ایک کے سو
کہانی: It grew and it grew
مصنف: Enid Blyton
ترجمہ: گل رعنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام تو اس کا اب شاید کسی کو بھی یاد نہ ہو۔ مگر سب اسے ننھا چھوڑو کہتے تھے۔ جھوٹ بولنے والے بچوں کے لیے یہ نام خاص مناسب بھی ہے۔ خیر جناب ایک دن چھوڑو اپنی گیند کے ساتھ باغ میں کھیل رہا تھا کہ اس کی گیند گلاب کی کیاری میں جا گری۔ وہ گیند اٹھانے کیاری میں گھسا اور بہت سے گلاب کے پودے اس کے جوتوں تلے کچلے گئے۔ اس کی امی نے دیکھا تو بہت خفا ہوئیں۔
”اوہ چھوڑو! کیا یہ تم نے کیا ہے؟“ وہ غصے سے چلائیں۔
” نہیں، یہ تو فرسکی کی کارستانی ہے۔“ چھوڑو نے جلدی سے کہا۔ فرسکی گھر کے کتے کا نام تھا۔
”تب پھر اسے اس حرکت کی سزا ملے گی۔ جاؤ اور اسے ڈھونڈ کر باندھ دو۔“ امی نے اپنافیصلہ سنایا۔
چھوڑو فرسکی کو بہت پسند کرتا تھا اور اسے ناکردہ جرم کی سزا بھی نہیں دینا چاہتا تھا تاہم امی کی ڈانٹ سے بچنے کے لیے وہ فرسکی کو ادھر ادھر ڈھونڈنے کی اداکاری کرنے لگا۔
”امی وہ تو ڈر کے مارے پڑوسیوں کے باغ میں گھس گیا ہے۔“ اس نے واپس لوٹ کر کہا۔یہ دوسرا جھوٹ تھا(پہلا جھوٹ تیزی سے ترقی کررہا تھا)۔
”اوہ!“
امی نے پریشان ہو کر کہا۔ ” پڑوس کی آنٹی نے تو مرغیاںپالی ہوئی ہیں اور اگر فرسکی نے ان کو تنگ کیا تو پڑوسن بہت خفا ہوں گی۔ جلدی سے جاؤ اور پڑوس والی آنٹی سے اجازت لے کر ان کے باغ سے فرسکی کو پکڑ کر لے آؤ۔“ انھوں نے کہا۔
چھوڑو بھاگ کر برابر والوں کے ہاں گیا اور جھوٹ موٹ گھنٹی بجانے کی اداکاری کی۔ ظاہر ہے کہ دروازہ نہیں کھلا۔ وہ اپنی امی کے پاس واپس بھاگا۔
”آنٹی گھر پر نہیں ہیں۔“ اس نے کہا۔ ” میں گھنٹی بجاتا رہا مگر کوئی بھی باہر نہیں نکلا۔ لیکن فکر نہ کریں ، فرسکی ان کے باغ سے خود ہی باہر نکل آیا ہے اور اب سڑک پر گھوم رہا ہے۔“ چھوڑو نے جلدی جلدی کہا۔
”چلو یہ اچھا ہوا۔ “ اس کی امی بولیں۔ ” لیکن وہ جب بھی گھر لوٹا میں اسے زنجیر سے ضرور باندھوں گی، اس نے میرے گلاب کی اتنے اچھے پودے خراب کر دیے۔“ وہ باغ میں جا کر دھلے ہوئے کپڑے لٹکانے لگیں۔ چھوڑو نے اطمینان کا سانس لیا۔ اب شاید اسے کوئی اور جھوٹ بولنے کی ضرورت نہ پڑے لیکن جلد اس کی امی تیز تیز چلتی ہوئی اندر آئیں اور اسے پکارا۔ ”چھوڑو چھوڑو کہاں ہو تم؟ پڑوس میں شاید کوئی چور گھس آیا ہے۔ بلکہ یقینا یہی بات ہے۔ کیونکہ ابھی تو تم نے مجھے بتایا تھا کہ پڑوس والی آنٹی گھر پر نہیں ہےں اور ابھی میں نے ان کے گھر کی اوپر والی کھڑکی میں کسی کو کھڑے دیکھا ہے۔ تم جا کر سائمن کو بلاؤ تاکہ وہ جا کر معاملے کی چھان بین کرسکے۔“
چھوڑو نے ٹھنڈی سانس کھینچی۔ کیا مصیبت ہے۔ وہ سائمن کے گھر گیا مگر اس نے دروازے پر دستک نہیں دی۔ وہ بس وہاں کھڑا رہا اور پھر واپس اپنی امی کے پاس لوٹ آیا۔
”مسٹر سائمن کہہ رہے ہیں کہ ان کی ٹانگ میں بہت درد ہے وہ نہیں آسکتے۔ اور وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی۔ بھلا آنٹی کے گھر چور کیسے گھس سکتے ہیں۔“ چھوڑو نے بات ختم کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا کیونکہ اس کی امی یہ بات سن کر اور غصے میں آگئیں۔ ” لو بھی حد ہو گئی! سائمن کو گھر بیٹھے کیسے پتا چلا کہ پڑوس میں چور نہیں آئے۔ آخر کوئی تو پڑوسیوں کے گھر جا کر چوروں کو پکڑے۔ جاؤ چھوڑو۔“ چھوڑو کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب وہ کیا کرے۔ وہ ابھی وہاں کھڑا سوچ ہی رہا تھا کہ اب کیا کرے کہ اس کی امی نے چیخ کر کہا۔
”اوہ! ایس پی صاحب وہ ہمارے گھر کے سامنے سے گزر رہے ہیں، چھوڑو بھاگ کے جاؤ اور انھیں بلا لاؤ۔“ چھوڑو آہستہ آہستہ چلتا ہوا دروازے کی جانب بڑھا اس کو امید تھی کہ اس کے دروازے تک پہنچنے سے پہلے ہی ایس پی صاحب کافی آگے نکل چکے ہوں گے۔ اس کی امی غصے مےں دوڑ کر آئیں۔
”تم جلدی کیوں نہےں کرتے چھوڑو؟ ایس پی صاحب ایس پی صاحب! یہاں پڑوس میں چور گھس آیا ہے۔“
ایس پی صاحب حیران ہو کر پلٹے۔” کیا واقعی محترمہ؟ پھر تو میں اسے کھڑکی پر چڑھ کر رنگے ہاتھوں گرفتار کرنا پسند کروں گا۔“ اور وہ وقت ضائع کیے بغیر پڑوس کی دیوار پر چڑھنے لگے۔ گھر کی نچلی منزل پر کوئی نہیں تھا۔ لہٰذا انھوں نے اوپر کی منزل کا رخ کیا۔ وہ بہت خاموشی سے جب کمرے میں داخل ہوئے تو کسی نے زور سے چیخ ماری۔ یہ خود پڑوس والی آنٹی تھیں جو ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔
”اوہ! یہ کیا؟ ارے آپ تو ایس پی صاحب ہیں جو ہمارے محلے میں رہتے ہیںخیریت؟ آپ اس طرح بغیر اجازت یہاں کیا کررہے ہیں؟“
آنٹی نے پوچھا۔ ” مجھے بتایا گیا تھا کہ آپ کے گھر میں چور گھس آئے ہیں؟“ ایس پی صاحب نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔” پڑوس کے ننھے چھوڑو کو ایک پیغام دے کر آپ کے گھر بھیجا گیا تھا۔ اس نے واپس آکر بتایا کہ آپ گھر پر موجود نہیں ہیں لیکن پھر فوراً ہی اس کی امی نے آپ کی اوپر والی منزل پر کسی کو حرکت کرتے دیکھا اور پھر….‘ ‘ انھوں نے مزید وضاحت کی۔ ”خدا ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔“ آنٹی نے کہا۔ ” لیکن میں تو آج گھر سے باہر نکلی ہی نہیں۔ اب یا تو اس بچے نے گھنٹی نہیں بجائی یا میں سن نہیں سکی۔ وہ میں ہی تھی جس کو چھوڑو کی امی نے اوپر والی منزل میں دیکھا ہوگا۔ اب براہ مہربانی تشریف لے جائےں اور مجھے آرام کرنے دیں۔“
ایس پی صاحب غصے میں باہر نکلے اور جا کر چھوڑو کی امی کو سب کچھ بتایا۔ چھوڑو کی امی نے ان سے معذرت کی مگر وہ بہت الجھ کر رہ گئیں۔ وہ اور بھی زیادہ حیران ہوئیں جب انھوں نے مسٹر سائمن کو تیز تیز قدموں سے بس اسٹاپ کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔
”ارے مسٹر سائمن!“ ان سے رہا نہ گیا۔ ” ابھی جب چھوڑو آپ کے گھر مدد مانگنے کے لیے گیا تھا تو آپ نے کہا تھا کہ آپ کی ٹانگ میں درد ہے۔ اب آپ خود کہیں جا رہے ہیں او ربالکل بھلے چنگے نظر آرہے ہیں“ وہ حیرت سے چلائیں۔
”سراسرجھوٹ چھوڑو آج میرے پاس کسی بھی کام سے نہیں آیا تھا۔ وہ سدا کا جھوٹا ہے۔“ انھوں نے اپنی چھڑی جنگلے پر مارتے ہوئے کہا۔ ” اس کو میری چھڑی کا ذائقہ چکھنے کی ضرورت ہے، پھر وہ اتنی کہانیاں گھڑنا بھول جائے گا۔“ وہ یہ کہہ کر آگے چلے گئے۔ امی غصے میں چھوڑو کے پاس آئیں۔” چھوڑو تم مسٹر سائمن کے گھر نہیں گئے تھے۔ اور اب مجھے یقین ہے کہ تم پڑوسن کے گھر بھی نہیں گئے تھے۔ “ انھوں نے سختی سے کہا۔ ” اور میرا خیال ہے کہ فرسکی بھی ان کے باغ میں نہےں گھسا ہوگا۔ تو پھر وہ کہاں ہے؟ فرسکی فرسکی۔“ ان کی آواز کے جواب میں سیڑھیوں کے اوپر سے اونچی آواز میں فرسکی نے بھونکنا شروع کر دیا۔ چھوڑو کی امی دوڑ کر اوپر گئیں اور ایک کمرے کا دروازہ کھولا۔ اندر فرسکی کھڑا دم ہلا رہا تھا۔
” لو یہ تو صبح سے یہاں کمرے میں بند سو رہا تھا۔ لہٰذا یہ میرے گلاب کے پودے خراب نہیں کرسکتا تھا۔ تب پھر یہ کس نے کیا چھوڑو؟ مجھے اس بات کا جواب دو۔ “ چھوڑو خاموش رہا۔ اب اس کی امی دوبارہ گلاب کی کیاری کے پاس گئیں اور غور سے دیکھنے پر انھیں چھوڑو کے جوتوں کے نشان صاف نظر آگئے۔
”چھوڑو۔“ وہ غصے میں چلائیں۔ ”تم نے خود غلط حرکت کرکے بے چارے کتے پر سارا الزام تھوپ دیا کہ وہ یہ پودے توڑ کر پڑوس کے باغ میں گھس گیا اور یہ کہ پڑوس والی آنٹی گھر پر نہیں ہیں اور یہ کہ مسٹر سائمن کی ٹانگ میں درد ہے۔ کیا تم یہ نہیں جانتے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے انسان کو سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ آخر میں بری طرح پھنس جاتا ہے۔ تو اب تم پھنس گئے ہو چھوڑو۔“
بے چارہ چھوڑو اس کی امی نے سچ کہا تھا کافی عرصے تک اس کے باہر کھیلنے پر پابندی عاید کر دی گئی۔ چھوڑو نے یہ تہیہ کر لیا ہے کہ وہ سو جھوٹ سے بچنے کے لیے ایک جھوٹ نہیں بولے گا۔ آپ کا کیا خیال ہے ؟ کیا یہ فیصلہ درست ہے؟؟
٭….٭