skip to Main Content

باب اول: اردو ادب اور ادب اطفال

باب اول
اردو ادب اور ادب اطفال

اردو ادب اور ادب اطفال:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اسے قوت گویائی بخشی ۔زبان کا استعمال کرکے اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرنا انسان کا وہ امتیاز ہے جو اسے دیگر جانداروں پہ فوقیت دلاتا ہے۔جب سے انسان زمین پر آباد ہوا ہے تب سے زبان اور بول چال ہی باہمی رابطے کا ذریعہ ہیں کیوں کہ لکھنے کا دستور تو بہت بعد میں پڑا۔انسانی بول چال کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات ایک انسان کے کہے گئے یا بولے گئے فقرے دوسرے انسان پہ بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں، انسان ان فقرات سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے اور اسے شادمانی کے احساسات نے گھیر رکھا ہوتا ہے جبکہ بعض اوقات ایسا نہیں ہوتا بلکہ بول چال میں دیا گیا پیغام صرف ابلاغ کا کام کرتا ہے اور بس۔اسی طرح جب ہم پر جوش ہوں یا جذبات و احساسات کی وادیوں میں ہوں اور خوشی کی کیفیت میں ڈوبے ہوئے ہوں تو ہمارا انداز تکلم عام انداز سے مختلف ہوتاہے۔اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ مافی الضمیر کے اظہار کے دو انداز ہیں :۔
1۔ سادہ اسلوب۔
2۔ رنگین اسلوب۔
یہ دوسرا اسلوب ’’ادب ‘‘کہلاتا ہے۔کیوں کہ اس اسلوب میں انسانی جذبات و احساسات کا عنصر زبان و بیان کو پررونق بنادیتا ہے، اس بات کی وضاحت کے لیے ڈاکٹر اطہر پرویز صاحب کی کتاب ’’ادب کسے کہتے ہیں‘‘سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں :۔
’’آپ شام کے وقت دریا کی سیر کو جائیں، چاند نکلا ہوا ہو تو چاند کاعکس ندی میں دیکھ کر آپ کیا کچھ محسوس نہیں کریں گے، اس با ت کو اگر زبان سے ادا کیا جائے تو اس کے دو طریقے ہوںگے، پہلا طریقہ تو یہ ہوگا کہ آپ کہیں گے ’چاند کا عکس ندی میں پڑ رہا ہے‘۔دوسرا طریقہ یہ ہوگا:’ تم ندی میں جا کر دیکھو جب ندی میں نہائے چاند ‘۔اس وقت آپ دیکھیں گے کہ پہلا طریقہ اس کیفیت کو ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے، بلکہ اس میں ایک سچائی کو سیدھے سادے طریقے سے بیان کیاگیا ہے۔ دوسراطریقہ زیادہ بہتر ہے ،کیوں کہ اس میں اس کیفیت کا اظہار ہے جو آپ کے دل پر گزررہی ہے۔‘‘(1)
دیکھیے ڈاکٹر اطہر پرویز نے بھی مافی الضمیر کے اظہار کے دو طریقوں کی نشاندہی کی ہے اور ان میں سے ایک طریقے کو دلی کیفیات کا آئینہ دار قرار دیا ہے، یہی طریقہ ’’ادب ‘‘کہلاتا ہے۔اس طریقہ میں صرف اظہار نہیں ہوتا بلکہ اظہار کے ساتھ ساتھ جذبات واحساسات بھی شامل ہوتے ہیں۔
ادب کے بارے میں مندرجہ بالا گفتگو سے یہ نکات سامنے آتے ہیں کہ :۔
(1) ادب انسانی خیالات کا اظہار ہوتا ہے۔
(2) ادبی خیالات میں جذبات و احساسات بھی ہوتے ہیں۔
(3) یہ خیالات روزمرہ کے عام خیالات سے مختلف ہوتے ہیں۔
4) (یہ ادبی اظہاریہ انسان کو مسرت اور روحانی تسکین فراہم کرتا ہے۔
ڈاکٹر اطہر پرویز ایک اور جگہ پرلکھتے ہیں:۔
’’ اس ادبی طریقے کی تعریف کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ طریقہ وہ ہے جس میں روزمرہ کے خیالات سے زیادہ بہترخیالات اور روزمرہ کی زبان سے بہتر زبان کا استعمال ہوتا ہے۔یہ طریقہ آج کا طریقہ ہی نہیں ہے بلکہ پرانے زمانے میں بھی جب لوگ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، وہ ایک دوسرے سے جب اپنی بہادری کے کارنامے بیان کرتے ہوں گے، کہانیاںکہتے ہوں گے، پریوں کی داستانیں بیان کرتے ہوں گے، اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوں گے تو اس کے لیے جوزبان استعمال کرتے ہوں گے وہ روزمرہ کی زبان سے یقیناً مختلف ہو گی۔‘‘(2)
مندرجہ بالا اقتباس سے ادب کی ابتدائی شکل کا تصور بھی سامنے آتا ہے کہ جب تک بول چال اور زبان کو تحریر کا لباس نہیں ملا تھا تب تک ادب ایک زبان سے دوسری زبان، ایک سینے سے دوسرے سینے اور ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتا آیا جسے عرف عام میں’’لوک ادب ‘‘کہا جاتا ہے۔ بعد میں انسان نے تحریر پہ قدرت حاصل کی اور ان خیالات کو تحریری صورت میں محفوظ کیا ۔
ادب کے بارے میں مزید تفہیم کے لیے ہم لغات کا سہارا لیتے ہیں۔ اردو میں فیروز اللغات کے مطابق لفظ ’’ادب ‘‘کے معانی درج ذیل ہیں:۔
’’ادب:(1)ہر چیز کی حد کو نگاہ رکھنا2))حفظ مراتب- سی کی بزرگی یا عظمت کا پاس (3)تہذیب، شائستگی،تمیز،احترام۔ (4) علم زبان جس میںنحو، لغت، عروض، انشا، معانی اور بیان وغیرہ داخل ہیں۔(5) زبان کا سرمایہ(لٹریچر) ۔ ‘‘ (3)
مندرجہ بالا حوالہ کی روشنی میں ہمیں ادب کے دیگر معانی کا علم بھی ہوا ہے کہ ادب کا ایک معنیٰ کسی کی عظمت کا لحاظ کرنا بھی ہے، جسے ہم عرف عام میں’’ادب کرنا‘‘ کہتے ہیں۔اور تہذیب و شائستگی کو بھی ادب کہا جاتا ہے جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تہذیب و شائستگی کے حامل افراد کے لیے کہا جاتا ہے’’بہت ادب والے ہیں‘‘۔اس کے علاوہ وارث سرہندی صاحب نے اپنے مرتب کردہ ’’علمی اردو لغت ‘‘میں لفظ ادب کے ذیل میں لکھا ہے :۔
’’(1)عادات و مذاق میں اعلیٰ معیار یا اخلاقی اصول کی پابندی۔شائستگی، تہذیب ، تمیز۔ (2) کسی کی عظمت یا بزرگی کا پاس، حفظ مراتب، احترام- (3)نظم و نثر اور ان کے متعلقات۔(4)زبان کا سرمایہ لٹریچر۔(5)پسندیدہ طریقہ، ڈھنگ، قاعدہ، ضابطہ، سلیقہ-(6)تہذیب جو ایک قوم کو دوسری قوم سے ممتاز کرے، دھتکارنے کی آواز(کتے کو ہٹانے اور قرینے سے بٹھانے کے لیے تادیباً کہتے ہیں)،(7) حیا و شرم – (8) عجز و نیاز، خاکساری، فروتنی۔‘‘(4)
وارث سر ہندی نے لفظ ادب کے عہد بعہد استعمالات کو بیان کیا ہے، کیوں کہ یہ لفظ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا آیا ہے جیسا کہ اوپر اقتباس سے واضح ہے لیکن اب عرف عام میں اس کا استعمال علمی وادبی تحاریر کے لیے ہے۔
اردو کے بعد انگریزی لغت سے لفظ ادب کے بارے میں پڑھتے ہیں۔انگریزی زبان میں ادب کے لیے لفظ Literature استعمال ہوتا ہے، انگریزی کا یہ لفظ لاطینی لفظ Litteraturaسے ماخوذ ہے۔
وکیپیڈیا پر اس کے بارے میں یہ لکھا ہے :۔
”literature is a group of works of art made up of words. Most are written, but some are passed on by word of mouth. Literature usually means works of poetry and prose that are especiallywell written. There are many different kinds of literature such as poetry, plays, or novels. They can also be put into groups through their language, historical period, origin, genre, and subject. The word literature comes from the Latin word learning,writing, grammar.”( 5)
لٹریچر یعنی ادب کی اس انگریزی تعریف کا مطلب سادہ لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے :۔
’’ادب الفاظ کو ملا کر فن پارہ مرتب کرنے کا فن ہے ۔ یہ کبھی توتحریری صورت میں ہوتا ہے جبکہ کبھی تقریری صورت میں گویا بول چال کو بھی ادب کہہ سکتے ہیں۔ادب کا مطلب عام طور پرشعر اور نثر لیا جاتا ہے۔ ادب کی ذیلی اقسام بہت سی ہیں، جیسے نظم ، ڈرامہ یا ناول۔ ادب کو زبان ، تاریخی دور ، اصلیت ، نوع اور مضمون کے لحاظ سے بھی کئی اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔لفظ ادب لاطینی کے لفظ ’’سیکھنا ، لکھنا اور قواعد‘‘ سے ماخوذ ہے-‘‘(ترجمہ راقم)
اردو اور انگریزی کے بعد عربی لغت سے لفظ ادب کے معانی تلاش کرتے ہیں کیونکہ عربی دنیا کی قدیم زبانوں میں سے ایک ہے۔ عربی گرائمر کے مطابق لفظ’’ادب ‘‘ثلاثی مجرد کے ابواب سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ لفظ ’’اد ب ‘‘ باب’’ ضَرَبَ ‘‘سے بھی استعمال میںآتا ہے اور ’’کَرُمَ ‘‘سے بھی ، باب ’’ضَرَبَ ‘‘سے اس کا مصدر اَدبا(دال پر جزم ) دعوت کا کھانا تیار کرنے کے معنیٰ میں آتا ہے اور ’’کَرُمَ ‘‘سے اس کا مصدر ادَباً (دال پر زبر ) آتا ہے، ادب والا ہونااور اسی سے لفظ ’’ادیب‘‘ بنتا ہے جس کی جمع ادباء ہے۔
عربی اردو کے معروف لغت’’القاموس الوحید‘‘سے لفظ ادب کے معانی دیکھیں :۔
’’ (1)سلیقہ، تہذیب، شائستگی، اچھا طریقہ (2)کسی علم و فن یا صنعت و حرفت کے آداب، قواعد و ضوابط جیسے ادب القاضی،ادب الکاتب (3) ادبی کلام، عمدہ نظم و نثر (4) ہر وہ علم و معرفت جو عقل انسانی کی تخلیق ہو-‘‘(6)
مندرجہ بالا لغوی معانی ادب کے بنیادی خدوخال کو واضح کر رہے ہیں کہ ادب نظم و نثر کو کہتے ہیں، اسی طرح انسانی ذہن کی ہر تخلیق بھی ادب ہے، یعنی طبع زاد تحاریر کو ادب کہا گیا ہے۔ادبی تحاریر چونکہ تہذیب وشائستگی سکھاتی ہیں اس لیے ادب کا ایک معنیٰ شائستگی اور تہذیب بھی ہے۔اوراصطلاحی نکتۂ نظر سے ادب کی مختصر تعریف یہ کی جاسکتی ہے :۔
’’ ادب ایسی تحریر کو کہتے ہیں جس میں جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ حقائق بھی پائے جائیں، اس میں ظاہری حسن و جمال یعنی الفاظ کا عمدہ استعمال بھی ہو اور اس میں رفعت فکر یعنی اعلیٰ سوچ بھی ہو۔‘‘
ادب انسانی تجربات سے ظہور پزیرہوتا ہے۔ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک انسان دنیا میں جو کچھ دیکھتا ہے،جو کچھ کرتا ہے، اس کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آتے ہیں، وہ جو تجربے حاصل کرتا ہے، جو سوچتا سمجھتا ہے اس کا اظہار ادب کی شکل میں کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادب زندگی کے وسیع ترین مسائل کا احاطہ کرتا ہے اور اس کے ذریعہ پروان چڑھتا ہے۔ ادب انسان کو بہتر زندگی گزارنے میںمعاونت دیتا ہے۔ اور یہ معاونت اس طرح ہوتی ہے کہ ادب جن اقدار کا حامل ہوتا ہے وہ اعلیٰ اور عمدہ ہونے کی بناء پر انسان کے حوصلوں کو بڑھاتی ہیں اور اس کے اندر زندہ رہنے اور حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا کرتی ہیں اورتب انسان کو صحیح معنوں میں جینے کا سلیقہ آتا ہے۔
ادبی تحاریر معاشرے ہی سے اخذ ہوتی ہیں اور معاشرے ہی کے لیے لکھی جاتی ہیں، اسی لیے تو ادب کو معاشرے کا آئینہ قرار دیا جاتا ہے۔ جیسے آئینہ انسان کو اس کے چہرے کے محاسن و معائب کے بارے میں آگاہ کرتا ہے ویسے ہی ادب معاشرے کو اچھائی اور برائی کے بارے میں سمجھاتا ہے، اسے خیر وشر کے فوائد و نقصانات بتاتا ہے لہٰذا کسی بھی مثالی معاشرے کے لیے ادب ناگزیر ہے۔
ڈاکٹر خوشحال زیدی لکھتے ہیں:۔
’’ادب کو زندگی کا آئینہ اور سماج کا عکس تسلیم کیا جاتا ہے، جس سماج اور قوم کا کوئی ادب نہیں وہ قوم مردہ تصور کی جاتی ہے-کسی قوم کے مذہبی خیالات، سماجی اور اخلاقی تنظیم، اس کے تاریخی واقعات اور سیاسی حالات کا صحیح آئینہ اس کا ادب ہے۔ ادب اور سماج میں گہرا تعلق ہے دونوں ہی ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔‘‘(7)
ادب اظہار کا ایسا ذریعہ ہے جو عام بول چال سے قطعی مختلف ہوتا اور ہونا بھی چاہیے کیوں کہ ہر لکھی ہوئی بات ادب نہیں ہو سکتی، ہم روزانہ کئی اخبارات اور کالموں کا مطالعہ کرتے ہیں لیکن ان تحاریر سے روحانی مسرت کا حصول ممکن نہیں ہوتا، وہ صرف معلومات کے حصول کے لیے ضروری ہوتی ہیں اور ان میں سے کچھ کی اہمیت و وقعت تو چند دنوں میں کم ہو جاتی ہے جبکہ ادب وہ اظہاریہ ہے جو کبھی بھی پرانا نہیں ہوتا اور اس سے روحانی مسرت بھی حاصل ہوتی ہے، چنانچہ ہر لکھی ہوئی چیز تحریر اور متن ضرور ہے مگر ہر تحریر اور متن ادب نہیں ہے، اسی لیے ہم اپنی تحاریر اور متون کو دو اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں:۔
1۔’’ ادبی تحاریر۔‘‘
2۔’’ غیر ادبی تحاریر۔‘‘
ادبی تحاریر میں نظم و نثر کی دونوں شاخوں کی ذیلی اقسام میں داستان، ناول، ڈرامہ ،افسانہ ،کہانی ،آپ بیتی، سفرنامہ ، اور نظم ،غزل، حمد، نعت اور منقبت کو شمار کر سکتے ہیں جبکہ غیر ادبی تحاریر میں سائنسی و فنی تحاریر صحافتی تحاریر اور اخباری بیانات شامل کیے جا سکتے ہیں۔
ادب تخلیقی زبان سے وجود میں آتا ہے اور دنیا کی ہر زبان میں ادب تخلیق ہورہا ہے۔ ادب انسانی ذوق سے وجود پاتا ہے اور اس کا سب سے بڑا مقصد بھی انسانی ذوق کی تسکین ہوتا ہے۔ یعنی ادب انسان کو روحانی مسرت فراہم کرتا ہے اسی لیے تو ادب کا وجود معاشرے کے لیے ناگزیر ہے تاکہ اس مشینی دور کے تھکے ہارے لوگ ادب کے سایہ دار درخت تلے راحت کے دو پل گزار سکیں۔ادب کے انسانی ذوق کے مطابق ہونے کی تائید سید عابد علی عابد کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے:۔
’’مختصرا یوں کہا جا سکتا ہے کہ وہ تمام تحریریں ادب کے دائرے میں داخل سمجھی جائیں گی جن کے مطالب کو ذوق سلیم معیاری تصور کرے گا اور جن کا اسلوب نگارش صناعانہ اور فنکارانہ ہوگا کہ حسن، صنعت یا فن کی صنعت لازم ہے ۔‘‘(8)
مندرجہ بالا تمام گفتگو سے ادب کے بارے میں درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں:۔
1۔ ادبی اظہاریہ عام بول چال سے مختلف ہوتا ہے۔
2۔ ادبی فن پارہ جذبات و احساسات کا امتزاج لیے ہوئے ہوتا ہے۔
3۔ ادب معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے۔
4۔ ادب کا مقصد معاشرے کی تطہیر ہے۔
5۔ ادبی تحریر میں لفظی حسن بھی ہوتا ہے۔
6۔ لفظی حسن کے ساتھ ساتھ ادبی تحریر میں رفعت خیال بھی ہوتی ہے۔
7۔ ادبی تحریر کا ذوقِ سلیم کے مطابق معیاری ہونا بھی ضروری ہے۔
8۔ ادب انسان کو جینے کا حوصلہ دیتا ہے۔
9۔ ادب انسانی تجربات کا نچوڑ ہوتا ہے۔
10۔ ادب اعلیٰ اقدار کو پیش کرتا ہے۔
ادب کی مندرجہ بالا توضیح کے بعد’’ادب اطفال ‘‘کے بارے میں بات کرنا آسان ہو جائے گا کیوں کہ سادہ لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ادب تو پورے معاشرے کی تطہیر و تزکیہ کے لیے ہے لیکن ادب اطفال صرف بچوں کے لیے ہے۔ ظاہر ہے ایک بات جب کسی بڑی عمر کے آدمی کو سمجھانا مقصود ہو تو اس کا اسلوب اور طریقہ مختلف ہوگا جبکہ وہی بات کسی بچے کو سمجھانا مقصود ہو تو اس کا طریقہ کار مختلف ہوگا اور ہونا بھی چاہیے کیوں کہ بچے اپنی ذہنی اور نفسیاتی نشوونما میں بڑوں سے کم سطح پر ہوتے ہیں، لہٰذا ادب اطفال سے مراد بچوں کے لیے لکھا گیا ادب ہے۔
ادب اطفال سے کیا مراد ہے؟ اس کی جامع تعریف کیا ہو گی؟ مختلف محققین نے ان سوالات کا جواب اپنے اپنے طور پر دینے کی کوشش کی ہے، ذیل میں ہم چند تعریفات کا مطالعہ کرتے ہیںڈاکٹر اسد اریب لکھتے ہیں :۔
’’بچوں کا ادب وہ ادب ہے جو بچوں کی تفریح طبع اور بچوں کی تربیت اخلاق کے لیے لکھا جائے، اس کی زبان ایسی ہو جو بچوں کی سمجھ میں آئے اور اس کا بیان ایسا ہو جو دلوں میں اترجائے، یہ کتابیں، قصے، مضامین اور طرح طرح کی معلوماتی باتیں بچوں کا ادب کہلاتی ہیں۔‘‘(9)
ڈاکٹر اسد اریب صاحب کی یہ تعریف ادب اطفال کے خدوخال کو واضح کرتی ہے، اس تعریف کی رو سے ادب اطفال کے بارے میں درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں:۔
1۔ یہ ادب بچوں کو تفریح فراہم کرے۔
2۔ اس سے بچوں کی تربیت اخلاق ہو۔
3۔ اس کی زبان بچوں کے لیے قابل فہم ہو۔
4۔ اس کا اسلوب دل چسپ ہو۔
5۔ بچوں کے ادب میں قصوں، کہانیوں کے علاوہ معلوماتی مضامین بھی شامل ہیں۔
اسی طرح ڈاکٹر جاوید احمد لکھتے ہیں:۔
’’ بچوں کے ادب سے نثر و نظم کا وہ ذخیرہ مراد ہے جنہیں بطور خاص بچوں کے لیے تخلیق کیا گیا ہو، انہیں بچوں کے مزاج،عمر،نفسیات،احساس، جذبات اور ضرورتوں کو سامنے رکھ کر تحریر کیا جاتا ہے یہ تحریریں نصابی ہو سکتی ہیں یا غیر نصابی بھی، رسائل و جرائد بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔‘‘(10)
یہ تعریف بھی پہلے والی تعریف کے مطابق ہے لیکن اس میں نصابی کتب کو بچوں کے ادب میں شامل کیا گیا ہے اور یہ بالکل درست ہے کیوں کہ نصابی کتب ہی وہ ذریعہ ہیں جن کی بدولت بچے ادب سے متعارف ہوتے ہیں۔نصابی کتب ہی وہ اولین ماخذ ہیں جن تک رسائی کے بعد بچہ پڑھنے لکھنے کی طرف مائل ہوتا ہے۔عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ نصابی کتب کی دلچسپ نظموں اور کہانیوں کی بدولت بچے دیگر کہانیوں اور نظموں کو پڑھتے ہیں۔اور یہ بھی مشاہدہ ہے کہ نئی جماعت کی کتب ملنے پر بچے سب سے پہلے اردو کی کتاب میں سے دلچسپ کہانیوں کی کھوج میں ہوتے ہیں لہٰذا نصابی کتب کو بچوں کے ادب سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔اس کے علاوہ اس میں رسائل و جرائد کا تذکرہ ہے کیوں کہ بچوں کے ادب کا ایک بڑا حصہ انہی رسائل و جرائد کی مرہون منت ہے۔بچوں کے رسائل ادب اطفال کے مضبوط مآخذہیں جن کی بدولت بچوں کے ادب کے تمام عناصرمحفوظ ہیں۔ہمارے ہاں کچھ رسائل تو نصف صدی سے زائد عرصہ سے جاری و ساری ہیں اور ادب اطفال کی ترویج کررہے ہیں۔
اوپر بیان کردہ تعریفات میں یہ بات آئی ہے کہ بچوں کے لیے لکھی گئی تحریر دل چسپ اور متاثر کن اسلوب میں ہو لیکن یہاں پر ایک چیز اور ہے جس کا سمجھنا لازمی ہے، وہ یہ کہ ہر وہ تحریر جس کا انداز متاثر کن ہو اور جس کی زبان قابلِ فہم ہو اسے بچوں کا ادب میں شمار نہیں کیا جا سکتا بلکہ بچوں کا ادب میں صرف وہ تحاریر شامل ہوں گی جن کے موضوعات بچوں سے مطابقت رکھتے ہوں، وہ موضوعات بچوں کی عمر، نفسیات اور میلانات کو دیکھ کر چنے گئے ہوں، اسی بات کی تائید پروفیسر اکبر رحمانی کی تعریف سے بھی ہوتی ہے :۔
’’وہ ادب جس کے ذریعے بچوں کی دل چسپی اور شوق کی تسکین ہو اور جو مختلف عمر کے بچوں کی نفسیات، ضرورتوں، دل چسپیوں، میلانات اور ان کی فہم و ادراک کی قوت کو پیش نظر رکھ کر تخلیق کیا گیا ہو، صحیح معنوں میں بچوںکا ادب کہلانے کا مستحق ہے۔‘‘(11)
اس تعریف میں موضوعات اور بچوں کی عمر کے مدارج پر زور دیا گیا ہے۔یہاں پر سوال یہ ہے کہ بچوں کے موضوعات کیا ہو سکتے ہیں؟ یا بالفاظ دیگر بچے کیسا ادب پسند کرتے ہیں؟۔یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب بچے ہی دے سکتے ہیں تاہم مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ بچے تخیلاتی دنیا کی کہانیاں زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ایسی کہانیاں جو انھیں ان دیکھے جہان کی سیر کرائیں، جہاں وہ اپنی دنیا سے الگ تھلگ ماحول دیکھیں۔اگرچہ پڑھنے والے بچے تو ہر قسم کا ادب پڑھ لیتے ہیں لیکن ایسی ادبی کاوشیں جن میں دلکشی، دلچسپی اور کہانی پن نہ ہو بلکہ صرف نصیحت پہ مبنی مواد بیان کیا گیا ہو تو بچے اس کے پاس بھی نہیں پھٹکتے ۔مختصراً ہم بچوں کے ادب کے موضوعات کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ بچے ایسا موضوع چاہتے ہیں جس میں درج ذیل خصوصیات ہوں:۔
1۔ حیرت انگیز ہو۔
2۔ موضوع اور مرکزی خیال نیا ہو، یا پرانے موضوع کا نیا انداز اور نئے طریقے سے پیشکش ہو۔
3۔ معلوماتی اور اخلاقی ہو۔
4۔ موضوع بچوں کو سوچنے پر مجبور کر دے۔
5۔ بچوں کے لیے تنوع یا رنگارنگی بہت اہم ہوتی ہے اس لیے ادب میں تنوع ہونا چاہیے۔
6۔ بچوں کا ادب محبت اور انسان دوستی کا درس دے۔
ادب اطفال میں ادیب اس بات کو پیش نظر رکھے کہ وہ کس عمر کے بچوں کے لیے لکھ رہا ہے۔کیوں کہ ماہرین نفسیات کے مطابق بچے عمر کے لحاظ سے کئی درجات میں تقسیم ہیں اور ہر درجہ کے بچوں کے لیے الگ الگ نوع کا ادب تخلیق کرنا ضروری ہے تاکہ بچے اسے ہضم کر سکیں اور وہ بات ان کے دل و دماغ میں جگہ بنا سکے۔بچوں کے معروف ادیب غلام حیدر اور ڈاکٹر طاہرہ عبدالشکور کی تحقیق کے مطابق بچوں کی عمر کے لحاظ سے چار درجے بنائے جا سکتے ہیں جو کہ ذیل میں دیئے جاتے ہیں:۔
درجہ اول : (تین سے چھے سال کی عمر کے بچے )
اس عمر میں عموماً بچے اپنے گھر والوں سے کہانیاں اور لوریاں سننا پسند کرتے ہیں اور دلچسپ کہانیاں انہیں ان دیکھی دنیا کی سیر کراتی ہیں جیسا کہ پرندوں کی کہانیاں، جانوروں کی کہانیاں، چھوٹے بچوں کی کہانیاں وغیرہ۔اس عمر میں بچے خود تو نہیں پڑھ سکتے اس لیے وہ سامع بن کر کہانیاں سنتے ہیں اور یہ بات قابل توجہ ہے کہ ہر بچہ کہانیاں ذوق وشوق سے سنتا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ اس کے دل و دماغ میں زیادہ جاننے کا شوق موجود ہے جسے بآسانی ابھارا جا سکتا ہے اور یہی جستجو ہی ایک بچے کو مثالی طالب علم اور مثالی شخصیت بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
درجہ دوم :(چھے سے دس سال کی عمر کے بچے)
اس عمر کے بچوں میں ذہنی نشوونما پختگی کی طرف رواں دواں ہوتی ہے اور وہ دنیا کی باتوں کو سمجھنے لگتے ہیں۔اس عمر میں بچے خود پڑھنا بھی سیکھ لیتے ہیں ۔لہٰذا اس درجہ کے بچوں کے لیے لکھتے وقت تخلیق کار کو چاہیے کہ وہ ان کے ذخیرہ الفاظ اور ذہنی سطح کے مطابق ادب پیش کرے۔اس عمر میں اخلاقی اور مختصر کہانیاں مفید ثابت ہوں گی۔اور اگر طویل کہانیاں یا طویل منظومات لکھی جائیں گی تو عین ممکن ہے کہ بچہ اس سے اجتناب کرے گا لہٰذا مطالعہ کے اس ابتدائی دور میں مختصر ادبی فن پارے ہی مفید رہیں گے۔
درجہ سوم : ( دس سے چودہ سال کی عمر کے بچے)
اس عمر میں بچہ عہد طفولیت سے باہر نکلنے کے قریب ہوتا ہے۔اسے اچھے اور برے کی تمیز ہو چکی ہوتی ہے۔اس کی اٹھان اور ذہنی تغیر اسے کسی سرگرمی میں پڑنے کی راہ دکھا رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس عمر میں اس کا رخ اچھائی کی طرف موڑنے کے لیے اسے صحت مند ادب کی ضرورت ہوتی ہے جو بیک وقت دلچسپ بھی ہو اور مقصدیت سے بھرپور بھی ہو۔ اس عمر میں عموماً مہماتی کہانیاں پسند کی جاتی ہیں اور بچہ کہانی پڑھتے ہوئے خود کو اس کہانی کا ہیرو سمجھتا ہے اور ہیرو کا ہر اچھا کام اس کے اندر اچھائی سے شوق و رغبت پیدا کرتا ہے۔
درجہ چہارم 🙁 پندرہ تا اٹھارہ سال کی عمر کے بچے)
یہ وہ عمر ہے جس میں کسی فرد کو اگرچہ بچہ نہیں کہا جا سکتا لیکن وہ بڑا بھی نہیں کہلایا جاتا اور بالغ نظری سے بھی دور ہوتا ہے۔ اس کا ذہن ابھی ناپختہ ہوتا ہے۔لیکن دوسری طرف وہ خود کو مستند سمجھنے لگتا ہے اور اس میں خود سری کے جذبات بھی پنپنے لگتے ہیں لہٰذا اس دور میں اسے اعلیٰ اخلاقی اقدار سے مزین ادب کی ضرورت ہے جو اس کی فطرت کو بدلنے میں معاون ثابت ہو۔یہ عمر بچوں کے مستقبل کے لئے نہایت اہم ہوتی ہے ۔اور انہیں نفسیاتی طور پر کسی بھی عمل پہ قائل کرنے کے لیے پہلے کی نسبت زیادہ دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔اس لیے اس عمر کے بچوں کے لیے لکھتے وقت تخلیق کار کو بھرپور کاوش کرکے ادب تخلیق کرنا چاہیے تاکہ وہ اس عمر کے بچوں کے ذہنی رخ کو موڑ سکیں۔
بعض محققین جیسا کہ ڈاکٹر خوشحال زیدی اور نذیر انبالوی چار درجات کے بجائے تین درجات متعین کرتے ہیں جو کہ یہ ہیں:
پرائمری :
اس درجہ میں تین تا آٹھ سال کے بچے شامل ہیں۔یہ طفولیت کا دور ہے جس میں بچہ قاری کے بجائے سامع ہوتا ہے۔لہٰذا لکھاری کوچاہیے کہ وہ مشکل الفاط استعمال نہ کرے۔
مڈل:
اس درجہ میں نو تا بارہ سال کے بچے شامل ہیں۔یہ لڑکپن کا دورہے جس میں بچہ خود قاری بن کر باتیں سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔اس عمر میں بچے اپنے ماحول سے اثر لینا شروع کردیتے ہیں۔
ہائی :
اس درجہ میں تیرہ تا سولہ سال کے بچے شامل ہیں۔یہ جوانی کا دورہے جس میں بچہ خود فیصلہ کرنے لگ جاتا ہے۔اس لیے اس عمر کے بچوں کے لیے لکھتے ہوئے تخلیق کار کو اس کی نفسیات کو سامنے رکھنا ہوتا ہے۔
تخلیق کار کو اصولی طور پر یہ طے کر لینا چاہیے کہ وہ کس عمر کے بچوں کے لیے لکھ رہا ہے تاکہ وہ ادبی فن پارے کو کامیابی کے ساتھ منزل تک پہنچا سکے۔ ادب اطفال میں شفیع الدین نیر صاحب نے اپنی مطبوعہ کتب کے ساتھ اس بات کی تصریح کی ہے کہ یہ کتاب کس عمر کے بچوں کے لیے موزوں ہے، ان کی اس خوبی کو پروفیسر اکبر رحمانی صاحب یوں بیان کرتے ہیں:۔
’’ بچوں کے ان ادیبوں میں جناب شفیع الدین نیر اس لحاظ سے ممتاز ہیں کہ انہوں نے مختلف عمر کے بچوں کی دل چسپیوں اور ذہنی نشوونماکے پیش نظر نظم و نثر کی کتابیں تصنیف کی ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ کون سی کتاب کس عمر کے بچوں کے لیے مختص ہے۔ اب تک بچوں کے ادیبوں نے اس لحاظ سے کتابیں تصنیف نہیں کی تھیں۔‘‘(12)
ہمارے ہاں پاکستانی رسائل اطفال میں بھی یہ روایت موجود ہے کہ بعض رسائل میں کہانیوں کے ساتھ لکھا ہوا نظر آتا ہے کہ یہ کہانی کس عمر کے بچوں کے لیے مناسب ہے۔’’ننھے شوقین بچوں کے لیے ‘‘یا پھر’’6 تا11 سال کے بچوں کے لیے خاص تحریر ‘‘جیسے کلمات طبع کیے جاتے ہیں تاکہ اس عمر کے بچے اسے ضرور پڑھیں۔ تاہم یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ادب اطفال کے ضمن میں لکھی جانے والی تمام تخلیقات محض چھوٹی عمر کے بچوں کے لیے نہیں ہوتیں اور انہیں کسی خاص عمر کے بچوں کے ساتھ محدود کرنا بھی درست نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں وسعت کو روا رکھا گیا ہے اسی لیے تو کچھ محققین نے ان تحریروں کو بھی ادب اطفال میں شمار کیا ہے جو خاص طور پر تو بچوں کے لیے نہیں لکھی گئیں لیکن افادیت و معنویت کے اعتبار سے بچوں کے لیے مناسب ہوں، جیسا کہ شفیع الدین نیر لکھتے ہیں :۔
’’بچوں کے ادب سے مراد نظم و نثر کا وہ ذخیرہ ہے جو خاص طور پر بچوں کے لیے لکھا گیا ہو یا اپنی معنویت اور افادیت کے اعتبار سے بچوں کے لیے موزوں ہو۔ یا یوں سمجھیے کہ جو ادب چار یا پانچ سال کی عمرسے تیرہ چودہ برس کی عمر کے بچوں کے لیے مخصوص ہو، اسے ہم بچوں کے ادب سے تعبیر کرتے ہیں۔‘‘(13)
یہ بات عقل و خرد کے بھی مطابق ہے ورنہ’’ الف لیلہ‘‘ اور اس نوع کی دیگر ادبی تخلیقات کو بچوں کے ادب سے خارج کرنا پڑے گا، اس لیے شفیع الدین نیر کی اس بات سے اتفاق کرنا ہو گا۔
ادب اطفال میں جن مصنفین نے لکھا ہے ان کے فن پاروں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ بچوں کی نفسیات سے کافی آشنائی رکھتے تھے، اس لیے وہ بچوں کے لیے لکھنے کا یہ کٹھن کام حسن و خوبی سے سرانجام دیتے گئے۔اگرچہ انہوں نے بچوں کی نفسیات کا باقاعدہ علم تو حاصل نہیں کر رکھا تھا لیکن یہ بات باضابطہ نفسیات دان بننے سے ہٹ کر ذاتی مشاہدے کی بدولت ممکن ہوئی ہو گی اور اس کی شہادت ہمیں نظیر اکبر آبادی کی زندگی میں بھی ملتی ہے کہ وہ ایک معلم تھے، ان کی عمر کا بیشتر حصہ بچوں کی تدریس میں گزرا لہذا وہ بچوں کی پسند ناپسند، دل چسپیوں اور میلانات کو جانتے تھے، وہ بچوں کی قوت فہم کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی نظمیں لکھتے چلے گئے، وہ ایک زود گو شاعر تھے، ان کا کافی کلام حوادثات زمانہ کی نذر ہو گیا تھا، لیکن اس کے باوجود بچوں کے لیے ان کی شاعری کا کافی ذخیرہ موجود ہے۔انہوں نے معاشرے کے عام موضوعات پر طبع آزمائی کرکے انہیں بچوں کے لیے خاص بنادیا، ان کی نظموں میں بچوں کے لیے تفریح کا وافر سامان ملتا ہے مثلاً کھیل کود، موسم، تہوار، عرس، بارش، روٹی، آٹا دال، آئینہ، پھسلن، جاڑے کی بہار، چاندنی رات اور کبڑی نامہ مشہور زمانہ منظومات ہیں جو اس دور کے بچوں کے لیے زبان زد عام کا درجہ رکھتی تھیں۔
ان کی ایک معروف نظم ’’تل کے لڈو‘‘ کے اشعار ملاحظہ فرمائیں:۔

جاڑے میں پھر خدا نے کھلوائے تل کے لڈو
ہر ایک خوانچے میں دکھلائے تل کے لڈو
کوچے گلی میں ہر جا بکوائے تل کے لڈو
ہم کو بھی ہیں گے دل سے خوش آئے تل کے لڈو

نظیر کے بارے میں مندرجہ بالا تفصیل سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مشاہدے کی بدولت بچوں کی نفسیات سے واقف ہو چکے تھے اس لیے ان کی شاعری میں وہ تمام موضوعات ملتے ہیں جو بچوں کے لیے مفید ہیں۔ ادب اطفال کی تخلیق میں نفسیات کا علم کس قدر اہمیت رکھتا ہے اس کا اندازہ ڈاکٹر خوش حال زیدی صاحب کی اس بات سے ہوتا ہے:۔
’’بچوں کے ادب کی خصوصیات میں سادگی اور سادہ اسلوب بیان ممتاز حیثیت رکھتے ہیں – یہی وجہ ہے کہ بہت سی اچھی کہانیاں، نظمیں اور ڈرامے بچے کی دل چسپی کو ابھارنے میں ناکام رہتے ہیں کیوں کہ ان کا انداز بیان بچوں کی نفسیات کے اعتبار سے غیر دلکش ہوتا ہے یا بچوں کی اپنی زبان میں نہیں ہوتا۔‘‘(14)
چونکہ بچہ فکری لحاظ سے نامکمل ہوتا ہے اور اس کی ذہنی نشوونما پختگی کو نہیں پہنچی ہوتی اس لیے بچے کے لیے لکھتے ہوئے اس کی ذہنی سطح کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے ورنہ ادب کی افادیت مفقود ہو جائے گی۔بچہ ذہنی اعتبار سے ایک کورے سفید کاغذ کی مانند ہوتا ہے، اس کا ماحول اس کے دل و دماغ پہ جو کچھ بھی ثبت کرتا ہے، بچہ اسے قبول کر لیتا ہے اور پھر وہ چیز اس کی فطرت میں شامل ہو جاتی ہے اسی لیے تو بچوں کا ادب کو بے حد نازک اور مشکل امر قرار دیا جاتا ہے۔پروفیسر معین الدین اپنے مضمون ’’بچوں کا ادب ‘‘میں لکھتے ہیں:۔
’’فن کی حیثیت سے بچوں کے ادب کی تخلیق بڑوں کے ادب سے مشکل ہے۔ بڑوں کے ادب کا خالق اپنے دور کی گہری بصیرت رکھتا ہے، زمانے کی نبض کو پہچانتا ہے اور ادب کے ذریعے اپنے دور کی عکاسی کرتا ہے، لیکن بچوں کے ادب کی تخلیق کے لیے اس کو بچوں کی فطرت کا رازداں بننا پڑتا ہے او ر اپنے ادب پارے کو موضوع اور اسلوب کے لحاظ سے بچوں کی فطرت سے ہم آہنگ کرنا پڑتا ہے تاکہ بچے اس ادب کا مطالعہ کر کے مسرت حاصل کر سکیں۔‘‘ (15)
ادب اطفال کی انہی مشکلات کے پیشِ نظر اس میدان میں بہت کم لوگوں نے خامہ فرسائی کی ہے۔ اسی لیے تو ہمیں بچوں کے ادیب خال خال ہی نظر آتے ہیں اور ہمارے ہاں بچوں کے رسائل میں لکھنے والے اکثر ادیب نو آموز ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ کو صرف نام شائع کرانے کا شوق ہوتا ہے اور اپنا شوق پورا کر لینے کے بعد وہ غائب ہو جاتے ہیں۔ مزید برآں ان نو آموز ادیبوں کا نہ تو مطالعہ کافی ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے ہاں جدت ملتی ہے بلکہ صرف پرانے موضوعات اور پرانی کہانیوں کو نئی کہانیوں میں ’’ری مکس ‘‘کر کے اپنا شوق پورا کرتے ہیں جس کی وجہ سے ادب اطفال کو بے حد نقصان ہو رہا ہے جبکہ اچھے اور منجھے ہوئے ادیب یا تو بچوں کے لیے لکھنے سے کتراتے ہیں کہ یہ کافی مشکل کام ہے یا پھر وہ اسے کار عبث گردانتے ہوئے پہلو تہی کرتے ہیں اور وہ بڑوں کے ادب کی تخلیق، تحقیق اور تنقید میں مصروف کار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کے لیے لکھنے والے پختہ کار ادباء کی قلت ہے جو کہ تشویش ناک صورت حال ہے۔
اسی بارے میں غلام حیدر صاحب لکھتے ہیں:۔
’’میرے خیال میں ایک وجہ یہ ہے کہ اردو زبان کے بڑے اور جانے پہچانے ادیب بڑوں کے ادب کی تخلیق، تنقید و تبصرہ وغیرہ میں اتنا منہمک ہو گئے ہیں کہ انہوں نے اس طرف توجہ دینی ہی بندکر دی ہے اس کی وجہ سے بچوں کے لیے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور راہنمائی کچھ بھی نہ ہو سکی۔نتیجہ یہ ہے کہ ہمیں حالی،اقبال،پریم چند،محروم،کرشن چندر وغیرہ سے جو ورثہ ملا،وہ دھاراابھی اگر بالکل سوکھا نہیںتو اب اس کا بہائو بہت کم ہو گیا ہے۔‘‘(16)
ادب کی ہر صنف اپنے اندر کوئی نہ کوئی مقصد لیے ہوئے ہوتی ہے۔ ادب اطفال بھی اپنے اندر مقصدیت کا پہلو رکھتا ہے۔ادب کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنے دور کے حالات کا عکاس ہوتا ہے، چاہے وہ اچھے حالات ہوں یا برے حالات، خوبیاں ہوں یا خامیاں، نیک ہو یا بد، ادب تمام پہلوؤں کو محفوظ رکھتا ہے اور نیکی کی طرف راغب کر کے بدی سے اجتناب کی تلقین کرتا ہے۔ ادب اطفال بھی بچوں کے یہی پہلو سامنے رکھتا ہے۔ چونکہ کتابیں خاموش ناصح ہوتی ہیں اور وہ چپکے چپکے بچوں کے اذہان میں پیغامات نقش کرتی ہیں اس لیے بچوں کے ادیبوں پہ دوہری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ بچوں کے لیے لکھتے وقت تمام پہلو سامنے رکھیں- بچوں کے لیے تفریح بھی ضروری ہے اور تربیت بھی ناگزیر ہے۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اگر بچوں کے لیے تفریحی ادب لکھنا ہے تو کون سے امور لکھنے ہیں اور کن امور سے دور رہنا ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تفریحی کہانیاں ان میں بری عادات کے پنپنے کا سبب بن جائیں۔اسی طرح اگر تربیتی پہلوؤں پر ادب فراہم کر رہے ہیں تو دیکھنا ہوگا کہ بچوں کو یہ نصائح کس پیرائے میں پیش کی جا رہی ہیں، کہیں بچے بور نہ ہو جائیں کہ وہ نصیحت آمیز باتوں سے ہی بھاگنے لگ جائیں لہٰذا بچوں کے ادیبوں کا مقصدی پہلو اہم بھی ہے اور قدرے احتیاط طلب بھی ہے۔
اب تک کی گئی باتوں کی روشنی میں ادب اطفال کا یہ خاکہ ذہن میں آتا ہے:۔
(1) ادب اطفال ایسا ادب ہے جو بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق ہو یا وہ افادیت کے اعتبار سے بچوں کے لیے موزوں ہو۔
(2) ایسا ادب جس سے بچوں کے ذوق وشوق کی تسکین ہو۔
(3) ایسا ادب جو بچوں کو تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ تفریح بھی فراہم کرے۔
(4) ایسا ادب جو مختلف عمر کے بچوں کی نفسیات کے پیش نظر لکھا گیا ہو۔
(5) ایسا جس کی زبان عام فہم اور بچوں کے لیے آسان ہو۔
(6) ایسا ادب جو بچوں کے اندر اوصاف حمیدہ پیدا کرے۔
(7) ایسا ادب جو بچوں کے اذہان میں حیرت و استعجاب پیدا کرکے ان کے اذہان کو وسعت دے۔
(8) ایسا ادب جو بچوں کے سماجی مسائل کو زیر بحث لانے کے بعد ان کا حل پیش کرے۔
(9)ایسا ادب جو بچوں کی معلومات عامہ میں اضافہ کرے۔
(10) ایسا ادب جو بچوں کو اپنی تہذیب سے قریب کرے اور ان کو اپنی تاریخ و زریں روایات سے روشناس کرائے۔
(11) ایسا ادب جو بچوں کے اندر جذبہ حب الوطنی پیدا کرکے انہیں مشکلات کا سامنا کرنے کا حوصلہ عطا کرے۔
(12) ایسا ادب جو جدید دور کے علوم سے روشناس کرائے اور بچوں کے اندر سائنسی علوم سے رغبت کا ذریعہ بنے۔
ادب اطفال ۔۔ضروریات، مسائل اور حل
بچے قوم کا مستقبل اور قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں اسی لیے ہر ملک میں بچوں کی تعلیم و تربیت کو اہمیت دی جاتی ہے تاکہ آج کے بچے کل کے اچھے شہری بن سکیں۔بچوں کی ذہنی ترقی کے لئے نصابی تعلیم کے ساتھ جو چیز سب سے زیادہ اثر انگیز ہوتی ہے وہ ان کے لئے اعلیٰ ادب کی فراہمی ہے۔یہ ادب محض بچوں کی درس تدریس کے لئے نہیں ہوتا بلکہ ان کی تفریح طبع اور ان کی فطری رحجانات کی نشوونما کے لئے بھی ہوتاہے۔
ادب اطفال کی ضرورت و اہمیت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔انسان روح اور جسم سے مرکب ہے۔جسم کی پرورش کی مانند روح کی پرورش بھی ضروری ہے اور روح کی بہترین پرورش کا ضامن ہمارا ادب ہے۔ ادب اطفال ہی بچوں کے اندر مطالعہ کا شوق پیدا کرتا ہے۔بچوں کی با مقصد کہانیاں ان کے اندر سوجھ بوجھ، ہمت و حوصلہ اور اعلیٰ کامیابی کے حصول کی خواہش پیدا کرتی ہیں۔بچوں کے ادب کا مطالعہ بچوں کی زبان کو شستہ بناتا ہے اور انہیں بول چال کے عمدہ اسلوب سے روشناس بھی کراتا ہے۔ایک لمحے کے لیے تصور کریں کہ اگر بچوں کے لیے ادب نہ ہوتا تو ہمارے بچوں کا بچپن کیسا ہوتا؟؟ ظاہر ہے کہ پھر ان کے اندر خود اعتمادی، اعلیٰ چال چلن اور تخلیقی صلاحیتیں ناپید ہوتیں لہٰذا بچوں کے ادب کی ضرورت ایک مسلمہ حقیقت ہے جسے سبھی تسلیم کرتے ہیں ۔اب آتے ہیں مسائل کی طرف، بچوں کے ادب میں مختلف نوعیت کے مسائل درپیش ہوتے ہیں، مثلاً:۔
1 ۔ علمی وادبی نوعیت کے مسائل
2 ۔ قومی و ملکی سطح کے مسائل
3 ۔ تخلیق اور ترویج کے مسائل
ہم ان تمام مسائل کے بارے میں تفصیل سے بات کرتے ہیں:۔
1 ۔علمی وادبی نوعیت کے مسائل :
بچوں کے ادب کا علمی و ادبی مسئلہ یہ ہے کہ ادبی حلقوں میں اسے پزیرائی نہیں مل رہی اور بچوں کے ادب کی حیثیت کو مطلوبہ اہمیت نہیں دی جا رہی۔ بعض حلقے تو اس پہلو پر کام کرنے کو عبث جانتے ہیں اور بعض ادباء اس لیے اس شعبہ سے پہلو تہی اختیار کرتے ہیں کہ انہیں اس شعبہ میں خاطرخواہ پزیرائی نہیں ملتی اور پھر بالآخر وہ بھی ادب اطفال کی صف سے غائب ہو جاتے ہیں۔اگر ادب اطفال کی شناخت اور اہمیت متعین ہو جائے تو یہ ہمارے بچوں کے لیے اور بچوں کے ادیبوں، دونوں کے لیے مفید ثابت ہو گا اور آنے والے دنوں میں ادب اطفال کی اصطلاح اجنبی نہیں رہے گی۔ان علمی و ادبی مسائل کے حل کے لیے درج ذیل تجاویز دی جاتی ہیں:۔
٭ یونیورسٹیوں میں بچوں کے ادب کا شعبہ قائم کیا جائے جیسا کہ الدعوہ اکیڈمی اسلام آباد میں ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر صاحب نے قائم کیا تھا۔
٭ ہمارے بی اے اور ایم اے کی جماعتوں میں ادب اطفال کے حوالے سے مضامین نصاب میں شامل کیے جائیں۔
٭ بچوں کے ادیبوں کو بھی دیگر ادباء کی طرح ایوارڈز اور انعامات سے نوازا جائے۔
٭ علمی و ادبی شعبوں سے وابستہ شخصیات ادب اطفال پہ اپنے نکتہ نظر پہ مبنی مقالہ جات پیش کر کے علمی تشنگی کو دور کریں۔
٭ سالانہ سطح پر ادب اطفال کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا جائے اور بچوں کے ادب کے مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے موضوعات زیرِ بحث لائے جائیں۔
2 ۔قومی و ملکی سطح کے مسائل:
اگر قومی و ملکی سطح پر ادب اطفال کی صورت حال دیکھی جائے تو اس ضمن میں ہمیں سرکاری اور نجی دو پہلوؤں پر کام نظر آتا ہے اور جب ہم ان دو سطحوں پہ ہونے والے کام کا موازنہ کرتے ہیں تو افسوس ناک صورت حال کا سامنا ہوتا ہے کہ سرکاری سطح پر ادب اطفال پہ ہونے والا کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان میں سرکاری سطح پر بھی ادب اطفال نہایت بے اعتنائی کا شکار ہے کہ سرکاری سطح پر کوئی کام بھی نہیں ہو رہا حالانکہ حکومت کو کم از کم ہر صوبے سے ایک سرکاری رسالہ برائے اطفال جاری کرنا چاہیے جو بچوں کی تعلیم و تربیت کا ضامن ہو اور اس میں اس صوبے کے مقامی ادب کی ترویج بھی کی جائے۔لیکن ایسا کوئی رسالہ موجود نہیں ہے جو کہ نہایت افسوس ناک امر ہے۔صرف ایک رسالہ ایسا ہے جو سرکاری سطح پر ادب اطفال کا ترجمان بنا ہوا ہے جس کا موضوعاتی مطالعہ ہمارے مقالہ کا موضوع ہے یعنی سہ ماہی ادبیات اطفال اسلام آباد اور اس کے لیے بھی دلی دعا ہے کہ اللہ کرے ادبیات اطفال کا سفر جاری و ساری رہے۔
دوسری طرف نجی سطح پر ہونے والا کام قابلِ تعریف ہے اور بچوں کے سینکڑوں رسائل اپنے تئیں ادب اطفال کی ترویج و اشاعت میں مصروف عمل ہیں۔ اور اگرچہ ان میں سے اکثر ادارے مالی لحاظ سے کافی مشکلات کا شکار رہتے ہیں لیکن پھر بھی ان کا کام رواں دواں رہتا ہے۔ اس ضمن میں درج ذیل اقدامات اٹھانے چاہئیں:۔
٭ سرکاری سطح پر ہر صوبے سے بچوں کے رسائل کا اجراء کیا جائے۔
٭ ملکی سطح پر چھپنے والے رسالہ کو سہ ماہی کے بجائے ماہانہ بنیادوں پر شائع کیا جائے۔
٭ بچوں کے لیے چھپنے والے رسائل کو اعلیٰ کارکردگی کی بنا پر حکومت اعزازات سے نوازے۔
٭ بچوں کے لکھاریوں کے لیے بھی انعامات مقرر کیے جائیں۔
3 ۔تخلیق اور ترویج کے مسائل:
ادب اطفال کی تخلیق و ترویج کے حوالے سے بھی بہت سے مسائل درپیش ہیں۔اگر ادب اطفال کی تخلیق کے مسائل دیکھے جائیں تو مختصراً یہ مسائل حل طلب ہیں مثلاً
1۔ ادب تخلیق کرنے والوں کا نوآموز ہونا۔
2 ۔مشاق لکھاریوں کا نہ ہونا۔
3 ۔ نئے موضوعات کا تخلیق نہ ہونا۔
4 ۔سائنسی علوم کو جگہ نہ دینا۔
5 ۔روایتی کہانیوں کا بار بار شائع ہونا۔
6 ۔موضوعات میں یکسانیت کا ہونا۔
7 ۔بچوں کی نفسیاتی سطح کو سامنے رکھ کر ادب تخلیق نہ کرنا۔
اسی طرح ترویج کے مسائل میں سرفہرست سرکولیشن کی کمی، الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے کتابی ماحول کی حوصلہ شکنی اور رسائل کی اشاعت میں ناکامی پیش پیش ہیں۔
ان مسائل کے حل کے لیے درج ذیل تجاویز پیش کی جاتی ہیں:۔
٭ نوآموز لکھاریوں کی سرکاری سطح پر تربیتی ورکشاپوں کا انعقاد کیا جائے۔
٭ ادب اطفال میں نئے موضوعات کو جگہ دی جائے۔
٭ ادب اطفال میں تخلیقی مسائل کے حل کے لیے کہنہ مشق ادباء کی خدمات حاصل کی جائیں۔
٭ الیکٹرانک میڈیا پر بچوں کے ادب کی افادیت پہ پروگرام یا کوئی شارٹ فلمز پیش کی جائیں۔
٭ بچوں کے رسائل کی تشہیر کے لئے الیکٹرانک میڈیا کا استعمال کیا جائے۔
٭ بچوں کے رسائل کی اسکولوں میں پہنچ یقینی بنائی جائے اور سستے نرخوں پر رسائل کو فروخت کیا جائے۔
٭ محکمہ تعلیم کے تحت بچوں کے اسکولوں میں لائبریری پراجیکٹ شروع کر کے کتاب بینی کو فروغ دیا جائے۔
پاکستان میں بچوں کی تعدادکروڑوں میں ہے لیکن ان بچوں کے لیے صرف چند سو کے قریب رسائل جاری ہو رہے ہیں اور وہ سب بھی پرائیویٹ سیکٹر کی وجہ سے ورنہ سرکاری سطح پر ایسے رسائل تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ بچوں کے ادبی حلقوں کی تعداد بھی خاطر خواہ نہیں ہے، اس صورت حال میں بچوں کا ادب کیسے ترقی کر سکتا ہے؟
ڈاکٹر اسد اریب صاحب لکھتے ہیںـ:۔
’’البتہ یہ بات درست ہے کہ بچوں کے ادب پر جس قدر ہمیں توجہ دینی چاہیے اس قدر ہم نے توجہ نہیں کی اور اس ادب کو قومی مقاصد کی تکمیل سے زیادہ ذاتی و کاروباری مقاصد کی تکمیل کے سپرد کردیا،لیکن اتنا ضرور ہے کہ’’ بچوںکے ادب کا سفر‘‘ ہم نے آگے کی طرف طے کیاہے۔‘‘(17)
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی طرح بچوں کے ادب کو ترقی دی جائے اور اسے نظر انداز نہ کیا جائے۔اگر ہمارا معاشرہ اور والدین اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ ادب اطفال ہی بچوں میں مطالعہ کا ذوق وشوق پیدا کرتا ہے اور یہی بچے آگے چل کر اپنے شوق مطالعہ کی خوبی کی بنا پر ضخیم کتب پڑھ پاتے ہیں تو والدین بچوں کے اس پہلو پر بھی ضرور توجہ دیں، اور ان کے مطالعہ کے لیے رسائل بھی خرید کریں، لیکن اس سلسلے میں نہ تو کوئی اسکول آگاہ کرتا ہے اور نہ ہی الیکٹرانک میڈیا پر کوئی آگاہی مہم چلائی جاتی ہے لہٰذا اس کے نتیجے میں بچوں کے رسائل رفتہ رفتہ بند ہو رہے ہیں۔حالانکہ اس وقت دنیا کے باقی ممالک میں بچوں کے لیے معیاری، خوب صورت اور اعلیٰ مواد سے آراستہ کتب تسلسل سے شائع ہورہی ہیں اور ادب اطفال ترقی کررہا ہے لیکن ہمارے ملک میں اس حوالے سے تسلی بخش نتائج برآمد نہیں ہورہے۔بچوں کا ادب بچوں کے اندر اوصاف حمیدہ پیدا کرنے کا مؤثر ذریعہ ہے، اس کی مدد سے ہم اپنے بچوں میں نیکی، شرافت، حب الوطنی ، محنت، تحمل، صبر اور دیگر اخلاقی اقدار پیدا کر سکتے ہیں۔اس حوالے سے ناز آفرین لکھتی ہیں:۔
’’نسل نو میں اخلاقی صفات کے نشوونما میں قصے کہانیاں، واقعات اور حکایات بھی اہم ہیں ، ان کے اثرات بچے بڑے سب میں پڑتے ہیں۔قرآن کریم سے اخذ کردہ کہانیاں سبق آموز کے ساتھ دل چسپی کا سامان بھی ہیں،مثلا یوسف علیہ السلام،یونس علیہ اسلام،موسی
علیہ السلام،ملکہ سبا،دائود علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام وغیرہ کی کہانیاں۔‘‘(18)
اس وقت دنیا کی ہر تخلیقی زبان میں بچوں کے لیے ادب لکھا جا رہا ہے، اور معیار و مقدار دونوں اعتبار سے تسلی بخش صورت حال ہے لیکن پاکستان میں یہ تمام مسائل موجود ہیں جن کا اوپر تذکرہ ہوا ہے لیکن ماضی کی بنسبت حال زیادہ بہتری دیکھنے کو مل رہی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ہمارے ہاں چھوٹی چھوٹی انجمنیں قائم ہو چکی ہیں جو ادب اطفال کا ذمہ اپنے سر اٹھائے ہوئے ہیں اور یوں ادیبوں کے اندر بیداری دیکھنے کو مل رہی ہے، اگرچہ بچوں کے ادیب کم ہیں لیکن رفتہ رفتہ ان کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور یہ اضافہ اچھے مستقبل کی طرف اشارہ کررہا ہے۔
پاکستان میں ایسا دور بھی گزرا ہے کہ بچوں کے لیے رسائل نہ ہونے کے برابر تھے، چند اخبارات کے ساتھ بچوں کا صفحہ کے عنوان سے ادب اطفال کی اشاعت ہو رہی تھی لیکن اب سینکڑوں رسائل موجود ہیں اور ہر رسالہ اپنے تئیں پوری کوشش کررہا ہے کہ ان کے پلیٹ فارم سے اچھا ادب تخلیق ہو اور بچے مستفید ہوں، کچھ رسائل بچوں کے ادیبوں کو سالانہ کارکردگی کی بنا پر ایوراڈز دینے کا سلسلہ شروع کر چکے ہیں، یقیناً اس اقدام کی بھی ضرورت تھی اور یوں ادب اطفال کا اچھا دور شروع ہوا چاہتا ہے۔ بچوں کے ادب کے ایک محقق جناب محمد اسحاق اپنے مضمون ’’بچوں کے ادب کی اہمیت ‘‘میں لکھتے ہیں:۔
’’اس ملک کے بچے بڑے ہی خوش نصیب ہیں جہاں کے لوگ، ادیب، شاعر ،دانش ور، لیڈر بچوں کے لیے صاف ستھرا ادب پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں کیونکہ یہی بچے کل کے شہری ہیں۔‘‘(19)
ادب اطفال تخلیق کرنے کے سلسلے میں مندرجہ ذیل چند اہم نکات کو ملحوظ خاطر رکھنا لازمی ہے، اس سے ادب اطفال کی ترویج میں بھی آسانی و کامیابی ملے گی ۔
1۔ بچوں کے ادب کی بچوں کی عمر کی مناسبت سے شیرازہ بندی کی جائے۔
2۔ بچوں کی نفسیات اور دلچسپیوں کو بنیاد بنا کر لکھاجائے۔
3۔ موضوعات کو رنگین اور دلکش تصاویر کے ساتھ واضح کرنے کی کو شش کی جائے۔
4۔ بچوں کے لئے کہانیاں زیادہ طویل نہ ہوں۔
5۔ جدید سائنسی علوم و فنون کو موضوع بنا کر ادب تخلیق کیا جائے۔
6۔ ادب اطفال کی ترویج کے لیے ریڈیو اور ٹیلی وژن کا سہارالیا جائے۔
7۔ بچوں کے ادب میں نئے موضوعات کو سامنے لایا جائے۔
8۔ بچوں کے ادب میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال دکھایا جائے۔
9۔بچوں کے ادب میں ڈراما بہت کم لکھا گیا ہے، ڈرامے لکھے جائیں اور ان کو الیکٹرانک میڈیا پر دکھایا بھی جائے۔
دور حاضر میں ایسے ادب کی شدید ضرورت ہے جس میں پڑھائی کی اہمیت، جدید علوم وفنون، سائنس اور ٹیکنالوجی ،الیکٹرانک میڈیا کا حسب ضرورت استعمال وغیرہ جیسے موضوعات ہوں کیونکہ بچپن ایک ایسی عمر ہے جس میں ایک بچہ جو کچھ سیکھتا ہے وہ اس کی زندگی میں ہمیشہ دخل انداز رہتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ عصر حاضر میں کئی ادبی تنظیمیں بچوں کی ذہانت و ذکاوت کے مطابق ادب تخلیق کرنے میں سر گرم عمل ہیں ۔ لہٰذا ہم یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اردو زبان ’’ادب اطفال ‘‘کے سلسلے میں آئندہ چند برسوں میں دنیا کی بڑی زبانوں میں شامل ہو جائے گی۔ ان شاء اللہ
ادب اطفال کی مختصر تاریخ:
اس دنیا میں انسان اشرف المخلوقات ہے اور اس کا وجود سب سے پہلے بچے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔بچہ نشوونما پاکر انسان بنتا ہے۔ انسان کی نشوونما دو طرح سے ہوتی ہے اور دونوں پہلو ہی ضروری ہوتے ہیں یعنی جسمانی اور روحانی نشوونما۔ جیسے جسمانی نشوونما میں کمی بیشی یا اعضائے جسمانی میں کوئی فرق ہونا عیب گردانا جاتا ہے ویسے ہی روحانی نشوونما میں کمی کو ہر ذی شعور عیب ہی سمجھتا ہے۔ایک لمبے عرصے تک انسان نے بچوں کی روحانی نشوونما کے پہلو کو نظر انداز کیا مگر اب اس جدید دور میں یہ طرز ہرگز قابل قبول نہیں رہا اور جب سے نفسیات کے علوم عام ہوئے ہیں اور ماہرین نفسیات نے بچوں کی شخصیت پہ غور کیا اور اس کے مثبت و منفی رویوں کے اسباب کا مطالعہ کیا تب سے بچوں کی روحانی نشوونما کے سلسلے میں کافی پیش رفت ہوئی ہے اور ماہرین اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ بچوں کو سنوارنا در حقیقت ملک و قوم کو سنوارنا ہے ۔چنانچہ بچوں کی ذہنی و نفسیاتی نشوونما کے لیے باقاعدہ طور پر کاوشیں ہوئیں اور بچوں کے مسائل حل ہونے لگے۔
ادب اطفال کا آغاز ان لوریوں اور لوک کہانیوں سے ہوتا ہے جو مائیں اپنے بچوں کو سناتی تھیں۔ اس کے علاوہ وہ لوک گیت اور پہیلی نما اشعار بھی قابل ذکر ہیں جنہیں بچے دل چسپی سے سنتے تھے۔یہ کافی قدیم روایت ہے اور اس کے آغاز کی قطعی تاریخ نامعلوم ہے۔ بعد میں بچوں کی تدریس کے لیے کتب مدون ہوئیں تو ان کتب کے لیے بھی یہی شاعرانہ طرزپیش نظر رکھا گیاکہ یہ بچوں کے لیے دل چسپ ہوتاکہ بچے، جو ابھی نئے نئے پڑھنے آئے ہیں، وہ ان سے متنفر اور بیزار نہ ہوں بلکہ ان کتب کی طرف مائل وراغب ہوں۔اس کے بعد ہر ملک میں، ہر زبان میں بچوں کے لیے ادب اطفال اور اس کی مختلف اصناف نے ترقی کی اور ان کی اہمیت کے پیش نظر اسے باقاعدہ الگ طور پر لکھا جانے لگا ۔جبکہ درحقیقت یہ کوئی الگ ادبی صنف نہیں ہے بلکہ یہ بھی ’’ادب‘‘ ہی میں شامل ہے۔صرف بچوں کے لیے ہونے کی بنا پر اس کا فن اور اس کی فکر تبدیل ہوتی ہے اور اسی تبدیلی ِ فن و فکر کی بنا پر اسے باقی ادب سے الگ کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر گیان چند اپنی کتاب ادبی اصناف میں لکھتے ہیں:۔
’’بچوں کا ادب: یہ بھی الگ صنف نہیں،بچوں کی نظمیں، بچوں کی کہانیاں نظموںاور کہانیوں کی ذیلی اقسام ہیں۔‘‘( 20)
اس لیے دنیا کے ہر ادبی ذخیرہ میں بچوں کے لیے تخلیقات ملتی ہیں۔ دنیا کی ہر زبان میں ادب اطفال ملتا ہے۔مغربی ممالک میں یہ روایت کافی مستحکم ہے۔اس کے علاوہ عربی اور فارسی زبان میں بھی اس کے نمونے ملتے ہیں، اس کا مختصر جائزہ ذیل میں لیا جا رہا ہے۔
٭ غیرملکی زبانوں میں ادب اطفال کی روایت
٭ مغربی ممالک کی زبانیں اور ادب اطفال
اردو زبان سے ہٹ کر غیر ملکی زبانوں میں ادب اطفال پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے، بریٹانیکا جونیر انسائیکلوپیڈیا کے مطابق بچوں کے لیے سب سے پہلے لکھی جانے والی کتاب بشپ ایلڈہم(Bishop Aldhelm ) کی ہے جو کہ لاطینی زبان میں لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب سوالات و جوابات کی شکل میں ہے جیسا کہ انسائیکلوپیڈیا کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے:۔
“Before the printing press was invented, books were hand written and were so precious that few for made for children. Those few were kinds of lesson books.
Bishop Aldhelm,(640-709) the abbot of malmerbury, in England wrote a book in Latin verse in question and answer forms.”(21)
ایلڈہم کے بعد دوسرا بڑا نام ونیریبل بیڈ(Venerable Bede) کا ہے۔یہ معلم پیشہ تھا اور اسی لیے اس نے بچوں کے نصاب کے لیے کتب تحریر کیں۔یہ کتب لاطینی زبان میں تھیں۔بچوں کا پہلا انسائیکلوپیڈیاسینٹ انسلیم(Saint Anselm) نے تیار کیا۔ بچوں کے لیے پہلی باتصاویر کتاب ’’آربیس پکچس‘‘(Orbis Pictus) ہے۔ یہ کتاب1658عیسوی میں جان اماس کومینیس(John Amos Comenius) نے لکھی۔ اول یہ لاطینی اور جرمن زبان میں تھی بعد میں اس کے تراجم بھی چھپے ہیں۔ اس کے بعدسن1672 ء میں جیمز جینوے نامی ادیب (James Janeway) نے بچوں کے لیے ایک کتاب لکھی جس کا نام ’’اے ٹوکن فار چلڈرن‘‘(A Token for Children.) ہے۔ اس کتاب میں بچوں کے لیے مقدس مذہبی تعلیمات ہیں۔یہ سترہویں صدی عیسوی تک بچوں کے لیے لکھی جانے والی چنداہم کتب تھیں۔
اٹھارہویں صدی عیسوی :
اٹھارہویں صدی میں بچوں کی درج ذیل کتب بے حد مقبول ہوئیں:۔
1۔ ڈینیل ڈیفو (Daniel Defoe) نے رابن سن کروس (Robinson Crusoe) کے نام سے ایک کتاب لکھی جو1719 عیسوی میں منظر عام پر آئی اور یہ آج تک بے حد مقبول ہے۔
2۔ جوناتھن سوئفٹ(Jonathan Swift) نے بچوں کے لیے ایک معروف زمانہ کتاب گلیورز ٹریولز(Gulliver’s Travels) تحریر کی، اس کی اشاعت 1726عیسوی میں ہوئی۔
3۔ چارلس پیراولٹ(Charles Perrault) نے ایک شاندار کتاب ٹیلز آف مدر گوز(Tales of Mother Goose) لکھی، یہ کتاب انگریزی زبان میں ہے اور اس کا سن اشاعت 1729عیسوی ہے۔
4۔ جان نیوبری(John Newbery) نے 1744عیسوی میں ایک جیبی سائز کی کتاب لکھی اور اس کا نام’’لٹل پریٹی‘‘(Little Pretty Pocket-book) رکھا۔
5۔ اولیور گولڈسمتھ( Oliver Goldsmith) نے بچوں کے لیے ایک پیاری سی کتاب لکھی جس کا نام ’’لٹل گوڈے ٹو شوز‘‘(Little Goody Two Shoes) ہے اور یہ کتاب 1765عیسوی میں چھپی۔
6۔ اینا لاٹیٹیا(Anna Laetitia Barbauld) نے1778ء میں’’ لیسن فار چلڈرن‘‘(Lessons for Children) کے نام سے ایک زبردست کتابی سلسلہ شروع کیا، اس کی کل آٹھ جلدیں ہیں۔اس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں ٹیکسٹ بڑے حروف میں لکھا گیا تھا اور اس کی طباعت بھی بہت اعلیٰ تھی تاکہ بچوں کو پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی ہو۔
7۔ تھامس ڈے(Thomas Day) کی کتاب ’’دی ہسٹری آف سینڈفورڈ اینڈ میرٹن‘‘(The History of Sandford and Merton) اٹھارویں صدی کی سب سے زیادہ بکنے والی کتاب ہے، اس میں تعلیمی تصورات کو سہل انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
انیسویں صدی عیسوی :
انیسویں صدی میں ادب اطفال میں کافی ترقی اور جدت دیکھنے کو ملی۔ اس صدی میں معیار و مقدار کے اعتبار سے بہتری نظر آئی۔اس صدی میں ادب اطفال کی مشہور کتب درج ذیل ہیں :۔
1۔ جان روڈلف وائس (Johann Rudolf Wyss) نے ایک کتاب لکھی اور اس میں رابن سن کروس کی کہانی کو آگے بڑھایا گیا، اس کتاب کا نام ’’دی سوس فیملی رابن سن‘‘(The Swiss Family Robinson) ہے اور یہ کتاب1812ء میں چھپی۔
2۔ واشنگٹن ارونگ(Washington Irving) کی دو کتب قابل ذکر ہیں:
ایک کتاب کا نام ’’دی لیجنڈ آف سلیپی ہالو‘‘(The Legend of Sleepy Hollow) ہے اور یہ 1819عیسوی میں چھپی اور دوسری کتاب کا نام ’’رپ ون ونکل‘‘(Rip Van Winkle) ہے، اور یہ1820ء میں چھپی۔
3۔ چارلس ڈیکنس(Charles Dickens) نے بہت ساری کتب تحریر کیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں:
1۔ اولیور ٹوئسٹ(Oliver Twist)1838عیسوی
2۔ نیکولس نیکل بے(Nicholas Nickelby)1839عیسوی
3۔ اے کرسمس کارول(A Christmas Carol) 1843عیسوی
4۔ ڈیوڈ کاپر فیلڈ (David Copperfield)1850عیسوی
4۔ لیوس کارول(Lewis Carroll) نے ایک مشہور کتاب’’ایلس ایڈونچر ان ونڈر لینڈ‘‘(Alice’s Adventures in Wonderland) لکھی اس کا سن اشاعت 1865عیسوی ہے۔ اس کتاب کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اس کے دیگر زبانوں میں بھی تراجم ہوئے۔
5۔ جارج میکڈونلڈ نے بچوں کے لیے کچھ کتب لکھی ہیں۔ ایک کتاب’’ ایٹ دی بیک آف نارتھ ونڈ‘‘ (At the Back of the North Wind) جبکہ دوسری کتاب کا نام’’دی پرنسز اینڈ دی گوبلن ‘‘(The Princess and the Goblin)ہے ،یہ دونوں کتب1871ء میں چھپیں۔
6۔ ایچ رائڈر ہیگرڈ(.H. Rider Haggard) نے 1885ء میں’’ کنگ سولو مون مائنز‘‘(King Solomon’s Mines)کے نام سے ایک شاندار کتاب لکھی جو کافی عرصہ مقبول رہی۔
7۔ آسکر وائلڈ(Oscar Wilde) نے ’’دی ہیپی پرنس اینڈ ادر ٹیلز‘‘ (The Happy Prince and Other Tales) کے نام سے کہانیوں پہ مبنی ایک کتاب تصنیف کی۔
8۔ رڈیارڈ کپلنگ (Rudyard Kipling)نے ’’دی جنگل بک‘‘the Jungle Book)) کے نام سے ایک مشہور زمانہ ناول تحریر کیا اور اس کا سن اشاعت1894ء ہے۔ اور اس کا دوسرا حصہ 1895ء میں’’ دی سینکڈ جنگل بک‘‘The Second Jungle Book)) کے نام سے شائع ہوا۔
9۔ ای نسبٹ(E. Nesbit) نے ایک مہماتی ناول لکھا جس کا نام ’’دی سٹوری آف دی ٹریشر سیکرز ‘‘(The Story of the Treasure Seekers) ہے اور یہ ناول1899ء میں چھپا۔
بیسویں صدی عیسوی:
اسی طرح بیسویں صدی میں بچوں کے ادب میں مغربی ممالک ترقی کے زینے طے کرتے رہے، اس صدی میں جدید دور کے جدید آلات و ایجادات بچوں کے ادب میں شامل کی گئیں یوں بچوں کا ادب وسیع ہوا، اہم کتب کی تفصیل ذیل میں ہے:۔
1۔’’فائیو چلڈرن اینڈ اٹ‘‘Five Children and It)) ، اس کے مصنف ای نسبٹ (E. Nesbit) ہیں اور یہ کتاب 1902ء میں شائع ہوئی۔
2۔’’دی ٹیل آف پیٹر ریبٹ‘‘(The Tale of Peter Rabbit) کو بیٹرکس پوٹر(Beatrix Potter) نے1902ء میں لکھا۔
3۔’’اے لٹل پرنسز‘‘(A Little Princess)1905ء میں فرانزہوڈسن برنیٹ (Frances Hodgson Burnett) کے ہاتھوں تصنیف ہوئی۔
4۔ جیک لندن(Jack London) نے1909ء میں ’’وائٹ فینگ‘‘(White Fang) کے نام سے ایک ناول لکھا جو کہ ایک وفادرا کتے کی کہانی پہ مبنی ہے۔
5۔ فرانزہوڈسن برنیٹ(Frances Hodgson Burnett) نے ایک پراسرار ناول لکھا جس کا نام’’ دی سیکرٹ گارڈن‘‘(The Secret Garden) ہے۔
6۔ سر آرتھر(Sir Arthur Conan Doyle) نے1912ء میں ’’د ی لو سٹ ورلڈ‘‘(The Lost World) کے نام سے ایک شاندار تخلیق پیش کی۔
7۔ نارمن لینڈسی(Norman Lindsay) نے’’ دی میجک پڈنگ‘‘(The Magic Pudding) کے نام سے کتاب لکھی جو کہ1918عیسوی میں شائع ہوئی۔
8۔’’ایمل اینڈ دی ڈیٹکٹوز‘‘(Emil and the Detectives) کے نام سے ارچ کاسٹنر (Erich Kästner) نے ایک جاسوسی کتاب لکھی، یہ1929عیسوی میں شائع ہوئی۔
9۔’’بیلٹ شوز‘‘ (Ballet Shoes) کے نام سے ایک کتاب1936عیسوی میں نویل سٹریٹ فیلڈ (Noel Streatfeild) نے تحریر کی۔
10۔’’دی ہوبٹ‘‘(The Hobbit) ایک بہت ہی مشہور ناول ہے جسے فلمایا بھی گیا ہے، یہ ناول1937عیسوی میں جے آر آر ٹالکن (J. R. R. Tolkien) نے لکھا۔
11۔ اینڈ بلائٹن(Enid Blyton) ادب اطفال کا بہت بڑا نام ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لیے جاسوسی ناول لکھے جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ان کی ایک سیریز’’فیمس فائیو‘‘ بہت مقبول ہوئی جس کا پہلا ناو ل 1942 ء میں شایع ہوا جس کا نام ’’فائیو آن اے ٹریشر آئیز لینڈ ‘‘(Five on a Treasure Island)ہے۔
12۔ کریس وین السبرگ (Chris Van Allsburg) نے ’’جمانجی‘‘(Jumanji) کے نام سے ایک عجیب وغریب ناول لکھا جس میں ایک جنگل کی پراسرار داستان بیان کی گئی ہے۔ یہ ناول 1981 میں شائع ہوا۔
یہاں صرف چند کتب کے نام لکھے گئے ہیں پوری تفصیل درج ذیل لنک پر دستیاب ہے۔
(https:؍؍en.m.wikipedia.org؍wiki؍List_of_children%27s_classic_books). (20)
اکیسویں صدی عیسوی :
اس وقت ہم اکیسویں صدی کے دو عشرے طے کر چکے ہیں۔ ان دو عشروں میں مغربی ممالک کی ہوش ربا ترقی ہمارے سامنے ہے، لیکن کتاب کے ساتھ ان کا رشتہ ابھی تک قائم و دائم ہے اور بچوں کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک کتاب سامنے آرہی ہے۔مزید ایک چیز کا اضافہ ہوا ہے کہ بہت سارے ناول کتابی صورت میں چھپنے کے بعد باقاعدہ فلمائے جاتے ہیں یا ان پہ’’ اینیمیشن کارٹون فلمز ‘‘بنائی جاتی ہیں جو کہ بچوں کے لیے بے حد مفید ہیں، لیکن چونکہ تحقیق کا تعلق صرف لکھے ہوئے مواد سے ہوتا ہے یعنی تحریری مواد سے اس لیے سمعی و بصری مواد ہماری تحقیق کے دائرہ کار سے باہر ہے۔
اکیسویں صدی میں’’ہیری پوٹر‘‘ کے ناول بے حد معروف ہوئے، اس سیریز کی مصنفہ جے کے رولنگ ہیں۔یہ کتاب پہلے ناول کی اشاعت سے لے کر آج تک ریکارڈ سیل ہو چکی ہے اور اس کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی، اس پہ باقاعدہ’’ موویز‘‘ بھی بنائی جا چکی ہیں جو کہ بے حد مقبول ہوئی ہیں۔ یقیناً یہ سارا کمال مصنفہ کا ہے ۔اس کے علاوہ بھی بہت سے مصنف اور کتب ہیں جو ادب اطفال کو دوام بخشنے میں مصروف ہیں۔ ان کتب کے مختلف موضوعات ہیں لیکن ان سب کا ایک مشترک مقصد یہ ہے کہ بچوں کو اعلیٰ تفریح، تعلیم اور تربیت فراہم کی جائے اور یہی ادب اطفال کا مقصد اولین ہے۔
ہر ملک اپنے مذہبی، سیاسی، سماجی اور جغرافیائی حالات ہوتے ہیں جس کی بنا پر ہر ملک کے ادب میں جزوی فرق پایا جاتا ہے مثلاً کہیں روحانیت زیادہ ہے تو کہیں مادیت۔کوئی ملک ترقی پزیر ہے تو اس کا ادب اور ہوگا جبکہ ترقی یافتہ ملک کا ادب قدرے مختلف ہوگا۔زرعی ملک کے ادب کا رنگ اور ہوگا جبکہ صنعتی ملک کے ادب میں موضوعات دیگر ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انگلینڈ میں بچوں کے ادب میں محنت پہ زیادہ زور دیا گیا ہے اور اس کے علاوہ بچوں کو اچھا مستقبل بنانے کی ترغیب دی گئی ہے۔
ڈاکٹر خوش حال زیدی لکھتے ہیں:۔
’’بیسویں صدی میںبچوں کے ادب میں ایک زبردست انقلاب آتا ہے۔اس صدی میں بچوں کا ادب امریکہ اور انگلینڈ میں عروج پر پہنچا۔امریکہ اور انگلینڈمیںبچوں کے ادب میں یکساں طور پرترقی ہونے کے باوجوددونوں ممالک کے ادبِ اطفال میں نمایاں فرق رہا ہے۔انگلینڈ کا بچوں کا ادب بہت جامع ہے جس کا سبب یہ ہے کہ انگلینڈ میں شروع ہی سے بچے کے مستقبل پہ توجہ دی جاتی رہی ہے۔وہاں ابتداسے یہ نظریہ رہا ہے کہ مستقبل میںآپ بچوں کو جو کچھ بناناچاہتے ہیں،شروع ہی سے بچوں کی تربیت اسی انداز میںکی جانی چاہیے ۔انگلینڈ میں بچوں کا ادب ہمیشہ بامقصد رہا ہے جو بچوں میں عمل کا جذبہ بیدار کرتا ہے۔‘‘ (22)
جبکہ امریکا میں ادب اطفال کے بنیادی مقاصد مساوات، محبت انسانیت اور مادیت پرستی کے اثرات پیدا کرنا ہیں اور وہاں کا ادب بچوں کو تخیلاتی دنیا کے بجائے حقیقی دنیا کی سیر کراتا ہے۔ یوں ان کے ہاں دیو، جنوں اور پریوں کے بجائے جدید ٹیکنالوجی اور جدید ایجادات کے بارے میں لکھا گیا ہے تاکہ بچے مثبت سمت میں آگے بڑھ سکیں۔ انگلینڈ اور امریکا کے ادب اطفال میں پایا جانے والا جزوی فرق ہمیں یہ سمجھا رہا ہے کہ ادب لکھنے والے ادیب کو بچوں کے ادب میں زمینی حقائق کو بھی سامنے رکھنا چاہیے تاکہ ادب اور حقیقی دنیا قریب قریب نظر آئیں اور بچہ ادب کی روشنی میں حقیقی دنیا میں اپنی کامیابی کی منزل تلاش کر سکے۔
عربی و فارسی زبانوں میں ادب اطفال
عربی میں ادب اطفال کی روایت بہت قدیم ہے۔ اس کا آغاز فرعون کے دور سے ہوتا ہے کیونکہ اس دور کے قصے ملتے ہیں جو کہ ادب اطفال کا نکتہ آغاز ہیں۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عربی ادب میں ادب اطفال کا رخ تب آیا جب عربی ادبیات میں تراجم کے ذریعے مغربی ادب اطفال پہنچا ۔جیسے سینڈریلا ،مکی مائوس اور دیگر کہانیوں کے تراجم ہوئے۔لیکن درست بات یہی ہے کہ اولین نمونے تو فراعنہ کے دور سے ملے ہیں جبکہ مغربی ادب اطفال کے تراجم کے سبب عربی ادب اطفال کو جدت ضرور ملی ہے اور ترقی کے دروازے کھلے ہیں۔
عربی زبان میں موجود ادب اطفال کے پانچ ماخذ ہیں ۔ان کی تفصیل درج ذیل ہے:۔
1۔ قرآن و حدیث کے قصے کہانیاں:
بچوں کو ان قصوں، کہانیوں سے متعارف کرایا گیا جو قرآن کریم میں ہیں۔اسی طرح احادیث میں بھی بہت سارے واقعات ہیں جن کو آسان اور دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا۔ان قصوں میں’’ملکہ سبا اور ہدہد‘‘،’’اصحاب کہف کی کہانی‘‘،’’ہاتھی والوں کا قصہ‘‘ اور’’کھائی والوں کا قصہ ‘‘قابل ذکر ہیں۔ احادیث کہانیوں میں غزوات کے واقعات، کم سن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے واقعات کافی معلوماتی اور دلچسپ ہیں جیسا کہ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ جو کہ بہت تیز دوڑتے تھے، ان کے مہماتی قصے اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بچپن کے واقعات وغیرہ۔
2۔ عرب کی لوک کہانیاں:
یہ لوک کہانیاں ملکی و علاقائی تہذیب کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ایسی کہانیاں بچوں کو بے حد پسند ہوتی ہیں، ان کہانیوں میں اخلاقی اقدار پہ مشتمل قصے بھی ہوتے ہیں اور مافوق الفطرت واقعات پہ مشتمل کہانیاں بھی جیسے عنترہ بن شداد کے قصے، جحا کی مزاحیہ کہانیاں اور علاؤالدین کے پراسرار کہانیاں۔یہ وہی علاؤالدین ہے جسے بگاڑتے بگاڑتے ہم نے ’’الہ دین ‘‘بنا دیا ہے۔
3۔ تراجم :
عربی ادب میں دیگر زبانوں کے تراجم کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ ان تراجم سے ادب اطفال کو بے تحاشا ترقی ملی جیسے ’’پنج تنتر‘‘کا ترجمہ ’’کلیلہ و دمنہ‘‘کے نام سے کیا گیا، اس کے علاوہ ’’مکی ماؤس‘‘ کے تراجم ہوئے، اور’’اسی دن میں دنیا کا چکر‘‘کو بھی ترجمہ کیا گیا۔ تراجم کا یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔
4۔ تاریخی کہانیاں:
اس نوع کی کہانیوںکے ذریعے بچوں کے لیے اقوام عالم کی تاریخ کے اہم واقعات کو دلچسپ پیرائے میں پیش کیا گیا تاکہ بچے تاریخ سے بھی واقف ہوں اور ان کے اندر سوجھ بوجھ بھی پیدا ہو۔مثال کے طور پرسلطان صلاح الدین کے کارنامے،عربوں کی مذہبی کہانیاں وغیرہ۔
5۔ طبع زاد کہانیاں:
ان چار ماخذ کے علاوہ عربی زبان کیایسے ادیب بھی ہیں جنہوں نے طبع زاد کہانیاں لکھ کر عرب زبان کے زرخیز ہونے کا ثبوت دیا ان ادیبوں میں ہم احمد شوقی، نجیب محفوظ اور احمد محمود نجیب کے نام لے سکتے ہیں۔
ظہور اسلام کے بعد عربی ادب میں اسلامی رنگ نمایاں نظر آتا ہے اور یہی رنگ ادب اطفال میں بھی موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے زمانے میں بچوں کی تعلیم و تربیت پہ مبنی ارشادات صادر فرمایا کرتے تھے، بعد میں دور خلفائے راشدین میں مائیں اپنے بچوں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور کے قصے، کہانیاں اور فرمودات دلچسپ پیرائے میں بیان کرتی تھیں۔ ان کہانیوں کا مقصد بچوں میں اچھے اخلاق اور مضبوط عقائد کی ترویج تھا۔
قصے کہانیوں کا آغاز تو دور نبوی ہی میں ہو چکا تھا، اس کا اشارہ اس بات سے بھی ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہوا تھا کہ عشاء کی نماز کے بعد قصہ گوئی سے اجتناب کیا جائے۔ اس دور میں تورات اور یمن کے بادشاہوں کے قصے اور دیگر سابقہ الہامی کتب کے قصے مشہور تھے۔
دور خلفائے راشدین کے بعد اموی دور میں بھی ادب اطفال تخلیق ہوا۔اس دور کے ادبی فن پاروں میں دینیات اور اخلاقیات کے موضوعات عام تھے۔اسی طرح عباسی دور میں بھی ادب اطفال کے نمونے ملتے ہیں۔ عباسی دور کی خاص بات یہ ہے کہ اس دور میں اسلامی تہذیب دیگر تہذیبوں سے ملی اور فارسی، رومانی، یونانی و مصری ادب عربی ادب میں شامل ہوا۔
دور حاضر میں بہت سارے عربی ادیب ہیں جو ادب اطفال میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہی۔ کامل کیلانی وہ ادیب ہیں جنہوں نے سندباد جہازی کے قصے لکھے اور دو سو سے زائد کہانیاں لکھ ڈالیں۔ یہ کام1927ء میں ہوا۔ احمد شوقی وہ مصری ادیب ہیں جنہوں نے بچوں کے لیے نظم و نثر پہ مبنی کتب تصنیف کیں۔نجیب محفوظ کی کہانیاں بھی بے حد مقبول ہوئیں اور 1990ء میں ان کی کچھ کہانیوں کے تراجم کو عبدالحق صاحب نے دہلی سے شائع کرایا۔ احمد محمود نجیب بچوں کے ماہر ادیب ہیں انہوں نے بچوں کے لیے دلچسپ کہانیاں لکھیں، کہانیوں کے علاوہ انہوں ادب اطفال پہ تحقیقی وتنقیدی کتب بھی لکھیں، ان کی ایک کتاب ’’فن کتابۃ الاطفال ‘‘کے تین لاکھ سے زائد نسخے فروخت ہوئے ہیں، ان کو متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا، ان کی چند کتب یہ ہیں:۔
1۔القصۃ فی أدب الأطفال۔
2۔أدب الأطفال علم وفن۔
3۔سلسلۃ قصص مغامرات عقلۃ الإصبع۔
4۔کتاب مسرح العرائس۔
5۔سلسلۃتمثیلیات المسرح المدرسی۔
6۔سلاسل قصص مغامرات الشاطر حسن۔
7۔حکایات الجیل الجدید۔
شام سے’’ ذکریا تامر‘‘ نے بچوں کے لیے سو سے زائد کتب لکھیں ۔ شام سے بچوں کے لیے نکلنے والا رسالہ’’ اسامہ‘‘بھی بہت مقبول ہوا۔ دیگر عرب ممالک میں بھی ادب اطفال پہ لکھنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہے جس نے بچوں کے ادب میں گراں قدر اضافہ کیا۔
عربی کی طرح فارسی ادب میں بھی ادب اطفال تخلیق ہوا۔ بچوں کے ادب میں فارسی زبان کا خیال آتے ہی ذہن شیخ سعدی کی طرف جاتا ہے جو آج سے آٹھ صدیاں قبل ایک بہت بڑے ادیب گزرے ہیں، ان کی چند کتب تو بے حد مقبول ہوئیں:۔
1۔گلستان:اس میں چھوٹی چھوٹی حکایات ہیں جو اپنے اندر اخلاقی اسباق رکھتی ہیں۔
2۔ بوستان: اس میں حکایات کو منظوم شکل میں پیش کیا گیا ہے۔
3۔ کریما سعدی: یہ چھوٹا سا رسالہ ہے جس میں حمدیہ، نعتیہ اور اخلاقی نظمیں شامل ہیں۔
مولوی شرف الدین بخاری صاحب نے بچوں کے لیے وضو، نماز، روزے کے مسائل پہ مشتمل ایک منظوم رسالہ تصنیف کیا۔ اس رسالہ کا نام ’’نام حق ‘‘ہے۔فارسی میں ادب اطفال کے لیے ’’ادب کودکان ‘‘کی اصطلاح مستعمل ہے اور ایران میں ادب اطفال پہ لکھی گئی ایک معروف کتاب کا نام بھی اسی اصطلاح کے مطابق ـ’’تاریخ ادبیات کودکان ایران ‘‘ہے جسے محمد ہادی محمدی اور زہرہ قائینی نے مرتب کیا ہے۔اس کی دس جلدیں ہیں اور یہ کتاب فارسی ادبیات اطفال میں انسائیکلوپیڈیا کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ ایران سے بچوں کے کئی مجلے نکل رہے ہیں، بہت سارے اشاعتی ادارے بھی موجود ہیں اور کچھ ویب سائٹس بھی یہ کام کر رہی ہیں ان میں سے ایک ویب سائٹ بہت مقبول ہے جس کا ایڈریس www.koodaki.org ہے۔
اردو زبان میں ادب اطفال کی روایت:
اردو میں بچوں کا ادب درسی کتب سے شروع ہوتا ہے۔بچوں کی تعلیم کے لیے بہت سی کتب لکھی گئیں۔جب بچوں کی تدریس کے لیے کتب لکھی گئیں تو یقیناً ان کتب کے مدونین کے اذہان میں یہ خیال آیا ہو گا کہ بچوں کے لیے تدریسی کتب دلچسپ اور عام فہم ہونی چاہئیں اور یہ خیال ہی ادب اطفال کی پہلی اینٹ ثابت ہوا۔ظاہر ہے کہ چھوٹے درجات کے بچوں کو پڑھانا نہایت مشکل ہے۔ علامہ اقبال اپنے مضمون ’’بچوں کی تعلیم و تربیت ‘‘میں لکھتے ہیں:۔
’’ پڑھے ہوئے شاگرد کو پڑھانا ایک آسان کام ہے مگر ان جان بچوں کی تعلیم ایک ایسا دشوار امر ہے کہ ہمارے ملک کے معلم اس کی دقتوں سے ابھی پورے طور پر آشنانہیں،ہمارا پرانا طریقی تعلیم چونکہ بچوں کے قوائے عقلیہ و واہمہ کے مدارجِ نمو کو ملحوظ نہیں رکھتا اس واسطے اس کا نتیجہ ان کے حق میں نہایت مضر ثابت ہوتا ہے۔‘‘(23)
اقبال کی یہ بات بچوں کے معلمین کے لیے نشان راہ ہے۔بچے کو پڑھانا نہایت اہم اور توجہ طلب امر ہے۔اور بچوں کی تدریس کا سب سے پہلا مرحلہ اچھی اور معیاری درسی کتب کا لکھنا ہے۔
اولین درسی کتب میں ہمیں درج ذیل کتب ملتی ہیں:۔
1۔ نصاب الصبیان: یہ عربی کا لغت ہے جس میں عربی کے الفاظ کو آسان فارسی میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ لغت ابوالنصر فراہی نے مرتب کیا ہے۔
2۔ خالق باری :یہ لغت امیر خسرو کا مرتب کردہ ہے۔ ایک لمبے عرصے تک اس کا شہرہ رہا۔ اس میں فارسی الفاظ کے اردو میں معانی دئیے گئے ہیں۔
3۔ قادر نامہ: مرزا غالب نے زین العابدین عارف کے بیٹوں کی تعلیمی ضرورت کے پیش نظر یہ لغت مرتب کیا، اس میں آسان اشعار کی صورت میں الفاظ معانی دیئے گئے ہیں، اس کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں :۔
چاہ کو ہندی میں کہتے ہیں کنواں
دود کو ہندی میں کہتے ہیں دھواں
یقیناً یہ غالب ہی ہیں جنہوں نے اپنی مشکل نگاری کے برعکس اس قدر سہل اسلوب اپنایا۔
ان کے علاوہ اس نوع کی دیگر کتب یہ ہیں:۔
1۔ایزد باری، از محمد قصاد
2۔اللہ باری، ازحافظ احسن اللہ لاہوری
3۔ فیض باری، از میر شمس الدین
4۔ قادر نامہ فروغی از غلام احمد فروعی
ان درسی کتب کے علاوہ وہ لوک داستانیں اور لوک گیت تھے جو سینہ بہ سینہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتے آ رہے تھے، پھر ان چیزوں کو بچوں کے لیے تحریری صورت میں پیش کیا جانے لگا۔اردو میں ادب اطفال کی روایت میں بہت سارے نام شامل ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں بچوں کے لیے لکھا۔یہ سلسلہ امیر خسرو کی پہیلیوں،کہہ مکرنیوں اور نظموں سے شروع ہوتا ہے۔پھر ہمیں میر تقی میر جیسے عظیم غزل گو شعراء بھی بچوں کے لیے ’’موہنی بلی‘‘جیسی دل چسپ نظم لکھتے ہوئے ملتے ہیں۔اس کے علاوہ غالب،آزاد،حالی،اقبال،برج نرائن چکبست،اسماعیل میرٹھی،تلوک چند محروم،شفیع الدین نیر اور اس طرح کے دیگر معروف ادباء بچوں کے ادب میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے نظر آتے ہیں۔شخصیات کے علاوہ بہت سارے رسائل اور ادارے بھی ہیں جنہوں نے ادب اطفال کی ترویج و اشاعت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ذیل میں ہم پہلے معروف شخصیات کا تذکرہ کریں گے اور اس کے بعد اداروں اور رسائل کے کردار پر بات کریں گے۔
ادب اطفال کی ترویج میں نمایاں شخصیات کا کردار
ادب اطفال کی ترویج میں بہت ساری شخصیات نے اہم کردار ادا کیا۔ذیل میں کچھ اہم نام پیش کیے جارہے ہیں:۔
1۔ میر تقی میر :(پیدائش1723)
خدائے سخن میر تقی میر کی بعض منظومات ادب اطفال کے زمرے میں آتی ہیں۔بعض محققین تو انہیں بچوں کی اولین منظومات کا درجہ دیتے ہیں۔یہ دل چسپ منظومات ہیں جن کے نام یہ ہیں :
٭ موہنی بلی
٭ بکری اور کتے
٭ مورنامہ
٭ مچھر
٭ مرغی کی لڑائی
میر تقی میر جیسے عظیم غزل گو شاعر کا بچوں کے لیے لکھنا ادب اطفال کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ میر تقی میر کی شاعری میں اگرچہ بچوں کی منظومات کم ہیں لیکن یہ اس دور میں لکھی گئی ہیں جب بچوں کے لیے کوئی لکھاری نہیں تھا۔انڈیا کے ایک رسالہ ماہنامہ ’’آج کل‘‘ اپریل 1976ء ،دہلی میں’’میر تقی میر اور بچوں کی شاعری‘‘کے نام سے ایک مضمون شائع ہوا تھا جس کے مصنف اظہر علی فاروقی ہیں، انہوں نے لکھا ہے:۔
’’اگر نظیر اکبر آبادی کی نظم ’’گلہری کا بچہ‘‘ اور’’ریچھ کا بچہ‘‘اور اسماعیل میرٹھی کی’’ گائے‘‘اور شفیع الدین نیر کی’’ریچھ والا‘‘ اس رجحان کو پورا کر سکتی ہیں اور ان نظموںکو بچوں کی شاعری کے تحت رکھتے ہیں تو پھر کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ میر تقی میرکی ’’موہنی بلی‘‘، ’’بکری اور کتے‘‘اور’’میر کا گھر ‘‘کیوں اس ضمن نہ رکھے جائیں۔‘‘(24)
میر تقی میر کی نظم موہنی بلی کو بچوں کی پہلی نظم قرار دیا جاتا ہے۔
2۔ نظیر اکبر آبادی: (پیدائش ،1735)
نظیر اکبر آبادی نے بچوں کی نظموں کے موضوعات کو وسعت دی۔ان سے پہلے زیادہ تر نظمیں مذہبی موضوعات پر ملتی تھیں جبکہ انہوں نے معاشرے کے عام موضوعات پر طبع آزمائی کرکے انہیں بچوں کے لیے خاص بنادیا۔ان کی نظموں میں بچوں کے لیے تفریح کا وافر سامان ملتا ہے مثلاً کھیل کود، موسم، تہوار، عرس، بارش، روٹی، آٹا دال، آئینہ، پھسلن، جاڑے کی بہار اور چاندنی رات جیسے موضوعات منظومات میں پیش کیے ہیں جو اس دور کے بچوں کے لیے زبان زد عام کا درجہ رکھتی تھیں۔مشہور نظمیں ’’تل کے لڈو‘‘،’’ ریچھ کا بچہ‘‘، ’’ہرن کا بچہ‘‘ اور ’’تربوز ‘‘ہیں۔
ڈاکٹر اطہر پرویز صاحب نے نظیر کی بچوں کے لیے کی جانے والی شاعری کو جمع کیا ہے، اس کتابچہ کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں:۔
’’ نظیر کی شاعری میں ان کے زمانے کی زندگی جھلکتی ہے۔ آگرے کے عام لوگ نظیر سے محبت کرتے تھے لیکن پڑھے لکھے لوگوں نے ان کی قدرنہیں کی۔ نظیر نے بھی اپنے شعروں کو سنبھال کر نہیں رکھا – اس لیے ان کا بہت سا کلام ضائع ہو گیا۔ نظیر نے بچوں، دوستوں اور فقیروں کی فرمائش پر نظمیں لکھیں – – – – – – میں نے نظیر کی آسان نظموں کا انتخاب کیا ہے – ان نظموں کو بچے بآسانی سمجھ سکتے ہیں اور اردو کے اس بڑے شاعر کے کلام سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔‘‘(25)
نظیر اکبر آبادی کی شاعرانہ عظمت اظہر من الشمس ہے اور بچوں کے لیے ان کی منظومات ایک نئے دور کا آغاز تھیں۔
3۔ انشاء اللہ خان انشاء :(پیدائش ، 1752)
انشاء کی نثری کتاب’’رانی کیتکی ‘‘اردو ادب اطفال کی پہلی نثری کتاب مانی جاتی ہے ورنہ اس سے پہلے اطفال کے لیے صرف شاعری کی کتب موجود تھیں۔’’رانی کیتکی ‘‘کا سن اشاعت1793ء ہے۔اس کہانی میں انشاء نے صرف ہندی لفظ برتے ہیں، پوری کہانی میں عربی فارسی کی آمیزش نہیں ہے اور ناقدین نے اسے انشاء کا کمال قرار دیا ہے۔ مولوی عبدالحق صاحب نے1933ء میں اس کو پھر شائع کرایا۔
وہ اس کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:۔
’’ یہ کہانی بھی ان کی جدت طبع کا نتیجہ ہے۔ اس میں یہ التزام کیا ہے کہ فارسی عربی کا ایک لفظ نہ آنے پائے۔ جو دعویٰ انہوں نے کیا، وہ پورا کر دکھایا۔عربی، فارسی کا ایک لفظ تک نہ آیا اور پھر لطف یہ کہ آج کل سی ایسی ہندی نہیں کہ نہ لکھنے والا سمجھے نہ پڑھنے والا۔اردو والا بھی سمجھتا ہے اور ہندی والا بھی۔زبان وبیان دونوں صاف ہیں۔‘‘(26)
مولوی صاحب کا یہ مندرجہ بالا تبصرہ انشاء کی مہارت کو ظاہر کرتا ہے۔ اردو ادب میں بچوں کا نثری ادب ناپید تھا۔ انشاء نے اس میدان میں طبع آزمائی کی اور ادب اطفال میں نثر کی پہلی اینٹ ثابت ہوئے۔
4۔ محمد حسین آزاد:(پیدائش ،1830)
انہوں نے بچوں کی درسی کتب مرتب کیں۔ اس لیے انہیں بچوں کی درسی کتب کا بانی کہا جاتا ہے ۔انہوں نے ’’اردو کی پہلی کتاب ‘‘ ، ’’اردو کی دوسری کتاب ‘‘اور’’اردو کی تیسری کتاب ‘‘مرتب کیں۔ آزاد کی نصابی کتب کے بارے میں ڈاکٹر اسلم فرخی لکھتے ہیں:۔
’’ـــــــــآزاد کی تصنیفی زندگی کا آغاز درسی کتابوں ہی سے ہوا تھا۔ ادبی تصانیف کے وجود میں آنے سے پہلے ان کی درسی کتابیں قبول عام کا خلعت حاصل کر چکی تھیں۔آزاد یکم فروری1864 کو محکمہ تعلیمات پنجاب میں35 ـــروپے ماہوار پر’ اھل مد‘ تنخواہ مقرر ہوئے تھے۔محکمہ تعلیم کی ملازمت شروع ہی سے ان کا مطمح نظر تھی۔‘‘ (27)
درسی کتب کے علاوہ انہوں نے بچوں کے لیے نظمیں اور مضامین لکھے، چند نظموں کے عنوان یہ ہیں:
٭ شب سرما
٭ امتحان سر پر کھڑا ہے
٭ جیسا چاہو سمجھ لو
٭ محنت کرو
٭ چور
٭ طالب علم
ان کی نظموں کے بارے میں سید محمد اجمل جامعی لکھتے ہیں :۔
’’ محمد حسین آزاد کی نظمیں اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہیںکہ انہوں نے خاص طور پربچوں میں اصلاح کی غرض سے یہ نظمیں لکھی ہیں،اور کہیں یہ احساس دلایا ہے کہ دراصل کامیابی کا انحصار محنت ہی پر ہے اور جگہ جگہ انھوں نے محنت کی تلقین کی ہے۔‘‘(28)
نظموںکے علاوہ انھوں نے بچوں کے لیے نثری مضامین بھی لکھے ،جن میں سے کچھ کے عنوانات درج ذیل ہیں:۔
٭ مرغ
٭ کوا
٭ گلہری
٭ کھاناپک رہا ہے
ان کی مشہور کتاب ’’قصص الہند‘‘بھی ادب اطفال کے تحت شامل ہے۔
5۔ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی:(پیدائش:1 183)
ڈپٹی نذیر احمد اردو کے پہلے ناول نگار ہیں۔ ان کے ناول بڑوں کے لیے ہیں لیکن انہوں نے بچوں کے لیے بھی لکھا ہے۔’’منتخب الحکایات ‘‘میں ستر حکایات ہیں جو کہ اصلاح اطفال کے موضوعات پہ مشتمل ہیں۔ علاوہ ازیں’’ چند پند‘‘کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں مضامین ہیں۔ چند پند کے ٹائٹل پہ لکھا ہے:۔
’’اپنے لڑکے کو حرف شناسی کے بعد پڑھانے کے لیے تصنیف کیا۔‘‘
بعد میں یہ کتاب سرکاری سکولوں کے نصاب میں شامل کی گئی، یعنی یہ ایک درسی کتاب ہے جس میں بچوں کی اصلاح کے لیے سبق آموز نصائح اور کام کی باتیں جمع ہیں، چند مضامین کے عنوانات دیکھیے:
٭ صفائی یعنی ستھرا پن
٭ سونا
٭ کھانا
ڈپٹی صاحب کی بچوں کے لیے لکھی گئی ان کتابوں پہ بھی سنجیدہ اسلوب غالب ہے لیکن ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
6۔ الطاف حسین حالی:(پیدائش: 1837)
حالی معلم پیشہ تھے۔ وہ بچوں کو قریب سے جانتے تھے۔بچوں کی پسند نا پسند اور دل چسپیاں ان کے پیش نظر تھیں اس لیے انہوں نے بچوں کے لیے بہت ساری نظمیں لکھیں۔یہ منظومات مذہبی و اصلاحی نوعیت کی بھی ہیں اور کچھ میں کھیل و تفریح کے پہلو بھی ہیں، چند منظومات یہ ہیں:۔
٭ شیر کا شکار
٭ سپاہی
٭ موچی
٭ راست گوئی
٭ امید
٭ خدا کی شان
٭ میں کیا بنوں گا
٭ حب وطن
حالی کی بچوں کے لیے لکھی گئی منظومات کو الگ سے بھی شائع کیا گیاہے۔ صالحہ عابد حسین نے ایک کتاب ’’بچوں کے حالی‘‘مرتب کی ہے۔ اس کتاب میں مصنفہ لکھتی ہیں:۔
’’مگر مولانا حالی کو بڑوں ہی سے دلچسپی نہ تھی – وہ بچوں کو بھی بہت چاہتے تھے، سچی بات تو یہ ہے کہ بڑوں سے زیادہ بچوں کے لیے پیار کرتے اور ان سے دلچسپی لیتے تھے،انہوں نے بچوں کے لیے بھی نظمیں لکھی ہیں۔کچھ نظمیں بہت چھوٹے بچوں کے لیے بھی لکھی ہیں ۔‘‘(29)
حالی کی منظومات سے اردو شاعری میں جدت کی لہر دوڑ گئی تھی اور اس بنا پر ان کو اردو شاعری کا مجدد کہا جاتاہے۔
7۔ اسماعیل میرٹھی:(پیدائش ، 1844)
اسماعیل میرٹھی ادب اطفال کا روشن ستارہ ہیں۔ انہوں نے ادب اطفال میں جو شہرت پائی ہے وہ کسی اور کام میں نہیں ملی۔اگرچہ انہوں نے جن میدانوں میں طبع آزمائی کی ان سب میں بہت اچھا لکھا مگر ان پہ ادب اطفال کی گہری چھاپ ہے جس کی بنا پر وہ اسی حوالے سے معروف ہو گئے۔ ادب اطفال میں ان کا کام کئی شعبوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:۔
(الف) درسی کتب: انہوں نے بچوں کے لیے جو درسی کتب مرتب کیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ انہوں نے کل چھے کتب مرتب کیں:
1۔اردو کا قاعدہ
2۔اردو کی پہلی کتاب
3۔ اردو کی دوسری کتاب
4۔اردو کی تیسری کتاب
5۔ اردو کی چوتھی کتاب
6۔ اردو کی پانچویں کتاب
ان کتب میں جو نظمیں، کہانیاں، حکایات اور معلوماتی مضامین ہیں ان میں سے زیادہ تر چیزیں ان کی اپنی لکھی ہوئی ہیں۔
(ب) کہانیاں:
انہوں نے بچوں کے لیے طبع زاد کہانیاں لکھی ہیں جن کا ذکر ڈاکٹر سیفی پریمی نے اپنے مقالے “اسماعیل میرٹھی حیات و کارنامے” میں بھی کیا ہے، چند کہانیوں کے عنوان یہ ہیں:
٭باجے کا بھوت
٭ایک شیر اور چیتا
٭سرکشی کا ثمرہ
(ج) نظمیں:
ان کی منظومات تفریحی اصلاحی اور ملی نوعیت کی ہیں۔- چند نظمیں یہ ہیں:
٭ پن چکی
٭ ساون کی گھڑی
٭ اسلم کی بلی
٭ ایک وقت میں ایک کام
٭ بارش کا پہلا قطرہ
٭ جگنو اور بچہ
٭ آم کی تعریف
ایک محقق لکھتے ہیں :۔
’’اسماعیل کی نظموں میں ہر عمر کے بچوں کی دلچسپی اور قابلیت کے لحاظ سے نظمیں مل جاتی ہیں۔ ان کے کلام میں حسن قدرت کی جھلک ہے -سلاست اور سادگی ایک حد تک حالی کے کلام میں بھی موجود ہے مگر اسماعیل کی سادگی اور سلاست ان سے کہیں زیادہ ہے۔ان کی سادگی میں بچوں کا بھولا پن اور لڑکپن کی شوخی کی جھلک ہر جگہ نمایاں ہے۔‘‘(30)
اس اقتباس سے پتہ چلتا ہے کہ اسماعیل میرٹھی کی شاعری سہل نگاری کی بنا پر بچوں میں قبولیت عامہ کا درجہ رکھتی ہے۔ انہوں نے بچوں کے روزمرہ کے معمولات کو اپنی شاعری میں سمو دیا ہے۔یوں ان کا کلام بچوں کے لیے ہردل عزیز ہو گیا۔انہیں بچوں کے ساتھ دلی وابستگی تھی،اس لیے ان کی شاعری میں بچوں کی خیرخواہی اور تفریح کا وسیع حصہ ملتا ہے۔اسی بارے میں حکیم محمد سعید صاحب لکھتے ہیں:۔
’’ بچوں سے مولانا کی دوستی بہت بامقصد تھی۔ وہ قوم کو ذہنی، فکری اور عملی حیثیت سے جس مقام پر لانا چاہتے تھے، اور اس کو جو کچھ دینا چاہتے تھے، نونہالوں ہی کے ذریعے دے سکتے تھے، انہی کے ذہن کی تعمیر سے قوم تیار ہو سکتی تھی ، لہٰذا انہوں نے ان کے بارے میں بڑی سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا، اور یہ فیصلہ کیا کہ نونہالوں کو پوری توجہ دینا، ان میں علم کا شوق پیدا کرنا اور ان کی تربیت کا انتظام کرنا قومی تعمیر کے لیے ازحد ضروری ہے۔‘‘ (31)
حکیم محمد سعید نے اسماعیل میرٹھی کی فکری کاوشوں کا تذکرہ کیا ہے۔ یقیناً بچوں کے ادب میں اسماعیل میرٹھی ایک مکمل عہد کی حیثیت رکھتے ہیں۔
8۔ علامہ محمد اقبال:(پیدائش،1877)
یہ ادب اطفال کی اہمیت کا بین ثبوت ہے کہ علامہ اقبال جیسے حکیم الامت نے بھی اس ضمن میں کام کیا۔ علامہ اقبال نے ادبی کام کے آغاز میں ہی بچوں کی تعلیم پہ مشتمل ایک مضمون لکھا جس کا عنوان ’’بچوں کی تعلیم و تربیت ‘‘ہے۔یہ مضمون عبدالغفار شکیل کی کتاب ’’اقبال کے نثری افکار‘‘میں موجود ہے ۔ اس مضمون میں اقبال نے بچوں کے لیے عمدہ نصابی کتب کی اہمیت پہ زور دیا ہے۔ اس کے علاوہ اقبال نے بچوں کے لیے بہت ساری نظمیں تخلیق کیں، کچھ نظمیں طبع زاد ہیں جبکہ کچھ غیر ملکی ادب سے ماخوذ ہیں۔ان کی مشہور نظمیں درج ذیل ہیں :۔
٭ ایک پرندہ اور جگنو
٭ پرندے کی فریاد
٭ ہندوستانی بچوں کا گیت
٭ ایک گائے اور بکری
٭ ایک پہاڑ اور گلہری
٭ ایک مکڑا اور مکھی
٭ بچے کی دعا
٭ ہمدردی
٭ عہد طفلی
٭ طفل شیر خوار
٭ ایک آرزو
یہ تمام نظمیں کلیات اقبال میں موجود ہیں۔اقبال کی نظموں پہ تبصرہ کرتے ہوئے عبدالقوی دسنوی نے لکھا ہے:۔
’’وہ بچے کے ذہن کی تعمیر اس طرح کرنا چاہتے تھے جس سے وہ ایسا انسان بن سکے جو خداآگاہ ہو، صداقت شعارہو، حریت پسند ہو، ہمدرد مجسم ہو،غرور وتکبر کی لعنت سے پاک ہو،محسن شنا س ہو،خدمت گزار ہو،غریبوں کا مددگار ہو،کمزوروں کا حامی ہو،وطن پرست ہو،انسان دوست ہو،برائیوں سے پاک ہو اور پیکرِ عمل ہو۔‘‘ (32)
گویا اقبال اپنی شاعری کے ذریعے بچوں کی اخلاقی اقدار کو سنوارنا چاہتے تھے۔اقبال بچوں کے لیے مستقل نہ لکھ سکے کیوں کہ ان کی ملی و سیاسی مصروفیات بڑھ گئی تھیں۔ لیکن بچوں کے لیے ان کی کاوشیں نہایت اہم ہیں۔
9۔ منشی پریم چند:(پیدائش ،1880)
منشی پریم چند کی کہانیوں میں بچوں کے مسائل پہ لکھا گیا ہے اور یہی کہانیاں ادب اطفال میں شامل ہوئیں۔چونکہ وہ سکول کی انسپکشن ٹیم کے آفیسر تھے اس لیے ان کا بچوں سے واسطہ پڑتا رہتا تھا، اسی لیے انہوں نے بچوں پہ قلم اٹھایا، بچوں کے لیے ان کی مشہورکہانیاں درج ذیل ہیں:۔
٭ عید گاہ
٭ گلی ڈنڈا
٭ جگنو کی چمک
٭ معصوم بچہ
٭ نوک جھونک
٭ ہولی کی چھٹی
٭ اناتھ لڑکی
٭ نئی دنیا
٭ نمک کا داروغہ
٭ کشمیری سیب
٭ طلوع محبت
٭ عبرت
ان کی کہانیوں میں دیہات نگاری اور پر کشش اسلوب ملتا ہے۔
10۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم : (پ، 1899)
صوفی تبسم بچوں کے معروف شاعر ہیں۔انہوں نے بچوں کے لیے بے شمار کتب لکھیں۔ جن میں شہرہ آفاق کتابیں یہ ہیں:
٭ جھولنے
٭ ٹوٹ بٹوٹ
٭ کہاوتیں اور پہلیاں
٭سنو گپ شب
’’جھولنے ‘‘ تو ننھے منے بچوں کے لیے ایسی کتاب ہے جو ہر بچہ اپنے اپنے بچپن میں پڑھتا رہا ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے نصابی کتب بھی لکھیں، اسی بارے میں ڈاکٹر نثار قریشی لکھتے ہیں:۔
’’صوفی تبسم نے پہلی جماعت کے قاعدے سے لے کر ایف اے کی سطح تک اردو فارسی کی متعدد کتب تصنیف و تالیف کیں۔ یہ کتب برس ہا برس تک صوبہ پنجاب، سرحد، فیڈرل ایریا کراچی اور آزاد کشمیرمیں پڑھائی جاتی رہیں۔ ‘‘(33)
صوفی تبسم نے بچوں کے لیے ٹوٹ بٹوٹ جیسا مزاحیہ کردار بھی تخلیق کیا اور اس پہ شاہکار نظمیں لکھیں۔

11۔ حفیظ جالندھری:( پیدائش،1900)
حفیظ جالندھری نے بچوں کے لیے نظمیں اور کہانیاں لکھیں۔ ان کی نظموں کے کئی مجموعے شائع ہوئے ہیں جیسا کہ ہمیں ’’حفیظ کے گیت اور نظمیں‘‘ چار جلدوں میں ملتے ہیں اور ان کے علاوہ ایک مجموعہ ’’بہار کے پھول‘‘ بھی ہے۔ انہوں نے منظوم کہانی پہ مشتمل ایک کتاب ’’ہندوستان ہمارا‘‘بھی لکھی ہے۔
سید محمد اجمل جامعی لکھتے ہیں :۔
’’مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حفیظ کی شاعری میں وہ تمام عناصر موجود ہیں جو اچھی اور سچی شاعری کاسرچشمہ کہے جا سکتے ہیں۔ ان کی بچوں سے متعلق نظمیں مفید اور کارآمد بھی ہیں۔‘‘(34)
انہوں نے بچوں کے لیے نثری تخلیقات بھی چھوڑی ہیں جن میں سے کچھ طبع زاد اور کچھ ماخوذ ہیں۔انہوں نے الف لیلیٰ کی کچھ کہانیاں دوبارہ نئے اسلوب سے لکھیں جیسا کہ ’’سند باد جہازی ‘‘کے قصے کو آسان الفاظ میں پیش کیا۔ اس قصے کے ٹائٹل پہ ہی لکھا ہوا ہے:
’’سند باد جہازی، یعنی الف لیلیٰ کا ایک مشہور و دلچسپ قصہ جسے ابوالاثر حفیظ جالندھری نے بچوں کے لیے آسان عبارت میں لکھا۔‘‘
12۔ امتیاز علی تاج: (پیدائش، 1900)
معروف ڈراما نگار امتیاز علی تاج نے بچوں کے ادب میں بھی بہترین کام کیا ہے۔ان کا یہ کام طبع زاد کہانیوں اور ماخوذ کہانیوں کی صورت میں ہے۔ انہوں نے چچا چھکن کا کردار متعارف کرا کے ادب اطفال میں مزاح کی کمی کو پورا کیا ہے۔’’ چڑیا خانہ،’’ موت کا راگ‘‘،’’ بچوں کی بہادری ‘‘اور’’ چچا چھکن‘‘ نثری کتب ہیں جبکہ نظموں کا مجموعہ ’’پھول باغ ‘‘ہے۔ امتیاز علی تاج نے بچوں کے لیے ایک جاسوسی سیریز انسپکٹر اشتیاق بھی شروع کی تھی۔ چڑیا خانہ میں پرندوں کی دلچسپ کہانیاں جمع کی گئی ہیں جیسا کہ اس کتاب کے ٹائٹل پہ بھی صراحت کر دی گئی ہے۔
خود امتیاز علی تاج اس کتاب کے دیباچہ میں لکھتے ہیں :۔
’’ میں نے (رسالہ) پھول کی پچھلی جلدوں میں سے جانوروں کی کہانیاں چھانٹ کرانہیں مناسب ترتیب سے جمع کیا تو ایک خاصی کتاب بن گئی۔اس کتاب کا نام میں نے چڑیا خانہ تجویز کیا ہے۔‘‘ (35)
امتیاز علی تاج نے بچوں کے معروف رسالہ پھول کی ادارت کے دوران بچوں کے لیے نہایت اہم کام کیا۔لیکن ان کی ادبی زندگی کا یہ پہلو ان کی ڈراما نگاری کی شہرت میں چھپ گیا ہے۔
13۔شوکت تھانوی:(پیدائش ، 1904)
معروف مزاح نگار شوکت تھانوی کا اصل نام محمد عمر تھا۔انہوں نے اپنے قلمی نام سے شہرت پائی۔وہ اپنے مزاحیہ کالموں کی وجہ سے مقبول ہوئے۔اس کے علاوہ وہ بچوں کے بھی مقبول لکھاری رہے ہیں انہوں نے بچوں کے لییبہت ساری کتب لکھی ہیں جن میں درج ذیل تخلیقات معروف ہیں:۔
٭ گولر کا پھول
٭ کالا منہ
٭ مریخ کی سیر
ان کی کتابیں ادب اطفال میں مزاح کے پہلو پہ ہیں۔ ان کی زبان میں شائستگی اور شگفتہ پن نمایاں ہے۔
14۔ میرزا ادیب:(پیدائش ، 1914)
مرزا ادیب کا اصل نام دلاور علی ہے۔ وہ ایک ڈرامہ نگار ہیں لیکن انہوں نے بچوں کے لیے بھی لکھا ہے۔بچوں کے لیے ان کی کہانیاں اور ڈرامے تو مقبول ہیں لیکن ادب اطفال کے لیے ان کی تحقیقی و تنقیدی کاوشوں سے لوگ واقف نہیں۔انہوں نے بچوں کا ادب پر ایک پرمغز کتاب بھی لکھی ہے۔ ان کی کچھ کتابوں کی تفصیل درج ذیل ہے :۔
٭ مثالی طالب علم (نصائح پہ مشتمل ہے)
٭ چچا چونچ (مزاحیہ ناول)
٭ شہر سے دور (مہماتی)
٭ گدھا کہانی
٭ بچوں کے ڈرامے
٭ نانی اماں کی عینک (ڈرامہ)
٭ ڈالیاں (نظمیں)
٭ شیروں کا بادشاہ (کہانیاں)
اقرا سبحان نے لکھا ہے:۔
’’بچوں کے لیے لکھی گئی تخلیقات کے اجمالی جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ میرزا ادیب بچوںکے تئیں ادیب کی ذمے داری کو محسوس کرتے تھے، اور انھوں نے اس تعلق سے بھی بھر پور لکھا۔ ممکن ہے کہ بچوں کے لیے لکھتے وقت اُن کے سامنے ماں کا وہ چھوٹا’’دلور‘‘اوراس کے احساسات عکس فگن ہوجاتے ہوں کیوں کہ ان کی بیشتر تخلیقات کو پڑھتے ہوئے ان کی خود نوشت سوانح ’’مٹی کا دیا‘‘ ضرور یاد آتی ہے۔‘‘(36)
اس اقتباس سے مرزا ادیب کی ادب اطفال سے الفت ووابستگی کا پتہ چلتا ہے۔وہ اپنے بچپن کے جذبات و احساسات کو اپنی کہانیوں کا حصہ بناتے ہیں ۔وہ بچوں کے لیے وہ سب کچھ چاہتے ہیں جس سے وہ خود محروم رہے تھے۔
15۔کرشن چندر:(پیدائش ، 1914)
معروف افسانہ نگار کرشن چندر نے بھی بچوں کے لیے دل چسپ کہانیاں لکھیں، ان کی کتب یہ ہیں :
٭ ستاروں کی سیر
٭ الٹا درخت
٭ چڑیوں کی الف لیلیٰ
٭ بے وقوفوں کی کہانی
٭ سونے کاسیب
٭ سونے کا صندوق
٭ شیطان کا تحفہ
انہوں نے تقسیم کے بعد بچوں کے ادب کی طرف توجہ کی ہے۔جن میں ’’چڑیوں کی الف لیلہ‘‘ اور’’ الٹا درخت ‘‘کو قبول عام کا درجہ حاصل ہوا ہے ۔ ہر دو ناول بچوں کے مشہور رسالہ کھلونا، دہلی میں قسط وار چھپتے رہے ہیں۔’’الٹا درخت‘‘ کو بھی بچوں میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ روس میں اسے قدر کی نگاہوں سے دیکھا گیا اور وہاں اس کی فلم بھی بن چکی ہے۔یہ ناول میجک رئیلزم پہ ہے یعنی جادوئی حقیقت نگاری۔
ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی لکھتے ہیں:۔
’’ــناول اور طویل کہانیوں کے علاوہ انہوں نے بہت سی مختصر کہانیاں اور ڈرامے بھی لکھے ہیں، کرشن بچوں کے ساتھ بچہ بن جاتے ہیں، وہ اپنی تحریروں میں بچوں کی نفسیاتی پیچیدگیوں کا پورا خیال رکھتے ہیں ، ان کی زبان اور اسلوب بچوں کے مزاج اور مذاق سے ہم آہنگ ہے،غرض جدید سائنسی اور صنعتی دنیا کے پس منظر میں ان کی کہانیاں ، ناول اور ڈرامے اپنے شاعرانہ اوررومانوی طرز نگارش کی بنا پر لافا نی شاہکار کا درجہ رکھتے ہیں ۔‘‘(37)
16۔ احمد ندیم قاسمی:(پیدائش1916)
احمد ندیم قاسمی ادبی دنیا میں افسانہ اور شاعری کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے ہر میدان میں طبع آزمائی کی ہے۔ بچوں کا ادب بھی ان کی دسترس میں آئے بغیر نہ رہا ۔بچوں کے لیے ان کی درج ذیل کتابیں ملتی ہیں:۔
٭ تین ناٹک
٭ دوستوں کی کہانیاں
٭ نئی نویلی کہانیاں
اس کے علاوہ انہوں نے بچوں کے لیے نظمیں بھی لکھی ہیں۔ ہمارے ہاں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے نصاب میں بھی ان کی نظمیں شامل ہیں۔احمد ندیم قاسمی کی بچوں کے معاصر ادب پہ بھی گہری نظر تھی، وہ بچوں کے لیے صحت مند ادب چاہتے تھے،وہ بچوں کے درسی اور غیر درسی ادب میں بھی بہتری کے خواہاں تھے۔
17۔حکیم محمد سعید:(پیدائش1920)
حکیم سعید بچوں اور بچوں کے ادب سے بے حد شغف رکھتے تھے۔ اپنی شہادت تک وہ اپنے ہی شروع کردہ رسالے ہمدرد نونہال سے مکمل طور پر وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے نونہال ادب کے نام سے بچوں کے لیے کتب کا سلسلہ شروع کیا جو ابھی تک جاری ہے۔ اس سلسلے میں کئی مختلف موضوعات پر کتب شائع کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہترین عالمی ادب کے تراجم بھی شائع کیے جاتے ہیں۔ حکیم محمد سعید نے دو سو سے زائد کتب لکھیں جو کہانیوں اور مضامین پہ مشتمل ہیں۔
چند کتب یہ ہیں:۔
1۔نقوش سیرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (5 حصے)اس کا سندھی ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔
2۔نور کے پھول
3۔کتاب دوستاں
4۔حلال اور حرام اسلام میں
5۔سنہرے اصول
6۔نونہالوں کے خطوط
7۔لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
8۔نماز پڑھیے
9۔تلاش امن
حکیم محمد سعید کا بچوں کے لیے ہمدرد نونہال کا اجراء ان کا اہم کارنامہ تھا جس سے آج تک بچے فیض یاب ہو رہے ہیں۔
مسعود احمد برکاتی لکھتے ہیں:۔
’’1953 میں’’ہمدرد نونہال‘‘جاری کیا اور اس کے ذریعے نو نہالوں کو ایسا ادب فراہم کیا جو ان کے لیے ذہنی تفریح کا ذریعہ بھی ہے اور ان کے علم میں اضافے کا وسیلہ بھی، حکیم صاحب نے مجھے اس کا ایڈیٹر مقرر کیا اور کہا کہ ہمدرد نونہال کو بچوں کا بہترین رسالہ بنانے میں اپنی پوری صلاحیتیں صرف کر دو۔‘‘(38)
حکیم محمد سعید پاکستان میں ادب اطفال کے سب سے بڑے محسن ہیں۔ ہمدرد نونہال آج بھی اپنی کرنیں چہار سو پھیلا رہا ہے۔
18۔سعید لخت:(پیدائش 1924)
سعید لخت کا اصل نام سعید احمد خان ہے۔ وہ بچوں کے مقبول ترین ادیب رہے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں محاورات اور ضرب الامثال کا استعمال حسن و خوبی سے ملتا ہے۔وہ بچوں کے مقبول رسالے تعلیم و تربیت کے مدیر بھی رہے ہیں۔ انسپکٹر سعید کے کارناموں پر مشتمل کہانیاں بے حد پسند کی گئیں۔ان کی چند معروف کتابیں درج ذیل ہیں :۔
٭ گگو میاں
٭ الو کے گھونسلے
٭ حافظ جی
آپ نے اردو انسائیکلوپیڈیا کے نام سے ایک لغت بھی تیار کیا۔آپ نے بچوں کے لیے بہت ساری انگریزی کہانیوں کا ترجمہ بھی کیا۔ ان کی کتاب ’’سرائے کے اند‘‘ان چھ کہانیوں پرمشتمل ہے،جن کا پلاٹ مشہور انگریزی افسانوں سے ماخوذ ہے۔ اسی طرح کارلوکولودی کی بچوں کیلئے کہانی’’دی ایڈونچر آف پناکو‘‘کو دنیا بھرمیں بے حد مقبولیت ملی۔ کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا۔ سعید لخت کے قلم سے اس کا اردو ترجمہ ’’پناکوکے کارنامے ‘‘کے عنوان سے چھپ کر بچوں میں مقبول ہوا۔
19۔سید علی ناصر زیدی:(پیدائش:1925)
آپ ہندوستان میں پیدا ہوئے۔قیام پاکستان کے بعد آپ لاہور میں سکونت پزیر ہوئے۔انہوں نے سائنسی موضوعات پر کتب لکھیں۔ان کی سائنسی کتابوں کی تعداد چالیس تک پہنچتی ہے۔بچوں کے لیے ان کی درج ذیل کتب معروف ہیں:۔
٭ ستاروں کی دنیا
٭ سائنس کے نئے افق
٭ جدید ایجادات
٭ عجائبات سائنس
٭ آئو تجربے کریں
٭ بجلی کی کہانی (یونیسکو ایوارڈیافتہ)
20۔ ابن انشاء : (پیدائش ، 1927)
ابن انشاء اپنے فکاہیہ اور شگفتہ انداز تحریر کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لیے نظموں کا مجموعہ ’’بلو کا بستہ ‘‘کے نام سے شائع کیا۔ ان کی چھوٹی بہن کا نام بلقیس بانو تھا جسے گھر میں پیار سے’’ بلو‘‘کہا جاتا تھا، ابن انشاء نے اپنے مجموعہ بھی انہی کے نام سے موسوم کر دیا۔
اسی مجموعہ میں ہی ایک نظم ہے:۔
اردو نہ جانو
انگلش نہ جانو
کہتی ہو خود کو
بلقیس بانو
عمر کی اتنی
پکی نہیں ہو
چھ سال کی ہو
بچی نہیں ہو
اس مجموعہ میں شامل چند نظموں کے عنوان یہ ہیں:
٭ بلو کا بھالو
٭ بلو کی مرغی
٭ بلو کا بستہ
٭ میدو کا طوطا
٭ شہنازی کے کھلونے
بلو کا بستہ کے تعارف میں بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب لکھتے ہیں:۔
’’ایک مدت کے بعد اب ایسی نظموں اور بولوں کا مجموعہ میری نظر سے گزرا ہے اور اسے دیکھ کر مجھے بے انتہاخوشی ہوئی کیونکہ مجھے ایک زمانے سے ایسی چیز کی تلاش تھی۔ اس کتابچہ کا نام بلو کا بستہ ہے اس کے لکھنے والے ابن انشاء ہیں جن کی نظمیں ملک میں کافی شہرت پا چکی ہیں لیکن یہ چیز بالکل نئی ہے۔‘‘(39)
اس قتباس سے ابن انشاء کی منظومات کی قدروقیمت کا اندازہ پ ہوتا ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے’’ اردو کی آخری کتاب ‘‘کے نام سے ایک مزاحیہ کتاب لکھی۔ یہ کتاب محمد حسین آزاد کی کتاب ’’اردو کی پہلی کتاب ‘‘کی پیروڈی میں لکھی گئی۔اس کا مزاح قہقہہ بار ہے۔
21۔ اے حمید:(پیدائش، 1928)
اے حمید صاحب بچوں کے پسندیدہ قلم کار گزرے ہیں۔انہوں نے بچوں کے لیے بہت سی کہانیاں تحریر کیں۔100 کے قریب بچوں کے لیے ناول لکھے۔’’عنبر، ناگ اور ماریہ ‘‘کی سو سے زائد کہانی سیریز پر مشتمل کتابیں بچوں کے ادب میں بیش بہا اضافہ ہیں۔اس سیریز نے بچوںکو اپنے سحر میں جکڑے رکھا تھا۔اس کے علاوہ بچوں کے لیے لکھے جانے والے ٹی وی ڈرامہ سیریل عینک والا جن کو پاکستان ٹیلی وژن کی تاریخ میں طویل ترین منفرد و مشہور ڈرامہ سیریل کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
الطاف فاطمہ:(پیدائش :1929)
ان کا تعلق ریاست پٹیالہ سے ہے۔قیام پاکستان کے بعد آپ لاہورآ گئیں۔انہوں نے بچوں کے لیے لکھنے کے ساتھ ساتھ بڑوں کے لیے بھی لکھا۔ان کے تراجم بھی مقبول ہوئے۔نیشنل بک کونسل آف پاکستان نے بچوں کی کتابوں کے مصنفین کی جو ڈائرکٹری شائع کی ہے، اس میں ان کی چند تحریروں کے نام یہ ہیں:۔
٭ سکھی شہزادہ
٭ ایک تھا لڑکا
٭ شاما پری
22۔محمد یونس حسرت:(پیدائش:1933)
آپ ہندوستان میں پیدا ہوئے اور تقسیم کے بعد پاکستان آبسے۔آپ شعبہ ٔ اردو کے پروفیسر تھے اور مختلف شہروں کے کالجوں میں تعیناتی ہوتی رہی۔آپ نے بچوں کے لیے طبع زاد ادب بھی تخلیق کیا اور اس کے ساتھ ساتھ آپ نے تراجم بھی کیے۔ ان کا مزاحیہ کردار ’’اول جلول ‘‘ بچوں میں بے حد مقبول ہوا۔بچوں کے لیے لکھی گئی چند کتب یہ ہیں:۔
٭ اول جلول
٭ اول جلول کی سیر
٭ انوشا کا خواب
٭ شہزادہ الماس کے کارنامے
٭ منے میاں کے کارنامے
٭ اسلامی تاریخی کہانیاں
٭ سچی کہانیاں
٭ سبز پری
23۔مسعود احمد برکاتی: (پیدائش 1935)
مسعود احمدبرکاتی بچوں کے ادیب تھے، جو1953ء سے دسمبر2017ء تک مسلسل بچوں کے ایک ہی ماہنامہ رسالے ہمدرد نونہال کے مدیر رہے۔ وہ حکیم محمد سعید کے قریبی دوست تھے۔ انہوں نے بچوں کے لیے بہت ساری کتب لکھیں، بچوں کے لیے اردو میں پہلا سفرنامہ ان کے قلم سے نکلا ہے۔ مزید کتب یہ ہیں:
1۔قیدی کا اغوا
2۔دو مسافر دو ملک، (سفرنامہ)یہ اردو زبان میں بچوں کے لیے پہلا سفر نامہ مانا جاتا ہے۔
3۔مونٹی کرسٹو کا نواب،( الیگزنڈر ڈوما کے مشہور فرانسیسی ناول کی اردو تلخیص۔)
4۔ہزاروں خواہشیں، (چارلس ڈکنز کے مشہور ناول کی تلخیص ترجمہ۔)
5۔تین بندوقچی،( الیگزنڈر ڈوما کے مشہور فرانسیسی ناول کی اردو تلخیص۔)
6۔چھوٹی سی پہاڑی لڑکی، (ترجمہ ناول۔)
24۔ڈاکٹر جمیل جالبی(پیدائش:1939)
ڈاکٹر جمیل جالبی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔اردو ادب کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش اور لامحدود ہیں۔انہوں نے تحقیق،تدقیق اور تنقید جیسے خشک مضامین میں منہمک ہونے کے باوجود بچوں کے لیے وقت نکالااور ان کے لیے تراجم و طبع زاد ادب پیش کیا۔بچوں کی لیے لکھی گئی تحاریر یہ ہیں:۔
٭ حیرت ناک کہانیاں
٭ خوجی پہ کیا گزری
٭ بید کی کہانیاں
٭ چھن چھن چھن
25۔ستار طاہر(پیدائش:1939)
آپ اردو کے نامور ادیب،مترجم ،کالم نگار اور محقق ہیں۔انہوں نے تین سو کے قریب کتب لکھیں۔ان میں بڑوں اوربچوں دونوں کی کتب شامل ہیں۔بچوں کے لیے ان کی درج ذیل کتب بہت مشہور ہوئیں:۔
٭ زندہ قبر
٭ ڈھول کا پول
٭ برف پر خون
٭ لکڑی کی چابی
٭ بھوت اور موتی
٭ شیشے کا آدمی
26۔سلیم احمد صدیقی (پیدائش:1941)
آپ بچوں کے نامور ادیب ہیں۔لاہور کے معروف اشاعتی ادارے ’’فیروز سنز‘‘نے آپ کے کئی ناول شائع کیے تھے۔آپ نے بہت سے انگریزی ناول ترجمہ کیے۔آپ نے چار زبانوں ،انگریزی ،فارسی،پنجابی اور اردومیں ایم اے کی ڈگریاںحاصل کر رکھی تھیں۔آپ کے لکھے ہوئے چند ناول یہ ہیں:۔
٭ عمران کا پہلا کارنامہ
٭ ننھے شیطان
٭ ساتواں شہزادہ
٭ طوطا مینار
٭ ٹارزن کا پہلا کارنامہ
٭ ہرکولیس کا پہلا کارنامہ
٭ تین ننھے سراغ رساں اور سبز بھوت
27۔مظہر کلیم ایم اے:(پیدائش:1942)
آپ کا اصل نام مظہر نواز خان تھا۔آپ ادیب ہونے کے علاوہ ملتان بار سے وابستہ ایک قانون دان تھے۔اس کے علاوہ ریڈیو ملتان سے ایک سرائیکی شو ’’جمہور دی آواز‘‘کے اینکر پرسن بھی رہے۔انہوں نے بچوں کے لیے بہت سے سلسلہ وار ناول لکھے۔ان کی تعداد ہزاروں سے بھی زائد ہے۔ان سیریز کی تفصیل یہ ہے:۔
٭ چلوسک ملوسک سیریز
٭ چھن چھنگلو سیریز
٭ آنگلو بانگلوسیریز
٭ ٹارزن سیریز
٭ عمرو عیار سیریز
٭ عمران سیریز
٭ میجر پرمود سیریز
٭ کرنل فریدی سیریز
٭ فیصل شہزاد سیریز
ابن صفی کے بعد ان کی لکھی ہوئی عمران سیریز بہت مقبول ہوئی۔
28۔اشتیاق احمد:(پیدائش 1944)
اردو کے’’ سری ادب ‘‘میں اشتیاق احمد کا وہی مقام ہے جو انگریزی سری ادب میں اینڈ بلائیٹن کا ہے۔سری ادب سے مراد جاسوسی ادب ہے۔اشتیاق احمد سے قبل ہمارے ہاں انگریزی ناولوں کے تراجم ہوتے تھے۔بچوں کے لیے طبع زاد ناولوں کی کمی تھی۔انہوں نے اس کمی کو پورا کیا۔اشتیاق احمد نے ساٹھ کی دہائی میں لکھنا شروع کیا اور دو سال قبل اپنی وفات تک آٹھ سو ناول لکھے۔ بچوں کیلئے کہانیوں اور دیگر ناولٹ اس کے علاوہ ہیں۔ اشتیاق احمد کی مقبول ترین انسپکٹر جمشید سیریز کا اولین ناول1972 ء میں شائع ہوا۔ ان کے کرداروں محمود فاروق فرزانہ اور انسپکٹر جمشید سے پاکستان کے بچے خوب واقف ہیں۔ اشتیاق احمد نے بچوں کیلئے مہم جوئی اور حب الوطنی کے جذبات ابھارنے والے ناول تخلیق کیے۔
وہ اردو میں بچوں کے سب سے زیادہ ناول لکھنے والے ادیب ہیں۔ ہر ماہ چار ناول لکھتے تھے۔جب انہوں نے وفات پائی تو ان کے 15 ناول شائع ہونے کے لیے تیار تھے اور ایک ناول پر کام ہو رہا تھا۔ روزنامہ اسلام کے ساتھ شائع ہونے والے ہفت روزہ رسالہ’’بچوں کا اسلام ‘‘کے15 سال تک مدیر رہے۔ان کی کہانیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے اور درجنوں مجموعے شائع بھی ہو چکے ہیں۔ بچوں کے لیے اسلامی، تاریخی، اصلاحی، جاسوسی اور مزاحیہ موضوعات پر لکھا۔ ان کے ناول اسلامی سوچ اور جذبہ حب الوطنی سے معمور ہیں۔
چند ناولوں کے نام یہ ہیں:۔
٭ غار کا سمندر (دو ہزار صفحات)
٭ سی مون کی واپسی
٭ سرخ تیر سیریز
٭ پیکٹ کا راز
٭ سنہری چٹان
٭ مارکوش
٭ بیگال مشن
٭ دائرے کا سمندر
٭ غار کا کنواں
29۔ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر:(پیدائش 1952)
آج سے تقریباً تین دہائی قبل شعبہ’’ بچوں کا ادب‘‘ دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد نے بچوں کے ادب کے لیے نمایاں کام کیا۔ بچوں کے ادیبوں کی حوصلہ افزائی، ان کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا اور ان کی تحریروں پر انعامات، ایوارڈز اور شیلڈوں کا آغاز’’شعبہ بچوں کا ادب ‘‘کا ایک گراں قدر کارنامہ ہے۔ اس کارنامے کا سہرا ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر کے سر بندھتا ہے۔شعبہ ’’بچوں کا ادب ‘‘کے انچارج ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر نے اپنی تمام صلاحیتیں اور خدمات بچوں کے ادب کے لیے وقف کردیں ۔ انہوں نے بچوں کے لیے بہت سی کتابیں لکھیں۔ ان کے ادبی کام پہ الگ سے تحقیقی مقالہ لکھا جا چکا ہے۔کچھ مطبوعات کے نام یہ ہیں:۔
٭ اسمبلی سے کلاس روم تک
٭ بددیانتی کا انجام
٭ تیرتی قبر
٭ خواب مرتے نہیں
٭ سکول سے گھر تک
٭ صحرا کا جہاز
٭ ظلم کا بدلہ
٭ غرور کا بدلہ
٭ ناشتے سے اسکول تک
٭ وعدہ
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر نے بچوں کے ادب پر ایک تجزیاتی کتاب بھی لکھی ہیجا کا نام ہے’’روشنی کا سفر‘‘۔اس کتاب میںپاکستان میں بچوں کے ادب کی پچیس سالہ کارکردگی کو بیان کیا گیا ہے۔
30۔ احمد حاطب صدیقی:(پیدائش1956)
احمد حاطب صدیقی ایک پاکستانی کالم نگار، مزاح نگار، شاعر اور بچوں کے ادیب ہیں۔آپ بچوں کے لیے شاعری کرتے رہے ہیں۔ ان کی نظم’’ یہ بات سمجھ میں آئی نہیں‘‘بہت مشہور ہوئی ہے۔
ادب اطفال پہ ان کی تخلیقات درج ذیل ہیں :۔
1۔نٹ کھٹ نظمیں
2۔یہ بات سمجھ میں آئی نہیں(بچوں کے لیے نظمیں،)
3۔وہ لڑکا کہاں گیا
4۔ٹنکو میاں کی نیکیاں
5۔بے چارے فکری ماموں
6۔کلاس روم
7۔مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتے
8۔مس مانو کی مزے دار میاؤں میاؤں
یہ تمام نظموں کے مجموعے ہیں۔
31۔پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی:( پیدائش ،1959)
آپ بچوں کے معروف ادیب ہیں۔اصل نام یوسف جمال ہے۔ آپ نے ادب اطفال پرتحقیقی کام کرتے ہوئے جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ’’پاکستان چلڈرن رائٹرز گلڈ ‘‘کے بانی بھی ہیں۔پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی نے بچوں کے لیے8000 سے زیادہ کہانیاں لکھی ہیں جو مشہور رسالوں’’پھول‘‘،’’تعلیم وتربیت‘‘اور ’’نونہال‘‘ وغیرہ میں شائع ہوئیں۔
ان کی درج ذیل کتب بے حد معروف ہیں:
1۔سونے کا کیک اور دیگر کہانیاں
2۔لیجئے آئس کریم کھائیے
3۔گرم گرم روٹیاں
4۔بگلو کی چھٹیاں
5۔چابی والی موٹر
6۔آنٹی ہماری گیند دے دیں
32۔احمد عدنان طارق:(پیدائش 1963)
آپ پیشے کے لحاظ سے پولیس آفیسر ہیں اور فیصل آباد میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔مگر اس کے ساتھ ساتھ بچوں کے جانے مانے ادیب بھی ہیں۔ احمد عدنان طارق کی اب تک تقریباً پچیس کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔دو ہزار تیرہ میں ان کی پہلی کتاب’’ تزئین اور تتلیاں‘‘شائع ہوئی ۔ دو ہزار چودہ میں’’بارش اور گلاب ‘‘دو ہزار پندرہ میں ’’ننھا اژدھا‘‘، دو ہزار سولہ میں’’خوابوں کا سوداگر‘‘، ’’سبز دروازے کے پیچھے‘‘ اور’’ملک ملک کی کہانیاں‘‘نیشنل بک فاؤنڈیشن نے شائع کی ہیں ۔
ننھی کہانیوں پر مشتمل دو کتابیں ،’’گلاب کہانی‘‘ اور’’تزئین کہانی ‘‘بھی شائع ہوچکی ہیں ۔اور اب تک ان کی سات سوسے زائد کہانیاں مختلف رسائل اور اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں ۔احمد عدنان طارق دنیا بھر سے بچوں کا نایاب و نادر ادب بھی جمع کر رہے ہیں،اس کے لئے انہوں اپنے گھر میں لائبریری بنارکھی ہے جس میں سینکڑوں کتابیں ہیں ۔جن میں قدیم و جدید بچوں کے ادب کا قیمتی خزانہ موجودہے۔
33۔نذیر انبالوی: (پیدائش ،1965)
نذیر انبالوی صاحب بچوں کے معروف ادیب ہیں۔ وہ طبع زاد کہانیوں کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ صرف دو ہزار سولہ میں ان کی تین سو دس طبع زاد کہانیاں شائع ہوئی ہیں۔- انہوں نے بچوں کے ادب میں نت نئے موضوعات پیش کیے ہیں۔مثلاً حدیث کہانی، ایک آیت ایک کہانی، پانی کہانی ،سکول کہانی وغیرہ۔ انہوں نے بچوں کے نو آموز لکھاریوں کے لیے ایک راہ نما کتاب ’’آئیے لکھنا سیکھیں مع کہانی کیسے لکھیں‘‘بھی تحریر کی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ادب اطفال کی تاریخ پہ تحقیقی کام بھی کر رہے ہیں۔ ان کی کہانیوں کے کئی مجموعہ جات چھپ چکے ہیں، چند ایک کے نام یہ ہیں:
1۔آزادی کی کہانیاں
2۔ماموں مچھلی والے
3۔جنت میں واپسی
4۔درخشاں کہانیاں
5۔ماواں ٹھنڈیاں چھاواں
6۔ایک جگ چھ گلاس
7۔میرے ابو میری جنت
8۔بچوں کے لیے کہانیوں کا تحفہ
9۔اسکول کہانی
10۔ایک آیت ایک کہانی
اس کے علاوہ وہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے تشکیل کردہ نصابی کمیٹی کے ممبر بھی ہیں اور ابتدائی درجات کی نصابی کتب بھی تحریر کر چکے ہیں۔
34۔ ابن آس محمد:(محمد اختر آس پیدائش، 1970)
ابن اس محمد معروف ناول نگار، ڈرامہ نگار اور بچوں کے ادیب ہیں، انہوں نے 1979 میں لکھنا شروع کیا اور اب تک ہزاروں طبع زاد کہانیاں لکھ چکے ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے بچوں کے لیے ’’ہیری پوٹر‘‘ اور’’دی لارڈ آف رنگز ‘‘کا بھی ترجمہ کیا۔ ان کے درج ذیل ناول شائع ہو چکے ہیں:
مزاحیہ ناول:
1۔ للو پنجو
2۔ للو پنجو کا خزانہ
3۔ للو پنجو کی کار
پراسرار اور مافوق الفطرت ناول:
1۔مکان دہشت
2۔دہشت انگیز
3۔ بندر کا آ سیب
4۔ آسیبی بندر
5۔ پراسرار دنیا
ایڈونچر ناول:
1۔ جنگلادمی
2۔ ملکہ نارنیہ
جاسوسی ناول:
1۔ نیگیٹو کا پازیٹو
نیشنل بک فاؤنڈیشن نے ان کی کئی کتب کو انعامات سے نوازا ہے۔
35۔عبدالرشید فاروقی:(پیدائش 1971)
پاکستان میں ادب اطفال کے اہم ادباء میں عبدالرشید فاروقی سر فہرست ہیں۔ وہ جھنگ سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لیے سینکڑوں کہانیاں لکھی ہیں۔ ان کی تحریر میں روانی اور شگفتگی پائی جاتی ہے۔کہانیوں کے کئی مجموعہ جات شائع ہو چکے ہیں:۔
1۔ کپتان جی (کہانیاں)
2۔تم کتنے اچھے ہو (کہانیاں)
3۔ ادھورا کھیل (جاسوسی ناول)
4۔ کٹھن مرحلے ( ماہنامہ کوثر میں شائع ہونے والا ناول)
5۔ فور فائٹرز (جاسوسی ناول )
6۔ چکر باز (جاسوسی ناول)
فاروقی صاحب تاحال بچوں کے لیے لکھ رہے ہیں۔
ان ادباء کے علاوہ ماضی و حال کے دیگر بہت سارے نام ہیں جن کی تفصیل بوجہ طوالت شامل نہیں کی جا سکتی۔ آخر میں ہم چند ان ادیبوں کے نام ذکر کریں گے جو کافی سالوں سے بچوں کے ادب میں لکھ رہے ہیں اور ان کی پہچان ادب اطفال کے حوالے سے تسلیم کی جاتی ہے، یہ چند نام ذیل میں درج ہیں:
1۔ محبوب الٰہی مخمور
2۔ محمد علی ادیب
3۔ محمد فیصل شہزاد
4۔ضیاء اللہ محسن
5۔حافظ حمزہ شہزاد
6۔ تصور عباس سہو
7۔فوزیہ خلیل
8۔ راحت عائشہ
9۔ بینا رانی
10۔ زبیر طیب
11۔ وقاص اسلم کمبوہ
12۔ علی عمران ممتاز
13۔ گل رعنا صدیقی
14۔ حفصہ محمد فیصل
15۔علی اکمل تصور
16۔ ابصار عبدالعلی
17۔ ندیم اختر
18۔ اعظم طارق کوہستانی
19۔ ریاض عادل
20۔ بینا صدیقی
21۔ سیما صدیقی
22۔ حماد ظہیر
23۔جاوید بسام
24۔کاوش صدیقی
25۔ صداقت حسین ساجد
26۔ شاہد فاروق پھلور
27۔ خلیل جبار
28۔ راکعہ رضا
29۔ ڈاکٹر عمران مشتاق
30۔جدون ادیب
31۔ کاوش صدیقی
32۔ مزمل صدیقی
33۔ غلام حسین میمن
34۔ غلام رسول زاہد
35۔ عاطر شاہین
36۔ محمد فہیم عالم
37۔نوشاد عادل
38۔محمد توصیف ملک
39۔غلام محی الدین ترک
40۔محمد اسامہ سرسری
ادب اطفال کی ترویج میں اداروں کا کردار
اردو زبان و ادب میں بچوں کے لیے لکھنے کی روایت قیام پاکستان سے پہلے بھی موجود ہے اور اس کا تذکرہ پہلے آچکا ہے۔یہاں ہم ان کاوشوں اور کوششوں کا ذکر کریں گے جو قیام پاکستان کے بعد کی گئیں۔ادب زمانے کے اتار چڑھاؤ سے کشید کیا ہوا عرق ہوتا ہے جو لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔مختلف ادوار میں حالات و واقعات کے تناظر میں ادب بھی رخ بدلتا ہوا نظر آتا ہے۔1857ء کی جنگ آزادی نے ہمیں تمام پہلوؤں سے متاثر کیا۔صاف ظاہر ہے اس کا اثر ہمارے ادب پر بھی پڑا۔
ایسے ہی برصغیر میں پاکستان کا قیام ایک اہم واقعہ تھا جس نے لوگوں کو بہت متاثر کیا۔ اس لیے قیام پاکستان کے بعد بچوں کے ادب میں بھی جدت آئی۔یہ جدت بہت ضروری تھی اور ہم اسے وقت کا تقاضا بھی کہہ سکتے ہیں۔یہ جدت اس لحاظ سے اہم تھی کہ ہم تبدیلی سے دوچار ہوئے تھے۔نیا ملک اور نئے چیلنجز کا سامنا تھا۔ اس لیے بچوں کے لیے بھی ایسے ہی ادب کی ضرورت تھی جو انہیں تحریک پاکستان، مقاصد پاکستان اور جدوجہد آزادی سے روشناس کرائے۔ہمارے ادیبوں نے ہجرت و فسادات کے تناظر میں ایک نئے اسلامی ملک کے وجود میں آنے کے واقعہ کو دوقومی نظریہ کی روشنی میں خوب بڑھ چڑھ کر بیان کیا اور آج تک یہ موضوع بچوں کے ادب کا مستقل حصہ ہے۔ ہر سال ماہ اگست میں ہمیں اس موضوع کی کہانیاں پڑھنے کو ملتی ہیں۔بچوں کے معروف ادیب نذیر انبالوی نے اس موضوع پر بہت خوب لکھا اور آپ کی اس موضوع پر لکھی گئی کہانیاں’’ آزادی کی کہانیاں ‘‘کے نام سے کتابی صورت میں بھی چھپ چکی ہیں۔
بچوں کے ادب کی ضرورت و اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں اس پر خاطر خواہ توجہ دی گئی اور اس کی ترویج و اشاعت کے لیے ہر ممکن کوششیں کی گئیں۔اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں میں ہمیں بہت ساری ایسی شخصیات ملتی ہیں جنہوں نے ادب اطفال کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ان شخصیات کے علاوہ بہت سارے ایسے ادارے بھی ہیں جنہوں نے بچوں کے ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ان ادروں سے ادب اطفال کو جو فائدہ ہوا،یہاں صرف اسی کا جائزہ لیا جائے گا۔
ذیل میں ہم ان اداروں کے بارے میں مختصر جائزہ لیں گے:۔
(1)اقبال اکادمی پاکستان:
اس ادارہ کو1951ء میں قائم کیا گیا۔پہلے اس کا صدر دفتر کراچی تھا1962ء میں اس ادارہ کو لاہور منتقل کر دیا گیا۔اس ادارہ کا بنیادی مقصد تو اقبال شناسی تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے بچوں کے لیے بھی کتب شائع کیں۔اقبال اکادمی پاکستان نے بچوں کے لیے درج ذیل کتب شائع کیں:۔
(1)میرا اقبال بچوں کے لیے (5حصے)
(2)حکایات اقبال بچوں کے لیے (محمد یونس حسرت)
(3)مقدر کا ستارہ (محمد نوید مرزا کی کلام اقبال پہ مبنی کہانیاں)
(4)سراغِ زندگی (محمد نوید مرزا کی بچوں کے لیے بارہ کہانیاں جو علامہ اقبال کے اشعار کی روشنی میں لکھی گئی ہیں)

(2)پاکستان سائنٹیفک سوسائٹی:
یہ ادارہ1955ء میں کراچی یونیورسٹی میں قائم کیا گیا۔اس ادارہ کا مقصد سائنسی علوم کا فروغ تھا اور اس نے’’ جدید سائنس ‘‘کے نام سے ایک دو ماہی رسالہ بھی جاری کیا۔
ادب اطفال کی ترویج میں کردار :۔
اس ادارہ نے بچوں کو سائنس سے روشناس کرانے کے لیے درج ذیل کتب شائع کیں:
(1)برقیات
(2)فتوحات سائنس
(3)سائنس سے پوچھیے
(4)مچھلی گھر
(5)ہوائی جہاز کی کہانی
(3)ترقی اردو بورڈ:
یہ ادارہ اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے قائم کیا گیا۔اس کا قیام1958ء میں عمل میں آیا. اس ادارہ کے زیر اہتمام اردو کا ایک جامع لغت مرتب کیا گیا۔اس ادارہ کی بچوں کے لیے شائع کی گئی کتب درج ذیل ہیں۔
(1)بات کا سچا
(2)قاضی جی پکڑے گئے
(3)قلعے کا انصاف
(4)زردہ
(5)گل قند
یہ تمام کتب سید ابو تمیمی فرید آبادی نے لکھی تھیں۔
(4)نیشنل بک سنٹر آف پاکستان:
یہ قومی سطح کا علمی و ادبی ادارہ ہے۔اس کا قیام1960ء میں عمل میں آیا۔اس ادارہ نے ایک معروف ماہانہ مجلے کتاب کا آغاز کیا جس میں محققین کی نگارشات شائع ہوتی تھیں۔اسی مجلے نے1966ء کو بچوں کا ادب نمبر بھی شائع کیا۔اس ادارہ کی بچوں کے لیے شائع کی گئی کتب درج ذیل ہیں۔
(1) بچوں کا ادب نمبر (نومبر1966ء کو ماہنامہ کتاب کا خاص نمبر)
(2)بچوں کی کتابیں از ابن انشاء 1965ء (فہرست)
(3)بچوں کی کتابیں از میرزا ادیب1973ء (فہرست)
(5)اردو سائنس بورڈ:
یہ ادارہ1962ء کو بنایا گیا۔اس کے قیام کا مقصد اردو زبان کو جدید سائنسی تقاضوں کے مطابق بنانا تھا۔اس ادارہ کی بچوں کے لیے شائع کی گئی کتب درج ذیل ہیں۔
(1) ہمارے پیارے نبی
(2) بزرگوں کی عزت
(3)تین لوک قصے
(4)پریوں کی کہانیاں
(5)مثالی طالب علم
(6)ماں اور بچہ
(7)غیر ملکی کہانیاں
(6)پاکستان چلڈرنز اکیڈمی کوئٹہ:
یہ ادارہ1962ء کو کوئٹہ میں قائم کیا گیا۔بعدازاں1978ء میں اس کی ایک شاخ کراچی میں بھی کھولی گئی۔اس ادارہ کی بچوں کے لیے شائع کی گئی کتب درج ذیل ہیں۔
(1) جاگو چاند (نظمیں)
(2)ہم سورج چاند (رئیس فروغ کا مجموعہ کلام)
(3)تتلیاں (شریف کمال عثمانی کا مجموعہ کلام )
(4)گلگلے (قیوم نظر کا مجموعہ کلام)
(7)ہمدرد فاؤنڈیشن:
یہ ادارہ کراچی میں حکیم محمد سعید کی زیر نگرانی قائم کیا گیا۔ان کی شہادت کے بعد ان کی دختر سعدیہ راشد اس کی سربراہ بن گئیں۔اس کا قیام1964ء میں ہوا۔اس ادارہ نے مختلف پہلوؤں سے علمی، ادبی اور فلاحی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور بھرپور کام کیا۔اس ادارہ کی بچوں کے لیے شائع کی گئی کتب درج ذیل ہیں۔
(1)بچوں کے لیے ماہنامہ رسالہ ہمدرد نونہال کا اجراء
(2)نقوش سیرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (5 حصے)
(3)نور کے پھول
(4)کتاب دوستاں
(5)حلال اور حرام اسلام میں
(6)سنہرے اصول
(7)لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
(8)نماز پڑھیے
(9)تلاش امن
(10)چالاک خرگوش کے کارنامے
اس ادارے نے بچوں کے لیے سو سے زائد کتب شائع کیں۔
(8)دی چلڈرن قرآن سوسائٹی:
یہ ادارہ1967ء کو لاہور میں قائم کیا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد بچوں کو قرآن کی تعلیمات سے روشناس کرانا تھا۔اس ادارے نے بچوں کے لیے بہت ساری کتب شائع کیں۔
(1)قصص القرآن سیریز (10حصے)
(2)بچوں کے لیے نماز
(3)جان و مال سے جہاد کرنے والے مجاہد
(4)بچوں کے لیے ماہنامہ کوثر کا اجراء
(9)نیشنل بک فاؤنڈیشن:
’’نیشنل بک فاؤنڈیشن‘‘پاکستان کا ادبی ادارہ ہے جس کا قیام1972ء میں عمل میں آیا۔ پاکستان میں کتابوں کی اشاعت اور مطالعہ کتب کے فروع کے لیے سرگرم عمل اس ادارے کا صدر دفتر اسلام آباد میں واقع ہے۔اس ادارہ کی بچوں کے لیے شائع کی گئی کتب درج ذیل ہیں۔
(1)اخلاق نبوی
(2)امید کی کرن
(3)کیلے کا چھلکا
(4)دلچسپ کہانیاں
(5)ایٹم کی کہانی
(6)ہمارا چاند
(7)ہوا زندہ رہے گی
(8)اپنا حصہ
(9)قومی نظمیں
(10)اکادمی ادبیات پاکستان:
یہ ادارہ پاکستانی زبانوں کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا ہے۔اسے1976ء میں قائم کیا گیا۔اس ادارے کا صدر دفتر اسلام آباد میں واقع ہے۔اس ادارہ کی بچوں کے لیے شائع کی گئی کتب درج ذیل ہیں۔
(1)بچوں کا ادب( نثر)از شیما مجید
(2)بچوں کا ادب( نظم)از شیما مجید
(3)سہ ماہی ادبیات کا تین جلدوں پر مشتمل خاص نمبر بعنوان بچوں کا ادب
(4)سہ ماہی ادبیات اطفال کا اجراء
(11)شعبہ بچوں کا ادب،(بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد):
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے زیر اہتمام شعبہ بچوں کا ادب قائم کیا گیا۔یہ ادارہ1987ء کو قائم ہوا۔بچوں کے ادب کے لیے اس ادارے کی خدمات ایک سنہری باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔اس ادارے نے جہاں بچوں کے ادیبوں کی رہنمائی کے لیے تربیتی کیمپ وں کا انعقاد کیا وہیں بچوں کے ادیبوں کے لیے ایوارڈز و انعامات کی فراہمی سے حوصلہ افزائی بھی کی۔اس ادارے نے اردو کے علاوہ انگریزی، سندھی اور پشتو میں بھی بچوں کے لیے کتب شائع کیں،ان میں سے چند کتب یہ ہیں:۔
(1)بطخ کا بچہ
(2)پکنک کا انجام
(3)جگنو کا وعدہ
(4)کامیابی کا راز
(5)سلطان کی سائیکل
اس کے علاوہ اس ادارے نے بچوں کے لیے سینکڑوں کتب شائع کیں۔
(13)پاکستان چلڈرن رائٹرز گلڈ:
یہ ادارہ2002ء میں قائم ہوا۔اس کے روح رواں اور بانی پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی ہیں۔اس ادارے کا مقصد بچوں کے ادب کا فروغ ہے۔اس مقصد کے لیے یہ ادارہ کئی کتب شائع کر چکا ہے۔ادب اطفال کی ترویج کے لیے کتب یہ ہیں:۔
(1)خون آلود خنجر
(2)چابی والی موٹر
(3)پراسرار صندوق
(4)سونے کا کیک
(14)ادارہ تحقیق ادب اطفال:
یہ ادارہ بچوں کے معروف ادیب نذیر انبالوی نے قائم کیا۔اس کا قیام 2004 میں عمل میں آیا۔اس ادارے کے تحت بچوں کے رسائل سے بہترین تحریروں کو منتخب کر کے کتابی صورت میں شائع کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ اس ادارہ کے زیر اہتمام بچوں کے لیے ’’کرنٹ ناول سیریز‘‘ کے نام سے کچھ ناول بھی شائع کیے گئے ہیں۔حال ہی میں اسی ادارہ کے زیر اہتمام فیس بک پر ایک لائیو پروگرام بھی شروع کیا گیا۔یہ پندرہ روزہ پروگرام ہے جس میں باری باری بچوں کے رسائل اور ادباء کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔اس پروگرام کو ’’جہان ادب اطفال‘‘ کا نام دیا گیا ہے لیکن یہ پروگرام دوام کا درجہ نہیں پا سکا۔
ادب اطفال کے لیے کتب یہ ہیں:۔
(1)ایک ادیب ایک کہانی
(2)سنہری کرن
(3)چاند اور تتلیاں
(4)جگنو میاں کی دم
(5)ایک تھی چڑیا
(6)بہروں کا شہر
(7)ایک دیے کی روشنی
(15)چلڈرن رائٹرز گائیڈ:
یہ ادارہ کراچی میں 2011ء میں قائم ہوا۔اس ادارے کے قیام کا مقصد بچوں کے ادب کی ترویج و اشاعت ہے۔اس ادارے سے بچوں کے پانچ رسائل منسلک ہوئے،جو کہ یہ ہیں:۔
٭انوکھی کہانیاں ،کراچی
٭نشان منزل،کراچی
٭نٹ کھٹ،حیدرآباد
٭کرن کرن روشنی،ملتان
٭گلونہ،پشاور
ادب اطفال کے لیے اب تک شائع ہونے والی کتب یہ ہیں:۔
(1)پراسرار گڑیا
(2)چوں کہ چنانچہ
(3)ساتواں طلسم
(4)قائد اعظم محمد علی جناح
(5)علامہ محمد اقبال
(6)سوہنی دھرتی
(7)خوشیوں بھرے غبارے
ان اداروں کی بدولت پاکستان میں بچوں کا ادب ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور ہر آنے والا دن روشن مستقبل کی نوید سنا رہاہے۔امید واثق ہے کہ مستقبل میں ادب اطفال کے سلسلے میں پاکستانی ادب ،عالمی ادب کے ہم پلہ ہو جائے گا۔ان شاء اللہ۔
ادب اطفال کی ترویج میں رسائل کا کردار:
مندرجہ بالا تفصیل کے بعد ہم بچوں کے رسائل کا تذکرہ کرتے ہیں جو بچوں کے ادب میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور انہی رسائل کی بدولت ادب اطفال باقی ہے۔ جب بھی بچوں کے رسائل اور اخبارات کا ذکر کیاجاتا ہے یا اردو میں بچوں کے ادب کی بات آتی ہے تو منشی محبوب عالم کا ’’بچوں کا اخبار‘‘ لاہور،1902ء وہ پہلا رسالہ ہے جو1912ء تک شائع ہوتا رہا۔گوجرانوالہ میں جناب ضیاء اللہ کھوکھر کی ایک ذاتی لائبریری ہے جس میں قدیم رسائل کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ انہوں نے1902 تا2002 تک کے بچوں کے رسائل کی ایک فہرست مرتب کی ہے جس کا نام ’’بچوں کی صحافت کے سو سال‘‘ ہے۔ اس فہرست میں تمام رسائل کے نام، مدیران رسائل کے نام اور اشاعت کے سال بھی درج کیے گئے ہیں۔ اس فہرست کی رو سے منشی محبوب عالم کا نکالا گیا جریدہ بچوں کا پہلا رسالہ قرار پاتا ہے ۔
مولانا امداد صابری کی تاریخ صحافت اردو کی جلد سوم میں جہاں منشی محبوب عالم کے’’ بچوں کا اخبار‘‘کا ذکر ملتا ہے وہیں جلد پنجم میں مرزا احمد اللہ بیگ کے ’’ادیب الاطفال ‘‘حیدرآباد اگست1911ء اور ماہنامہ ہمجولی کا ذکر بھی ہے۔ پاکستان میں بچوں کے کئی رسائل نکالے گئے، جن میں سے کچھ بعض وجوہات کی بنا پر بند ہو گئے جبکہ کچھ اپنا ادبی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، ان رسائل کے نام،عیسوی تاریخ اشاعت اور مقام اشاعت لکھے جا رہے ہیں:۔
نمبر شمار ۔ نام رسالہ و مقام اشاعت ۔ سن اشاعت
الف
1۔ ابابیل، اسلام آباد فروری 2012
2۔ اجالا، اسلام آباد ستمبر2001
3۔ الف اجالا، کراچی جنوری1990
4۔ انوکھی کہانیاں ،کراچی اگست 1991
5۔ ادبیات اطفال ،اسلام آباد اپریل 2017
6۔ الف نگر، لاہور مئی 2018
7۔ اسکول ٹائمز، لاہور اگست1989
8۔ اسکول ڈائجسٹ، کراچی جنوری 1990
9۔ اسکول لائف، کراچی فروری 1999
10۔ اطفال ملکوت ،پشاور دسمبر1993
11۔ اردو کامک ،کراچی مارچ 1979
12۔ اطفال اسلام، لاہور نومبر 2001
13۔ اطفال پاکستان، کراچی مارچ2000
14۔ انکل سرگم، لاہور ستمبر 1989
15۔ اسٹوڈنٹ کلب، گجرات ستمبر2000
16۔ اقراء ، لاہور جنوری2016
17۔ امید بہار ،مظفر گڑھ اکتوبر 1990
18۔ اطفال ، لاہور جنوری 1974
19۔ ایجوکیشن ٹائمز، لاہور جنوری 1989
20۔ آنکھ مچولی، لاہور اگست2003
21۔ آنکھ مچولی ،کراچی جولائی 1986
ب
22۔ بچوں کا اسلام، کراچی جون 2002
23۔ بچوں کا تنزیل ،ملتان ستمبر 2017
24۔ بچوں کا باغ، لاہور اپریل 1975
25۔ بچوں کی دنیا، لاہور جنوری 1948
26۔ بچوں کا دوست، حیدرآباد اکتوبر2004
27۔ بچوں کی کہانیاں، کراچی جنوری 1995
28۔ بچوں کا ڈائجسٹ، لاہور فروری2012
29۔ بچوں کا دوست، بھکر فروری 1990
30۔ بزم قرآن، پشاور اپریل 1995
31۔ بزم قرآن، کراچی نومبر 1993
32۔ بزم قرآن، لاہور جولائی 1993
33۔ بھائی جان، حیدر آباد ستمبر 1982
34۔ بچوں کا گلستان، خانیوال جون2011
35۔ بھائی جان ،کراچی دسمبر 1950
36۔ بقعہ نور، لاہور ستمبر2004
37۔ بچوں کا رسالہ، کراچی جنوری 1983
38۔ بچپن، کراچی فروری 1990
39۔ بچپن،سلام آباد دسمبر 1989
40۔ بچپن ،لاہور دسمبر 1989
41۔ بچوں کا اخبار، لاہور مئی 1902
42۔ بچوں کا اخبار، لاہور جنوری 1948
43۔ بچوں کا اخبار، کوئٹہ جنوری 1972
44۔ بچوں کا ڈائجسٹ ،لاہور جنوری 1962
45۔ بچوں کا گلشن، لاہور اپریل1989
46۔ بچوں کا مون، لاہور مئی 1990
47۔ بقعہ نور، لاہور ستمبر2004
48۔ بزم منزل، کراچی اگست2010
49۔ بہت خوب، حیدر آباد جنوری2003
50۔ بچے من کے سچے، خان پور اکتوبر2010
51۔ بچوں کا میگزین، اسلام آباد فروری 1999
52۔ بچوں کا نشیمن، لاہور اپریل 1990
53۔ ببلو ببلی ، لاہور اکتوبر1996
54۔ بے بی ٹائمز، کراچی مئی 1989
55۔ بہار چمن ،لاہور جون 1989
56۔ بزم قرآن پنجاب، لاہور جولائی 1992
پ
57۔ پھول اور تارے ،کوئٹہ نومبر2004
58۔ پھول پھول خوشبو، راجن پور جنوری2012
59۔ پھول، لاہور ستمبر 1990
60۔ پھولوں کی مہک، حیدر آباد اگست1992
60۔ پیغام ڈائجسٹ، لاہور جنوری 1989
62۔ پیغام ڈائجسٹ، راولپنڈی جون2000
63۔ پھول اورچہرے، لاہور فروری2001
64۔ پلے ٹائم ، لاہور جون1994
65۔ پنکھڑی ، لاہور جولائی 1996
66۔ پھول ہی پھول ، لاہور فروری1979
67۔ پیارا وطن، کراچی جون 1989

ت
68۔ تعلیم و تربیت، لاہور مارچ 1941
69۔ تہذیب اطفال، لاہور جنوری2004
70۔ تعلیمی ڈائجسٹ، لاہور اگست1991
71۔ تاروں کی دنیا، ملتان مارچ1989
72۔ تعلیم نو، حیدرآباد اکتوبر2000
73۔ تصور نونہال قصور جنوری1997
ٹ
74۔ ٹوٹ بٹوٹ، کراچی جنوری1978
ج
75۔ جگنو ،لاہور اکتوبر 1974
76۔ جنگل منگل، کراچی جنوری2006
77۔ جاسوس بھوت، لاہور جنوری2004
78۔ جگنو ،کراچی جنوری1995
79۔ جان عالم ،کراچی جنوری1991
80۔ جگمگ تارے، کراچی جنوری 2014
81۔ جگمگ موتی ،لاہور جنوری2017
82۔ جہان ادب، مستونگ اکتوبر1989
چ
83۔ چاند، لاہور جون 1925
84۔ چنبیلی، لاہور جون 1994
85۔ چاند نگر، فیصل آباد اکتوبر 1991
86۔ چاند ستارے، لاہور نومبر 1988
87۔ چندا، کراچی نومبر1995
88۔ چائلڈ سٹار، کراچی نومبر 2001
89۔ چلڈرن ٹائمز، کراچی مئی 2001
90۔ چلڈرن ورلڈ، لاہور نومبر1995
91۔ چندا ماموں، لاہور اکتوبر1972
92۔ چلڈرن ڈائجسٹ، کراچی جنوری 1989
93۔ چٹاخ پٹاخ ،کراچی جون 1991
94۔ چھوٹی دنیا، لاہور نومبر 1991
خ
95۔ خزانہ، کراچی اگست1996
96۔ خزینہ ،کراچی جون1991
97۔ خوش بو ، ڈیرہ اسماعیل خان مارچ 2001
د
98۔ دعا، حیدرآباد جنوری 2006
99۔ درخشاں، کراچی دسمبر1989
100۔ دلارا ، لاہور ستمبر2005
101۔ دوست، اسلام آباد اگست1992
ذ
102۔ ذوق وشوق، کراچی اپریل 2006
103۔ ذہین، لاہور جولائی1985
104۔ ذہانت، لاہور نومبر1982
ر
105۔ روشنی، کوئٹہ ستمبر 1992
106۔ روضۃ الاطفال، لاہور اگست2008
107۔ رانگ نمبر، لاہور جون 1989
108۔ روشن ستارے ،لاہور جون1988
109۔ رنگارنگ، لاہور جون2000
110۔ راجہ رانی ،کراچی اپریل 1990 ز
111۔ زکوٹا، لاہور جنوری 1998
س
112۔ ساتھی، کراچی جنوری1985
113۔ سم سم ،کراچی مئی2004
114۔ سائنس ، کراچی جنوری1972
115۔ سحر، نواب شاہ اپریل 1994
116۔ سہیلی میگزین ،فیصل آباد ستمبر1996
ش
117۔ شاہین، میرپور خاص مئی1987
118۔ شاباش، کراچی جولائی2005
119۔ شاہین عالم، لاہور نومبر1993
120۔ شاہین اقبال ڈائجسٹ، پشاور مارچ1995
121۔ شرارت ،کراچی اکتوبر2011
ط
122۔ طفل کوکب، ملتان اکتوبر1996
ع
123۔ عظیم پاکستان ،ملتان جون1993
124۔ علم و ادب ،سیالکوٹ اپریل1950
125۔ علم دوست ،کراچی جنوری 1996
غ
126۔ غنچہ ،کراچی 1960
127۔ غنچے اور کلیاں، لاہور مارچ1990
ف
128۔ فکشن، کراچی ستمبر 2002
129۔ فانوس اطفال، لاہور اکتوبر2000
130۔ فاختہ، اسلام آباد مارچ1990
ک
131۔ کرن کرن روشنی، ملتان اکتوبر 2005
132۔ کھیل کھیل میں، کراچی ستمبر1997
133۔ کوثر، لاہور مارچ1984
134۔ کلیاں، کراچی اگست1995
135۔ کلیم ،کراچی جولائی1952
136۔ کہانی نگر، جھنگ مارچ2002
137۔ کھلونا،لاہور جنوری1952
گ
138۔ گلدستہ ،لاہور اپریل1923
139۔ گل ،لاہور جنوری2007
140۔ گل لالہ ،لاہور اگست2008
140۔ گل افشاں، لیہ دسمبر1998
141۔ گہوارہ ،لاہور جون 1937
ل
142۔ لڑکپن ،لاہور جنوری1967
143۔ لوٹ پوٹ، کراچی جنوری1990
م
144۔ مسلمان بچے ،لاہور مئی 2006
145۔ معصوم، اسلام آباد جون 1994
146۔ مجاہد، مظفر آباد ستمبر1992
147۔ معمار جہاں، کراچی جنوری1997
148۔ ممی ڈیڈی لاہور جون1995
ن
149۔ نوائے سحر، ملتان جولائی2006
150۔ نور، لاہور 1962
151۔ ننھے منوں کی دنیا، لاہور جنوری1955
152۔ ننھا منا ڈائجسٹ، لاہور مئی1982
153۔ ننھے شاہین، لاہور جون1986
154۔ نٹ کھٹ، حیدر آباد ستمبر1990
155۔ نوائے اطفال، راولپنڈی اکتوبر1979
156۔ نونہال اخبار، کراچی مئی1991
157۔ نین تارا، لاہور نومبر2000
158۔ نئے چراغ، اسلام آباد ستمبر1989
ہ
159۔ ہمدرد نونہال، کراچی 1953
160۔ ہماری دنیا، کراچی اکتوبر2002
161۔ ہدایت، لاہور 1938
162۔ ہونہار ڈائجسٹ، لیہ فروری 2000
163۔ ہمجولی ، لاہور 1988
164۔ ہمجولی ،شیخوپورہ ستمبر 2000
165۔ ہونہار، کراچی جنوری1970
166۔ ہیلو چلڈرن ،لاہور مارچ1997
167۔ ہلال،کراچی جنوری1998
ان میں سے کچھ رسائل اشاعت کے کچھ عرصہ بعد بند ہو گئے جبکہ کچھ ابھی تک جاری و ساری ہیں۔کوشش تو کی گئی ہے کہ تمام رسائل کا احاطہ کیا جائے لیکن ممکن ہے کہ کچھ نام رہ گئے ہوں۔ اس فہرست کی تیاری کے لئے درج ذیل کتب سے مدد لی گئی ہے :۔
(1) روشنی کا سفر از ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر
(2) بچوں کی صحافت کے سو سال از ضیااللہ کھوکھر
(3) وفائے پاکستان کے ادبی ستارے از حاجی محمد لطیف کھوکھر
ان رسائل میں بچوں کا ادب پوری آب و تاب کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ ان رسائل کے ذریعے بچوں کو تعلیم، تفریح اور تربیت جیسے فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔موجودہ دور گیجٹس اور گیمز کا دور ہے اس لیے کتاب بینی کا رجحان کم ہے لیکن اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لئے ہمیں چاہیے کہ انہیں کتاب کی طرف راغب کریں اور ان میں مطالعہ کا شوق پیدا کریں اور یہ شوق ان رسائل کی مدد سے پیدا ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ یہ رسائل بچوں کی دلچسپی کا ہمہ قسمی سامان مہیاکرتے ہیں، مثلاً جاسوسی کہانیاں، مزاحیہ کہانیاں ، دلچسپ ناول، مزے دار نظمیں، پہیلیاں، انعامی سوالات اور تصویری آزمائشیں اور اس نوع کے دیگر پرکشش سلسلے۔امید واثق ہے کہ ان رسائل سے نکلنے والی کرنیں دنیائے ادب اطفال میں ایک نئے مستقبل کی شروعات ثابت ہوں گی۔ ان شاء اللہ۔

حوالہ جات
1۔ اطہر پرویز، ڈاکٹر،ادب کسے کہتے ہیں، نئی دہلی، ترقی اردو بورڈ، طبع1976 ،ص 8،9
2۔ اطہر پرویز، ڈاکٹر، ادب کسے کہتے ہیں، نئی دہلی، ترقی اردو بورڈ ،طبع 1976 ص 10
3۔ فیروزالدین ،مولوی، فیروز اللغات اردو جدید، لاہور، فیروز سنز، طبع2017 ص77
4۔ وارث سر ہندی، علمی اردو لغت جامع، لاہور، علمی کتاب خانہ،طبع1976، صفحہ 89
5۔ وکیپیڈیاhttps://simple.m.wikipedia.org/wiki/literature)
مورخہ :24مئی2020بوقت:5:26pm
6۔ وحیدالزمان قاسمی، مولانا، القاموس الوحید، لاہور، ادارہ اسلامیات ،طبع 2001 ص 115
7۔ خوش حال زیدی، ڈاکٹر، اردو میں بچوں کا ادب، دہلی، کلمہ پرنٹنگ پریس، طبع 1989، ص 36
8۔ عابد علی عابد، اصول انتقاد ادبیات ،لاہور،مجلس ترقی ادب،طبع1960ء صفحہ29
9۔ اسد اریب، ڈاکٹر، پاکستان میں بچوں کا ادب، ایک جائزہ،مضمون مشمولہ اردو میں ادب اطفال ایک جائزہ،
(مرتب:اکبر رحمانی، پروفیسر)جلگاؤں ،ایجوکیشنل اکادمی اسلام پورہ، طبع 1990 صفحہ 95
10۔ سید اسرار الحق سبیلی، ڈاکٹر، بچوں کے ادب کی تاریخ، دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، طبع 2016، صفحہ 42
11۔ اکبر رحمانی، پروفیسر،اردو میں بچوں کا ادب ایک تنقیدی جائزہ، مضمون مشمولہ، اردو میں ادب اطفال ایک جائزہ
(مرتب: اکبر رحمانی، پروفیسر)، جلگاؤں ،ایجوکیشنل اکادمی اسلام پورہ، طبع 1990 صفحہ 68
12۔ اکبر رحمانی، پروفیسر،اردو میں بچوں کا ادب ایک تنقیدی جائزہ، مضمون مشمولہ، اردو میں ادب اطفال ایک جائزہ
(مرتب: اکبر رحمانی، پروفیسر)، جلگاؤں ،ایجوکیشنل اکادمی اسلام پورہ ،طبع 1990 صفحہ 71،72
13۔ خوشحال زیدی، ڈاکٹر، اردو میں بچوں کا ادب، دہلی، کلمہ پرنٹنگ پریس، طبع 1989 ص 28
14۔ خوشحال زیدی، ڈاکٹر، اردو میں بچوں کا ادب، دہلی، کلمہ پرنٹنگ پریس ،طبع 1989 صفحہ 70
15۔ معین الدین، پروفیسر، بچوں کا ادب ،مضمون مشمولہ،اردو میں ادب اطفال ایک جائزہ ،(مرتب:اکبر رحمانی،
پروفیسر)،جلگاؤں ،ایجوکیشنل اکادمی اسلام پورہ، طبع 1990 صفحہ49
16۔ غلام حیدر، بچوں کی کہانی کمزوریاں،مضمون مشمولہ، اردو میں ادب اطفال ایک جائزہ ،(مرتب: اکبر رحمانی،
پروفیسر)، طبع1990 ،جلگاؤں ،ایجوکیشنل اکادمی اسلام پورہ صفحہ31
17۔ اسد اریب، ڈاکٹر،پاکستان میں بچوں کا ادب، ایک جائزہ، مضمون مشمولہ اردو میں ادب اطفال ایک جائزہ،
(مرتب:اکبر رحمانی، پروفیسر)، جلگاؤں ،ایجوکیشنل اکادمی اسلام پورہ طبع 1990 صفحہ 95
18۔ ناز آفرین، بچوں کا ادب اور اخلاقی قدریں، مضمون مشمولہ، بچوں کا ادب اور اخلاق ایک تجزیہ، (مرتب:سید
اسرارالحق سبیلی، ڈاکٹر)،دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، طبع2015 صفحہ 57
19۔ محمد اسحاق، بچوں کے ادب کی اہمیت، مضمون مشمولہ، اردو میں ادب اطفال ایک جائزہ ،(مرتب:اکبر رحمانی،
پروفیسر)، جلگاؤں ،ایجوکیشنل اکادمی اسلام پورہ، طبع 1990 صفحہ 107
20۔ گیان چند ،ڈاکٹر،ادبی اصناف ، گجرات، اردو اکادمی،طبع1989 صفحہ 120
21۔ دیکھیے:(Britanica junior Encyclopedia vol:4 ,new York, Charles,
page no 250)
22۔ خوشحال زیدی، ڈاکٹر، اردو میں بچوں کا ادب، دہلی، کلمہ پرنٹنگ پریس، طبع 1989 صفحہ 149
23۔ محمد اقبال ،علامہ، بچوں کی تعلیم و تربیت، مضمون مشمولہ، اقبال کے نثری افکار، دہلی، انجمن ترقی اردو، طبع 1977
(مرتب:عبدالغفار شکیل ،صفحہ 17)
24۔ خوشحال زیدی، ڈاکٹر، اردو میں بچوں کا ادب، دہلی، کلمہ پرنٹنگ پریس، طبع 1989 صفحہ165
25۔ اطہر پرویز، ڈاکٹر، بچوں کے نظیر، علی گڑھ، اردو گھر، طبع اول 1959 صفحہ 4 تا 7
26۔ عبدالحق، مولوی، دیباچہ، مشمولہ داستان رانی کیتکی، تصنیف انشاء اللہ خان انشاء ، دکن، انجمن ترقی اردو،
طبع 1933، صفحہ 1
27۔ اسلم فرخی، ڈاکٹر، اردو کی پہلی کتاب، کراچی ، ترقی اردو بورڈ، طبع 1963،صفحہ،6اور 7
28۔ سید محمد اجمل جامعی، بچوں کے شاعر، پٹنہ، نیو آزاد پریس، طبع 1993،صفحہ 27
29۔ صالحہ عابد حسین، بچوں کے حالی، نئی دہلی، ترقی اردو بیورو، طبع 1983،صفحہ 9
30۔ سید محمد اجمل جامعی، بچوں کے شاعر، پٹنہ، نیو آزاد پریس، طبع 1993،صفحہ 35
31۔ محمد سعید ،حکیم، پیش لفظ، مشمولہ بچوں کے اسماعیل میرٹھی، مصنفہ نعیم الدین زبیری، حکیم، نئی دہلی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، صفحہ3
32۔ عبدالقوی دسنوی، بچوں کا اقبال، لکھنئو، نسیم بک ڈپو، طبع 1978 صفحہ 38
33۔ نثار قریشی، ڈاکٹر، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، کتابیات، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان طبع 1991 صفحہ 16
34۔ سید محمد اجمل جامعی، بچوں کے شاعر، پٹنہ، نیو آزاد پریس، طبع 1993،صفحہ 87
35۔ سیدامتیاز علی تاج، چڑیا خانہ، لاہور دارالاشاعت پنجاب ،طبع 1935 صفحہ 3
36۔ اقرا سبحان، میرزا ادیب اور بچوں کا ادب، مضمون مشمولہ اردودنیا ،اگست 2018،انٹرنیٹ
حوالہ:http://ncpulblog.blogspot.com/12/blog-post_11.html?m=1
(بوقت:3:56pmبتاریخ6اگست2020)
37۔ سید اسرار الحق سبیلی، ڈاکٹر، بچوں کے ادب کی تاریخ، دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، طبع 2016 صفحہ 206
38۔ مسعود احمد برکاتی، پہلی بات ،مشمولہ وہ بھی کیا دن تھے، خود نوشت، حکیم محمد سعید ،کراچی ،نونہال ادب ہمدرد
فاؤنڈیشن، طبع اول 1997 صفحہ 6
39۔ عبدالحق، مولوی، تعارف مشمولہ بلو کا بستہ مصنف ابن انشاء ، کراچی، فضلی سنز، طبع 1996 صفحہ 8

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top