skip to Main Content
لڈو تم بھی کھاؤ

لڈو تم بھی کھاؤ

نذیر انبالوی

…………………………………………………………………

ا س کو یوں محسوس ہونے لگا جیسے قدرت نے اس کو بیٹے سے نواز دیا ہو۔

………………………………….……………………………..

رحمت سڑیٹ میں واقع مکان نمبر تین کا بیرونی حصہ نمی کی وجہ سے خاصا خراب دکھائی دیتا تھا۔مکان کو دیکھ کر لگتا تھا کہ کافی عرصہ سے اس کو رنگ و روغن سے محروم رکھا گیا ہے۔کئی جگہوں سے مدتوں پہلے کی جانے والی سفیدی اتری پھر پلستر کی باری آئی اور اب پلستر سے بے نیاز سرخ سرخ اینٹیں دیکھنے والوں کو اس مکان کی حالت کا پتہ دے رہی تھیں۔بائیں ہاتھ پر ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں تین چار پرانی کرسیاں اور ایک چھوٹاسا میز تھا ۔اس کمرے کے ساتھ ہی اندر جانے کے لیے ایک راستہ تھاجس سے بمشکل ایک آدمی گزر سکتا تھا۔اس راہداری کے خاتمے پر ایک برآمدہ اور اس کے بعد ایک کمرہ تھا۔مکان کا اندرونی حصہ بھی بیرونی حصہ کی طرح جگہ جگہ سے بد نما داغوں کو اپنی دیواروں پر لیے اس گھر کی غربت کا ثبوت دے رہا تھا۔برآمدے کے ایک کونے میں گندے ایلومینیم کے برتن ،ٹوٹی چارپائی میلا پردہ اور ایک بڑا سا سٹیل کا دیگچہ نظر آرہا تھا۔گھر کا سربراہ ظفر تھوڑی دیر پہلے ہی ریڑھی گلی میں کھڑی کر کے دیگچہ برآمدے میں چھوڑ کر گیا تھا۔اس کو برآمدے میں دیکھتے ہی اچانک کونے میں لٹکتے ہوئے پنجرے میں قید طوطا بولا۔
’’میا مٹھو چوری کھاؤ گے۔‘‘
ظفر نے امرود پنجرے میں رکھا تو میاں مٹھو چوری بھول کر مزے لے لے کر امرود کھانے لگا۔’’آج تو بہت تھک گیاہوں۔‘‘ اس خود کلامی کے بعد اس نے اپنا صافہ سر سے اتار کر چارپائی پر ر کھ د یا۔ اس کے بیوی بچے اس کے سسرال گئے ہوئے تھے۔اس نے آج صبح خود ہی چاول ابالے اور چنے کی دال پکائی تھی۔وہ پچھلے دس سال سے بازار میں دال چاول کی ریڑھی لگاتا تھا۔اس کام سے اس کی مشکل سے گزر بسر ہوتی تھی۔بچپن میں سکول سے نہ بھاگتا تو شاید دو چار جماعتیں پڑھ لیتا۔مگر اس نے پڑھنے کا وقت زیادہ تر نہر کنارے یا کھیل کے میدان میں گزاراتھا۔والد نے اس کو کوئی ہنر سکھانے کی کوشش کی تو اس نے اس کی خواہش کو بھی پورا نہ ہونے دیا۔آوارہ دوستوں نے اپنے مستقبل کے ساتھ ساتھ اس کا خواب بھی خراب کر دیاتھا۔اب سبھی آوارہ دوست محنت مزدوری کر کے زندگی کی گاڑی چلا رہے تھے۔ظفر کمر سیدھی کرنے کے لیے لیٹنے لگا ہی تھا کے ہمسائے کا لڑکا دروازے میں کھڑے کھڑے بولا۔
’’چا چا جی آپ کا فون آیا ہے۔‘‘
ظفر باہر جانے لگا تو میا مٹھو بولا۔
’’میاں مٹھو چوری کھاؤ گے۔‘‘
’’تمہیں ابھی آکر چوری کھلاتاہوں پہلے فون سن آؤں ۔‘‘یہ کہہ کر ظفر تیزی سے باہر کی طرف بڑھ گیا۔چند منٹوں بعد وہ لوٹا تو اسے اپنی آنکھوں تلے اندھیرا چھاتا ہوا محسوس ہوا۔اس کا سر چکرانے لگا۔وہ آنکھوں میں نمی لیے چار پائی پر بیٹھا تو میاں مٹھو چیخا۔’’میاں مٹھو چوری کھاؤ گے۔‘‘ظفر نے طوطے کو نا گوار انداز میں گھورا۔طوطا مسلسل چوری چوری کی رٹ لگائے ہوئے تھا۔طوطے کی ٹیں ٹیں سن کر ظفر چلاًیا۔
’’بند کرو اپنی بکواس ورنہ گردن مروڑ دوں گا‘‘
طوطا کب چپ ہونے والاتھا۔وہ مسلسل ٹیں ٹیں کرتا رہا۔ظفر پر غصے نے غلبہ پایاہوا تھا۔اس نے طوطے کا پنجرہ دیوار سے دے مارا۔طوطا پنجرے میں پھڑ پھڑایااور خاموش ہو گیا۔
’’اب بولا تو گھر سے باہر پھینک دوں گا۔‘‘
بھئی کس کو گھر سے باہر پھینک رہے ہو؟‘‘یہ آواز ظفر کے دوست آفتاب کی تھی۔وہ ایک دفتر میں چوکیدار تھا۔رحمت سٹریٹ میں ساتواں مکاں اسی کا تھا۔ظفر اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے بولا۔
’’اس میاں مٹھو کو اٹھا کر باہر گلی میں پھینکوں گا۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘
شور مچاتا ہے۔پہلے ہی سر درد سے پھٹا جا رہا ہے۔‘‘
’’طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘
’’طبیعت تو ٹھیک ہے مگر۔‘‘
’مگر کیا؟‘‘
’’ابھی میرے سسرال سے فون آیاتھا۔فون سن کر میرا تو سر چکرا کر رہ گیا ہے۔نہ جانے بد نصیبی نے ہمارا گھر ہی کیوں دیکھ کیا ہے۔کیاسوچا تھا اور کیا ہوا ہے۔‘‘
’’آخر ہوا کیا ہے؟‘‘اس کے جواب میں ظفر نے ساری بات اسے بتائی تو آفتاب نے اسے گلے لگایا۔اس کے گلے لگنے کی دیر تھی کہ ظفر کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔اس کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔آفتاب نے اپنی زبان سے ایک لفظ بھی ادا نہ کیامگر اس کے باوجود ظفر جان گیا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے ۔دونوں آنکھوں میں آنسو لیے ایک طرف بیٹھ گئے ۔گھر میں خاموشی تھی۔طوطا بھی اب چوری کی فرمائش نہیں کر رہا تھا۔دونوں خاموشی سے سر لٹکائے بیٹھے تھے کہ ہمسائے کے لڑکے نے دوبارہ فون آنے کی اطلاع دی۔اب ظفر کے بھائی نے کراچی سے فون کیا۔علیک سلیک کے بعد جب اس کے بھائی نے اتنا کہا کہ مجھے ابھی اطلاع ملی ہے یہ جملہ سن کر ظفر رونے لگا۔بھائی نے اس کو تسلی دی مگر اس کے آنسو روکے نہ رکتے تھے۔وہ تھوڑی دیر بعدسرخ آنکھوں کو لیے آفتاب کے پاس موجود تھا ۔چند منٹوں بعد آفتاب وہاں سے رخصت ہوا تو ظفر کو سوچوں نے آلیا۔جہاں وہ دال چاول کی ریڑھی لگاتا تھااس سے تھوڑے سے فاصلے پر ایک شخص نان حلیم بیچتا تھا۔اب وہ اس شخص کے لڑکوں کو اس کے ساتھ کام کرتے دیکھتا اس کے دل سے آہ نکلتی‘وہ سوچتا کہ کاش اس کے بھی لڑکے ہوتے اور اس کے ساتھ کام کرکے اس کے بازو بنتے مگر قدرت کو شاید یہ بات منظور نہ تھی۔
پرسوں وہ ریڑھی لگائے سوچوں میں گم تھا کہ ایک واقف کار نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
’’ظفری یار کیا سوچ رہے ہو؟‘‘
’’اوہو……..ہوں ……..ہو………‘‘
’’بولو کن سوچوں میں گم ہو۔‘‘
’’سوچ رہاتھا کہ میرا بیٹا بھی ہوتا تو میرابازو بنتا مگر …….. وہ دیکھو سامنے ریڑھی والا کتنا خوش ہے وہ صرف حکم چلاتا ہے باقی کام اس کے بیٹے کرتے ہیں ایک میں ہوں صبح سے رات گئے تک ہر کام مجھے خود ہی کرنا پڑتا ہے۔واہ میرے مولا تیرے عجب رنگ۔‘‘ظفر نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔
سوچوں میں گم وہ گھر میں داخل ہوا۔
’’میاں مٹھو چوری کھاؤ گے۔‘‘طوطے کا یہ جملہ ظفر کو سوچوں کی دنیاسے واپس لے آیا۔
’’ابے چپ کرتا ہے یا مروڑوں تمہاری گردن………..‘‘
’’چاچاجی آپ کا فون آیا ہے۔‘‘
’ایک تو یہ فون نے ناک میں دم کر دیا ہے۔‘‘یہ بڑ بڑا کر ظفر لڑکے کے ساتھ ہو لیا ۔
’’کون؟‘‘
’’میں کلثوم بول رہی ہوں ۔‘‘ظفر کی ساس بولی۔
’’سن رہا ہوں ۔‘‘ظفر کے لہجے میں تلخی تھی۔
’’تم ابھی تک آئے کیوں نہیں ؟‘‘
’’کوئی خوشی کی بات ہوتی تو میں آتا۔‘‘
’’اللہ کی رحمت آئی ہے۔‘‘
’’ایسی دو رحمتیں پہلے بھی میرے گھر میں ہیں ۔مجھے بیٹا چاہئے صرف بیٹا ۔راحیلہ کو اپنے پاس ہی رکھو۔‘‘ظفر بد تمیزی پر اتر آیاتھا۔
’’یہ تم کس لہجے میں بات کر رہے ہو؟‘‘
’’جو تم سن رہی ہو۔میں نہیں آؤں گا ۔اپنی بیٹی کو رکھو اپنے پاس۔‘‘ ظفر کے کانوں نے رونے کی آواز سنی۔ اس کا دل تو شاید پتھر کا ہو گیا تھا۔اس نے اپنی ساس کی ایک نہ سنی اور اپنے گھر آگیا۔ہمسائے کی بیگم کی زبانی یہ بات رحمت سٹریٹ کے سبھی مکینوں کو معلوم ہو گئی کہ ظفر اپنی بیوی اور بیٹیوں کو ملنے نہیں جا رہا ہے۔دوسرے دن اس نے ریڑھی بھی نہ لگائی۔اور اداس گھر میں پڑا رہا۔جو بھی اسے سمجھانے کے لیے آتا وہ اس کو بے عزت کر کے گھر سے نکال دیتا۔رب نواز اس کی بھلائی کی بات کہنے کے لیے آیا تو وہ بگڑ کر بولا۔
’’جاؤ……….جاؤ اپنا کام کرو……….‘‘
’’تمہارے فائدے ہی کی بات کر رہا ہوں ……….‘‘
’’نہ کرو میرا فائدہ ‘ مجھے نقصان ہی منظور ہے………….‘‘
’’ضد مت کرو چلے جاؤ اپنے سسرال…………‘‘
نہیں جاؤں گا…….نہیں جاؤں گا…….تم یہاں سے چلو۔
’’اٹھو جلدی کرو………‘‘ ظفر چلّایا۔
برا زمانہ آگیا ہے۔کسی کی بھلائی بھی نہ کرو……….‘‘
’’جاؤ جاؤ اپنا کام کرو……..‘‘
دوسرے دن بھی ظفر ہاتھ پیر توڑے گھر میں پڑا رہا۔اس دن بھی کئی محلے دار اس کو سمجھانے آئے مگر اس کا جواب نہیں میں ہی رہا۔محلے کے ایک بزرگ حاجی رفیع کسی کام کے سلسلے میں شہر سے باہر گئے تھے ۔وہ دوپہر کو گھر لوٹے تو اپنی بیوی کی زبانی ساری بات جان کر بولے ۔
’’آپ بھی اپنی کوشش کر لیں ۔اس کے پاس تو اب تک جو بھی گیا ہے اپنا سا منہ لے کر آیاہے۔‘‘
بیگم کی بات سن کر حاجی رفیع نے کہا’’ان شاء اللہ میرے ساتھ ایسانہیں ہو گا۔میرے پاس اس مسئلے کا حل موجود ہے ۔تم میرے کپڑے استری کر دو میں عصر کے بعد کچھ دوستوں کو لے کر ظفر کے گھر جاؤ ں گا ۔‘‘
’’عصر کی نمازادا کرنے کے بعد حاجی رفیع محلے کے کچھ آدمیوں کو لے کر ظفر کے ہاں موجود تھے ۔حاجی رفیع کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ دیکھ کر ظفر حیران ہوا۔
’’لو بھئی ہم تمہیں لڈو کھلانے آئے ہیں ۔‘‘
’’کس بات کے لڈو؟‘‘
’’بھئی ہمارے محلے میں رحمت اتری ہے۔‘‘حاجی رفیع کا یہ جملہ ظفر کو ساری بات سمجھنے کے لیے کافی تھا۔اس نے حاجی رفیع کے اس کے منہ کی طرف بڑھے ہاتھ کو روک دیا۔
’’حاجی صاحب! یہ مذاق ختم کریں ۔‘‘
’’جسے تم مذاق سمجھ رہے ہو وہ مذاق نہیں حقیقت ہے۔تم خوش نصیب ہو۔‘‘
’’اونہہ میں خوش نصیب ہوں میں تو بدنصیب ہوں ‘بدنصیب۔‘‘
’’نہیں تم خوش نصیب ہو۔رسول سلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ’’جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا معاملہ رکھے اور ان کے حقوق کے بارے میں اللہ تعا لیٰ سے ڈرتا رہے تو اس کے لیے جنت ہے۔‘‘تم خود بتاؤ جس کے لیے اللہ تعا لیٰ نے جنت کا وعدہ کیا ہے وہ خوش نصیب ہوا کہ بد نصیب ۔اس خوشی کے موقع پر ہم بھی لڈو کھاتے ہیں اور لڈو تم بھی کھاؤ اور جلدی سے بیوی اور بچوں کو گھر لاؤ ۔‘‘حاجی رفیع کی باتوں سے لڈو کھانے کے لیے ظفر کا منہ بھی کھل گیااور دل کا دروازہ بھی ۔طوطا بھی چہک اٹھا۔
’’میاں مٹھو چوری کھاؤگے۔‘‘
’’چوری نہیں میاں مٹھو لڈو کھاؤ گے۔‘‘سلیم نے طوطے کے پنجرے میں بھی لڈو رکھ دیا۔
بیوی اور بچوں کو گھر لانے کے بعد ظفر خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔کمرے میں بیٹھے دونوں میاں بیوی باتیں کر رہے تھے اور بر آمدے میں کھڑی گیارہ سالہ صائمہ سن رہی تھی۔تیسرے دن ظفر اپنے کام پر واپسی آگیا۔صبح دس بجے وہ ریڑھی لیے اپنی مقررہ جگہ پر پہنچ چکا تھا۔اس کے سامنے نان حلیم والا واجد اکیلا ہی کام میں مصروف تھا۔ظفر نے جب اس کے بیٹوں کے متعلق پوچھا تو وہ سرد آہ بھر کر بولا۔
’’اللہ ایسی اولاد کسی کو نہ دے۔‘‘واجد بولا۔
’’کیوں کیا ہوا؟‘‘
’’دونوں بیٹوں نے میرا ناک میں دم کر رکھا ہے۔کل چھت پر پتنگ اڑا رہے تھے کہ ہمسائے کے لڑکے سے لڑ پڑے ۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’’لڑتے لڑتے دونوں بھائیوں نے ہمسائے کے لڑکے کے دانت توڑ دئیے۔شام کو پولیس دونوں کو پکڑ کر لے گئی ۔دونوں اب تھانے میں ہیں ۔سودا بیچ لوں پھر ان کی رہائی کے لیے کوئی راستہ تلاش کرتاہوں ۔میں تو ان لڑکوں کی وجہ سے دکھی ہو گیا ہوں ۔میں نے تو سوچا تھا بیٹے ہوں گے تو میرے بازو بنیں گے مگر بیٹو ں نے تو میرے ہی بازو کاٹ دےئے ہیں۔‘‘یہ کہتے ہوئے واجد رو دیا۔ظفر اس کو تسلی دے کر اپنی ریڑھی پر آکر اپنے کام میں جت گیا۔دوپہر ایک بجے قریبی دفاتر میں کھانے کا وقفہ ہوا تو ظفرکی ریڑھی پر گاہکوں کی تعداد بھی بڑھ گئی ۔اس کے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے ۔وہ برتنوں کو ریڑھی کے پاس رکھی پانی کی بالٹی میں ڈالتا جا رہا تھا۔چند گاہکوں کو فارغ کرنے کے بعد وہ بالٹی سے برتن نکالنے لگا تو اس کی آنکھوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔صائمہ سر پر سکارف لیے برتن دھو رہی تھی۔اس کا بستہ پاس ہی پڑا تھا۔
’’ابو میں آپ کا بازو بنوں گی۔میں بیٹی ہوں مگر آپ کا بیٹا بن کر دکھاؤں گی۔جس پر آپ ناز کر سکیں ۔سکول سے آکر میں آپ کا ہاتھ بٹایا کروں گی،صائمہ کی باتوں سے ظفر کا سیروں خون بڑھ گیا ۔ا س کو یوں محسوس ہونے لگا جیسے قدرت نے اس کو بیٹے سے نواز دیا ہو۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top