skip to Main Content
چائے

چائے

 محمد الیاس نواز

………………………………………………………

دادا مرحوم کو اللہ بخشے جب کوئی تکلف کرتا تو اسے فرماتے ’’بھئی چائے کا منع مت کرنا کہ یہ تو آب حیات ہے‘‘۔

………………………………………………………

چائے بھلا کہاں کہاں نہیں پی جاتی۔ جھونپڑیوں سے لے کر وی آئی پی دفتروں تک، گلی کوچوں سے فیکٹریوں تک، مساجد کے حجروں سے محلات کے بالا خانوں تک، چمن سے چکیاں تک اور چکوال سے چیچہ وطنی تک ہر جگہ اسکا راج ہے اور چوہدری سے چرواہے تک ہر کوئی اسکا شوقین ہے۔ پانی،دودھ ،چینی اور پتی وہ چار عناصر ہیں جن سے چائے بنتی ہے۔ اس میں سے اگر پانی کو نکال دیا جائے تو یہ چائے دودھ پتی بن جاتی ہے، دودھ نکال دیا جائے تویہ قہوہ رہ جاتی ہے۔ چینی نکال دی جائے تو یہ شکر سے پاک ( شوگر فری) یا ڈائٹ چائے بن جاتی ہے جو ذیابیطس ( شوگر) والوں کیلئے بنائی جاتی ہے اور اگر اس میں سے پتی نکال دی جائے تو کوئی چائے نہیں بن سکتی۔ البتہ پانی،دودھ، اور چینی مل کر کچی لسی بناتے ہیں اور ہم کچی لسی کو کبھی بھی چائے کا الزام نہیں دے سکتے اور نہ ہم اس لسی کو چائے کا نام دے کر چائے کو بدنام کر سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ خوشبو کیلئے چائے میں الائچی ڈالنا پسند کرتے ہیں جبکہ گرمیوں میں اور خاص کر بارش کے موسم میں کوئی ایک آدھ مکھی آکر یہ کمی پوری کر دیتی ہے۔ جس کیلئے ہمیں یقیناً اس مکھی کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اپنی جان پر کھیل کر اس نے ہماری چائے کو رونق بخشی۔ اکثر آپ ایک چسکی لگانے کے بعد جب دوسری چسکی لینےکیلئے کپ اٹھاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ایک مکھی صاحبہ تیراکی سیکھ رہی ہیں۔ اس طرح کا اتفاق ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ مس درانی جیسی سخت اور صحت مند ٹیچر کا پیریڈ ہواور مضمون یاد نہ ہوتو کلاس سے بھاگ کر کینٹین میں چائے ہی پی جا سکتی تھی۔ چائے پیتے ہو ئے اچانک جنید کی شرارت والی رگ پھڑک اٹھی اور وہ بولا ‘‘مس درانی’’ ۔بس پھر تو ہمارا چہرہ ملٹی کلر ہو گیا اور کلیجہ منہ کو آکے چائے میں گرتے گرتے رہ گیا۔ ہم نے پوچھا۔۔۔ک۔۔۔کک۔۔۔۔کہاں۔۔۔؟۔اب جو اسکی انگلی کا اشارہ دیکھا تو وہ چائے کے کپ کی طرف تھا۔ جس میں مکھی صاحبہ تیراکی سیکھنے کیلئے اتری تو تھیں مگر چائے گرم ہونے کی وجہ سے انتقال فرما گئی تھیں۔ ابھی حال ہی میں چنگیزی صاحب کی کتاب ‘‘چائے اور چکر’’ چھپ کر مارکیٹ میں آئی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں‘‘ اگر آپ کسی کو چکر دینے کیلئے انتظار میں بیٹھے ہیں مگر نیند کی وجہ سے آپکو چکر آرہے ہیں تو چکرانے کی کوئی بات نہیں چائے پی لیجئے۔ چائے آپ کے (تھوڑے بہت) دماغ کو اچھی طرح خشکی پہنچا کرسکون کو تباہ کرکے نیند کا بیڑہ غرق کردے گی اور چکر آنا بند ہو جائیں گے۔ اگر تھوڑی دیر بعد آپ کو پھر چکر آنے لگیں تو سمجھ لیجئےکہ آپ نے جو دوسروں کو چکر دئیے، وہ واپس آرہے ہیں’’۔ مختلف لوگ چائے کے ساتھ مختلف چیزیں پسند کرتے ہیں۔ مثلاً: چغتائی صاحب کو چائے کے ساتھ چم چم اور چمن چچا کو چپس اچھی لگتی ہے جبکہ چوہدری چراغ دین کا خیال ہے کہ چائے کے ساتھ چغلیاں کھائی جائیں تو زیادہ لطف آتا ہے۔ ویسے اپنے چوہدری صاحب کو تو چائے کی اتنی کو ئی چاہت ہے کہ بنگلے کا گیٹ چینک کی طرح بنوا کر اسکے ساتھ پیالوں جیسے بڑے گملے لگوا کر ان میں چائے کے پودے لگوا چھوڑے ہیں۔ ویسے انکا اپنا چہرہ بھی چینک کی طرح اور ناک۔۔۔۔چلیں چھوڑیں اس بات کو کہ انکا بس چلے تو چائے کے چشمے بہادیں مگر مفت میں کسی کو ایک چسکی تو کیا چکھنے بھی نہ دیں۔ انسان تو انسان ان کے گھر کے تو جانوروں کو بھی چائے کے چسکے پڑے ہو ئے ہیں۔ ان کی گائے ‘‘چکوری’’ کو تو چائے کا اتنا چسکا ہے کہ چائے کا برتن سامنے رکھ دو تو چنے چرنا بھی چھوڑ دیتی ہے۔ خیر اس میں بھی کو ئی تعجب والی بات نہیں ہے۔ بھئی پریشان خان کی ’’پیاری’’پیپسی پی سکتی ہے تو چوہدری صاحب کی چکوری چائے کیوں نہیں پی سکتی۔ اب ہم آتے ہیں چمن چچا کی طرف۔ چمن چچا انتہائی قناعت پسند انسان ہیں۔ انہیں چائے کی چینک کے ساتھ چار چپاتیاں مل جائیں تو وہ بغیر چوں چراں کئے کھالیتے ہیں اور انہیں چائے ،چپاتیوں کے بعد کسی چیز کی چاہت نہیں رہتی۔ چغتائی صاحب کہتے ہیں کہ وہ چائے کے زیادہ شوقین نہیں ہیں۔ اب وہ شوقین ہیں یا نہیں۔ اسکا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیجئے کہ چائے وہ کپ میں نہیں بلکہ مگ میں پیتے ہیں جوکہ بڑے گلاس سے تھوڑا ہی بڑا ہوگا۔ البتہ جگ سے تو خیر کافی چھوٹا ہے۔ بھئی چغتائی صاحب تو سرکاری افسر جوہو ئے۔ انہیں تو چائے کے علاوہ،’’چائے پانی‘‘،چوربازاری،چالاکیاں،چالبازیاں،چکر،چمچے،چاپلوسی،چاول(صرف بریانی کی صورت میں)اور سب سے بڑھ کر چکنی چپڑی باتیں کرنے والا چپراسی پسند ہے، کیونکہ چائے سمیت یہ ساری اچھی چیزیں اور ’’ نیک کام‘‘اسی کے ذریعے جو ہوتے ہیں۔ کسی چور نے کیا خوب کہا کہ دو چیزیں مجھے اچھی لگتی ہیں۔ جاگنے کیلئے چائے اور چوری کیلئے چودہویں رات کے چاند کی چاندنی۔ چاند کی چا ندنی بھی اس لئے کہ چائے کے چراغ تو جلائے نہیں جا سکتے۔ آج کل ٹی بیگ والی چائے کا فیشن عام ہوتا جا رہا ہے خاص کر دفتروں میں گرم پانی پیالیوں میں ڈال کراس میں ٹی بیگ کو دو تین مرتبہ غرق کرکے نکال لیا جاتا ہے۔ چنگیزی صاحب کا خیال ہے کہ ٹی بیگ والی چائے کا آئیڈیا فرعون کے غرق ہونے سے لیا گیا ہے۔ جیسے فرعون کو دریائے نیل نے غرق کرکے باہر پھینک دیا تھا۔ آجکل یہی حال ٹی پیک کا ہوتا ہے۔ یعنی فرعون کے ساتھ بھی قدرت نے ٹی پیک والا سلوک کیا۔ خیر اب جو چنگیزی صاحب کا ذکر آہی گیا ہے تو پڑھتے جائیے کہ چنگیزی صاحب اتنی کنجوس شخصیت ہیں کہ ان سے جب کوئی چائے پینے کی فرمائش کرے تو وہ بڑی ڈھٹائی سے یہ کہہ کر ٹال جاتے ہیں کہ ’’آپ کہیں تو دریائے سندھ میں چینی پتی ڈلوادوں؟‘‘یقین کیجئے ڈھٹائی میں وہ ہمارے استاد محترم ہیں پچھلی مرتبہ ہم نے بھی ڈھٹائی (جو تھوڑی بہت ان سے سیکھی تھی) سے کہہ دیا کہ فی الحال تو گھر سے بنواکر پلائیے پھر چاہے بحیرۂ عرب میں چینی پتی ڈلوادیجئیے گا۔ ذکر ہو رہا ہے چائے کا تو کچھ لوگ دوسروں کے گھر صرف اس لئیے ملاقات کیلئے آتے ہیں کہ ان کے گھر کی چائے اچھی ہوتی ہے۔ اور میزبان سے بڑے خلوص کے ساتھ ملتے ہیں اور حال احوال پوچھتے ہیں جیسے صرف انکی خیریت معلوم کرنے کیلئے آئے ہیں۔ خیر! ’’چائے کی پیالی میں طوفان‘‘والی مثال آپ نے ضرور سنی ہوگی۔ ہم نے بھی نئی نئی سنی تھی اور اسکا عملی تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا اور چائے کے بھرے کپ میں اسٹرا(بوتل والی نلکی) کو ڈبو کے خوب پھونکیں مار کے طوفان مچایا مگر ہمیں مزا نہیں آیا اور ہم نے اس طوفان میں بھنور ہیدا کرنے کیلئے چمچہ چائے میں زور زور سے گھمانا شروع کردیا۔ ہم نے اس زور کا طوفان مچایا کہ کپ کی دیواریں طوفان کے سامنے نہ ٹک سکیں اور بالآ خر ٹوٹ گئیں۔ چائے کی پیالی میں تو طوفان ختم ہو گیا مگر اسکے بعد گھر میں جو طوفان اُٹھا وہ بڑا شدید تھا کیونکہ یہ ٹی سیٹ ماموں فرانس سے لائے تھے جس کا ایک کپ طوفان کی نظر ہو گیا۔ ہم سے پوچھا گیا تو ہم نے انتہائی معصومیت سے کہہ دیا ہمارا کیا قصور ہے ۔وہ تھا ہی اتنا نازک!!آپ بھی گھر میں یہ آسان تجربہ کر سکتے ہیں بشرطیکہ آپکے گھر میں قیمتی کپ موجود ہوں۔ تجربہ ضرور کیجئے گا کپ تو آنی جانی چیز ہے۔ آپ اس تجربے سے بہت کچھ سیکھیں گے بڑوں نے ایسے ہی نہیں’’چائے کی پیالی میں طوفان ‘‘مچانے والی مثال بنائی ۔ دادا مرحوم کو اللہ بخشے جب کوئی تکلف کرتا تو اسے فرماتے ’’بھئی چائے کا منع مت کرنا کہ یہ تو آب حیات ہے‘‘۔ہم نے اسکو بھی سچ سمجھا اور اور چائے کچھ زیادہ ہی پینی شروع کردی جسکی وجہ سے ہمارا پیٹ خراب ہو گیا اور بہت دن تک 

درد کی وجہ سے یہ گنگناتے رہے۔
پیٹ میں اک ٹیس سی اٹھی ہے ابھی 
کوئی تازہ ہو ا چلی ہے ا بھی 
شو ر بر پا ہے خانۂ شکم میں 
گُڑگُڑ،گُڑگُڑ،گُڑگُڑ سی ہوئی ہے ابھی

 

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top