کنستر، ڈھول، باجے، برتن غرض یہ کہ جوشے بھی مل سکے لے آؤ۔ جب یہ سامان آگیا تو میں نے ان سب کو ہدایت کی کہ کنستر اور ڈھول پیٹتے ہوئے اور خوب شور مچاتے ہوئے ایک نصف دائرے کی شکل میں آہستہ آہستہ جنگل کی طرف چلو اور میں خود اسی جگہ جا کر چھپ گیا جہاں شیر نے گدھے کو ہلاک کیا تھا۔ قلیوں کے ہنگامے سے جنگل میں ایک قیامت برپا ہو گئی۔ چند ہی منٹ بعد کیا دیکھتا ہوں کہ آدم خور مضطرب ہو کر جنگل سے نکلا، وہ تعجب اور خوف سے ادھر ادھر دیکھتا۔ غالباً اس سے پہلے اس نے ایسا شور اور ہنگامہ نہ سنا تھا۔ وہ چند قدم چلتا اور پھر رک کر اپنے اردگرد دیکھنے لگتا۔ آخر وہ مجھ سے کافی قریب آگیا۔ اس نے اب تک مجھے نہیں دیکھا تھا۔ اس کی پوری توجہ اس ہنگامے پر مرکوز تھی۔ میں نے رائفل سے اس کی پیشانی کا نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔ آدم خور کے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکلی وہ فضا میں کئی فٹ اونچا اچھلا اور دھاڑتا ہوا میری جانب آیا۔ میں نے فوراً دو اور فائر کیے اور دونوں گولیاں اس کے جسم میں پیوست ہو گئیں۔ وہ وہیں قلابازی کھا کر ڈھیر ہو گیا۔ یہ موقع ایسا نازک تھا کہ میرا نشانہ خطا ہو جاتا تو میری موت یقینی تھی۔ شیر کے ہلاک ہوتے ہی قلیوں اور مزدوروں میں مسرت کی ایک زبردست لہر دوڑ گئی۔ پہلے تو وہ شیر کے گرد رقص کرتے رہے پھر انہوں نے مجھے کندھے پر اٹھا لیا اور پورا جنگل ”شاباش“ اور ”زندہ باد“ کے نعروں سے گونجنے لگا اور اس طرح ساؤ کا پہلا آدم خور شیر جس کے قد کی لمبائی ۹ فٹ ایک انچ تھی، کئی ماہ کی مسلسل کوششوں کے بعد اپنے انجام کو پہنچا۔
دس دن بعد تک دوسرے آدم خود کے بارے میں مجھے کوئی اطلاع نہیں ملی کہ اس نے کسی پر حملہ کیا ہو۔ کسی قلی کو اٹھا کر لے گیا ہو۔ اس کے یوں غائب ہونے کا ایک ہی مطلب تھا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا کر کہیں جھاڑیوں میں مر چکا ہو گا۔ تاہم مزدور بدستور درختوں کے اوپر چارپائیاں باندھ کر سوتے تھے۔ اسی طرح ہفتہ اور گزر گیا۔ مجھے یقین ہو چلا کہ آدم خور کا قصہ اب پاک ہو چکا ہے۔
۷۲ دسمبر ۹۹۸۱ء کی وہ رات مجھے آج بھی یاد ہے۔ میں اپنے خیمے میں لیٹا خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا کہ یکایک خیمے سے باہر کچھ فاصلے پر قلیوں کے چیخنے چلانے کی آوازوں نے مجھے بیدار کر دیا۔ اس کے بعد شیر کی گرج دار آواز نے مجھے بیدار کر دیا۔ خدا کی پناہ! آدم خور پھر نمودار ہو چکا تھا۔ میں نے ایک سوراخ سے باہر جھانکا۔ گھپ اندھیرے میں مجھے کچھ سجھائی نہ دیا۔ قلی مسلسل چیخ رہے تھے۔ میں نے جلدی سے اپنی رائفل اٹھائی اور تین چار ہوائی فائر کر دیے۔ جس سے آدم خور ڈر کر ایک جانب بھاگ گیا۔ صبح ہوئی تو پتہ چلا کہ فائر عین وقت پر ہوئے تھے ورنہ آدم خور کسی کو اٹھا لے جاتا۔ شام ہوئی تو میں رائفل لے کر ایک درخت پر چڑھ گیا۔ مجھے یقین تھا کہ آدم خور کل کی ناکامی کا بدلہ لینے ضرور آئے گا۔ خوش قسمتی سے اس رات بادل نہیں تھے اور چاند کی روشنی کھل کر آرہی تھی۔ آدم خور کا انتظار کرتے کرتے رات کے دو بج گئے۔ مجھے نیند کے جھونکے آرہے تھے پھر میں وہیں درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر اونگھنے لگا۔ نا معلوم میں کتنی دیر تک غنودگی کی عالم میں رہا دفعتہ میرے حواس خود بیدار ہو گئے۔ میں نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا وہاں کوئی نہ تھا۔ ہر شے ساکن اور چپ چاپ تھی۔ تاہم میں نے اپنے اندر بے چینی محسوس کی۔ یہ میری چھٹی حس تھی جو مجھے بتا تی تھی کہ میرے نزدیک کوئی ذی روح موجود ہے۔ میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی۔ درخت سے پندرہ گز دور گھنی جھاڑیوں پر چند منٹ تک نظریں جمائے رکھنے سے پتہ چلا کہ اس میں ہمارے پرانے دوست آدم خور صاحب چھپے ہوئے غالباً میری نگرانی کر رہے ہیں اور کمال کی بات یہ تھی کہ ظالم ان جھاڑیوں میں بھی ایسی احتیاط سے حرکت کرتا تھا کہ جھاڑیاں ذرا نہ ہلتی تھیں۔ میں مچان پر بے حس و حرکت بیٹھا اس کی عیاری کا جائزہ لیتا رہا۔ پھر میں نے اسے مزید دھوکہ دینے کے لیے اپنی آنکھیں جھوٹ موٹ موندھ لیں اور مصنوعی خراٹے لینے لگا۔ ایک آدھ منٹ بعد میں دیکھ لیتا کہ وہ کتنا نزدیک آگیا ہے۔ بھری ہوئی رائفل میرے پاس تھی اور پھر مجھے پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ آدم خور مجھی کو اپنا لقمہ بنانے کا ارادہ کر رہا تھا۔ میں جس مچان پر بیٹھا تھا، زمین سے اس کی بلندی دس گیارہ فٹ سے زیادہ نہ تھی اور شیر آسانی سے جست لگا کر اتنی بلندی پر وار کر سکتا تھا۔ خوف کی ایک سرد لہر میرے بدن میں دوڑ گئی۔ شیر اب مجھ پر حملہ کرنے کے لیے بالکل تیار تھا۔ وہ ایک دم جھاڑیوں کو چیرتا ہوا آگیا اور چھلانگ لگا کر میری جانب لپکا۔ لیکن میں بھی غافل نہ تھا۔ فوراً میری رائفل سے شعلہ نکلا اور گولی شیر کے بائیں کندھے میں لگی۔ ایک ہولناک گرج کے ساتھ آدم خور پشت کے بل گرا۔ مگر دوسرے ہی لمحے وہ اٹھا اور اچھل کر مجھ پر حملہ کیا۔ اس کا پنجہ چان سے دوانچ نیچے ایک شاخ پر پڑا اور شاخ تڑخ کر نیچے جا گری۔ میں نے بدحواسی میں دو اور فائر کیے اور یہ دونوں گولیاں کارآمد ثابت ہوئیں۔ اس کا دایاں بازو تو بالکل ہی بے کار ہو چکا تھا۔ وہ تین ٹانگوں پر اچھلتا ہوا جھاڑیوں کی طرف بھاگا۔ لیکن اب بھاگنے کا موقع کہاں تھا۔ ظالم درندے کا وقت پورا ہو چکا تھا۔ شیر کی لاش اٹھا کر میں اپنے خیمے میں لے گیا۔ اس کے جسم سے چھ گولیاں برآمد ہوئیں۔ اس طرح نو ماہ کی جان توڑ کوشش کے بعد دونوں آدم خور ہلاک ہوئے جن کی ہیبت ناک یاد اتنے برس بعد آج بھی میرے دل میں روزِ اول کی طرح تازہ ہے۔

٭……٭……٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top