skip to Main Content

ابتری خانم کا اسکارف

کہانی: Mrs. Muddle´s Scarf
مصنف: Enid Blyton

ترجمہ: گل رعنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکارف مل نہیں رہا تھا اور دوسری طرف ٹرین بھی چھوٹ رہی تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔

”آج مجھے صبح والی ٹرین پکڑنی ہے۔“ ابتری خانم نے اپنی خالہ کوبتایا۔ ”میری ایک بہت پرانی سہیلی امریکہ سے واپس آئی ہے آج اس کے ساتھ لنچ پر جارہی ہوں وہ میرے لیے کوئی تحفہ بھی لائی ہے۔“
”ٹھیک ہے۔“ خالہ نے اپنے اردگرد بکھرے ہوئے ناشتے کے جھوٹے برتن، گندا فرش اور مٹی سے اٹا ہوا فرنیچر دیکھتے ہوئے کہا۔ ”اگر تم بارہ بجے والی ٹرین پکڑنا چاہتی ہو تو تمہیں بہت پھرتی سے کام لینا ہوگا۔ پورا گھر گندا پڑا ہے۔“
”مینڈی مینڈی!“ ابتری خانم نے اپنی ماسی کو آواز دی۔ ”چلو میرے ساتھ جلدی جلدی صفائی کراﺅ مجھے بارہ بجے والی ٹرین پکڑنی ہے۔“ مینڈی بھاگ کر اندر آئی۔ خالہ مرغیوں کو دانہ ڈالنے چل پڑیں۔
”فرش ضرور صاف کردینا ابتری خانم!“ انہوں نے جاتے جاتے کہا۔ ”جالے اور کھانے کے ذرات پورے گھر میں بکھرے ہوئے ہیں اگر دن میں کوئی مہمان ہمارے ہاں آگیا تو اس گندگی کی وجہ سے مجھے بہت شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔“
”ٹھیک ہے ٹھیک ہے!“ ابتری خانم نے کہا اورجھاڑو اٹھا کر لائی مگر میلے قالین سے گرد کا ایسا بادل اٹھا کہ وہ کھانسنا شروع ہوگئی۔ ”مجھے اپنے بال باندھ لینے چاہیے۔“ اس نے کہا۔ ”میں نے کل رات ہی سر دھویا تھا اور اگر میں نے اپنے سر پر کوئی کپڑا نہیں لپیٹا تو یہ پھر گندے ہوجائیں گے۔“ لہٰذا وہ ایک اسکارف لے کر آئی اور اپنے سر پر باندھ کر دوبارہ جھاڑو دینے لگی۔ خالہ بھی دروازے سے اندر جھانکتیں اورپھر سر واپس باہر کر لیتیں۔ ”گرد کے طوفان کو تھمنے میںکم از کم ایک گھنٹہ لگے گا۔“ انہوں نے سوچا۔
ابتری خانم بہت غصے میں تھی: ”کیا مصیبت ہیں یہ خالہ بھی۔ جب دیکھو کوئی نہ کوئی کام کرنے کو کہتی رہتی ہیں۔ ٹھیک ہے۔ میں بھی دوپہر کے کھانے کے لیے کچھ نہیں پکاﺅں گی اور مینڈی سے بھی کہوں گی کہ وہ گھر چلی جائے۔ خالہ کو کھانا ہوگا تو وہ اپنے لیے خود پکالیں گی۔“ اس نے دل میں سوچا۔ جب اس نے جھاڑو لگاکر سامان کی جھاڑ پونچھ مکمل کر لی تو گھڑی کی طرف دیکھا۔ اس کے پاس تیار ہونے کے لیے بہت کم وقت رہ گیا تھا۔
اس نے اپنا اپیرن اتار کر ایک کرسی پرپھنکا اور اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔ اُف کیا مصیبت ہے۔ اس کی بہترین جرابوں میں ایک سوراخ تھا اور اب انہیں اس وقت ’رفو‘ کرنا ہوگا۔ جب کہ اس کے پاس بالکل وقت نہیں تھا۔ اس نے جراب رفو کی پھر اس نے اپنے بہترین جوتے تلاش کیے مگر ان میں سے ایک کا بٹن ٹوٹا ہوا تھا۔ یہ بٹن پچھلے ہفتے ٹوٹ گیا تھا اور وہ اسے دوبارہ ٹانکنا بھول گئی تھی۔ جب تک اس نے بٹن لگایا۔ دس منٹ اور گزر چکے تھے۔ اس نے جلدی جلدی کپڑے تبدیل کیے۔ اس نے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کی مگر اُس کی نظر اپنے کپڑوں پر سامنے ہی لگے ہوئے ایک داغ پر پڑی۔
”اُف خدایا! اتنا بڑا چکنائی کا داغ! اوور کوٹ پہن کر بھی نہیں چھُپے گا۔“ اُس نے پریشانی سے داغ کی طرف دیکھا۔ وہ اپنے لباس پر ایک گندے دھبے کے ساتھ لنچ پر نہیں جانا چاہتی تھی مگر اب اسے دھونے کابھی وقت نہیں تھا۔ ”میں اپنا اسکارف پہن لوں گی اس طرح یہ گندا دھبہ صفائی سے چھپ جائے گا۔ اس نے فیصلہ کیا۔ اس نے سر پر ہیٹ لگایا اور پھر اپنا اسکارف ڈھونڈنے لگی مگراسکارف اسے نہیں ملا۔ ابتری خانم نے پریشان ہوکر الماری کاتمام سامان باہر گرادیا۔ پورے فرش پر دستانے، موزے اور رومال بکھر گئے مگر اسکارف کہیں نہیں تھا۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا او ر ابتری خانم ابھی تک اپنا اسکارف ڈھونڈنے مےں کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔
”ابتری خانم! تم اپنی ٹرین کھودوگی اگر تم نے جلدی نہ کی۔“ اُس کی خالہ نے آواز دی۔
”خالہ! میرا اسکارف کہاںگیا؟ مجھے یاد ہے کہ کل تک وہ میرے پاس تھا۔“ ابتری خانم نے پوچھا: ”ہاں تم نے کل اُس بچے کو کھیلنے کے لیے دیاتھا جو مہمانوں کے ساتھ آیا تھا۔“
”ارے ہاں! میں نے وہ چابی سے چلنے والی ٹرین کے ساتھ ہی پڑا چھوڑ دیا تھا۔“ ابتری خانم نے ڈرائنگ روم کا رخ کرتے ہوئے کہا مگر وہ اب وہاں نہیں تھا۔
”ابتری خانم! کل آپ کہہ رہی تھی کہ آپ کا لیمپ بہت تیز روشنی دے رہا ہے اورپھر آپ نے ایک اسکارف لیمپ کے اُوپر شیڈ کے طور پر ڈال دیا تھا کہیں وہ وہی اسکارف تو نہیں ہے۔“ ماسی نے یاد دلایا ۔”اوہ ہاں!“ ابتری خانم چلائیں۔ ”کل رات مس براﺅن آئی تھیں اور وہ مجھے ٹوٹے ہوئے بازو کی بینڈیج کرنے کا ایک نیا طریقہ بتانا چاہتی تھیں ہم نے اسکارف لیمپ سے اُتار کر اس کو بینڈیج کے طور پر استعمال کیا تھا۔“
”اور جب آپ براﺅن کو دروازے تک چھوڑنے گئی تھیں تو بارش ہورہی تھی ا س لیے آپ نے اپنے اسکارف کو سر پر ڈال لیا تھا پھر اندر آکر آپ نے اسکارف کہاں رکھا؟“ ماسی نے پوچھا: ”اوہ! کل رات کو کچن میں ایک بلی گھُس آئی تھی اور میں نے اُسے اسکارف لہرا کر بھگایا تھا۔“ ابتری خانم نے کہا۔
”اور اس کے بعد شاید آپ نے اپنااسکارف وہاں کونے میں جھاڑو کے پاس دھلائی کے لیے ڈال دیا تھاکیونکہ وہ اُس وقت تک بہت میلا ہوچکاتھا۔“ ٹھیک کہہ رہی ہو میں نے اُسے جھاڑو کے دستے پرٹانگ دیاتھا کیا تم نے آج صبح جھاڑو استعمال کی تھی مینڈی؟“ ابتری خانم نے پوچھا۔
مینڈی نے کہا کہ اس نے تو جھاڑواستعمال ہی نہیں کی۔ آج ہمارے گھر میں کافی دنوں بعد صفائی ہورہی تھی جب تم نے جھاڑو اٹھایا ہوگا تو لازمی اپنے اسکارف کو دیکھا ہوگا۔ سوچو تم نے آخر اپنے اسکارف کے ساتھ کیا کیا؟“ خالہ نے دخل اندازی کرتے ہوئے کہا۔ ابتری خانم نے زور سے میز پر ہاتھ مارا: ”ارے ہاں! جھاڑو لگانے سے اتنی دھول اُڑ رہی تھی کہ میں نے اپنے سر پر اسکارف باندھ لیا تھا تا کہ میرے بال صاف رہےں۔“ اُس نے اپنا ہاتھ سر پر پھیرا مگر اس وقت اس کے سر پر ہیٹ تھا۔خالہ نے اسے غور سے دیکھا اور پھر ہنسنے لگیں۔ ”ابتری خانم! تم نہ صرف پھوہڑ ہو بلکہ بھلکڑ ہو۔“ انہوں نے کہا ”تم نے اپنا اسکارف اتارے بغیر اس پر ہیٹ لگا رکھا ہے۔ شرم کرو! تم اپنے بال برش کیے بغیر باہر لنچ پر جارہی تھیں!“
ابتری خانم شرم سے سرخ ہوگئی۔ اس نے اپنا ہیٹ اتارا جس کے نیچے اس کے بالوں پر بندھا ہوا گم شدہ اسکارف موجود تھا۔ ”کتنی احمق ہوں میں!“ ابتری خانم نے کہا۔ اس نے اسکارف سر سے اتار کر اپنے گلے کے گرد باندھ لیا۔ ہیٹ دوبارہ سر پر رکھا بیگ اٹھایا اور خداحافظ کہے بغیر اسٹیشن کی طرف دوڑ پڑی۔
”اس لڑکی کو واقعی کوئی تمیز نہیں ہے۔“ خالہ نے سرجھٹکتے ہوئے اپنے آپ سے کہا: ”ابتری خانم نے مجھ سے کہاتھا کہ میں آج جلدی گھر جاسکتی ہوں خالہ!“ مینڈی نے دروازے سے جھانک کر کہا: ”اس لیے میں اب جارہی ہوں ۔اگرچہ مجھے افسوس ہے کہ آج دن کے کھانے کے لیے گھر میں کچھ خاص نہیں ہے۔“ وہ چلی گئی۔
خالہ فریج کے پاس گئیں اور کھول کر دیکھا۔ ابتر ی خانم نے اپنی خالہ کے لیے باسی پنیر کے ایک ٹکڑے کے سوا کچھ نہیں چھوڑا تھا۔ ابتری خانم ایسی ہی تھی۔ ”میں بس پکڑ کر باہر لنچ کے لیے چلی جاﺅں گی۔ کھانا پکانے کاسامان موجود نہےں اور میں یہ باسی پنیر کھانے کے لیے گھر میں نہیں رکوں گی۔“ خالہ نے سوچا لہٰذا وہ باہر آئیں اور خوش قسمتی سے اگلے قصبے جانے والی بس پکڑنے میں کامیاب ہوگئیں جو وہاں سے اُسی وقت گزر رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ کیا ابتری خانم اپنی ٹرین پکڑنے میں کامیاب ہو گئی ہوگی؟
ابتری خانم ٹرین پکڑنے میں ناکام رہی تھی جو اس کے اسٹیشن آنے سے پانچ منٹ پہلے ہی روانہ ہوچکی تھی۔ ابتر ی خانم تھکی ہوئی، میلی اور پسینہ پسینہ ہورہی تھی۔ اب چونکہ شام سے پہلے کوئی ٹرین اس طرف نہیں جاتی تھی۔ ابتری خانم کو واپس چل کر اپنے گھر آنا پڑا۔ گھر پہنچ کر اُس نے ماسی کو آواز دی مگر وہ تو جا چکی تھی۔ اوہ ہاں! اسے تو میں نے خود ہی چھٹی دی تھی۔“ ابتری خانم نے سوچا: ”خالہ آپ کہاں ہیں؟“ مگر خالہ بھی گھر پر نہیں تھیں۔ابتری خانم نے کھانے کی تلاش میں فریج کھولا مگر وہاں پنیر کے ایک باسی ٹکڑے کے سوا کچھ نہیں تھا۔
اوہ خدایا! اس نے اپنی خالہ کے ساتھ اتنی گھٹیا حرکت کیوں کی ؟اگر اُس نے ماسی کوچھٹی نہ دی ہوتی تو اس وقت وہ اسے باہر بھیج کر آسانی سے کھانے کے لیے کچھ منگوا سکتی تھی لیکن اب سب دکانیں کھانے کے وقفے کے لیے بند ہوچکی ہوں گی اور گھر میں بھی کھانے کی کوئی چیز نہیں تھی۔ سواے پنیر کے ایک باسی اور سخت ٹکڑے کے اور یہی اس کا دن کا کھانا تھا۔ پہلے تو اسے بہت رونا آیا مگر پھر شرمندگی کا احساس غالب آگیا۔
”اگر میں اپنے پورے ہفتے کا کام کاہلی کی نذر نہ کرتی تو آج صبح مجھے اتنی ساری صفائی اکٹھے نہ کرنی پڑتی۔ اگر میں اپنے جراب کے سوراخ کی مرمت پہلے کردیتی اور اپنے جوتے کابٹن ٹانک لیتی جب وہ ٹوٹا تھا اور اپنے لباس سے وہ گندا دھبا اسی وقت دھولیتی جب وہ لگا تھا۔ اگر میں اپنا اسکارف نہ بھولتی تو اس وقت گرینڈ ہوٹل میں اپنی دوست کے ساتھ لنچ کر رہی ہوتی۔ اس نے سوچا۔ اور اگر میں بے مروتی سے اپنی خالہ کے لیے باسی پنیر کا ٹکڑا چھوڑ کر جانے کے بجاے کچھ پکا کر جاتی تو اب جب کہ میری ٹرین چھوٹ گئی تھی مجھے بھی واپسی پر کچھ اچھا کھانے کو مل جاتا۔
”میں بہت خودغرض اور کام چور ہوں اور مجھے اسی بات کی سزا مل رہی ہے۔“ وہ گھر میں اکیلی تھی ۔ماسی آج واپس نہیں آئے گی اور خالہ پتا نہیں کب واپس آئیں۔ ابتری خانم نے اچانک ایک فیصلہ کر لیا۔
”میں پورے گھر کی تفصیلی صفائی کروں گی میں ان تمام چیزوں کی دھلائی کروں گی جو عرصہ دراز سے دھلائی کی منتظر ہیں۔ میںتمام ٹوٹی ہوئی اور پھٹی ہوئی چیزوں کی مرمت بھی کروں گی اور مرغیوں کا دڑبہ بھی صاف کروں گی۔“ اور وہ آندھی طوفان کی طرح یہ سب کام کرنے میں مصروف ہوگئی۔ اس نے سب کچھ دھویا ،پونچھا، رگڑا صاف کیا، چمکایا اور مرمت کی۔ شام تک ابتری خانم بہت تھک چکی تھی ۔اس نے نہادھو کر صاف ستھرے کپڑے پہنے۔ اپنے بال برش کیے اور تھک ہار کر بیٹھ گئی اسے بہت بھوک لگ رہی تھی مگر گھر میں اب کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا وہ دکان سے جاکر کھانے پینے کا سامان لانا پھر بھول گئی تھی۔
اچانک دروازہ کھلا اورخالہ اندر داخل ہوئیں۔ انہوں نے روشن چمکتا ہوا صاف ستھرا کمرا دیکھا تو وہیں حیران ہوکر رک گئیں ”ارے! یہ سب کیسے ہوا؟ کیا یہ ہمارا ہی گھر ہے؟“ وہ بولیں۔
”میری ٹرین چھوٹ گئی تھی۔“ ابتری خانم نے کہا۔” اور جب میں گھر واپس لوٹی تو مجھے احساس ہوا کہ یہ سب میری کاہلی کا نتیجہ تھا جو میرے سامنے آیا بس پھر میں نے پورے گھر کی صفائی کرڈالی اور میں کوشش کروں گی کہ آئندہ بھی گھر کو صاف ستھرا رکھوں اور اپنے کام وقت پر کر لیا کروں اور خالہ میں بہت شرمندہ ہوں کہ میں نے آپ کے کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا تھا۔“
”ارے! اس کی فکر مت کرو! میں بس سے اگلے قصبے چلی گئی تھی جہاں گرینڈہوٹل ہے۔ جب میں وہاں لنچ کر نے گئی تو مجھے تمہاری سہیلی مل گئی۔ وہ بے چاری اس وقت تک وہاں بیٹھی تمہارا انتظار کر رہی تھی حالانکہ تم مقررہ وقت سے آدھا گھنٹہ لیٹ ہوچکی تھیں۔ جب تم نہیںآئیں تو اس نے مجھے اپنے ساتھ لنچ کرنے کی دعوت دی جو میں نے قبول کر لی اور یقین جانوں کہ لنچ بہت شاندار تھا۔“ خالہ نے کہا۔
”اوہ! پلیز مت بتائیں میں اس بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی کہ آج میں نے کیا کیا مس (Miss) کر دیا۔ مجھے ابھی بھی بہت بھوک لگ رہی ہے اور فریج میں کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔“ ابتری خانم نے تقریباً روتے ہوئے کہا۔
”میں کچھ انڈے، گوشت اور سبزیاں خرید کر لائی ہوں۔“ خالہ نے کہا۔ رات کے لیے اچھا ساکھانا بنالیتے ہیں اوراس پارسل میں وہ تحفہ ہے جو تمہاری دوست تمہیں دینا چاہتی تھی۔“
”ارے واہ!“ ابتری خانم اُچھل پڑیں۔ اُس نے پارسل کھول کر دیکھا تو اس میں سے ایک اور خوبصورت نیلے رنگ کا اسکارف نکلا: ”خالہ! دیکھیں کتنا خوبصورت اسکارف ہے۔ وہ خوشی سے چلائی۔ ہاں واقعی۔ خالہ نے کھانا پکانے کے لیے فرائی پین اٹھاتے ہوئے کہا: ”مگر تم اس کو ریک کی جھنڈی، لیمپ کے شےڈ، مرہم پٹی اور بلیوں کو ڈرانے کے لیے استعمال مت کرنا۔“
”نہیں، نہیں۔“ ابتری خانم نے کہا اور اپنی خالہ کے ہاتھ سے فرائی پین لے لیا۔ ”اب آپ بیٹھیں اور مجھے پکانے دیں۔ میں آج صبح آپ سے خود غرضی سے پیش آئی لیکن اب میں اس کا ازالہ کرنا چاہتی ہوں۔“
لہٰذا ابتری خانم کو اپنا تحفہ مل گیا اور اچھا کھانا بھی مگر ….خالہ اس کو دونوں میں سے ایک چیز بھی نہیں دیتیں اگر واپسی پر انہیں ایک صاف ستھرا گھر اور ایک سدھری ہوئی بھانجی نہ ملتی۔
آپ دوسروں سے اچھائی کی امید اس وقت تک نہیں رکھ سکتے جب تک آپ خود ان کے لیے اچھے نہیں بن جاتے۔ کیا خیال ہے؟٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top