skip to Main Content

زندگی کے کسی موڑ پر

اشتیاق احمد
۔۔۔۔۔۔

اس عظیم الشان کوٹھی کے سامنے پہنچ کر اس نے سکون کا سانس لیا۔اسے محسوس ہوا، وہ اپنی منزل پر پہنچ گیا ہے۔دل میں خوش گوار دھڑکنوں کے ساتھ اس نے گھنٹی کے بٹن پر انگلی رکھ دی۔دور گھنٹی بجنے کی مدھم سی آواز سنائی دی۔اس کے تین منٹ بعد دروازہ کھلا۔سادہ سے لباس والے ایک شخص کی صورت نظر آئی۔اس نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا:
”جی جناب!فرمائیے۔“
اس کا انداز ایسا تھا کہ جی چاہا بغیر کچھ کہے واپس مڑ جائے،لیکن وہ ملازم تھااور اسے ملنا کوٹھی کے مالک سے تھا۔اس کے بارے میں تو وہ جتنا جانتا تھا،اتنا اپنے بارے میں بھی نہیں جانتا تھا،چنانچہ اس نے پر سکون لہجے میں کہا:
”مجھے سیٹھ فخرالدین صاحب سے ملنا ہے۔وہ مجھے بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔“
”سیٹھ فخرالدین !غلط جگہ آگئے ہو نو جوان۔یہ کوٹھی سیٹھ فخر الدین کی نہیں،سیٹھ حاکم خاں کی ہے۔“
”سیٹھ حاکم خاں؟“وہ حیرت زدہ انداز میں بڑبڑایا۔
”ہاں!سیٹھ حاکم خاں مالک ہیں اس کے۔“
یہ کہہ کر وہ جانے کے لیے مڑا، اسی وقت اس نے جلدی سے کہا:
”سیٹھ حاکم خاں،سیٹھ فخرالدین کے بیٹے ہوں گے،اگر ایسا ہے تو ان کے بچے بھی مجھے بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔آپ بس انہیں بتا دیں، عبداللہ بھائی آیا ہے۔“
”وہ کیسے بتادوں!وہ مجھ پر بگڑیں گے،اس لیے کہ سیٹھ حاکم خاں کے والد محترم کا نام سیٹھ عالم خاں تھا اور وہ کب کے اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔“
”حیرت ہے،یہ سیٹھ حاکم خاں کب سے اس کوٹھی کے مالک ہیں؟“
”یہ مجھے معلوم نہیں۔“
یہ کہہ کر وہ پھر مڑنے لگا۔ایسے میں اندر کار کا ہارن گنگنا اٹھا۔اس کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار نمودار ہوگئے۔اس نے فوراً گیٹ کھول دیا۔اندر سے فوراً چم چم کرتی ،ایک کار باہر نکلنے لگی۔ملازم کا ہاتھ سیلوٹ کے انداز میں اٹھ گیا۔کار چلانے والے کی نظر اس پر پڑی تو اس نے کار روک لی۔شیشہ نیچے کرتے ہوئے اس نے کہا:
”کیا بات ہے نوجوان؟“
”انہیں کسی سیٹھ فخرالدین سے ملنا ہے۔غلط آگیا ہے بے چارہ،میں نے بتا دیا ہے،یہاں سیٹھ فخرالدین نہیں،سیٹھ حاکم خاں رہتے ہیں۔“
”اوہ!!“سیٹھ حاکم خاں کے منہ سے نکلا،پھر بولے:”یہ ٹھیک ہے، یہ کوٹھی سیٹھ فخرالدین ہی کی تھی۔“
”جی۔۔۔۔کیا کہا!آپ نے!“ملازم کے منہ سے مارے حیرت کے نکلا۔ادھر عبداللہ بھائی کے چہرے پر رونق آگئی۔وہ جلدی سے بولے:”اب پھر؟“
”مدت ہوگئی۔وہ یہ کوٹھی فروخت کرکے یہاں سے چلے گئے۔“
”چلے کہاں گئے۔“
”شہر کے مضافات میں انہوں نے ایک چھوٹا سا مکان خرید لیا تھا۔اب بھی وہیں رہتے ہوں گے۔“
”کیا۔۔۔۔کیا آپ ان کا پتا مجھے بتا سکتے ہیں! آپ کا احسان ہوگا۔“
”شام میں کسی وقت آجائیں، میں پتا دیکھ کر بتا دوں گا۔“
”جی اچھا!“ اس کے منہ سے نکلا۔
کار آگے بڑھ گئی،وہ وہیں ایک طرف کھڑ ارہ گیا۔جب وہ جانے کے لیے نہ ہلا تو ملازم نے کہا:
”جاﺅ میاں!کہہ دیا انہوں نے،شام کو آجانا۔“
”جاﺅں گا کہاں!میں تو اس شہر میں مسافر ہوں۔یہیں دروازے کی ایک طرف بیٹھ جاﺅں گا۔“
دروازے کے باہر پودے لگے ہوئے تھے۔گھاس بھی اگائی گئی تھی۔وہ گھاس پر بیٹھ گیا۔اب ملازم کو بھی اس پر ترس آگیا۔وہ بولا:
”اگر ایسا ہے تو تم اندر آکر بیٹھ جاﺅ۔“
”شکریہ جناب!بہت بہت شکریہ۔“یہ کہتے ہوئے اس کا دل بھر آیا۔
کوٹھی کی چاروں طرف پھول دار درخت اور پودے اپنی بہار دکھا رہے تھے۔گھاس کی موٹی تہہ جمی تھی۔وہ اندر آکر گھاس پر بیٹھ گیا۔
”پانی پیو گے میاں!“
”آپ کی مہربانی ،اگر پلادیں۔“
ملازم اسے پانی کا گلاس دے کر چلا گیا۔اسے تین گھنٹے تک انتظار کرنا پڑا۔پھر کہیں جا کر کار کا ہارن سنائی دیا۔وہ جلدی سے اٹھ بیٹھا۔ادھر ملازم کے باہر آنے میں قدرے دیر ہو گئی،لہٰذا اس نے آگے بڑھ کردروازہ کھول دیا۔سیٹھ حاکم خاں کی اس پر نظر پڑی تو انہوں نے حیران ہو کر کہا:
”یہ کیا،آپ ابھی تک یہیں ہیں یا دوبارہ آئے ہیں؟“
”جی، میں یہیں ہوں۔دراصل میں مسافر ہوں۔کہاں جاتا،بس یہیں بیٹھ گیا۔“
”اچھی بات ہے۔میں پتا لاکر دیتا ہوں۔“
”بہت بہت شکریہ۔“
”کچھ کھایا پیا!“
”جی۔۔۔جی ہاں۔“اس نے جلدی سے کہا اور سیٹھ صاحب آگے بڑھ گئے۔
پندرہ منٹ بعد ملازم ایک کاغذ پر لکھا پتا لے آیا۔کاغذ اسے دیتے ہوئے اس نے کہا:
”تمہارا شکریہ میاں!“
”جی۔۔۔کیسا شکریہ؟“
”تم نے سیٹھ صاحب کو بتایا کہ تم نے یہاں کچھ کھایا پیا،میں ان کی جھاڑ سے بچ گیا۔“
”اس میں کچھ جھوٹ بھی تو نہیں۔“وہ مسکرایا۔
لکھے ہوئے پتے پر ایک نظر ڈال کر اس نے ملازم سے ہاتھ ملایا اور گیٹ کی طرف بڑھا۔ایسے میں سیٹھ حاکم آتے نظر آئے۔وہ رک گیا کہ ان کا شکریہ ادا کرتا جائے۔سیٹھ حاکم خاں نے نزدیک آنے پر کہا:
”جب سیٹھ فخرالدین یہاں سے گئے تھے تو اپنا پتا اسی نیت سے لکھوا گئے تھے کہ کوئی ان سے ملنے کے لیے آئے تو اسے پتا بتا دیا جائے۔ خاص طور پر انہوں نے کہا تھا،ایک نوجوان عبداللہ بھائی ملنے کے لیے آئے تو اسے ضرور پتادیا جائے۔“
”جی۔۔۔جی۔۔۔۔ میرا نام ہی عبداللہ بھائی ہے۔“
”اچھا۔۔۔اچھا۔۔۔“
”آپ کا بہت بہت شکریہ!اب میں چلتا ہوں۔“
”آپ کو ان سے کام کیا ہے؟“
”میرا ان سے بہت پرانا ملنا ملانا ہے۔دراصل میرے والد ان کے ہاں مالی تھے۔تمام زندگی وہ انہی کے ہاں ملازمت کرتے رہے،یہاں تک کہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔“
”ہوں!میں سمجھ گیا۔“
اس نے سیٹھ صاحب سے ہاتھ ملایا اور باہر نکل آیا۔پتا پوچھتے پوچھتے ،آخر کار وہ سیٹھ فخرالدین کے گھر پہنچ گیا۔
اس نے دیکھا، وہ ایک بالکل چھوٹا سا مکان تھا،وہ بھی شہر کے ایک سرے پر،اور یہاں تمام مکانات اسی قسم کے تھے۔گویا بہت غریب لوگوں کی بستی تھی۔اس کی حیرت بڑھتی جا رہی تھی۔آخر اس نے دھک دھک کرتے دل کے ساتھ دروازے پر دستک دے ڈالی۔جلد ہی دروازہ کھلا اور ایک نوجوان باہر نکلا۔اس کے جسم پر بہت معمولی قسم کالباس تھا۔
”جی فرمائیے!“
”سیٹھ فخرالدین یہیں رہتے ہیں نا؟“اس نے پوچھا۔
”فخرالدین ضرور یہاں رہتے ہیں،سیٹھ فخرالدین نہیں۔“نوجوان اداس انداز میں مسکرا دیا۔
”میرا نام عبداللہ بھائی ہے۔“
”اوہ!“نوجوان کے منہ سے مارے حیرت کے نکلا،پھر اس نے کہا:
”اباجان!اکثر آپ کا اور آپ کے والد کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔میں انہیں بتاتا ہوں۔“
”بہت بہت شکریہ۔“
تھوڑی دیر بعد نوجوان باہر نکلا۔اس نے کہا:”آئیے۔“
وہ اس کے پیچھے اندر داخل ہوا۔مکان بہت چھوٹا سا تھا،اس کے صرف تین کمرے تھے۔وہ سامنے کمرے میں داخل ہوئے۔اس نے دیکھا، سیٹھ فخرالدین بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔وہ بہت کمزور نظر آرہے تھے۔اس پر نظر پڑتے ہی وہ مشکل سے اٹھ کر بیٹھ گئے۔
”السلام علیکم سیٹھ جی!“
”عبداللہ بھائی!یہ تم ہو،اتنی مدت بعد آئے تومیں سمجھا تھا،تم بھی مجھے بھول گئے ہو۔“
”میں آپ کو کیسے بھول سکتا ہوں۔میرا سارا بچپن آپ کے پاس گزرا ہے۔آپ کی عنایات،آپ کی نوازشات اور آپ کی مہربانیاں، سب مجھے اس طرح یاد ہیں،جیسے وہ بس کل کی بات ہے۔لیکن سیٹھ جی!یہ ہوا کیا؟آپ اور اس چھوٹے سے گھر میں۔وہ کوٹھی کیوں بیچ دی آپ نے،وہ کارخانہ کیا ہوا؟“
”وہ۔۔۔وہ سب کچھ ختم ہو گیا۔کاروبار میں اچانک نقصان شروع ہو گیا۔میں نے اسے سنبھالا دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا،لیکن گرتے ہوئے کاروبار کو سنبھال نہ سکا۔یہاں تک کہ نقصان پہ نقصان نے اس حد تک پہنچا دیا کہ کارخانہ فروخت کردیا۔یہ سب نہ ہوتا اگر ۔۔۔۔“
”اگرکیا؟“
”اگر میں نے اپنے بچوں کی تعلیم کی فکرکی ہوتی۔میں نے ان کی تعلیم کی طرف کوئی دھیان نہ دیا۔ہمیشہ یہ سوچا،ہمارے پاس اتنی دولت ہے۔اپنا کاروبار سنبھالیں گے لہٰذا یہ واجبی تعلیم حاصل کرکے رہ گئے۔لیکن جب کاروبار تباہ ہوا،کوٹھی فروخت ہو گئی تب پتا چلامجھے،کہ کس قدر خوف ناک بھول ہوئی ہے۔لیکن اب کیاہو سکتا تھا۔چڑیاں کھیت چگ گئیں۔لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے،اب میرے چاروں بیٹے محنت مزدوری کرتے ہیں۔“
”نن۔۔۔۔نہیں۔“وہ حیران رہ گیا۔
عبداللہ بھائی کو اپنی آواز کسی گہرے کنویں سے آکر سنائی دی۔
ادھر سیٹھ فخرالدین کہہ رہے تھے:
”تم نے اپنے بارے میں نہیں بتایا۔کیا کر رہے ہو۔اتنی مدت بعد میرا خیال کیسے آگیا؟“
”وہ بس خیال تو آتا ہی رہا ہے۔ان دنوں آپ کچھ زیادہ ہی یاد آنے لگے تھے۔اس لیے چلا آیا۔آپ کی کوٹھی پہنچا،وہاں آپ کے بجائے سیٹھ حاکم خاں سے ملاقات ہوئی۔ان سے پتا لے کر یہاں آنے میں کامیاب ہوسکا۔“
”سچ پوچھو تو عبداللہ بھائی!اپنا پتا میں نے انہیں تمہارے لیے ہی دیا تھا۔میں جانتا تھا،کبھی نہ کبھی تم ضرور ملنے کے لیے آﺅ گے۔زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر تم سے ضرور ملاقات ہوگی۔“
”ہاں سیٹھ جی!“
اسی وقت سیٹھ صاحب کا بیٹا ایک ٹرے میں چائے کے دوکپ اٹھائے اندر داخل ہوا۔اس نے ٹرے ان کے سامنے رکھ دی۔خالی چائے کو دیکھ کر عبداللہ کا دل بھر آیا۔یہ تووہ سیٹھ صاحب تھے،چائے کے ساتھ کیک اور بسکٹ ضرور اس کے لیے منگواتے تھے۔اس کی ہر آن مدد کیا کرتے تھے۔اسے جب بھی کوئی مسئلہ پیش آتا،وہ ان کے پاس چلا آتااور سیٹھ صاحب چٹکی بجاتے اس کا مسئلہ حل کردیتے۔اسے تو تعلیم بھی انہوں نے ہی دلوائی تھی اور اب وہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان تھا۔ایک دفتر میں ملازم تھا۔تنخواہ زیادہ تو نہیں تھی،لیکن اپنے پاﺅں پر کھڑا تھا۔گھر کی گزر بسر اب اسی کے ذمے تھی او ر وہ اس ذمے داری کوبہت خوبی سے نبھا رہا تھا۔اب وہ ان سے کہہ رہا تھا:
”سیٹھ جی!وہ دن بھی کیا خوب دن تھے،جب آپ مجھ پر احسانات کی بارش کیا کرتے تھے۔کسی سلسلے میں مجھے پریشان نہیں ہونے دیتے تھے۔آپ کے مجھ پر اتنے احسانات ہیں،اتنے احسانات ہیں کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔کاش میں آپ کے کسی کام آ سکتا۔آج نہیں تو کل ان شاءاللہ اس قابل ضرور ہوجاﺅں گا کہ آپ کی کچھ خدمت کر سکوں۔“
”نہیں نہیں، تم اس طرح سے نہ سوچو۔ہمارا گزارا بہت آسانی سے ہو رہا ہے۔کیا ہوا،جو وہ کوٹھی نہ رہی،وہ کارخانہ نہ رہا،عزت کی روٹی تو مل رہی ہے۔بس تم اس طرح سے نہ سوچو۔“
”اچھی بات ہے۔میں اس طرح نہیں سوچوں گا۔بہرحال آپ کا مجھ پر بہت احسان ہے اور میں چاہتاہوں،میں کسی نہ کسی صورت آپ کے کام آﺅں۔“
”میں نے کہا نا،بس تم ایسی باتیں نہ سوچو۔“وہ بولے۔
”اچھا سیٹھ جی!میں اب چلوں گا۔“
”نہیں تم آج رات میرے ہاں رہو گے۔صبح چلے جانا۔“
”آپ کو میری وجہ سے زحمت ہوگی۔“
”بالکل نہیں ہوگی۔ہاں، بس میں نے کہہ دیا ہے۔“
اور وہ رات اس نے وہاں بسر کی۔رات کھانے میں دال روٹی تھی۔صبح ناشتہ بہت سادہ تھا۔چائے اور خشک ڈبل روٹی کا ناشتہ۔اس کے بعد وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
”تم ایسے نہیں جا سکتے۔“انہوں نے نفی میں سر ہلایا۔
”جی کیا مطلب؟“
”میں نے کہا،تم ایسے نہیں جا سکتے۔“وہ دھیرے سے مسکرائے۔
”میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔“
”تم بہت چھوٹے سے تھے،جب بھی اپنے بابا کے ساتھ کوٹھی آیا کرتے تھے،تو یاد ہے میں کیا کیا کرتا تھا۔“
”یہ بھی کوئی بھولنے کی بات ہے، آپ کئی طرح کے پھل ،میٹھی چیزیں اور کھلونے مجھے تحفے میں دیا کرتے تھے اور کتابوں اور کاپیوں کا خرچ بھی آپ دیتے تھے۔یہ باتیں بھی کوئی بھولنے کی ہیں۔“
”بھولنے کی ہیں تو نہیں،لیکن تم بھلائے دے رہے ہو۔“وہ پھر مسکرائے۔
”جی۔۔۔آپ۔۔۔آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟“
”یہ کہ میں جاننا چاہتا ہوں،اتنی مدت بعد میری یاد کیسے آگئی؟“
”میں نے بتایا تو ہے۔“
”ملنے کو دل بہت چاہ رہا تھا۔بار بارآپ یاد آرہے تھے۔ویسے سچ یہ ہے کہ آپ کو ہمیشہ ہی یاد کرتا رہا ہوں۔زندگی کے کسی موڑ پر بھی میں بھول نہیں پایا۔بس اسی لیے چلا آیا۔“
”نہیں تو۔“وہ بولے،”بے شک تم مجھے ہمیشہ یاد رکھتے رہے ہو۔اس وقت جو مجھ سے ملنے کے لیے آئے ہو ناتو اس کی وجہ کچھ اور ہے۔“ اس مرتبہ ان کی مسکراہٹ میں بہت اپنائیت تھی۔
”کیا۔۔۔کیا مطلب؟“
”یہ مطلب تو تم مجھے بتاﺅ گے بھئی۔“
”میں کیا بتاﺅں!“اس کا انداز عجیب سا ہو گیا۔
”وہ بتاﺅ!جو تم بتانے کے لئے آئے تھے۔ہمارے حالات دیکھ کر بغیر کچھ بتائے جا رہے ہو۔میں تمہیں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔تم لاکھ چھپاﺅ ، میں تمہارے دل کی کیفیت کو سمجھ رہا ہوں،لہٰذا جو بات ہے،بے دھڑک بتا دو۔“
”لیکن سیٹھ جی!اس کا کیا فائدہ۔“
”بھئی کوئی فائدہ ہو،نہ ہو،دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔“
”رہنے دیں،سیٹھ جی اور اب مجھے اجازت دیں۔“اس نے پھر اٹھتے ہوئے کہا۔
اسی وقت سیٹھ فخرالدین نے اس کی کلائی پکڑلی،اور بولے:
”میں تمہیں اس طرح نہیں جانے دوں گا۔آخر میرا بھی تم پر کچھ حق ہے۔“
”میں بتا تو چکا ہوں سیٹھ جی!بس آپ سے ملنے کے لیے دل بے قرار ہوا۔میں گھر سے نکل کھڑا ہوا۔“
”میں اس بات کو نہیں مانتا۔تم بے دھڑک بتا دو۔ٹھیک ہے میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکوں گا۔کوئی بات نہیں ۔ایک دو سرے کے حالات تو معلوم ہو جائیں گے۔“
”اچھی بات ہے،آپ کی مرضی۔امی جان نے چھوٹی بہن کی شادی کی تاریخ دے دی ہے۔بس اس سلسلے میں کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔ یوں تو ہماری گزر بسر بہت اچھی طرح ہورہی ہے۔چھوٹے بھائی بھی اب بہت جلدسرکاری دفتر میں ملازم ہو جائیں گے۔اس وقت ہمارے حالات اور بہتر ہوں گے، یہ تو بس بہن کی وجہ سے۔۔۔“وہ کہتے کہتے رک گیا۔
”میں پہلے ہی یہ اندازہ لگا چکا تھا۔“سیٹھ صاحب مسکرائے۔
”اب مجھے اجازت دیں۔“
”نہیں بھئی۔اس طرح تو میں تمہیں اجازت نہیں دوں گا۔ٹھہرو،میں ابھی آیا۔“
یہ کہہ کر وہ دوسرے کمرے میں چلے گئے۔جلد ہی ان کی واپسی ہوئی۔ان کے ہاتھ میں سونے کے زیورات تھے۔وہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولے:
”انہیں بیچ کر اپنا کام چلا لو۔میری بیوی کے اچھے وقتوں کے زیور ہیں۔حالات خراب سے خراب ہو گئے تھے،لیکن یہ زیور اس نے پھر بھی فروخت نہیں کرنے دئیے تھے۔وہ دروازے سے لگی ہماری باتیں سن رہی تھی،جوں ہی میں کمرے میں داخل ہوا،اس نے زیور اتار کر میرے ہاتھ میں تھما دئیے۔مجھے اس سے کچھ بھی نہیں کہنا پڑا۔“یہ کہتے ہوئے سیٹھ صاحب کی آواز بھراگئی۔
”نن۔۔نہیں،وہ چلا اٹھا۔“اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اورٹپ ٹپ گرنے لگے۔
سیٹھ صاحب نے زیور اس کی جیب میں ڈال دیا اور وہ ان کے گلے سے لگ کر سسک سسک کر رونے لگا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top