وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے
وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے
چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے
……..
آخر کار سردی آہی گئی۔ ویسے کراچی میں سردی آتی ہی کتنے دن کے لیے ہے۔۔۔بستر سے اُٹھے، الماری سے کمبل نکالا اورواپس بستر تک پہنچتے پہنچتے سردی غائب۔ میرا دل تو چاہتا ہے سردی واپس ہی نہ جائے ۔پورا سال کراچی میں گزارے۔یہ تو تھی ہماری خواہش۔اس کے بالکل برعکس ہماری آپی جان کی خواہش ہے۔ وہ تو کراچی کی سردی میں ہی مری جانے لگتی ہیں۔یعنی ان سے کراچی کی سردی ہی برداشت نہیں ہوتی ۔ وہ سڑی ہوئی گرمی کو تازہ سردی سے بہتر سمجھتی ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے۔جب ہم دونوں سردی اور گرمی کا موازنہ کر رہے تھے تو بابا جان نے ہماری بحث سُن لی اور اپنی پسند بتائی۔معلوم ہے بابا جان کو کیا پسند ہے؟ باباجان جس طرح ہم دونوں ہی بچوں سے پیار کرتے ہیں اسی طرح اُنھیں سردی اور گرمی دونوں ہی پسند ہیں۔ مجھے اُن کی بات عجیب لگی۔ جب میں نے اُن کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ گویا ہوئے: ’’ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیابہترین حکمت کے ساتھ انسان کے (یعنی ہمارے )لیے بنائی ہے۔ اس کے ہر کام میں توازن قائم ہے۔ اس نے سردی کے ساتھ گرمی بنائی۔ اگر سارا سال سردی رہے تو تمھیں سردی زہر محسوس ہونے لگے گی۔ اسی طرح اگر گرمی آکر ٹھہر جائے تو ایک سال سے پہلے ہی تم اسے تنگ آکر بھگانا چاہو گے۔ اللہ نے مرد کے ساتھ عورت کو بنایا۔ آگ بنائی تو اسے بجھانے کے لیے پانی بھی بنایا۔ اندھیرا بنایا تو اسے مٹانے کے لیے روشنی بھی بنائی۔ دھوپ بنائی تو سایہ فراہم کرنے کے لیے درخت بھی بنایا۔ ایسی ہی بہت ساری مثالیں مجھ سے زیادہ یاد کر کے تم دونوں اپنی کاپی میں لکھ سکتے ہو۔‘‘ابو کی بات ختم ہوئی توبھائی جان کی آواز آئی۔’’ایک مثال کے طور پر تم علامہ اقبال کا یہ شعر بھی لکھ لینا۔۔