skip to Main Content

بے ضرر سانپ

تحریر: ہنری سلاسر

ترجمہ و تلخیص: ش کاظمی

…….
میرا زہر نکال دیا گیا تھا اور اب میں ایک بے ضرر سانپ تھا

…….

میں صبح دس بجے کے قریب ہولسوائل میں داخل ہوا اور اپنی چار سالہ پرانی کار قصباتی بینک کے سامنے روک دی۔ ہولسوائل ایک زرعی قصبہ ہے۔ آبادی کسانوں اور زمینداروں پر مشتمل ہے۔ زمین زرخیز ہے، اس لیے کاشتکار بہت خوش حال ہیں۔ میں جس شاہراہ پر سفر کرتا ہوا یہاں آیا، یہ قصبہ اسی پر واقع ہے، سڑک کے دونوں طرف چند سو گز کے ٹکڑے پر قصبے کا تجارتی مرکز اور اس کے عقب میں رہائشی علاقہ تھا۔
چند سو گز بعد سڑک پھر کھلے میدان میں نکل جاتی اور حد نظر تک کوئی آبادی نظر نہ آتی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں بھی یہی منظر تھا۔ فصل کاٹی جاچکی تھی۔
اگر مجھے یہ معلوم نہ ہوتا کہ قصبے کے واحد بینک میں کاشتکاروں نے فصل فروخت کرکے خاصی رقم جمع کروائی ہے تو میں اس قصبے میں قدم رکھنا بھی پسند نہ کرتا۔
میں نے گاڑی سے اتر کر چاروں طرف ایک طائرانہ نظر ڈالی، آس پاس آدھی درجن گاڑیاں کھڑی تھیں اور تقریباً نو دس راہ گیر ٹہلنے کے انداز میں کاہلی سے آجا رہے تھے۔ کسی کو جلدی نہیں تھی، ان کے لباس پرانی طرز اور بال شریفانہ تھے۔ اس لیے میرے بھڑکیلے شوخ رنگوں کے لباس، شانوں پر جھولتے ہوئے بالوں، لمبی لمبی مونچھوں اور تاریک شیشوں کی عینک پر راہ گیروں کا پلٹ پلٹ کر تعجب کی نظریں ڈالنا قدرتی امر تھا۔ میرے جسم پر ڈبل بریسٹ گلابی سوٹ تھا جس کی پتلون کے پائنچے جدید فیشن کے مطابق بڑے بڑے تھے۔ قمیص سبز تھی جس پر نیلے پیلے بھول بنے ہوئے تھے اور کالر بہت بڑا اور اونچا تھا۔ پانچ انچ چوڑی گلابی اور سفید دھاریوں والی ٹائی بھی بندھی ہوئی تھی۔
نیو یارک یا لاس اینجلس میں کوئی مجھ پہ ایک نظر ڈالنا بھی گوارا نہ کرتا لیکن یہ ہولسوائل تھا، راہ گیر مجھے ایسی نظروں سے دیکھ رہے تھے جیسے میں چڑیاگھر کا جانور دکھتا تھا، لیکن یہ بات اس وقت کی ہے جب میں بہت چھوٹا تھا، اب یہ حال ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا عجوبہ بھی مجھے حیرت زدہ نہیں کرسکتا۔
میں نے بڑے اطمینان سے سانس لی اور دھیرے دھیرے چلتے ہوئے برا سا منہ بنا کے دکانوں اور عمارتوں پر نظر ڈالی۔ جب مجھے یقین ہوگیا کہ تقریباً ایک درجن راہ گیروں نے اچھی طرح میرا حلیہ دیکھ لیا ہے تو ٹہلتا ہوا بینک کے اندر داخل ہوگیا۔ بینک کا کل رقبہ تیس مربع فٹ سے زیادہ نہ تھا۔ دروازے پر ایک بڑے میاں اسٹول پر بیٹھے اونگھ رہے تھے۔ قریب ہی ایک رائفل دھری تھی۔
اندر داخل ہوتے ہی خزانچی کا کاؤنٹر پڑتا تھا جس پہ تین کھڑکیاں بنی ہوئی تھیں۔ وہاں ایک پینتیس چالیس سالہ عورت بیٹھی تھی۔ باقی حصے میں میزیں پڑی تھیں جن پر فائلوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ ایک طرف لوہے کی ایک الماری تھی اور قریب ہی ایک بڑی سی تجوری تھی۔ ذرا ہٹ کر ایک بڑی میز تھی جس کے پیچھے ایک بہت موٹا آدمی تھا، مجھے معلوم تھا کہ وہ بینک منیجر ہے۔ میں سیدھا اس کے پاس جاسکتا تھا۔ مگر میں چارلی کی ہدایت پر عمل کرتا ہوا کاؤنٹر کی طرف بڑھا اور خاتون خزانچی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ کر کہا۔ ”مجھے ڈولے سے ملنا ہے“۔
اس نے بڑی غور سے میرا حلیہ دیکھا پھر انگلی سے اسی موٹے آدمی کی طرف اشارہ کردیا۔
مسٹر ڈولے کے سامنے کوئی مفلوک الحال کاشت کار بیٹھا تھا۔ اس کے بال سفید تھے، کمر بالکل سیدھی اور چہرہ پروقار تھا۔ اس کے استخوانی ہاتھ بڑے بڑے سیاہ بالوں سے بھرے ہوئے تھے، وہ دھیمے لہجے میں مسٹر ڈولے کے سامنے اپنی مالی مجبوریاں بیان کررہا تھا، وہ غالباً اس سے قرض کی درخواست کرنے آیا تھا۔ میز کے سامنے چوں کہ صرف ایک کرسی تھی، اس لیے میں دائیں طرف پڑی بینچ پر بیٹھ گیا اور مسٹر ڈولے کو نگاہوں سے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
جیسے ہی ان کی نظر مجھ پر پڑی، وہ چوکنا ہوگیا اور کسان سے بولا۔ ”آج کل رقم کی بہت کمی ہے جناب! میں آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ آپ تشریف لے جاسکتے ہیں“۔
مسٹر ڈولے نے اس غریب کسان کو بڑی نخوت سے جھڑک دیا اور فوراً کھڑے ہو کر مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ ڈولے کے انداز سے بدتمیزی اور توہین کا پہلو نکلتا تھا۔ کسان کاچہرہ خفت سے سرخ ہوگیا۔ اس نے خاموشی سے مصافحہ کیا اور چلاگیا۔ مجھے اس بے چارے پر رحم اور ڈولے پر شدید غصہ آیا، اگر وہ یہی انکار نرم لہجے میں کردیتا تو اس کا کیا بگڑ جاتا؟
”فرمائیے جناب؟“ ڈولے نے انجان بنتے ہوئے بلند آواز میں مجھ سے پوچھا۔
”میرا نام اسمتھ ہے، میں وچیتا سے آیا ہوں“۔ میں نے پہلے سے طے شدہ شناختی جملہ دہرایا۔
”اوہ ہاں! بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر مسٹر اسمتھ! ٹیلی فون پر آپ سے گفتگو ہوئی تھی، جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا، ہمارے پاس بہت عمدہ جائیدادیں موجود ہیں۔ مجھے یقین ہے آپ ان میں سے کسی کا انتخاب کرلیں گے، تشریف رکھیے“۔
ڈولے بلند آواز میں بول رہا تھا۔ وہ یہ گفتگو خاتون خزانچی اور چوکیدار کو سنانا چاہتا تھا تاکہ بعد میں وہ لوگ پولیس کو اس کے حسب منشا بیان دے سکیں۔ پھر اس نے خاتون خزانچی کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا:
”ہلڈا! ذرا سامنے والے ریستوان کو دو کپ کافی بھجوانے کا کہہ آؤ۔“
ہلڈا جیسے ہی بینک سے باہر نکلی‘ میں نے کوٹ کی اندرونی جیب سے ریوالور نکالا اور چلا کر چوکیدار سے کہا۔ ”ادھر آؤ! اپنی رائفل وہیں زمین پر پھینک دو ورنہ میں مسٹر ڈولے کا بھیجا اڑادوں گا۔“
بڑے میاں پہلے تو میری آواز سن کر چونکے مگر جب صورتحال ان کی سمجھ میں آئی تو چہرہ زرد ہوگیا۔ وہ لرزتی ہوئی ٹانگوں سے میرے قریب آگئے۔ ”گھوم جاؤ۔“ میں نے حکم دیا۔ گھومتے ہی میں نے ان کے سر کے پچھلے حصے پر ریوالور مارا، وہ نہایت سعادت مندی سے بے ہوش ہوگیا۔
”رقم کہاں رکھی ہے؟“ میں نے ڈولے سے پوچھا۔
”تجوری میں ایک تھیلے کے اندر۔“ اس نے جواب دیا۔ ”اور ہاں ہلڈا کی درازیں بھی نہ بھولنا۔“
”فکر نہ کرو، تجوری کھول دو،باقی کام میرا ہے۔“
ڈولے نے تجوری کھول دی۔ میں نے اندر رکھا ہوا کینوس کا تھیلا نکال لیا، وہ نوٹوں کی گڈیوں سے بھرا ہوا تھا۔
”اب جلدی سے تم بھی گھوم جاؤ۔“ میں نے ڈولے سے کہا۔
”دیکھو، زیادہ زور سے نہ مارنا اور اتنی ہلکی چوٹ بھی نہ لگے کہ پولیس کو شبہ ہوجائے‘۔‘ ڈولے بولا۔
”مجھے معلوم ہے،چارلی نے مجھے سب کچھ سمجھادیا تھا۔ دیر نہ کرو، جلدی سے گھوم جاؤ۔“ میں نے ریوالور کا دستہ ڈولے کی کنپٹی پر مارا، وہ فوراً ڈھیر ہوگیا، اس لیے کہ میں نے ضرورت سے زیادہ قوت استعمال کی تھی، میں نے ریوالور کا دستہ پھر اس کے سر پہ بجایا…… یہ اس کسان کی طرف سے تھا جو مجھے بے حد شریف اور ضرورت مند نظر آرہا تھا۔ ڈولے نے واقعی اس سے بڑی بدتمیزی کی تھی۔
میں تجوری کھلی چھوڑ کر تیزی سے کاؤنٹر کی طرف بڑھا اور ہلڈا کی تمام درازیں نکال کر اوپر رکھ لیں۔ ان میں سے مختلف نوٹوں کی گڈیاں اٹھائیں اور انہیں اپنے کوٹ کی جیبوں میں ٹھونس لیا۔ اب تک کوئی گاہک اندر داخل نہیں ہوا تھا مگر میں اپنی خوش قسمتی کا مزید امتحان لینا نہیں چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے خاتون خزانچی کی واپسی کا ڈر بھی تھا۔ میں بھاگتا ہوا بینک سے باہر نکلا، میری گاڑی سامنے کھڑی تھی، آس پاس کوئی راہ گیر بھی نہیں تھا، میں بڑے اطمینان سے چلتا ہوا گاڑی میں بیٹھا اور اسے چلا کر تیز رفتاری سے روانہ ہوگیا۔ صرف ایک منٹ بعد میں قصبے سے باہر، شاہراہ پر سفر کررہا تھا۔
عام حالات میں کوئی بھی اس بینک پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ کرتا۔ اسے لوٹنا تو بہت آسان تھا لیکن وہاں سے فرار ہونا ناممکن کیوں کہ اس قصبے سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ تھا اور دونوں طرف میلوں تک کوئی آبادی نہیں تھی، اگر پولیس کو بینک لٹنے کی اطلاع گھنٹے بعد بھی ملتی، تو وہ سڑک کی ناکا بندی کرکے اس بدنصیب فنکار کو بآسانی گرفتار کرسکتی تھی، وہ اس طرح کہ قریب ترین قصبوں کی پولیس کو فون پر اس واردات کی اطلاع دے دی جاتی، جب وہ غریب کسی ایک قصبے کے قریب پہنچتا، تو وہاں پولیس اس کے استقبال کے لیے پہلے سے تیار ہوتی، وہ بے چارہ درمیان میں کہیں غائب نہیں ہوسکتا تھا۔

تقریباً دس میل طے کرنے کے بعد اترائی شروع ہوگئی۔ میں نے عقبی آئینے میں دیکھا، اب تک تعاقب میں کوئی گاڑی نظر نہیں آئی تھی، اترائی کی وجہ سے ہولسوائل میری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ پھر برساتی ندی پر بنا ہوا ایک پل نظر آیا، میں نے پل کے قریب سے گاڑی دائیں طرف کچے میں اتاردی اور ندی کنارے سفر کرنے لگا۔ کچے راستے پر مجھے ٹائروں کے بہت سے نشانات نظر آئے اور کچھ فاصلے پر درختوں کا ایک جھنڈ دکھائی دیا۔ اس علاقے میں بارش اتنی نہیں ہوتی تھی کہ سال بھر درختوں کی ضروریات پوری کرسکتی اس لیے میلوں تک کوئی درخت نہیں تھا۔ ندی کے کنارے درختوں کا یہ واحد جھنڈ تھا۔ دن کے وقت یہ جگہ بالکل سنسان ہوتی تھی لیکن آج سنسان نہیں تھی کیوں کہ جھنڈ میں چارلی میرا انتظار کررہا تھا۔
میں نے اپنی گاڑی چارلی کی گاڑی کے پیچھے روک دی اور نوٹوں کا تھیلا اٹھا کر باہر نکلا۔ چارلی نے مجھے دیکھ کر اپنی گاڑی کا دروازہ کھولا، اس کے ہاتھوں میں ایک موٹا فولادی تار تھا جسے وہ پھرتی کے ساتھ میری گاڑی کے اگلے اور اپنی گاڑی کے عقبی حصے سے باندھنے لگا۔ میں نے جلدی سے اپنی گاڑی پر لگی ہوئی نمبر پلٹیں اتاریں جن پر ریاست کینساس کا نمبر لکھا ہوا تھا، پھر ٹیکساس ریاست کے نمبر والی دوسری پلٹیں بغلوں میں دبائے چارلی کے ساتھ اس کی گاڑی میں بیٹھ گیا۔
ہم کچے راستے پر ایک جانب چل دیے۔ دونوں طرف گیہوں کے کھیت تھے، لیکن فصل کٹ چکی تھی، اس لیے اب وہ چٹیل میدان دکھائی دے رہے تھے، میری گاڑی چارلی کی گاڑی سے بندھی ہوئی پیچھے پیچھے آرہی تھی۔”سب کچھ ٹھیک رہا؟“ کچھ دیر بعد چارلی نے پہلی بار زبان کھولی۔
”ہاں، ہر کام منصوبے کے مطابق ہوا۔ کوئی گڑبڑ بھی نہیں ہوئی۔“ میں نے اپنا کوٹ اتارتے ہوئے جواب دیا۔ پھر میں نے ٹائی، نقلی بالوں کی وگ، نقلی مونچھیں اتاریں، انہیں کوٹ کی اندرونی جیبوں میں ٹھونسا اور قمیض کے کالر کھول دیے۔
چارلی میری زبان سے کامیابی کی خبر سن کر خوش ہوا اور مطمئن انداز میں سر ہلانے لگا۔ چند میل طے کرنے کے بعد اس نے گاڑی روک دی اور دوستانہ لہجے میں کہا۔ ”میں پانچ روز بعد واپس آؤں گا۔ اگر پولیس نے اپنی ناکا بندی جلد ختم کردی، تو پہلے بھی آسکتا ہوں۔ تم میرے آنے تک آرام کرو۔“
میں اپنا کوٹ، رقم کا تھیلا اور نمبر پلٹیں لے کر نیچے اترا اور چارلی کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ وہ اپنی گاڑی میں بیٹھا تھا، ہم دونوں چند سیکنڈ تک ایک دوسرے کی نظروں میں نظریں گاڑے رہے۔ وہ چند سیکنڈ میرے لیے چند ماہ کی طرح بھاری تھے۔ میں اتنا بے وقوف نہیں تھا کہ گاڑی سے اترتے ہی چارلی کی طرف پشت کرکے مقررہ جگہ کی جانب چل دیتا، میرا اصول ہے کہ اگر میں گاڑی میں کسی کو لفٹ دوں تو اسے ا پنی گاڑی چلانے کی اجازت کسی حالت میں نہیں دیتا، لیکن چارلی سے یہ بے وقوفی ہوگئی تھی۔
منصوبہ اس نے بنایا، مسٹر ڈولے کا تعاون اسی نے حاصل کیا، تمام انتظامات اس نے کیے پھر اپنی گاڑی کا اسٹیئرنگ بھی میرے ہاتھوں میں دے دیا، وجہ میں پہلے ہی بتاچکا ہوں کہ چارلی نے محض مجبوری کے تحت مجھے اس کام میں شریک کیا تھا۔ ڈاکا ڈالنے کے بعد اسے میری ضرورت نہیں رہی تھی، اس لیے میں گیند اپنے قبضے میں رکھنا چاہتا تھا تاکہ اسے میری ضرورت رہے۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے رقم اس کے حوالے نہیں کی اور نہ اس کی طرف پیٹھ موڑی۔
چند سیکنڈ کا وقفہ گزرنے کے بعد اس نے ایکسلیٹر پر دباؤ ڈالا اور دونوں گاڑیاں آگے روانہ ہوگئیں، میں اس وقت تک اپنی جگہ سے نہیں ہلا جب تک وہ میری نظروں سے اوجھل ہوگئیں، پھر میں پیدل چلتا ہوا قریبی کھیت کے وسط میں پہنچا۔ ایک جگہ مٹی سے اٹے ہوئے لکڑی کے دوبڑے تختے پڑے تھے، میں نے وہ تختے ہٹائے اور اندر جھانک کر دیکھا، روپوش ہونے کی بے مثال ترکیب چارلی کے ذہن کی پیداوار تھی، یہ گڑھا ہم دونوں نے کئی دن قبل تیار کرلیا تھا۔
گڑھا بہت بڑا نہیں تھا لیکن اس میں آسائش کا تمام سامان موجود تھا۔ سونے کے لیے بہترین گدا، وقت گزاری اور دل بہلانے کے لیے ریڈیو اور ٹی وی، کھانے کے لیے بند ڈبوں میں سامان، پینے کے لیے پانی اور مشروبات۔میں نے اندر چھلانگ لگائی اور کھڑے ہو کر گڑھا دوبارہ تختوں سے ڈھک دیا۔ مجھے بخوبی احساس تھا کہ یہ گڑھا جہاں میری حفاظت کی ضمانت ہے، وہیں میری قبر بھی بن سکتا ہے۔ مجھے علم تھا کہ پولیس کے دستے میری تلاش میں ادھر ادھر مارے مارے پھریں گے لیکن اس کھیت میں وہ قدم بھی نہیں رکھیں گے کیوں اس چٹیل میدان میں میلوں دورسے آدمی تو آدمی، چڑیا کا بچہ تک نظر نہیں آسکتا، ادھر میں مزے سے اندر بیٹھا ریڈیو، ٹی وی اور ٹھنڈے مشروب سے دل بہلاتا رہوں گا۔
چوں کہ چارلی ایک انسان تھا، اس کے دل میں بے ایمانی آسکتی تھی اور اسے اس گڑھے کا علم بھی تھا چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ دن کے وقت سویا اور رات کو جاگا کروں گا تاکہ کہیں وہ میری لاعلمی میں اس گڑھے کو میری قبرنہ بنادے، میں نے اپنا لباس تبدیل کیا اور پچھلے لباس کی تمام اشیاء گڑھے میں ایک اور چھوٹا سا گڑھا کھود کر دبادیں، اس کے بعد رقم گننے بیٹھ گیا، پچھتر ہزار ڈالر سے زیادہ رقم تھی، میں نے اسے تین مساوی حصوں میں تقسیم کیا، تینوں حصے علیحدہ علیحدہ چمڑے کی بیلٹوں میں حفاظت سے رکھے اور بیلٹیں قمیض کے نیچے کمر کے گرد لپیٹ لیں، ایک حصہ میرا تھا، دوسرا چارلی اور تیسرا مسٹر ڈولے کا۔
صرف دو روز بعد پولیس کے جوش و خروش میں کمی آنی شروع ہوگئی،سب کو یقین تھا کہ ڈاکو گرفتار ہوجائے گا کیوں کہ وہ اس علاقے سے باہر نکل ہی نہیں سکتا۔ سبھی کو اس نشریے کاشدت سے انتظار تھا کہ ڈاکو پکڑا گیا اور رقم برآمد کرلی گئی، میں مسکرانے کے سوا اورکیا کرسکتا تھا؟
میں اس گڑھے میں ایک مہینے بھی قیام کے لیے تیار تھا کیوں کہ یہ جگہ برسوں جیل میں رہنے سے بدر جہا بہتر تھی۔ یہاں مجھے کوئی تکلیف بھی نہیں تھی، ہر آرام میسر تھا، مجھے یقین تھا کہ زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے بعد میری تلاش ترک کردی جائے گی اور پھر پولیس میرے حیرت انگیز فرار پر قیاس آرائیاں شروع کردے گی۔
چوتھے روز شام کے وقت سیاہ بادلوں نے اچانک آسمان تاریک کردیا، ہوائیں تیز ہوگئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش شروع ہوگئی، آندھی اور طوفان کے ساتھ بارش ہونے کا امکان ہم میں سے کسی کے ذہن میں نہیں آیا تھا، صرف چند منٹ میں لکڑی کے تختوں پر جمی ہوئی مٹی بالکل صاف ہوگئی اور پانی گڑھے میں نالے کی طرح گرنے لگا، میں پانی میں شرابور ہوگیا، میرا بستر مٹی، کیچڑ اور پانی میں ڈوب گیا، کھانے پینے کا سامان بھی خراب ہوگیا۔
میں نے اس افتاد سے گھبرا کر گڑھے سے سر نکالا اور جائے پناہ کی تلاش میں ادھر ادھر نظر ڈالی، دفعتہ ہوا کے ایک زبردست جھونکے سے لکڑی کا ایک تختہ میری کھوپڑی کے ساتھ کچھ اس طرح ٹکرایا کہ آسمان پر کالے بادلوں کے باوجود آنکھوں کے سامنے بے شمار تارے رقص کرنے لگے، میں دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
جب ذرا مطلع صاف ہوا اور ہوش و حواس بحال ہوئے تو مجھے خیریت اسی میں نظر آئی کہ فوراً گڑھے سے باہر جاؤں دوسری صورت میں میرا ڈوب مرنا یقینی تھا، باہر نکلتے ہی ایک طوفانی بگولے نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیااور میں دوسرے ہی لمحے اس گرد باد پر سوار فضا میں پرواز کر رہا تھا۔ معاً کسی ٹھوس چیز کے ٹکرانے سے میری پرواز ختم ہوگئی، دائیں پیر میں درد کی ایک شدید لہر اٹھی اور میرا ذہن تاریکیوں میں ڈوبتا چلاگیا۔
جب مجھے ہوش آیا تو میں نے خود کو سیمنٹ کے ایک چار فٹ اونچے ستون کے قریب پڑا ہوا پایا۔ طوفان گزر چکا تھا۔آسمان بالکل صاف تھا اور تارے جھلملا رہے تھے۔ کچھ فاصلے پر اسی قسم کا ایک اور ستون نظر آیا۔ یہ ستون غالباً کھیتوں کی حد بندی کے لیے بنائے گئے تھے، میری دائیں ٹانگ جسم کے نیچے ایک ناقابل یقین زاویے سے مڑی اور دبی ہوئی تھی، بار بار درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں، میں بری طرح بھیگا ہوا اور سردی سے کانپ رہا تھا۔
ٹانگ سیدھی کرنے اور زمین پر پیٹ کے بل لیٹنے میں مجھے پندرہ منٹ لگ گئے۔ پیدل چلنا بھی ناممکن تھا اور بے یارو مددگار وہیں پڑے رہنا بھی محال تھا۔ آگے بڑھنے کی صرف یہی صورت تھی کہ زمین پر پیٹ کے بل کھسکتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔ مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ قریب ترین مکان کس طرف ہوگا؟ قسمت پر بھروسا کرتے ہوئے میں نے مشرق کی طرف چلنا شروع کردیا۔
اس طرح کھسکتے ہوئے نہ معلوم میں نے کتنا سفر طے کیا۔ جب صبح نمودار ہوئی تو مجھے کچی سڑک کے قریب ڈاک کا ایک ڈبا نظر آیا، سامنے کچھ فاصلے پر پیلے پتھروں کا ایک مکان تھا۔ اس کی کھڑکیوں سے زرد روشنی باہر آرہی تھی، مکان کے رہنے والے بیدار ہوچکے تھے، میں گھسٹتا ہوا مکان کی طرف بڑھنے لگا، دہلیز کے قریب پہنچ کر جب میں نے آواز دینے کے لیے منہ کھولا، تو سیاہ رنگ کا ایک قدر آور کتا غرایا اور بھونکتا ہوا میری طرف لپکا، اس نے میری زخمی ٹانگ کی پتلون کا پائنچا جبڑوں میں دبالیا اور مجھے بے دردی سے گھسیٹنے لگا۔ ٹانگ میں درد کی شدید لہر اٹھی جو میرے لیے ناقابل برداشت تھی مگر قسمت مجھ پر مہربان ہوگئی اور میں ایک مرتبہ پھر بے ہوش ہوگیا۔

جب مجھے دوبارہ ہوش آیا، تو میں بڑے کمرے میں ایک بستر پر لیٹا تھا، میرے جسم پر ایک سفید چادر پڑی تھی، کسی نے دائیں ٹانگ پر چھوٹی چھوٹی لکڑیاں باندھ کر پٹی کردی تھی۔
میرے سامنے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ بستر پر لیٹا رہوں اور آرام کروں۔
اچانک دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی، چند سیکنڈ بعد ایک دراز قد معمر شخص اندر داخل ہوا، میں اسے دیکھتے ہی پہچان گیا، یہ وہی کسان تھا جو بینک میں مسٹر ڈولے سے قرض کی درخواست کررہا تھا، مجھے بیدار دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا۔اس کا نام پرائڈ تھا۔
”ہیلو بیٹے!“ اس نے میرے پاس آکر کہا۔ ”اب کیسے ہو تم؟ تم مسلسل ڈیڑھ دن سوتے رہے ہو۔“
سالہا سال بعد کسی نے مجھے بیٹا کہہ کر پکارا تھا۔ میں نے غور سے اسے دیکھا، اس کی عمر اتنی ضرور تھی کہ مجھے بیٹا کہہ کر پکار سکتا۔ ”اب پہلے سے بہتر ہوں۔“ میں نے جواب دیا۔
اس نے پلٹ کر کسی کو آواز دے کر بلایا۔ ”جاؤ اس بے چارے کے لیے کھانے کا انتظام کرو۔“
بوڑھے نے مجھے سے کہا۔ ”سب سے پہلے تم مجھے ڈاکے کے بارے میں بتاؤ؟“
”اس سے پہلے آپ یہ بتائیے کہ آپ کون ہیں؟“ نہ جانے کیوں اس معمر کسان کے چہرے پر نظر پڑتے ہی میرے دل میں اس کے لیے احترام پیدا ہونے لگا تھا۔
”ضرور بیٹے!“ اس نے کہا۔ ”میں سمجھا تھا کہ بچوں نے تمہیں سب کچھ بتادیا ہوگا۔“
”کون سے بچے؟“ میں نے تعجب سے پوچھا۔
”دراصل اس گھر میں میرے علاوہ میرے تین پوتے پوتیاں بھی رہتے ہیں۔ بڑے ہی اچھے بچے ہیں مجھے ان کی وجہ سے بہت آرام ہے۔“ کسان نے کہا۔
میں نے استری کرنے کے اسٹینڈ کی طرف دیکھا اور پوچھا۔ ”میری نوٹوں کی گڈیاں اور سامان یہ سب کس نے ادھر رکھے۔“ اس نے میری گفتگو کی تلخی کو محسوس کرتے ہوئے بتایا۔
”بیٹا یہ میرے پوتے پوتیوں نے رکھا ہے۔یہ بیچارے تو خدمت کرکے خوش ہوتے ہیں۔“
”لیکن کیوں؟ آپ لوگوں کی یہ ہمدردی میری سمجھ سے باہر ہے۔“
”ہم نہ بینکوں کو پسند کرتے ہیں نہ بینکاری کو۔ ہمیں بینک مالکان اور منیجروں سے سخت نفرت ہے۔“ کسان نے کہا۔
میں اس نفرت کی وجہ سمجھ گیا، میرے تصور میں وہ منظر گھوم گیا، جب ڈولے نے بڑی حقارت سے اس کی درخواست ٹھکرائی تھی۔ ”اچھا۔“ میں نے بے پروائی سے کہا۔
”آپ ڈاکے کے بارے میں کیا جاننا چاہتے ہیں؟ تفصیلات تو آپ نے اخبار میں پڑھ لی ہوں گی؟“
معمر کسان بستر پر میرے قریب بیٹھ گیا اور بولا۔ ”تم نے ڈولے کے سر پر ریوالور کا دستہ مارا تو کیا وہ چیخا تھا؟“
”ہاں۔“ میں نے یقین دلایا۔ ”کسی جنگلی کتے کی طرح حلق پھاڑ کر چیخا تھا۔“
بڑے میاں کے چہرے پر خوشی کے جذبات ابھر آئے۔
اسی وقت بچے کھانے کی ٹرے لیے کمرے میں داخل ہوئے۔ کھانے پر نظر پڑتے ہی میری بھوک چمک گئی، مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ میں بہت بھوکا ہوں۔ بڑے میاں کمرے سے باہر چلے گئے، چند منٹ بعد جب وہ واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں اخبارات تھے۔ ”شاید تم خبریں پڑھنا پسند کرو؟“
میں کھانے کے دوران سرخیوں پر نظر ڈالتا رہا۔ پہلا اخبار واردات والے دن کا تھا، اس میں ڈکیتی کی تفصیلات لکھی تھیں اور میرا حلیہ تفصیل سے درج تھا، یہ بھی لکھا تھا کہ ڈاکو نے مسٹر ڈولے کو بڑی بے رحمی سے مارا اور بہت بڑی رقم لے کر فرار ہوا جس کا ابھی صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکا۔ پھر تین دن کے اخبارات پولیس کی کوششوں سے بھرے ہوئے تھے۔
چوتھے دن کے اخبارات طوفان کی تباہ کاریوں کا اعلان کررہے تھے، تازہ ترین اخبار میں ڈکیتی کی خبر ایک بار پھر صفحہ اول پر شائع ہوئی تھی کیوں کہ طیاروں نے اوپر سے گڑھا دیکھ لیا تھا اور پولیس کی تلاشی سے بڑے سنسنی خیز انکشافات ہوئے تھے، گڑھا کھود کر میرا لباس،نقلی بال اور مونچھیں برآمد کرلی گئی تھیں اور پولیس میرے حلیے کے بارے میں غیر یقینی کیفیت کا شکار ہوگئی تھی۔
اسی صفحے پر ایک اور چھوٹی سی خبر درج تھی کہ ٹیکساس کا ایک تاجر ایک حادثے میں ہلاک ہوگیا۔ وہ پرانی گاڑیوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتا تھا اور اس کا نام چارلی تھا، چارلی کی موت کا مجھے بے حد افسوس ہوا۔ چارلی نے جب آندھی، طوفان اور بارش کی خبر پڑھی ہوگی تو فوراً میری خبر گیری کے لیے دوڑا ہوگا۔ عجلت میں وہ ایک ٹریکٹر سے ٹکرا کر ہلاک ہوگیا۔
میں کاروبار میں بددیانتی سے سخت نفرت کرتا تھا، پہلے اخبار سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈولے نے بے ایمانی کی ہے۔ اسے پڑھ کر میں نے فیصلہ کیا تھا کہ اب میں اور چارلی آدھی آدھی رقم بانٹ لیں گے، بینک کا حساب کتاب جانچنے سے یہ ثابت ہوا تھا کہ ڈاکو ایک لاکھ ڈالر سے زائد رقم لے کر بھاگا ہے، اس کا مطلب یہ تھا کہ ڈولے نے واردات سے پہلے ہی پچیس ہزار ڈالر ہڑپ کرلیے تھے جس کا سارا الزام میرے سر آرہا تھا، اس طرح گویا اس نے اپنا حصہ پہلے ہی وصول کرلیا۔ اب چارلی کی موت کے بعد ساری رقم صرف میری تھی۔
شام کے وقت چند پولیس والے تفتیش کرتے ہوئے مسٹر پرائڈ کے مکان پر بھی آئے، ان کا کتا انہیں دور سے دیکھتے ہی بھونکنے لگا۔ اس لیے ہمیں اتنا وقت مل گیا کہ ہم بچوں کو صحیح جوابات سمجھا سکیں۔ مسٹر پرائڈ اور بچوں نے انہیں مطمئن کرکے واپس بھیج دیا۔
چھ ہفتے بعد مسٹر پرائڈ نے پٹی کھول دی اور میں دوبارہ چلنے پھرنے لگا۔ ایک رات میں نے اپنا دھلا ہوا استری شدہ لباس پہنا، نوٹوں کی بیلٹیں کمر کے گرد لپیٹیں اور مسٹر پرائڈ کے ساتھ ان کی پرانی پک اپ میں سوار ہوگیا۔ مجھے وہاں سے جانے کی اتنی جلدی نہیں تھی، میں وہ گھر اور اس کے ماحول کو پسند کرنے لگا تھا۔ چھ ہفتے میں بڑے مزے میں گزارے تھے لیکن بڑے میاں نے مجھے مزید قیام کی اجازت نہیں دی، کہنے لگے۔ ”اب تم تندرست ہوگئے ہو اور جاسکتے ہو۔“
مسٹر پرائڈ نے مجھے ٹیکساس شہر کے بس اسٹاپ پر اتار دیا۔ پولیس نے کئی روز پہلے میری تلاش بند کردی تھی، اس لیے ہمیں سفر میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی، میں نے گاڑی سے اترنے سے پہلے قمیص کے بٹن کھولے اور نوٹوں کی ایک بیلٹ ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔ ”مسٹر پرائڈ اظہار تشکر کے طور پرمیں آپ کو کچھ پیش کرنا چاہتا ہوں۔“
مسٹر پرائڈ نے میری طرف دیکھا، پہلے تو ان کی سمجھ میں نہیں آیا۔ پھر جب وہ سمجھے تو ان کا چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا اور مٹھیاں غصے سے تن گئیں۔ ”میں تم سے کچھ نہیں لینا چاہتا۔“ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ ”ہمارے خلوص کی اتنی بڑی سزا نہ دو بیٹے!“
”مسٹر پرائڈ! یہ پیش کش آپ کے لیے نہیں، آپ کے پوتوں پوتیوں کے لیے ہے جنہیں آپ کالج میں تعلیم دلوانا چاہتے ہیں۔ آپ کو شاید علم نہیں کہ آج کل تعلیمی اخراجات کس قدر زیادہ ہیں۔ آپ کی معاشی حالت بھی کچھ عرصے سے درست نہیں۔ یہ میری طرف سے ان بچوں کے لیے حقیر سا تحفہ ہے۔
مسٹر پرائڈ نے کچھ کہے بغیر بزرگانہ انداز میں مجھے گاڑی سے دھکا دیا اور گاڑی ایک جھٹکے سے فوراً آگے بڑھ گئی۔
میں سوچتا ہوں کہ اگر مسٹر پرائڈ یہ رقم مارلیتے یا مجھ سے اس کا کچھ حصہ قبول کرلیتے، تو آج میری زندگی کتنی مختلف ہوتی، میرے پاس نہ چھوٹا سا خوب صورت سا مکان ہوتا،نہ ہی پیار کرنے والا خاندان، مسٹر پرائڈ کے ہمدردانہ رویے نے میرا زہر نکال دیا تھا اور اب میں ایک بے ضرر سانپ تھا۔

٭……٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top