skip to Main Content

اپنا آئیڈیا

کہانی: Castles in the sand
مصنف: David Henry Wilson

ترجمہ: گل رعنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمھیں روز تلی ہوئی مچھلی نہیں کھانی چاہیے۔ روز مچھلی کھانے سے لوگ مرجاتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”یہ کوئی بہت اچھی خندق نہیں ہے۔“
علی نے کھدائی کرتے کرتے اُوپر کی طرف دیکھا۔ وہاں ادرکی بالوں والا، اپنے چہرے پر خودپسندی کے تاثرات لیے ایک لڑکا کھڑا تھا۔ اس کا نام یاسر تھا اور وہ علی کا پڑوسی تھا۔ اس مغرور لڑکے سے بات کی جائے تو پتا چلتا تھا کہ وہ ہر کام دوسروں سے پہلے ہی کرچکا ہوتا تھا، ہر بات پہلے ہی جانتا تھا اور اس کے پاس ہر چیز پہلے سے ہی موجود ہوتی تھی۔
”یہ ہر جگہ سے بہت پھیلی ہوئی ہے۔“ یاسر نے مزید تنقید کی۔ ”خندق ہمیشہ گول ہونی چاہیے نہ کہ چاروں طرف سے پھیلی ہوئی۔“
”میں شرط لگا کر کہہ سکتا ہوں کہ تم اس سے بہتر خندق نہیں کھود سکتے۔“ علی نے چڑ کر کہا۔
” جی نہیں! میں کھود سکتا ہوں۔ وہاں کچھ فاصلے پر میں نے اپنا محل بنایا ہے۔ اس کے چاروں طرف خندق کھودی ہے اور وہ تمھاری اس خندق سے ہزار درجہ اچھی ہے۔“ یاسر نے فخر سے کہا۔
” میں نے تو ابھی کھودنا شروع ہی کیا ہے۔“ علی نے کہا۔
”خیر! تمھاری خندق ٹوٹی پھوٹی ہے۔ جبکہ اسے گول ہونا چاہیے۔“ یاسر نے دہرایا۔
” میں گول خندق بنانا ہی نہیں چاہتا، میں ٹیڑھی خندق ہی بنانا چاہتا ہوں۔“ علی نے کہا۔
”کیوں؟“ یاسر نے پوچھا۔
”کیونکہ….“ علی کو جواب نہ سوجھا۔
”کیونکہ کیا؟“ یاسر نے پیچھا نہ چھوڑا۔
”کیونکہ….“ علی نے سوچتے ہوئے کہا۔ ”کیونکہ گول خندق پرانا فیشن ہوگیاہے۔ میرے ڈیڈی کہتے ہیں کہ اب کوئی گول خندق پسند نہیں کرتا۔“
”تم یہ صرف اس لیے کہہ رہے ہو کیونکہ تم گول خندق بنا ہی نہیں سکتے۔ تمھیں پتا ہی نہیں ہے کہ وہ کیسے بنتی ہے۔“ یاسر نے مذاق اڑانے والے لہجے میں کہا۔
”جی نہیں! میں جانتا ہوں۔“ علی بولا۔
”تو پھر بنا کر دکھاؤ۔“ یاسر ہنسا۔
”میں نہےں بناؤں گا۔“ علی نے کہا۔
”تم بنا ہی نہیں سکتے۔“ یاسر نے حقارت سے کہا۔ ”تم آکر میرے محل کو دیکھو پھر تمھیں پتا چلے گا کہ اچھے محل کیسے بنتے ہیں؟“
”ٹھیک ہے۔“ علی نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ” تم مجھے اپنا سڑا ہوا محل دکھاؤ۔ میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ بالکل فضول ہوگا اور اس محل سے بالکل بھی اچھا نہیں ہوگا جو میں بنانے جا رہا ہوں کیونکہ میں دنیا کا بہترین محل بناؤں گا۔“ چلتے چلتے وہ یاسر کے محل کے پاس آگئے۔ اور یہ بالکل بھی فضول محل نہیں تھا بلکہ بہت خوب صورت تھا۔ اس کے اِردگرد بالکل گول خندق کھدی ہوئی تھی۔ بہت سے ہموار مینار ، دیواریں، دروازے اور فصیل صفائی سے بنے ہوئے تھے۔ وہ بالکل اصلی محل لگ رہا تھا۔ ”یہ دیکھو! ایسے بنتا ہے ریت کا محل ! تم ایسا محل کبھی بنا ہی نہیں سکتے۔“ یاسر نے فخر سے کہا۔
”ہاں! اچھا ہے۔ مگر میں نے اس سے اچھے بھی دیکھے ہیں۔“ علی نے ہار نہ مانی۔
”کہاں؟“ یاسر نے پوچھا۔
”اور جگہوں پر۔“ علی بولا۔
”کون سی اور جگہوں پر؟“ یاسر جان کو آگیا۔
”وہ…. وہ…. اور جگہیں …. جیسا کہ …. جیسا کہ رفاہ پور کے سراے محل۔“ علی ہکلایا۔
”یہ کون سی جگہ ہے؟“ یاسر نے ناک چڑھائی۔
”یہ ہوٹل ہے۔“ علی نے کہا۔
” اوہ! تمھارا مطلب ہے، رفاہ پور پیلس ہوٹل۔“ یاسر نے ہنس کر کہا۔ ” میں اپنے گھر والوں کے ساتھ وہیں تو رکا ہوں اور میں نے کبھی تمھیں وہاں نہےں دیکھا۔“
”نہیں! کیونکہ میں وہاں ٹھہرا ہی نہیں ہوں کیونکہ ہم لوگ وہاں ٹھہرنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ ہم جواد صاحب کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرے ہیں۔“ علی نے جلدی جلدی کہا۔ ”رفاہ پور تو ایک فائیو اسٹار ہوٹل ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جواد صاحب کا گیسٹ ہاؤس فائیو اسٹار ہو ہی نہیں سکتا۔“ یاسر نے مذاق اُڑانے والے لہجے میں کہا۔
”ستاروں کی پروا کون کرتا ہے؟ میںناشتے میں وہاں روزانہ دو انڈے اور مرغی کے کباب کھاتا ہوں۔“ علی ہار ماننے کو راضی نہ تھا۔
”میں روز ناشتے میں تلی ہوئی مچھلی اور چار ٹوسٹ کھاتا ہوں۔“ یاسر نے کہا۔
”جواد صاحب نے کل مجھے بڑی والی چاکلیٹ بھی دی تھی۔“ علی بولا۔
”چاکلیٹ کھانے سے دانت خراب ہوتے ہیں۔ تمھیں چاکلیٹ نہیں کھانی چاہیے۔“ یاسر نے ناک چڑھائی۔
”اور تمھیں روز تلی ہوئی مچھلی نہےں کھانی چاہےے۔ روز مچھلی کھانے سے لوگ مرجاتے ہیں۔“ علی نے کہا۔
”نہیں مچھلی کھانے سے کوئی نہیں مرتا۔“ یاسر نے سر نفی میں ہلایا۔
”جی نہیں۔ مرجاتے ہیں ۔ میرے جاننے والوں میں کوئی مچھلی کھانے سے مرچکا ہے۔ “علی نے کہا۔
”کون؟“ یاسر نے پوچھا۔
”میری امی کی دادی! انہوں نے تلی ہوئی مچھلی کھا لی تھی۔ پھر سب نے ان کو ایک چارپائی پر ڈالا اور کہیں لے کر چلے گئے۔“
یہ گفتگو یقینا ابھی جاری رہتی مگر اسی لمحے ساحل سمندر کی طرف سے یاسر کے ابو آگئے۔ ”آؤ یاسر، میری صبح کی سیر مکمل ہوگئی۔ اب ہم ہوٹل واپس جارہے ہیں۔“
انھوں نے پہلے یاسر سے کہا پھر علی کو دیکھ کر بولے۔ ”علی! ارے واہ تم لوگ بھی چھٹیاں گزارنے اس ساحلی شہر میں آئے ہوئے ہو۔ میری طرف سے اپنے امی ابو کو سلام کہنا۔“ پھر چلتے، چلتے بولے۔
”اوہ! کتنا خوب صورت ریت کا محل ہے۔ کیا تم نے اسے اکیلے ہی بنایا ہے علی؟“
”نہیں یہ میں نے نہیں بنایا۔ یہ تو یاسر نے بنایا ہے۔“ علی نے سادگی سے کہا۔
”یاسر! تم نے کیا علی کو یہ بتایا ہے کہ یہ محل تم نے بنایا ہے؟“ یاسر کے ابو نے اسے گھورا۔ یاسر کا چہرہ سرخ ہوگیا اور وہ اپنے سیدھے پاؤں کی طرف دیکھنے لگا جسے وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ ریت میں دھنسا رہا تھا۔
”میں تمھیں کتنی بار منع کرچکا ہوں کہ تمھیں اس طرح کے جھوٹ نہیں بولنے چاہییں۔ یہ بہت بُری بات ہے۔ “ انہوں نے سختی سے ڈانٹا۔ یاسر سرجھکائے کھڑا رہا۔
”اب علی کو خدا حافظ کہو اور ہوٹل واپس چلو۔“
”خدا حافظ۔“ یاسر نے اب بھی اپنے پاؤں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ”خداحافظ۔“
علی نے کہا: ” اُمید ہے کہ دن میں تمھیں مچھلی کھانے کو ملے گی۔“ اس نے اضافہ کیا۔
یاسر اپنے ابو کے ساتھ چلا گیا اور علی اپنی ٹیڑھی خندق کی طرف لوٹ آیا۔ شاید اس کا محل دنیا کا بہترین محل تو نہیں تھا مگر وہ کم از کم اس کا اپنا ضرور تھا۔ اس کے اپنے آئیڈیے کی عملی تعمیر تھی۔ علی بے ساختہ مسکرایا اور کھدائی دوبارہ شروع کر دی۔
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top