skip to Main Content

حیرت انگیز دعوت

کہانی: The Astonishing Party
مصنف: Enid Blyton

ترجمہ: گل رعنا

۔۔۔۔۔۔۔۔

بچوں نے جب جانوروں جیسی حرکتیں شروع کردیں تو ایک عجیب بات ہوئی

۔۔۔۔۔۔۔۔

قصبے کے تمام بچے بہت پرجوش تھے۔ ان کے لیے ایک دعوت کا بلاوا آیا تھا۔ یہ دعوت میڈم ٹوئنکل کی طرف سے تھی۔ میڈم ٹوئنکل ایک حیرت انگیز شخصیت کی مالک تھیں۔ وہ مختلف قسم کے جادوئی کرتب اور کھیل جانتی تھیں اور بہت خوش مزاج خاتون تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ سب بچے اس دعوت میں جانے کے مشتاق تھے۔
”تم لوگوں کو تمیز کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔“ بچوں کی اُستانی نے کہا: ”میڈم ٹوئنکل کو لالچی اور بدتمیز بچے بالکل بھی پسند نہیں لہٰذا اس بات کا خیال رکھنا۔“
دعوت والے دن سب بچے بہت اچھی طرح تیار ہوئے اور میڈم ٹوئنکل کے گھر پہنچے۔ ان کا گھر بہت خوب صورت تھااور ان کے نام کی طرح چمک رہا تھا۔ گھر کے باغ میں طرح طرح کے پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ میڈم ٹوئنکل نے سب بچوں کو خوش آمدید کہا ” دن بخیر بچو! تم سب لوگ بہت اچھے لگ رہے ہو۔“
”مجھے اُمید ہے کہ ہمیں ناشتے میں اچھی ، اچھی چیزیں کھانے کو ملیں گی۔“ پیٹر نے ٹام کے کان میں سرگوشی کی۔ میڈم ٹوئنکل کے کان بہت تیز تھے۔ ان کے کانوں نے یہ سرگوشی سن لی۔ ان کی تیوری چڑھ گئی۔
” پیارے بچو! آج کی دعوت آپ سب کے لیے بہت منفرد اور دلچسپ ثابت ہوگی۔ تاہم آپ لوگ اپنے رویے کے بارے میں ذرا محتاط رہیے گا۔ میں آپ لوگوں کو کچھ جادوئی کرتب دکھاؤں گی۔“ میڈم ٹوئنکل نے سب بچوں کو رنگین غبارے دیتے ہوئے کہا۔ بچے نہایت ذوق و شوق سے غبارے اُڑانے لگے۔ وہ بہت خوش تھے اور پھر گلوریا نے اپنا غبارہ کھیلتے کھیلتے ایک جھاڑی کے قریب پھینکا تو وہ ایک کانٹے سے اُلجھ کر پھٹ گیا۔ گلوریا گلا پھاڑ پھاڑ کر رونے لگی۔ میڈم ٹوئنکل گھبرائی ہوئی بھاگی چلی آئیں۔
”گلوریا! خیر تو ہے۔ تمھیں کہاں چوٹ لگی ہے؟ دکھاؤ، خون تو نہیں نکل رہا۔“ وہ پریشان ہو کر بولیں۔
” میرا غبارہ پھٹ گیا ہے۔“ وہ چیخ کر بولی اور میڈم ٹوئنکل کا منھ بن گیا۔
”اچھا تو بطخ کی طرح چلا کیوں رہی ہو؟“ میڈم ٹوئنکل نے سختی سے کہا اور پھر ایک بہت عجیب واقعہ ہوگیا ۔ گلوریا ایک بطخ میں تبدیل ہوگئی۔ اس نے اپنی چونچ مزید رونے کے لیے کھولی مگر وہ بطخ کی طرح قائیں قائیں کرکے رہ گئی۔
”او! یہ ضرور آپ کا جادوئی کمال ہے۔“ بچے خو شی سے چلّائے۔
”ہاں اور تم لوگ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں نے تمھیں پہلے ہی خبردار نہیں کیا تھا۔ مت رو گلوریا! یہ جادو خود ہی ختم ہوجائے گا۔“
”آنٹی! کیا آپ کو میرا خوب صورت ڈر یس پسند آیا؟ یہ میری آنٹی نے مجھے تحفے میں دیا تھا۔“ پولی نے کہا جو ایک ننھی، گھمنڈی لڑکی تھی اس نے چاروں طرف سے گھوم کر اپنا بیش قیمت فراک میڈم ٹوئنکل کو دکھایا۔
”پولی! تم تو بالکل مور کی طرح مغرور ہو۔“ میڈم ٹوئنکل نے ناگواری سے کہا۔
اس کے ساتھ ہی پولی ایک مور میں تبدیل ہوگئی۔ اس نے رونے کے لیے منھ کھولا مگر ایک بھیانک اور نوکیلی آواز نکال کر رہ گئی۔
” میرا خیال ہے کہ ہمیں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔“ بوبی نے خطرے کی گھنٹی بجتے ہوئے محسوس کرلی۔
”آؤ بچو! چاے پی لو۔“ میڈم ٹوئنکل نے کہا اور سب بچے اندر بھاگے۔ اندر ناشتے کا زبردست اہتمام تھا۔ پیٹر کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہ بہت لالچی لڑکا تھا۔ اس نے بڑھ بڑھ کر کیک، بسکٹ، سینڈوچز اور کبابوں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا۔ دوسرے بچے اس کو حیرت سے دیکھنے لگے۔
”تم بکری کی طرح لالچی ہو پیٹر! سب کچھ چر جاتے ہو۔“ بوبی نے کہا۔ اس کے ساتھ ہی پیٹر بکری بن گیا۔ اب کرسی پر ایک بکری بیٹھی ممیا رہی تھی۔ سب بچے ہنسنے لگے۔
”بچو! تم لوگوں کو جو چیز پسند ہو وہ بلاتکلف کھا سکتے ہو۔“ میڈم ٹوئنکل نے کہا۔ سب بچے اپنی اپنی پسند کی چیزیں نکال کر کھانے لگے سوائے ڈک کے۔ وہ انتظار کررہا تھا کہ کوئی اس سے کھانے پر اصرار کرے تو وہ کھانا شروع کرے۔ مگر ظاہر ہے کہ سب کھانے پینے میں مصروف تھے لہٰذا کسی نے اس سے کھانے پر اصرار نہیں کیا۔ ڈک بہت اُداس ہوا۔ کافی دیر تک وہ خالی پلیٹ اپنے سامنے رکھ کر بیٹھا رہا اور پھر اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔
’ کیا بات ہے ڈک ؟ کیا تم بیمار ہو؟“ میڈم ٹوئنکل نے پوچھا۔
” نہیں…. مگر کسی کو میری پروا نہیں ہے۔ سب خود کھانے بیٹھ گئے اور مجھ سے کسی نے پوچھا تک نہیں کہ میں کیا کھاؤں گا۔ میں نے ابھی تک کچھ بھی نہیں کھایا۔“ ڈک نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا۔
”افوہ! کیا میں نے تم سب لوگوں سے یہ نہیں کہا تھا کہ جس کو جو پسند ہو وہ کھا سکتا ہے؟“ میڈم ٹوئنکل نے بے صبری سے کہا۔
”تم بالکل گدھے ہو!“ اور ڈک ایک ننھا سرمئی گدھا بن گیا۔ دوسرے بچے ہنسنے لگے۔
” کیا میں تمھارے کھانے کے لیے کچھ جھاڑیاں لاؤں پیارے ڈک؟“ مارٹن نے کہا اور دوڑ کر باغ سے کچھ جھاڑیاں لے آیا۔
اسے ڈک کے منھ میں جھاڑیاں ٹھونستے دیکھ کر میڈم ٹوئنکل نے ڈانٹا۔
”مارٹن! تم بالکل بندروں والی حرکتیں کررہے ہو۔“ اور اس کے ساتھ ہی مارٹن بندر بن گیا۔ بچوں کے قہقہے گونج اُٹھے۔
”بہت خوب! میرا گھر تو چڑیا گھر میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔“ میڈم ٹوئنکل نے وہاں موجود جانوروں اور پرندوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ”خیر! اب تم سب باغ میں جا کر لنگڑی چال کھیلو۔ جب تک میں چاے کے برتن دھو لیتی ہوں۔“ سب بچے باغ میں آکر لنگڑی چال کھیلنے لگے۔ ”فینی چیٹنگ کررہی ہے۔ ابھی اس نے اپنا دوسرا پاؤں بھی زمین پر رکھا ہوا تھا۔“ این چلائی۔
”تم خود بے ایمانی کررہی ہو۔ ابھی تمھارے بھی دونوں پاؤں زمین پر تھے۔“ جون چلایا۔
”اور تم بڑے ایماندار ہو۔“ یہ کہہ کر این نے اسے دھکا دیا۔ جون نے بھی ایک جوابی دھکا دیا۔
”دوبارہ شروع کرو، تم لوگ بے ایمانی کررہے ہو۔“ ٹام چلایا۔
”جولی! میری فراک پکڑ کر مت کھینچو، تم اسے پھاڑ دو گی۔“ ایمی نے گلا پھاڑا۔ جون نے جولی کو مارا اور اس نے جون کو جوابی تھپڑ مارا۔ ایمی نے فینی کو دھکا دے کر نیچے گرا دیا۔ وہ سب چیخ چیخ کر لڑ رہے تھے اور مارپیٹ میں مصروف تھے۔
میڈم ٹوئنکل دوڑتی ہوئی باہر آئیں۔ وہ بہت غصے میں لگ رہی تھیں۔ کیا یہ بچے صرف دس منٹ کے لیے بغیر لڑے اور چلاّے نہیںکھیل سکتے ہیں۔” کتے، بلیوں کی طرح لڑنا بند کرو، کچھ تو شرم کرو۔“ ان کے چلاتے ہی سب لڑنے والے بچے کتے اور بلیاں بن گئے۔ میاؤں میاؤں اور بھو بھو کی آوازوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ میڈم ٹوئنکل نے ان سب کی جانب دیکھا۔ ”بطخ ،مور، بکری ، گدھا، بندر اور بے شمار کتے اور بلیاں ! کیا دعوت ہے۔“ اُنھوں نے کہا۔
”خوب! میں بچوں کی ایک دعوت کرنا چاہتی تھی نہ کہ ایک زومیٹنگ (Zoo Meeting)بہتر ہے کہ تم سب لوگ اپنے گھر جاؤ۔ جس بچے نے بھی دل میں جانوروں جیسی حرکتوں سے توبہ کرلی اس پر سے جادو کا اثر دور ہوجائے گا۔“
لہٰذا بطخ ، مور، بکری، گدھا، بندر، کتے اور بلیاں یہ سوچتے ہوئے غمگین سے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے کہ ان کے گھر والے اُنھیں اس حلیے میں دیکھ کر کیا کہیں گے۔ مگر آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ جیسے ہی بچے اپنے اپنے گھر کے دروازے پر پہنچے، وہ دوبارہ سے بچوں اور بچیوں میں تبدیل ہوگئے۔ سب بچوں نے خدا کا شکر ادا کیا۔
کتنی حیرت انگیز دعوت تھی۔ آپ کا کیا خیال ہے، اگر آپ اس دعوت میں شریک ہوتے تو کیا آپ بھی کسی جانور یا پرندے کا روپ اختیار کرسکتے تھے؟ اگر ہاں تو آپ کیا بنتے؟ ذرا سوچیے!
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top