skip to Main Content
حضرت ابراہیم علیہ السلام

حضرت ابراہیم علیہ السلام

 

حضرت ابراہیم علیہ السّلام

طالب ہاشمی

………….

حضرت ہود علیہ السلام اور حضرت صالح علیہ السلام کے تقریباًچار سوسال بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت بڑے پیغمبر ہوئے۔وہ حضرت نوح علیہ السلام کی نسل سے تھے۔وہ آج سے کوئی چار ہزار سال پہلے عراق کے شہر اُر میں پیدا ہوئے۔ان کا لقب خلیل اللہ ہے ۔اسک امطلب ہے ’’اللہ کا دوست‘‘۔وہ سب چیزوں سے منہ موڑ کر ایک اللہ کے ہو رہے تھے۔ اس لئے ان کو ’’حنیف ‘‘بھی کہا جاتاہے۔

نبیوں کے باپ

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ’’ابو الانبیاء‘‘اور ’’جدّ الانبیاء‘‘بھی کہا گیا ہے۔اس لئے کہ ان کے بعد آنے والے تقریباًتمام انبیا ء اور رسول انہی کی اولاد سے ہوئے۔ہمارے رسول پاک ﷺ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے تھے۔
آگ باغ بن گئی

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابراہیم شہر’’اُر‘‘ میں پلے بڑھے اور جوان ہوئے۔عراق کے لوگ اس زمانے میں سورج،چاند ،ستاروں اور بتوں کی پوجا کرتے تھے اور ان کا باد شاہ ’نمرود‘خدا ہونے کا دعویٰ کرتا تھا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو اسلام کی طرف بلایااور سب چیزوں کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ کو ماننے کی ہدایت کی تو وہ تمام ان کے دشمن بن گئے۔انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہت ڈرایا دھمکایا گیالیکن وہ ان کو برابراللہ کی طرف بلاتے رہے۔ایک دن موقع پا کرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے بتوں کو توڑ پھوڑدیا۔اس پر بادشاہ نے ان کو آسمان سے باتیں کرتی ہوئی آگ کے ایک بڑے الاؤ میں ڈال دیا۔اللہ کے حکم سے یہ آگ بجھ گئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے باغ بن گئی۔وہ اس میں سے زندہ سلامت نکل آئے۔
وطن چھوڑ دیا

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس واقعہ کے بعد حضرت ابراہیم ؑ اپنا وطن چھوڑ کر اپنی بیوی حضرت سارہؓ اور بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کے ساتھ شام و فلسطین کی طرف ہجرت کر گئے۔اس علاقے کو اس زمانے میں ’کنعان‘کہا جاتا تھا۔ہجرت کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کوئی اولاد نہ تھی۔چلتے وقت انہوں نے دعا کی کہ ’اے اللہ!مجھے نیک اولاد عطاء فرما۔‘‘
حضرت ہاجرہؓ سے شادی

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کنعان میں ایک بار سخت قحط پڑا توحضرت ابراہیم علیہ السلام مصر تشریف لے گئے۔وہاں انہوں نے ایک شریف مصری خاتون سے شادی کر لی۔ان کی دوسری بیوی کا نام ’’ہاجرہ‘‘ تھا۔بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ مصر کے بادشاہ کی بیٹی تھیں۔کچھ عرصہ بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ کو ساتھ لے کر مصر سے کنعان واپس آگئے۔
دعاء پوری ہوئی

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کنعان میں رہتے رہتے حضرت ابراہم علیہ السلام بہت بوڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کی وہ دعاء پوری کر دی جو انہوں نے وطن چھوڑتے وقت مانگی تھی۔حضرت ہاجرہ سے ان کے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام انہوں نے ’’اسمٰعیل ‘‘رکھا۔
فاران کی وادی

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ابھی دودھ پیتے بچے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے حکم ہوا کہ اسمٰعیل اور ان کی ماں ہاجرہؓ کو فاران کی وادی میں چھوڑ آؤ۔وادی کسی نالے یا دریا کے سیلابی پانی کی گزرگاہ کو بھی کہتے ہیں اور کسی گھاٹی یا دو پہاڑوں کے درمیان کی زمین کوبھی کہتے ہیں۔فاران کی وادی کنعان سے بہت دور عرب کے ملک میں واقع تھی۔

 

ملک عرب

…………

خاص ملک عرب آج کل اس ملک کو کہاجاتاہے جس پر سعودی خاندان کی حکومت ہے اور جو ’’مملکت سعودی عرب‘‘کہلاتا ہے۔یہ ملک بر اعظم ایشیا کے جنوب مغربی گوشے میں پھیلا ہواہے اور دنیا کا سب سے بڑاجزیرہ نما ہے۔اس کے مشرق میں خلیج فارس(ایران کی کھاڑی) مغرب میں بحیرۂ قُلزُم(بحر احمریا لال سمندر)اور جنوب میں بحر ہند(یا بحرِ عرب)ہے۔خشکی پر یہ ملک شمال میں کویت،عراق اور اردن ،اور جنوب میں یمن اور عمان(اومان)کے ملکوں سے ملا ہواہے۔عرب بہت بڑا ملک ہے۔اس کا رقبہ آٹھ لاکھ تہتر ہزار مربع میل ہے۔اس کا زیادہ حصہ ریگستانی ہے۔جگہ جگہ روکھی سوکھی جھاڑیاں،سینکڑوں میل لمبے چوڑے ریگستان(صحرا)اور پتھریلے میدان ملتے ہیں۔ان ریگستانوں میں کہیں کہیں اونچے ٹیلے اور سر سبز وادیاں بھی ہیں۔جن میں چشمے بہتے ہیں اور کھجور،انجیر،انگور اور زیتون کے باغ پائے جاتے ہیں،ان کو نخلستان کہتے ہیں۔نخلستان میں تھوڑی بہت کھیتی باڑی بھی ہوتی ہے۔عرب میں بارش بہت کم ہوتی ہے۔آب وہوا گرم خشک ہے۔ملک میں کوئی دریا نہیں۔البتہ بہت سے چھوٹے چھوٹے ندی نالے ہیں جو سال میں کئی مہینے خشک پڑے رہتے ہیں۔
اونٹ ،گھوڑے اور بھیڑ،بکریاں عرب کے خاص جانور ہیں عربی گھوڑا بہت خوبصورت اور پھر تیلا ہوتا ہے۔عرب کا اونٹ ایک مرتبہ پیٹ بھرکر پانی پی لیتاہے اور کئی دنوں اسے پیاس نہیں ستاتی۔ریتیلے میدانوں میں جہاں گھوڑا نہیں چل سکتا یہ بے تکان اڑا چلا جاتا ہے۔
ملک کے درمیان نجد کا علاقہ ہے جسے چٹیل پہاڑوں اور ریگستانوں نے گھیر رکھا ہے۔اس سے ہٹ کر جو علاقہ بحیرۂ قلزم کے کنارے کنارے لمبائی میں اردن کی سرحد سے شروع ہو کریمن کی سرحد پر ختم ہوتا ہے،حجاز کہلاتا ہے۔اس علاقے میں سر سبز وادیاں اور ریتیلے میدان ساتھ ساتھ پھیلتے چلے گئے ہیں۔فاران کی وادی حجاز ہی کے علاقے میں تھی۔
خدائی چشمہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ کے حکم کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام ننھے اسمٰعیل اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہؓ کو ساتھ لے کر فاران کی وادی میں آئے اور ماں بیٹے کو ایک جگہ ایک درخت کے نیچے چھوڑ دیا۔اس وقت یہ جگہ بالکل ویران اور غیر آباد تھی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کچھ کھجوریں اور پانی کا ایک مشکیزہ حضرت ہاجرہ کو دیااور ان کو خدا کے سہارے پر چھوڑ کروہاں سے چل دیے۔حضرت ہاجرہ نے آگے بڑھ کر ان سے پوچھا’’آپ ہمیں اس ویرانے میں چھوڑ کر کہاں جا رے ہیں؟‘‘انہوں نے فرمایا اللہ کا یہی حکم ہے۔یہ سن کرحضرت ہاجرہ خاموشی سے ننھے اسمٰعیل کے پاس آبیٹھیں ۔جب مشکیزہ کاپانی ختم ہو گیا توماں بیٹے کو پیاس ستانے لگی یہاں تک کہ ننھے اسمٰعیل پیاس کے مارے تڑپنے لگے۔حضرت ہاجرہ بے قرار ہو کرپاس کی پہاڑی ’صفا‘پر چڑھ گئیں کہ کوئی آدمی یا قافلہ نظر آئے تو اس کو مدد کے لئے بلائیں۔مگر جب کوئی نظر نہ آیاتو وہ قریب کی دوسری پہاڑی’مروہ‘پر چڑھ گئیں مگر وہاں سے بھی کوئی نظر نہ آیا۔اس طرح انہوں نے صفا و مروہ پر سات پھیرے کیے۔آخری مرتبہ جب وہ مروہ کی پہاڑی سے اتریں تو انہوں نے دیکھا کہ ننھے اسمٰعیل علیہ السلام کے ایڑیاں رگڑنے والی جگہ پر کچھ نمی نظر آتی ہے۔انہوں نے وہاں سے مٹی ہٹائی تو زمین سے پانی ابل ابل کر نکلنے لگا۔ان کے منہ سے بے اختیار نکلا’’زم زم‘‘جس کا مطلب ہے ٹھہرجا۔چنانچہ اس چشمے کا نام ہی’زم زم‘ مشہور ہوگیا۔حضرت ہاجرہ نے اس کے چاروں طرف مٹی کی منڈیر بنا دی۔ان طرح پانی بہنے سے رک گیا۔اب حضرت ہاجرہ نے خود بھی پانی پیا اور بچے کو بھی پلایا۔پھر اطمینان سے اسے دودھ بھی پلانے لگیں۔
کچھ کتابوں میں یہ بھی لکھاہے کہ اللہ نے اپنے فرشتے جبرئیل ؑ کو بھیجا،انہوں نے زمین پراپنا پر مار کر ’’زم زم‘‘کا چشمہ جاری کیا۔
شہر مکہ کی بنیاد

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ ایک قافلے کا ادھر سے گزار ہوا۔اس قافلے میں قبیلہ جُرہم کے لوگ تھے۔اس بیابان میں پانی دیکھ کر ان لوگوں کی باجھیں کھل گئیں۔انہوں نے حضرت ہاجرہ سے وہاں آباد ہونے کی اجازت چاہی۔انہوں نے اس شرط پر اجازت دے دی کہ چشمے کی مالک وہی رہیں گی اور وہ لوگ ان کی خوراک اور دوسری ضرورتوں کا خیال رکھیں گے۔یوں جرہم کا قبیلہ وہاں آباد ہوگیا۔آہستہ آہستہ ان کی آبادی بڑھتے بڑھتے ایک بڑی بستی کی صورت اختیار کر گئی جسے اللہ نے مکہ کا نام دیا۔آج یہ ایک بڑا شہر ہے اور ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے ہدایت کا مرکز ہے۔خدائی چشمہ زم زم اب تک موجود ہے۔اگرچہ اس کا پانی نیچے اتر کر کنویں کی صورت میں تبدیل ہوچکا ہے۔
پیارے بیٹے کی قربانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کبھی کبھی کنعان سے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی خبر گیری کے لئے مکہ آتے اور کچھ دن ان کے ساتھ ٹھہرتے تھے۔حضرت اسمٰعیل جب ان کے ساتھ دوڑنے کی عمر کو پہنچ گئے تو ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان سے کہا ’’بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں،اب تو بتا،تیرا کیا خیال ہے؟حضرت اسمٰعیل ؑ نے کہا،ابا جان آپ کو جو حکم ہوا ہے وہ کر ڈالیے،اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔جب دونوں نے اللہ کا حکم مان لیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام بیٹے کو آبادی سے باہرمنیٰ کے مقام پر لے گئے اور ان کو ماتھے کے بل گرا کر ان کی گردن پر چُھری رکھ دی۔اس وقت غیب سے اللہ نے ان کو پکارا:’’اے ابراہیم تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نیکی کرنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں(بیٹے کی جگہ مینڈھا رکھ دیاگیااو ر اس کی قربانی ہوگئی)یقینایہ ایک کھلی آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کوچھڑالیا۔‘‘
اسی واقعہ کی یاد گارمیں مسلمان ہر سال عید الاضحی کے موقع پر قربانی کرتے ہیں۔
حضرت اسحق علیہ السلام اور ان کی اولاد

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قربانی کے واقعہ کے کچھ عرصہ بعد اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک اور بیٹا عطا کیاجن کا نام انہوں نے اسحق رکھا۔ان کی والدہ حضرت سارہؓ تھیں۔حضرت اسحق کے بیٹے حضرت یعقوبؑ تھے جن کا لقب اسرائیل تھا۔اس لیے ان کی اولاد ’’بنی اسرائیل‘‘ کہلائی۔بنی اسرائیل میں بہت سے پیغمبر ہوئے۔ان سب کو انبیاءِ بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔حضرت یوسف علیہ السلام،حضرت موسیٰ علیہ السلام،حضرت ہارون علیہ السلام،حضرت داؤدعلیہ السلام،حضرت سلیمان علیہ السلام،حضرت زکریا علیہ السلام،حضرت یحییٰ علیہ السلام اور بہت سے دوسرے انبیاءِ کرام کا تعلق بنی اسرائیل سے ہی تھا۔
دنیا کی پہلی مسجد

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حجرت اسمٰعیل علیہ السلام تقریباً تیس برس کی عمر کو پہنچے توایک دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اچانک مکہ پہنچے اور ان سے فرمایا کہ اللہ نے مجھے یہاں ایک گھر بنانے کا حکم دیاہے،کیا تم اس کام میں میری مدد کرو گے؟
حضرت اسمٰعیل نے کہ’’جی ہاں!میں آپ کی مدد کروں گا۔‘‘چنانچہ ایک جگہ جو ارد گرد کی زمین سے کچھ بلند تھی۔اس پر دونوں باپ بیٹے نے اپنے ہاتھوں سے مسجد کی بنیادیں اٹھائیں۔حضرت اسمٰعیل ؑ پتھر اٹھاکر لاتے اورحضرت ابراہیم علیہ السلام ان کو نصب کرتے جاتے یہاں تک کہ 9ہاتھ اونچی،32ہاتھ لمبی اور 22ہاتھ چوڑی کچے فرش کی یہ مسجد بن کر تیار ہوگئی۔اس مسجد کا نام خانۂ کعبہ اور بیت اللہ یعنی’’اللہ کا گھر‘‘رکھا گیا۔اللہ پاک کا کوئی جسم نہیں ہے کہ وہ کسی گھر کے اند رہے۔وہ ہر جگہ موجود ہے۔’’اللہ کا گھر‘‘کا مطلب وہ خاص جگہ ہے جہاں اللہ کی عبادت کی جائے۔
پاک باپ بیٹے کی دُعاء

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام خانۂ کعبہ کی بنادیں اٹھا رہے تھے تو دعاء کرتے جاتے تھے کہ’’ اے ہمارے پروردگارتو ہماری اس کوشش کو قبول فرما،تو سب کچھ سنتا اور جانتا ہے،پروردگار تو ہم دونوں کو اپنا فرماں بردار بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا جو تیری اطاعت کرنے والی ہو اور ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتااور ہم پر رحمت کی نظر رکھ کہ تو بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔پروردگار تو ان لوگوں میں انہی کی قوم سے ایک رسول بھیجناجو ان کو تیری آیتیں سنائے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دے اور ان کے دلوں کو پاک کرے یقیناًتو بڑی قوت اور بڑی حکمت والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان پاک باپ بیٹوں کی دعا قبول فرمائی۔حضرت ابراہیم ؑ کو حکم ہوا کہ لوگوں میں حج کا عام اعلان کردو کہ لوگ یہاں پیدل یا سواری پر دور اور نزدیک سے آئیں،بیت اللہ کے گرد پھریں اور جانوروں کی قربانی کریں۔چنانچہ حج اسلام کا بنیادی رکن قرار پایا اور اس کی قبولیت کے لیے حضرت ہاجرہ کی طرح صفا و مروہ کے ساتھ پھیرے لگانا بھی ضروری شرط قرار پائی۔اس طرح اللہ نے خانہ کعبہ کو ساری دنیا والوں کے لئے ہدایت کا مرکز بنا دیا۔
اس واقعہ کے چند سال بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک سو پچھتر سال کی عمر میں وفات پائی۔ان کا مزار فلسطین کے شہر بیت المقدّس کے قریب ایک گاؤں حبرون میں موجود ہے۔آج کل اس جگہ کا نام’’الخلیل‘‘ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی دعاء کا آخری حصہ اس طرح پورا ہو اکہ تقریباً اڑھائی ہزار سال بعد ان کی اولاد سے اللہ کے آخری نبی ہمارے رسول پاک ﷺ دنیا میں تشریف لائے اور دین اسلام ہمیشہ کے لئے مکمل ہو گیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top