چلنے پھرنے کے آداب
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
”اب تک تو عبدالرحمن کو پہنچ جانا چاہیے تھا۔“ سعید نے اپنی کلائی کی گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔
”ممکن ہے، اچانک کوئی کام آپڑا ہو۔“ ماموں جان بولے۔
”میں نے اس کو بتا بھی دیا تھا کہ بس نو بجے روانہ ہو جاتی ہے، اب توصرف پانچ منٹ رہ گئے ہیں۔“ منیر نے جھنجلا کر کہا۔
وہ تینوں بس اڈے پر کھڑے تھے۔ شہر جانے والی بس بالکل تیار تھی، اس کا انجن غرار ہا تھا۔ کنڈیکٹر، ان تینوں سے کئی بار کہہ چکا تھا کہ بس میں بیٹھ جائیں۔ یہ شکر ہے کہ ان لوگوں نے ٹکٹ پہلے خرید کر اپنی نشستیں محفوظ کروالی تھیں۔ ان لوگوں نے عبد الرحمن کا بھی ٹکٹ خرید لیا تھا اور عبدالرحمن کا کہیں پتا نہ تھا۔
یہ لوگ کتابوں کی نمائش دیکھنے شہر جا رہے تھے۔ کتابیں شائع کرنے والے کئی اداروں کے تعاون سے یہ میلا کل ہی شروع ہوا تھا۔ اخبار میں اشتہار دیکھا تو سعید اور منیر مچل گئے، انھوں نے ضد کر کے ماموں جان کو راضی کر لیا کہ وہ انہیں کتابوں کے میلے میں لے جائیں۔ آج چھٹی کا دن تھا، اس لیے آج کا دن میلے میں جانے کے لیے موزوں تھا۔ سعید اور منیر کے ایک دوست عبدالرحمن کو پتا چلا کہ یہ لوگ میلا دیکھنے جا رہے ہیں تو اس نے اپنے ابا جی سے اجازت لے لی اور ان لوگوں کو بھی رضامند کر لیا کہ وہ اسے بھی اپنے ساتھ لے چلیں، مگر اب بس روانہ ہونے ہی کو تھی اور عبد الرحمن ابھی تک بس اڈے پر پہنچا نہ تھا۔
”وہ دیکھو!“ منیر ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے چلا یا:”وہ آ رہا ہے عبدالرحمن۔“
سعید اور ماموں جان نے دیکھا۔ دُور سے عبدالرحمن چلا آ رہا تھا، لیکن اس کی رفتار سے محسوس ہو رہا تھا کہ اسے کوئی جلدی نہیں ہے بلکہ وہ عجیب سے انداز میں کندھے سکیڑ ے، جھکا ہوا چل رہا تھا۔
”بھائی صاحب بس جانے والی ہے۔ آپ اپنی اپنی سیٹ پکڑو!“ کنڈیکٹر نے بے تابی سے آواز لگائی۔
سعید اور ماموں جان نے، عبدالرحمن کو جلدی آنے کا اشارہ کیا اور کنڈیکٹر کو بتایا کہ ایک سواری آرہی ہے، اس کا ٹکٹ ہم لے چکے ہیں۔ کنڈکٹر بڑ بڑانے لگا۔ عبدالرحمن اسی طرح ہلکی رفتار سے چلتا ہوا آخر، بس تک پہنچ ہی گیا۔ کنڈکٹر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بس میں گھسیٹ لیا۔ سعید، منیر اور ماموں جان بس میں پہلے ہی سوار ہو گئے تھے۔ بس روانہ ہو گئی۔ ماموں جان نے سب کو سواری کی مسنون دعا پڑھنے کی ہدایت کی۔
”کیا ہو گیا تھا تم کو؟“ منیر نے غصے سے کہا۔”بس جانے والی تھی اور تم دھیرے دھیرے چلے آ رہے تھے۔ دوڑ نہیں لگا سکتے تھے؟“ ”میں تو اس طرح چل رہا تھا، جیسے اللہ کے بندوں کو چلنا چاہیے۔“عبد الرحمن نے صفائی پیش کی۔
”اللہ کے بندے اس طرح چلتے ہیں؟“ سعید نے حیرانی سے پوچھا۔
”اور کیا! تمھیں معلوم ہی نہیں ہے، مسجد کے امام صاحب نے قرآن مجید کی آیت کا ترجمہ سنایا تھا کہ رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں، میں عبد الرحمن ہوں نا، رحمن کا بندہ، اس لیے مجھے اس طرح چلنا پڑا۔“
ماموں جان مُسکرانے لگے۔ سعید اور منیر بھی ان کا ساتھ دے رہے تھے، عبدالرحمن حیرانی سے انہیں دیکھتا رہ گیا۔ مامون جان نے مسکراتے ہوئے کہا:
”بیٹے، آپ نے اس قرآنی آیت کا مطلب ٹھیک طرح نہیں سمجھا۔“
”وہ کیسے ماموں جان؟“ عبدالرحمن نے پریشان ہو کر پوچھا۔
”بیٹے، پہلی بات تو یہ ہے کہ رحمن کے بندے سے مراد صرف وہ افراد نہیں ہیں جن کا نام عبدالرحمن رکھا گیا ہے بلکہ تمام ہی انسان اللہ کے بندے ہیں اور خاص طور پر مسلمان کو تو اپنے رحمن و رحیم رب کا ہر حکم ماننا چاہیے۔ یہ حکم سب کے لیے ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ نرم چال چلنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ انسان کندھے سکیڑ کر، سر جھکا کر دھیمی رفتار سے چلتا رہے۔“
”تو پھر کیا مطلب ہے؟“عبدالرحمن نے پوچھا۔
”دراصل، ہوتا یہ ہے کہ انسان اپنے بارے میں جس طرح سوچتا ہے، انسان کی چال بھی اس طرح کی ہو جاتی ہے۔ مثلاً، اگر کسی کوغرور ہے کہ اس کے پاس مال و دولت بہت ہے تو وہ اس وجہ سے اترا کر چلے گا۔ کوئی کسی اچھے عہدے پر ہے تو اس عہدے کی شان اس کی چال میں آجائے گی۔“
بس کے دوسرے مسافر بھی ماموں جان کی بات بڑی توجہ سے سن رہے تھے۔ کچھ دیر بعد بس شہر میں داخل ہو گئی، ایک جگہ گاڑیوں کا ہجوم زیادہ تھا، بس کی رفتار بھی بہت ہلکی ہو گئی، بس سے باہر سڑک اور فٹ پاتھ پر بھی مختلف اشیا کی خریداری کرنے والوں کا ہجوم تھا۔ کچھ لوگ بڑی بے صبری سے دوسروں کو دھکے دیتے ہوئے اپنا راستہ بنا رہے تھے۔
”دوسروں کو دھکے دیتے ہوئے نکلنا بھی غلط اور گناہ ہے، اس طرح دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے۔“ ماموں جان بولے۔
ذرا دیر میں بس کو نکلنے کا راستہ مل گیا اور چند منٹ بعد بس اڈے پر پہنچ گئی۔ سعید، منیر، عبد الرحمن اور ماموں جان بس سے اترے۔ ماموں نے ایک ٹیکسی لی اور وہ سب ٹیکسی میں بیٹھ کر اسٹیڈیم روانہ ہو گئے جہاں کتابوں کا میلا لگا ہوا تھا۔