skip to Main Content

مشکل آسان

عائشہ تنویر

۔۔۔۔۔
وہ شجر کاری کو فضول خیال کرتا تھا لیکن جب گھر میں ہی اسے پانی نہ ملا تو اس کی آنکھیں کھل گئیں !

۔۔۔۔۔

”ہفتہ شجر کاری! مطلب مفت کی چھٹیاں….“سلیمان نوٹس بورڈ پڑھ کر خوشی سے چہکا۔ ”میں تو اسکول نہیں آؤں گا۔“
حسیب کا منہ بن گیا ۔”زندگی کے لیے صحت بھی ضروری ہے صرف پڑھائی نہیں ،پڑھائی کے علاوہ بھی کچھ کر لیا کرو ۔“
سلیمان نے جواب میں کندھے اچکا دیے ،گویا کہہ رہا ہو کہ مجھے کیا ؟
حسیب نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ سلیمان بول پڑا:
”یہ سب فضول ہے یار!درختوں کے فائدے سب جانتے ہیں، بلاوجہ کی تقریروں کافائدہ ؟اور جہاں تک درخت لگانے کی بات ہے ،میرے حصے کا ’بوٹا‘بھی تم لگا لینا ،مجھے دلچسپی نہیں، میں لگا بھی لوں تو اس کی دیکھ بھال نہیں کر سکتا، البتہ….“جملہ ادھورا چھوڑ کر سلیمان مسکرانے لگا۔
حسیب نے استفہامی انداز میںاس کی جانب دیکھا ۔
” جب میں سائنس دان بنوں گا تو بارشوں اور ہوا میں آکسیجن کی مقدار کو کنٹرول کرنے پر کام کروں گا۔ ایسی ایجاد کروں گا کہ یہ تمھارے سارے درخت بے کار کھڑے ہوں گے۔“
”مہربانی آپ کی۔ جب تک آپ کچھ کریں گے ، ہم آلودگی اور گلوبل وارمنگ سے مر چکے ہوں گے۔“حسیب جل کر آگے بڑھ گیا ۔
سلیمان پڑھائی میں بہت اچھا تھا ۔ اس کی زیادہ دلچسپی سائنس کے مضامین میں تھی۔ اپنی ذہانت پر مان بھی تھا لیکن وہ اسکول میں ہونے والی زیادہ تر غیر نصابی سرگرمیوں میںشامل نہیں ہوتا تھا ،کیوں کہ اس کے مطابق یہ سب فضول تھا۔
سلیمان کے برعکس حسیب ہر قسم کی مثبت سرگرمیوں میں فعال تھا ۔ پورا اسکول اس کا جاننے والا تھا۔ مزاجوں میں واضح فرق کے باوجود ان دونوں میںگہری دوستی تھی ۔ اس لیے ہم نصابی سرگرمیوں کے ہر موقع پر وہ سلیمان کی کمی محسوس کرتا تھا ۔آج بھی اس کی غیرموجودگی کا سوچ کر حسیب کا موڈ خراب ہو چکا تھا۔
….٭….
”پڑوس والی خالہ کے گھر سے پانی کا پائپ لگا لے بیٹا ! اپنے گھر میں تو پانی کا نام ہی ختم ہورہا ہے ۔“
گرمی سے بے حال وہ گھر میں داخل ہو کر سکون کا سانس بھی نہیں لے پائے تھے کہ امی جان کا حکم آ گیا ۔ ڈسپنسر سے پانی کا گلاس بھرتے سلیمان کے ہاتھ وہیں رک گئے۔ حسیب کو پڑھائی میں مدد چاہیے تھی، وہ اس کے ساتھ ہی آیا تھا اوراس کی امی کی بات سن کر حیران ہو رہا تھا ،پھر اسے کچھ خیال آیا تو وہ اُن سے سلام دعا کرنے لگا۔
” پانی پھر ختم ہے آج ۔“سلیمان کے چہرے پر بارہ بج گئے ۔
پچھلے کچھ عرصے سے ان کے علاقے میں پانی کی شدید قلت تھی ۔ہفتہ ، ہفتہ بھر پانی نہ آتا تو ایک ایک بوند قیمتی محسوس ہوتی ۔ اہل محلہ پریشانی کے عالم میں کبھی ٹینکر کے پیچھے بھاگتے تو چند لوگ مسئلے کا مستقل حل نکالنے کے لیے بورنگ کروانے لگے۔(بورنگ یعنی زمین سے پانی حاصل کرنے کے لیے گہرا سوراخ کھدوانا) ۔ بدقسمتی سے اُن کے علاقے کی زمین بھی بے آب ثابت ہوئی ۔ بہت گہرائی میں جا کر پانی نکلا بھی تو وہ اتناکھاراتھا کہ پینا ہی دشوار تھا ۔ اسی لیے محلے کے زیادہ تر لوگوں نے بورنگ کروانے کی ہمت نہیں کی ۔بس ایمرجنسی میں پانی ختم ہونے کی صورت میں بورنگ والے گھر سے ہی تھوڑا بہت مانگ لیا جاتا۔
”تھوڑی دیر انتظار کر لیتے ہیں۔ ابو نے ٹینکر کو کہا ہو گا ،آنے ہی والا ہو گا ۔“اس نے بے چارگی سے درخواست کی ۔
امی نے اس کے تکان زدہ چہرے کو دیکھا، پھر شاید حسیب کا لحاظ کر لیا ۔
”ٹھیک ہے، جلدی سے پانی پی کر ٹینکر بھی بلوا لواور پینے کا پانی بھی منگوالو، آخری بوتل ہے۔ تمھارے دادا جان آئے ہیں ، گرمی میں نہانا دھونا ہو گا تو پریشان ہوں گے ۔ تم لوگوں کے ہاتھ منہ دھونے کے لیے بھی پانی نہیں۔“
امی ہدایات دیتی چلی گئیں ۔ حسیب ،سلیمان کو پریشان دیکھ کر پریشان ہو رہا تھا۔
” پانی کے بغیر جینا بہت دشوار ہے یار۔ “
سلیمان نے کوئی جواب نہیں دیا ۔وہ ہاتھ میں پکڑا پانی کسی تبرک کی طرح گھونٹ گھونٹ پینے لگا۔
کچھ دیر بعد سلیمان نے ٹینکر والے کو فون کر کے جلدی پہنچنے کی درخواست کی ۔ پینے کا پانی منگوانے کے لیے فون کیا ۔جس وقت پانی کی بوتلیں آ رہی تھیں تو ساتھ ہی دادا جان بھی اندر داخل ہوئے تھے ۔
”السلام علیکم دادا جان! کہاں تھے آپ ؟“
سلیمان خوشی میںان کے گلے لگ گیا ۔ حسیب بھی آگے بڑھ کر ملا ۔ وہ اور دادا جان ایک دوسرے سے بخوبی واقف تھے۔
”نماز کے بعد صوفی صاحب کے ساتھ چلا گیا تھا ۔ یہ تم لوگوں نے پانی کا نیا خرچا شروع کر دیا بھئی ۔ پہلے تو تمھاری امی گھر میں ہی ابالنا ، چھاننا کرتی رہتی تھیں ۔“دادا جان حیرت سے پانی کی بوتلوں کو دیکھ رہے تھے ۔ وہ عرصے بعد اُن کے گھر رہنے آئے تھے مگر پانی کی قلت کی وجہ سے سلیمان کو دادا جان کی آمد کی خوشی بھی پھیکی محسوس ہو رہی تھی ۔
”پانی کا بہت مسئلہ ہے ۔ٹینکر کے پانی پرگھر کے کام چل رہے ہیں دادا جان، لیکن وہ پینے کے قابل کہاں ہوتا ہے ،اس لیے فلٹر پانی منگوانا پڑتا ہے۔ “سلیمان نے بے چارگی سے بتایا ۔
”اوہ، یہاں تو زمین کا پانی ملنابھی مشکل ہے ۔ نکلا بھی توکھار اہی ہو شاید….“
دادا جان نے تاسف سے کہا۔
”آپ کو کیسے معلوم دادا جان !“سلیمان کو ان کے درست اندازے پر حیرت ہوئی ۔
”معلوم تو نہیں ،بس خیال ظاہر کیا ہے ۔ درخت نہیں ہیں نا ںاِس پورے علاقے میں دور دور تک….بند گھر، پختہ سڑکیں ، سبزے کا دور دور تک نام و نشان نہیں ۔درخت ہوں تو زیر زمین پانی کی سطح بلند رہتی ہے اور اس میں نمکیات بھی مناسب مقدار میں ہوتے ہیں۔ اضافی نمکیات درخت جذب کر لیتے ہیں ۔ ہم نے تو اپنے بڑوں سے یہی سنا ہے ، تمھاری سائنس کیا کہتی ہے، تم جانو۔“
بات مکمل کرتے دادا جان کھل کر مسکرائے ۔وہ سلیمان کے سائنس فوبیا سے بخوبی واقف تھے ۔
”سائنس بھی یہی کہتی ہے دادا جان، درخت درجہ¿ حرارت بھی معتدل رکھتے ہیں۔ “
وہ کسی سوچ میں گم کہہ رہا تھا۔
”ہمارے علاقے میں بہت درخت اور باغات ہیں، اسی لیے وہاں بورنگ کا پانی بھی کڑوا نہیں ہے ۔ ہم تو بوقتِ ضرورت پی لیتے ہیں ۔ “
حسیب نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔ ہفتہ¿ شجر کاری کی اہمیت ایک دم اس پر واضح ہوئی تھی۔
”جب یہ کالونی بن رہی تھی، میں نے تب ہی کہا تھا کہ صحن بنانا ممکن نہیں تو سب گھروں کے باہر ہی درخت لگاو¿، مگر کسی نے توجہ نہ دی ۔چوڑی سڑک، پارکنگ کی جگہ ، کھیلنے کی جگہ سب ہے۔بس سبزے کی جگہ نہیں تھی ۔ درخت ہوتے تو گرمی کا یہ حال نہ ہوتا۔“
دادا جان باہر سے گرمی برداشت کرتے آئے تھے، لمبی سڑک پر کہیں سایہ نہیں ملا تو انھیں درختوں کی کمی زیادہ ہی بری لگ رہی تھی ۔
”یہاں لوگوں کے پاس اپنے لیے وقت نہیں ، اب کون پودوں ، درختوں کی ذمہ داری اٹھائے ۔ حکومت ہی کچھ کرے تو بات بنے۔ “
سلیمان نے اُن کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے پانی کا گلاس بھر کر دادا جان کو دیا اور اپنی ازلی سستی کے سبب سارا معاملہ حکومت پر ڈال کر بری الذمہ ہو جانا چاہا۔
دادا جان نے اسے گھورا ۔
”ہاں بھئی، تم لوگ بیٹھ کر نظام شمسی چلاتے ہو ناں، کام رک گیا تو دنیا تباہ ہو جائے گی۔ حد کر دی بچے ۔ کام نہ کرنے کے بہانے ہیں سب ۔ یہ بڑے بڑے درخت تو بس شروع میں کچھ توجہ مانگتے ہیں ، جڑ پکڑ لیں تو فکر ختم ۔“
دادا جان نے سلیمان کی خاصی عزت افزائی کرد ی تھی ۔ اس کی شکل دیکھ کر حسیب کے لیے ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو گیا ۔
”میں نے تو بہت درخت لگائے ہیں دادا جان ۔ اب اِن شاءاللہ اسکول میں بھی ہفتہ شجر کاری کے دوران لگاو¿ں گا ،مگر سلیمان کے پاس واقعی وقت نہیں ہوتا دادا جان ۔ وہ تو شجر کاری کے دوران اسکول کی بھی چھٹیاں کرے گا۔کیوں کہ درخت تو کوئی بھی لگا سکتا ہے، سلیمان اتنے چھوٹے کام نہیں کرتا۔“
وہ مسکراہٹ دباکر بظاہر بہت سنجیدگی سے بات کر رہا تھا مگر اس کے پس پردہ عزائم سلیمان سے پوشیدہ نہیں تھے۔ وہ سٹپٹا کر صفائی دینے لگا ۔
”میں تو مذاق کر رہا تھا ۔درخت لگانا کیسے چھوٹا کام ہو سکتا ہے ۔ یہ تو صدقہ جاریہ ہے بلکہ میں تو اب اپنے گھر کے سامنے بھی درخت لگاو¿ں گا ۔ چھت پر بھی مٹی ڈال کر پودے لگاو¿ں گا اور، اور ….“
وہ دادا جان کی ڈانٹ اور اس سے بڑھ کر ان کے ممکنہ لیکچر سے بچنے کے لیے ایسے مسلسل بولتا جا رہا تھاکہ حسیب ہنسی ضبط نہ کرسکا۔ اس کی کھلکھلاہٹ اور سلیمان کی گھبراہٹ نے دادا جان کو بھی مسکرانے پر مجبور کر دیا ۔ کچھ مشکلیں اچھا سبق دے جاتی ہیں ۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top