ٹیپو سلطان
برصگیر پاک و ہند میں تاجر کی حیثیت سے داخل ہو کر انگریزوں نے سیاسی قوت بھی حاصل کرنی شروع کردی تھی اور یہاں کے لوگوں کو غلام بنانے کے لیے سازشیں شروع کردیں۔ ملک میں ایسے غیرت مند اور بہادرلوگ موجود تھے، جو غلام بن کر زندہ رہنے سے مرجانے کو اچھا سمجھتے تھے، انہوں نے اپنے ملک کو غیروں سے نجات دلانے کے لیے اپنی جانیں تک قربان کردیں۔ سلطان فتح علی ٹیپو جو عام طور پر ٹیپو سلطان کے نام سے مشہور ہے، ایسے لوگوں میں سب سے نمایاں ہے۔
ٹیپو سلطان کے بزرگ پنجاب سے آکر دکن میں بس گئے تھے۔ ٹیپو سلطان کا باپ حیدر علی بھی ایک بہادر، باہمت اور ہوش مند انسان تھا۔ حیدر علی ریاست میسور کی فوج میں ایک معمولی سپاہی کی حیثیت سے داخل ہوا اور اپنی محنت، سوجھ بوجھ اور ہمت سے کام لے کر سپہ سالار اور پھر ریاست کا حکمراں بنا۔
فتح علی ٹیپو1750ء میں پیدا ہوا۔ اس وقت حیدر علی کا ستارہ انتہائی عروج پر تھا اور اس کی ریاست میسور جنوبی ہند میں سب سے طاقتور ریاست سمجھی جاتی تھی۔ آس پاس کی ریاستی حکومتیں حیدر علی سے ڈرتی تھیں۔ حیدر علی اور ٹیپو سلطان ہی وہ حکمراں تھے، جنہوں نے انگریزوں کو ہندوستان میں اتنی شکستیں دیں جتنی شاید ہندوستان کے تمام حکمرانوں نے مل کر بھی نہں دیں۔
حیدر علی نے اپنے بیٹے کو تعلی کے ساتھ ساتھ فوجی تربیت بھی دی۔ غلامی سے نفرت اور آزادی سے محبت ٹیپو سلطان کو ورثے میں ملی تھی۔ یہ زمانہ برصغیر کے لوگوں خصوصا مسلمانوں کے لیے سخت آزمائش کا تھا۔ انگریزوں کا اثر اور اقتدار بڑھتا جارہا تھا اور مسلمانوں کا اقتدار آخری ہچکیاں لے رہا تھا۔ ٹیپو سلطان پہلا قائد اتھا جس نے انگریزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور برصغیر کے عوام کو غیروں کی حکومت سے آزاد کرانے کی مردانہ وار کوشش کی۔
اس دور کے قائدین اور سیاست دانوں میں شاید ٹیپو سلطان ہی واحد رہنما تھا۔ جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے ارادروں اور نیت کو بھانپ گیا تھا اور اس نے اندازہ کرلیا تھا کہ انگریز سارے ہندوستان پر قبضہ کرکے اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیپو سلطان نے مطالعے اور غور کے بعد مغلیہ حکومت کے زوال کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اس نے اپنے میر منشی زین العابدین کو جہاد اور اپنی فوجی اصلاحات و قوانین پر ایک کتاب مرتب کرنے کی ہدایت کی۔ چناں چہ زین العابدین نے “فتح المجاہدین” کے نام سے ایک کتاب لکھی، جس میں جہاد اور جذبہ جہاد کی اہمیت اجاگر کرنے کے علاوہ تفصیل سے جنگ کے اصول اور قواعد تحریر کیے۔
ٹیپو سلطان نے یہ بات اچھی طرح سمجھ لی تھی کہ ہندوستان کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سےانگریزوں کی طاقت کا خاتمہ کیا جائے اور یہ کام اتنا ضروری ہے کہ اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی بھی کم ہے۔ وہ مرہٹوں اور نظام دکن کو یہ سمجھانا چاہتا تھا کہ انگریز ان میں کسی کے دوست نہیں۔ بدقسمتی سے ان میں سے کسی نے ٹیپو سلطان کی بات پر توجہ نہ کی، بلکہ انگریزوں کا ساتھ دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ٹیپو سلطان کے لیے اپنے منصوبے کو عمل میں لانا مشکل ہوگیا۔ اس کے باوجود ٹیپو سلطان نے ہمت نہ ہاری اور زندگی بھر آزادی کی جنگ لڑتا رہا۔ وہ آزادی کے لیے جیا اور آزادی کے لیے مرا۔
ٹیپو سلطان ابھی پندرہ سال کا بھی نہیں ہوا تھا کہ انگریزوں اور مرہٹوں سے کش مکش میں مصروف ہوگیا۔ انگریزوں سے پہلی لڑائی میں جب کہ ٹیپو سلطان کی عمر پندرہ سال سے زیادہ نہ تھی، اس نے داد شجاعت دی۔ میسور کی فوجیں اس کی کمان میں یلغار کرتی ہوئی مدراس اور سینٹ جارج کے قلعے تک جا پہنچیں اور اس طرح انگریزوں کو 1769ء میں صلح کرنے پر مجبور کردیا۔ یہ اور بات ہے کہ انگریزوں نے دل سے صلح نہیں کی تھی اور عہد شکنی کرکے جنگوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
انگریزوں سے لڑائیوں کے دوران 1789ء میں حیدر علی کا انتقال ہوگیا۔ ٹیپو سلطان نے مقابلہ جاری رکھا اور انگریزوں کو شکستیں دیں۔ آخر 1883ء میں انگریزوں کو صلح نامہ منگور پر مجبور کردیا۔ اب انگریزوں کو اندازہ ہوگیا کہ جذبہ جہاد اور جذبہ آزادی کو کچلنا آسان نہیں ہے، اس لیے انہوں نے کھلے میدان کی جنگ چھوڑ کر سازشوں کا راستہ اپنایا۔ ان سازشوں اور ہندوستانی حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی اور کم نظری کا نتیجہ یہ نکلا کہ ٹیپو سلطان کو شکست ہونے لگی، یہاں تک کہ وہ سرنگاٹپم کے اندر گھر کر رہ گیا اور انگریز، نظام اور مرہٹوں نے آدھا ملک اور تاوان جنگ لے کر صلح منظور کی۔ ٹیپو بھی مجبور ہوگیا۔ 1792ء میں یہ صلح ہوئی۔
اس کے بعد ٹیپو نے بچی کچھی ریاست کی معاشی اور سیاسی حالت درست اور مضبوط کرنے پر اپنی توجہ صرف کی۔ اس نے کسانوں کی بھلائی اور خوش حالی کے لیے کئی قانون بنائے۔ سڑکوں اور آب پاشی کی حالت بہتر بنائی۔ تجارتی اور جنگی جہاز بنائے۔ تجارتی اور جنگی جہاز بنائے۔ تجارت اور زراعت کو خوب ترقی دی۔ کئی انتظامی اصلاحات کیں۔ فرانس اور ترکی کو سفیر روانہ کیے۔ انگریز نے اس بہانے کہ ٹیپو فرانسیسیوں سے سا زباز کررہا ہے پھر جنگ شروع کردی۔
سلطان کے امیروں کی لالچ، اپنوں کی غداری اور غیروں کی عیاری کامیاب ہوئی اور سلطان ٹیپو 4 مئی 1799ء کو شہید ہوگیا۔ اس کی شہادت سے سلطنت خداداد میسور کا وجود ہی ختم نہ ہوا بلکہ برصغیر کی آزادی کا چراغ بھی گل ہوگیا، لیکن یہ چراغ بجھ کر بھی نہ بجھا اور آزادی کا پیغام دیتا رہا، سلطان ٹیپو کا نام آج بھی حب وطن اور تاریخ آزادی کا روشن ترین بات ہے۔