skip to Main Content

بھکار واڑہ

محمد الیاس نواز

کردار:
ذُلفی بھائی: ایک تیس سالہ یوٹیوبر(ویلاگر)۔
صابو بھکاری: ادھیڑ عمر شخص، بھکاری قبیلے کا سربراہ۔
نذیراں بھکارن: صابو بھکاری کی بیوی۔
ساغربھکاری: ایک نوجوان بھکاری۔
جمالابھکاری: ایک نوجوان بھکاری۔
غلامابھکاری: ایک نوجوان بھکاری۔
گُلباز بھکاری: ایک قدرے پڑھا لکھا بھکاری۔

منظر

ایک میدان کا منظر ہے جس میں بہت سی جھونپڑیاں قائم ہیں۔جھونپڑیوں کے درمیان ایک یوٹیوبر سیلفی اسٹک پر موبائل ٹکائے کھڑا ہے۔ اس کے ساتھ دو اور کیمرا مین ہاتھوں میں کیمرے تھامے کھڑے ہیں۔ ان کے گردپندرہ بیس بھکاری جمع ہیں جن میں مرد، خواتین اور بچے شامل ہیں۔ذلفی بھائی نامی یہ یو ٹیوبر اپنا ویلاگ شروع کرتا ہے۔

(پردہ اٹھتا ہے)

ذُلفی بھائی: ”السلام علیکم!ویورز! میں ہوں آپ کا اپنا’ذُلفی بھائی‘ اورآپ دیکھ رہے ہیں میرا یوٹیوب چینل ’کیسے کیسے لوگ‘…… ہماری ہمیشہ سے کوشش ہوتی ہے کہ معاشرے کے مختلف طبقوں کے بارے میں آپ کو معلومات فراہم کی جائیں، ان کا رہن سہن اور مزاج دکھایا جائے اور ان کے نمائندہ لوگوں سے آپ کو ملوایا جائے۔ آ ج ہم اپنی نئی ویڈیو میں آپ کو ملوا رہے ہیں بھکاریوں سے اوراسی سلسلے میں آج ہم بھکاریوں کی بستی ”بھکار واڑہ“میں آئے ہیں۔“(کیمرا گھماتے ہوئے) ”یہ جوآپ کو ارد گردجھگیاں نظر آرہی ہیں، یہ اسی خانہ بدوش بھکاری قبیلے کے لوگوں کی ہیں۔
اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں، اگر آپ نے میرا چینل سبسکرائب نہیں کیا تو سب سے پہلے چینل کو سبسکرائب کرکے گھنٹی کے بٹن کو دبا دیجیے تاکہ میری نئی آنے والی ویڈیوآپ تک پہنچ سکے۔
تو ناظرین جب ہم نے بھکاریوں پر ویڈیو بنانے کا فیصلہ کیا تو ہم نے ’صابر علی‘ صاحب سے رابطہ کیا جو اس قبیلے کے بڑے ہیں اور’صابو بھکاری‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔صابو بھکاری اس وقت ہمارے ساتھ موجود ہیں …… تو چلتے ہیں براہ راست صابو بھکاری صاحب کی طرف……“(صابو بھکاری کی طرف کیمرا موڑتے ہوئے)……”تو جناب امید کرتے ہیں کہ آپ کا کام بھی آپ کی صحت کی طرح تگڑا چل رہا ہوگا…… میرا پہلا سوال یہ ہے کہ مانگنے کے بنیادی اصول کیا ہیں ……؟“
صابوبھکاری:”جی شکر ہے، کام اچھا ہے……بابو جی!مانگنے کے بنیادی اصول ہیں …… ہر کسی سے مانگنا، ہر جگہ مانگنا، ہر انداز میں مانگنا……اور ہر چیز مانگنا۔“
ذُلفی بھائی:”واااؤ……اتنی روانی میں مانگنا؟……اچھا یہ بتائیے پہلے کبھی کسی کو انٹرویو دیا ہے آپ نے؟“
صابوبھکاری:”پتا نہیں کتنو ں کو انٹرویو دیے ہیں ……آج کل ہر ہاتھ میں کیمرا ہے……ہر چوتھے دن کوئی نہ کوئی یو ٹیوبر ہمارا مہمان ہوتا ہے …… مجھے لگتا ہے آدھا یو ٹیوب تو ہماری ویڈیوؤں سے چل رہا ہے……“
ذُلفی بھائی: (حیرانی سے آنکھیں نکالتے ہوئے)”اچھا!!!……“(طنزیہ انداز میں ایک جھگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ……”یہ اسی ’آدھے یوٹیوب‘ کا دفتر تو نہیں ہے جو آپ لوگوں کی ویڈیوز سے چل رہا ہے؟……اچھا ویسے انٹرویو دینے میں آپ کے دھندے کا حرج نہیں ہوتا؟……آپ منع نہیں کرتے وقت دینے سے……؟“
صابوبھکاری:(لاپروائی سے) ”بابو جی! حرج توہوتا ہے مگر صرف اپنا ہی تو نہیں سوچنا …… دوسروں کی روزی روٹی کا بھی تو سوچنا ہے……“
ذُلفی بھائی:(آنکھوں کے ڈھیلے باہر نکال کرکیمرے میں جھانکتے ہوئے طنزیہ لہجے میں)”ناظرین!بھکاری بھی دوسروں کی روزی روٹی کا سوچتے ہیں …… سمجھے آپ لوگ؟؟؟……ویژن دیکھا آپ نے؟؟“……(صابو سے) ”ویسے بھکاری صرف لیتے ہی لیتے ہیں یا کچھ دیتے بھی ہیں؟“
نذیراں بھکارن:(ہاتھ نچاتے ہوئے صابو سے پہلے ہی بول پڑتی ہے) ”بابو جی!آپ جیسوں کو ہم دیتے ہیں، لیتے نہیں …… ابھی بھی آپ کو دے رہے ہیں، آپ سے کچھ مانگ نہیں رہے۔“
ذُلفی بھائی:(کیمرے کی طرف)”ویورز! بے عزتی سی نہیں ہو گئی……؟ ہاں تو ویورز……! کس کس کا خیال ہے یوٹیوبر بننے کا…… بنو گے……؟“
ساغربھکاری:”بے عزتی کی کیا بات ہے……آپ بھی مانگتے ہیں، ہم بھی مانگتے ہیں۔“
ذُلفی بھائی:(ساغر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر)”ہیں ں ں ں ں! میں کب مانگتا ہوں بھائی……؟؟؟“
ساغربھکاری:(ہنستے ہوئے)”چینل سکرائب کردو…… گھنٹی بجا دو…… ویڈیو دیکھو……یہ مانگنا نہیں ……آپ بھی مانگتے ہیں، ہم بھی مانگتے ہیں ……باقی بھکاری نہ آپ ہیں، نہ ہم……“
ذُلفی بھائی: ”چلو میں تو یوٹیوبر ہوں …… مگر آپ کیا ہو بھئی؟…… بھکاری نہیں ہو تو کیا انجینئر ہو؟“
ساغر بھکاری:”ہم دراصل اداکار ہیں ……فن کار ہیں ……“
صابو بھکاری:”ہاں!!……ہم فن کار ہیں اور اپنی فن کاری کا تھوڑا سا معاوضہ طلب کرتے ہیں، اور یہی کام آپ کرتے ہیں مگر آپ چینل کے ذریعے گھما کر مانگتے ہیں …… ہم نہ تو گھماکر مانگنے والے جھنجھٹ میں پڑتے ہیں اور نہ ہی زیادہ کے چکر میں پڑتے ہیں ……ہم تھوڑا مانگتے ہیں اور براہ راست مانگتے ہیں۔“
ذُلفی بھائی:”مگر میرے بھائی……!! آپ لوگ جھوٹ کا سہارا لیتے ہو……جو اپنے آپ کو لنگڑا دکھاتا ہے، وہ لنگڑا ہوتا نہیں۔“
جمالابھکاری:”آ پ لوگوں کی ویڈیو پر لکھا کچھ ہوتا ہے اور اندر سے ویڈیو کچھ اور ہوتی ہے……یہ جھوٹ نہیں ہے؟“
ذُلفی بھائی:”مگر ہم کون سا کسی کو زبردستی دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔“
جمالابھکاری:(ہنستے ہوئے)”بابو جی!ہم بھی کون سا کسی کی جیب میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں …… بس مانگتے ہیں۔“
(سارے بھکاری ہنسنے لگتے ہیں)
ذُلفی بھائی:(کیمرے کی طرف) ”ویورز!! یہ اتنے تیز بھکاری ہیں کہ انہیں ٹی وی اینکر ہونا چاہیے تھا……“(بھکاریوں کی طرف)……”فن کاااار بھائیو……! جب آپ لوگوں کو کوئی بھکاری کہتا ہے تو آپ کو برا نہیں لگتا؟“
صابوبھکاری:”نہیں ……ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا……ہم اگر لوگوں سے ناراض ہوں گے ……یالڑ پڑیں گے تو پیسے کون دے گا……ہمارا کام ہے پیار محبت سے پیسا نکلوانا۔“
ذُلفی بھائی:”انٹر ویو کے علاوہ کیا دیتے ہیں؟“
صابوبھکاری:”دعائیں ……!“
ذُلفی بھائی:”کس کو……؟“
صابوبھکاری: ”جس کے پیسوں کا احسان نہیں لینا چاہتے…… اس کو بدلے میں دعائیں دیتے ہیں ……“
ذُلفی بھائی:”اور……؟“
صابو بھکاری:”اور ……اور اس لالچی آدمی کو دعائیں دیتے ہیں جس کے بارے میں پتا ہو کہ کچھ لیے بغیر پیسے نہیں دے گا …… ہاہاہاہا……بس دعائیں دے کر پیسے نکلوالیتے ہیں ……“
ذُلفی بھائی:”کیا آپ کے خیال میں ہر آدمی مانگ سکتا ہے……؟“
غلامابھکاری: ”ہر گز نہیں ……“(منہ ٹیڑھا کرتے ہوئے)”بابوجی!……میری طرح منہ بنا لوگے؟“
ذُلفی بھائی:”نہیں ……“
غلامابھکاری:”تو پھر ایسے کون دے گا بابو جی؟؟……مسکینوں جیسی صورت بنا لوگے……؟؟“
ذُلفی بھائی:”بالکل نہیں ……“

غلامابھکاری:”مجھے پتا ہے……اتنے باصلاحیت ہوتے تو یوٹیو بر کیوں ہوتے……ہاہاہاہا……بھکاری نہ ہوتے……“
(سارے فقیروں کا ایک ساتھ قہقہہ بلند ہوتا ہے)
ذلفی بھائی:(رُخ نذیراں بھکارن کی طرف موڑتے ہوئے)”آپ کھانے میں کیا کیا چیز پکا لیتی ہیں؟“
نذیراں بھکارن:”صرف گوشت……“
ذُلفی بھائی:(حیرانی سے)”صرف گوشت…… وہ کیوں؟“
نذیراں بھکارن:”دیکھو بابوجی!……سارا سال تو ہم پکا پکایا مانگ کر کھاتے ہیں، پکانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی……ہاں قربانی کا گوشت جوکہ ہمیں کچا ملتا ہے، اسے ہم خود پکاتے ہیں ……اس لیے ہمیں صرف گوشت پکانا آتا ہے۔“
ذُلفی بھائی:”اوراگر کسی دن مانگا ہواتھوڑا بہت کم پڑجائے تو؟“
نذیراں بھکارن:”تو تھوڑا بہت کون پکاتا ہے……پکا پکایا ہی لے لیتے ہیں ……“
ذُلفی بھائی:(کیمرے میں آنکھ مار کے سرگوشی کرتے ہوئے)”تو ویورز پھر کیا خیال ہے……؟ہاہاہا……“(صابو سے) ”اچھا مانگنے کا کوئی اور اصول؟“
صابوبھکاری:”بابو جی……!! مانگنے کا ایک اچھا اصول یہ ہے کہ کم پیسے مانگو……زیادہ مانگو گے تو سامنے والا نہیں دے گا اور آپ کم پیسوں سے بھی رہ جاؤ گے …… اسی لیے ہم زیادہ کی لالچ نہیں کرتے بس روپے دو روپے کا سوال کرتے ہیں ……پانچ دس ویسے ہی مل جاتے ہیں ……آج کل روپیہ دو روپیہ کون جیب میں رکھتا ہے۔“
ذُلفی بھائی:”بہت دلچسپ……اچھا اور کوئی اصول……؟“
غلامابھکاری:”مجھے لگتا ہے بابو جی کا ذہن بن رہا ہے ……ہاہاہا……“
(اجتماعی قہقہہ)
ذُلفی بھائی:”خبردار……اللہ نہ کرے……اچھا بتاؤ نا……مانگنے کا کوئی اور اصول……“
ساغربھکاری:”جس طرح کا بندہ دیکھو، اسی طرح کا جملہ بول کر مانگو……“
ذُلفی بھائی:”اچھا!!!!……وہ کیسے؟“
ساغربھکاری:”جیسے دِین والا آدمی دیکھو…… تو اس کو کہو، اللہ آپ کو مدینہ دکھائے یا اللہ آپ کو حج کرائے……امیر خاتون دیکھو تو اس سے کہو کہ اللہ آپ کے مال میں برکت دے……طالب علم دیکھو تو اسے یہ دعا دو کہ اللہ تمہیں پیپروں میں کامیاب کرے……“
ذُلفی بھائی: ”اچھا یار ایمان داری سے بتاؤ……ایسے مانگنادھوکہ نہیں ہے؟“
نذیراں بھکارن:”دھوکہ کیوں ……ہم کون سا ادھار کہہ کر مانگتے ہیں اور پھر واپس نہیں کرتے……ہم تو مانگتے ہی نہ دینے کے لیے ہیں۔“
ذُلفی بھائی:”آپ لوگ مانگنے کے بجائے کوئی کاروبار کیوں نہیں کر لیتے……؟“
صابوبھکاری:”بابو جی! آپ اچھے بھلے سمجھ دار انسان لگتے ہو مگر بات الٹی ہی کر رہے ہو……یہ بتاؤ کہ قبرستانوں، ہسپتالوں اور جعلی بابوں کے علاوہ کون سا کاروبار ہے جو اچھا چل رہا ہے……؟“
غلامابھکاری:”ہمارا والا……“
ساغربھکاری:”جبھی تو کر رہے ہیں ……“
(بھکاریوں کااجتماعی قہقہہ)
ذُلفی بھائی:”آپ لوگ ملکی معیشت پر بوجھ نہیں ہیں؟“
صابوبھکاری:”لوبھئی……!! بابو جی نے ہم فقیروں سے پڑھے لکھوں والا سوال کردیا ہے……اس کا جواب تو گُلباز ہی دے گا……“
(اتنے میں ایک بہترین تراش خراش اور عمدہ لباس والا شخص ذُلفی بھائی کے پیچھے سے نکل کر سامنے آکھڑا ہوتا ہے)
ذُلفی بھائی:”یہ کون ہے؟“
گُلباز بھکاری: (سینے پر ہاتھ رکھ کر، سر کو ہلاکر مسکراتے ہوئے) ”پڑھا لکھا معزز فقیر……!!ہم ملکی معیشت پر بوجھ کیسے ہیں؟ …… حکومت ہم پر کیا خرچ کرتی ہے؟……ہم تو اپنے لیے بنیادی ضروریات تک بھی نہیں مانگتے……نہ گیس خرچ کرتے ہیں،نہ بجلی، نہ پیٹرول ……دوسری بات یہ کہ ہم ملک میں ہی مانگتے ہیں اور ملک میں ہی خرچ کرتے ہیں ……اس طرح ملکی پیسہ ملک میں ہی گردش کرتا رہتا ہے ……ایک پیسہ بھی ملک سے باہر نہیں جاتا……“
ذُلفی بھائی: (کیمرے میں جھانک کر ہونٹوں پر انگلی رکھ کر سرگوشی والے انداز میں)”ششش……ویورز! خامووووش……ایک بھکاری ملک کے حوالے سے اپنی خدمات گنوا رہا ہے……جی!!!!……“
گلباز بھکاری:”آپ ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں حالانکہ ہم نہ تو حکومت سے روزگار کا مطالبہ کرتے ہیں،نہ کسی سہولت کااور نہ ہی کسی جرم میں ملوث ہیں۔“
ذُلفی بھائی:”لو جی، اور سن لو!…… او بھائی! بھیک مانگنا بذات خود ایک جرم ہے……قانوناً بھی اور اخلاقاً بھی……“
گلبازبھکاری:”معاشرے کا دہرا معیار ہے……ادارہ مانگے تو عطیہ، حکم ران مانگے تو امداد، کوئی بابا مانگے تو نذرانہ، آپ مانگیں تو لائک اور ہم مانگیں ……تو بھیک!!……باقی سب مانگیں تو اچھا اور ہم مانگیں تو بُرا……“
ذُلفی بھائی:”بھائی جاااااان……! سب مانگنے والے اپنی ذات کے لیے نہیں مانگتے……اور رہی بات ہماری تو یارخدا کا نام لو …… ہم یو ٹیوبر محنت کرتے ہیں …… پہلے کانٹینٹ تیار کرتے ہیں …… پھر اپنی ویڈیو میں اس کو بہتر سے بہترین انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں …… پھر ہماری کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اپنی بات کو پہنچا سکیں ……بڑی محنت والا کام ہے۔“
گلباز بھکاری:”یہی کام تو ہم بھی کرتے ہیں ……یقین کیجیے کہ ہم بھی ذہین، محنتی اور کریٹیولوگ ہیں ……ہم بھی پہلے اچھا کانٹینٹ تیار کرتے ہیں ……مانگنے کے نئے نئے انداز سوچتے ہیں ……پھران کی تیاری کرتے ہیں ……اس کو بہتر انداز میں پیش کرنے کی پریکٹس کرتے ہیں ……اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ……ہمارے کام میں بھی محنت ہے……کسی کی جیب سے پیسا نکلوانا آسان ہے کیا……؟“
ذُلفی بھائی:”ہمارے کام میں پہلے لاگت ہے“……(کیمروں کی طرف اشارہ کرکے)……”یہ سامان ہے……اس پر پیسا خرچ ہوتا ہے……یہ سستا نہیں آتا……ہم پہلے پیسا لگاتے ہیں۔“
ساغربھکاری: (ہنستے ہوئے کشکولوں، بیساکھیوں، وہیل چیئر کی طرف اشارہ کرکے) ”ہمارا بھی سامان ہے……ہمارا بھی پیسا خرچ ہوتا ہے ……آپ ڈالر کماتے ہو، آپ کا سامان مہنگا ہے…… ہم ایک ایک روپیہ مانگتے ہیں ہمارا سامان سستا ہے۔“
ذُلفی بھائی:(گلباز بھکاری سے)”آپ پڑھے لکھے ہو کر مانگتے ہیں؟“
گلباز بھکاری:”ہمارے دانش ور خود ہی تو کہتے ہیں کہ ہر شعبے میں پڑھے لکھے نوجوانوں کو آگے آنا چاہیے……ہاہاہاہا……میں تو کہتا ہوں پھینکو کیمرے اور صبح ہمارے ساتھ کام پر چلو……“
(زوردار اجتماعی قہقہہ گونجتا ہے اور ذُلفی بھائی پھیکی پھیکی ہنسی ہنسنے لگتا ہے)
ذُلفی بھائی:”ابھی تک تو آپ لوگوں سے ہنسی مذاق میں بات ہورہی تھی مگر……میں اپنا آخری سوال آپ سے بالکل سنجیدہ کرنا چاہتا ہوں ……کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی کمائی حلال ہے اور آپ جائز کام کر رہے ہیں؟“
گلبازبھکاری:(سنجیدگی سے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے)”بالکل نہیں ……ہم نے یہ کبھی نہیں کہا……ہم بھی آپ سے ہنسی مذاق کر رہے تھے مگر……ہم نے اپنی کمائی کو کبھی حلال یا جائز نہیں کہا……ہم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم حالات کی پیداوار ہیں ……جہاں کاروبار میں مندی ہو……نوکریاں ہوں نہیں ……مہنگائی کہیں رک نہ رہی ہو……وہاں لوگوں کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں ……یا بھیک یا دیگرجرائم …… چوری یا ڈاکے کے مقابلے میں مانگ لینا چھوٹا جرم ہے……“(اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگتے ہیں)”……جس دن ہماری قوم نے ترقی کرلی، یہ کام ختم ہو جائے گا……بس ہم تو اتنا ہی کہتے ہیں ……“
ذلفی بھائی:(اداس لہجے میں)”ملتے ہیں کسی نئی ویڈیو کے ساتھ……اللہ حافظ!“

(پردہ گرتا ہے)

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top