skip to Main Content

کہاوتوں کی کہانیاں۔۴

ڈاکٹر رؤف پاریکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہاوتیں آپ سنتے بھی ہیں اور پڑھتے بھی۔بعض مرتبہ حیرت بھی ہوتی ہے کہ اس عجیب سی بات کا پس منظر کیا ہے۔یہ دلچسپ سلسلہ نہ صرف ہماری آپ کی اس حیرت کو دور کرے گا،بلکہ ان کہاوتوں کے اصل پس منظر اور مزے مزے کے واقعات کی تفصیل بھی بتائے گا۔

مرغے کی ایک ٹانگ
اس کہاوت کا مطلب ہے اپنی بات کے صحیح ہونے پر ضد کرنا۔یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص اپنی چھوٹی بات کو دہراتا رہے اورکسی طرح قائل نہ ہو اور اگر اس کی بات غلط ثابت ہو جائے تب بھی اس پر اڑا رہے۔
کہاوت کی کہانی یہ ہے کہ کسی شخص نے اپنے باورچی کو مرغ کا سالن پکا نے کو کہا۔جب باورچی نے سالن پکا لیا تو مرغ کی ٹانگ دیکھ کر اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔آخر اس سے رہا نہ گیا اور وہ مرغ کی ایک ٹانگ ہڑپ کر گیا۔جب کھانا دسترخوان پر لگا تو سالن میں مرغی کی ایک ہی ٹانگ تھی۔اس شخص نے باورچی سے پوچھا،”مرغے کی دوسری ٹانگ کہاں ہے؟“باورچی نے جواب دیا،”جناب! یہ مرغا ایک ہی ٹانگ کا تھا، اس لیے سالن میں ایک ٹانگ ہے۔“وہ شخص بہت جھنجھلایا اور اور باورچی کو سمجھانے لگا کہ مرغ کبھی ایک ٹانگ کا نہیں ہوتا،لیکن باورچی نہ مانا۔آخر وہ شخص اسے لے کر بازار گیا۔بازار میں ایک جگہ مرغ فروخت ہورہے تھے۔اس شخص نے باورچی سے کہا،”دیکھو سب مرغ دو ٹانگوں والے ہیں۔ایک ٹانگ کا مرغ نہیں ہوتا۔“اتفاق سے اس وقت ایک مرغ ایک ٹانگ اٹھا کر کھڑا تھا۔باورچی نے کہا،”وہ دیکھیے ایک ٹانگ کا مرغ۔“اس شخص نے مرغ کے پاس جا کر زور سے سے تالی بجائی۔مرغے نے گھبرا کر دوسری ٹانگ نکالی اور بھاگا۔ اس شخص نے کہا،”دیکھا یہ بھی دو ٹانگوں والا ہے۔“باورچی نے فوراً جواب دیا،”جناب! اس وقت دسترخوان پر بھی تالی بجاتے تو وہ مرغ بھی دوسری ٹانگ نکال دیتا۔“
غرض باورچی اپنی بات پر اڑا رہا اور یہی کہتا رہا کہ اس مرغ کی ایک ہی ٹانگ تھی۔اس طرح یہ کہاوت مشہور ہوگئی۔

جیسے بجتی چلی آرہی ہے ویسے ہی بجاؤ
مطلب یہ کہ کام جس طرح ہوتا چلا آرہا ہے اسی طرح کرتے رہو،اس میں اچانک تبدیلی نہ کرو۔یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کسی کام کا طریقہ اچانک بدل دینے سے کوئی نقصان ہو جائے یا گڑبڑ ہو۔
اس کی کہانی یہ ہے کہ ایک بارات بڑے دھوم دھام سے اور باجے گاجے کے ساتھ چلی آرہی تھی۔بارات کے آگے آگے باجے والے تھے اور ان میں سب سے آگے ایک شخص شہنائی بجا رہا تھا۔بارات دلہن والوں کے گھر پہنچی جہاں گھر کے باہر کھانا پک رہا تھا۔وہاں پہنچ کر شہنائی والے کو جو جوش آیا تو اس نے منہ اٹھا کر زور سے شہنائی بجائی،سامنے دیوار پر کتا بیٹھا تھا ۔کتے نے اچانک جو شہنائی کی”پوں“ سنی تو ڈر کر اچھلا اور سیدھا کھانے کی دیگ میں جا گرا۔سارا کھانا خراب ہوگیا اور بارات بھوکی رہ گئی۔اس وقت کسی نے شہنائی والے سے کہا،”میاں! جیسے بجتی چلی آ رہی تھی ویسے ہی بجانی تھی۔“اور اس طرح یہ کہاوت بن گئی۔

ابھی دلی دور ہے
اس کہاوت کا مطلب ہے ابھی بہت سا کام باقی ہے یا ابھی اس کام میں وقت لگے گا۔یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی کام بہت مشکل ہو اور محنت مانگتا ہو اور اس کے بارے میں یقین نہ ہو کہ یہ پورا ہوگا بھی یا نہیں۔اس کے علاوہ یہ کہاوت اس وقت بھی بولی جاتی ہے جب یہ کہنا ہو کہ نہ جانے کل کیا ہو؟
اس کہاوت کے دو قصے مشہور ہیں۔مشہور شہر دلی میں اللہ کے ایک نیک بندے حضرت نظام الدین اولیاءرہا کرتے تھے۔پہلا قصہ انہی کے بارے میں ہے۔ان کے زمانے میں ہندوستان پر غیاث الدین تغلق کی حکومت دی۔بادشاہ غیاث الدین تغلق حضرت نظام الدین اولیاءکو ناپسند کرتا تھا۔ایک دفعہ بادشاہ بنگال گیا۔وہاںسے اس نے دلی میں حضرت کو پیغام بھجوایا کہ میں آ رہا ہوں، میرے آنے سے پہلے آپ دلی چھوڑ کر چلے جائیں۔حضرت نے یہ پیغام سن کر کہا،”ہنوز دلی دور است۔“(یعنی ابھی دلی دور ہے)خدا کا کرنا یہ ہوا کہ بادشاہ راستے میں ایک محل میں ٹھہرا اور اس پر محل کی چھت گر پڑی جس کے نیچے دب کر وہ مرگیا۔اس طرح اسے صحیح سلامت دلی پہنچنا نصیب نہ ہوا۔اس طرح اللہ نے حضرت نظام الدین اولیاءکی بات سچ کردی اور لوگوں میں یہ کہاوت مشہور ہوگئی۔

چور کی داڑھی میں تنکا
مطلب یہ کہ جو شخص برا کام کرتا ہے اس کے دل میں کھٹکا ہوتا ہے۔یہ کہاوت ایسے وقت بولی جاتی ہے جب کسی کے دل میں
کھوٹ کا،اس کی کسی حرکت یا بات سے پتا لگ جائے۔
اس کی کہانی یہ ہے کہ کسی گاؤں کے ایک گھر میں چوری ہوگئی۔گاؤں کے سیانوں نے تمام گاؤں والوں کو جمع کیا اور اعلان کیا کہ ہمیں چور کا پتا چل گیا ہے۔چور اس وقت یہاں موجود ہے اور اس کی داڑھی میں تنکا ہے۔اتفاق سے ان گاؤں والوں میں چور واقعی موجود تھا۔وہ سمجھا کہ اسے پہچان لیا گیا ہے اور اس نے بے خیالی میں اپنی داڑھی میں ہاتھ پھیرا تا کہ تنکا ہو تو نکل جائے۔سیانے تاڑ گئے کہ ہو نہ ہو یہی چور ہے اور اس طرح چور پکڑا گیا۔لوگوں نے یہ واقعہ سنا تو کہا،”چور کی داڑھی میں تنکا۔“اور اس طرح یہ کہاوت بن گئی۔

زمین جنبد نہ جنبد گل محمد
یہ کہاوت فارسی میں ہے ۔ اس کا لفظی مطلب ہے، زمین ہل گئی گل محمد نہیں ہلا۔یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی ضد نہ چھوڑے اور اپنی بات پر اڑا رہے اور اس کی ضد کے سامنے سب لوگ ہار مان لیں۔
اس کی کہانی بھی سنو۔ایک راجا اکھاڑے میں پہلوانوں کو کشتی لڑتے دیکھ رہا تھا۔اتفاق سے اکھاڑے میں کہیں سے گھومتا گھامتا ایک طاقتور پٹھان آگیا جس کا نام گل محمد تھا۔اس نے راجا کے پہلوانوں کو مقابلے کی دعوت دی۔ایک ایک کر کے سارے پہلوان اس سے لڑے لیکن کوئی اسے پچھاڑ نہ سکا۔اب تو گل محمد کی واہ واہ ہوگئی۔آخر اس نے راجا سے کہا کہ آپ اپنے تمام پہلوانوں سے کہیں کہ وہ ایک ساتھ مجھ سے زور آزمائیں اور مجھے ہلا کر دکھائیں۔یہ کہہ کر گل محمد اپنی جگہ پر قدم جما کر کھڑا ہوگیا۔راجا کے سارے پہلوان ایک ساتھ اس پر پل پڑے لیکن اسے اس کی جگہ سے ایک انچ نہیں ہلا سکے۔آخر سارے پہلوان تھک کر بیٹھ گئے۔جب گل محمد اپنی جگہ سے ہٹا تو لوگوں نے دیکھا کہ وہ جہاں کھڑا تھا وہاں کی زمین ہل گئی تھی۔تب لوگوں میں یہ بات پھیل گئی کہ زمین ہل گئی تھی لیکن گل محمد اپنی جگہ سے نہیں ہلا تھا،یعنی زمین جنبد نہ جنبد گل محمد۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top