skip to Main Content

شکر اُسی کا

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

فون کی گھنٹی بجی۔
شاکر صاحب نے فائل پڑھتے ہوئے، ہاتھ فون کی طرف بڑھایا اور ریسیور اٹھا کر بولے:
”السلام علیکم!“۔۔۔ جی ہاں میں شاکر شیخ بات کر رہا ہوں۔۔۔۔ اچھا، بات کروائیے۔۔ السلام علیکم۔۔۔ جی کیا خبر ہے؟۔۔۔ جی؟۔۔۔۔ کیا یہ اطلاع درست ہے؟۔۔۔ ان للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔ جی ہاں نقصان تو بہت بڑا ہے۔۔۔ اللہ کی یہی مرضی تھی۔۔۔ اللہ چاہے تو اور دے گا۔۔۔ جی؟ آپ کا بل؟۔۔۔ اس کی آپ فکر نہ کریں۔۔۔ ایک ایک پیسہ ان شاء اللہ آپ کو ادا کر دیا جائے گا۔۔۔ ہم کبھی بددیانتی نہیں کرتے، بے دھیانی میں کوئی غلطی ہو جائے تو جیسے ہی اس کا احساس ہو جائے، اس کی تلافی کرتے ہیں۔۔۔ اچھا جناب آپ کا بے حد شکریہ۔۔۔ اللہ آپ کو اجر دے۔۔۔ السلام علیکم۔“
فون رکھ کر شاکر صاحب کچھ دیر سر جھکائے بیٹھے رہے۔ شاید وہ کچھ دعائیں پڑھ رہے تھے۔ پھر انہوں نے اٹھ کر ملحقہ غسل خانے میں جا کر وضو کیا اور کمرے کے ایک گوشے میں مصلیٰ بچھا کر نماز ادا کرنے لگے۔
ابھی وہ نماز ادا کر ہی رہے تھے کہ ان کے ایک قابل اعتماد نائب، چند فائلیں اٹھائے کمرے میں داخل ہوئے۔ شاکر صاحب کو نماز ادا کرتے دیکھ کر وہ کمرے میں رک کر انتظار کرنے لگے۔ شاکر صاحب نے سلام پھیر کر چند لمحوں تک عاجزی کے ساتھ دعا مانگی، پھر وہ مصلیٰ تہہ کر کے ایک طرف رکھتے ہوئے اپنی کرسی کی طرف بڑھے اور اپنے نائب کو دیکھ کر بولے:
”السلام علیکم نصیر صاحب، خیریت۔ کیا لے آئے؟“
”و علیکم السلام شیخ صاحب، آپ فرمائیے، آج اس وقت نماز ادا کر رہے تھے؟“ انہوں نے دیواری گھڑی پر نظر ڈالی جو سہ پہر کے چار بجارہی تھی۔
“ ہاں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہی تھا کہ جب بھی آپ کسی معاملے میں پریشان ہوتے تھے تو نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے۔“
”تو کیا آپ پریشان ہیں؟ خیریت تو ہے، اللہ نہ کرے، کوئی نقصان ہو گیا؟“
”ہاں، نقصان تو بہت بڑا ہو گیا ہے۔ ہم نے جو جہاز کے ذریعے مال باہر بھیجا تھا، وہ جہاز ڈوب گیا ہے۔“
”انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔ یہ تو واقعی بڑا نقصان ہو گیا۔ آپ نے تو اپنے دوستوں کی رقم بھی اس سودے میں لگارکھی تھی۔“
”ہاں۔۔۔ یہ فکر کی بات ہے۔۔۔ خیر، ان شاء اللہ تمام مسئلے حل ہو جائیں گے، اور اگر اللہ کی یہی مرضی ہو گی کہ ہم تنگ دستی کی زندگی بسر کریں تو ہم پھر بھی شکر ادا کر لیں گے۔“ شاکر صاحب نے عزم کے ساتھ کہا۔
”ما شاء اللہ، اللہ آپ کو اجر دے، آپ کی حفاظت فرمائے، آپ کے سارے مسائل حل فرمائے۔۔۔“نصیر صاحب کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔

٭……٭……٭

شاکر صاحب کا نقصان بہت بڑا تھا۔ دوستوں سے لی گئی رقم بھی واپس کرنی تھی۔ انہوں نے اپنا، کپڑے کا چھوٹا سا کارخانہ فروخت کر دیا۔ ملازمین کو تین ماہ کی اضافی تنخواہیں دے کر فارغ کر دیا۔ رقم کی ضرورت پڑی تو اپنا مکان بھی فروخت کر دیا اور کرائے کے چھوٹے سے مکان میں منتقل ہو گئے۔ ان تمام تبدیلیوں سے شاکر صاحب کے رویے پر تو بظاہر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔ وہ اب بھی سب سے مسکرا کر ملتے تھے۔ باقاعدگی سے پانچوں فرض نمازیں مسجد جا کر با جماعت ادا کرتے تھے۔ ان کے مزاج میں غرور، اکڑ یا تکبر اس وقت بھی نہیں تھا جب وہ ایک کارخانے کے مالک تھے، اور اب وہ اپنے ایک دوست کے پاس ملازمت کر رہے تھے، تب بھی ان کے اخلاق اور عادات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی، البتہ وہ نفلی نمازوں مثلاً اشراق، چاشت اور تہجد کا زیادہ اہتمام کرنے لگے تھے۔
یہاں تک تو ٹھیک تھا، لیکن شاکر صاحب اپنا کارخانہ اور مکان فروخت کرنے کے باوجود قرضوں سے پوری طرح نجات حاصل نہ کر پائے تھے۔ ان کی مالی حالت میں اچانک جو تبدیلی آئی تھی، اس پر سب سے زیادہ خفا، شاکر صاحب کی بیگم اور ان کی بیٹی تھیں۔ شاکر صاحب کو اب آئے دن اپنی بیگم کے طعنے سننے کوملتے۔ وہ کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ گھر میں پہلے دو نوکر اور ایک خادمہ موجود تھی، اس لیے شاکر صاحب کی بیگم کو کام کاج بہت کم کرنا پڑتا تھا۔ اب شاکر صاحب کے لیے نوکر رکھنا دشوار تھا، چنانچہ سارا کام شاکر صاحب کی بیگم اور بیٹی کو کرنا پڑ رہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ دونوں کا منہ پھولا رہتا۔ مکان بھی پہلے کے مقابلے میں بہت چھوٹا تھا۔ کار بھی فروخت کی جا چکی تھی۔ اب شاکر صاحب موٹر سائیکل پر دفتر جاتے آتے تھے۔ مالی حالات اچھے نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں گوشت پکنے کی تو نوبت اب کم ہی آتی تھی۔
شاکر صاحب جتنے وقت کے لیے گھر میں رہتے، ان کی بیگم اور بیٹی جلی کٹی باتوں سے ان کا ناک میں دم کیے رکھتیں۔ شاکر صاحب نے دونوں کوسمجھانے کی کوشش کئی بار کی لیکن ناکام رہے۔ وہ زندگی کی سہولتوں میں کمی اورکارخانے کے مالک سے دفتر کے ملازم بن جانے پر، کوئی دکھ محسوس نہ کرتے تھے اور اب بھی اللہ کا شکر ادا کرتے تھے لیکن بیگم اور بیٹی کی تلخ اور ترش باتیں سن سن کران کے دل کو شدید تکلیف پہنچتی تھی۔
ایسے عالم میں شاکر صاحب کا بارہ سالہ بیٹا صابر ان کو سہارا دینے کے لیے آہنی چٹان بن جاتا۔ یہ بچہ اپنے نام کی طرح بڑا صبر والا تھا۔ شاکر صاحب اسے دیکھتے ہی نہال ہو جاتے۔ اس بچے نے اب تک پیش آنے والی تبدیلیوں پر کسی ناراضگی یا شکایت کا اظہار نہیں کیا تھا۔ پہلے ڈرائیور اسے کار میں اسکول چھوڑنے جاتا تھا، اب اسے بس کے ذریعے سے اسکول جانا پڑتا ہے۔ مکان بھی پہلے کی طرح آرام دہ نہ تھا لیکن صابر نے کبھی گلہ نہ کیا۔ وہ کہتا، شکر ہے اللہ کا کہ ہم بہت سے لوگوں سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔
شاکر صاحب کی پریشانیوں میں اس وقت بڑا اضافہ ہو گیا جب ان پر قرضوں کی واپسی کے لیے دباؤ بڑھنے لگا۔ تھک ہار کر انہوں نے اپنی بیگم سے درخواست کی کہ وہ اپنے زیورات دے دیں تا کہ انہیں فروخت کر کے قرضوں کی کچھ رقم ادا کی جا سکے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ حالات اچھے ہونے پر ان شاء اللہ نئے زیورات بنوا دیں گے، لیکن بیگم نے ان کی بات سنتے ہی شور مچا دیا۔ ایسے ایسے طعنے دیے کہ شاکر صاحب کا دل کٹ کر رہ گیا۔ شاکر صاحب کے زخموں پر نمک چھڑ کنے میں ان کی بیٹی بھی آگے آگے تھی۔
شاکر صاحب کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو وہ گھبرا کر گھر سے نکل گئے۔ ان کا دل رنج و غم سے بھرا ہوا تھا۔ ان کے قدم بے اختیار مسجد کی طرف اٹھتے چلے گئے۔ مسجد میں داخل ہو کر انہوں نے وضو کیا اور پھر دو رکعت صلوٰۃ الحاجات کی نیت باندھ کر اپنے رب کے حضور کھڑے ہوئے تو ایسا لگا کہ سارے بندٹوٹ گئے۔ ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات ہو رہی تھی اور دل اپنے رب کے حضور جھکا چلا جا رہا تھا۔ رکوع میں گئے تو اپنے پروردگار کے سامنے سے اٹھنے کو جی نہ چاہا اور پھر سجدے میں گئے تو ایسالگا کہ وہ کسی شفیق و مہربان ہستی کی پناہ میں آگئے ہیں۔ انہوں نے یہ حدیث نبوی پہلے بھی کئی بار پڑھی تھی کہ انسان، اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے، جب وہ اس کے حضور سجدہ کرتا ہے، چنانچہ جب تم سجدہ کرو تو سجدے میں خوب دعا کیا کرو۔ (مسلم)
اور ان کو اس بات کا خود بھی کئی بار تجربہ ہوا تھا کہ سجدے میں جاتے ہی انہیں محسوس ہوتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اور زیادہ قریب ہو گئے ہیں، اس کے حضور عاجزی سے پیشانی ٹیکے ہوئے دعا مانگ رہے ہیں، لیکن آج تو ایسا لگتا تھا کہ ان کا پورا وجود دُعا بن گیا ہے۔ نماز کی دورکعتیں مکمل کر کے انہوں نے اللہ کی حمد وثنا بیان کی۔ رسول کریم پر درود بھیجا اور صلوٰۃ الحاجات کی دعا پڑھی تو اس کا ایک ایک لفظ ان کے دل کو سکون اور طمانیت کی ٹھنڈی پھوار میں بھگوتا چلا گیا، وہ دعا تو عربی زبان میں پڑھ رہے تھے جو حضور نے امت کو سکھائی ہے لیکن اس کا ایک ایک لفظ ان کے دل میں اتر تا جا رہا تھا:
”اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بڑا ہی بردباد، بہت کرم کرنے والا ہے، پاک و برتر ہے اللہ، عرش عظیم کا رب، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو دونوں جہانوں کا پالنے والا ہے، اے اللہ، میں آپ سے ان چیزوں کا سوال کرتا ہوں جو آپ کی رحمت کو واجب کرنے والی اور آپ کی مغفرت کو لازم کرنے والی ہیں۔ ہر بھلائی میں حصہ اور گناہ سے سلامتی چاہتا ہوں، اے اللہ میرا کوئی گناہ بخشے بغیر اور کوئی دکھ اور غم دُور کیے بغیر نہ چھوڑیے، میری کوئی حاجت جو آپ کے نزدیک پسندیدہ ہو، اسے پوری کیے بغیر نہ رہنے دیجیے، اے رحم کرنے والوں میں، سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔“
دعا مانگ کر وہ فارغ ہوئے تو انہیں ایسا لگا کہ دل پر جو بھاری بوجھ تھا، وہ دور ہو گیا ہے، وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہے تھے۔ انہیں خوشی ہوئی کہ اللہ نے انہیں صلوٰۃ الحاجات پڑھنے اور اسی سے مانگنے کی تو فیق عطا فرمائی۔ انہوں نے اللہ کا بہت شکر ادا کیا۔
جب وہ گھر واپس پہنچے تو ان کے مالک مکان نے بتایا کہ ان کے لیے کسی جاوید صاحب کا فون پانچ چھ بار آیا تھا۔ انہوں نے اپنا نمبر دیا ہے کہ اس پر فون کر لیں۔ شاکر صاحب کے گھر میں فون کی سہولت نہ تھی اس لیے انہوں نے دفتر میں اور دیگر ملنے والوں کو اپنے مالک مکان کا فون نمبر دے رکھا تھا۔ شاکر صاحب نے مالک مکان سے ملنے والے نمبر پر فون کیا تو دوسری طرف جاوید صاحب ہی موجود تھے۔ شاکر صاحب نے اپنا تعارف کروایا تو جاوید صاحب بڑے جوش سے کہنے لگے:
”مبارک ہو شاکر صاحب، آپ اب پاکستان کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہیں!“
”میں سمجھا نہیں، آپ کیا کہہ رہے ہیں؟“ شاکر صاحب نے حیرانی سے کہا۔
”بلوچستان میں آپ کی کچھ زمین موجود ہے؟“جاوید صاحب نے پوچھا۔
”ہاں ہے تو، مگر بالکل بنجر اور اجاڑ جگہ ہے، وہاں کسی قسم کی کھیتی باڑی نہیں ہو سکتی اور کوئی دوسرا کام کرنے کے لیے بھی کوئی تیار نہیں ہے۔“ شاکر صاحب نے بتایا۔

”وہ زمین بہت قیمتی ہے، شاکر صاحب۔ میں ایک یورپی کمپنی سے وابستہ ہوں، ہماری کمپنی نے اسی علاقے کا سروے کیا ہے۔ وہاں انتہائی قیمتی معدنیات اور تیل کے ذخائر موجود ہیں، ایسی معدنیات شاید پورے صوبہ میں کسی اور علاقے میں نہیں ملیں گی۔ ہم اس زمین پر کام کرنا چاہتے ہیں۔ ہم آپ کو بہت بڑا معاوضہ دینے کے لیے تیار ہیں۔“
شاکر صاحب کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ انہوں نے سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کیا پھر جاوید صاحب سے بعد میں بات کرنے کا وعدہ کر کے فون بند کر دیا۔
چند دنوں بعد یہ صورت تھی کہ بے شمار افراد شاکر صاحب سے ٹیلی فون پر رابطہ قائم کر چکے تھے۔ درجنوں لوگ ان سے ملنے کے لیے آ رہے تھے۔ بہت سے اخبار نویس ان سے ملاقاتیں کر کے ان کے تاثرات لے رہے تھے۔ رشتہ دار، پڑوسی، دوست احباب مبارکباد دے رہے تھے۔ جو دوست قرض کی واپسی کے لیے شاکر صاحب سے روزانہ تقاضے کر رہے تھے، انہوں نے شاکر صاحب سے کہا کہ قرض کی واپسی کی کوئی جلدی نہیں، جب چاہیں واپس کر دیں۔
شاکر صاحب اب ملک کے نہایت دولت مند انسان بن چکے تھے۔ حکومت کی اجازت سے انہوں نے اپنی زمین پر کان کنی یعنی زمین کی کھدائی کرکے معدنیات وغیرہ کی تلاش کا کام، ایک اسلامی ملک کی کمپنی کو دے دیا تھا۔ جلد ہی شاکر صاحب نے ایک بڑے اور کشادہ مکان میں منتقل ہونے کا ارادہ کر لیا جہاں ضرورت کی ہر شے موجود تھی۔ چند دن بعد شاکر صاحب اپنی بیگم اور دونوں بچوں کے ساتھ نئے مکان میں داخل ہوئے۔ شاکر صاحب نے نشست گاہ یعنی اس کمرے کا دروازہ کھولا، جہاں گھر کے لوگ دن کا زیادہ وتر وقت گزارتے ہیں یا آپس میں مل بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی سب کی نظریں سامنے دیوار پر پڑی جہاں ایک نہایت خوبصورت حاشیے میں قرآن پاک کی چند آیات اور ان کا ترجمہ خوش خطی سے لکھا ہوا تھا۔ سب نے آیات کا ترجمہ پڑھا:
”اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے، اور اگر اس پر آنے والی مصیبت کے بعد ہم اسے نعمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو کہتا ہے کہ میری تو ساری برائیاں (اور تکالیف) مجھ سے دور ہو گئیں، پھر وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے، سوائے ان لوگوں کے جو صبر کرنے والے اور نیک عمل کرنے والے ہیں، اور وہی ہیں جن کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔“ (سورۃ ہود:9-11)
ان آیات کا ترجمہ شاکر صاحب کی بیگم نے بھی پڑھا، پھر انہوں نے شاکر صاحب کی طرف دیکھا جو ہمیشہ کی طرح آج بھی سادہ لباس میں تھے، پھر شاکر صاحب کی بیگم نے نظریں جھکا لیں۔
اسی شام کو شاکر صاحب نے حیرت اور شکر کے جذبات کے ساتھ اپنی بیگم اور بیٹی کو دیکھا۔ ہمیشہ شان دار لباس پہنے رہنے اور میک اپ سے آراستہ رہنے والی ان کی بیگم اور بیٹی سادہ سا لباس پہن کر نماز ادا کر رہی تھیں اور میک اپ کے بغیر بھی ان کے چہرے دمک رہے تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top