skip to Main Content

بلی اور ہم

راحیل یوسف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کالی بلی بڑی ڈھیٹ تھی جتنی بار اسے دور چھوڑا جاتا وہ پھر واپس آجاتی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دھم کی آواز کے ساتھ ہی باجی کی چیخ سے سارا گھر گونج اُٹھا ۔۔۔ نہیں شاید میں کچھ کسر نفسی سے کام لے گیا ورنہ یہ کہنا بھی بے جا نہ تھا کہ پورا محلہ لرز اُٹھا۔
پھر کیا تھا سب قدم اور سب راستے باورچی خانے کی جانب رواں دواں ہوگئے۔ دیکھا تو باجی ایک کونے میں سمٹی ہوئی تھیں ان کی آنکھیں مارے خوف کے پھٹی پڑی تھیں۔ میں نے بھی خوف کی وجہ جاننے کے لئے ان کی انگلی کو بغور دیکھا، جو کسی جانب مرتکز تھی۔ وجہ اب مجھے سمجھ آگئی تھی اور پھر کیا تھا، سب کے چہرے پر مسکراہٹ چوکڑی مار کر بیٹھ گئی۔ وہ ایک بلی تھی کالی سیاہ بلی۔
’’دھت تیرے کی۔۔۔ کھودا پہاڑ اور نکلی بلی‘‘۔ میرے منہ سے بے اختیار پھسلا۔
’’ہائے میری بیٹی کا دم نکلا جارہا ہے اور تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے‘‘۔ امی نے مجھے ہلکا سا ڈپٹا۔
’’ہاں تو اور کیا اتنا شور تو ایٹمی دھماکے سے بھی نہیں ہوا ہوگا جو آج ہماری باجی کے حلق سے برآمد ہوا ہے‘‘۔ میں نے پھر طنز کیا۔
’’ہاں۔۔۔ ہاں تم سمجھ رہے ہو کہ میں بلی کو دیکھ کر ڈری ہوں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اس بلی کے روپ میں کوئی جن ہے‘‘۔ گھر والوں کو قریب پاکر باجی کے حواس بحال ہونا شروع ہوگئے تھے۔
’’جن! ہا۔۔۔ ہا ۔۔۔ ہا۔۔۔ اگر جن بھی ہوتا تو تم جیسی چڑیل کو دیکھ کر رفوچکر ہوچکا ہوتا اور ممکن تھا کہ تمہاری چیخ سن کر بے چارے کا ہارٹ فیل ہوجاتا اور وہ اس جہان فانی سے کوچ کرجاتا‘‘۔ میں نے پھر ان کا مذاق اُڑایا۔
’’چپ کرو ساجد اب تمہاری آواز نہیں نکلنی چاہئے‘‘۔ امی نے نرمی سے مجھے جھڑکا اور باجی کو گلے لگالیا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

میں میٹرک کلاس کا اسٹوڈنٹ تھا اور شاہینہ جسے میری باجی ہونے کا شرف حاصل تھا فرسٹ ایئر میں تھی۔ میری اور اس کی عمر میں ایک سال کا فرق تھا۔ ڈرپوک تو لڑکیاں خیر ویسے ہی ہوتی ہیں، اس لئے بے چاری باجی کا اس میں کیا قصور۔ چھپکلیوں اور لال بیگوں سے ویسے ہی ان کی جان جاتی تھی۔ ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے جب امی خالہ کے گھر گئی ہوئی تھیں۔ اسکول سے ویسے ہی میں تھکا ہارا آیا تھا۔ گھر پہنچا تو پتہ چلا کہ آج دوپہر فاقہ کرنا پڑے گا۔ آپ یقیناً پوچھیں گے کہ فاقے کی وجہ کیا تھی۔ تو جناب اس کی وجہ باورچی خانے میں چھپی وہ چھپکلی تھی جس پر نظر پڑنے کے بعد باجی نے باورچی خانے کا بائیکاٹ کردیا تھا۔ چاروناچار بڑی مشکل سے چھپکلی کو ڈھونڈ کر مارا پھر کہیں جاکر کھانا تیار ہونا شروع ہوا اور اللہ اللہ کرکے اسے کھانا نصیب ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس پورے عمل کے دوران شام کے چھ بج گئے۔
اب تو خیر معاملہ چھپکلی سے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں گنا سنگین تھا۔ بلی کو جھاڑو سے مارنا بھی ممکن نہیں۔ پھر بلی نے کچھ اپنی روایتی حرکات ایسی دکھائیں کہ مجھے بھی احساس ہونے لگا کہ بلی سے نجات حاصل کرنی ہی پڑے گی، خوف کی وجہ سے نہیں تو پریشانی کی وجہ سے۔۔۔ ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے امی نے مچھلی فرائی کرنے کے لئے فرج سے نکالی کہ اچانک فون کی گھنٹی بج اُٹھی۔ امی اُٹھ کر گئیں تو بلی صاحبہ نے مچھلی کی ضیافت اُڑانا شروع کردی پھر کیا ہوتا آدھی مچھلی تو ویسی ہی وہ چٹ کرگئی باقی مچھلی بھی اس کا منہ لگنے کی وجہ سے پھینکنی پڑی یوں بی بلی کی وجہ سے گھر والے مچھلی کے ذائقے سے محروم رہ گئے۔ پھر ایک صبح جب ابو آفس کے لئے تیار ہورہے تھے بلی نے سارا دودھ گرادیا، پھر کیا تھا ابو کا پارہ آسمانوں کو چھونے لگا فوراً حکم صادر کیا کہ بلی کو کہیں چھوڑ کر آیا جائے۔ ظاہر ہے اکلوتا بیٹا ہونے کے باعث میری پتلی گردن ہی اس کام کے لئے پھنسی۔ معاملہ کسی چھوٹی موٹی چیز کا ہوتا تو کیا مسئلہ تھا، لیکن اتنی بڑی بلی کو پکڑ کر کہیں چھوڑ کر آنا آہ۔۔۔ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے برابر تھا۔ لیکن کئی بار کی کوششوں کے بعد آخرکار کامیابی نے ہمارے قدم چوم لئے۔ بلی کو پکڑ کر میں نے مارکیٹ میں چھوڑ دیا۔ ابھی میں اس مشن کی تکمیل کے بعد گھر میں قدم رنجہ فرما رہا تھا کہ پیچھے سے میاؤں کی آواز کانوں سے ٹکرائی پہلے تو دل کو دلاسہ دیا کہ

’’بلیوں‘‘ کی کمی نہیں غالب
ایک ڈھونڈو ہزار ملتی ہیں

لیکن جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہی کالا سراپا میری نظروں کے سامنے میرا منہ چڑا رہا تھا۔ بلکہ مجھے یوں لگا کہ وہ مجھ سے زیادہ غالب شناس ہے اور شعر کو اصل الفاظ کے مطابق گنگنا رہی ہے۔

احمقوں کی کمی نہیں غالبؔ 
ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں

ہائے ری قسمت! ایک بار پھر گھر والوں کا اصرار تھا اور میری ننھی سی جان بلکہ ابو نے تو بلی چھوڑ کر آنے کے طریقوں پر ایک مختصر لیکچر بھی گوش گزار کردیا۔ بھئی بلی کو چھوڑنا ہو تو گھر سے تقریباً دس کلومیٹر دور چھوڑ کر آنا چاہئے۔ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہئے۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اب تو مجھے بھی شک ہونے لگا کہ شاید باجی ٹھیک ہی کہتی تھیں یہ شاید کوئی اور مخلوق ہے۔
لیکن ایک کے بعد اگلی کوشش نہ کرنا ہماری شان کے خلاف تھا۔ اس مرتبہ بلی پکڑنے کا مرحلہ نسبتاً زیادہ دشوار ثابت ہوا وجہ بلی کا چوکس ہونا تھا، بھئی ظاہر ہے وہ بلی تھی انسان ہوتی تو ایک سوراخ سے کئی بار ڈسنے پر اعتراض نہ ہوتا۔ آخرکار بلی کو پکڑنے میں ایک بار پھر کامیابی نے ہمارے قدم چومے اس بار بلی کو لے کر ہم بس میں چڑھ گئے۔
بس میں بیٹھے مسافر ہمیں عجیب عجیب سی نظروں سے گھور رہے تھے۔ آخرکار ایک ادھیڑ عمر صاحب گویا ہوئے:
’’یہ بلی آپ کی پالتو ہے‘‘۔
’’نہیں جی! فالتو ہے‘‘۔ ہم نے جل بھن کر کہا۔
’’اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔‘‘ وہ کھسیانے ہوگئے۔
پھر ایک چچا میاں نے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کردیا۔
’’بلی کو لے کر بس میں چڑھنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
دو دن سے ضد کررہی تھی W-11 کی سیر کراؤ۔ آج سوچا کہ آخری اسٹاپ دکھا کر ہی لائیں‘‘۔
’’واہ میاں! بڑے رحم دل بچے ہو۔ آج کل کے زمانے میں ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں‘‘۔ انہوں نے فراخدلی سے تعریف کی۔
اب انہیں کیا بتاتے کہ ہم اس وقت رحم دل نہیں بلکہ قابلِ رحم ہیں۔
اللہ اللہ کرکے بس کا آخری اسٹاپ آیا اور بلی کو وہاں چھوڑ کر گھر پہنچے۔ جلے کٹے تو ویسے ہی تھے۔ کیونکہ آج کی چھٹی کے دن کا بڑا حصہ ’’مشن بلی‘‘ میں صرف ہوگیا اور اس وجہ سے ہمارا ایک کرکٹ میچ دو دوستوں سے ملاقاتیں اور فزکس کے ٹیسٹ کی تیاری باقی رہ گئی تھیں۔
گھر پہنچتے ہی اپنے کمرے کی راہ لی اور بستر پر گر کر خوابوں کی دنیا میں کھوگئے۔

*۔۔۔*۔۔۔*

’’اُٹھو ساجد! کب تک پڑے سوتے رہوگے، غضب خدا کا ظہر گئی، عصر گئی اور اب مغرب بھی قضا ہونے والی ہے‘‘۔ یہ امی تھیں جو مجھے اُٹھانے کی بھرپور کوشش کررہی تھیں۔
’’اوہ۔۔۔ امی سونے دیں ناں‘‘۔ میں کسمسایا۔
’’تم ہمیشہ نماز کے وقت ایسے ہی کرتے ہو۔ جانے کب راہ پر آؤگے‘‘۔ امی بڑبڑاتے ہوئے کمرے سے نکل گئیں اور میں کروٹ بدل کر دوبارہ سوگیا۔ پھر میری آنکھ ایک شور سے کھلی ’’بلی۔۔۔‘‘
’’بلی پھر واپس آگئی‘‘۔ ’’ارے ساجد کہاں ہے؟‘‘ طرح طرح کی آوازیں میرے کانوں سے ٹکرا رہی تھیں۔
میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ دیکھا بلی باورچی خانے کے آگے بیٹھی سب کا منہ چڑا رہی تھی۔
ابو کہہ رہے تھے ’’بلی کی یہ خاصیت ہے اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولتی دیکھو پھر گھر آگئی‘‘۔
میں ہکا بکا بلی کو دیکھ رہا تھا، پھر کسی وقت محلے کی مسجد سے اذان کی آواز گونجی آؤ فلاح کی طرف۔۔۔ آؤ فلاح کی طرف۔۔۔
آہ! میرے رب۔۔۔ بلی تو کبھی اپنا گھر نہیں بھولتی اور میں تیرے گھر کا راستہ جانے کب سے بھولا ہوا ہوں۔۔۔ میرے قدم بے اختیار مسجد کی طرف بڑھنے لگے۔
’’کہاں جارہے ہو؟‘‘ ابو نے سوال کیا۔
’’صراط مستقیم پر۔۔۔‘‘ میں نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔
’’میں تو راستہ بھول گیا تھا۔۔۔ اب یاد آگیا ہے‘‘۔ میری آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top