skip to Main Content

سب سے بڑے جرنیل محمد ﷺ

مقبول انور داؤدی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلی بات
دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ اور بہادر فاتح ہو چکے ہیں جن کی تاریخ خونریزی سے بھری ہوئی ہے۔انہوں نے اپنے ملک کی حدوں کو بڑھانے کیلئے خوفناک جنگیں لڑیں،لاکھوں انسانوں کو قتل کیا۔بدلہ لینے کے لیے انسانی سروں کے مینار بنائے اور دشمنوں کی قبریں کھود کر ان کی ہڈیاں تک جلا دیں۔جس ملک کو فتح کیا اس کی عوام اور بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔فصلوں کو تباہ و برباد کیا اور مکانوں کو جلا دیا۔یہ وحشیانہ کھیل آج کی مہذب دنیا میں بھی کھیلا جاتا ہے۔
اس کتاب میں ہم دنیا والوں کو ایک ایسے سپہ سالار اور فاتح کی لڑائیوں کا حال بتائیں گے جس نے جنگیں تو لڑیں لیکن صرف اس وقت جب دشمن نے حملہ کیا۔جنگ کے میدان میں بھی کبھی پہل نہ کی یا پھر تلوار اٹھائی تو صرف کمزور کی حمایت میں یا ظالم کے خلاف۔ جنگ میں کسی بچے،عورت،بوڑھے اور مذہبی رہنما کو پریشان نہ کیا۔جس علاقے کو فتح کیا وہاں کے رہنے والوں سے نہایت نرمی کا سلوک کیا بلکہ جن لوگوں نے ان پر یا ان کی جماعت پر بڑے بڑے ظلم کیے تھے فتح کے بعد ان کو بھی معاف کر دیا اور کہا:”جاؤ آج تم آزاد ہو، تم سے کوئی بدلہ نہیں لیا جائے گا۔“
یہ سپہ سالار اعظم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ان کو اپنی زندگی میں کفار سے چھوٹی بڑی 81 جنگیں لڑنی پڑیں۔ یہاں سات مشہور معرکے یعنی جنگ بدر،جنگ احد،صلح حدیبیہ،جنگ خیبر،فتح مکہ،جنگ حنین اور جنگ تبوک کے حالات لکھے گئے ہیں۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی دنیا کے سب سے بڑے جرنل ہوئے ہیں۔
مقبول انور داﺅدی
تمہید
تیرہ سال تک مکہ میں اللہ کے ایک ہونے کا پیغام دینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ شہر مکہ کے کافر آپ کے اور مسلمانوں کے دشمن ہو گئے۔کون سا ظلم تھا جو ان کافروں نے رسول اللہ اور مٹھی بھر مسلمانوں پر روا نہ رکھا۔یہاں تک کہ آخر ایک دن کافروں اور مکہ کے لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ شہر کے سارے قبیلوں کے نوجوان مل کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیں۔اس صورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلہ ہاشم کے لوگ اکیلے سب قبیلوں کے جوانوں کا مقابلہ نہ کر سکیں گے۔
اس وقت اللہ نے آپ کو حکم دیا کہ مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کر جائیں۔آپ نے ایک رات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے بستر پر لٹا دیا اور خود گھر سے چلے گئے۔دشمنوں نے آپ کے گھر کو گھیر رکھا تھا۔مگر کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکلتے نہ دیکھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ساتھ لیا اور مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ہجرت کے اس تاریخی دن سے مسلمانوں کا سن ہجری شروع ہوتا ہے۔
مکہ کے کافروں کو بڑا دکھ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاتھوں سے بچ کر نکل گئے ہیں۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ عرب میں اسلام پھیلے۔مدینہ پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار اور یہود سے یہ معاہدہ کیا کہ جو لوگ مدینہ پر حملہ کریں گے ان کا مل کر مقابلہ کیا جائے گا۔یہ معاہدہ آپ کی ذہانت اور سیاسی بصیرت کا اعلی ثبوت ہے۔
جنگ بدر
مدینہ میں آئے ہوئے ڈیڑھ سال ہی گزرا تھا کہ رمضان کے مہینے میں مکہ کے کفار کا ایک بڑا لشکر جس میں بڑے نامی گرامی جنرل شامل تھے مسلمانوں کو مٹانے کے لئے بڑی شان و شوکت سے مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔جب رسول اللہ کو کافروں کے ارادوں کا علم ہوا تو آپ نے مسلمان ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ مکہ والوں نے اپنے لشکر میں بڑے بڑے بہادر بھیج دیے ہیں ،اب کیا ارادہ ہے۔انہوں نے جواب دیا کہ” یہودیوں کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ جائیں آپ اور آپ کا خدا لڑے۔ہم آپ کے ساتھ ان کا مقابلہ کریں گے۔“چنانچہ مسلمانوں کا ایک لشکر ان کے مقابلے کے لیے تیار کیا گیا جس میں صرف تین سو تیرہ مسلمان تھے۔سامان رسد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔سواری کے جانور بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔کفار ان سے تین گنا زیادہ تقریباً ایک ہزار تھے اور پوری طرح مسلح تھے۔ان کے پاس جنگ کے لیے تمام ضروری ہتھیار تھے۔
ایک ہوشیار اور قابل جنرل کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ اپنی تھوڑی سی فوج کو ایسے طریقے سے لڑائے کہ وہ ایک زبردست فوج کو بھی شکست دے دے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی وادی میں پہنچ کر بڑے قابل اور سمجھ دار جنرل کی حیثیت سے ایک ایسی جگہ پسند فرمائی جس کے پیچھے ایک پہاڑی تھی اور مسلمانوں کی حفاظت کرتی تھی۔ اس جگہ کی طرف پہاڑ کی ڈھلوان بھی تھی جس کی وجہ سے اس میں پانی کا قدرتی تالاب بھی تھا۔ہوا کا رخ مسلمانوں کی طرف سے دشمن کی جانب تھا۔مسلمانوں کی فوج کی کچھ جگہ نرم تھی مگر اللہ کی قدرت سے رات کو بارش ہوگئی چنانچہ مٹی بیٹھ جانے سے نہ صرف زمین سخت ہو گئی بلکہ مسلمانوں کے پانی کے ذخیرے میں بھی کافی اضافہ ہوگیا۔ اس کے برعکس بارش کی وجہ سے دشمن کی جگہ دلدل ہوگئی۔
جنگ شروع ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی صفوں کو درست فرمایا۔ پھر جہاد کے موضوع پر خطاب فرما کر ان کے حوصلے بلند کیے۔اور خدا کے حضور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور عاجزی کی حالت میں سجدے میں گئے اور رو کر بارگاہِ خداوندی میں عرض کی:”اے اللہ اگر آج تیرے یہ فرماںبردار اور عبادت گزار مٹ گئے تو اس سرزمین پر تیرا نام بلند کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔“اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کی اور فرشتے کے ذریعے امداد اور کامیابی کی خوشخبری دی۔
ان دنوں اہل عرب کا دستور تھا کہ جنگ شروع ہونے سے پہلے نامور اور ممتاز بہادر دونوں طرف سے آمنے سامنے آتے تھے۔کفار کی طرف سے عتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور بیٹے ولید بن عتبہ کے ساتھ آگے بڑھا۔مسلمانوں کی طرف سے جواب میں تین انصاری حضرت عبداللہ بن رواحہ۔حضرت عوف بن عقراءاور حضرت معوذ بن عقراءمقابلے کے لئے آئے۔اس پر عتبہ نے کہا کہ ہمارے مقابلے کے لئے ہماری قوم سے بھیجئے۔چنانچہ آپ کے حکم سے یہ تینوں واپس آئے اور ان کی جگہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقابلہ کے لئے آئے۔مقابلہ شروع ہوا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ولید کو اور حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عتبہ کو ایک ہی وار میں قتل کردیا۔حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دشمن شیبہ کے ہاتھوں سخت زخمی ہوگئے۔ ان کی ٹانگ کٹ گئی۔اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگے بڑھ کر شیبہ کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا اور حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ کو اٹھا کر رسول اللہ کے پاس لے آئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عین فوجی ترکیب اور قابلیت کے مطابق تیر اندازوں کو تیر چلانے کا حکم دیا۔مسلمانوں کے تیر اندازوں کے تیروں نے دشمن کو پریشان کردیا۔ایک تو کڑی کمان سے نکلے ہوئے تیر تھے اور سورج کا رخ دشمن کی طرف تھا جس کی وجہ سے ان کی آنکھیں چندھیا رہی تھیں۔ تیر بڑی تیزی سے دشمن کی فوج کو چھلنی کر رہے تھے۔مسلمانوں کے گھوڑے سخت زمین پر آسانی سے دوڑ سکتے تھے،اور دشمن کے گھوڑے کیچڑ ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہوگئے۔
لڑائی کے دوران مسلمان فوج میں سے دو بچے نکلے۔ان میں سے ایک کا نام معوذ اور دوسرے کا نام معاذ تھا۔انہوں نے ایک مسلمان فوجی حضرت عبد الرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عوف سے پوچھا کہ کافروں کی فوج میں رسول اللہ کا دشمن ابوجہل کون ہے؟حضرت عبد الرحمن نے بچوں کو بتایا کہ وہ سفید گھوڑے پر سوار ہوکر فوج کی قیادت کر رہا ہے،وہی ابوجہل ہے ۔وہ دونوں بچے بجلی کی سی تیزی سے نکلے اور دشمن کی فوج میں گھس کر ایک ہی وار میں ابو جہل کا خاتمہ کر دیا۔جس وقت بہت زور کی لڑائی ہو رہی تھی اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹھی میں مٹی لے کر دشمن کی طرف پھینکی۔وہ اللہ کی مدد سے شکست کھا کر بھاگنے لگے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ”اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم یہ مٹی آپ نے نہیں،ہم نے پھینکی تھی!“
اس جنگ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی قابلیت سے تھوڑے سے مسلمانوں کو کافروں کی بڑی تعداد کی مضبوط فوج کو شکست ہوئی۔ان کے تمام بڑے بڑے جرنل مارے گئے۔ستر کا فر گرفتار ہوئے اور باقی جو بچے جان بچا کر بھاگ گئے۔جو کافر قیدہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور اسلام کی تعلیم کے مطابق ان سے بہت اچھا اور رحم دلانہ سلوک کیا گیا۔انہیں اچھا کھانا دیا جاتا تھا۔ان کے آرام کا پورا پورا خیال رکھا جاتا تھا۔قیدیوں میں جو پڑھے لکھے تھے، ان سے کہا کہ مسلمانوں کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو انہیں آزاد کر دیا جائے گا۔چنانچہ اب وہ خوشی سے راضی ہو گئے۔ مسلمان خود بھوکے رہتے تھے لیکن جنگی قیدیوں کو اپنا کھانا کھلا دیتے تھے۔سبحان اللہ! اعلیٰ اخلاق کا کیسا مظاہرہ پیش کیا گیا۔
جنگ احد
بدر کی لڑائی میں کافروں کو جو عبرتناک شکست ہوئی تھی ،اس سے وہ بڑے پریشان تھے۔اس لڑائی میں ان کے بہت سے سردار مارے گئے تھے۔اب ان کی قیادت ابو سفیان نے سنبھالی۔اس نے قسم کھائی کہ جب تک جنگ بدر میں قتل ہونے والوں کا بدلہ نہ لوں گا، میں نہ سر میں تیل ڈالوں گا اور نہ چارپائی پر سوؤں گا۔
کافروں نے اگلی جنگ کے لئے زبردست تیاریاں شروع کردیں اور اس سال ان کو تجارت میں جتنا منافع ہوا ،وہ سب اس جنگ کی تیاری پر خرچ کیا گیا۔انہوں نے تین ہزار فوجیوں کا ایک زبردست لشکر تیار کیا۔کافروں نے عورتوں کو اس لیے ساتھ لیاکہ اگر کوئی میدان جنگ سے بھاگنے کی کوشش کرے تو عورتیں اس کو شرم دلائیں اور اس کو لڑائی سے بھاگنے سے روکیں۔
سن 3 ہجری میں کافروں کا لشکر پورے سازو سامان سے لیس ہو کر مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کافروں کی تیاری کی اطلاع مل گئی تھی۔آپ کو دم دم کی خبریں پہنچ رہی تھیں۔اس جنگ میں مسلمانوں کے پاس صرف ایک ہزار مجاہد تھے۔ جن کا مقابلہ تین ہزار کفار سے ہونے والا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال تھا کہ مدینہ کے اندر رہ کر لڑائی لڑی جائے۔منافقوں کا سردار عبداللہ بن ابی بھی اس تجویز کے حق میں تھا مگر انصاری نوجوان اس تجویز پر زور دے رہے تھے کہ کھلے میدان میں کافروں سے لڑا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر گھر میں تشریف لے گئے اور تھوڑی دیر بعد جنگی لباس پہن کر باہر تشریف لائے۔کچھ ساتھیوں کو خیال ہوا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف مشورہ دیا ہے۔اس لیے انہوں نے عرض کی:”یا رسول اللہ! آپ ہی کی رائے درست تھی۔“
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”نبی کی شان کے خلاف ہے کہ وہ ایک دفعہ جنگی لباس پہن کر اتار دے۔اب کھلے میدان میں ہیں لڑائی ہوگی۔“عبداللہ منافق کو یہ بات مل گئی اور وہ یہ کہہ کر اپنے ڈھائی سو ساتھیوں کو لے کر مسلمانوں سے الگ ہو گیا کہ تم نے میری بات نہیں مانی اس لئے میں اس جنگ میں حصہ نہیں لے سکتا۔اس طرح مسلمانوں کی تعداد صرف ساڑھے سات سو رہ گئی لیکن ان کے حوصلے بہت بلند تھے۔
فوج کی تشکیل کے موقع پر ایک ایمان افروز واقعہ پیش آیا۔ ایک لڑکے رافع نے پنجوں کے بل کھڑے ہو کر اپنا قد لمبا کر لیا اور اس طرح اسلامی فوج میں شامل ہو گیا۔اس کے دوست سمرہ کو جب پتہ چلا تو وہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ:”یا رسول اللہ! آپ نے رافع کوتو فوج میں شامل کر لیا ہے حالانکہ وہ مجھ سے کمزور ہے۔میری اور اس کی کشتی کرالی جائے، اگر میں اسے گرا دوں تو مجھے بھی شامل کر لیا جائے۔“چنانچہ دونوں کی کشتی ہوئی۔ سمرہ نے رافع کو گرا دیا اور اس طرح اسے بھی فوج میں لے لیا گیا۔
مدینہ سے کچھ دور احد پہاڑ کے دامن میں مسلمانوں کا لشکر اس طرح ترتیب دیا گیا کہ احد پہاڑ ان کے پیچھے تھا۔پچھلی طرف ایک درہ تھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فوجی بصیرت سے پچاس تیر انداز اس درے پر مقرر فرمائے اور ان کو حکم دیا کہ جنگ کی خواہ کوئی صورت ہو وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔
جب جنگ شروع ہوئی تو پہلے کفار مکہ کی عورتیں اپنی فوج کے آگے آئیں اور جو ش دلانے والے اشعار پڑھ کر کافروں کو غیرت اور شرم دلائی کہ اگر انہوں نے آج جنگ بدر کا بدلہ نہ لیا تو وہ ان کا منہ نہ دیکھیں گی۔
پہلے اکا دکا کی لڑائی شروع ہوئی۔جس میں مسلمانوں کے ہاتھوں قریش کے قبیلے بنو عبددار کے ساتھ افراد قتل ہوئے۔اس کے بعد گھمسان کی لڑائی شروع ہوئی۔ابو سفیان کی بیوی ہندہ سب سے بڑھ چڑھ کر کافروں کو جو ش دلا رہی تھی۔ایک موقع پر حضرت ابو دجانہ ہندہ کے سر پر پہنچ گئے۔انہوں نے اس ظالم عورت پر تلوار اٹھائی ہی تھی کہ خیال آیا اسلام نے عورت پر تلوار اٹھانے سے منع کیا ہے۔آپ نے اپنا ہاتھ روک لیا۔رسول اللہ کی جنگی چال اور قابلیت سے مسلمانوں کی تھوڑی فوج نے کافروں کی مضبوط، بڑی، منظم اور مسلح فوج کو شکست دی۔کافروں کو زبردست شکست ہوئی اور وہ سامان میدان جنگ میں چھوڑ کر بھاگنے لگے۔مسلمان فاتح فوجی ان کا چھوڑا ہوا سامان لوٹنے میں مصروف ہوگئے۔جب درے پر مقررہ مسلمان تیرانداز سپاہیوں نے دیکھا کہ دشمن کو شکست ہوگئی ہے اور مجاہدان کا چھوڑا ہوا مال جمع کر رہے ہیں تو وہ بھی درے کو چھوڑمال غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے۔جب خالد بن ولید نے ،جو اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے اور کافروں کے رسالے کے سردار تھے، دیکھا کہ درہ خالی ہے۔ انہوں نے اپنے سواروں کو لے کر مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کردیا۔اس حملے کو دیکھ کر کافروں کی بھاگی ہوئی فوج بھی واپس لوٹ آئی اور مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔مسلمان اس طرح دو طرف سے گھرے ہوئے تھے۔ کافروں کی بڑی کوشش یہ تھی کہ جس طرح بھی ہو رسول اللہ کو شہید کر دیا جائے ۔جنگ دوبارہ ہوئی، مسلمان جانبازوں نے رسول اللہ کے گرد گھیرا ڈال کر حفاظت کی ،آپ کی حفاظت کرتے ہوئے ام عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جسم پر تیرہ زخم آئے جنہیں مندمل ہونے میں ایک سال لگا۔حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کی حفاظت کرتے ہوئے شدید زخمی ہو گئے۔
اس جنگ میں رسول اللہ کے دو دانت شہید ہوئے اور ماتھے پر گہرا زخم بھی آیا۔زخم سے خون بہہ رہا تھا کہ اس وقت صحابہ نے عرض کی:”یا رسول اللہ! ان دشمنوں کے لیے بد دعا فرمائیں۔“لیکن آپ نے بد دعا نہ کی بلکہ فرمایا کہ”اے اللہ! یہ لوگ بھٹکے ہوئے ہیں،ان کو ہدایت دے!“مسلمانوں کے ہاتھوں کافروں کو شکست عظیم ہوئی اور وہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گئے اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے فتح دے دی۔
جنگ میں صحابہ کرام کی جان بازی
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچا حضرت ابن نفر اکیلے کافروں میں گھس گئے اور بہت سے کافروں کو قتل کیا اور لڑتے لڑتے جان دے دی۔جنگ کے دوران افراتفری میں آپﷺ کے گرد چند صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم رہ گئے۔ کفار اس طرف بڑھے۔حضرت ابو دجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی طرف منہ کرکے اپنی پشت کو ڈھال بنا لیا اور آپﷺ کی حفاظت کی۔حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن وقاص تیر چلا چلا کر دشمنوں کو دور کر رہے تھے اور ان کو قریب نہ آنے دیا۔ایک صحابیہ ام عمارہ بھی تلوار لے کر حملہ کرنے والوں کو روکنے کے لیے کھڑی ہو گئیں۔حضرت زیاد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مسکن انصاری اپنے ساتھیوں کے ساتھ آپﷺ کی حفاظت کے لیے آئے اور سب نے زبردست مقابلہ کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں اپنی جانیں دے دیں۔حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ ان بن عوف اور حضرت زبیر بن العوام بھی جانبازی سے مسلسل آپ کی حفاظت کرتے رہے۔حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دشمنوں کے تیروں اور تلواروں کو اپنے ہاتھ پر روکتے رہے یہاں تک کہ ان کا ایک ہاتھ کٹ کر گرگیا۔
خندق کی جنگ
جنگ بدراور جنگ احد میں اگرچہ کافروں کو بری طرح شکست ہو چکی تھی مگر پھر بھی ان کی دلی خواہش تھی کہ جس طرح بھی ہو اسلام کو مٹا دیا جائے۔دوسری طرف رسول اللہ نے مدینہ میں امن قائم رکھنے کے لئے یہودیوں سے معاہدہ کیا ہوا تھا کہ وہ ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔مدینہ میں یہودیوں کو ہر قسم کی آزادی تھی لیکن اس کے باوجود وہ دل سے صاف نہ تھے اور وہ شرارتیں کرتے رہتے تھے اور مکہ کے کافروں سے میل جول رکھتے تھے۔دو دفعہ انھوں نے عیاری اور چالاکی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ناپاک ارادوں سے پہلے ہی خبردار کر دیا۔جب یہودیوں کی شرارتیں حد سے بڑھ گئیں تو رسول اللہ نے ان کو مدینہ سے نکال دیا اور وہ شہر خیبر میں جاکر آباد ہوگئے۔
ان یہودیوں نے مکہ کے قریش کو اکسایا کہ تم مدینہ کے مسلمانوں پر حملہ کرو ہم تمہاری مدد کریں گے۔ قریش کے علاوہ عرب کے دوسرے قبیلوں کو بھی شامل کرلیا۔اس طرح کافروں کے لشکر کی تعداد چوبیس ہزار ہو گئی اور وہ سن 5 ہجری میں جنگ کے لئے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کافروں کی ان تیاریوں کا علم ہوا تو آپ نے اپنے صحابیوں سے مشورہ کیا۔رسول اللہ کی ہمیشہ یہ عادت رہی کہ ہر معاملے میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرتے تھے۔کسی کام میں خدا کا خاص حکم نہ ہوتا تو اچھے مشورے کو مان لیا کرتے تھے۔صحابہ میں فارس (ایران) کے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔انہوں نے کہا:”یا رسول اللہ! دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ہمیں چاہیے کہ مدینہ کے گرد ایک چوڑی کھائی (خندق) کھودکر مدافعانہ لڑائی لڑیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ تجویز پسند آئی اور شہر کے گرد ایک خندق کھودی گئی۔اسی لئے اس لڑائی کو”جنگ خندق“کہتے ہیں۔جنگ احزاب بھی کہتے ہیں۔احزاب حزب کی جمع ہے۔ اس کے معنی گروہ کے ہیں۔چونکہ اس جنگ میں عرب کے بہت سے گروہ شریک ہوئے تھے اس لیے اسے جنگ احزاب بھی کہتے ہیں۔
مسلمان خندق کھود نے میں لگ گئے۔ان میں ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی عام آدمی کی طرح کام کرتے تھے۔ کدال سے زمین کھودتے، پھر مٹی کی ٹوکریاں بھر بھر کے اور سر پر اٹھا کر باہر پھینکتے تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب مدینہ میں غلے کی بڑی کمی تھی۔ ہلکی بارش اور سردی کا زمانہ تھا۔ فوجی نقطہ نگاہ سے ضروری تھا کہ دشمن کے آنے سے پہلے خندق تیار ہو جانی چاہیے۔اس لئے مسلمان خندق کھودنے میں دن رات لگے رہے۔غذا کی کمی کے باعث دوسرے مسلمانوں کی طرح خود رسول اللہ نے کئی کئی دن تک کچھ نہ کھایا تھا۔ کھدائی کے دوران میں ایک بہت بڑا پتھر آ گیا جو کسی سے نہ ٹوٹتا تھا۔رسول اللہ کو اس کا پتہ چلا تو انہوں نے پتھر پر تین بار کدال ماری جس سے پتھر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ عام لوگوں سے زیادہ طاقت ور تھے اور کامیابی میں اللہ کی مدد بھی شامل ہوتی تھی۔
رسول خدا تین دن کے فاقے سے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں نبوت کی بے پناہ قوت تھی۔ہر بار جب آپ نے کدال چلائی اور اس سے چنگاریاں نکلیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ”یمن،روم اور ایران کے خزانوں کے منہ کھل گئے ہیں۔“یہ ان کی پیش گوئی تھی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا وہ سچ ثابت ہوا۔یمن تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں فتح ہو گیا اور اس کے بعد جلد ہی سلطنت روم اور ملک ایران پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہوا۔جنگ کے لئے شہر مدینہ کے تین طرف خندق کھودی گئی۔چوتھی طرف کھجوروں کے جھنڈ تھے۔ خندق اتنی چوڑی تھی کہ اس کو پھلانگ کر پار کرنا مشکل تھا۔جب کافروں کی فوج حملہ آور ہوئی تو خندق کے ایک طرف مسلمان تھے اور دوسری طرف کافروں کا بہت بڑا لشکر تھا۔ان کی تعداد تین ہزار تھی جبکہ مسلمانوں کی تعداد سات سو تھی، اکثر فوجی ایک دوسرے پر تیر برساتے تھے۔مسلمان بھی پوری طرح چوکنے اور ہوشیار تھے اور دن رات پہرا دیتے تھے۔جب کافر خندق کے کسی مقام پر حملہ کرتے تو مسلمانوں کے تیروں کی بوچھاڑ ناکام بنا دیتی۔ بیس بائیس دن اسی طرح گزر گئے لیکن جنگ نہ شروع ہوئی۔ ایک دن تین کافروں نے ایک ایسی جگہ ڈھونڈ لی جہاں سے وہ اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر خندق پھلانگ سکتے تھے۔چنانچہ انہوں نے گھوڑوں کو ایڑ لگائی اور خندق پار کر کے مسلمانوں کی طرف داخل ہوگئے۔مسلمانوں نے ان تینوں کو قتل کر دیا۔
مدینہ کے یہودی درپردہ مکہ کے کافروں اور مشرکوں کی فوج سے ملے ہوئے تھے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں لگے رہتے تھے ۔ایک دن انھوں نے مسلمان عورتوں کے خیمے پر حملہ کر ہی دیا۔لیکن بہادر مسلمان عورتوں نے اس حملے کو ناکام بنادیا اور جرات سے کام لے کر ایک یہودی کو ہلاک کر دیا۔آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جرات سے ہلاک ہونے والے یہودی کا سر کاٹ کر اس کی لاش خیمے سے باہر پھینک دی۔یہودیوں نے سمجھا کہ خیمے میں عورتوں کے ساتھ مرد بھی ہیں۔اس طرح ان کو خیمے کی طرف دوبارہ منہ کرنے کی جرات نہ ہوئی۔
دشمن خندق سے باہر عرصہ تک پڑے پڑے پریشان ہوگئے۔ ایک دن مسلمانوں کے لئے اللہ کی مدد آگئی۔وہ اس طرح کہ ایک رات بڑی خوفناک آندھی چلی جس سے دشمنوں کے خیمے اڑ گئے۔ان کی ہانڈیا ں الٹ گئیں۔گھوڑے بدک کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ان حالات میں دشمنوں نے سوچا کہ یہاں پڑے رہنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ چنانچہ وہ خود ناکام واپس چلے گئے۔ اس طرح مسلمانوں کو اس جنگ میں بھی اللہ نے کامیابی دی۔رسول اللہ کی جنگی چال،استقامت اور اپنی فوج کے ساتھ عام آدمیوں کی طرح رہنا اور عمل کرنا بے مثال ہے۔
صلح حدیبیہ
مسلمانوں کو مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے ہوئے چھ سال گزر چکے تھے۔ اس دوران کافروں نے جتنے حملے کیے ان میں کافروں کو ہی شکست ہوئی تھی۔جو مسلمان ہجرت کر کے آئے تھے، ان میں سے بہتوں کے بال بچے،ابھی تک مکہ میں ہی تھے اور اس عرصے میں وہ عمرہ کے لئے بھی نہ جا سکے تھے۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خواب میں اشارہ پاکر عمرہ ادا کرنے کا اعلان کیا۔عمرہ اس عمل کو کہا جاتا ہے جس میں مسلمان مکہ آکر حرم شریف میں خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کرتے ہیں۔مقام ابراہیم پر دو نفل پڑھتے اور صفاومروہ دو پہاڑیوں کے درمیان سات چکر لگاتے ہیں۔
جس وقت آپ مدینہ سے عمرہ ادا کرنے کے لیے روانہ ہوئے تو اس وقت ایک ہزار چارسو مسلمان آپ کے ساتھ تھے۔آپ نے فرمایا:”ہم صرف مذہبی شعار ادا کرنے کے لیے جا رہے ہیں۔ ہمارا مقصد لڑائی نہیں ہے۔“
مسلمان مدینہ سے روانہ ہوکر حدیبیہ کے مقام پر ٹھہرے۔لیکن مکہ والے لڑنے کو تیار ہو گئے اور اعلان کر دیا کہ وہ کسی قیمت پر بھی مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیں گے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کو پیغام بھیجا:”ہم صرف عمرہ ادا کرنے آئے ہیں۔ ہم لڑائی کے لیے نہیں آئے۔اگر تم نے لڑائی کی ابتدا کی تو خدا کی قسم اس وقت تک لڑتا رہوں گا جب تک میری زندگی ہے۔بہتر یہ ہے کہ تم کچھ عرصے کے لئے صلح کرلو۔“
مکہ کے کافروں نے سمجھا کہ اگر مسلمانوں کا ارادہ لڑنے کا نہ بھی ہو اور وہ عمرہ کرکے چلے گئے تو عرب کے لوگ ہم کو بزدلی کا طعنہ دیں گے،جس کو ہم برداشت نہیں کر سکتے۔
مکہ والوں نے ایک ایک کرکے کئی قاصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجے۔کفار مکہ کی طرف سے ایک شخص عروہ سفیر بن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔اس نے واپس جا کر کفار مکہ کو بتایا کہ مسلمانوں میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جو احترام اور عزت ہے وہ اس نے کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کے ہاں بھی نہیں دیکھا۔جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے ہیں تو جاںنثار پانی کا ایک قطرہ زمین پر گرنے نہیں دیتے۔ جب وہ بات کرتے ہیں تو مجلس میں سناٹا چھا جاتا ہے۔ کسی شخص میں اتنی جرات نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو آنکھ بھر کر دیکھ سکے۔
ایک روز صبح کے وقت مکہ کے اسی(۰۸) جوشیلے نوجوان مسلمانوں سے لڑنے کے لیے چل پڑے،لیکن وہ پکڑ لئے گئے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر سگالی کے طور پر ان سب کو رہا کردیا۔آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا سفیر بنا کر مکہ بھیجا۔ان کے واپس آنے میں دیر ہو گئی تو یہ خبر پھیل گئی کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کافروں نے شہید کردیا ہے۔چنانچہ تمام مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر پھیل گئی اور مسلمان کٹ مرنے کو تیار ہوگئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کے نیچے مسلمانوں سے جان کی بازی لگانے پر بیعت لی۔اس موقع پر اللہ کی طرف سے وحی آئی:
”اے پیغمبر!جو لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے ہیں وہ گویا اللہ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے ہیں ۔ان پر آپ کا نہیں اللہ کا ہاتھ ہے۔“
مسلمانوں کا یہ جذبہ دیکھ کر مکہ والے پریشان ہوگئے اور انہوں نے اپنا ایک سفیر سہیل نامی رسول اللہ کی خدمت میں صلح کے لیے بھیجا اور ان شرطوں پر صلح ہو گئی:
(۱)۔اس سال مسلمان واپس چلے جائیں۔
(۲)۔اگلے سال عمرہ کیلئے آئیں اور تین دن تک مکہ میں ٹھہر کر واپس چلے جائیں۔وہ اپنے ساتھ صرف تلوار لائیں جونیام میں ہو اور نیام تھیلے میں۔اہل قریش اس وقت مکہ سے باہر چلے جائیں گے۔
(۳)۔جو مسلمان اس وقت مکہ میں ہیں وہ یہیں رہیں گے اور جو مسلمان مدینہ سے آئے ہیں وہ اگر مکہ میں رہنا چاہیں تو ان کو رہنے دیا جائے۔
(۴)۔مکہ سے جو مسلمان یا کافر مدینہ چلا جائے اسے واپس کر دیا جائے لیکن جو مسلمان مدینہ سے مکہ آئے گا اس کو واپس نہیں کیا جائے گا۔
(۵)۔مسلمان اور قریش عرب کے جس قبیلے سے چاہیں اتحاد کر سکیںگے۔
(۶)۔یہ معاہدہ 10 سال کے لئے ہوگا، اس مدت میں دونوں فریق امن و امان سے رہیں گے۔
ابھی یہ معاہدہ لکھا بھی نہیں گیا تھا کہ سفیر مکہ کے فرزند حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کفار مکہ کی قید میں تھے،بیڑیاں پہنے ہوئے کسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے۔ان کو دیکھ کر مسلمانوں میں خون اتر آیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے سفیر سہیل سے کہا کہ ابو جندل کو ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دی جائے۔سہیل نے کہا:”اگر چہ معاہدہ لکھا نہیں گیا لیکن بات طے ہو گئی ہے۔“اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو واپس کرتے ہوئے فرمایا:”وقت کا انتظار کرو۔“مسلمان اس معاہدے سے خوش نہ تھے لیکن کسی کو لب ہلانے کی جرات نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے اس صلح کوکھلی فتح قرار دیا۔
خیبر کی جنگ
ہجرت کے ساتویں سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خیبر کے یہودیوں کے خلاف جنگ لڑنی پڑی۔رسول اللہ جب مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لائے تھے تو اپنے اللہ کی دی ہوئی دانائی، دور اندیشی اور قابلیت سے مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر مدینہ کی حفاظت کریں گے۔تاکہ مسلمانوں کو ان سے خطرہ نہ رہے اور کفار سے مقابلے کے وقت ساتھ دیں۔ مدینہ میں یہودیوں کو ہر طرح آزادی تھی اس کے باوجود مسلمانوں کے خلاف اکثر شرارتیں کیا کرتے تھے اور جب بھی مدینہ پر مسلمانوں کے مخالفین نے حملہ کیا انہوں نے مسلمانوں کو دھوکہ دیا۔ دو مرتبہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کی سازش کی جو کامیاب نہ ہو سکی۔ان حالات میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نرمی برتی اور ان سے کہا کہ تمہاری خیریت اسی میں ہے کہ تم مدینے سے چلے جاؤ۔چنانچہ یہودی مدینہ سے نکل کر خیبر کے قلعوں میں آباد ہو گئے۔ یہاں یہودیوں کے نو دس قلعے تھے جو بڑے مضبوط تھے۔اس علاقے کی زمین بھی بڑی زرخیز تھی۔
خیبر میں آکر یہودیوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زور و شور سے کام شروع کر دیا۔خندق کی جنگ کے لئے بھی انہوں نے کفار مکہ کو اکسایا تھا۔دوبارہ انہوں نے عرب کے قبیلوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا اور مدینہ پر حملہ کرنے کیلئے اپنی بیس پچیس ہزار فوج تیار کرلی۔
رسول اللہ کو ان کی جنگی تیاریوں کا پتہ چل گیا اور آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ یہودیوں کے حملے سے پہلے ہی خیبر پر حملہ کر دیا جائے، چنانچہ اس اسلامی فوج میں سولہ سو انصار اور مہاجر شریک ہوئے۔بعد میں وہ دو سو مجاہدین بھی اسلامی لشکر میں شامل ہوگئے جو حبشہ سے واپس آئے تھے۔دو سوسوار اور باقی پیادہ تھے۔
فوج کی تیاری میں رسول اللہ نے بڑی اعلیٰ فوجی چال چلی ۔پوری رازداری سے کام لیا۔جب اسلامی لشکر جنگ کے لیے روانہ ہوا تو رسول اللہ کی جنگی چال کے مطابق ان کی ہدایت پر سیدھے رستے سے جانے کے بجائے وہ راستہ اختیار کیا جوغطفان اور خیبر کے درمیان تھا۔غطفانی یہودی بھی خیبر کے یہودیوں کے ساتھی تھے۔ جب اسلامی لشکر روانہ ہوا توغطفانیوں نے سوچا کہ اگر ہم خیبر کے یہودیوں کی مدد کو چلے گئے تو ایسا نہ ہو کہ مسلمان ہمارے گھروں پر حملہ کردیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خیبر کے یہودی اکیلے ہی رہ گئے اور غطفان کے یہودی بھی اکیلے رہ گئے۔رسول اللہ کی اس فوجی قیادت اور اعلیٰ فیصلے سے یہودی دو حصوں میں بٹ گئے۔ ایک دوسرے کی مدد نہ کرسکے اور باری باری دونوں نے شکست کھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے غطفان کے علاقے پر آسانی سے قبضہ کیا اور اس کے بعد خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔رسول اللہ کی عادت اور پالیسی تھی کہ رات کے وقت لڑائی نہ کرتے تھے۔صبح کی نماز کے بعد جنگ کے لئے روانہ ہوتے ۔خیبر جب نظر آیا تو رسول اللہ نے فرمایا کہ خیبر ویران ہوگیا۔آپ نے دعا فرمائی اور لڑائی شروع ہوئی۔پہلے قلعہ ناعم فتح کیا۔اس کے بعد خیبر کے کئی قلعے فتح کرلیے۔ان میں قلعہ قموص بہت مضبوط تھا۔یہودی قلعہ کے اندر جمع تھے اندر ہی سے تیر پھینکتے تھے۔اس قلعہ کو فتح کرنے کی بڑی کوشش کی گئی مگر مسلمانوں کو کامیابی نہ ہوئی۔
ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ”کل اسکو جھنڈا دیا جائے گا جواللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کرتا ہے اور محبوب بھی ہے۔ اللہ اس کے ہاتھوں قلعہ فتح کر ائے گا۔“چنانچہ اگلے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو جھنڈا دیا۔اس وقت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب دہن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھوں پر لگایا جس سے ان کی آنکھوں کی تکلیف آرام ہوگئی۔ روانگی کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:”پہلے ان کے سامنے ا سلام پیش کرنا،اس کے بعد جنگ کرنا۔“یہ تھی اسلام کی اچھی تعلیم۔
سب سے پہلے دشمن کی طرف سے مرحب کا بھائی حارث میدان میں آیا جو بڑا پہلوان تھا۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں فوراً قتل ہو گیا۔اس کو دیکھ کر یہودیوں کا پہلوان مرحب جوقلعے کا سردار تھا، جنگی گانے گاتا اور اینٹھتا ہوا میدان میں آیا۔ حضرت علی کے ایک سپاہی محمد بن مسلمہ انصاری نے ایک ہی وار سے اس کا کام تمام کر دیا۔
مرحب کے قتل کے بعد یاسر پہلوا ن غصے سے آگے بڑھا لیکن حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عوام نے ایک ہی وار میں اس کے دو ٹکڑے کر دئیے۔اس کے بعد عام لڑائی شروع ہوگئی۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خدا کی دی ہوئی طاقت سے ایک ہی جھٹکے میں قلعے کا دروازہ توڑ کر گرا دیا اور مسلمان قلعے کے اندر گھسنے میں کامیاب ہو گئے ۔اس مضبوط قلعہ کے فتح ہو جانے سے خیبر کے جو باقی قلعے رہ گئے تھے وہ بھی فتح ہو گئے اور سارے علاقے پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ان جنگوں میں 93 یہودی مارے گئے اور صرف دس مسلمان شہید ہوئے۔خیبر کی فتح کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نرمی کا سلوک کیا اور فرمایا کہ یہودیوں کی زمینیں ان کے قبضے میں رہیں گی اور مسلمان ان سے صرف بٹائی کا حصہ لیا کریں گے۔
فتح مکہ
عرب کے دو قبیلے بنو خزاعہ اور بنو بکر تھے۔ ان میں پرانی دشمنی چلی آتی تھی۔بنو خزاعہ مسلمانوں کے اور بنو بکر کافروں کے ساتھی بن گئے۔
حدیبیہ کی صلح کو ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ بنو بکر قبیلہ نے بنو خزاعہ پر حملہ کردیا۔مکہ کے قریش نے بھی بنو بکر کی مدد کی۔بنوں خزاعہ قبیلہ والوں نے حدود حرم میں پناہ لی مگر بنو بکر کے قبیلے والوں نے وہاں بھی ان کو قتل کیا۔بنو بکر کے ساتھ مکہ کے قریشی بھی انتقامی جذبے کے تحت بنو خزاعہ کے قتل میں شریک ہو گئے۔
اس قتل عام سے بچے ہوئے خزاعی مدینہ پہنچے اور سارا قصہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیان کیا ۔اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو پیغام بھیجا کہ:
(۱)۔بنو بکر اور قریش مل کر بنو خزاعہ کا خون بہا دیں۔
(۲)۔یا قریش بنو بکر کی حمایت سے الگ ہو جائیں۔
(۳)۔یا حدیبیہ کی صلح کے ختم ہونے کا اعلان کر دیا جائے۔
شروع میں تو قریش کے نوجوانوں نے تیسری شرط کو پسند کیا یعنی صلح حدیبیہ کو ختم کرنے کا اعلان کردیا۔مگر بعد میں ان کو خیال آیا کہ صلح حدیبیہ کو ختم کر کے انہوں نے اچھا نہیں کیا۔چنانچہ مکہ کے سردار ابوسفیان مدینہ آئے اور کہا کہ صلح کو قائم رکھا جائے لیکن ابو سفیان خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہ ہوئے بلکہ اکابر صحابہ سے بات چیت کرتے رہے۔قریش نے خود ہی یک طرفہ صلح توڑی تھی اس لیے آپ نے فوج کو تیاری کا حکم دیا۔عرب کے جو قبیلے مسلمانوں کے ساتھ تھے۔ان سے بھی کہا گیا کہ اسلامی فوج میں شامل ہوجائیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فوج کی تیاری میں بڑی رازداری سے کام لیا۔ہجرت کے آٹھویں سال دو ہزار مسلمانوں کا لشکر مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوا۔راستے میں رہائش پذیر مسلمانوں کے ساتھی قبیلوں کے فوجی بھی شامل ہوگئے۔مکہ پہنچنے تک اس لشکر کی تعداد دس ہزار ہو گئی۔
اسلامی لشکر نے اپنا کیمپ مکہ سے دس میل ادھر لگایا۔مکہ والوں کو اسلامی لشکر کے آنے کی اس وقت خبر ہوئی جب رات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ تمام مسلمان ٹکڑیوں میں بٹ کر آگ جلائیں۔جونہی یہ آگ وسیع علاقہ میں روشن ہوئی تو مکہ والے حیران ہوگئے کہ اتنی بڑی فوج کہاں سے آگئی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ حکمت عملی سے مکہ کے کافروں میں ڈر اور خوف طاری ہوگیا۔رعب میں آکر قریش نے اپنے تین بڑے آدمی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجے ۔ان میں ان کا سردار ابوسفیان بھی تھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو پہچان لیا اور پکڑ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو سفیان کو دیکھا تو عرض کی:”یا رسول اللہ! حکم ہو تو اس دشمن اسلام کا سر اڑا دیا جائے۔“لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا۔
ابوسفیان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:”ابو سفیان! کیا اب بھی تمہیں یقین نہیں آیا کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے؟“
ابو سفیان نے جواب دیا:”یہ تو درست ہے اگر کوئی اور اللہ ہوتا تو آج ہماری مدد کرتا۔“پھر پوچھا:”میرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونے میں اب بھی تمہیں کوئی شک ہے؟“رسول اللہ نے اسلام پیش کیا۔ابوسفیان سچے دل سے کلمہ توحید پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔
حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ سے عرض کی کہ:” اے خدا کے پیارے رسول! ابو سفیان کو ایسی بات بتا دیں کہ یہ خوش ہو جائے۔“تو رسول اللہ نے فرمایا کہ:” جو شخص ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے اس کو کچھ نہ کہا جائے۔“اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد جو کافر مسلمان ہوئے وہ کسی خوف کی وجہ سے نہیں ہوئے تھے۔اپنی خوشی سے ہوئے تھے۔
اگلے دن اسلامی لشکر بڑی شان و شوکت سے مکہ کی طرف روانہ ہوا۔آپ نے حکم دیا:”’جو آدمی حرم شریف میں،اپنے گھر میں یا ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے گا وہ محفوظ رہے گا۔مقابلہ صرف اس سے کیا جائے جو سامنے سے حملہ کرے۔بھاگنے والے اور ہتھیار پھینک دینے والوں کو امان دی جائے۔زخمی اور قیدی قتل نہ کیے جائیں۔“
جس وقت اسلامی لشکر شان و شوکت سے مکہ میں داخل ہو رہا تھا تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ،ابو سفیان کو لے کر ایک پہاڑی پر کھڑے ہو گئے تاکہ اس کو اسلامی لشکر کی شان و شوکت دکھا سکیں۔ابو سفیان نے اس لشکر کو دیکھ کر کہا:”عباس! تمہارے بھتیجے کی بادشاہی تو بہت بڑی ہو گئی ہے۔“
حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا©”بے وقوف! تو ابھی تک نہیں سمجھا! یہ بادشاہت نہیں،نبوت ہے۔“ابو سفیان نے پہاڑی سے آکر مسجد حرم شریف میں آواز دی کہ:” اے مشرکو! جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا جرار لشکر لے کر آئے ہیں کہ اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت تم میں نہیں ہے ،لہٰذا بہتر ہے کہ تم سب مسلمان ہو جاؤ اور سلامت رہو گے۔“تب مشرکین نے ان سے پوچھا کہ:” محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ کہا بھی ہے ؟“تو اس نے جواب دیا:”ہاں، کہا ہے کہ جو کوئی حرم شریف میں داخل ہو جائے اور جو کوئی ابوسفیان کے گھر کے اندر چلا جائے اور جو ہتھیار ڈال دے اور جو کوئی اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے وہ سب امن میں رہیں گے۔“چنانچہ دشمنوں اور کفار نے شکست مان لی۔
دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ اسلامی فوج خون بہائے بغیر مکہ میں بطور فاتح داخل ہوئی۔یہ وہ شہر ہے جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی بڑی تکلیفیں اٹھانی پڑی تھیں۔ جو لوگ مسلمان ہوئے تھے،ان پر بڑے بڑے ظلم ڈھائے گئے تھے۔ان کو گرم ریت پر لٹا کر مارا جاتا تھا۔ گرم لوہے سے ان کے جسموں کو داغا جاتا تھا۔اس شہر میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کی سازش کی گئی اور پھر جب مسلمان یہاں سے مدینہ چلے گئے تو وہاں بھی ان کو چین نہ لینے دیا گیا۔
جب اسلامی لشکر مکہ میں داخل ہوا تو مکہ کے سب لوگ سہمے ہوئے تھے۔ انہیں اپنے پچھلے جرائم اور ظلم یاد آرہے تھے۔وہ جانتے تھے کہ ان کے ساتھ جتنا بھی برا سلوک کیا جائے وہ اس کے مستحق ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے لوگوں کو ایک جگہ جمع کیا اور فرمایا:”جانتے ہو میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟“تو سب نے یک زبان ہو کر کہا:”بے شک ہم سزا کے مستحق ہیں۔لیکن آپ تو ایک شریف بھائی ہیں اور رحیم و کریم ہیں۔“
اس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”آج میں تم سے وہی کہتا ہوں جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا۔آج بدلے کا دن نہیں۔جاؤ تم سب کو معاف کیا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ بھی تم کو معاف کرے۔میں نے سب کو آزاد کر دیا ہے۔“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کرم،محبت اور شفقت دیکھ کر سب کا فر آپ کے شکر گزار ہوئے اور دھڑا دھڑ مسلمان ہونے لگے۔
ایک خاص واقعہ
خانہ کعبہ کی کنجیاں عثمان بن ابی طلحہ کے پاس ہوتی تھیں۔نبوت کے زمانے میں ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان سے خانہ کعبہ کا دروازہ کھولنے کو کہا تو اس نے انکار کر دیا۔اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”عثمان یاد رکھو! ایک دن خانہ کعبہ کی چابیاں ہمارے ہاتھ میں ہوں گی۔“آج خانہ کعبہ کی چابیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں میں پہنچا دی گئیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”آج ہی کا وہ دن ہے جب ہر انسان کے ساتھ نیکی اور اچھا سلوک کیا جائے گا۔“یہ فرما کر آپ نے چابیاں پھر عثمان کے حوالے کر دیں اور فرمایا:”جو تم سے چابیاں چھینے گا وہ ظالم ہوگا۔“ چنانچہ چودہ سو سال سے اب تک خانہ کعبہ کی چابیاں اسی خاندان کے پاس چلی آرہی ہیں۔“
خانہ کعبہ کے اندر اور اردگرد تین سو ساٹھ بت تھے جو ٹوٹ کر گر گئے۔بیت اللہ کی دیواروں پر سے تصویریں ہٹا دی گئیں اور اس دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد حرام میں دیر تک قیام فرمایا۔جب نماز کا وقت آیا تو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اذان کا حکم دیا۔اذان کے بعد نماز پڑھائی۔نماز کے بعد مردوں نے اسلام قبول کیا۔اس کے بعد عورتوں کی بیعت شروع ہوئی۔مکہ کے سب کے سب کافر مسلمان ہو گئے۔خدا تعالیٰ نے کفر کو مٹا دیا۔
جنگ حنین
حضرت علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ کا ایک شعر ہے:
”کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی“
جنگ میں فوج کی زیادہ تعداد کچھ کام نہیں آتی۔اصل میں جذبہ کام آتا ہے۔مسلمان جب جنگ میں شریک ہوتے تھے تو صرف اللہ کی راہ میں لڑتے تھے، اس لیے انہیں کبھی یہ خیال نہ آیا کہ ہم دشمن سے تعداد میں کم ہیں اور وہ ہمیشہ بہادری سے لڑے اور اللہ کی مدد شامل ہوئی۔لیکن جب ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اب تو ہم بڑی تعداد میں ہیں تو قدرت نے ان کو اس غرور و تکبر کی سزا دی۔
جنگ حنین میں بھی یہی ہو ااور اللہ نے قرآن کی ”سورہ توبہ“ میں فرما دیا:”حنین کے دن کو یاد کرو جب تم اپنی کثرت پر ناز کرتے تھے۔ مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی۔“
مکہ فتح ہو چکا تو کئی عرب قبیلے اسلام لے آئے۔عرب کے دو قبیلے ہوازن اور ثقیف جو بڑے بہادر اور جنگجو تھے اور تیز اندازی میں ان کو یہ کمال حاصل تھا کہ ان کا نشانہ خطا نہ جاتا تھا۔انہوں نے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت دیکھی تو سوچا کہ اگر یہ طاقت اور بڑھ گئی تو کسی وقت ہمیں بھی اپنے ماتحت کر لے گی۔اس لیے ان سے جلد از جلد لڑا جائے اور ان کو ختم کر دیا جائے ورنہ ہم خود ختم ہو جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے زبردست جنگی تیاریاں شروع کردیں۔عرب کے کئی دوسرے قبیلے بھی ان کے ساتھ مل گئے اور انہوں نے راستے کی پہاڑ یوں کی آڑ لے کر اپنے خفیہ مورچے اس لیے بنا لیے تھے کہ جب مسلمان مکہ سے مدینہ کو جاتے ہوئے اس راستے سے گزرے تو ان کو اپنے تیروں پر رکھ لیں۔
رسول اللہ کو بھی ان کے ارادوں کا علم ہو گیا اور انہوں نے بھی تیاری شروع کر دی۔اس فوج میں بہت سے ایسے نوجوان بھی شریک ہو گئے جنہوں نے حال ہی میں اسلام قبول کیا تھا۔مسلمانوں کے لشکر کی تعداد بارہ ہزار کے قریب تھی۔ان کے مقابلے میں دشمن کی تعداد صرف چار ہزار تھی۔
اس وقت مسلمانوں میں یہ گھمنڈ پیدا ہو گیا کہ اب تو ہم بڑی تعداد میں ہیں، ہمارا مقابلہ کون کر سکتا ہے۔ہم بدر میں تین سو تیرہ تھے تو بھی کفار سے نہ دبے۔آج تو بارہ ہزار ہیں۔مگر اللہ کو یہ غرور پسند نہ آیا۔اصل میں فتح اور شکست اللہ کے ہاتھ میں ہے۔جب اسلامی لشکر ان پہاڑیوں کے قریب پہنچا،جہاں دشمن کی فوج چھپی ہوئی تھی تو دشمن نے اسلامی فوج پر تیروں کی زبردست بوچھاڑ کر دی جس سے اسلامی فوجی بدحواس ہو کر بھاگنے لگے۔
ہوا زن کی طرف سے ایک بڑا بہادر میدان میں آیا۔جنگ کے سب سامان اور ہتھیار اس کو میسر تھے۔پورے انتظام سے آیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شیر خدا نے ایسی تلوار ماری کے اس کے اونٹ کے دونوں پیر کٹ گئے۔اونٹ بیٹھ گیا، پھر سامنے سے ایک انصاری نے ایسا وار کیا کہ سوار کی پنڈلی کٹ گئی اور وہ گر گیا۔پھر دست بدست جنگ شروع ہوئی۔اس جنگ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفید خچر پر سوار تھے اور اپنے خچر کو دشمن کی طرف بڑھاتے ہوئے فرما رہے تھے:
”اس میں کوئی شک نہیں کہ میں اللہ کا سچا رسول ہوں اور عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جن کی آواز بلندتھی، فرمایا:”پہاڑی پر چڑھ کر بھاگنے والوں کو پکارو۔“حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بلند آواز سے مسلمانوں کو پکارا۔جنہوں نے حدیبیہ کے مقام پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر موت کی بیعت کی تھی۔اس آواز کو سنتے ہیں وہ فوراً واپس پلٹے اور انہوں نے دیکھا کہ رسول خدا اور ان کے جرنل دشمن کی طرف بڑھ کر بڑی دلیری سے حملہ کر رہے ہیں تو انہوں نے بھی ایک دم بڑے زور سے حملہ کیا۔ میدان جنگ کا رخ بدل گیا۔دشمن کو شکست ہوئی اور اس کے ایک ہزار فوجی قیدی بنے۔کفار اپنے بچے، عورتیں اور مویشی چھوڑ کر بھاگ گئے اور ستر کافر قتل ہوئے۔
جنگ حنین سے بھاگے ہوئے کافر طائف جا کر پناہ گزین ہو گئے۔آپ نے حکم دیا کہ اس فتنہ کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا جائے۔ چنانچہ مسلمانوں نے طائف کا محاصرہ کرلیا جو کئی ہفتوں تک جاری رہا۔بلا خر دشمنوں نے ہتھیار ڈال دیے اور طائف پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔
یہ وہی شہر طائف تھا جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے تھے اور وہاں کے باشندوں نے آپ کو پتھر مار مار کر لہولہان کردیا تھا لیکن فتح حاصل کرنے کے بعد آپ نے ان لوگوں سے بڑا اچھا سلوک کیا۔
طائف میں ایک اور قلعہ بھی تھا جسے اوطاس کہتے تھے۔وہاں بھی دشمن جمع ہوگئے تھے۔آپ نے اس کو بھی فتح کرلیا۔اس مہم میں بے انداز مال و دولت اور دوسری چیزیں مسلمانوں کے ہاتھ آئیں۔
اس مہم سے فارغ ہوکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں اور مال غنیمت کی تقسیم کی۔قبیلہ ہوازن کے ایک وفدنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دایہ حضرت حلیمہ کا واسطہ دے کر رہائی کی درخواست کی۔آپ نے فرمایا:”میں تو اپنے قیدیوں کو رہا کرتا ہوں مگر مناسب یہ ہے کہ کل سب صحابہ کے سامنے اس کا فیصلہ کیا جائے۔دوسرے دن جب آپ نے اپنے قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان فرمایا تب صحابہ نے بھی اپنے اپنے قیدی رہا کر دیے۔ان قیدیوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دایہ حلیمہ سعدیہ کی صاحبزادی شیما بھی تھی،جو رسول اللہ کی دودھ شریک بہن تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اپنی چادر بچھا دی اور فرمایا:”بہن! اگر تم میرے پاس رہنا چاہو تو شوق سے رہ سکتی ہو۔“مگر انہوں نے واپس جانے کی خواہش ظاہر کی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بہت سا مال و دولت دے کر رخصت کیا۔
جب مال غنیمت کی تقسیم کا وقت آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے لوگوں کے مقابلے میں مکہ والوں کو بہت زیادہ مال دیا۔اس پر مدینہ کے نوجوانوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ رسول اللہ نے ان کو اس لیے زیادہ مال دیا ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے ہیں یا مکہ کے رہنے والے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان باتوں کا علم ہوا تو آپ نے مدینہ کے انصار کو بلا کر فرمایا:”اے انصار! کیا یہ درست نہیں کہ تم گمراہ تھے ، خدانے میری وجہ سے تم کو ایمان دیا۔“انصار نے کہا:”بے شک اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر بڑا احسان ہے۔“
آپ نے پھر فرمایا:”تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، میری وجہ سے تم میں اتفاق ہوا!“ انصار نے کہا:”یہ بھی ٹھیک ہے اور آپ کا ہم پر بڑا احسان ہے۔“
پھر فرمایا:”تم لوگ نادار اور غریب تھے،میری وجہ سے اللہ نے تم کو دولت مند بنا دیا!“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: ”نہیں،تم مجھے یہ بھی جواب دے سکتے تھے کہ جب ساری دنیا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی،جب سب نے آپ کو چھوڑ دیا تھا تو ہم نے آپ کی مدد کی!میں تمہارے ان خیالات کو صحیح مانتا ہوں لیکن کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ اونٹ اور بکریاں تو وہ لے جائیں اور تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر لے جاؤ۔“
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ باتیں سن کر مدینہ کے مسلمان دھاڑیں مار مار کر رونے لگے یہاں تک کہ ان کی داڑھیاں بھیگ گئیں۔انہوں نے عرض کی:”یا رسول اللہ! آپ کی ذات پاک ہی ہم سب کے لئے سب کچھ ہے۔“
جنگ تبوک
جنگ تبوک سن 9 ہجری میں پیش آئی۔اس کو” تنگ دستی کی لڑائی“بھی کہتے ہیں۔یہ جنگ روم کے عیسائی اور مسلمانوں کے درمیان ہوئی۔جس علاقے کو آج کل شام، لبنان اور اردن کہا جاتا ہے۔ یہ سارا علاقہ رومیوں کے ماتحت تھا۔ اس علاقے سے آنے والے ایک تجارتی قافلے نے بتایا کہ رومیوں کا ایک بہت بڑا لشکر مدینہ پر حملے کی تیاریاں کر رہا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر ملی تو آپ نے فورا ًتیاری کا حکم دیا۔یہ سخت گرمی کا موسم تھا۔کھجور یں پک رہی تھیں،فصلیں کٹنے کا موسم آنے والا تھا اور قحط بھی تھا۔سامان رسد کی بڑی کمی تھی۔ ایک ایک کھجور دو دو سپاہیوں میں تقسیم ہوئی تھی سفر بھی بہت دور دراز کا تھا۔ پانی کی کمی تھی۔اس زمانہ کی عظیم الشان سلطنت کے مقابلے پر فوج کشی۔مسلمان اس لمبے سفر سے گھبرا رہے تھے۔لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان رکاوٹوں کی کوئی حقیقت نہ تھی۔یہ جذبہ ایثار،قربانی اور رسول اللہ کی وفاداری تھا جس نے فتح اور کامیابی دلائی۔
تیاری سے پہلے آپﷺ نے فرمایا کہ تمام مسلمان اپنی حیثیت کے مطابق چندہ دیں۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ہزار سونے کے دینار،نوسو اونٹ اور ایک سو گھوڑے پورے سازو سامان کے ساتھ دیے۔حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عوف نے چالیس ہزار درہم دیے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے اثاثے کا آدھا حصہ دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھر کا سارا سامان اٹھا لائے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خیال تھا کہ اس دفعہ وہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بازی لے جائیں گے۔حضرت رسول خدا نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا:”گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟“انہوں نے عرض کیا:”آدھا گھر والوں کیلئے چھوڑ آیا ہوں اور آدھا اللہ اور اس کے رسول کے لئے لایا ہوں۔“حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے عرض کیا:”گھر میں صرف اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں۔“حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس جواب کو علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ نے اپنے ایک شعر میں یوں پیش کیا ہے:
پروانے کو چراغ،بلبل کو پھول بس!
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس!
ایک غریب مسلمان کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔اس نے رات بھر کنواں چلا کر مزدوری کی اور چار کلو کھجور مزدوری میں وصول کیں۔دو کلو تو اس نے گھر میں رکھیں اور بقیہ دو کلو کھجوریں لے کر دربار نبوی میں پہنچا۔وہ غریب جب مسجد نبوی میں پہنچا تو حیران تھا کہ ان کو کس طرح پیش کرے۔ کچھ لوگ ان کھجوروں کو دیکھ کر مسکرائے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صورت حال بھانپ کرحکم دیا کہ ان کھجوروں کو اس سارے سامان کے اوپر بکھیر دیا جائے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ تھا کہ جب بھی کسی جنگ کے لیے مدینہ سے باہر جاتے تو اپنی جگہ کسی کو امیر بنا دیتے تھے۔اس دفعہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی جگہ امیر مقرر کیا اور تیس ہزار آدمیوں کا لشکر لے کر تبوک کی طرف روانہ ہوئے جو مدینہ سے ڈیڑھ سو میل دور تھا۔اس سے قبل اتنا بڑا لشکر عرب کی تاریخ میں جمع نہ ہوا تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ بڑے تجربہ کار جرنل تھے، اس لیے آپ ہمیشہ کوشش فرماتے کہ اسلامی لشکر کی نقل و حرکت کا کسی کو علم نہ ہو لیکن تبوک کی جنگ کا آپ نے پہلے ہی اعلان فرما دیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک تو دشمن نے اس کو ایک جنگی چال سمجھا،دوسرا بزدل لوگ جی چھوڑ بیٹھے اورصرف جانثار ہی ساتھ گئے۔
چونکہ مقابلہ ایک بہت بڑی حکومت سے تھا جس نے ابھی ابھی ایران جیسے بڑے ملک کو شکست دی تھی اس لئے بعض لوگوں کو یہ خدشہ ہوا کہ شاید اب کوئی مسلمان زندہ واپس نہ آئے۔منافقوں نے اس افواہ کو خوب پھیلایا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ مسلمان بھی اس لشکر میں شریک نہ ہوئے۔لیکن جو لوگ سچے مسلمان اوراپنے پیغمبر پر جان دینا ثواب سمجھتے تھے وہ بڑی جرات و بہادری کے ساتھ لشکر میں شامل ہوئے۔راستہ میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اونٹ انہیں تنگ کرنے لگا اور یہ لشکر سے پیچھے رہ گئے۔مجبور اًانہوں نے اونٹ کو وہیں چھوڑا اور سارا سامان اپنے کندھوں پر اٹھا کر چل دیے اور اگلے پڑاؤ پر اسلامی لشکر سے جا ملے۔
اسلامی لشکر بیس دن تک تبوک میں ٹھہرا رہا۔ کوئی کافر ڈر کے باعث لڑنے نہ آیا۔ اسی جگہ ایلہ کا بادشاہ سرداز نصرانی یوحنہ بن رویہ نے تین سو دینار سالانہ جزیہ قبول کر کے صلح کر لی۔رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور مسلمان ہو گیا۔تبوک کے دوسرے قبیلوں نے بھی آکر صلح کر لی اور جزیہ دینا قبول کر لیا۔تمام اطراف کے کافروں نے جزیہ قبول کرکے جان بچائی۔جنگ کی طاقت کسی کا فر میں نہ تھی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ولید کو دومة الجندل کے حاکم اکیدر بن عبد المالک کی طرف چارسو سواروں کے دستے کے ساتھ بھیجا اور فرمایا کہ:”وہ تمہیں نیل گائے کا شکار کرتے ہوئے مل جائے گا، اس کو پکڑ لینا۔“یہ وہ حاکم تھا جس کے پاس جا کر کوئی بھی مسلمان زندہ واپس نہ آیا تھا۔
جب حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکیدر کے محل کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ایک نیل گائے قلعے کے دروازے کو ٹکر مار رہی ہے۔اکیدر اور اس کی بیوی قلعے کے اوپر بیٹھے ہوئے تھے۔بیوی نے کہا کہ اس شکار کو پکڑ کر لاؤ۔اکیدر گھوڑے پر سوار ہو کر قلعے سے باہر آیا تو نیل گائے حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لشکر کی طرف بھاگ کھڑی ہوئی۔اکیدر نے اس کے پیچھے گھوڑا ڈال دیا۔جب اکیدر خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قریب پہنچا تو انہوں نے پکڑ کر اس کی مشکیںکس لیں اور لاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر کے عرض کی:”یا رسول اللہ ہماری تو مجال نہ تھی، آپ کی پیشن گوئی سے ہمت بندھی اور اسے پکڑ کرحاضر خدمت کر دیا ہے۔اکیدر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جزیہ دینے کا وعدہ کرکے صلح کر لی اور رہائی حاصل کی۔
پچاس دن کے بعد اسلامی لشکر خیریت سے بغیر جنگ کئے مدینہ واپس آ گیا۔جو لوگ اس لڑائی میں شریک نہ ہوئے تھے ان کو بڑی شرم آئی اور انہوں نے کئی حیلے بہانے کیے۔صرف تین مسلمان ایسے تھے جنہوں نے اقرار کیا کہ وہ جان بوجھ کر جنگ میں نہیں گئے تھے۔
یہ تین شخص کعب ابن مالک،ہلال بن امیہ اور مرارہ بن الریع تھے جو باوجود مومن مخلص ہونے کے محض سستی،کاہلی اور آرام کی خاطر عذر شرعی نہ ہونے کے باوجود جنگ کی شرکت سے محروم رہے۔جب جنگ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو نہ انہوں نے منافقین کی طرح جھوٹے عذر اور بہانے پیش کئے اور نا بعض صحابہ کی طرح ستونوں سے باندھا۔جو واقعہ تھا۔صاف صاف عرض کر دیا اور اپنی کوتاہی کا اعلانیہ اقرار کیا۔سزا کے طور پر ان کا فیصلہ التوا میں رکھا گیا۔
حضرت کعب بن مالک نے سارا واقعہ سچ سچ بتایا کہ تبوک کی مہم بہت سخت اور دشوار گزار تھی۔جب رسول اللہ نے جنگ کی تیاری کا عام حکم دیا ۔لوگ اپنی استطاعت کے مطابق سامان سفر درست کرنے میں مشغول تھے مگر میں بے فکر تھا کہ جب چاہوں گا پورا تیار ہو کر ساتھ چلا جاؤں گا۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ہر قسم کا سامان موجود تھا۔ ایک چھوڑ دو سواریاں مہیا تھیں، اس لئے میں اسی غفلت کے نشے میں رہا۔جب رسول اللہ نے تیس ہزار مجاہدین کو کوچ کا حکم دیا، مجھے پھر بھی یہ خیال تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوگئے تو کیا ہے۔ میں اگلی منزل میں ان سے جا ملوں گا۔آج چلو ںکل چلوں، اسی سوچ میں وقت گزر گیا۔کعب نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کے بعد بہت زیادہ وحشت اس بات سے ہوتی تھی کہ سارے مدینہ میں سوائے پکے منافق یا معزور کے مجھے کوئی مرد نظر نہ پڑتا تھا چنانچہ دل میں جھوٹے منصوبے گانٹھنے شروع کیے کہ واپسی پرفلاں عذر کرکے جان بچالوں گا۔مگر جب معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خیر و عافیت سے تشریف لے آئے ہیں تو دل سے سارے جھوٹ ختم ہوگئے اور طے کر لیا کہ سچ کے علاوہ کوئی چیز اس بارگاہ میں نجات دلانے والی نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں رونق افروز تھے۔اصحاب کا مجمع تھا۔منافقین جھوٹے حیلے بنا کر چھوٹ رہے تھے۔اس وقت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا۔ میرے سلام کرنے پر ناراضگی دکھائی اور غیر حاضری کی وجہ دریافت کی۔ میں نے عرض کی یارسول اللہ اگر میں دنیا والوں میں کسی کے سامنے ہوتا تو آپ دیکھتے کہ میں کس طرح زبان زوری اور چالاک باتوں سے جھوٹے بہانے کرکے اپنے کو صاف بچا لیتا مگر یہاں تو معاملہ ایسی مقدس ذات سے ہے جسے جھوٹ بول کر اگر میں را ضی بھی کرلوں تو تھوڑی دیر کے بعد خدا آپ کو سچی بات ظاہر کرکے مجھ سے ناراض کر دے گا۔ اگر سچ بولنے میں تھوڑی دیر کے لئے آپ کی ناراضگی برداشت کرنی پڑے گی لیکن امید کرتا ہوں کہ اللہ کی طرف سے اس کا انجام بہتر ہوگا اور آخر میں سچ بولنا ہی مجھے خدا اور رسول کے غصے سے بچائے گا۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بات یہ ہے کہ میرے پاس غیر حاضری کا کوئی عذر یا بہانہ نہیں ہے۔جس وقت سے آپ کے ساتھ جانے سے محروم رہا، اس وقت سے اب تک مجھے سکون اور اطمینان نصیب نہ ہوا۔میں مجرم ہوں۔آپ کو اختیار ہے جو فیصلہ چاہیں میرے حق میں دیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”یہ وہ شخص ہے جس نے سچی بات کہی۔اچھا جاؤ۔خدائی فیصلے کا انتظار کرو۔“ہم تینوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کوئی ہم سے بات نہ کرے۔سب علیحدہ رہیں۔ چنانچہ کوئی مسلمان ہم سے بات نہ کرتا تھانہ سلام کا جواب دیتا تھا۔دو تو گھروں میں بند ہوگئے۔ دن رات گھر میں روتے رہتے تھے ۔میں مسجد میں نماز کے لیے حاضر ہوتا تھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرکے دیکھتا تھا کہ جواب میں لب مبارک کو حرکت ہوئی کہ نہیں۔جب میںحضورﷺ کی طرف دیکھتا، آپ میری طرف سے منہ پھیر لیتے تھے۔خاص خاص دوست اور قریبی عزیز بھی مجھ سے علیحدہ اور اجنبی ہو گئے تھے۔اس دوران ایک شخص نے مجھے بادشاہ (غسان)کا خط دیا جس میں میری مصیبت پر ہمدردی کرنے کے بعد دعوت دی تھی کہ میں اس کے ملک میں آجاؤ ں،وہاں میری بہت آؤ بھگت ہوگی۔میں نے پڑھ کر کہا کہ یہ بھی مستقل امتحان ہے۔وہ خط میں نے جلا دیا۔چالیس دن گزرنے کے بعد رسول اللہ کا نیا حکم آیا کہ میں اپنی بیوی سے بھی علیحدہ رہوں،چنانچہ میں نے اس کو میکے بھیج دیا کہ جب تک اللہ کے ہاں سے میرا کوئی فیصلہ نہ ہو وہیں ٹھہری رہے۔سب سے بڑی فکر یہ تھی کہ اگر اسی حالت میں موت آ گئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرا جنازہ نہ پڑھیں گے اور فرض کیجیے ،ان دنوں میں آپ کی وفات ہوگئی تو مسلمان یہ معاملہ مجھ سے ہمیشہ رکھیں گے۔میری میت کے قریب بھی کوئی نہ آئے گا۔غرض پچاس دن اسی حالت میں گزرے کہ خدا کی زمین مجھ پر بہت تنگ تھی۔جینا مشکل ہو گیا تھا۔ایک رات آخر شب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ کو اطلاع دی گئی کہ ہماری توبہ قبول ہے۔
آپ نے بعد نماز فجر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مطلع فرمایا۔ایک سوار میری طرف خبر دینے آیا۔میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔لوگ جوق در جوق مبارک باد دیتے تھے۔مہاجرین میں سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہو کر مصافحہ کیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی سے فرمایا:”خدا نے تیری توبہ قبول کر لی ہے۔“میں نے عرض کیا:”اس معافی کی خوشی میں میں اپنا کل مال و جائیداد خدا کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں۔“آپ نے فرمایا:”سب نہیں، کچھ اپنے لیے بھی رکھنا چاہیے۔“چنانچہ میں نے کچھ حصہ رکھ کر باقی مال صدقہ کر دیا۔چونکہ سچ بولنے سے مجھے نجات مل گئی تھی اس لیے عہد کیا کہ خواہ کچھ بھی ہو آئندہ کبھی جھوٹ نہ بولوں گا۔اس عہد کے بعد بڑے سخت امتحانات پیش آئے مگر الحمدللہ میں سچ سے کبھی نہیں ہٹا اور نہ ان شاءاللہ مرتے دم تک ہٹوں گا۔
ان تینوں مسلمانوں پر خدا کی پہلی مہربانی یہ ہوئی کے ایمان و اخلاص بخشا اور کفر سے بچایا۔دوسری مہربانی یہ ہوئی کہ توبہ کی توفیق دے کر پھر اپنی طرف کھینچ لیا اور کوتاہیوں کو معاف کردیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ سچوں کی صحبت اختیار کی جائے اور انہیں جیسے کام کرنے چاہئیں۔ یہ تینوں شخص سچ کی بدولت بخشے گئے اور مقبول ٹھہرے۔منافقین نے جھوٹ بولا اور خدا کا ڈر دل سے نکال دیا اس طرح سزا کے حق دار ٹھہرے۔
۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top