skip to Main Content

خود غرض دیو

کہانی: The Selfish Giant
مصنف: Oscar Wilde
مترجمہ: سلمیٰ جیلانی
۔۔۔۔۔۔
ہر سہ پہر اسکول سے واپسی پر وہ سب بچے دیو کے باغ میں کھیلنے کو جایا کرتے تھے۔یہ باغ بہت ہی خوب صورت تھا۔نرم و ملائم گھاس کے فرش سے آراستہ، جا بجا خوش نما پھول کھلے ہوئے یوں محسوس ہوتے تھے جیسے تارے زمین پر اتر آئے ہوں۔یہی نہیں وہاں بارہ آڑو کے درخت بھی تھے جو بہار کے آتے ہی نازک نازک گلابی اور آبی رنگوں کے پھولوں سے بھر جاتے اور خزاں کے آنے تک مزے دار پھلوں میں تبدیل ہوجاتے۔پرندے ان درختوں پر آکر بیٹھتے اور اتنے مسحور کن گیت گاتے کہ بچے اپنا کھیل روک دیتے اور انہیں سننے میں محو ہوجاتے۔ وہ ایک دوسرے سے کہتے:”ہم کتنے خوش ہیں یہاں۔“
ایک دن کیا ہوا، دیو واپس آگیا، وہ دراصل اپنے دوست کورنش اوگر سے ملنے گیا ہوا تھا۔وہ چونکہ بہت ہی مختصر گفتگو کیا کرتا تھااس لیے اسے اپنی بات مکمل کرنے میں سات سال لگے۔ جب سات سال مکمل ہوگئے اور اس نے جو کہنا تھاکہہ چکا تو اپنے قلعے میں واپس آنے کا ارادہ کیا۔جب واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ بچے باغ میں کھیل رہے ہیں۔
”تم سب یہاں کیا کررہے ہو؟“اس نے غراتے ہوئے اتنی زور سے کہا کہ بچے ڈر گئے اور وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔”یہ میرا باغ ہے اور میں اپنے سوا کسی کو بھی وہاں کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔“دیو نے غرور سے کہا۔پھر اس نے باغ کے گرد ایک بہت اونچی دیوار تعمیر کی اور اس پر ایک نوٹس بورڈ آویزاں کردیا جس پر لکھا تھا۔”بلااجازت باغ میں آنے والوں کو سزا دی جائے گی۔“
دیو کی خود غرضی نے بچوں کو بہت آرزدہ کردیا۔ اب ان کے پاس کھیلنے کے لیے کوئی جگہ نہ رہی، انہوں نے سڑک پر کھیلنے کی کوشش کی مگر وہ دھول مٹی اور پتھروں سے اٹی ہوئی تھی،انہیں یہاں کھیلنے میں بالکل مزہ نہ آیا۔وہ اسکول سے واپسی پر اس اونچی دیوار سے گھرے ہوئے باغ کے آس پاس منڈلایا کرتے اور باغ کے متعلق باتیں کیا کرتے۔وہ ایک دوسرے سے کہتے۔”ہم باغ میں کتنی خوشی سے کھیلتے تھے۔“
پھر بہار آن پہنچی۔درختوں میں پھول کھلنے لگے اور تمام علاقہ ننھے پرندوں سے بھر گیا لیکن خود غرض دیو کے باغ میں ابھی تک موسم سرما باقی تھا۔وہاں پرندے گیت گانے نہیں آتے تھے کیونکہ بچے جو وہاں نہیں تھے اور درختوں میں بور آنا تو جیسے بھول ہی گیا۔ ایک خوب صورت پھول نے گھاس سے سر اٹھایا لیکن جب نوٹس بورڈ کی طرف دیکھا تو بچوں کے لیے بہت اداس ہو گیا اور دوبارہ زمین میں دبک کر گہری نیند سو گیا۔وہاں صرف دو ہی لوگ خوش تھے اور وہ تھے برف اور کہر، بہار تو اس باغ کا راستہ ہی بھول چکی تھی۔وہ دونوں خوشی سے چلاتے:
”اب تو ہم سارا سال یہیں رہیں گے۔“
برف نے اپنے سفید دبیز کوٹ سے گھاس کو ڈھانپ دیا اور کہرے نے تمام درختوں کو چاندی سے رنگ دیا،پھر انہوں نے کرہ شمالی سے آنے والی سرد ہواؤں کو دعوت دی کہ وہ بھی ان کے ساتھ آکر رہیں۔چنانچہ ہوا کا طوفان بھی ان کے ساتھ آکر رہنے لگا۔اس نے بھاری فر کا کوٹ پہن رکھا تھا اور سارا دن زور زور سے باغ میں دھاڑتا رہتا،یہاں تک کہ اس نے آتش دان تک الٹ پلٹ کر ڈالے۔”آہا یہ تو بہت اچھی جگہ ہے۔“وہ خوش ہو کر بولا اور اولوں کو بھی وہاں آنے کی دعوت دی اور وہ بھی وہاں آکر رہنے لگے۔
وہ ہر روز تین گھنٹے تک قلعے کی چھت پر دھما چوکڑی مچاتے، یہاں تک کہ چھت کے کئی کنگرے ٹوٹ کر گرگئے، پھر وہ باغ میں نہایت تیزی سے سے دائروں کی صورت گھوما کرتے، انہوں نے سرمئی لباس پہنا ہوتا اور ان کی سانس برف کی طرح سرد اور کاٹ دار ہوتی۔
خود غرض دیو پریشان تھا۔اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس بار بہار کو آنے میں اتنی دیر کیسے ہوگئی۔وہ اپنے کمرے کی باغ کی جانب کھلنے والی کھڑکی سے باہر کا نظارہ کررہا تھا جو سفید دودھیا برف سے ڈھکا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔”مجھے امید ہے موسم جلد ہی تبدیل ہو جائے گا۔“اس نے خود کو یقین دلایا لیکن وہاں بہار کبھی نہ آئی اور نہ ہی موسم گرما۔خزاں نے سارے باغوں کو لذیذ پھل تقسیم کیے لیکن دیو کے باغ کو ایک بھی نہ دیا۔وہ بولی:”ہنہ دیو بہت خود غرض ہے۔“سو وہاں موسم سرما ہی رہا اور شمال سے آنے والی سرد ہوا اور اولے،برف، ژالہ باری اور کہرا درختوں پر ادھر سے ادھر کودتے پھاندتے پھرا کرتے۔
ایک صبح دیو اپنے بستر میں لیٹا ہوا تھا کہ اچانک اس نے نہایت ہی دلفریب اور مسحور کن موسیقی کی آواز سنی۔ وہ اس کے کانوں کو بہت بھلی معلوم ہورہی تھی۔اس نے سوچا شاید بادشاہ کے موسیقار وہاں سے گزررہے ہیں،لیکن درحقیقت وہ بہت ہی نازک اور خوش الحان بلبل نما پرندہ تھا جو اس کی کھڑکی کے باہر گیت گا رہا تھا۔دیو نے عرصے سے اپنے باغ میں کسی پرندے کا گیت نہیں سنا تھا۔ اس وقت یہ مدھر آواز اسے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ پیاری لگ رہی تھی۔تب ہی اولوں نے برستا چھوڑدیا اور شمالی سرد ہوا کے جھکڑ بھی ٹھہر گئے۔یک بیک بہت خوشبو کی لہر نے فضا کو معطر کردیا۔جب یہ لہر کھلی کھڑکی سے ہوتی ہوئی اس کی ناک سے ٹکرائی تو اس نے بے اختیار اپنے بستر سے چھلانگ لگائی اور باہر باغ کی طرف دیکھنے لگا۔اس نے خود کلامی کی……”اب مجھے یقین ہوگیا ہے بالآخر بہار آہی گئی۔“
آخر اس نے ایسا کیادیکھ لیا تھا؟اس نے بہت ہی شاندار نظارہ دیکھا تھا۔ دیوار میں کیے گئے چھوٹے سے سوراخ کے ذریعے بچے باغ میں داخل ہو گئے تھے اور درختوں کی شاخوں پر براجمان تھے۔اسے ہر درخت پر ایک بچہ بیٹھا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ان کے واپس آجانے سے درخت اتنے خوش تھے کہ انہوں نے خود کو پھلوں سے لبریز کرلیا تھا اور ان کی پھلوں بھری ڈالیوں نے اپنے بازو بچوں کے سروں کے گرد حمائل کیے محسوس ہو رہی تھیں۔پرندے خوشی سے چہچہاتے پھر رہے تھے اور پھول ہری گھاس سے ایک بارپھر جھانکنے اور مسکرانے لگے تھے۔یہ ایک بہت ہی دلکش نظارہ تھا، لیکن باغ کے ایک کونے میں ابھی بھی موسم سرما موجود تھا۔یہ باغ کا سب سے آخری سرا تھا جہاں ایک چھوٹا سا لڑکا کھڑا تھا،وہ اتنا ننھا منا سا تھا کہ درخت کی شاخوں تک اس کی رسائی ممکن نہ تھی،وہ درخت کے تنے سے لپٹا بری طرح رورہا تھا۔بے چارہ درخت ابھی بھی کہرے اور برف سے اٹا ہوا تھا اور اس کے چاروں طرف شمالی سرد ہوا منڈلا رہی تھی۔درخت نے بچے سے کہا۔”ننھے لڑکے اوپر آجاؤ۔“اس نے اپنی شاخیں اتنی نیچے تک جھکادیں جتنا کہ وہ جھک سکتا تھا مگر بچہ بہت ہی چھوٹا تھا، وہ پھر بھی کسی شاخ کو نہیں تھام سکا۔
دیو نے یہ منظر دیکھا تو اس کا دل موم ہو گیا۔اس نے سوچا میں بھی کتنا خود غرض تھا،اب میری سمجھ میں آیا کہ بہار میرے باغ میں کیوں نہیں آرہی تھی۔میں اس ننھے بچے کو درخت پر بٹھا دوں گا اور باغ کے اطراف کی اونچی دیواریں ڈھادوں گا۔میرا باغ بچوں کے کھیلنے کے لیے ہمیشہ وقف رہے گا۔وہ اپنے کیے پر بہت شرمندہ تھا۔ پھر وہ سیڑھیاں اترتا نیچے پہنچا اور صدر دروازہ آہستگی سے کھول کرباغ میں چلا گیا، لیکن جب بچوں نے اسے دیکھا تو بہت خوف زدہ ہوگئے ا ور وہاں سے بھاگ گئے۔
باغ پھر سے برف اور کہرے سے بھر گیا۔ موسم سرما نے اسے پھر سے گھیرلیا تھا۔صرف وہ ننھا لڑکا بالکل نہ ڈرا اور نہ وہاں سے بھاگا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں، دیو نے اسے پشت سے تھاما اور آہستگی سے اپنے ہاتھ میں لے کر درخت کی شاخ پر بٹھا دیا اور یوں درخت ایک بار پھر بور سے لد گیا۔
ہر طرف پھول ہی پھول کھل گئے۔ پرندے وہاں آکر چہچہانے اور گیت گانے لگے۔ ننھے لڑکے نے اپنے بازو دیو کی گردن میں حمائل کر دیے اور اسے پیار کیا۔ جب دوسرے بچوں نے دیکھا کہ اب دیو پہلے جیسا برا نہیں رہاتو وہ بھاگتے ہوئے واپس آگئے اور بہار دوبارہ سے باغ میں ہر طرف پھیل گئی۔
”یہ اب تمہارا باغ ہے ننھے بچو۔“دیو نے کہا۔اس نے بڑی کلہاڑی اٹھائی اور دیوار کو مسمار کرڈالا۔جب دوپہر کے بارہ بجے لوگ مارکیٹ جانے کے لیے وہاں سے گزرے تو انہوں نے دیکھا،دیو بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔اتنا خوب صورت باغ انہوں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔
بچے سارا دن وہاں کھیلتے رہے۔ شام کو دیو کو خدا حافظ کہنے آئے تو اس نے پوچھا:
”تمہارا وہ ننھا دوست کہاں ہے؟وہی جسے میں نے درخت پر بٹھایا تھا، مجھے وہ بہت اچھا لگا تھا۔اس نے مجھے پیار بھی کیا تھا۔“
بچوں نے جواب دیا:”وہ تو چلا گیا، ہمیں اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔“
دیو نے ان سے کہا:”اس سے کہنا وہ کل ضرور یہاں کھیلنے آئے۔“
لیکن بچے تو اسے جانتے ہی نہیں تھے، نہ انہیں یہ معلوم تھا کہ وہ کہاں رہتا ہے، انہوں نے تو اسے پہلے کبھی دیکھا بھی نہ تھا۔ دیو اس بات پر اداس ہو گیا۔
ہر دوپہر اسکول کی چھٹی کے بعد بچے دیو کے ساتھ کھیلنے اس کے باغ میں آتے مگر وہ لڑکا دوبارہ کبھی دکھائی نہ دیا۔ دیو اب بچوں کے ساتھ بہت مہربانی سے پیش آتا۔ وہ اکثر ان سے اس لڑکے کے بارے میں پوچھا کرتا اور اس کی باتیں کرتا۔ وہ کہتا کہ وہ اسے دوبارہ دیکھنا چاہتا ہے۔
وقت گزرتا گیا……یہاں تک کہ دیو بوڑھا اور کمزور ہوگیا،وہ اب بچوں کے ساتھ کھیل نہ پاتا۔ بس اپنی بڑی سی وہیل چیئر پر بیٹھا انہیں کھیلتے ہوئے دیکھا کرتا، بچے اس کے باغ کو بہت سراہتے، اس پر وہ کہتا:
”میرے باغ میں بہت خوب صورت پھول ہیں لیکن بچوں سے بڑھ کر خوب صورت پھول کوئی نہیں۔“
سردیوں کی ایک صبح وہ اپنے کمرے میں کپڑے بدلتے ہوئے کھڑکی سے باہر کا نظارہ کررہا تھا۔ اسے اب موسم سرما برا نہیں لگتا تھا کیونکہ وہ جانتاتھا کہ یہ بہار اور پھولوں کے آرام کا وقت ہے،انہیں کچھ وقت کے لیے سونا بھی ہوتا ہے۔باہر دیکھتے ہوئے اس نے حیرت سے اپنی آنکھوں کو رگڑا اور خوب غور سے بار بار دیکھا جیسے اسے اپنی بصارت پر یقین نہ آیا ہو،یہ بلاشبہ بہت ہی خوب صورت نظارہ تھا۔ باغ کے انتہائی کونے میں ایک درخت سفید پھولوں سے لدا ہوا تھا۔ اس کی شاخیں سنہری اور نقرئی پھلوں کے بوجھ سے زمین پر جھک آئی تھیں ……اور……ان کے نیچے وہی ننھا لڑکا کھڑا تھا۔
دیو خوشی سے اچھلتا کودتا سیڑھیوں سے اتر کر باغ میں پہنچ گیا اور گھاس پر لوٹتا جب لڑکے کے قریب پہنچا تو اس کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا۔اس نے بے چینی سے لڑکے سے پوچھا:”تمہارے جسم پر زخموں کے نشان کیسے ہیں، کس نے تمہیں زخمی کیا؟“ لڑکے کی ہتھیلیوں اور پیروں پر کسی کے تیز ناخنوں کے نشان تھے۔
”وہ کون ہے، جس نے تمہیں زخم دیئے؟ مجھے بتاؤ..“دیو بے تابی سے چلایا۔”میں اپنی تلوار سے اس کا کام تمام کر دوں گا۔“
”نہ..“لڑکے نے جواب دیا۔”یہ تو پیار کے زخم ہیں۔“
دیو نے اچھنبے سے لڑکے کی طرف دیکھ کر سوال کیا:”آخر تم کون ہو؟“
ایک تکلیف دہ کراہ اس کے منہ سے نکلی اور وہ بچے کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ لڑکا دیو کو دیکھ کر مسکرایا اور اس سے کہنے لگا:”ایک بار تم نے مجھے اپنے باغ میں کھیلنے دیا تھا…آج میں تمہیں اپنے ساتھ اپنے باغ میں لے جانے کو آیا ہوں ……جانتے ہو میرا باغ کہاں ہے۔جنت میں ہے میرا باغ……“اسکول سے واپسی پر بچے جب کھیلنے کے لیے باغ میں آئے تو انہوں نے دیکھا،باغ کے آخری سرے پر درخت کے نیچے دیو لیٹا ہوا تھا۔ انہوں نے قریب جا کر دیکھا وہ تو مرچکا تھا اور سفید پھولوں نے اس کے جسم کو پوری طرح ڈھانپ دیا تھا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top