skip to Main Content

تقدیر کے فیصلے

روم کی کہانی
ترجمہ: رابعہ محمود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک اندھیری رات کو آندھی اور طوفان آیا ہوا تھا۔ٹائبر دریا بھی خوب چڑھا ہوا تھا اور پہاڑوں سے کیچڑ، مٹی اور ریت لے کر تیزی سے نیچے آرہا تھا۔ ایسے شدید طوفانی موسم میں ایک دبلی پتلی عورت آندھی کے تھپیڑ ے کھاتی ایک ہلتے ہوئے تھیلے کو گود میں دبائے دریا کی طرف تیزی سے بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ پانی کی سرکش موجوں کے شور کے باوجود دوننھے بچوں کے رونے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں جو غالباًاِس ٹھنڈی اور تیزہوا کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔نوعمر دوشیزہ دریاکے کنارے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔ اس نے چھوٹی سی کشتی کنارے کے قریب رکھی، پھر ایک گٹھری سے دو ننھے منے بچے نکالے اور انہیں کشتی میں لٹا دیا۔ تھوڑی دیر تک تو وہ انہیں دیکھ کر روتی رہی پھر اس نے ان بچوں کو اچھی طرح شال میں لپیٹا، اپنی آنکھیں بند کیں اور دل پر پتھر کی سل رکھتے ہوئے کشتی کو پانی میں بہا دیا۔ تیز رو دریا میں چھوٹی سی کشتی چکر کھاتی تیزی سے آگے نکل گئی اور چند ہی لمحوں میں رات کے اندھیروں نے اس کو نگل لیا۔ لڑکی کافی دیر کنارے پر کھڑی رہی۔ بچوں کے رونے کی آواز اس کے کانوں میں گونجتی رہی اور پھر وہ بھی گم ہو گئی۔
لڑکی کا نام ریما سلویا تھا۔یہ کوئی چڑیل یا ڈائن یا قاتل نہیں تھی جو اپنے بچوں کو ایسے موسم میں دریا میں ڈال کر جا رہی تھی جہاں ان کی موت یقینی تھی۔حالات ہی کچھ ایسے تھے کہ وہ یہ خوف ناک قدم اٹھانے پر مجبور تھی۔ ریما جانتی تھی کہ اگر وہ بچوں کو اس طوفان میں ایک کمزور سی کشتی میں دریا کے حوالے نہ کردیتی تو شاید اس کے بچے اس سے بھی زیادہ خوف ناک ظلم کی بھینٹ چڑھ جاتے اور ان کے زندہ بچ جانے کی کوئی بھی امید باقی نہ رہتی۔
پندرہ روز قبل جب یہ جڑواں بچے پیدا ہوئے تھے، تب ہی سے ریما جانتی تھی کہ ان کو زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا۔ریما کوئی معمولی عورت نہ تھی۔وہ ایک شہزادی تھی۔اس کا باپ البا لونگا کا بادشاہ تھا جس کا نام نیو میٹر تھا۔جس کو اس کے بیٹے نے تخت سے اتاردیا تھا اور ریما غریب کو ویسٹا مندر کی پجارن بنا دیا تھا تاکہ وہ دنیا چھوڑدے اور ساری زندگی کنواری رہ کر مندر میں پوجا پاٹ کرتے ہوئے گزار دے۔ ریما ایسی زندگی گزارنا نہیں چاہتی تھی لیکن ایمولس یعنی اس کے بھائی نے اسے مجبور کیا کہ وہ دنیا ترک کردے اور مندر کی ان خاموش دیو داسیوں میں شامل ہو جائے جو سنگ ِ مرمر کے ٹھنڈے مندر میں زندگیاں گزار دیتی ہیں۔
ایمولس جو بہت ظالم اور لالچی شخص تھا، خوب اچھی طرح جانتا تھا کہ رعایا اس کا ساتھ نہیں دے گی کیوں کہ وہ اس کے باپ کو پسند کرتی تھی، لہٰذا وہ صرف طاقت کے ذریعے ہی اپنی حکومت برقرار رکھ سکتا تھا۔یہ سوچ کر اس نے اپنے باپ کو بہت دور ایک گاؤں میں قید کروادیا۔ریما کی طرف سے بھی اس کو خدشہ تھا کہ اگر اس نے شادی کی تو اس کی اولاد یقینا ایمولس کو تخت سے اتار دے گی، لہٰذا ریما کو اس نے پجارن بنادیا، لیکن ہوتا وہی ہے جو خدا کو منظور ہوتا ہے۔ بندہ لاکھ ترکیبیں کرے، سب رکھی رہ جاتی ہیں۔ریما نے چھپ کر کسی سے شادی کرلی۔ پھر اس کے ہاں دو جڑواں بیٹے پیدا ہوئے۔ریماان کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی لیکن جلد ہی اس کو یاد آگیا کہ اس کا بھائی ان کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔آخر یہی ہوا کسی طرح یہ خبر ایمولس تک پہنچ گئی۔ وہ بہت ناراض ہوا کیونکہ اس کی ساری منصوبہ بندی خاک میں مل گئی تھی۔اس کے دل میں یہ خوف پیدا ہو گیا تھا کہ یہ لڑکے بڑے ہو کر ضرور اس کو نیچا دکھائیں گے،اور اس کو تخت سے محروم کردیں گے۔ابھی بچے دو تین روز کے ہی تھے کہ وہ دندناتا ہوا مندر میں داخل ہوا،اپنی بہن کو گھسیٹ کر باہر نکالا اور سپاہیوں کو حکم دیا کہ بچوں کو یہاں سے لے جائیں اور تلوار کے ایک ہی وار سے ان کا کام تمام کر دیں۔
ریما روتی رہی اپنے بچوں کی جان کی بھیک مانگتی رہی لیکن اس کے بھائی کا دل نہیں پسیجا۔اس نے کہا کہ”میں اتنا بے وقوف نہیں ہوں کہ اپنے دشمنوں کو زندہ چھوڑدوں۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ جوان ہو کر یہ بھی میرے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو میں نے اپنے باپ کے ساتھ کیاہے۔“
آخر کار کچھ سوچ کر ریما نے یہ درخواست کی کہ مجھ کو صرف اتنی اجازت دے دیں کہ میں خود ہی ان بچوں کا کام تمام کر دوں۔ ایمولس نے اسے یہ اجازت دے دی کہ وہ ان کو دریا میں ڈبو دے۔
ریما نے جب بچوں کو دریا میں چھوڑا تو اس کے دل میں یہ امید تھی کہ شاید کسی کی نظر ان پر پڑ جائے اور وہ ان کو پانی سے باہر نکال لے۔خدا کے لیے تو کیامشکل ہے۔ اگر وہ چاہے گا تو بچوں کی جان بچ جانے کی کوئی نہ کوئی صورت نکل ہی آئے گی اور اگر ان کو مرنا ہی ہے تو تلوار سے مارے جانے اور خون بہنے سے بہتر ہے کہ وہ پانی میں ڈوب جائیں۔دیر تک ریما دریا کے کنارے کھڑی روتی رہی اور دعائیں مانگتی رہی۔ آخر کار مندر واپس آگئی۔
کشتی بچوں کو لیے ہوئے ساری رات طوفانی لہروں پر ہچکولے کھاتی رہی۔ جب صبح ہوئی تو کشتی ایک چھوٹے سے بھنور میں پھنس گئی۔یہ بھنور گھومتا ہوا کشتی کو ایک چھوٹی سی خلیج میں لے گیا۔قریب ہی کنارے پر ایک انجیر کا بڑا سا درخت تھا جس کی چند جڑین زمین کے اوپر پانی کی طرف پھیلی ہوئی تھیں۔ قدرت کو ان بچوں کی زندگی منظور تھی۔چھوٹی سی کشتی اس کی جڑوں میں اٹک گئی۔ بچے بھوک سے بے تاب ہو کر زور زور سے رو رہے تھے۔ ان کی آوازیں دور تک جنگل میں سنائی دے رہی تھیں۔
ایک سرمئی رنگ کی مادہ بھیڑیا کھانے کی تلاش میں ادھر ادھر گھوم رہی تھی کہ اس کے کانوں میں عجیب سی آوازیں آئیں۔وہ تیزی سے اسی سمت بھاگی جدھر سے آوازیں آرہی تھیں۔ ایک ہفتہ قبل اس بھیڑیا نے بچے دیے تھے لیکن شکاریوں نے ان کو مار ڈالا تھا۔ جیسے جیسے وہ کشتی کے قریب ہوتی جا رہی تھی،اس کو یہ آوازیں اپنے بچوں کی آوازوں سے ملتی جلتی معلوم ہو رہی تھیں۔ وہ اور بھی تیزی سے دوڑتی ہوئی کشتی تک پہنچ گئی۔اپنے منہ سے شال کو الگ کیا اور بچوں کو سونگھنے لگی۔بچے اور بھی زور سے رونے لگے۔ ڈر اور خوف تو وہ جانتے ہی نہیں تھے،لیکن وہ شاید دودھ مانگ رہے تھے۔کیونکہ ان کی بھوک اب ناقابل برداشت ہو گئی تھی۔
مادہ بھیڑیا خود بھوکی تھی۔چاہتی تو بچوں کو کھا کر اپنے پیٹ کی آگ بجھا سکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس نے بہت آہستہ سے بچوں کو اپنے منہ میں دبایا اور اپنی کچھار میں لے گئی جو اس نے جھاڑیوں میں بنا رکھی تھی۔ ان کو اپنا دودھ پلایا اور اپنے بچے سمجھ کر ان کو پالنے لگی۔
کئی سال گزر گئے۔ بچے بڑے ہونے لگے۔پہلے تو وہ چاروں ہاتھ پیر سے چلتے تھے۔ پھر ٹانگوں پر کھڑے ہو کر انسانوں کی طرح چلنا شروع کردیا۔ کیونکہ ٹانگوں کے مقابلے میں ہاتھ چھوٹے ہونے کی وجہ سے ان کو چاروں ہاتھ پیروں پر چلنے سے تکلیف ہوتی تھی۔
شروع میں وہ بھیڑیا کی آواز نکالتے تھے لیکن پھر ایسا ہواکہ اکثر گڈریے اپنی بھیڑ بکریوں کے گلے چراگاہوں تک لے جاتے ہوئے ادھر سے ہی گزرتے، وہ آپس میں باتیں کرتے جاتے تھے۔ وہ جھاڑیوں میں چھپ کر ان کی باتیں سنتے، ان کواپنی زبان سے دہراتے رہتے۔آخرکار ان کو ٹوٹی پھوٹی زبان بھی بولنا آگئی۔اب وہ کافی بڑے اور طاقت ور ہو گئے تھے۔ان کا خوف بھی کم ہو گیا تھا۔وہ باہر نکلنے لگے تھے۔ان کی بھیڑیا ماں نے ان کو شکار کرنے کی گھاتیں خوب سکھا دی تھیں۔پہلے تو وہ اپنے آپ کو بھیڑیا ہی کی اولاد سمجھتے تھے۔لیکن جیسے جیسے ان کی عقل بڑھتی گئی تو ان کو یہ محسوس ہوتا گیا کہ وہ بھیڑیا کے مقابلے میں گڈریوں سے زیادہ ملتے جلتے ہیں۔ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا لیکن ان کو سخت تجسس ہوا کہ کہیں آگے جاکر کچھ معلومات حاصل کریں کہ وہ کون ہیں۔وہ اپنی بھیڑیا ماں سے بہت پیار کرتے تھے۔ جنگل کی زندگی کے سارے گر وہ سیکھ چکے تھے۔ایک دن دونوں بھائی وہاں سے نکلے۔ قریب ہی ایک گاؤں تھا، وہاں پہنچ گئے۔اتفاق سے ایک ایسے چرواہے اور اس کی بیوی سے ان کی مڈبھیڑ ہوگئی جن کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ ان کا کوئی نہیں ہے دنیا میں تو وہ ان کو اپنے گھر لے گئے اور ان کو اپنی اولاد کی طرح پالنے لگے۔

ایک لڑکے کا نام روموس اور دوسرے کا ریمس رکھا۔ ان کے والدین نے ان کو اسکول بھیجا۔ پڑھایا لکھایا۔جن انہوں نے اس ملک کی تاریخ پڑھی تو ان کومعلوم ہوا کہ یہاں کا حاکم ایمولس نامی ایک شخص ہے جو اتنا ظالم ہے کہ یہاں کی رعایا اس سے بہت بیزار ہے۔ کوئی شخص ذرا بھی حکم عدولی کرتا ہے تو شاہی فوجیں فوراً اس کی سرکوبی کرتی ہیں اور قید میں ڈال دیتی ہیں۔
دونوں لڑکوں نے کھلی فضا میں پرورش پائی تھی۔ وہ بہادر اور مضبوط جسامت کے مالک تھے اور ڈر جانتے ہی نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے گاؤں کے لڑکوں کا ایک گروہ بنایا جس کے وہ سردار چن لیے گئے۔ان لوگوں نے عہد کیا کہ ایمولس کو تخت سے اتار کر رعایا کو اس کے ظلم سے نجات دلائیں گے۔
ریمس اور روموس کو یہ بات نہیں معلوم تھی کہ بادشاہ ان کا اپنا سگا ماموں ہے۔بادشاہ تک یہ خبر پہنچ گئی کہ ایک گروہ اس سے مقابلہ کی تیاری کر رہا ہے۔اس نے فوراً اپنا فوجی دستہ اس گروہ کی سرکوبی کے لیے بھیج دیا،لیکن یہ کوئی معمولی گروہ نہیں تھا۔بادشاہ کے فوجی دستے آتے رہے اور شکست کھاتے رہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ بادشاہ کو تخت سے اتاردیا گیا۔ بادشاہ کا بوڑھا باپ نیو میٹر ابھی زندہ تھا۔ اس کو دوبارہ تخت پر بٹھا دیا گیا۔
جب بادشاہ نے بہادر لڑکوں کو انعام دینے کے لیے اپنے دربار میں بلوایا تو وہ چونک پڑا کیونکہ لڑکوں کی شکلیں بالکل بادشاہ کی بیٹی ریما سے ملتی جلتی تھیں۔بادشاہ نے علیحد گی میں اس مندر میں ریما سے یہ بات کہی تب ریما نے رورو کر ساری کہانی اپنے باپ کو سنائی کہ کس طرح بیس سال قبل اس نے اپنے بچوں کو دریا کے حوالے کردیا تھا۔اس کے بعد اس کو کچھ نہیں معلوم کہ ان کا کیا حشر ہوا۔ پوچھ گچھ کے بعد بادشاہ نے چرواہے اور اس کی بیوی کو بلوایا تو انہوں نے کہا کہ وہ ان لڑکوں کے والدین نہیں ہیں بلکہ انہوں نے صرف پرورش کی ہے۔ لڑکوں کے اصلی والدین سے بھی وہ لاعلم تھے۔
آخر کار بادشاہ نے لڑکوں سے پوچھا کہ تم ٹھیک ٹھیک بتاؤ کہ تم کون ہو۔روموس نے کہا ”جناب مجھے اتنا یاد ہے کہ جب ہم چھوٹے تھے تو جنگل کی وادیوں میں کھیلتے پھرتے تھے۔ اس کے علاوہ کچھ یاد نہیں۔“ریمس نے جواب دیا کہ”مجھے ایک غار یاد ہے جہاں ہم سوتے تھے۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی خواب میں ایک طوفانی دریا دیکھتا ہوں جس سے مجھے کو خوف آتا ہے۔“روموس نے کہا کہ ”مجھ کو ایک بات اور یاد آئی۔ایک مادہ بھیڑیا ہمارے ساتھ رہتی تھی اور ہمیں بہت پیار کرتی تھی اور شکار کرنا بھی سکھاتی تھی۔“آخرکار بادشاہ کو یقین ہو گیا کہ یہ دونوں لڑکے ریما کے ہی بیٹے ہیں جن کو ایک مادہ بھیڑیا نے پالا ہے۔وہ خوشی خوشی ان دونوں کو مندر لے گیا جہاں ریما ابھی تک رہ رہی تھی۔ بادشاہ نے اس کو بتایا کہ ”بیٹی! میں نے تحقیقات کر لی ہیں یہ لڑکے بلاشبہ تمہارے ہی کھوئے ہوئے بیٹے ہیں۔خدا کا شکر بجا لاؤ کہ جن کو تم مرا ہوا سمجھ بیٹھی تھیں، وہ زندہ سلامت ہیں اور اتنے بہادر اور جری ہیں کہ انہوں نے مجھ کو میرا تخت و تاج واپس دلوادیا ہے۔“یہ سن کر ایما اتنی خوش ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔
روموس اور ریمس بادشاہ کے درباری اور رازدار رفیق بن گئے۔ ان دنوں نے مل کر ایک خوب صورت شہر کی بنیاد ڈالی جو روم کے نام سے بہت مشہور ہے۔آج بھی ہزاروں سیاح ہر سال اس شہر کو دیکھنے جاتے ہیں۔
یہ شہر سات پہاڑیوں، وادیوں اور جنگلوں پر مشتمل تھا جہاں وہ پروان چڑھے تھے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ اس کا کیا نام رکھا جائے۔ آخر یہ طے ہوا کہ دونوں بھائی ایک ایک چوٹی پر چڑھ جائیں۔جو بھائی سب سے زیادہ پرندے دیکھے وہی نام رکھے گا۔روموس نے بارہ چڑیوں کے جھنڈ کو دیکھا اور ریمس نے صرف چھ چڑیاں دیکھیں لہٰذا روموس کے نام پر راس شہر کا نام رکھا گیا جو ایک اعلیٰ تہذیب کا گہوارہ بنا۔
چونکہ دونوں بھائی مل کر اس شہر کا انتظام کرتے تھے اس لیے کبھی کبھی اختلاف بھی ہوجا تاتھا اور جھگڑے کی نوبت بھی آجاتی تھی۔ روموس کا خیال تھا کہ شہر کی چاروں طرف دیوار بنا کر اس کو محفوظ کرلینا چاہیے لیکن ریمس کا کہنا تھا کہ روم کی شہرت اور اس کی عظمت ہی اس کی حفاظت کی ضمانت ہے۔کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ اتنی بڑی دیواربنا کر وقت اور روپیہ دونوں ضائع کرنا ہے۔
لیکن روموس نے ریمس کی غیر موجودگی میں یہ دیوار بناکر ہی چھوڑی۔جب پردیس سے ریمس واپس آیا تو دیوار کو دیکھ کر اس کا بہت مذاق اڑایا اور کہنے لگا۔”یہ کیا کمزور سی دیوار ہے۔ یہ تو بھیڑ بکریوں کو بھی آنے سے نہیں روک سکتی۔بھلا دشمن کو کیا روکے گی۔“یہ سننا تھا کہ روموس غصے سے پاگل ہو گیا اور تلوار کے ایک ہی وار سے اپنے بھائی کو ہلاک کردیا۔جب اس کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اس کو اپنے بھائی کے مرنے کا بہت رنج ہوا۔ اس نے توبہ کی اور عہد کیا کہ غصے میں کبھی تلوار نہیں اٹھائے گا۔ اس شہر کو عظیم بننانے کے لیے اس نے دوسرے ملکوں کے قابل اور عالم لوگوں کو روم آنے اور یہاں کی بود و باش اختیار کرنے کی دعوت دی۔ اس کی یہ حکمت عملی کارآمد ثابت ہوئی اور ایک زمانہ وہ آیا جب ساری دنیا میں روم کے چرچے ہونے لگے۔یہاں کے علم و فضل، شان و شوکت، جاہ وہ جلال اور رفعت و عظمت قابل ذکر تھی۔دنیا بھر سے اتنے اہل علم یہاں آکر بس گئے کہ شہر میں مردوں کی کثرت اور عورتوں کی قلت ہو گئی اور شادیاں کرنے میں دشواریاں پیش آنے لگیں۔ پڑوسی ملک اٹلی میں سبائن نامی ایک مشہور خاندان آباد تھا جن کی عورتیں حسن میں اپنی مثال آپ تھیں۔اس خاندان کے مرد اپنی عورتوں کی حفاظت کرتے تھے اور انہیں رومیوں کے قریب نہیں جانے دیتے تھے۔روموس نے عورتوں کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ایک ترکیب سوچی۔اس نے ایک بہت بڑے میلے کا اہتمام کیا۔روم کے میلے بھی بہت مشہور تھے۔لوگ بڑے شوق سے اس میں شرکت کے لیے دور دور سے آتے تھے۔میلے کے لیے دعوت نامے بھیجے گئے۔سبائن مرد بھی ہزاروں کی تعداد میں اپنی عورتوں اور لڑکوں کے ساتھ میلے میں شریک ہونے آئے۔ میلہ واقعی قابل دید تھا۔اتنا شاندار کھیل تماشہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ہزاروں گائیں اور لاکھوں بھیڑیں کھلی آگ پر بھونی گئیں۔بڑے بڑے کیک اور ڈبل روٹیاں تیار ہوئیں۔دور دور سے انگور، انجیر اور آڑو منگوائے گئے اور سارا شہر ہری ہری شاخوں اور رنگ برنگے پھولوں سے سجایا گیا۔مکانوں، دکانوں اور درختوں سے لمبے لمبے بینر لٹکائے گئے۔راتوں کو اتنی مشعلیں جلائی گئیں کہ دن کا گمان ہونے لگا۔بہت سے کھیلوں کا بھی اہتمام کیا گیا۔مقابلوں کا تو کوئی شمار ہی نہ تھا۔یہاں تک کہ انسان اور درندوں کے درمیان بھی سنسنی خیز مقابلے ہوئے، تیر اندازی، نشانہ بازی اور تلوار بازی کے جوہر لوگوں کو مبہوت کیے دیتے تھے۔
سات روز تک یہ رنگ رلیاں منتی رہیں اور شراب و کباب کے دور چلتے رہے۔ سبائن خاندان کے مردوں نے بھی دل بھر کر ان میں حصہ لیا۔اور اتنے مدہوش ہو گئے کہ آتش بازی کی جگمگاہٹ بھی ان کو ہوشیار نہیں کر سکی۔رومیوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور ان کی عورتوں کو اغواء کرکے چھپا دیا۔
جب سبائن مردوں کو ہوش آیا تو ان کواپنی عورتوں کی تلاش ہوئی۔ کئی روز تک وہ ان کو ڈھونڈتے رہے۔جب وہ ملیں تو انہوں نے روم سے جانے سے انکار کردیا۔یہاں جو ٹھاٹ باٹ انہوں نے دیکھے، وہ کہیں اور نہیں ہو سکتے تھے۔آخر کار ایک معاہدہ طے پایا کہ سبائن لوگوں کا بادشاہ ٹائٹس ٹیلس روم کے بادشاہ روموس کے ساتھ مل کر روم پر حکومت کریں گے۔
روم اور بھی پھلتا پھولتا رہا۔اس کی عظمتوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ لکڑی کے مکانوں کی جگہ سنگ ِ مرمر اور پتھر کے محلوں نے لے لی۔ اب تو شہر ان ساتوں پہاڑیوں اور اس جنگل تک پھیل گیاتھا۔جہاں روموس اور ریمس کا بچپن گزرا، اس جگہ کا نام لوپرکل پڑگیا، لاطینی زبان میں اس کے معنیٰ بھیڑیا کا گھر ہوتا ہے۔
روموس اس انجیر کے در خت کو نہیں بھولا تھا، جہاں اس کی کشتی ٹھہری تھی۔درخت اب بھی موجود تھالیکن اس کے پاس ہی ایک بہت شاندار سنگ مرمر کا مندر بھی بن گیا تھا۔مندر کے اندر کانسی کا ایک بڑا مجسمہ رکھا ہوا ہے، جو ایک مادہ بھیڑیا کا ہے۔اسے دو لڑکوں کو دودھ پلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ آج بھی سیاح اس مجسمے کو دیکھ سکتے ہیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top