گوریلا فائٹرز
شان مسلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وطن سے محبت کرنے والے جانبازوں کی داستان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناشتے کی میز پر…
ڈاکٹر عمران مشتاق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھماکہ اچانک ہی ہوا تھا۔ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔لوگ گرتے پڑتے جان بچانے کی فکر کر رہے تھے۔دھوئیں کے مرغولے اُٹھ رہے تھے اور جگہ جگہ آگ لگی ہوئی تھی۔ایسے عالم میں جب ہر کوئی بھاگ دوڑمیں لگا ہوا تھا،شیردل کی نظر ایک تین چار سال کے بچے پہ پڑی۔وہ شاید اپنے والدین سے بچھڑ گیا تھا۔بچہ رو رہا تھا اور رو رو کر کُچھ کہہ بھی رہا تھا مگر فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے کُچھ سُنائی نہ دے رہا تھا۔شیردل ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کرے کہ اُس نے دیکھا کہ بچہ دھکا لگنے سے زمین پر گر پڑا تھا۔شیر دل سے اب رہا نہیں گیا۔اُس نے بچے کی جانب دوڑ لگا دی۔اِس سے پہلے کہ بچے کو کوئی نقصان پہنچتا،شیردل اُس تک پہنچ گیا۔بچہ بس روئے جا رہا تھا۔دھوئیں کی کالک سے اُس کا مُنہ اور قمیض سیاہ ہو رہی تھی۔شیردل نے اُسے اُٹھا کر پیار کیا اور پھر اُسے لے کر بھیڑ سے باہر نکلتا چلا گیا۔پولیس حادثے کی جگہ پہنچ چُکی تھی اور ہر طرف مچی افراتفری اورہڑبونگ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔زخمیوں کے کراہنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔منظردل ہلا دینے والا تھا۔ہر طرف خون ہی خون تھا اور درجنوں لوگ اِس دھماکے میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔عورتیں اور بچے رو رہے تھے۔چیخ رہے تھے مگر اُن کی چیخ و پُکار پر توجہ دینے والا کوئی نہیں تھا۔امدادی کاروائیاں شُروع ہو چُکی تھیں مگر اُن کی رفتار کافی سُست تھی۔ایمبولینس گاڑیاں زخمیوں کو ہسپتال لے جانے لگی تھیں اور پولیس نے موقع سے شہادتیں اکھٹی کرنے کا کام شُروع کر دیا تھا۔بظاہر تو بم دھماکہ ہی تھا۔
’’شایدخود کش حملہ ہو۔نہ جانے اِس سنگین واقعے سے اِس معصوم کا کتنا نقصان ہو گیا ہو گا۔‘‘شیر دل نے افسردگی سے سوچا۔بچہ اب اُس کی گود میں چُپ ہو گیا تھا۔اُس نے دیکھا وہ سو چُکا تھا۔
میڈیا والے بھی پہنچ گئے تھے اور بھاگ دوڑ کر منظر کشی میں مشغول تھے۔وہ اپنے چینلز کے لیے بریکنگ نیوز دے رہے تھے۔اخبارات کے فوٹو گرافرز کے کیمرے کھٹا کھٹ چل رہے تھے۔کل کے اخبارات کی سرخیوں سے وہ واقف تھا۔کُچھ عرصے سے مُلک کے حالات بے حد نازک چل رہے تھے اور بدقسمتی سے حکومت دہشت گردی کی اِس لہر سے نپٹنے میں بُری طرح ناکام ہو چُکی تھی۔
شیردل نے بچے کو گلے سے لگایا اور ہجوم سے باہر نکل آیا۔اُس کا خیال تھا کہ بچے کو مقامی پولیس تھانے لے جا ئے گا ۔اُسے اُمید تھی کہ پولیس والے اُس کے گھر والوں کو ڈھونڈ لیں گے۔
وہ ایک بارونق بازار تھا جِس کی تمام رونقیں روٹھ گئی تھیں۔اُس نے ایک غُصے سے بھری ہوئی نظر بازار پہ ڈالی۔’’ہم ان شاء اللہ بدلہ لیں گے اور معصوموں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔‘‘شیر دل نے دل ہی دل میں عزم کیا۔ وہ حادثے کی جگہ سے ابھی دو ڈھائی سو گز دور ہی گیا ہو گا کہ اچانک اُس کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔اُسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔وہ تیزی سے اُدھر لپکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح کوجیسے ہی ر اج بازار کے واقعے کا علم ہوا تو وہ بھی فوراً اپنے آفس سے نکل پڑے۔وہ آرمی سے ریٹائر ہونے کے بعد اب ایک سیکیورٹی سے متعلقہ حساس ادارے سے منسلک تھے۔جب سے مُلک میں خود کش دھماکوں کا طوفان آ یا تھا ، اُن کی مصروفیات بے انتہا بڑھ گئی تھیں۔وہ کسی گہری سوچ میں گُم تھے اور اُن کی آنکھیں ونڈ اسکرین سے باہر نظر آتے مناظر پہ جمی ہوئی تھیں۔اُن کا ڈرائیور عبد الغفار خاموشی سے گاڑی چلا رہا تھا۔وہ جانتا تھا کہ کرنل فاتح کی خاموشی کِسی گہری سوچ کا پتہ دیتی تھی اور وہ یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ اُنہیں اِس دوران مخاطب کیا جائے۔عبد الغفار اُن کا مزاج آشنا تھا اور کئی سال سے اُن کے ساتھ تھا۔
’’روکو۔گاڑی روکو۔‘‘کرنل فاتح اچانک زور سے چلائے۔عبدالغفار نے اضطراری طور پہ بریک لگایا۔گاڑی کو ایک زوردار جھٹکا لگا۔
خوش قسمتی سے اُن کے پیچھے کوئی گاڑی نہیں تھی ورنہ یقینی تصادم ہو جاتا ۔اُس نے جلدی سے گاڑی کو سڑک کے کنارے روک لیا۔عبدالغفار کے بریک لگاتے ہی،کرنل فاتح گاڑی سے اُتر گئے۔
’’میرا انتظار نہ کرنا۔میں تمہیں فون کر لوں گا۔‘‘یہ کہتے ہی وہ ایک جانب دوڑتے چلے گئے۔
عبدالغفار اُنہیں بھاگتے ہوئے چند لمحے تک دیکھتا رہا،وہ جیسے ہی نظروں سے اوجھل ہوئے تو اُس نے گاڑی کو آہستہ سے آگے بڑھا دیا۔
کرنل فاتح نے تیزی سے سڑک کراس کرتے ہوئے اپنی رفتار بڑھائی۔اُنہیں یقین نہیں تھا کہ جو اُن کی آنکھوں نے دیکھا وہ سچ تھا۔وہ کوئی اور بھی ہو سکتا تھا۔اُن کی آنکھیں دھوکہ بھی کھا سکتی تھیں اور اگر اُنہوں نے صحیح آدمی کو ہی دیکھا تھا تو۔۔۔۔۔؟اُن کے جسم میں سنسنی کی لہر دوڑنے لگی اور جوش کے عالم میں اُن کی رفتار مزید تیز ہو گئی۔وہ اب گلیوں میں دوڑ رہے تھے۔وہ بم دھماکے سے زیادہ دور نہیں تھے اور دیکھ سکتے تھے کہ لوگ اندھا دُھند بھاگ رہے تھے۔اِس کی وجہ سے اُن کو بھی رکاوٹ کا سامنا تھا۔وہ جِس کے پیچھے تھے اُس کی صِرف ایک جھلک ہی دیکھ سکے تھے اور پھر وہ نظر نہیں آیا تھا۔وہ جی جان سے بھاگ رہے تھے۔بہت سے بھاگتے ہوئے لوگوں میں سے جگہ بنا کر آگے بڑھنا آسان نہیں تھا مگر وہ ایسے حالات سے ہی دوچار رہتے تھے۔یعنی یہ اُن کے لیے نئی بات نہ تھی۔
اُن کی عقاب جیسی تیز نگاہیں اپنے گردوپیش کا جائزہ لے رہی تھیں۔پندرہ منٹ تک بھاگنے کے بعداب اُن کی رفتار آہستہ ہونے لگی تھی۔اُنہیں یقین ہونے لگا تھا کہ وہ مطلوبہ آدمی کو کھو بیٹھے ہیں۔بشرطیکہ کہ وہ اُن کا مطلوبہ آدمی ہی ہو۔۔۔؟
اچانک وہ کِسی سے زور سے ٹکرائے۔’’ارے تُم۔۔۔تُم۔۔۔۔یہاں۔۔۔؟‘‘اُن کے مُنہ سے نکلا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیر دل،کرنل فاتح کا بیٹاتھا۔اُنہی کی طرح بہادر اور جی دار۔اُس کا دل وطن کی محبت سے منور تھا۔ اُس کا جی بھی اِس بات سے دُکھتا تھا کہ وطنِ عزیز کے حالات انتہائی مخدوش ہوتے جا رہے ہیں۔مشکلات بے شمار تھیں۔لوگ مہنگائی کی چکی میں پِس رہے تھے۔بے روزگاری کی انتہا تھی۔بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ نے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر رکھی تھیں۔دہشت گردی کے ہاتھوں درجنوں لوگ روز زندگی کی بازی ہار رہے تھے اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ نے مُلک کو مالی و جانی طور پر بے حد نقصان پہنچایا تھا۔شیر دل اور اُس کے دوست اِن حالات میں دل مسوس کر رہ جاتے۔اُن کا جی مچل اُٹھتا کہ وہ اپنے وطن کے لیے کُچھ کریں۔اُس کے کام آئیں۔اُس کی تکلیف اور مُشکلات کو کم کرنے کی کوشش کریں۔یہ ہی سوچ تھی جِس نے شیردل گروپ کی بنیاد رکھی۔اِس میں شامل ساتھیوں میں غازی اُس کا کزن تھااور سب سے اچھا دوست بھی تھا۔غازی اُس کے چھوٹے چچا نُصرت کا بیٹاتھا جو اسپیشل پولیس فورس میں ایس پی تھے۔جسے محکمہ سراغ رسانی بھی کہا جاتا ہے۔مُجاہد اُس کا کلاس فیلو تھا اور اُس کے والد اقبال صاحب ڈاکٹر تھے۔مومن سے اُس کی دوستی اُس مارشل آرٹ کلب میں ہوئی تھی جہاں وہ ماشل آرٹ کی تربیت لے رہا تھا۔مومن کے والدآذر صاحب اُسی کلب کے مالک اور بلیک بیلٹ ماسٹر ڈان فور تھے۔
یہ آئیڈیا چوں کہ شیردل کا تھا اِس لیے گروپ کا نام شیر دل تجویز ہوا۔گروپ کے مقاصد میں یہ شامل تھا کہ اپنے آس پاس کے حالات پر نظر رکھی جائے،آستین کے سانپوں کو منظرِ عام پر لایا جائے اور خصوصاً جرائم پیشہ افراد کے خِلاف ضروری کاروائی کی جائے۔ساتھ ہی مُختلف علاقوں میں نوجوانوں کو متحد کر کے شیردل جیسے گروپس کی تشکیل کی جائے تاکہ مُلک دشمن عناصر پہ نظر بھی رکھی جائے اور اپنی مدد آپ کے تحت امن و امان کی صورت حال کو بھی بہتر بنایا جائے۔شیر دل اور اُس کے دوستوں کی عُمریں سترہ اٹھارہ سال سے زیادہ نہ تھیں اور وہ مُختلف کالجوں میں پڑھتے تھے۔وطنِ عزیز کی حفاظت کا جذبہ ہی اُنہیں ایک دوسرے کے قریب لے آیا تھا۔وہ سب ہی آذر صاحب کے مارشل آرٹ کلب سے منسلک تھے اور مختلف ماشل آرٹس کی تربیت حاصل کر رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’تُم یہاں؟‘‘کرنل فاتح کا لہجہ سوالیہ تھا۔
’’ میں مارکیٹ ایک کام کے سلسلے میں آیا تھا۔‘‘ شیر دل نے ادب سے جواب دیا۔وہ اپنے والد کا بے حد احترام کر تا تھا۔کرنل فاتح کا رویہ اُس کے ساتھ دوستانہ ہی ہوتا تھا۔شیر دل اُن کے دوستانہ روئیے کے باوجود پورا احترام ملحوظ رکھتا تھا۔
’’ارے یہ بچہ کِس کا ہے؟‘‘انہوں نے گویا پہلی بار شیر دل کی گود میں موجود بچے کو دیکھا۔
شیر دل نے انہیں بتایا کہ کیسے اُس نے روتے ہوئے بچے کو پایا تھا۔
’’میرا خیال ہے کہ ہم اِسے مقامی تھانے کے حوالے کر دیتے ہیں وہ اُس کے وارثوں کے حوالے کر دیں گے۔‘‘کرنل فاتح نے سوچتے
ہو ئے کہا۔ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ انہوں نے ایک پولیس والے کو تیزی سے اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا۔
وہ مقامی تھانے کا اسسٹنٹ سب انسپکٹر یعنی اے ایس آئی تھا۔ اُس کا نام اصغر تھا اور وہ کرنل فاتح کی بڑی عزت کرتا تھا۔
’’سر آپ یہاں؟‘‘اے ایس آئی اصغر نے لہجے میں حیرت سموتے ہوئے پوچھا۔
’’کیوں بھائی! کیا ہمارے یہاں آنے پر پابندی ہے؟میں ہرگز آپ کی تفتیش میں رکاوٹ نہیں ڈالوں گا۔‘‘ کرنل فاتح کے لبوں پہ ہلکی سی مُسکراہٹ آ گئی۔
’’نہیں سر ایسی تو کوئی بات نہیں۔آ پ کے آنے سے تو تفتیش کی گاڑی آگے بڑھے گی اور آپ نے تو پولیس کی ہمیشہ ہی مدد کی ہے۔‘‘حقیقت بھی یہ ہی تھی۔انہوں نے کئی بار مقامی پولیس کی مُشکل کیسز حل کرنے میں مدد کی تھی۔
’’حادثے کے بارے میں کُچھ پتہ چلا؟‘‘کرنل فاتح نے دھماکے سے اُجڑ جانے والے بازار پہ نظریں دوڑاتے ہوئے پوچھا۔
’’ابھی حتمی طور پہ تو کُچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔خیال کیا جاتا ہے کہ ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعہ حادثہ ہوا جو کہ ایک کار میں نصب تھا۔‘‘اے ایس آئی اصغر کی نگاہ اُن کے تعاقب میں گئی۔ہر طرف تباہی اور بربادی کے مناظر تھے۔
’’سیاست دان اور مُلک کے حکمران اب بیان بازی شروع کر دیں گے کہ دھماکے میں شہید ہونے والوں کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی اور مُجرموں کو سخت سزا دی جائے گی۔کِسی کو بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘کرنل فاتح کا لہجہ تلخی لئے ہوئے تھا۔
’’سر آپ ٹھیک کہتے ہیں۔‘‘اے ایس آئی اصغر نے ٹھنڈی سانس بھری۔’’کھوکھلے دعوے اور جھوٹے وعدوں نے ہی تو ہمیں یہاں تک پہنچا دیا ہے۔‘‘
’’ابا جان! اِس بچے کا کیا کرنا ہے؟‘‘شیر دل نے کرنل فاتح کو مُخاطب کرتے ہوئے بات کا رُخ تبدیل کیا۔
’’ارے ہاں! میں تو بھول ہی گیا تھا۔’’وہ اے ایس آئی اصغر کی جانب متوجہ ہوئے۔’’شیردل کو یہ بچہ اِسی بازار سے مِلا تھا۔شاید اپنے والدین سے بچھڑ گیا ہے۔اِسے پولیس کے کِسی سپاہی کے حوالے کر دو تاکہ اِس کے وارثوں کا پتہ چلایا جائے۔‘‘اُن کے دِل میں یہ خیال بھی آیا کہ کہیں وہ ہمیشہ کے لئے ہی اپنے والدین سے نہ بچھڑ گیا ہو مگر انہوں نے یہ بات کہی نہیں۔
اے ایس آئی اصغر نے بچے کو مقامی تھانے کے ایک حوالدار کے حوالے کر کے اُسے مناسب ہدایات دیں۔
’’بچے کے وارث مِل جائیں تو مُجھے اطلاع دے دینا۔‘‘انہوں نے اے ایس آئی اصغر سے کہتے ہوئے شیر دل کے ساتھ قدم آگے بڑھا دئیے۔
’’سر ایک منٹ۔‘‘اے ایس آئی اصغر نے انہیں رُکنے کا اشارہ کیا اور پھر اپنی جیب سے کوئی چیز نکال کے اُن کے ہاتھ پر رکھ دی۔
کرنل فاتح کی جیسے ہی اُس پر نظر پڑی وہ حیران رہ گئے۔انہوں نے بڑی خوبصورتی سے اپنی آنکھوں میں آئی بے پناہ حیرت کو چھپایا۔وہ ایک سنہری سکہ تھا اور سونے کی طرح چمک رہا تھا۔سکے کی ایک جانب ترشول کی تصویر بنی ہوئی تھی اور دوسری جانب انگریزی کا حرف ’’R‘‘ بنا ہوا تھا۔
’’یہ تمہیں کہاں سے مِلا؟‘‘سوال پوچھتے ہوئے انہوں نے اپنے لہجے سے حیرت ظاہر نہیں ہونے دِی۔
’’ دھماکا ہونے کے پانچ منٹ کے اندر ہی ہمارے تھانے کی مو بائل متاثرہ علاقے میں پہنچ گئی تھیں۔ ہر طرف قیامت سی برپا تھی۔ایسے میں میں نے ایک بھاگتے ہوئے آدمی کو دیکھا۔یہ اُس کی جیب سے نکل کر گر گیا تھا۔وہ تیزی سے میری نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا۔میں اُس کے پیچھے بھاگا تھا مگر اُسے نہیں پا سکا ۔‘‘اے ایس آئی اصغر کا جواب تفصیلی تھا۔
’’کیا تُم نے اُس کا چہرہ دیکھا تھا؟ کیا تُم مُجھے اُس کا حُلیہ بتا سکتے ہو؟وہ کیسے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔کیا تُم اُسے دوبارہ دیکھو تو پہچان لو گے؟‘‘کرنل فاتح کے سوالات نے اے ایس آئی اصغر کو ایک لمحے کو تو پریشان ہی کر دیا۔
اُسے سنبھلنے میں چند لمحے لگے۔خود کو سنبھال کر وہ بولا۔’’میں اُس کی ایک جھلک ہی دیکھ سکا تھا۔اُس کی عُمر تیس سے پینتیس برس ہو سکتی ہے۔اُس نے زرد رنگ کا کوٹ پینٹ پہن رکھا تھا۔اُس کے بال سیاہ تھے اور بیچ میں سے مانگ نکلی ہوئی تھی۔سُتا ہواچہرہ لمبوترہ اور ناک نوکیلی تھی۔وہ لمبے قد اور چھریرے بدن کا مالک تھا۔‘‘
’’واہ تُم نے تو کمال ہی کر دیا۔‘‘کرنل فاتح نے تعریف کرتے ہو ئے کہا۔’’ابھی ایک جھلک دیکھ کر تمہارے مشاہدے کا یہ حال ہے تو ذرا تفصیل سے دیکھا ہوتا تو نہ جانے کیا کرتے۔‘‘
اپنی تعریف سُن کراے ایس آئی اصغر کے چہرے پہ روشنی سے پھیل گئی۔کرنل فاتح کی تعریف اُس کے لئے بڑی بات تھی۔
’’تُم نے اُس کی شخصیت میں کوئی ایسی بات دیکھی جو چونکا دینے کا باعث ہو؟‘‘کرنل فاتح نے پوچھا۔
اُن کی بات سُن کر اے ایس آئی اصغر تھوڑی دیر کے لئے سوچ میں پڑ گیا۔پھر سوچ بھرے لہجے میں بولا ۔’’جیسے کہ میں نے پہلے بتایا کہ اُس کی مانگ بیچ میں سے نکلی ہوئی تھی۔اُس کی پیشانی پہ بالوں کی ایک لٹ جھول رہی تھی جو کہ سفید تھی۔نہ جانے اُس نے کیوں تھوڑے سے بالوں کو سفید ڈائی کیا ہوا تھا۔‘‘
’’بھائی! ماننا پڑے گا کہ تمہارا مشاہدہ بڑا غضب کا ہے۔‘‘کرنل فاتح کی نظروں میں ستائش بھری تھی۔
’’سر کیا آپ اُسے جانتے ہیں؟‘‘اے ایس آئی اصغر کاسوال اچانک تھا۔
’’شاید! ابھی کُچھ کہنا مُشکل ہے۔‘‘وہ اُس کا سوال ٹال گئے۔اُن کے انداز سے اے ایس آئی اصغر سمجھ گیا کہ ابھی وہ کُچھ بتانے کے موڈ میں نہیں ہیں۔
انہوں نے اے ایس آئی اصغر کے ساتھ جائے حادثہ کا معائنہ کیا۔ یہ اُن کے فرائض میں شامل نہیں تھا مگر اے ایس آئی اصغر کے کہنے پر وہ اُس کے ساتھ چل پڑے۔امدادی کاروائیاں شروع ہو چُکی تھیں۔پولیس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف ایمبولینسوں کے ساتھ پہنچ چُکے تھے۔فائر برگیڈ کی گاڑیاں بھی موقع پر موجود تھیں۔میڈیا سے متعلق لوگ اپنی کارروائیوں میں مصروف تھے۔
کرنل فاتح اور شیر دل دونوں ایک ٹیکسی میں سوار ہو کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔شیردل انہیں ایک خاص بات بتانا چاہتا تھا مگر جب کرنل فاتح نے ہونٹوں پر انگلی رکھی تو شیردل سمجھ گیا کہ وہ اُسے خاموش رہنے کا اشارہ کر رہے ہیں۔وہ ٹیکسی ڈرائیور کے سامنے ایسی کوئی بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔
گھر پہنچتے ہی کرنل فاتح نے شیر دل سے پوچھا۔’’اب جلدی سے کہہ دو کہ تُم کیا خاص بات کرنا چاہتے تھے؟‘‘
’’ابا جان! میں نے بھی اُس آدمی کی ایک جھلک دیکھی تھی جسے اے ایس آئی اصغر نے بھاگتے ہوئے دیکھا تھا۔مُجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے شاید اُس کی تصویر آپ کے پاس دیکھی تھی۔‘‘وہ شیر دل کی تعلیم وتربیت میں خصوصی دلچسپی لیتے تھے اور اُسے سراغ رسانی اور جاسوسی کے حوالے سے مفید باتیں بتاتے رہتے تھے۔
’’تمہارے خیال میں وہ کون ہو سکتا ہے؟‘‘انہوں نے دھیرے سے مُسکراتے ہو ئے پوچھا۔
’’وہ ہمارا دشمن ہی ہو سکتا ہے۔‘‘شیر دل کے لہجے میں ہلکی سی شوخی تھی۔
’’دشمن کا کوئی نام بھی ہو گا۔‘‘
’’نام کوئی بھی ہو۔دشمن تو دشمن ہی ہوتا ہے۔‘‘اُس کے انداز کی شوخی برقرار تھی۔
’’پھر بھی ہر انسان کا کوئی نہ کوئی نام تو ہوتا ہی ہے۔‘‘وہ جواباً خوش دلی سے مُسکرائے۔
’’میں نے تصویر دیکھی تو تھی مگر مُجھے نام نہیں یاد آ رہا۔میرے خیال میں وہ بھارتی انٹیلی جینس سے تعلق رکھتا ہے۔‘‘شیردل نے یاد کرنے کی کوشش کی۔
’’سراغ رسانی کے یہ ابتدائی اصولوں میں سے ہے کہ ذہن کو ایسے ٹرینڈ کیا جائے کہ چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی نظرانداز نہ کیا جائے اور جن مجرموں اور سیکرٹ ایجنٹوں کا ریکارڈ موجود ہو اُسے ازبر کر لیا جائے۔‘‘کرنل فاتح نے اُسے سنجیدگی سے کہا۔
’’میں اُس کا نام یاد کرنے کی کوشش تو کر رہا ہوں مگر۔۔۔نہیں ٹھہرئیے۔‘‘شیر دل نے ایک لمحے کے توقف کے بعد کہا۔’’میجر گنپت راؤ۔ہاں اُس کا یہ ہی نام تھا۔‘‘
’’مجھے خوشی ہے کہ میری تُم پر محنت ضائع نہیں ہوئی۔‘‘کرنل فاتح کی آنکھوں میں ایک پل کے لئے ایک چمک سے لہرائی۔’’وہ بھارتی انٹیلی جینس ’’را‘‘(Raw) کا مایہ ناز ایجنٹ ہے۔اور اُ س کا نام میجر گنپت راؤ ہی ہے۔‘‘
’’جہاں تک مُجھے یاد پڑتا ہے آپ نے بتایا تھا کہ میجر گنپت راؤ وسیع پیمانے پر تخریبی کاروائیوں کی پلاننگ کرنے کا ماہر ہے۔اِس کا مطلب ہے کہ۔۔۔۔۔۔‘‘شیردل نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’جو تُم سوچ رہے ہو وہ بات بھی ہو سکتی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اُس کا پلان ہماری سوچ سے بھی زیادہ تباہ کُن ہو۔‘‘کرنل فاتح کے چہرے پہ گھمبیرتا چھائی ہوئی تھی۔
’’یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر دہشت گردی کرنے کا مقصد یہ ہو کہ ہماری توجہ کو کِسی ایسے اہم مسئلے سے ہٹایا جائے جو ہماری مُلکی سلامتی کے لئے ضروری ہو۔‘‘شیر دل کی بات پریشان کر دینے والی تھی۔کرنل فاتح کے چہرے کے تاثرات شیر دل کو یہ سمجھانے کے لئے کافی تھے کہ ایسا ہونا ناممکن بھی نہیں ہے۔
’’حالات پریشان کُن ہیں۔ مُجھے کُچھ فون کالز کرنی ہیں۔ہمیں بے حد چوکس رہ کر حالات کا جائزہ لینا ہے۔‘‘وہ اُٹھتے ہوئے بولے۔
’’بابا جان! وہ سکے والا مسئلہ تو رہ ہی گیا۔‘‘شیردل نے جلدی سے پوچھا جیسے ڈر ہو کہ اگر ابھی نہ پوچھا تو اُس کا جواب رہ ہی جائے گا۔
’’ یہ بات میں تمہیں بعد میں بتاؤں گا۔ابھی مُجھے جلدی ہے۔تُم خود بھی اِس کے بارے میں سوچو۔‘‘کرنل فاتح یہ کہتے ہی کمرے سے نکل گئے۔شیردل جانتا تھا کہ اب وہ اپنی اسٹڈی میں جائیں گے جسے اُن کے ہوم آفس کا درجہ بھی حاصل تھا۔
شیر دل نے سوچا کہ وہ شیردل گروپ کے دوستوں کو فون کر کے شہر کے حالات جاننے کی کوشش کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مومن کی اچانک آنکھ کُھل گئی۔کُچھ دیر تک تو وہ اپنے بستر پہ پڑا یہ ہی سوچتا رہا کہ آنکھ کیوں کُھلی ؟پیاس سے نہ ہی حلق خُشک ہو رہا تھا اور نہ ہی کوئی ایسی حاجت محسوس ہو رہی تھی کہ باتھ روم جانے کی ہی ضرورت پڑتی۔ایک ہلکا سا شور اُٹھا تو اُس کا ذہن مزید جاگ گیا۔وہ اپنے بستر پہ اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’یہ شور کیسا تھا؟دیکھنا چاہیے۔‘‘اُس نے بستر سے اُٹھنے میں دیر نہیں لگائی۔چند دنوں سے اُسے اپنے علاقے کے حالات ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔خاص کر اُن کے نئے پڑوسی ارباز خا ن اور اُن کے ملازمین جو شکل سے ہی بدمعاش لگتے تھے۔ یہ متمول لوگوں کی آبادی تھی جہاں سرِ شام ہی سڑکیں سُنسان ہو جاتی تھیں صِرف اسٹریٹ لائٹس ہی سڑکوں کو کِسی حد تک روشن رکھنے کی اپنی سی کوشش کرتی تھیں۔
اُس کی چھٹی حس اُسے مسلسل کسی خطرے کی نشاندہی کر رہی تھی۔کُچھ ہونے والا ہے؟کُچھ ہو کر رہے گا۔مگر کیا؟ یہاں پہ اُس کا ذہن اُلجھ کر رہ جاتا۔وہ چھٹی حس کے معاملے میں خوش قسمت تھا کہ وہ صحیح وقت پہ اُس کی رہنمائی کرتی تھی۔ پھر اُس کا تعلق شیر دل گروپ سے بھی تھا جس کی ٹریننگ اور ہم راہی نے اُسے بے حد چاق و چوبند اور پھرتیلا بنا دیا تھا۔
’’تو کیا خطرہ آج کی رات کے لیے تھا؟‘‘ وہ اپنے کمرے سے نکلتے ہوئے سوچ رہا تھا۔رات کے تین ساڑھے تین کا وقت تھا۔وہ گھڑی نہیں دیکھ سکا تھا۔نہ جانے کیسا تجسس تھا جو اُسے سردی کی اُس رات میں اُس کے کمرے سے باہر لے آیا تھا۔
اُس نے گرم چادر کو سردی سے کانپتے ہوئے جسم کے گرد لپیٹا اور اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگا۔تاریکی اتنی تھی کہ کُچھ بھی صاف نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ خاموشی سے اپنی کوٹھی کے اُس حصے کی طرف آ گیا جہاں،ملازمین کے کوارٹرز سب تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔کہیں کوئی ایک بھی بلب نہیں جل رہا تھا۔مومن اور اُن کے پڑوسی ارباز خان صاحب کی کوٹھیاں ایک ہی ٹھیکے دار نے برسوں پہلے بنوائیں تھیں۔مومن کا سارا بچپن اِسی کوٹھی میں گزرا تھا اور پڑوسیوں کے ہاں آنا جانا لگا رہتا تھا۔اُن کے بیٹے فہیم سے مومن کی بہت دوستی تھی۔دونوں اپنی طرف سے دیوار پھاند کر دوسری طرف کود جاتے تھے اور اِس سلسلے میں کوٹھی کے مین گیٹ کو زحمت کم ہی دیا کرتے تھے۔چھ ماہ پہلے فہیم لوگ کوٹھی بیچ کر دوسرے شہر چلے گئے تھے۔مومن کو فہیم کے جانے کا بے حد افسوس تھا مگر وہ کُچھ نہیں کر سکتا تھا۔نئے آنے والے پڑوسی ارباز خان صاحب اور اُن کے ملازمین کُچھ عجیب سے تھے۔وہ کسی سے بھی ملنا پسند نہیں کرتے تھے اور چہروں سے اچھے لوگ نہیں معلوم ہوتے تھے۔مومن کا اُن کے بارے میں یہ ہی اندازہ تھا۔دونوں کوٹھیوں میں ایک ہی ماسی صغراں بی بی اور اُس کی بیٹی کام کرتی تھیں۔ ارباز خان صاحب نے انہیں نہیں نکالا تھا۔اِس کے باوجود کہ اُن کے ساتھ کئی ملازمین تھے۔اُن ملازمین پہ سردار کو فوقیت حاصل تھی۔سردار جو کوٹھی کے سب ملازمین پہ حُکم چلانا اپنا فرضِ منصبی سمجھتا تھا اور سردارے کے نام سے مشہور تھا،نے تین دِن پہلے سب کو حُکم دیا تھا کہ رات دس بجے کے بعد کِسی کوارٹر کی بجلی جلتی نظر نہ آئے اور نہ ہی کوئی اپنے کوارٹر سے باہر نکلے یا جب تک اُسے بُلایا نہ جائے۔مومن نے یہ بات دن میں صغراں بی بی سے سُنی تھی اوراُس کو یہ بات بہت عجیب لگی تھی اور یہ ہی وقت تھا جب اُس کی چھٹی حس چوکنا ہو گئی تھی۔
یہ ہی وجہ تھی کہ اندھیرا معمول سے زیادہ تھا۔دیوار کے اُس پار کوارٹرز کے باہر کبھی کبھار ایک آدھ جلنے والا بلب بھی اِس وقت بُجھا ہوا تھا۔سردارے سے سبھی ڈرتے تھے۔مومن سوچنے لگا تھا کہ اب کیا کرے؟ساتھ والی کوٹھی میں داخل ہونے کے اُسے کئی راستے معلوم تھے۔پھر اُس نے دیوار کے دوسری طرف کود نے کا خطرناک فیصلہ کر لیا۔فیصلہ کر کے عمل کرنے میں اُس نے دیر نہیں لگائی۔اُسے کوئی دشواری پیش نہ آئی۔
ہر طرف خاموشی اور سناٹے کا راج تھا۔ایسے میں ایک ہلکی سی روشنی دور کہیں چمکی،جیسے جُگنو سا چمک اُٹھا ہو۔مومن سوچے سمجھے بغیراُس جانب چل پڑا۔جہاں اُسے روشنی کی کرن سی نظر آئی تھی،وہ آخری کوارٹرز کا علاقہ تھا۔اُنہیں آخری کوارٹرز اِس لیے کہا جاتا تھا کہ وہ بنگلے کے آخری کونے میں بنے ہوئے تھے۔ وہاں تین کوارٹرز تھے ۔تین کوارٹرز میں سے صِرف بیچ والا ہی آباد تھا، جہاں سردارا رہتا تھا۔باقی دوکوارٹرز خالی تھے اور اُن کی چابیاں بھی سردارے کے پاس رہتی تھیں۔یہ کوارٹرز ذرا الگ تھلگ سے تھے اور اُدھر جاتے ہوئے سبھی ملازمین گھبراتے تھے۔مومن اُنہی کوارٹرز کی طرف بڑھ رہا تھا اُن کی کوٹھی میں تمام کوارٹرز آباد تھے۔اچانک اُس کے پیروں کے نیچے آنے والے پتوں کی وجہ سے چُرر چُرر کی آواز پیدا ہوئی تو وہ خود ہی چونک کر اپنی جگہ رُک گیا۔چند لمحوں تک وہ خاموشی سے قریب سے اُبھرنے والی کِسی آواز کو سُننے کی کوشش کرنے لگا۔کہیں کوئی آواز نہ تھی۔وہ پھر آگے بڑھنے لگا۔اب وہ مزید محتاط ہو گیا تھا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اُس کے بارے میں جان سکے کہ رات کے اِس پہر وہ پڑوسیوں کی کوٹھی میں کیا کر رہا تھا؟
ابھی اُس نے مزید چند قدم ہی اُٹھائے ہوں گے کہ اُسے رُک جانا پڑا۔کوئی چیز زور دار آواز کے ساتھ زمین سے ٹکرائی تھی۔فاصلہ زیادہ نہ تھا۔مومن نے جلدی سے ایک قریبی درخت کی آڑ لے لی۔درخت کا تنا اتنا چوڑا نہیں تھا کہ اُسے مکمل طور پہ چھپا سکتا لیکن حالات کے مطابق غنیمت تھا۔مومن کی آنکھیں اب اندھیرے سے کُچھ مانوس ہونے لگی تھیں۔اُسے کُچھ فاصلے پہ دو انسانی ہیولے نظر آئے۔اُنہوں نے بوری جیسی کوئی شے اُٹھا رکھی تھی۔
’’سنبھل کر چل۔کہیں اِس کا تختہ ہی نہ ہو جائے۔‘‘ایک دبی دبی آواز مومن کو سُنائی دِی۔
’’میں تو سنبھل کر ہی چل رہا ہوں۔بوری تیرے ہاتھوں سے ہی پھسل کر گری تھی۔‘‘یہ دوسری آواز تھی جو پہلے سے ذرا اُونچی تھی۔
’’آواز کو دبا لے۔کہیں کوئی سُن نہ لے۔‘‘پہلے آدمی کی آواز بے حد ہلکی تھی۔
’’لو یہاں کِس نے سُننا ہے؟‘‘دوسرا آدمی بے ڈھنگے پن سے ہنس پڑا۔اِس بار بھی اُس کی آواز پہلے آدمی سے کافی بُلند تھی۔
’’بس اب خاموش۔اگر باس کو پتہ چل گیا تو بہت بُرا ہو گا۔‘‘پہلا آدمی زیادہ محتاط معلوم ہوتا تھا۔
جواباً دوسرے آدمی کی آواز نہ آئی۔شاید باس والی دھمکی کام کر گئی تھی۔
مومن کو چند لمحوں تک اُن کے قدموں کی آواز سُنائی دیتی رہی پھر خاموشی کا راج ہو گیا۔تین چار منٹ تک انتظار کر نے کے بعد وہ درخت کے پیچھے سے نکل آیا۔اب وہ بہت پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھا رہا تھا۔سارا علاقہ گو کہ اُس کا دیکھا ہوا تھا پھر بھی وہ رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔وہ آخری کوارٹرز کے قریب پہنچ چُکا تھا۔تینوں کوارٹرز ایک ہی لین میں بنے ہوئے تھے۔آخری کوارٹر میں ہلکی ہلکی روشنی نظر آ رہی تھی۔آخری کوارٹرز سے پچاس گز کے فاصلے پہ چار گھنے درخت تھے۔وہ چاروں اوپر سے یوں مل گئے تھے جیسے سب ایک ہی درخت کی شاخیں ہوں۔درختوں کازمینی فاصلہ ایک دوسرے سے آٹھ دس گز سے زیادہ نہ تھا۔وہ درخت چھپنے کے اعتبار سے بہترین تھے۔مومن نے جلدی نہیں کی۔اپنی جگہ پہ کھڑے کھڑے حالات کا جائزہ لیتا رہا۔جب اُسے فوری کوئی خطرہ محسوس نہ ہوا تو وہ بڑی احتیاط سے چار درختوں کے اُس سلسلے کی طرف بڑھنے لگا۔پہلے درخت تک پہنچتے ہی وہ اُس کے پیچھے چُھپ کے کھڑا ہو گیا۔وہ کافی حد تک اندھیرے میں دیکھ سکتا تھا۔فاصلہ زیادہ تو نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ دو انسانی ہیولے وہاں کیا کر رہے تھے ؟یہ واضح نہیں تھا۔مومن کو چوتھے درخت تک پہنچنا تھا ،پھر وہ آخری کوارٹر کے بے حد قریب ہو جاتا۔جو کُچھ بھی ہو رہا تھا وہ اُسی کے قریب ہی ہو رہا تھا۔
’’وہ دونوں وہاں کیا کر رہے تھے؟‘‘
’’بوری میں کیا تھا؟‘‘
’’کیا کوئی مجرمانہ کاروائی ہو رہی تھی؟‘‘
’’کیا سردارا بھی اُس میں ملوث تھا؟‘‘
’’اگر نہیں تو کیا اِس وقت وہ موجود نہیں تھا؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری قسط ناول شیر دل
ایک درخت سے دوسرے تک بڑھتے ہوئے کتنے ہی سوالات مومن کو پریشان کر رہے تھے۔
اب وہ چوتھے درخت تک پہنچ چُکا تھا۔قریب ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ اب وہ دونوں آدمی قدرے صاف دکھائی دے رہے تھے۔اُنہوں نے بوری زمین پہ رکھی ہوئی تھی اور دونوں دروازے پہ جھکے ہوئے تھے۔شاید دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہے تھے۔مومن کا خیال تھا کہ اُن سے دروازہ نہیں کُھل رہا تھا۔
’’یار! یہ چابی کیوں نہیں لگ رہی؟‘‘اونچی آواز والے آدمی کی جھنجھلائی ہوئی آواز نے مومن کو یقین دِلا دِیا کہ وہ صحیح سوچ رہا تھا۔
’’چابی ۔۔۔۔نے دِی تھی۔وہ اب غلط چابی تو دینے سے رہا۔‘‘دوسرا آدمی بولنے میں محتاط تھا ۔اُس کی آواز اب بھی نیچی تھی۔اُس کی آواز اتنی نیچی تھی کہ مومن کو اُن دونوں کو چابی دینے والے بندے کا نام سُنائی نہیں دِیا۔
’’ٹھہرو میں دوسری چابی لگا کر دیکھتا ہوں۔‘‘پہلا آدمی پھر زور سے بولا تو دوسرے نے اُسے ڈانٹ دیا۔’’نیاز ہوش کر اور آہستہ بول۔‘‘
’’ہاںیار تو کہتا تو ٹھیک ہے۔بس کیا کروں میری آواز ہی ایسی ہے۔اور وہ کیا کہتے ہیں کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔‘‘ایک بے ہنگم سا قہقہہ اُس کے لبوں سے پھسل پڑا،جِسے اُس کے ساتھی نے نیاز کہہ کر بُلایا تھا۔’’یہاں تو سناٹا ہے اور درخت،یعنی درختوں کے بھی کان ہوتے ہیں۔‘‘
’’اپنی ٹر ٹربند کر۔درختوں کے کان نہیں صِرف شاخیں ہو تی ہیں۔‘‘اِس بار غُصے میں دوسرا آدمی بھی ذرا اُونچا بول گیا۔
’’لگ گئی۔شُکر ہے چابی تو لگی۔‘‘نیاز کے لہجے میں خوشی تھی۔پھر ایسی آواز آئی جیسے دروازے کے کُنڈے کو کھولا جا رہا ہو۔آواز کافی اُونچی تھی۔شاید کُنڈے کو عرصے سے تیل نہیں مِلا تھا۔
’’کُنڈے کو آہستہ آہستہ کھول۔پتہ نہیں کِس بے وقوف سے واسطہ پڑ گیا ہے۔‘‘دوسرے آدمی کے لہجے میں غُصے کی جھلک تھی ۔گو کہ آواز اب بھی دبی دبی سی تھی۔نیاز پہ اُس کی ہدایت کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا تھا۔وہ اپنے کام سے لگا رہا۔کُنڈا شاید کُھل گیا تھا کیونکہ دروازے کی چرچراہٹ مومن آسانی سے سُن سکتا تھا۔اُس نے کسی کو وہ بوری سی اُٹھاتے ہوئے دیکھا اور پھر وہ دونوں کُھلے ہوئے دروازے سے اندر غائب ہوگئے۔مومن سوچنے لگا کہ اب کیا کرے؟اُس کا جی تو چاہ رہا تھا کہ تھوڑا اور آگے جائے تاکہ اُن دو پُرسرار آدمیوں کی کارروائی سے پوری طرح آگاہ ہو سکے مگر اِس میں خطرہ دیکھ لیے جانے کا تھا۔فی الحال اُس نے اپنی موجودہ جگہ پہ ہی رُک کر حالات کا جائزہ لینا بہتر جانا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیر دل کو نیند نہیں آ رہی تھی۔آج اُ س کی رات کی گشت کی بھی باری نہیں تھی۔کوئی چیز اُسے پریشان کر رہی تھی۔انجانے سے اندیشے ذہن میں کن کھجوروں کی طرح رینگ رہے تھے۔وہ ترشول والے سکے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔اب تک اُسے کرنل فاتح سے اُس کے بارے میں جاننے کا موقع نہیں مِلا تھا۔وہ بڑی دیر سے اپنی اسٹڈی میں بند تھے۔انہوں نے رات کا کھانا بھی اپنی اسٹڈی میں ہی منگوا لیا تھا۔ایسے میں جب وہ سونے کی لاحاصل کوشش میں مصروف تھا۔گھر کے ٹیلی فون کی پُرشور آواز نے گویا خاموش فضا کو دھماکے کی نظر کر دیا۔ شیردل تیزی سے بستر سے اُترا۔اُس کا رُخ ڈرائنگ روم کی طرف تھا ٹیلی فون کی ایک ایکسٹینشن وہاں بھی تھی۔۔ڈرائنگ روم میں مرد مہمانوں کی خاطر مدارت کی جاتی تھی جب کہ عورتوں کے لئے علیحدہ انتظام تھا۔
ڈرائنگ روم کی بجلی جل رہی تھی۔شیردل جانتا تھا کہ اُس سے پہلے کرنل فاتح ڈرائنگ روم تک پہنچ چُکے تھے۔جب تک وہ وہاں پہنچا ٹیلی فون کی گھنٹی خاموش ہو چُکی تھی۔اُسے خاموشی کی وجہ جلد ہی معلوم ہو گئی۔ٹیلی فون کا ریسیور کرنل فاتح کے ہاتھ میں تھا اور اُن کے بشرے سے یہ جاننا مُشکل تھا کہ دوسری جانب کون تھا یا کیا کہا جا رہا تھا؟
کرنل فاتح نے بھی اُسے دیکھ لیا تھا لیکن اُن کے چہرے کے تاثرات میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔
’’کیا؟‘‘اچانک اُن کی آواز اُونچی ہو گئی۔اُن کے چہرے پر ایک رنگ سا آ کر گزر گیا۔
’’ہیلو۔۔۔ہیلو۔۔۔بولو۔۔۔کیا ہوا؟۔۔۔تُم ٹھیک تو ہو؟‘‘کرنل فاتح بار بار ایک ہی بات دُہرائے جا رہے تھے اور پھر انہوں نے ٹیلی فون کا ریسیور واپس رکھ دیا۔اِس سے پہلے کہ شیردل کُچھ پوچھتا ،انہوں نے مخصوص اشارہ کیا۔شیر دل تیزی سے اپنے کمرے کی طرف لپکا۔اُسے لمحوں میں تیار ہو کر کار پورچ تک پہنچنے کا اشارہ ملا تھا۔شیردل نے تیار ہونے میں چند لمحوں سے زائد نہیں لئے۔
تھوڑی دیر بعد وہ کرنل فاتح کی تیز رفتار کار کو تاریک رات میں کِسی اجنبی منزل کی جانب تیزی سے بڑھتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔اجنبی اِس لئے کہ ابھی اُسے معلوم نہیں تھا کہ کرنل فاتح کہاں جا رہے تھے۔شیردل نے کُچھ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔وہ جانتا تھا کہ کرنل فاتح اگر مناسب سمجھیں گے تو خود ہی بتا دیں گے۔
’’اے ایس آئی اصغر کا فون تھا۔اُس کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔وہ سخت خطرہ محسوس کر رہا تھا۔اُسے لگ رہا تھا جیسے اُس کے گھر کو چاروں جانب سے گھیر لیا گیا ہو۔‘‘کرنل فاتح کی نظریں سامنے سڑک پر جمی ہوئی تھیں اور وہ خود ہی بتا رہے تھے۔
’’اُسے کیسے پتہ چلا کہ اُس کے گھر کو گھیر لیا گیا ہے؟‘‘شیردل نے سوال کیا۔’’جہاں تک مُجھے یاد پڑتا ہے وہ پولیس لین میں ہی ایک کوارٹر میں رہتا ہے جو پولیس تھانے کے بالکل ساتھ ہے۔‘‘
’’کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘کرنل فاتح نے ایک لمحے کے لئے گردن اُ س کی جانب گھمائی۔
’’میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ پولیس تھانے کے ساتھ ہی پولیس لین ہونے کی وجہ سے وہاں مسلح سنتریوں کی دن رات ڈیوٹی ہوتی ہے۔‘‘شیردل نے بھی گردن گھما کر اُن کی جانب رُخ کیا۔’’یعنی وہاں کے رہائشی لوگوں کی حفاظت کا خاطر خواہ انتظام ہوتا ہے۔اے ایس اصغر کے خوف کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘
’’تُم یہ کہنا چاہتے ہو کہ ہو سکتا ہے کہ وہ کال اے ایس اصغر کی نہ ہو۔‘‘کرنل فاتح چونک اُٹھے۔
’’ ایسا ہونا ناممکن بھی نہیں۔‘‘شیردل کا جواب تھا۔
’’ہوں۔۔۔‘‘کرنل فاتح مُنہ میں کُچھ بُڑ بُڑا کر رہ گئے۔
’’ابا جان! اگر آپ اجازت دیں تو میں تھانے فون کر کے پوچھوں کہ اے ایس آئی اصغر سے بات ہو سکتی ہے یا نہیں؟‘‘شیر دل نے جوش میں آتے ہوئے پوچھا۔
’’اچھا آئیڈیا ہے۔اگر کِسی نے ہم سے مذاق کیاہو گا تو پتہ چل جائے گا۔مگر مذاق اور وہ بھی رات کے اِس وقت۔۔۔۔؟‘‘کرنل فاتح کا ذہن ایک نئی کشمکش کا شکار ہو گیا۔
شیردل نے تھانے کا ٹیلی فون نمبر اپنے سیل فون سے ملایا۔کافی دیر تک گھنٹی بجتی رہی لیکن کِسی نے ٹیلی فون نہ اُٹھایا۔شیردل کال کا سلسلہ منقطع کرنے لگا تھا کہ کِسی نے ٹیلی فون اُٹھا لیا۔کرنل فاتح توجہ سے ڈرائیونگ کرتے رہے البتہ اُن کے کان شیردل کی گفتگو کی جانب متوجہ رہے۔
’’کیا کہا آگ۔۔۔۔کتنی دیر پہلے کی بات ہے؟‘‘شیردل خاموشی سے دوسری جانب سے ہونے والی گفتگو سُن رہا تھا۔
’’کیا آپ کو یقین ہے؟ اچھا ٹھیک ہے۔‘‘تھوڑی دیر بعد شیر دل اپنا سیل فون پینٹ کی جیب میں رکھ رہا تھا۔
کرنل فاتح نے ایک نظر شیردل پہ ڈالی لیکن کُچھ بولے نہیں۔
’’حوالدار دین محمد تھا۔کہہ رہا تھا کہ اے ایس آئی اصغر کے کوارٹر کو کِسی نے آگ لگا دی ہے اور اُسے شدید زخمی حالت میں پولیس ہیڈ کوارٹر ہسپتال لے جایا گیا ہے۔‘‘شیردل کا لہجہ دھیما تھا۔کرنل فاتح تھانے کے سارے عملے سے واقف تھے اور حوالدار دین محمد کو اچھی طرح جانتے تھے۔
’’اے ایس آئی اصغر کو کِس وقت ہسپتال لے جایا گیا؟‘‘کرنل فاتح نے پوچھا۔اُن کے لہجے کی غراہٹ شیردل سے چھپی نہ رہی۔
’’حوالدار دین محمد کے مطابق ایمبولینس اُسے لے کر تیس یا پینتیس منٹ پہلے ہسپتال کی جانب روانہ ہوئی ہے؟‘‘
’’اِس کا مطلب ہے کہ وہ فون ہمیں اے ایس آئی اصغر نے نہیں کیا تھا؟اگر اُس نے نہیں کیا تھا تو پھر وہ کون تھا؟وہ کیا چاہتا تھا؟‘‘کرنل فاتح نہ جانے شیر دل سے پوچھ رہے تھے یا خود کلامی کر رہے تھے،یہ شیر دل نہ سمجھ سکا مگر اُس نے کوئی سوال نہیں کیا۔وہ اپنے والد کے مزاج سے اچھی طرح واقف تھا۔
’’اُس فون کال کا آخر کیا مطلب تھا؟شیردل تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘اِس بار انہوں نے شیردل سے براہ راست سوال کیا۔
’’میں بھی یہ ہی بات سوچ رہا ہوں۔‘‘شیردل نے جواب دیا۔’’فون کرنے والا جانتا تھا کہ ہم فون کال ملتے ہی چل پڑیں گے۔‘‘
’’ہاں! تُم ٹھیک کہہ رہے ہو۔مگر پھر بھی مقصد ابھی تک واضح نہیں۔‘‘وہ سر ہلا کے بولے۔
’’مقصد تو سامنے آ ہی جائے گا مگر۔۔۔۔۔‘‘شیر دل کا جملہ ادھورا رہ گیا وہ تھانے پہنچ چُکے تھے۔
تھانے میں ایک افراتفری کا عالم تھا۔رات میں دن کا سماں تھا۔پولیس کے علاوہ فائر برگیڈ اور ایمبولینس گاڑیاں وہاں موجود تھیں۔میڈیا والے بھی موجود تھے۔تھانے کے پیچھے پولیس ملازمین کے رہائشی کوارٹرز تھے جو پولیس کوارٹرز کہلاتے تھے۔انہی میں سے ایک آگ کا گولا بنا ہوا تھا۔فائر برگیڈ کا عملہ تندہی سے اپنے کام میں لگا ہوا تھا۔آگ کے شعلے گویا آسمان سے باتیں کر رہے تھے اور دھوئیں کے بادل نظر کو دھندلا رہے تھے۔اِس سے پہلے کہ کرنل فاتح اور شیردل اپنی گاڑی سے اُترتے کوئی تیزی سے بھاگتا ہوا اُن کی گاڑی کی طرف آیا۔کرنل فاتح نے شیردل کے کہنے پر گاڑی کو قدرے اندھیرے میں درختوں کے نیچے کھڑا کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصرت صاحب اسپیشل پولیس فورس کے ایس پی تھے اور آج کل کئی اہم کیسز میں اُلجھے ہوئے تھے۔اُن کے محکمے کا ایک افسر آج کل اُن کے لئے اُلجھن کا باعث بنا ہوا تھا۔حالات و شواہد کا تقاضا تھا کہ اُس پر نظر رکھی جائے کیوں کہ وہ کُچھ مشکوک لوگوں کے ساتھ میل جول بڑھا رہا تھا۔نصرت صاحب کے حُکم پر ہمہ وقت محکمے کے دو افراد سادہ کپڑوں میں اُس کے پیچھے لگے رہتے تھے اور پل پل کی خبریں نصرت صاحب کو پہنچاتے تھے۔اُس وقت انہیں ایسی ہی خبر ملی تھی کہ وہ اپنے دفتر میں مزید نہ بیٹھ سکے اور فوراً ہی اپنی گاڑی میں روانہ ہوگئے۔انہیں اپنی مطلوبہ جگہ پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔کوٹھی کیا محل ایسی شان رکھنے والی وہ عمارت دیکھنے ہی میں خوش نما نہیں تھی بلکہ اپنی شان و شوکت سے دیکھنے والے کے دل پہ ایک خاص اثر کرتی تھی۔نصرت صاحب نے عمارت پہ ایک اچٹتی سی نظر ڈالی۔عمارت کے باہر دو مسلح سیکیورٹی گارڈز کھڑے تھے۔اُن کی اجازت کے بغیر کوئی عمارت میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔نصرت صاحب نے اپنی گاڑی ایک مناسب جگہ کھڑی کی اور یوں ہی ٹہلتے ہوئے عمارت کی مخالف سمت میں چل پڑے۔تھوڑی دیر بعد ایک شریف صورت نوجوان اُن کے ساتھ ہی چلنے لگا۔اُن کے بات کرنے کا انداز ایسا تھا جیسے دو دوست چلتے چلتے سرِ راہ مِل گئے ہوں۔
’’وہ بغدادی صاحب کی کوٹھی میں ہی داخل ہوا ہے۔‘‘وہ نوجوان اُن کا ماتحت اشرف تھا۔
بغدادی صاحب ایک سیاست دان تھے ہمیشہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں کامیاب ہوتے اور جو بھی پارٹی حکومت بناتی وہ اُس کے ساتھ شامل ہو جاتے۔وہ دو بار صوبائی وزیر بھی رہ چُکے تھے اور حال ہی میں منعقد ہوئے الیکشن میں کامیابی کے بعد انہوں نے حکومت کی مخالف جماعت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا جو کہ سب کے لئے ہی حیرانی کا باعث تھا۔ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ وہ اپوزیشن میں بیٹھے تھے۔وہ نیک نام نہیں تھے اور اکثر اُن کا ذکر جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کے سلسلے میں بھی لیا جاتا تھا۔نصرت صاحب کا مطلوبہ شخص ابھی کُچھ دیر پہلے ہی بغدادی صاحب کی کوٹھی میں گیا تھا۔وہ اشرف سے باتیں کرتے ہوئے کوٹھی سے کُچھ فاصلے پر آ گئے۔فاصلہ اتنا نہیں تھا کہ وہ کوٹھی کے داخلی دروازے پر نظر نہ رکھ سکتے۔
’’وہ ٹیکسی میں آیا تھا اور اُس کے ہاتھ میں ایک سیاہ رنگ کا بریف کیس تھا۔اپنی گاڑی کی موجودگی میں ٹیکسی میں سفر کُچھ سمجھ میں نہیں آتا۔اس کی گاڑی ابھی وہیں دفتر کے کار پارک میں کھڑی ہے۔‘‘اشرف نے مزید تفصیل بتائی۔
’’یوں توبہت ساری وجوہات ہیں مگر ایک یہ وجہ بھی شُبے میں ڈالنے والی ہے۔‘‘نصرت صاحب نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔
’’دیکھئے ابھی کتنی دیر بعد وہ باہر نکلتا ہے۔‘‘اشرف نے خیال ظاہر کیا۔
نصرت صاحب جواباً کُچھ نہیں بولے۔انہیں وہاں کھڑے کھڑے ڈیڑھ گھنٹہ ہو گیا لیکن اُن کا مطلوبہ شخص کوٹھی سے باہر نہیں نکلا۔اِس دوران کوٹھی سے دو گاڑیاں باہر نکلیں۔ایک گاڑی کے تمام شیشے سیاہ تھے ۔مُلکی قانون کے مطابق گاڑیوں کے شیشے سیاہ کرانے کی ممانعت تھی۔مُشکل یہ تھی کہ جو قانون بناتے تھے یا جنہیں قانون کی پاسداری کا کام سونپا جاتا تھا وہ ہی قانون شکنی کر تے تھے۔
کوٹھی میں جانے والی گاڑیوں کی تعداد کے بارے میں کُچھ کہنا مُشکل تھا۔
اچانک ایک خیال کے آنے پر نصرت صاحب بُری طرح چونک اُٹھے۔اشرف نے بھی اُن کے چونکنے کو محسوس کیا۔
اِس سے پہلے کہ وہ کوئی سوال کرتا،نصرت صاحب خود ہی بول پڑے۔’’میرا خیال ہے کہ ہمیں چوٹ ہو گئی۔وہ اندر گیا ضرور تھا لیکن باہر نہیں نکلا۔اُسے شاید سیاہ شیشے والی گاڑی میں باہر لے جایا گیا ہے۔‘‘
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں۔شاید ایسا ہی ہوا ہو۔اب ہمارے لئے کیا حُکم ہے؟‘‘اشرف نے اُن کے خیال کی تائید کرتے ہوئے پوچھا۔
’’تُم ارشد سے کہو کہ وہ نگرانی کا کام جاری رکھے اور تُم میرے ساتھ آؤ۔‘‘یہ کہہ کر وہ اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گئے۔
تھوڑی دیر بعد وہ اشرف کے ساتھ اپنی گاڑی میں دفتر کی جانب اُڑے جا رہے تھے۔
دفتر پہنچ کر وہ سیدھے کار پارک کی جانب چل پڑے۔
’’میرا خیال ٹھیک ہی نکلا۔کار پارک میں چاروں جانب نظر دوڑانے کے بعد وہ بولے۔
’’میں سمجھا نہیں سر!‘‘اشرف نے حیرت سے سوال کیا۔
’’اِس میں سمجھ میں نہ آنے والی کون سی بات ہے۔جواد کی گاڑی اب کار پارک میں موجود نہیں۔وہ یا تو خود آ کر اُسے لے گیا ہے یا یہ کام اُس کے کہنے پر کِسی اور نے کیا ہو گا۔‘‘نصرت صاحب کی بات اشرف کو فوراً ہی سمجھ میں آ گئی۔جواد اُن کے محکمے کا وہ افسر تھا جس کی وہ نگرانی کروا رہے تھے۔
’’ایسا کرو۔ارشد کو واپس بلوا لو۔اب اُس کی وہاں کوئی ضرورت نہیں۔‘‘نصرت صاحب کُچھ سوچ کر بولے۔
’’جی بہتر۔کوئی اور حُکم سر؟‘‘اشرف کا لہجہ مودبانہ ہو گیا۔
’’فیلڈ فورس کے ایسے ارکان جنہیں جواد نہیں جانتا،کو لے کر جاؤ اور اُسے آج رات اُٹھا لو۔تمہیں پتہ ہی ہے کہ اُسے کہاں پہنچانا ہے۔‘‘یہ کہتے ہوئے نصرت صاحب کا لہجہ سفاک ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مومن گھنے درخت کے پیچھے کھڑا کُچھ فاصلے پر ہونے والی پُراسرار کاروائی دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔دروازہ لوہے کا معلوم ہوتا تھا۔
وہ دونوں کوشش تو کر رہے تھے کہ زیادہ آواز نہ پیدا ہو مگر دروازہ شاید پُرانا تھا اِس لئے اتنی اونچی آواز سے کُھل رہا تھا۔دروازہ کُھلتے ہی وہ دونوں بوری سمیت اندر داخل ہو گئے۔مومن کے لئے موقع اچھا تھا۔وہ آہستہ آہستہ اُس درخت کی جانب بڑھنے لگا جو کوارٹر سے بے حد قریب تھا۔فاصلہ چند گز سے زائد نہ تھا۔کُھلے دروازے سے روشنی کی ایک کرن تک بھی باہر نہیں آ رہی تھی۔وہ دونوں بے حد مُحتاط تھے اور بغیر روشنی کے ہی اپنا کام کر رہے تھے۔مومن کے جی میں آیا کہ دروازے سے اندر جھانک کر دیکھے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے؟۔اُس نے بڑی مُشکل سے اپنے ارادے کا گلا گھونٹا۔ وہ جانتا تھا کہ ایسا کرنا بے حد خطرناک ہو سکتا ہے۔پھر وہ اِس وقت اپنے پڑوسیوں کے گھر میں بلا اجازت موجود تھا۔مومن کو سردی بھی لگ رہی تھی اور وہ اپنی پُر تجسس طبعیت سے بھی مجبور تھا۔انتظار کے لمحے بے حد طویل تھے۔مومن کو تو ایسا ہی لگ رہا تھا۔وہ دونوں جب دروازے سے باہر آئے تو خالی ہاتھ تھے۔بوری یا بوری میں جو چیز تھی وہ انہوں نے کوارٹر میں ہی چھوڑ دی تھی۔دروازہ دوبارہ اُسی پُر شور آواز کے ساتھ بند ہوا اور وہ دونوں درختوں سے قریب ہو نے لگے۔مومن نے اپنا سانس تک روک لیا۔وہ دونوں مومن کے بے حد قریب سے ہو کر گُزرے۔دونوں دھیمے لہجے میں بات کر رہے تھے۔اُن کی باتوں سے مومن کو پتہ چلا کہ دوسرے آدمی کا نام جِمی تھا۔اُن دونوں کے جانے کے بعد مومن کو ہر دم گہری ہوتی تاریکی اور تنہائی نے گھیر لیا۔مومن نہ تو پریشان تھا اور نہ ہی ہراساں۔شیر دل گروپ کے لوگ بڑے جی دار،دلیر اور کسی سے ڈرنے والے نہیں تھے۔اُن کا اللہ پر مکمل بھروسہ تھا اور وہ وطنِ عزیز کے لئے جانیں ہتھیلی پر لئے پھرتے تھے۔مومن نے دس پندرہ منٹ تک اپنی جگہ سے جُنبش تک نہ کی۔جب اُسے یقین ہو گیا کہ وہ دونوں واپس نہیں آئیں گے تو بے حد آئستگی سے آگے قدم بڑھائے۔اُس نے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا۔وہ جلد ہی کوارٹر کے دروازے تک پہنچ گیا۔دروازے کے کُنڈے میں بڑا سا تالا جھول رہا تھا۔اُس نے کوارٹر کو چاروں طرف سے گھوم کر دیکھ لیا۔وہ مُختصر سا کوارٹر تھا جس میں دو ہی کمرے تھے اور دونوں کمروں میں دودو کھڑکیاں تھا۔کھڑکیوں پہ بیرونی جانب لوہے کی سلاخیں لگی ہوئی تھیں اور اندرونی جانب شیشے تھے۔شیشوں سے اندر دیکھنا یوں تو مُمکن تھا مگر اُس وقت مومن کو بے حد مایوسی ہوئی جب اُس نے دیکھا کہ وہ اندر نہیں دیکھ سکتا کیوں کہ کھڑکیوں کے شیشوں کو پردوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔ مومن کو فوراً ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ دروازے کا تالا کھول کر اندر جانے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔وہ خاموشی سے تھوڑی دیر بعد واپس اپنے کمرے میں پہنچ گیا۔وہاں زیادہ دیر رُکنا بھی خطرے سے خالی نہ تھا۔مومن کو ایک بے طرح کی بے چینی نے گھیر لیا تھا۔اُس کی چھٹی حس خطرے کا اعلان کر رہی تھی اور وہ فوراً کوارٹر کا راز جان لینا چاہتا تھا۔کُچھ دیر سوچنے کے بعد اُس نے اپنا سیل فون نکالا اور ایک نمبر ڈائل کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ حوالدار دین محمد تھا۔اُس کے چہرے پہ ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔وہ انتہائی پریشانی کے عالم میں بولا۔’’سر! اصغر صاحب کو پولیس ہیڈ کوارٹر ہسپتال لے جایا گیا ہے اور وہ شدید زخمی ہیں۔‘‘
’’اصغر نے کُچھ کہا تھا۔‘‘کرنل فاتح نے پوچھا۔
’’اُن پہ غشی کا دورہ سا تھا اور نیم بے ہوشی کا عالم تھا۔اُنہوں نے چند ٹوٹے پھوٹے سے الفاظ کہے تھے جن کا مُجھے مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔‘‘حوالدار دین محمد نے پریشان کُن لہجے میں جواب دیا۔
’’تُم مطلب چھوڑو بس یہ بتاؤ کہ اُس نے کیا کہا تھا؟‘‘کرنل فاتح اپنی بے چینی نہ چُھپا سکے۔
’’میں اُن کے الفاظ ہو بہو یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔‘‘حوالدار دین محمد کا لہجہ کھویا کھویا سا تھا۔‘‘وہ کہہ رہا تھے کہ۔۔۔۔سکہ۔۔۔۔سفید بال۔۔۔۔۔دھوکا۔۔۔۔۔۔کرنل صاحب۔۔۔۔بے ہوش ہونے سے پہلے بس اُس نے یہ ہی کہا تھا۔‘‘
’’دھوکا تو ہو گیا۔‘‘کرنل فاتح نے ایک گہری سانس لی۔
’’کیا مطلب؟‘‘حوالدار دین محمد نے پُر تجسس انداز میں پوچھا۔
’’کُچھ نہیں۔میں کُچھ سوچ رہا تھا۔‘‘کرنل فاتح نے سنبھالا لیا۔’’یہاں کے معاملات کنٹرول میں ہیں؟‘‘
’’جی ہاں۱ڈپٹی کمشنر اور ایس پی صاحب موقعہ پر موجود ہیں۔‘‘حوالدار دین محمد نے بتایا۔
’’اچھا ٹھیک ہے۔کِسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہم یہاں آئے تھے۔‘‘کرنل فاتح نے اُسے تاکید کی۔اُن کی گاڑی قدرے اندھیرے میں کھڑی تھی۔اِس لئے اب تک کِسی نے اُس کا نوٹس نہیں لیا تھا۔ویسے وہ حیران تھے کہ حوالدار دین محمد کیسے تیر کی طرح دوڑتا ہوا اُن ہی کی جانب آیا تھا۔بعد میں یہ اُن کی حیرت رفع ہو گئی جب شیردل نے بتایا کہ حوالدار دین محمد نے انہیں وہاں گاڑی پارک کرنے کو کہا تھا۔
واپس گھر کی طرف جاتے ہوئے کرنل فاتح نے گاڑی کی رفتار بے حد تیز رکھی تھی۔رات کے اُس پہر سڑکیں سُنسان تھیں اور کہیں اکا دُکا گاڑیاں یا ٹیکسیاں ہی سڑک پر نظر آ رہی تھیں۔
’’چوٹ ہوگئی شیردل۔۔۔‘‘کرنل فاتح نے دانت پیستے ہوئے کہا۔شیردل نے جواباً سوال نہیں کیا۔وہ جانتا تھا کہ وہ جو مناسب ہو گا وہ خود ہی بتا دیں گے۔
’’وہ ہمیں ہمارے بنگلے سے ہٹانا چاہتے تھے۔اِسی لئے ہمیں وہ فون کال کی گئی تھی۔‘‘وہ بتانے لگے۔
’’مگر کیوں؟‘‘شیردل خود کو سوال کرنے سے باز نہیں رکھ سکا۔
’’یہ تو تُم بتاؤ گے۔‘‘وہ اُس کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔وہ حیرت انگیز طور پرخود پہ قابو پا چکے تھے۔شیردل کی خواہش تھی کہ اُس کے اعصاب بھی اُن کی طرح فولادی ہو جائیں۔بڑی سے بڑی بات یا واقعہ بھی زیادہ دیر تک اُن کے اعصاب پر سوار نہیں رہتا تھا۔
’’میرا خیال ہے کہ اگر اِس بات کا تعلق موجودہ معاملے کے ساتھ ہے تو پھر یہ اُسی سنہری سکے کا معاملہ ہی ہو سکتا ہے۔‘‘شیردل کے اندازہ نے انہیں اُس کی طرف تعریفی انداز میں دیکھنے پر مجبور کر دیا۔
’’وہ سکہ یا شناخت کا نشان میں اپنی اسٹڈی میں ہی چھوڑ آیا تھا۔‘‘
’’آپ نے اُس ’’نشان ‘‘کے بارے میں کُچھ بتایا نہیں۔‘‘
’’میں بتانا چاہتا تھا بس موقع ہی نہیں ملا۔‘‘کرنل فاتح نے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔‘‘وہ بھارتی انٹیلی جینس ’’را‘‘ کے مخصوص ایجنٹوں کو دیا جاتا ہے۔اُس نشان کو کھونے کی قیمت جان دے کر چکانی پڑتی ہے۔‘‘
’’اچھا! اُس چھوٹے سے سنہری نشان کی اتنی زیادہ وقعت ہے۔‘‘شیردل کے لہجے میں حیرانی تھی۔
’’وقعت صرف اُن کے لئے ہے جو اُس کی اہمیت جانتے ہیں۔‘‘کرنل فاتح نے تیزرفتاری سے ایک موڑ کاٹتے ہوئے جواب دیا۔’’مجھے موقع ہی نہیں ملا کہ میں اُسے محفوظ کر سکتا۔اب وہ شاید ہی ہمیں اب وہاں ملے۔‘‘
وہ اب اپنے بنگلے کے قریب پہنچا ہی چاہتے تھے۔انہوں نے گاڑی کی رفتار کم کر لی تھی اور پھر کچھ سوچ کر گاڑی کو گھر سے سو میٹر کے فاصلے پر ہی روک لیا۔وہ شیردل کے ساتھ گاڑی سے آہستہ سے نیچے اُترے اور محتاط انداز میں اپنے بنگلے کی جانب بڑھنے لگے۔ابھی وہ اپنے بنگلے سے بیس میٹر کے فاصلے پر ہی تھے کہ فضا گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اُٹھی۔ وہ اور شیر دل دونوں اپنی تربیت کے مطابق زمین پر گرتے چلے گئے۔پلک جھپکتے میں وہ زمین پہ تھے پھر بھی انہیں لگا جیسا ایک انگارہ سا اُن کے دائیں بازو میں اُتر گیا ہو۔
شیردل کے بے حد قریب سے ایک ہلکی سے آہ کی آوازآئی اور اُس کا دل بے چین ہو گیا۔
’’کیا اباجان کو گولی لگ گئی ہے؟‘‘
’’وہ ٹھیک تو ہیں۔گولی کا زخم کہیں۔۔۔۔‘‘شیردل پریشانی کے عالم میں اپنے دائیں جانب کھسکا۔عجیب سے وسوسے اُسے پریشان کر رہے تھے۔
’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ شیردل کے قریب ہی ایک سرگوشی سی گونجی۔وہ اپنے ابا جان کی آواز پہچانتا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ وہ ٹھیک نہیں ہیں۔
’’آپ کو گولی لگی ہے۔‘‘شیردل نے بھی جواباً سرگوشی کی۔
’’کوشش کرنا کہ اُن میں سے ایک آدھ زندہ ہاتھ آ جائے۔‘‘وہ اُس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اُسے ہدایت کر رہے تھے۔
شیردل نے سامنے توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی۔اُسے لگا جیسے اُن کے بنگلے کی باؤنڈری وال پر کوئی موجود ہو۔اُس نے ریوالور سے نشانہ لیا مگر فائر نہیں کیا۔وہ موقع کی تلاش میں تھا۔اور پھر جیسے ہی اُسے موقع ملا تو اُس نے فائر کرنے میں دیر نہیں کی۔اُس نے تین فائر کئے تھے اور نتیجہ فوراً ہی سامنے آ گیا۔کوئی دھپ سے گرا تھا اور ساتھ ہی چیخ کی آوازبھی گونجی تھی۔شیر دل نے اپنی جگہ سے فوراً ہی ہلنے کی حماقت نہیں کی بلکہ وہ پھرتی سے زمین سے چپک کر آگے رینگنے لگا۔ابھی وہ باؤنڈری وال سے چند میٹر دور ہی تھا کہ اچانک اُسے لگا جیسے اُس کی کھوپڑی میں کئی سورج اُتر کے غروب ہو گئے ہوں۔سر پہ پڑنے والی ٹھوکر اتنی ہی زوردار تھی۔ڈوبتے ہوئے ذہن کے ساتھ بھی وہ اپنی تربیت نہیں بھولا۔ایک طرف گرتے ہوئے بھی اُس نے تیزی سے قلابازی کھانے کی کوشش کی تھی۔ذہن پہ تیزی سے چھا جانے والی دھند کوہٹانے کی کوشش میں وہ سر کو دائیں بائیں زور سے جھٹک رہا تھا اور جب اس کوشش میں زیادہ کامیابی نہ ہوئی تو اُس نے اپنی دائیں کلائی میں دانت گاڑ دئیے۔کلائی میں اچانک اٹھنے والی درد کی لہر نے ذہن کو سنبھالا دیا اور ساتھ ہی اُس نے سر کو پیچھے جھٹکا تو سر بروقت دوسری ٹھوکر لگنے سے بچ گیا۔شیردل نے دونوں ہاتھوں سے حریف کی ٹانگ کو پکڑ کر موڑ دیا۔کوئی دھپ سے شیردل کے قریب گرا اور وہ تیزی سے اُس پہ جا پڑا۔اندھیرے میں کچھ خاص نظر نہیں آ رہا تھا مگر شیردل اپنے گھر سے بے حد قریب تھا اور روشنی کی غیر موجودگی اُس کے لئے مسئلہ نہیں تھی۔اُسے حریف کی جسمانی طاقت کا اندازہ فوراً ہی ہو گیا۔وہ خطرناک حد تک طاقتور تھا۔اُس نے شیردل کو اپنے اوپر سے دور اچھال پھینکا۔شیردل کی کمر پہ شدید ضرب لگی مگر اُس نے اُٹھنے میں دیر نہیں لگائی۔اُس نے دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سُنی۔ایک پل کو مدہم روشنی میں ایک چہرہ سا اُس کی نظر کی گرفت میں آیا اور پھر گہری ہوتی دھند کے آگے اُس کا ذہن بے بس ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر میں شدید ٹیسیں اُٹھ رہی تھیں۔اُس نے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھاما ہوا تھا۔اُس نے اُٹھنے کی کوشش کی تو پورے جسم میں درد کی لہر سی چل پڑی۔آنکھیں کھولنے کی کوشش بھی بڑی صبر آزما تھی،جیسے کسی نے پلکوں سے وزن باندھ دیا ہو۔نہ جانے کتنے لمحے بیت گئے،وہ نہیں کہہ سکتا تھا۔کُچھ وقت ضرور لگا اور پھر وہ اپنی آنکھیں کھولنے میں کامیاب ہو گیا۔وہ ایک چارپائی پر پڑا ہو اتھا اور اُس کے دونوں ہاتھ اور پاؤں رسی سے بندھے ہو ئے تھے۔اُس نے ہاتھوں کو جنبش دینے کی کوشش کی تو یوں لگا کہ مضبوط رسی جلد میں اُتر گئی ہو۔وہ کراہ کر رہ گیا۔کمرا بہت بڑا نہیں تھا ایک جانب دیوار پہ لٹکی ہوئی چیزوں کو دیکھ کر خوف سے اُس کی آنکھیں پھٹ گئیں۔وہ ایذا رسانی کے جدید آلات تھے۔اُسے یہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی کہ وہ ’’غلط ہاتھوں‘‘ میں پڑگیا ہے۔کمرے میں موجود روشنی سے وقت کا اندازہ لگانا مشکل تھا ۔ یک دم رات کے واقعات اُس کی نظروں کے سامنے آگئے۔وہ گھر میں اکیلا تھا۔گھر والے شادی کی ایک تقریب میں گئے ہوئے تھے۔جانا تو اُسے بھی تھا مگر نہ جانے کیا سوچ کر عین وقت پر اُس نے جانے سے انکار کر دیا تھا اور یہ ہی بات اُسے مہنگی پڑ گئی تھی۔وہ چار طویل قامت،سیاہ پوش تھے جو نہ جانے کیسے بند دروازے کھول کر اُس تک پہنچ گئے تھے اور آنکھوں کے سوا اُن کے جسم کا کوئی بھی حصہ دیکھنا ممکن نہیں تھا۔ان کے ہاتھوں میں جدید اسلحہ دیکھ کر تو اُس کی حالت خراب ہو گئی تھی۔اُسے زیادہ سوچنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ایک سیاہ پوش نے اچانک اُس کے چہرے پہ اسپرے کیا تھا۔ایک میٹھی میٹھی سی بو اُس کے نتھنوں سے ہو کر اُس کے سارے اعصاب پہ چھا گئی تھی اور پھر اُسے کوئی ہوش نہ رہا تھا۔اب جب کہ وہ ہوش و حواس میں واپس آیا تھا تو اُسے ایک غیر یقینی صورت حال کا سامنا تھا۔
ایک ہلکی سی آواز پیدا ہوئی تو اُس نے سر کو گھمانے کی کوشش کی۔کمرے کا دروازہ کھل رہا تھا مگر وہ پوری طرح گردن کو موڑنے پر قادر نہ تھا۔
’’اِسے اُٹھا کر کرسی پہ پٹخ دو۔‘‘ایک خوفناک آواز کمرے میں گونجی اور خوف کے مارے اُس کے جسم نے پسینہ چھوڑ دیا۔
کئی ہاتھوں نے اُسے چارپائی سے اُٹھا کر ایک کرسی پر پٹخ دیا۔جس بے دردی کے ساتھ انہوں نے اُسے اٹھایا تھا اُس نے سارے جسم میں درد کی لہر کو شدت بخش دی تھی۔اُس کے سامنے ایک دبلا پتلا مگر طویل قامت شخص کھڑا تھا۔آنکھوں کے سوا جسم کا سارا حصہ سیاہ لباس میں چھپا ہو تھا۔اُس شخص کے پیچھے چار لحیم شحیم سیاہ پوش جس انداز میں ایستادہ تھے اُسے دیکھ کر خوف کی ایک نئی لہر سے بدن کانپنے لگا۔
’’جواد صاحب!آپ سے جو بات پوچھی جائے اُس کا ہمیں صحیح صحیح جواب چاہئے۔ہم صرف سچ سُننا چاہتے ہیں اور اگر وہ سچ نہ ہوا تو۔۔۔۔؟‘‘دبلے پتلے سیاہ پوش کے سرد لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کہ وہ جھرجھری لے کر رہ گیا۔
’’بھائی صاحب!آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔میں تو۔۔۔میں تو۔۔۔۔‘‘وہ جملہ مکمل نہ کر سکا۔
’’ہمیں کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی۔آپ سے جو جو پوچھا جائے وہ فورا بتا دیں ورنہ۔۔۔‘‘سیاہ پوش کا سرد لہجہ برقرار تھا۔
’’میں تو ایک شریف شہری ہوں اور آپ کون ہیں؟‘‘اُس شخص نے جسے جواد کہہ کر مخاطب کیا گیا تھا،نے سنبھالا لیتے ہوئے کہا۔
شریف شہری۔۔۔۔یہ تو لطیفہ ہو گیا۔‘‘روح کو جما دینے والی ایک سرد ہنسی نے جیسے اُس کے دل کی دھڑکن ہی روک دی۔
’’تُم بغدادی صاحب کی کوٹھی پر کیا کر رہے تھے؟‘‘سیاہ پوش آپ سے تُم پر آ گیا تھا اور جواد کا دل لرزنے لگا تھا۔وہ لوگ اُسے کافی خطرناک لگ رہے تھے۔
’’کون بغدادی صاحب؟ میں کسی بغدادی وغدادی کو نہیں جانتا۔‘‘اُس نے دل کو کڑا کر کے کہہ دیا۔
’’میں نے تُم سے کہا تھا ناں کہ ہم سے جھوٹ مت بولنا مگر تُم باز نہیں آئے۔‘‘سیاہ پوش نے دانت پیسے، پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف مڑا اور بولا۔’’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔اب اس کی ایسی ’’خاطر مدارات‘‘ کرو کہ فر فر بولنے لگے۔‘‘
سیاہ پوش کے جاتے ہی اُس کے ساتھی جواد کی طرف بڑھے تو وہ خوف کے مارے چلانے لگا مگر وہاں اُس کی چیخ و پکارسُننے والا کون تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیردل گہری نیند میں تھااور اُس کا ذہن جیسے نیند سے لڑائی میں مصروف تھا۔ذہن میں سارے واقعات گڈمڈ ہو رہے تھے۔وہ جاگنا چاہتا تھا مگر شاید وہ اُس کے اختیار میں نہیں تھا۔اُس کے آس پاس کُچھ ہو رہا تھا۔کوئی آواز تھی یا شور تھا جو ذہن کے سوئے ہوئے خلیوں کو بیدار
کر نے کی کوشش کر رہا تھا۔ بڑی دقت سے اُس نے آنکھیں کھولیں۔آنکھوں کے آگے نیلے پیلے دائرے کی گردش ہو رہی تھی اور سر ایسا بھاری تھا جیسے کسی نے وزنی پتھر رکھ دیا ہو۔اُس کے بے جان دائیں ہاتھ میں دفعتاً حرکت ہوئی اور اُس کا ہاتھ بستر کے قریب رکھی ہوئی چھوٹی میز سے ٹکرایا۔اُس کا سیل فون بڑی دیر سے بج رہا تھا۔
’’ہیلو۔۔۔‘‘ ایک کمزور سی آواز اُس کے حلق سے نکلی۔ذہن ابھی بھی نیند یا بے ہوشی کی حالت میں ہی تھا۔
’’غازی یا مومن کو بُلا لو۔‘‘کُچھ دیر دوسری طرف سے سُننے کے بعد اُس کے مُنہ سے نکلا اور پھر سیل فون اُس کے ہاتھ سے گر پڑا۔تھوڑی دیر بعد وہ گہر ی نیند میں تھا جو بے ہوشی سے کم نہ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مومن لمحہ بھر کو تو حیران ہی رہ گیا۔پہلے تو شیر دل اپنے سیل فون پر کال لے ہی نہیں رہا تھا اور جب کال کنیکٹ ہوئی تو شیر دل کا انداز عجیب سا تھا۔
اُس نے کہا تھا کہ’’غازی یا مومن کو بُلا لو۔‘‘ یعنی اُسے اس بات کا احساس ہی نہیں تھا کہ وہ مومن سے بات کر رہا تھا۔
مومن کے ہونٹ سیٹی بجاتے بجاتے رہ گئے۔’’ضرور کہیں کوئی گڑبڑ ہے۔‘‘
کُچھ سوچ کر اُس نے اپنا سیل فون اُٹھایا اور ایک کال ملائی۔کال ملتے ہی اُس نے کہا۔’’غازی کوئی سوال جواب نہیں بس فوراً ہی میرے گھر پہنچو۔‘‘یہ کہہ کر اُس نے کال منقطع کر دی۔وہ جانتا تھا کہ غازی اُس کی اِس حرکت سے بری طرح سے جھنجھلا رہا ہو گا اور باوجود جھنجھلاہٹ کے وہ گھر سے نکل پڑا ہو گا۔ایک لمحے کے لئے مسکراہٹ نے اُس کے لبوں کو چھوا اور پھر شعوری طور پر اُس نے مسکراہٹ کا گلا گھونٹ دیا۔دوسری کال کے لئے اُس نے مجاہد کا نمبر ملایا۔
مجاہد اُس وقت رات کے گشت پر تھا۔اُس نے جواب دینے میں دیر نہ لگائی۔مومن کہہ رہا تھا۔’’شیر دل کی طرف جاؤ۔مجھے کُچھ گڑبڑ لگ رہی ہے۔‘‘مومن نے گڑبڑ کی وضاحت نہیں کی تھی اور مجاہد زیادہ سوال جواب کے چکر میں نہیں پڑتا تھا۔وہ سنجیدہ طبعیت کا مالک اور اپنے کام سے کام رکھنے والا لڑکا تھا۔وہ فوراً ہی شیردل کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔اُن سب کے پاس موٹر سائیکلیں تھیں۔اُس کی بے آوازانجن والی موٹر سائیکل شیردل کے گھر کی جانب گامزن تھی۔پندرہ منٹ کا سفر تھا۔رات ویسے ہی کافی گزر چُکی تھی۔سڑکوں پہ ہو کا عالم طاری تھا۔اسٹریٹ لائٹ کی ناکافی روشنی اُس کے لئے مسئلہ نہیں بن رہی تھی۔شیردل کے گھر سے پانچ سو میٹر پہلے ہی اُس نے موٹر سائیکل کی رفتار بے حد دھیمی کر لی تھی۔اُسے سڑک پر کوئی غیر معمولی سر گرمی نظر نہ آئی۔وہ پھر بھی محتاط تھا۔خاموشی کا سمندر اپنے اندر کئی طوفان چھپائے ہوتا ہے۔اُس نے موٹر سائیکل کو شیردل کے گھر سے کُچھ فاصلے پہ ہی چھوڑ دیا ۔وہ ایک بڑاسا درخت تھا جس کے پیچھے اُس نے موٹر سائیکل کو کھڑاکیا تھا۔وہ موٹر سائیکل کو اضافی لاک لگانا نہیں بھولا تھا۔آج کل حالات ایسے تھے کہ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بڑی آسانی سے چوری کرلی جاتیں تھیں۔شیردل کی کوٹھی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔کار پورچ میں ہلکی سے روشنی تھی۔خان بابا داخلی دروازے پہ نہیں تھا۔خان بابا کوٹھی کا چوکیدار تھا اور آرمی کا ریٹائرڈ نائب صوبیدار تھا۔
’’خان بابا! شاید اپنے کیبن میں جا کر سو گیا ہے۔‘‘مجاہد نے سوچا۔نہ جانے اُس کے ذہن میں کیا آئی کہ داخلی دروازہ استعمال کرنے کی بجائے اُس نے داخلی دیوار سے اندر کودنے کا سوچا۔سوچ کا آنا تھا کہ وہ اُس پہ عمل کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔اُس نے کوشش کی تھی کہ کودنے کی صورت میں کوئی آواز پیدا نہ ہو۔پھر بھی ہلکی سی دھپ کی آواز نے پل بھر کے لئے اُسے ساکت کر دیا۔وہ اپنی ٹریننگ کے مطابق وہیں دبک گیا۔جب کہیں سے کوئی آواز نہ آئی تو وہ دھیرے سے اپنی جگہ سے اُٹھا اور بلی کی سی چال سے عمارت کی جانب بڑھا۔
اچانک تیز روشنی میں اُس کا پورا وجود نہا گیا۔’’خبردار! وہیں رُک جاؤ۔ورنہ گولی مار دوں گا۔‘‘مجاہد نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا دئیے۔اُس کا دل دھک سے رہ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوف کے مارے جواد کے سارے جسم سے پانی بہہ رہا تھا۔وہ دیکھ رہا تھا کہ ایک انگیٹھی کے اوپر تیل کی کڑاہی چڑھی ہوئی تھی اور دوسری پر دو لوہے کی بڑی بڑی سُلاخیں گرم کی جا رہی تھیں۔
’’تُم لوگ یہ کیوں کر رہے ہو؟‘‘اُس کے خوفزدہ بشرے سے وہ آواز بڑی مُشکل سے نکلی تھی۔بے ہوشی کے بعد جب اُسے ہوش آیا تھا تو اُس نے تین سیاہ پوشوں کو کمرے میں دیکھا تھا۔وہ اپنے کاموں میں مصروف تھے اور جواد کی طرف نہیں دیکھ رہے تھے۔اُن کے کاموں کو دیکھ کر ہی اُس کی حالت پتلی ہو رہی تھی۔
’’بھائی!آج تیری دعوت ہے نا۔اِسی لئے یہ سارے انتظام ہو رہے ہیں۔‘‘ایک طویل قامت سیاہ پوش نے جواب دیا اور ساتھ ہی ایک خوفناک قہقہہ بھی لگایا۔
اُس کے قہقہہ نے جواد کا سارا خون خُشک کر دیا۔’’تُم یقینامذاق کر رہے ہو؟‘‘ وہ ہو نٹوں پہ زبان پھیر کر رہ گیا۔
’’کیوں تیرا ہم سے مذاق کا رشتہ ہے؟‘‘جواب میں طویل قامت سیاہ پوش نے ایک زناٹے دار تھپڑ اُس کے دائیں گال پہ جڑ دیا اور ساتھ ہی ایک گندی سی گالی بھی دی۔جواد کے ہونٹ سے خون بہنے لگا۔تھپڑ اتنا ہی زوردار تھا۔
’’تُم لوگ میرے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘ایک پھنسی پھنسی سی آواز اُس کے حلق سے نکلی۔
’’یہ تو بچو ٹرئیلر تھا اصل فلم تو تو اب دیکھے گا۔‘‘سیاہ پوش لوہے کی ایک سُرخ سلاخ کے ساتھ اُس کی طرف بڑھ رہا تھا۔
’’نہیں۔۔نہیں۔۔۔یہ تُم میرے ساتھ نہیں کر سکتے۔آخر مُلک کا کوئی قانون بھی ہے۔‘‘وہ وحشت سے چلایا۔اور پھر چلاتا ہی چلا گیا۔سیاہ پوش کے دو تین تھپڑوں نے اُس کے حواس گُم کر دئیے۔وہ ڈر کے مارے خاموش ہو گیا۔وہ سیاہ پوش کے ہاتھ میں سُرخ دہکتی ہوئی سُلاخ دیکھ رہا تھا اور اُس کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔
’’میں سب کُچھ بتا دوں گا۔مجھے معاف کر دو۔‘‘ وہ رونے لگا تھا۔
سیاہ پوش نے دھواں چھوڑتی سلاخ کو اُس کے چہرے کے قریب کیا ہی تھا کہ وہ بولنے لگا۔’’میں بغدادی صاحب کے پاس۔۔۔۔‘‘وہ بنا پوچھے سب کُچھ بتانے لگا۔سیاہ پوش رُک رُک کے اُس سے سوال پوچھ رہا تھا اور وہ فر فر بتا رہا تھا۔سیاہ پوش کے ہاتھ میں لوہے کی سُرخ سلاخ اب تک دبی ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ الو کی آواز تھی جو وقفے وقفے سے تین بار سُنائی دی تھی۔الو کی آواز سُن کر مومن کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ نظر آئی۔وہاں اُس کی مسکراہٹ دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔وہ دبے قدموں مین گیٹ کی طرف بڑھا۔اُس کے منہ سے بھی الو کی آواز نکلی جس کا اُسے فوراً جواب ملا۔یہ اُن کے درمیان طے شدہ اشارے تھے۔مومن نے احتیاط سے مین گیٹ کا چھوٹا ذیلی دروازہ کھول دیا۔سیاہ کپڑوں میں ملبوس غازی سر کو جھکاتے ہوئے دروازے سے اندر داخل ہو گیا۔اُسے کافی جھکنا پڑا تھا۔اُس کا قد چھ فٹ سے بھی نکلتا ہو اتھا اور وہ دبلا پتلا بھی تھا۔اُس کے سُرخ و سفید کھلنڈرے چہرے پر ہر دم ایک شرارت بھری مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی۔مومن کا خیال تھا کہ وہ سوتے میں بھی مسکراتا رہتا ہو گا۔
’’بڑی دیر لگا دی۔‘‘مومن کی آواز سرگوشی سے زیادہ بلند نہ تھی۔
’’ایک گھنٹہ کا سفر تیس منٹ یعنی آدھے گھنٹے میں طے کیا ہے۔مزید جلدی ہو سکتی تھی اگر بائیک آج اُڑنے سے انکار نہ کر دیتی۔‘‘غازی نے اپنے مخصوص انداز میں جواب دیا تھا۔
مومن اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنے کمرے میں لے آیا۔
’’ہاں اب بتاؤ!رات کے اِس پہر کیا اُفتاد آن پڑی تھی کہ مابدولت کے آرام میں خلل ڈالا گیا۔‘‘غازی نے کرسی پہ بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’مابدولت کی تو ایسی تیسی۔‘‘مومن نے اُس کی کمر پہ ایک دھموکا رسید کرتے ہوئے کہا۔
غازی نے واویلا کرنے کے انداز میں مُنہ کھولا ہی تھا کہ نہ جانے کیا سوچ کر نیچی آواز میں بولا۔’’اِس موقع پہ ویسے ’’ہائے مر گیا‘‘ کہنا تو بنتا ہے۔اِس کی اجازت تو ہونی چاہئے۔‘‘
مومن کے چہرے پہ ایک بے ساختہ مسکراہٹ پل بھر کو نظر آئی اور پھر اُس نے سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے کہا۔’’ایک بے حد اہم معاملے میں تمہاری مدد کی ضرورت پیش آ گئی تھی۔‘‘یہ کہہ کر مومن نے اُسے ارباز خان کی کوٹھی میں پیش آنے والے واقعات بیان کر دئیے۔
’’پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ واقعہ ہے واقعات نہیں۔تمہاری گرامر کبھی نہیں سدھرے گی۔‘‘غازی نے افسوس بھرے انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’اور دوسری بات۔۔۔‘‘مومن نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’یہ اہم معاملہ ہو بھی سکتا ہے اور کھودا پہاڑ نکلا چوہا والی مثال بھی سامنے آسکتی ہے۔‘‘غازی نے قدرے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
’’اور وہ بوری جو وہ اُٹھائے ہو ئے تھے؟‘‘مومن نے یاد دلایا۔
’’ہو سکتا ہے وہ اناج کی بوری ہو۔‘‘غازی نے مومن کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا اور پھر خود ہی دھیمی ہنسی ہنس پڑا۔’’یار بُرا نہ منانا بس زبان میں کبھی کبھی کھجلی ہونے لگتی ہے۔‘‘
’’تم سچ کہتے ہو۔میرے بھی ہاتھوں میں کبھی کبھی بہت کھجلی ہوتی ہے اور جب تک میرے ہاتھ ایک گردن مروڑ نہ لیں کھجلی دور نہیں ہوتی۔‘‘مومن نے اُس پر چھلانگ لگائی مگر غازی کہاں ہاتھ آنے والا تھا وہ پہلے سے ہوشیار تھا۔
’’تو پھر اب کیا کرنا ہے؟‘‘غازی نے سنجیدگی اختیار کرتے ہو پوچھا۔
مومن نے ایک لمحہ کُچھ سوچا اور پھر اُسے اپنا پلان بتانے لگا۔غازی نے بیچ میں مداخلت نہیں کی اور مومن کو پورا موقع دیا۔جب وہ مومن کا پلان سُن چکا تو تو اُس نے دو تین سوالات کئے اور معمولی ردو بدل کے بعد پلان کی منظوری دے دی گئی۔
دس منٹوں کے بعد وہ دونوں ارباز خان کی کوٹھی میں تھے اور آخری کوارٹرز کے قریبی درختوں کے پیچھے چھپ کر حالات کا جائزہ لے رہے تھے۔بڑھتی ہوئی تاریکی میں بظاہر کوئی خطرے والی بات نظر نہیں آ رہی تھی۔کُچھ دیر وہاں انتظار کر کے مومن اپنے مطلوبہ کوارٹر کے سامنے پہنچ گیا۔غازی نے اُس سے بیس قدم کا فاصلہ رکھا تھا اور وہ مومن کو کور دے رہا تھا۔
مومن کے ہاتھ میں ایک پتلا سا مڑا ہوا تا رتھا جو تالا کھولنے کے کام آتا۔وہ دونوں پوری تیاری سے آئے تھے۔مومن نے ایک لمحہ توقف کرتے ہوئے آس پاس نظر دوڑائی اور پھر دروازے کے کنڈے پہ جُھک گیا۔
’’اوہ۔۔‘‘ اچانک اُس کے مُنہ سے نکلا۔آواز اُاونچی نہیں تھی مگر رات کی خاموشی میں وہ تیز گونج ایسی محسوس ہوئی۔
’’کیا ہوا؟‘‘غازی نے پاس آتے ہوئے پوچھا۔یہ بات اُن میں طے شدہ پلان کے خلاف تھی مگر غازی اپنے تجسس پہ قابو نہیں پاسکا تھا۔
’’کنڈے میں تالا نہیں ہے۔‘‘اگر روشنی ہوتی تو غازی اُس کے چہرے پر لکھی حیرت کی تحریر ضرور پڑھ لیتا۔’’اِس کا مطلب ہے کہ میرے جانے کے بعد کوئی یہاں آیا تھا۔‘‘مومن مُنہ ہی مُنہ بڑبڑایا۔
’’پھر اب کیا کرنے کا ارادہ ہے؟‘‘غازی نے سرگوشی کے سے انداز میں پوچھا۔
’’کوارٹر کا اور خاص کر اُس بوری کا راز تومیں معلوم کر کے رہوں گا۔‘‘مومن کے مضبوط ارادے نے غازی کے دل پر ایک خاص اثر کیا۔
وہ کہنے لگا۔’’تُم کوارٹر کے اند داخل ہو جاؤ میں باہر رُک کر پہرہ دیتا ہوں۔اگر کوئی خطرے والی بات ہوئی تو تمہیں فوراً اشارے سے خبردار کر دوں گا۔‘‘
مومن جواب میں کُچھ نہیں بولابلکہ کنڈے پر جُھک گیا۔وہ کنڈے کو دھیرے دھیرے کھول رہا تھا۔کنڈے کو ایک عرصہ سے تیل نہیں دیا گیا تھا اور یہ ہی حال لوہے کے دروازے کا تھا۔کنڈے کی آواز فضا میں ایک شور کی صورت اُبھر رہی تھی۔مومن بے حد احتیاط کر رہا تھا پھر بھی کنڈے کی آواز کافی تھی۔اچانک آواز دب سی گئی۔کنڈا کھل گیا تھا۔مومن نے دروازے کو ہلکا سا دھکا دیا تو وہ گھررگھرر کی آواز سے اندر کی طرف کھلنے لگا۔دروازے کھلنے کا شور بھی کافی تھا مگر مومن اس سلسلے میں کُچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔اُس نے دروازے کو تھام رکھا تھا تاکہ وہ آہستہ آہستہ کھلے اور آواز کم سے کم پیدا ہو۔وہ کوارٹر میں داخل ہوا تو ہر طرف تاریکی ہی تاریکی کا راج تھا۔اُسے کُچھ وقت لگا اور جب آنکھیں کسی حد تک اندھیرے سے مانوس ہوگئیں تو وہ آگے بڑھا۔اُس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی ٹارچ تھی۔اُس نے ایک لمحے کو ٹارچ کو جلایا اور پھر فوراً ہی بجھا دیا۔کوارٹر میں بجلی موجود تھی مگر وہ کسی قسم کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتا تھا۔کمرے کا منظر ٹارچ کے جلانے سے اُس کے سامنے تھا۔وہ ایک معمولی سے سازو سامان سے سجا ہوا کمرہ تھا۔ظاہر تھا کہ کوٹھی کے ہی کسی ملازم کا ہو گا۔کمرے کے وسط میں ایک پُرانی سی گندی دری بچھی ہوئی تھی اور دری کے اوپر کُچھ تھا۔مومن کو پہلی نظر میں سمجھ نہیں آئی۔وہ تھوڑی دیر اپنی جگہ کھڑا سوچتا رہا پھر جیسے فیصلے پر پہنچ گیا ہو۔اُس نے ٹارچ ایک بار پھر جلائی اور اِس مرتبہ فوراً ہی نہیں بجھائی۔
وہ ایک سنسنی خیز صورت حال کا شکار تھا۔اُس کے سامنے میلی سی دری پر ایک بچہ پڑا ہو تھا۔اُس کے دونوں ہاتھ پاؤں رسی سے بندھے ہوئے تھے اور مُنہ میں بھی کپڑا ٹھنسا ہوا تھا۔ وہ اسکول یونی فارم پہنے ہوئے تھا۔اُس کی آنکھیں بند تھیں۔اب نہ جانے وہ بے ہوش تھا یا سو رہا تھا۔یہ جاننا مومن کے لئے اُس وقت تک مشکل تھا جب تک کہ وہ اُس کے پاس جا کر نہ دیکھے۔وہ جُھک کر اُس کے پاس بیٹھا تو ایک طمانیت بھری سانس اُس کے سینے سے نکلی۔بچے کی سانس چل رہی تھی۔ابھی اُس کا ہاتھ بچے کے ماتھے کی جانب بڑھا ہی تھا کہ وہ بری طرح چونک اُٹھا۔وہ الو کی بے چین آواز تھی جو رات کے اندھیرے کو چیرتی ہوئی اُس کے کانوں میں آئی تھی۔
’’خطرہ قریب ہے۔‘‘اشارے کا مطلب جان کر وہ فوراً ہی اُٹھ کھڑا ہوا اور تیزی سے اُس کمرے سے دوسرے کمرے کی طرف بڑھا۔وہ کوارٹر کے اندرونی نقشے سے پوری طرح واقف تھا کیوں کہ اُن کی کوٹھی میں بھی کوارٹرز کا نقشہ یکساں ہی تھا۔دونوں کمرے چھوٹے چھوٹے تھے اور دوسرے کمرے کے ایک کونے میں ایک چھوٹا سا چولہا رکھا ہوا تھا ۔ یہ ہی کوارٹر کا باورچی خانہ تھا۔ اوردو سری طرف ایک چھوٹا سا دروازہ اندر کی طرف کھل رہا تھا جو کہ غسل خانہ تھا۔مومن نے سوچنے میں دیر نہیں لگائی اور فوراً ہی دروازہ کھول کر غسل خانے کے اندر داخل ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مومن کے کوارٹر کے اندر داخل ہو نے کے بعد غازی واپس اُنہی گھنے درختوں کے پیچھے آ کر چھپ گیا تھا۔اُس کی نظریں کوارٹر کے دروازے پہ جمی تھیں اور حساس کان آس پاس کے ماحول کی طرف سے چوکنا تھے۔غازی کو ابھی وہاں کھڑے ہوئے چند لمحے ہی ہوئے تھے کہ اُس کے حساس کانوں نے کسی کے قدموں کی آواز سُن لی۔اور پھر اُس نے ایک سے زیادہ آدمیوں کے بولنے کی آواز سُنی تو ایک دم حرکت میں آیا۔اُس کے مُنہ سے الو کی بے چین کر دینے والی آواز نکلی اور وہ تیزی سے کوارٹر کے کھلے ہوئے دروازے کی طرف لپکا۔اُس نے دروازے کو پہلے تو جلدی سے بھیڑنے کی کوشش کی اور پھر احتیاط سے کنڈے کو بند کرنے لگا۔پھر تیزی سے وہ درختوں کے پیچھے جا کر چھپ گیا۔
’’اے کون ہے؟وہاں کیا ہو رہا ہے؟‘‘ہوا کے دوش پہ سفر کرتی ہوئی وہ آواز غازی کے کانوں کے پردے تک پہنچی تو اُس نے اپنا سانس تک روک لیا۔اُس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔جلد ہی اُسے تیزی سے اپنی جانب بڑھتے ہوئے قدموں کی آواز نے پریشان کر دیا۔ وہ اپنی جگہ دُبکا رہا اور ذرا بھی حرکت نہیں کی۔وہ دوآدمیوں کے ہیولے تھے جو درختوں کے پاس سے گزرتے ہوئے کوارٹر کی طرف جا رہے تھے۔
’’مجھے ایسا لگا تھا جیسے کسی نے کوارٹر کی کنڈی کھولی ہو۔‘‘ایک آواز غازی کے کانوں سے ٹکرائی۔
’’تیرے تو کان بجتے ہیں۔‘‘جواب میں ایک دوسری آواز سُنائی دی جو پہلے آدمی کی بات سے متفق نہیں تھی۔
وہ دونوں کوارٹر کے پاس جا کر رُک گئے۔
’’میں نے کہا تھا نا کہ تیرے کان بجے ہیں دیکھ لے دروازے کا کنڈا ویسے ہی بند ہے جیسے ہم چھوڑ کر گئے تھے۔ہم نے تالا دوبارہ اِس لئے نہیں لگایا تھا کہ ہمیں دوبارہ یہاں آنا تھا۔‘‘دوسرے آدمی کے لہجے میں طمانیت کا احساس تھا۔اور پھر فضا میں دروازے کے کنڈے کے کھلنے کی آواز آئی اور غازی کے جسم نے پسینہ چھوڑ دیا۔مومن کوارٹر کے اندر بند ہو چُکا تھا اور دشمن سر پہ آ پہنچے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجاہد نے دونوں ہاتھ اُٹھا دئیے تھے۔تیز روشنی میں اُس کی آنکھیں چندھیا گئی تھیں۔اُس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا جیسے سینے کے پنجرے سے باہر نکلنا چاہتا ہو۔
’’اگر تم نے کوئی غلط حرکت کرنے کی کوشش کی تو نتیجے کے خود ہی ذمہ دار ہو گے۔‘‘وہ گونجتی ہوئی آواز مجاہد کے کانوں سے ٹکرائی تو آواز پہچاننے میں اُسے کوئی دشواری نہ ہوئی۔
وہ فوراً ہی چیخ پڑا۔’’خان بابا! یہ میں ہوں ۔‘‘
’’میں کون؟‘‘جواباً پوچھا گیا۔
’’مجاہد!میں شیردل کا دوست ہوں۔‘‘مجاہد دل ہی دل میں مُسکرا دیا۔
’’میں جب تک تمہارا چہرہ دیکھ نہیں لیتا۔یقین نہیں کروں گا۔‘‘یہ کہہ کر خان بابا محتاط انداز میں مجاہد کی طرف بڑھنے لگے۔مجاہد خاموشی سے انہیں اپنے پاس آتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔وہ اُس کے قریب پہنچے اور ٹارچ والا ہاتھ اُس کے مُنہ کے قریب لائے اور پھر بولے۔’’ٹھیک ہے۔تُم اب اپنے دونوں ہاتھ گرا سکتے ہو۔‘‘
’’خان بابا! ویسے یہ ٹارچ روشن کر کے للکارنے والی حرکت سمجھ میں نہیں آئی۔اگر کوئی واقع ہی آپ کا دشمن ہوتا تو ٹارچ کی روشنی کی موجودگی میں تو آپ بالکل آسان ٹارگٹ ثابت ہوتے۔‘‘مجاہد نے دونوں ہاتھ نیچے گراتے ہوئے کہا۔
’’بھائی مجاہد!بات تو آپ نے سولہ آنے درست کی ہے۔یہ حرکت تو حقیقت میں بے و قوفی ہی تھی۔‘‘خان بابا نے فراخ دلی سے اپنی غلطی مان لی اور جب انہوں نے دیکھ لیا کہ وہ مجاہد ہی تھا تو پھر تُم سے فوراً ہی آپ پر آگئے۔
’’ویسے یہ ہم ہمیشہ سولہ آنے ہی کیوں کہتے ہیں۔پندرہ یا سترہ آنے کیوں نہیں کہتے؟‘‘مجاہد نے بڑے معصوم انداز میں پوچھا۔
’’اِس لئے کہ ایک روپے میں سولہ آنے ہی ہوتے ہیں۔‘‘خان بابا نے سادگی سے جواب دیا۔
’’ہم نے تو آنے نہیں دیکھے صرف پیسوں سے ہی واسطہ پڑا ہے اور اب تو پیسے بھی نظر نہیں آتے۔‘‘مجاہد نے مُسکراتے ہوئے کہا۔
’’آنے اور پیسے۔۔۔‘‘خان بابا لمحے بھر کے لئے گڑبڑا گئے پھر اچانک کُچھ سوچ کر بولے۔’’مجاہد میاں آپ مجاہد بنے ہی اچھے لگتے ہیں۔آپ غازی نہیں ہیں۔‘‘وہ غازی کی شرارتی طبعیت سے واقف تھے ۔
’’مجاہد یا تو غازی ہوتا ہے یا پھر شہید ہو جاتا ہے۔‘‘
’’مجاہد میاں!آج آپ بڑے اچھے جا رہے ہیں۔‘‘خان بابا نے جواباً مجاہد کو سراہا۔
’’ہم باتوں میں لگ گئے اور اصل بات تو بھول ہی گئے۔‘‘مجاہد نے سنجیدگی اختیار کی۔’’شیر دل کدھر ہے؟میں اُس سے ملنے کے لئے آیا تھا۔‘‘
’’آپ نے گھر میں داخل ہونے کے لئے بڑا عجیب انداز اختیار کیا۔‘‘خان بابا کے لہجے میں طنز کا شائبہ تک نہ تھا۔
’’انداز عجیب ضرور تھا مگرآپ کے گھر کی تمام بتیاں بجھی ہوئی تھیں اور ہم شیردل کے لئے بھی فکرمند تھے۔‘‘مجاہد نے بتایا۔
’’ہم کون؟کیا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے۔‘‘خان بابا نے پوچھا۔
’’ہم سے مراد میں اور مومن ہیں۔مومن میرے ساتھ نہیں ہے۔‘‘مجاہد نے خان بابا کی حاضر دماغی کو دل ہی دل میں سراہتے ہوئے جواب دیا۔
’’ہم پر حملہ ہوا تھا۔‘‘خان بابا بتانے لگے۔’’میں تھوڑی دیر کے لئے باہر گیا ہوا تھا۔چند نامعلوم دشمنوں نے کرنل فاتح کی کوٹھی پر حملہ کرنے کی جرأت کی تھی۔کرنل فاتح اور شیردل اُس وقت کوٹھی میں موجود نہیں تھے۔وہ جیسے ہی پہنچے کوٹھی میں موجود لوگوں نے اُن پر فائر کھول دیا۔‘‘
’’اور انکل کی فیملی۔۔۔؟‘‘ وہ سب کرنل فاتح کو انکل ہی کہتے تھے۔
’’کرنل صاحب کی فیملی اِس وقت شہر سے باہر ہے۔‘‘
’’انکل اور شیردل ٹھیک تو ہیں نا؟‘‘مجاہد نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
’’کرنل صاحب کے بازو پہ گولی لگی تھی مگر اللہ کریم کا کرم رہا کہ ہڈی محفوظ رہی۔اور شیردل کے سر پہ چوٹ لگی تھی وہ اِس وقت ڈاکٹر صاحب کی ہدایات کے مطابق اور دواؤں کے زیرِ اثر سو رہا ہے۔‘‘خان بابا کی باتوں نے مجاہد کو بے چین کر دیا۔وہ فوراً شیردل کو دیکھنا چاہتا تھا۔ خان بابا نے اُس کی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے ،اُسے تاکید کی کہ وہ شیردل کو بیدار نہ کرے۔
مجاہد ،شیردل کے کمرے تک آسانی سے پہنچ گیا۔پہلے اُس نے سوچا کہ کمرے کے دروازے پہ دستک دے مگر پھر خان بابا کی ہدایت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اُس نے دروازے کو آہستہ سے دھکا دیا تو دروازہ آسانی سے کھلتا چلا گیا۔کمرے میں زیرو کے سبز بلب کی دھیمی سی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔مجاہد کی نظریں شیردل کے بستر پہ پڑیں تو اُس کا دل دھک سے رہ گیا۔وہ تیزی سے شیردل کی جانب بڑھا جس کا دایاں بازو بستر سے نیچے لٹک رہا تھا اور اُس کا سیل فون نیچے قالین پہ پڑا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات خاصی بیت چکی تھی مگر نصرت صاحب ابھی تک اپنے دفتر میں موجود تھے۔وہ کافی دیر سے فائلوں میں سر کھپا رہے تھے اور گاہے بگاہے دیوار پہ لگے خوبصورت وال کلاک پہ نظر ڈال لیتے جیسے کسی کا انتظار ہو۔
تھکن اُن کے چہرے سے عیاں تھی۔انہوں نے فائلیں سامنے سے ہٹا کرآنکھیں بند کر لیں۔انہیں آرام دہ کرسی سے ٹیک لگا کر آنکھیں موندے ابھی چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ دروازے پہ ہلکی سی مخصوص دستک ہوئی۔وہ یک دم اپنی کرسی پہ چاق و چوبند ہو کر بیٹھ گئے۔
’’کم اِن(آ جاؤ)۔‘‘انہوں نے نرم لہجے میں دستک دینے والے کو اندر آنے کی اجازت دی۔
دروازہ بے آواز کھلتا چلا گیا ۔کمرے میں داخل ہونے والا،ورزشی جسم کا مالک، ایک طویل قامت جوان تھا۔اُس کے چہرے پہ نظر ڈالتے ہی نصرت صاحب کو کامیابی کا پتہ چل گیا۔
’’زاہد!اُس نے کیا بتایا؟‘‘نصرت صاحب نے پوچھا۔
’’سر! شروع میں تو وہ کچھ بھی بتانے کے لئے تیار نہیں تھا۔ بعد میں آگ میں تپ کر سُرخ ہوئی لوہے کی سلاخ دیکھ کر ہمت ہار گیا۔‘‘زاہد نے تمہید باندھی۔
’’مجھے بنا تمہید کے اصل بات بتاؤ۔‘‘نصرت صاحب کے لہجے نے زاہد کو ایک لمحے کے لئے گڑبڑا دیا۔
زاہد انہیں اصل بات بتانے لگا۔وہ کہہ رہا تھا۔’’سر! جواد نے بغدادی صاحب کے سیکرٹری کے حوالے ایک نہایت ہی اہم فائل کی ہے اور فائل میں بیرونِ ملک مقیم کچھ اہم شخصیتوں کے کوائف ہیں۔جواد کو اِس کام کے لئے بغدادی صاحب کے سیکر ٹری نے پانچ لاکھ روپے دئیے تھے۔ جواد نے ایسا کام پہلی بار کیا ہے۔اُسے دو تین مزید فائلوں کو لانے کی صورت میں بھاری انعام کا لالچ دیا گیا ہے۔‘‘
زاہد کے خاموش ہوتے ہی نصرت صاحب بولے۔’’اب جواد کا کیا کرنا ہے؟‘‘
’’کرنا کیا ہے؟ بوری میں ڈال کر کہیں گندگی کے ڈھیر پہ پھینک دیں گے۔‘‘زاہد کا لہجہ حد درجہ سفاک ہو گیا۔
’’وطن کے ساتھ غداری کرنے والوں کے ساتھ ہونا تو ایسا ہی چاہئے مگر میں جواد کو ایک موقع دینا چاہتا ہوں۔‘‘نصرت صاحب کا موقف مختلف تھا۔
’’موقع؟ کیسا موقع؟‘‘زاہد کی آنکھوں میں اُلجھن سی تیر گئی۔
’’بغدادی کا کُچھ کرنا ہو گا۔ہم جواد کو استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘ بغدادی صاحب کا ذکر کرتے ہوئے اُن کے لہجے میں حقارت در آئی۔پھر وہ زاہد کو آئندہ کاپلان بتانے لگے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مومن غسل خانے میں چھپا بیرونی دروازے کاکنڈا کھلنے کی آواز سُن رہا تھا اور اور اُس کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔’’اگر وہ غسل خانے کی طرف آئے تو۔۔۔۔‘‘یہ سوچ کرہی وہ کانپ کر رہ گیا۔کنڈا کھلتے ہی وہ دونوں اندر کمرے میں داخل ہوئے تو مومن کا جسم جیسے بے حرکت ہو گیا۔اب بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت تھی۔ایک خاص مشق کر کے اُس نے سانس کی رفتار کو ہموار کر لیا۔
’’یار یہ تو ابھی تک بے ہوش ہے۔کہیں مر ہی نہ گیا ہو۔‘‘مومن نے اُس کو اُس کی آواز سے پہچانا۔وہ نیاز تھا۔وہ شاید اونچا بولنے کا عادی تھا
ا ور اُس کا دوسرا ساتھی اُسے سمجھاتا رہتا تھا۔
’’اوئے اگر مُنہ اچھا نہ ہو تو بات تو اچھی کرنی چاہئے۔‘‘دوسرے آدمی کا لہجہ دبا دبا سا تھا۔
’’اعجاز مجھے تیری انہی باتوں سے چڑ ہے۔ہر وقت میرے مُنہ کی بات پکڑتے رہتے ہو۔‘‘مومن کو پتہ چل گیا کہ دوسرے آدمی کا نام اعجاز تھا۔
’’ہونا تو یہ چاہئے کہ تیرا مُنہ ہی بند کر دیاجائے۔تجھے وقت کی نزاکت کا احساس ہی نہیں۔‘‘مومن کو لگا جیسے اعجاز نے دانت پیسے ہوں۔
’’وقت کو کیا ہوا ہے؟سب کُچھ تو ہمارے کنٹرول میں ہے۔‘‘نیاز کے لہجے پہ جھنجھلاہٹ غالب تھی۔
’’اچھا چھوڑ ان باتوں کو ذرا بچے کو چیک کر۔‘‘اعجاز نے غالباً مصالحت ہی کو غنیمت جانا تھا۔
کُچھ دیر تک کھٹ پٹ کی آوازیں آتی رہیں اور پھر نیاز کا بیزارکن لہجہ واضح تھا۔’’نہ جانے کمبخت اُٹھ کیوں نہیں رہا۔اسے اُٹھا کر کھانا بھی کھلانا ہے۔کئی گھنٹوں سے بھوکا ہو گا؟‘‘
تُم جا کر کچن سے پانی لاؤ تاکہ اسے ہوش میں لایا جا سکے۔‘‘اعجاز کے کہنے پر نیاز کی بڑبڑاہٹ سُنائی دی مگر بات سمجھ میں نہیں آئی۔
مومن نے اپنی سانس تک روک لی۔اُسے یقین تھا کہ وہ اب کچن کی طرف آئے گا اور اگر پانی کے لئے اُس نے غسل خانے کا رُخ کر لیا تو؟‘‘ اِس سے آگے مومن سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا۔نیاز کے دور ہوتے قدموں نے مومن کو اطمینان دلا دیا کہ وہ پانی لے کر پہلے والے کمرے میں جا چُکا ہے۔
تھوڑی دیر بعد بچے کے کراہنے کی آواز نے مومن کو بے چین کر دیا۔بچہ اب رونے لگا تھا۔مومن کی ساری توجہ باہر والے کمرے کی جانب تھی کہ اچانک اُس کے سیل فون پر کال آنے لگی۔اُس نے فوراً کال کا گلا گھونٹ دیا بلکہ سیل فون کو ہی بند کر دیا۔مگر اُسے دیر ہو گئی تھی۔
’’کون ہے؟تُم بچ کے نہیں جاؤ گے۔‘‘کسی کی چیختی ہوئی آواز تھی۔شاید اعجاز تھا۔
’’کیوں شور مچا رہے ہو؟کیا ہوا؟‘‘نیاز کے لہجے میں ناگواری تھی۔
’’تُم نے سُنا نہیں کہیں قریب ہی کسی کا سیل فون بجا تھا۔یقیناکوئی آس پاس ہے۔‘‘اعجاز کی بات پہ نیاز نے کوئی توجہ نہیں دی تھی بلکہ اُلٹا اُسے ڈانٹنے لگا تھا۔’’تمہارے تو کان بجنے لگے ہیں۔باس کو بتانا ہی ہو گا۔‘‘
سیل فون کی ٹون پھر سُنائی دی۔مومن نے جلدی سے اپنے سیل فون پہ نظر ڈالی۔اُس کا سیل فون بند تھا۔اُس نے سکون کی سانس لی۔
’’تمہارے کانوں کے بعد اب تمہارا سیل فون بج رہا ہے۔‘‘نیاز نے اعجاز کو یاد دہانی کرائی۔
’’جی ہاں! جی سر۔۔۔۔آپ فکر ہی نہ کریں۔۔۔ہو جائے گا۔‘‘مومن کو اعجاز کے کہے ہوئے چند الفاظ ہی سمجھ میں آسکے تھے۔وہ یقیناًاپنے سیل فون پر کسی سے بات کر رہا تھا۔
’’کیا باس سے بات ہو رہی تھی؟‘‘نیاز نے پوچھا تھا۔
’’اور اِس وقت کون ہو سکتا تھا۔‘‘اعجاز نے لہجے کی ناگواری چھپانے کی کوشش نہیں کی تھی۔’’اب چلو۔باس نے فوراً بلوایا ہے۔‘‘
’’ایک منٹ ٹھہر جاؤ۔میں ذرا ایک چکر غسل خانے کا لگا آؤں۔‘‘نیاز کی بات جب مومن کے کانوں تک پہنچی تو وہ تو جیسے سانس لینا ہی بھول گیا۔
’’تجھے پتہ ہے نا کہ باس کو انتظار بالکل پسند نہیں۔بس اب نکل چل۔‘‘مومن کی جان میں جان آئی۔
’’اور اس بچے کا کیا ہو گا؟‘‘نیاز نے پوچھا تھا۔
’’اِس کے ہاتھ کھول دیتے ہیں اور کھانا اِس کے پاس رکھ دیتے ہیں۔خود ہی کھا لے گا۔‘‘اعجاز کی تجویز نیاز نے فوراً ہی مان لی تھی۔
دروازے کا کنڈا لگنے کی آواز کیا آئی،ایک طویل سانس مومن کے سینے سے خارج ہوئی۔اُس نے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔دس پندرہ منٹ جو اُس نے غسل خانے میں گزارے وہ آسان نہ تھے۔وہ فوراً ہی غسل خانے سے باہر نہیں نکلا۔اُس نے پانچ منٹ انتظار کیا اور پھر غسل خانے سے باہر نکل آیا۔اُلو کی مخصوص آواز تین بار سُنائی دی۔مومن نے جواباً ویسی ہی آواز مُنہ سے نکالی۔وہ تو بھول ہی گیا تھا کہ کوارٹر کے باہر غازی اُس کی مدد کے لئے موجود ہے۔کنڈا آہستہ آہستہ کھلنے لگا۔مومن جانتا تھا کہ وہ غازی ہے ،پھر بھی اپنی تربیت کے مطابق اُس نے احتیاط کرنا ضروری جانا۔وہ دروازے کی آڑمیں ہو گیا۔
دروازہ پورا کھل گیا اور غازی نے مومن کو پکارا۔’’تُم کہاں ہو؟‘‘
’’میں یہیں ہوں مومن دروازے کی آڑ سے باہر نکل آیا۔
’’ارے یہ کون ہے؟‘‘غازی بچے کو دیکھ کر چونک گیا تھا۔
’’میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہے؟ لگتا ایسا ہی ہے کہ شیرے کے آدمیوں نے کسی خاص مقصد کے تحت اِسے اغوا کیاہے۔‘‘مومن نے سامنے آتے ہوئے جواب دیا۔
’’اب اِس کا کیا کرنا ہے؟‘‘غازی نے پوچھا۔
’’کرنا کیا ہے بس اِسے لے کر اپنے گھر چلتے ہیں۔‘‘مومن نے کہا اور پھر انہوں نے ایسا ہی کیا۔بچے کے مُنہ میں کپڑا ٹھنسا ہوا تھا وہ انہوں نے مومن کے گھر پہنچنے تک ایسے ہی رہنے دیا۔انہیں یہ خوف بھی تھا کہ اگر کپڑا نکالا گیا تو بچہ پریشان ہو کر کہیں چیخ ہی نہ پڑے۔وہ خیریت سے مومن کے کمرے تک پہنچ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجاہد نے احتیاط سے شیردل کا پہلو میں لٹکتا ہوا بازو آرام سے بستر پہ رکھ دیا۔قالین پہ گرا ہوا سیل فون بستر کے قریب رکھی ہوئی چھوٹی سی میز پہ رکھ دیا۔میز پہ اور بھی کئی چھوٹی چھوٹی ضروری اور فوری استعمال کی چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔شیردل نیند میں کسمسانے لگا تھا۔ووہ بے چینی سے اپنا سر تکیہ پہ مار رہا تھا۔مجاہد نے اُس کے بازو پہ ہاتھ رکھا تو شیردل نے آنکھیں کھول دیں۔
’’کون۔۔؟ کون ہے؟‘‘شیردل نے چندھیائی ہوئی آنکھوں سے مجاہد کو پہچاننے کی کوشش کی تھی۔
’’میں مجاہد ہوں۔تُم لیٹ جاؤ۔تمہاری طبعیت ٹھیک نہیں۔‘‘مجاہد نے اُسے لٹانے کی کوشش کی۔وہ اپنے بستر پہ اُٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔مجھے کُچھ نہیں ہوا۔‘‘شیردل دوبارہ بستر پہ لیٹنے پہ تیار نہ ہوا۔مجاہد نے اُسے پانی پلایا۔شیردل کی آنکھیں سُرخ ہو رہی تھیں اور سر پہ بندھی ہوئی پٹی کے ساتھ وہ ہلکی سبز روشنی میں عجیب سا لگ رہا تھا۔
شیردل کے کہنے پہ مجاہد نے بجلی کے بٹن پہ انگلی رکھی تو تیز روشنی سارے کمرے پیں پھیل گئی۔شیردل ،مجاہد کا سہارا لے کر کمرے کے ساتھ ملحقہ باتھ روم میں چلا گیا۔ٹھنڈے پانی سے مُنہ ہاتھ دھو کر اُسے کافی سکون ملا۔وہ باہر آیا تو مجاہد اُس کی جانب بڑھا مگر اُسے سہارے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
’’تُم کیسے آئے؟سب ٹھیک ہے نا؟‘‘شیردل نے کمرے کے کونے میں رکھی ہوئی ایک کرسی پہ بیٹھتے ہوئے پوچھا۔مجاہد سامنے رکھی ہوئی دوسری کرسی پر بیٹھ چُکا تھا۔
میں دراصل۔۔۔۔۔‘‘مجاہد کا جملہ ادھورا رہ گیا۔کمرے کے دروازے پہ ہلکی سی دستک ہوئی تھی۔
’’خان بابا!دروازہ کھلا ہے۔آ جائیے۔‘‘شیردل نے نرم لہجے میں کہا تو دوسرے ہی لمحے خان بابا ہاتھ میں تھامی ہوئی ٹرے کے ساتھ داخل ہوئے۔
’’میں نے جب آپ کے باتیں کرنے کی آواز سُنی تومجھے پتہ چل گیا کہ آپ اُٹھ گئے ہیں،اسی لئے سوچا کہ آپ دونوں کے لئے چائے ہی بنا لوں۔‘‘خان بابا نے میز پہ چائے رکھتے ہو ئے کہا۔شیردل اور مجاہد دونوں نے اُن کا شکریہ ادا کیا۔دونوں کو چائے کی طلب محسوس ہو رہی تھی۔خان بابا کے جانے کے بعد دونوں نے چائے کے کپ اُٹھا لئے۔
’’گھر والے گئے ہوئے ہیں۔اُن کی غیر موجودگی میں خان بابا کبھی کبھی خان ساماں کے فرائض بھی انجام دے لیتے ہیں۔‘‘شیردل نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
’’تُم خوش قسمت ہو کہ خان بابا جیسے مخلص شخص تمہارے گھر کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘مجاہد نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’حفاظت تو اللہ کریم ہی فرماتے ہیں۔بس یہ ہے کہ خان بابا جیسے لوگ اپنی ڈیوٹی بڑی ایمان داری سے کرتے ہیں اور ہم انہیں خاندان کا فرد ہی سمجھتے ہیں۔‘‘
’’تُم ٹھیک کہتے ہو۔اللہ تعالیٰ ہی ہم سب کے حافظ ہیں۔‘‘مجاہد نے تائید کی۔
’’اب یہ بھی بتا دو کہ رات کے اِس پہر تُم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘شیردل کا لہجہ سنجیدہ تھا۔
’’مومن نے تمہیں فون کیا تھا اور پھر۔۔۔۔‘‘مجاہد نے ساری کہانی دہرا دی۔
’’اچھا تو یہ بات تھی۔چلو اُسے فون کرتے ہیں۔‘‘یہ کہہ کر شیردل اپنے سیل فون پر مومن کا نمبر ملانے لگا۔دوسری طرف ابھی ایک بار ہی گھنٹی بجی تھی کہ فون کی لائن کٹ گی تھی۔شیردل حیرت سے اپنے سیل فون کی طرف دیکھ رہا تھا جیسے ساری کارستانی اُسی کی ہو۔
’’کیا ہوا؟کیا فون نہیں مل رہا؟‘‘مجاہد نے پوچھا۔
’’ابھی ایک ہی گھنٹی بجی تھی کہ مومن نے فون کاٹ دیا۔‘‘شیردل کے لہجے میں حیرانگی چھپی ہوئی تھی۔
’’اِس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔وہ فون اٹینڈ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو گا۔‘‘مجاہد کے انداز میں بے پرواہی تھی۔
’’تمہارا خیال ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے۔پندرہ بیس منٹ انتظار کر کے پھر دوبارہ فون کرتے ہیں۔‘‘شیردل اور مجاہد باتیں کرنے لگے۔شیردل اُسے میجر گنپت راؤ اور سنہری سکے کی کہانی سُنانے لگا۔
’’اِس کا مطلب ہے کہ اِس دفعہ ہمارا مقابلہ ایک سخت دشمن سے ہو گا۔‘‘مجاہد نے شیردل کی کہانی سُن کر تبصرہ کیا۔
’’سخت بھی اور عیار بھی۔دشمن کمینہ بھی ہو اور سفاک بھی تو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘شیردل نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
’’بہرحال جیسا بھی ہو،ہم اُسے دیکھ لیں گے۔‘‘مجاہد نے سینہ ٹھونک کر کہا اور پھر اچانک جیسے اُسے خیال آیا تو کہنے لگا۔’’میرا خیال ہے کہ ہمیں اب دوبارہ فون کرنا چاہئے،کہیں انہیں ہماری مدد کی ضرورت نہ ہو۔‘‘
شیردل اپنے سیل فون پہ کال ملانے لگا۔اُس نے کئی بار کوشش کی مگر مومن کا سیل فون بند تھا اور ایک ریکارڈڈ پیغام چل رہا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ’’ آپ کا مطلوبہ نمبر اِس وقت بند ہے ،مہربانی کر کے تھوڑی دیر بعد رابطہ قائم کریں۔‘‘
’’مومن کا فون بند ہے اب میں غازی کا نمبر ملا رہا ہوں۔‘‘یہ کہہ کر شیردل فون پر غازی کا نمبر ملانے لگا۔تمام اہم نمبرز اُس کے سیل فون پر محفوظ تھے۔غازی کے نمبر پہ کال جا رہی تھی۔شیردل نے سیل فون اپنے دائیں کان سے لگا رکھا تھا اور وہ مجاہد کی جانب پُرسوچ انداز میں دیکھ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مومن اور غازی ابھی بچے سمیت مومن کے کمرے میں پہنچے ہی تھے کہ غازی کے سیل فون پر کال آنے لگی۔غازی نے اپنے سیل فون کی روشن اسکرین پر نظر ڈالی اور مُنہ ہی مُنہ میں بڑبڑایا۔’’یہ شیردل کی کال اِس وقت کہاں سے آ گئی۔‘‘اُس نے کال ریسیو کی۔
’’ہاں سب خیریت ہے۔تُم کیسے ہو؟‘‘غازی نے فون پر بات چیت شروع کر دی۔’’مومن فون نہیں اُٹھا رہا۔یہ لو تُم مومن سے خود ہی بات کر لو۔وہ میرے پاس ہی کھڑا ہے۔‘‘یہ کہتے ہوئے غازی نے سیل فون مومن کی طرف بڑھا دیا۔
’’سوری یار! میں اُس وقت تمہارا فون اٹینڈ نہیں کر سکتا تھا۔اِس لئے ایک بار گھنٹی بجنے کے بعد ہی میں نے فون بند کر دیا تھا اور اب تک اُسے آن نہیں کیا۔سوری تمہیں پریشانی ہوئی۔‘‘مومن ،شیردل کو فون کے حوالے سے بتا رہا تھا۔تھوڑی دیر تک دونوں میں بات چیت ہوتی رہی۔مومن نے اپنی کہانی ذرا اختصار سے اُسے سُنا دی۔
’’شیردل کیا کہہ رہا تھا؟‘‘مومن کی فون کال کے ختم ہوتے ہی ،غازی نے فوراً ہی سوال کر دیا۔
’’میرا خیال ہے کہ ہماری بات چیت سے تمہیں کُچھ تو اندازہ ہو ہی گیا ہو گا؟‘‘مومن نے اُسے گھورتے ہو ئے جواب دیا۔
’’یار تُم تو ایسے دیکھ رہے ہو جیسے ابھی کھا ہی جاؤ گے۔‘‘غازی نے سہم جانے کی ایکٹنگ کی۔
’’شیردل اور انکل دونوں زخمی ہو گئے ہیں۔اُن کے گھر پہ باقاعدہ حملہ ہوا ہے۔ویسے وہ دونوں ٹھیک ہیں۔انکل تو کسی کام سے جا چُکے ہیں اور مجاہد اب شیردل کے پاس ہے۔‘‘مومن نے مختصراً شیردل سے ہونے والی بات چیت کے بارے میں بتایا۔
’’میرا خیال ہے کہ مجھے فوراً جا کر شیردل کو دیکھنا چاہیے۔‘‘غازی کے لہجے میں چھپی پریشانی مومن سمجھ سکتا تھا۔
’’مجھے پتہ ہے کہ شیردل تمہارا کزن ہے اور ایسی خبر سُن کر پریشان ہو جانا ایک فطری عمل ہے لیکن ہم خود اِس وقت ایک مسئلے سے دوچار ہیں اور مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔‘‘مومن نے بچے کی جانب اشارہ کیا۔
’’سوری مومن! بس میں شیردل کا سُن کر پریشان ہو گیا تھا۔‘‘غازی کے لہجے میں شرمندگی تھی۔
’’کوئی بات نہیں۔‘‘ مومن نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔’’آؤ اب اس بچے سے پوچھیں کہ اس بے چارے پہ کیا بیتی؟‘‘
بچے کے مُنہ سے انہوں نے کپڑا نکالا تو وہ گہری گہری سانسیں لینے لگا۔دونوں نے فوراً کوئی سوال نہیں کیا،بس خاموشی سے اُسے تکتے رہے۔
’’واٹر(پانی)۔۔۔واٹر۔‘‘بچے کے انداز سے وہ سمجھ گئے کہ وہ پیاسا ہے۔مومن نے اُسے پانی پلایا۔
بچے کا نام عرفان تھا۔اُسے اسکول کے باہر سے اغوا کیا گیاتھا۔وہ ابھی حال ہی میں برطانیہ کے شہر لندن سے آیا تھا۔وہ انگریزی میں بات کر رہا تھا اور پھر جب اُس نے اپنے ڈیڈی کا نام بتایا تو وہ دونوں حیرت سے اُچھل ہی پڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح کے بازو پہ پٹی بندھی ہوئی تھی اور وہ تیزی سے گاڑی چلاتے ہوئے پولیس ہسپتال کی طرف جا رہے تھے۔ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ گولی بازو کے گوشت کو چیرتی ہوئی گزر گئی تھی اور ہڈی محفوظ رہی تھی۔ڈاکٹر نے انہیں آرام کرنے کے لئے کہا تھا مگر وہ پھر میدان میں سرگرمِ عمل ہو گئے تھے۔اُن کے خیال میں یہ آرام کا وقت نہیں تھا۔میجر گنپت راؤ کامیاب وار کر گیا تھا۔وہ اپنا سنہری شناختی نشان یعنی سکہ واپس لے گیا تھا۔انہیں سکے کی اتنی پرواہ نہیں تھی۔میجر گنپت راؤ کی ملک میں موجودگی کسی بڑے خطرے کی نشان دہی کر رہی تھی۔
اِسی لئے جب شیر دل سو گیا تو وہ خان بابا کو اُس کا خیال رکھنے کا کہہ کر گھر سے نکل آئے تھے۔اُن کے خیال میں اللہ کریم کی ذات کے بعد، خان بابا گھر کی حفاظت کے کافی تھے۔انہوں نے سوچا تھا کہ اگر حالات میں کچھ تبدیلی ہوئی تو وہ اپنی فورس کے سادہ پوش جوانوں کو نگرانی کے لئے بلوا لیں گے۔
وہ اے ایس آئی اصغر کو ہسپتال میں دیکھنے جا رہے تھے۔وہ پولیس ہسپتال میں اپنی گاڑی ایک مناسب جگہ پہ کھڑی کر کے ابھی ہسپتال کے میں گیٹ تک پہنچے ہی تھے کہ اُن کے سیل فون پہ ایک ایس ایم ایس موصول ہوا۔ایس ایم ایس ایک اجنبی نمبر سے بھیجا گیا تھا مگر بھیجنے والا اُن کے لئے اجنبی نہیں تھا۔وہ اُن کا عزیز دوست احمد شیرانی تھا جو ملک میں کیمیکل انڈسٹری کا اہم ستون تھا۔ایس ایم ایس ایک عجیب سا پیغام لئے ہو ئے تھا۔
’’ڈیرایف
مجھے ایک عام سے آدمی کے حلیہ میں جلد ملو۔میں ایک بڑی مشکل کا شکار ہوں۔
تمہارا دوست اے ش‘‘
احمد شیرانی صاحب ہمیشہ انہیں ایس ایم ایس کرتے ہوئے ایسے ہی مخاطب کیا کرتے تھے۔کرنل فاتح کو اِس بات میں ذرا بھر بھی شبہ نہیں تھا کہ وہ پیغام احمد شیرانی صاحب کی طرف سے نہیں تھا۔وہ اجنبی نمبر کی وجہ سے اُلجھن میں پڑ گئے تھے۔احمد شیرانی صاحب کے پاس دو سیل فون تھے اور وہ دونوں نمبر اُن کے سیل فون میں فیڈ کئے ہوئے تھے۔
وہ سوچ رہے تھے ۔’’یا تو انہوں نے حال میں ہی ایک نیا نمبر لیا ہے یا پھر ایس ایم ایس کسی اور کے سیل فون سے کیا ہو گا۔‘‘انہیں اپنا دوسرا خیال حقیقت سے قریب لگا۔انہوں نے اپنی کسی مشکل کا ذکر کیا تھا۔یقیناکوئی ایسا ہی معاملہ رہا ہو گا کہ احمد شیرانی نہ تو خود ہی اُن سے مل سکتے تھے اور نہ ہی انہیں معمول کے مطابق فون کر سکتے ہوں گے۔وہ تیزی سے سوچ بچار میں مصروف تھے اور اُن کے قدم ہسپتال کے اُس وارڈ کی طرف اُٹھ رہے تھے جہاں پر اے ایس آئی اصغر کو رکھا گیا تھا۔احمد شیرانی کا معاملہ انہوں نے دن کے لئے اُٹھا رکھا تھا۔انہیں وارڈ تک پہنچنے میں کوئی تکلیف نہ ہوئی۔اے ایس آئی اصغر کو ایک الگ تھلگ کمرے میں رکھا گیا تھا۔چوبیس گھنٹے کی دیکھ بھال کے لئے ایک نرس رکھی گئی تھی اور حفاظت کے خیال سے پولیس کے دو چاق و چوبند گارڈز بھی موجود تھے۔
اے ایس آئی اصغر اُس وقت ہو ش میں تھا۔کرنل فاتح کو دیکھ کر اُس کے ہونٹوں پہ ایک بیمار سی مُسکراہٹ نمودار ہوئی۔اُس نے تکیہ سے ٹیک لگا رکھی تھی اور اُن کے احترام میں اُٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی تھی۔کرنل فاتح نے نرمی سے اُسے ایسا کرنے سے روک دیا۔
’’ارے بھائی اصغر یہ کیا؟تمہارے جیسا دلیر اور بے خوف جوان اور وہ بھی ہسپتال کے بستر پر۔۔۔۔؟‘‘کرنل فاتح اُس کے بستر کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گئے تھے۔نرس کرنل صاحب کی درخواست پر کمرے سے باہر چلی گئی تھی۔کرنل صاحب نے اے ایس آئی اصغر سے تنہائی میں بات کرنے کی ڈیوٹی ڈاکٹر سے اجازت لی تھی۔
’’سر! میں تو ہسپتال کے بستر سے اُترنا چاہتا ہوں مگر ڈاکٹر اور نرسیں اُترنے ہی نہیں دیتیں۔‘‘اصغر نے مسمسی سی شکل بنائی تو کرنل صاحب کے چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی۔
’’ہاں! اب بتاؤ کہ کیا ہوا تھا؟‘‘تھوڑی دیر بعد وہ سنجیدگی سے اصغر سے پوچھ رہے تھے۔
اصغر انہیں اپنی کہانی سُنانے لگا۔’’میں رات ذرا جلدی ہی لیٹ گیا تھا۔کُچھ تھکن سی محسوس ہو رہی تھی۔مجھے نہیں معلوم کہ میں کتنی دیر تک سویا ہوں گا۔بس اچانک ہی میرا سانس سینے میں گھٹنے لگا تھا۔انہوں نے مجھے نیند میں ہی دبوچ لیا تھا اِس لئے میں ذرا بھر مدافعت نہ کر سکا۔جب ہوش آیا تو وہ میرے ہاتھ پاؤں رسی سے جکڑ چکے تھے۔مجھے حیرت تھی کہ وہ پولیس لین کے سخت پہرے کے باوجود کتنی آسانی سے میرے کوارٹر میں داخل ہو گئے تھے۔یہ تین تھے اور اُن میں وہ بھی تھا۔‘‘
’’وہ کون؟‘‘وہ پوچھے بنا نہ رہ سکے۔
اصغر نے جب حلیہ بتایا تو وہ سمجھ گئے کہ وہ ضرور میجر گنپت راؤ رہا ہو گا۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’’پھر۔۔۔۔‘‘اصغر بتانے لگا۔’’وہ مجھ سے اُس سنہری سکے کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔میں نے جب لاعلمی کا اظہار کیا تو وہ تشدد کرنے لگے۔میں نے بھی زبان نہ کھولنے کی قسم کھا رکھی تھی۔پھر ایک عجیب بات ہوئی۔‘‘
کرنل فاتح خاموشی سے اُس کی جانب دیکھتے رہے اور مداخلت نہیں کی۔
اصغر نے سلسلہ کلام دوبارہ استوار کیا۔’’وہ آدمی جس کا سکہ گرا تھا،نے اچانک سوال کیا :’’تُم دُنیا میں سب سے زیادہ کس کی عزت کرتے ہو؟‘‘مجھے جواب دینے کے لئے سوچنے کی ضرورت نہیں تھی۔میں نے آپ کا نام لے دیا تو وہ زور زور سے ہنسنے لگا اور پھر بولا۔’’ہمارا کام ہو گیا۔ہماری امانت کرنل فاتح کے پاس ہے۔‘‘
کرنل فاتح ایک گہرا سانس لے کر رہ گئے۔کمبخت میجر گنپت راؤ نے نفسیاتی حربہ استعمال کیا تھا اور اُس میں کامیاب بھی رہا تھا۔
’’وہ سکے والا آدمی انتہائی اذیت پسند تھا۔مُجھ سے کہنے لگا:تم لوگ بہت نرکھ (دوزخ )اور سورگ (جنت )کی باتیں کرتے ہو۔ہمیں کافر کہتے ہو اور یہ کہ ہم نرکھ میں جائیں گے۔دیکھتے ہیں کہ دُنیا میں ہی تم نرکھ کا مزہ کیسے چکھتے ہو؟میرا خیال ہے کہ وہ ہندو تھا کیونکہ اُس کی گفتگو میں کئی الفاظ ہندی زبان کے تھے۔اُس کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ تھی۔اُس نے میرے کوارٹرسے ہی آپ کو فون کیا تھا اور حیرت انگیز طور پر حلق سے میری آواز نکالی تھی۔آپ کو میرے کوارٹر پر پہنچنے کی درخواست کر کے انہوں نے میرے کوارٹر کو آگ لگائی اور مجھے اسی طرح بندھی حالت میں چھوڑ کر وہاں سے نکل گئے۔‘‘اصغر اتنی دیر میں ہانپنے لگا تھا۔
’’بس کرو۔تمہاری طبعیت ابھی ٹھیک نہیں۔‘‘کرنل فاتح نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے مزید بولنے سے منع کرنا چاہا۔
’’وہ تو ابھی زندگی تھی کہ جیسے ہی میرے کوارٹر سے شعلے بلند ہونا شروع ہوئے تو جو افراتفری ایسے مواقع پہ دیکھنے میں آتی ہے ،وہی اس موقع پہ بھی نظر آئی۔بہرحال مجھے میرے ساتھیوں نے باہر نکالا۔آگ نے میرے دونوں ہاتھوں کو اور سر کے بالوں کو جلایا۔میں ویسے تو ٹھیک ہوں بس تھوڑی کمزوری محسوس ہوتی ہے۔‘‘اصغر نے اپنی روداد سُنا کر ہی دم لیا۔
وہ جانتے تھے کہ اصغر کو کافی چوٹیں آئی ہیں اور ابھی اُسے کئی دن ہسپتال میں ہی رہنا پڑے گا۔وہ اُسے تسلی دے کر اُس کے کمرے سے باہر نکل آئے۔صبح ہونے میں اب زیادہ دیر نہیں تھی۔انہوں نے اپنے سیل فون سے اپنے ایک ماتحت کو کال کی اور اُسے احمد شیرانی والا نیا نمبر دے کر معلومات حاصل کر نے کی تاکید کی۔انہیں اِس بات کی اُمید تو کم ہی تھی کہ سم کسی نام پر رجسٹرڈ ہو گی۔قانون کے مطابق تو سَم کی خریداری اُسی صورت میں ممکن تھی کہ سَم خریدنے والا اپنے شناختی کارڈ کی کاپی مہیا کرے اور خریدنے والے کے نام و پتہ کا اندراج کیا جائے مگر عملاً ایسا کم ہی ہوتا تھا۔
صُبح ہونے میں تھوڑی ہی دیر باقی تھی۔انہوں نے مقامی مسجد میں فجر کی نماز ادا کی،ملک و قوم کی سلامتی اور بھلائی کی دعا کی اور پھر اپنے آفس کا رُخ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچے نے اپنا نام ضرغام بتایا تھا۔وہ انگریزی میں بات کر رہا تھا۔وہ اردو بولنے کی بھی کوشش کر رہا تھا مگر اُسے دشواری کا سامنا تھا۔غازی اور مومن دونوں ہی اُس سے انگریزی میں بات کر رہے تھے۔وہ جانتے تھے کہ اکثر مغربی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے بچے مقامی زبان بولنے کو ترجیح دیتے تھے اور اردو یا مادری زبان سیکھنا اُن کے لئے اتنا آسان نہیں تھا۔ضرغام کے والد ڈاکٹر اشرف شیرازی ماہرِطبعیات تھے۔وہ ابھی چند ہفتے پہلے ہی وطن لوٹے تھے۔ضرغام اُن کا اکلوتا بیٹا تھا جسے انہوں نے ایک اچھے مقامی اسکول میں داخل کروا دیا تھا۔
’’ضرغام کی باتوں سے تو پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر شیرازی غالباً واپس آگئے ہیں اور اب یہیں رہنا چاہتے ہیں۔‘‘مومن نے غازی سے اردو میں کہا۔
’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ڈیڈی اب یہیں رہیں گے اور اب وہ ایک بڑے ادارے کے ساتھ منسلک ہیں۔‘‘ضرغام نے اُن کی بات سمجھ کر انگریزی میں جواب دیا۔
’’یار! تم تو بڑے استاد نکلے۔اردو بولنے میں مشکل ہے۔سمجھتے ساری ہو۔‘‘غازی نے ضرغام کی پیٹھ پر ہلکا سا دھپ رسید کرتے ہوئے کہا تو ضرغام مسکرانے لگا۔
’’انکل!آپ مجھے میرے گھر چھوڑ آئیں گے۔‘‘ضرغام کا لہجہ التجا آمیز تھا۔
’’واہ یار!اب تم نے ہمیں انکل بنا دیا۔اتنے چھوٹے چھوٹے انکل تم نے کبھی دیکھے ہیں۔بھائی کہہ لیتے،دوست کہہ کر پکارا ہوتا۔یہ انکل۔۔۔۔‘‘غازی جیسے کراہ اُٹھا۔
’’انکل! انہیں کیا ہوا؟‘‘ضرغام پریشانی سے مومن کی جانب دیکھنے لگا۔
’’یہ جو تمہارے انکل ہیں نا۔‘‘مومن نے لفظ’’انکل ‘‘پہ زور دیتے ہوئے کہا۔’’ان کی زبان موقع محل دیکھے بغیر چل پڑتی ہے۔انہیں خود بھی
اِ س بات کا احساس نہیں ہوتا۔‘‘مومن غازی کی طرف دیکھتے ہوئے شرارت سے مسکرا دیا تھا۔
’’Really(کیا واقعی ایسا ہے؟)۔‘‘ضرغام کے ہونٹ سیٹی بجانے والے انداز میں سکڑ گئے۔
’’ارے یار! کیوں بے چارے بچے کو الٹی پٹیاں پڑھا رہے ہو۔‘‘غازی نے برا سا مُنہ بناتے ہوئے کہا۔
تھوڑی دیر تک ایسا ہی مذاق چلتا رہا۔مومن نے جب محسوس کیا کہ ضرغام اب اُن سے مانوس ہو گیا ہے تو پھر اُس سے پوچھنے لگا۔’’کیا تمہیں اپنے گھر کا پتہ معلوم ہے یا تمہارے پاس گھر کا ٹیلی فون نمبر ہے؟‘‘
’’اگر آپ مجھے ہماری کالونی میں لے جائیں تو میں آپ کو اپنے گھر تک لے جا سکتا ہوں۔ہمارے گھر کا فون دو دن سے خراب ہے۔ڈیڈی کا سیل فون نمبر میرے سیل فون میں محفوظ تھا مگر مجھے نہیں معلوم کہ میرا سیل فون اب کہاں ہے؟‘‘ضرغام نے تفصیلی جواب دیا۔
’’اچھا تو جناب کے پاس سیل فون بھی موجود ہے۔‘‘غازی چپ نہ رہ سکا۔
ضرغام اُس کی بات سمجھتے ہوئے بولا۔’’عمر کے اعتبار سے تو میرے پاس سیل فون نہیں ہو نا چاہئے مگر ملک کے جو حالات ہیں اُن کو دیکھتے ہوئے سیل فون رکھنے میں کوئی برائی نہیں۔‘‘
’’ماشاء اللہ سے پیٹ میں داڑھی بھی ہے۔‘‘غازی کے انداز پہ مومن نے بے ساختہ لبوں پہ در آ نے والی مسکراہٹ کا گلا گھونٹ دیا۔
ضرغام جاننا چاہتا تھا کہ’’ پیٹ میں داڑھی کا کیا مطلب ہوتا ہے؟‘‘غازی نے اُسے باتوں میں بہلا کر اصل معاملے کی طرف متوجہ کیا۔
کُچھ دیر تک اس بات پہ مشورہ ہوتا رہا کہ ضرغام کو اسی وقت اُس کے گھر پہنچا دیا جائے یا صبح ہونے کا انتظار کیا جائے۔غازی کا اصرار تھا کہ یہ کام فوراً کیا جائے۔مومن اپنی محتاط طبعیت کی وجہ سے ہچکچا رہا تھا۔
’’میرا خیال ہے کہ شیردل اور مجاہد سے مشورہ کر لیتے ہیں۔‘‘غازی نے تجویز پیش کی جسے مومن نے بھی پسند کیا۔غازی نے مجاہد کا سیل نمبر ملایا۔وہاں سے فوراً ہی جواب ملا۔تھوڑی دیر تک دونوں میں بات چیت ہوتی رہی جسے مومن اور ضرغام سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔جیسے ہی غازی نے کال ختم کی تو مومن نے فوراً بات کا نتیجہ جاننا چاہا۔
’’شیردل اور مجاہد دونوں کا خیال یہ ہی ہے کہ ضرغام کو فوراً اُ س کے گھر پہنچادیا جائے۔وہ دونوں مجاہد کی موٹر سائیکل پہ نکلنے والے ہیں۔ہمیں تمہاری گاڑی میں جانا ہو گا۔‘‘غازی نے بتایا۔
’’شیردل کی حالت ابھی ایسی نہیں کہ وہ ہمارے ساتھ جا سکے۔‘‘مومن نے تشویش کا اظہار کیا۔
’’تم شیردل کو تو جانتے ہو،وہ اگر فیصلہ کر لے تو پھر اُسے بدلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔‘‘غازی نے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔’’بہرحال ہمیں نکلنے کی فوراً تیاری کرنی ہے۔‘‘
تیاری کچھ خاص نہ تھی۔ضرغام کو پچھلی سیٹ پہ نیچے پائیدان پہ بٹھا دیا گیا۔دونوں نے مومن کی چھوٹی سی گاڑی سوزوکی آلٹو کو دھکا دے کر کوٹھی سے باہر نکالا۔کوٹھی کا چوکیدار خاموشی سے کھڑا انہیں دیکھتا رہا۔مومن نے گاڑی نکالنے سے پہلے اُس سے بات کی تھی۔وہ گاڑی کو دھکیل کر پچاس میڑ دور لے آئے۔انہیں اب مجاہد اور شیردل کا انتظار کرنا تھا۔وہ دونوں دس منٹ میں پہنچ گئے۔شیردل ،مجاہد کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور اُس کے سر پہ پٹی بندھی ہوئی تھی۔وہ آگے پیچھے روانہ ہوئے۔فیصلہ یہ ہوا تھا کہ مومن کی گاڑی آگے رہے گی اور مجاہد اور شیردل کچھ فاصلہ رکھ کر اُن کا پیچھا کریں گے۔
ضرغام کا گھر وہاں سے آدھے گھنٹے کی مسافت پہ تھا۔وہ ایک ماڈرن ہاؤسنگ سوسائٹی تھی۔سٹریٹ نمبر بارہ پہ مڑتے ہی انہوں نے گاڑی روک لی۔ضرغام کا گھر اُسی سٹریٹ پہ تھا اور وہ اُس کے گھر سے سو میڑ دور تھے۔وہیں رُک کر وہ آس پاس کے حالات کا جائزہ لینا چاہتے تھے کہ کہیں پاس ہی کوئی خطرہ تو نہیں۔مومن نے ڈرائیونگ سائیڈ کی کھڑکی کا شیشہ گرا رکھا تھا۔مجاہد اور شیردل اُن سے آگے نکل گئے تھے اور اب انہیں اُن کا انتظار کرنا تھا۔وہ سرسری انداز میں جائزہ لے کر بتاتے کہ کہیں کوئی خطرہ تو موجود نہیں۔
’’اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا دو اور کوئی غلط حرکت کرنے کا سوچنا بھی نہیں۔‘‘مومن کی گردن سے ایک سرد نال آ لگی تھی۔بولنے والے کا لہجہ درشت تھا۔مومن اور غازی دونوں نے اپنے ہاتھ اُٹھا دئیے۔اُن کے دل تیزی سے دھڑکنے لگے۔خطرہ سر پہ آپہنچا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے اُس پہر بغدادی صاحب کی وسیع و عریض کوٹھی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔داخلی دروازے پہ دو گارڈ چاق و چوبند کھڑے تھے۔اُن کی اجازت کے بغیر دروازے سے داخلہ ممکن نہ تھا۔شاید اِسی لئے سیاہ پوشوں نے کوٹھی کی عقبی دیوار کو داخلے کا راستہ بنایا تھا۔دیوار تقریباً دس فٹ اونچی اور ڈیڑھ دو فٹ چوڑی رہی ہو گی۔دیوار کی اوپری سمت شیشے کے نوکیلے ٹکڑے لگے ہوئے تھے۔ایک سیاہ پوش بڑی پھرتی سے دیوار پر چڑھ گیا۔اُس کے ہاتھ میں پلاس جیسی کوئی چیز دبی ہوئی تھی۔چند سیکنڈ کے بعد وہ دیوار کے اُس حصے میں شیشے کے ٹکڑوں کو کاٹ کر اتنی جگہ بنا چکا تھا کہ وہاں پر ضرورت کے وقت ،آسانی سے کھڑا ہواجا سکے۔چند لمحوں تک وہ چوکنے انداز میں کوٹھی کے اندر جھانکتا رہا پھر مطمئن ہو کر وہ اندر کود گیا۔تھوڑی دیر بعد اُس کے ساتھی بھی اُس کے ساتھ موجود تھے۔وہ کوٹھی کے پائیں باغ میں تھے۔اُن کی اطلاع کے مطابق کوٹھی میں انتہائی خون خوار کتے موجود تھے جو رات کے وقت کھول دئیے جاتے تھے۔اب تک وہ کتوں سے محفوظ تھے۔کتے شاید کوٹھی کے سامنے والے حصے میں تھے۔اگر وہ سب ہوشیار نہ ہوتے تو کتوں کا آسانی سے شکار ہو گئے ہوتے۔وہ انتہائی حیرت کا شکار تھے کہ کتے بے آواز اُن کے قریب پہنچے تھے۔اُن میں سے دو کے پاس ڈارٹ گنز تھیں جسے چلانے میں انہوں نے کسی قسم کی سستی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ذرا سی دیر ہو جاتی تو وہ اُن کے حلق ادھیڑ چکے ہوتے۔کتوں کے مُنہ سے ہلکی ہلکی آوازیں نکلیں اور پھر وہ ڈھیر ہوتے چلے گئے۔ڈارٹ گن سے نکلنے والی بے ہوشی کے تیر جیسے ہی کتوں کے جسم میں پیوست ہوئے وہ گرتے چلے گئے۔
کچھ دیر وہ وہیں رُک کر انتظار کرتے رہے۔اُن کا خیال تھا کہ کتوں کے محافظ یقینااُن کے پیچھے آئیں گے۔پانچ منٹ تک انتظار کرنے کے بعد وہ سب اپنی جگہ سے اُٹھے اور دو دو کی جوڑی کی صورت میں آگے بڑھے۔انداز ایسا ہی تھا جیسے آگے والے سیاہ پوش کو پیچھے والا کور مہیا کر رہا ہو۔ہر طرف خاموشی کا راج تھا۔خاموشی غیر فطری سی محسوس ہو رہی تھی۔پائیں باغ سے رہائشی عمارت کا فاصلہ کافی تھا جو انہوں نے لمحوں میں طے کیا۔رہائشی عمارت دو منزلہ تھی اور دوسری منزل کی ایک روشن کھڑکی کے سوا روشنی کا کہیں نشان نہ تھا۔ایک سیاہ پوش جو اُن کا لیڈر تھا اچانک ہی خطرے کے احساس سے چوکنا ہو گیا اور یہ ہی بات اُس کی زندگی بچا گئی۔وہ ایک جسیم و توانا اور انتہائی خطرناک کتا تھا جس نے اُس پہ چھلانگ لگائی تھی۔اگر ایک لمحے کی بھی غلطی ہو جاتی تو کتا اُس کے سینے پہ سوار ہو چکا ہوتا۔کتے کا وار خالی گیا تھا۔کتا فوراً ہی پلٹا اور نہایت پھرتی سے دوبارہ حملہ کیا۔اِس بار کتے کو موقع مل گیا تھا ۔وہ سیاہ پوش کا گلا ادھیڑنے کی فکر میں تھا۔سیاہ پوش نے دونوں ہاتھوں سے کتے کا گلا پکڑ رکھا تھا اور اُس کی کوشش تھی کہ کتے کی تھوتھنی کو اپنے حلق سے دور ہی رکھے۔ایک وحشیانہ کشمکش جاری تھی۔سیاہ پوش کے ساتھی ڈارٹ گن کا استعمال کرنے سے قاصر تھے کیونکہ ڈارٹ اُن کے ساتھی کو بھی لگ سکتا تھا۔کتے کا وزن اتنا زیادہ تھا کہ سیاہ پوش کا سانس گھٹنے لگا تھا۔اُسے اِس بات کا احساس تھا کہ اگر یہ مقابلہ زیادہ دیر تک چلا تو اُس کی خیر نہیں۔اُس نے پوری قوت صرف کر کے کتے کی تھوتھنی کو ایک مخصوص فاصلے پہ رکھا ہوا تھا۔اُس نے اچانک اپنے دائیں ہاتھ کوآزادکر کے تیزی سے اُسے اپنی دائیں پنڈلی تک لے گیا۔ایک ہاتھ سے کتے کو سنبھالنا ایک مشکل عمل تھا مگر یہاں تو زندگی داؤ پہ لگی ہوئی تھی۔پنڈلی سے بندھا ہوا خطرناک خنجر جیسے ہی اُس کے ہاتھ میں آیا اُس نے تیزی سے اُسے کتے کے گلے پر پھیر دیا۔کتا ایک طرف ڈھ گیا۔اُس نے پے در پے خنجر سے کئی وار کتے پر کئے۔تھوڑی دیر کے بعد کتا مردہ پڑا تھا۔حیرت کی بات یہ تھی کہ کتے نے مُنہ سے زیادہ آوازیں نہیں نکالی تھیں۔مرتے ہوئے بھی گلے سے نکلنے والی خڑ خر کی آواز اونچی نہیں تھی۔کتوں کے محافظ نہ جانے کہاں تھے۔یہ اُن کی خوش قسمتی تھی کہ وہ ابھی تک اُن کی جانب متوجہ نہیں ہوئے تھے۔
’’سرآپ ٹھیک ہیں۔‘‘ایک سیاہ پوش نے دھیمے لہجے میں اُس کی خیریت جاننا چاہی۔جواب میں اُس نے صرف سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔اُس نے اشارہ کیا تو سب محتاط انداز میں عمارت کی طرف بڑھنے لگے۔
عمارت کا عقبی دروازہ حسبِ توقع بند تھا۔ایک سیاہ پوش نے ایک مخصوص چابی سے تالا بغیر کسی دقت کے کھول لیا۔وہ ایک لمبے سے کوریڈور میں کھڑے تھے جس میں زیرو بلب ایسی سبز سی دھیمی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔کوریڈور کی دونوں جانب کئی کمروں کے دروازے تھے۔کوئی بھی دروازہ کھلا ہوا نہیں تھا۔دو سیاہ پوش کوریڈور میں آگے بڑھ گئے اور باقی دو کوریڈور کے سرے پہ موجود سیڑھیوں پہ دبے قدم چلتے ہوئے اوپر والی منزل کی جانب روانہ ہو گئے۔خودکارجدید ہتھیار اُن کے ہاتھوں میں نظر آ رہے تھے۔سیڑھیوں پہ دبیز قالین بچھے ہوئے تھے جس کی وجہ سے قدموں کی آواز نہ ہونے کے برابر تھی۔وہ جانتے تھے کہ انہیں کہاں جانا ہے۔اوپری منزل میں دائیں جانب وہ تیسرا کمرہ تھا جس سے ہلکی ہلکی روشنی چھن چھن کے باہر آرہی تھی۔کمرے کے دروازے کے ہینڈل کو چھوتے ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ دروازہ لاک نہیں۔انہوں نے تیزی سے دروازہ کھولا اور دونوں اندر گھستے چلے گئے۔وہ بیڈ روم تھا۔کمرے میں پھیلی ہلکی ہلکی روشنی یقیناًزیرو کے بلب ہی کی مرہونِ منت تھی۔کمرہ قیمتی سازو سامان سے سجا ہوا تھا۔کونے میں ایک جہازی سائز کا بیڈ پڑا ہوا تھا۔بیڈ پہ ایک نہایت ہی مختصر سا وجود گہری نیند میں ڈوبا ہوا تھا۔چہرے سے عمر کا پتہ چلتا تھا ورنہ وہ چودہ پندرہ سالہ لڑکا ہی لگتا۔وہ بغدادی صاحب کا سیکرٹری عماد تھا۔اُس کے مُنہ سے بھیانک خراٹے خارج ہو رہے تھے جو اُس کے منحنی وجود کو دیکھتے ہوئے حیرت کا باعث تھے۔ایک سیاہ پوش نے اُس کے ناک کو زور سے دبایا اور دوسرا ہاتھ اُس کے مُنہ پہ رکھ دیا تاکہ وہ بوکھلاہٹ میں شور نہ مچا دے۔گہری نیند سے جب اُسے اٹھایا گیا تو اُس کا سویا ہوا ذہن صورت حال کو نہیں سمجھ سکا۔جب اُس نے دو سیاہ پوش انسان خود کا رہتھیاروں کے ساتھ کمرے میں دیکھے تو اُس کی ڈر کے مارے گھگھی بندھ گئی۔
’’مُنہ سے اگر آواز نکلی تو وہ تمہارے مُنہ سے نکلنے والی آخری آواز ہو گی۔اگر تم خاموش رہنے کا وعدہ کرو تو میں تمہارے مُنہ سے ہاتھ ہٹا لوں۔‘‘سیاہ پوش کا لہجہ ایسا خوفناک تھا کہ عماد کی آنکھوں سے دہشت ٹپکنے لگی۔اُس نے سر ہلانے کی کوشش کی جیسے کہہ رہا ہو کہ’’ میں تمہارے حکم کے خلاف نہیں جاؤں گا۔‘‘
سیاہ پوش نے جب اپنا ہاتھ ہٹا لیا تو عماد گھبرائے ہوئے انداز میں اپنی گردن مسلنے لگا۔پھر کانپتی ہوئی آواز میں بولا۔’’تم لوگ کون ہو؟ اور تمہیں کیا چاہئے؟‘‘
’’ہمیں فائل PK324L چاہئے۔اب یہ نہ کہنا کہ وہ فائل تمہارے پاس نہیں۔ہم جواد کا پیچھا کر رہے تھے بس تھوڑی سی غلطی ہوئی اور وہ فائل تم تک پہنچ گئی۔‘‘سیاہ پوشوں کے لیڈر نے سختی سے کہا۔
’’تم نہ جانے کس فائل کی بات کر رہے ہو؟ میں کسی جواد کو نہیں جانتا۔‘‘عماد نے حوصلہ مجتمع کرتے ہوئے جواب دیا۔
جواباً ایک زور دار تھپڑ نے اُس کا مُنہ پھیر دیا۔اُسے اپنی زبان پہ خون کا ذائقہ محسوس ہوا۔ ابھی وہ سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ ایک دوسرا تھپڑ اُسے بیڈ سے نیچے لے آیا۔
’’مجھے نہ مارو وہ فائل مجھے بغدادی صاحب کو دینا تھی مگر وہ ایک دن کے لیے شہر سے باہر ہیں۔‘‘عماد ایک سیاہ پوش کے قدموں پہ سر رگڑتے ہوئے رحم کی بھیک مانگنے لگا۔
’’فائل ہمارے حوالے کر دو ۔وہ تو ہمارے لئے بلینک چیک ہے۔عالمی مارکیٹ میں اُس کے لاکھوں مل جائیں گے۔‘‘
’’اگر میں تمہیں اُس فائل کے دس لاکھ روپے دے دوں تو کیاتم وہ فائل چھوڑ دو گے؟‘‘عماد ملتجیانہ انداز میں اُن کی طرف دیکھنے لگا۔
’’دس لاکھ۔واہ واہ کیا بات ہے۔ بس مزہ ہی آ گیا۔‘‘سیاہ پوشوں کے لیڈر نے ہلکی سی سیٹی بجائی اور پھر بولا۔’’اگر تم اُس فائل کے دس لاکھ دے سکتے ہو تو یقیناًاُس کی قیمت تو مارکیٹ میں بہت زیادہ ہو گی۔ہم تم سے فائل لے کر جائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ بعد میں تم ہی اُس کی جائز قیمت چکا کر فائل واپس لے لو۔‘‘
’’بغدادی صاحب مجھے اُلٹا لٹکا دیں گے ۔پلیز فائل نہ لے جائیں۔‘‘عماد بڑا رویا گڑگڑایا مگر سیاہ پوشوں نے اُس سے فائل نکلوا ہی لی۔حیرت کی بات یہ تھی کہ فائل عماد کے بیڈ روم میں ہی ایک عام سی الماری میں رکھی ہوئی تھی۔
’’اگر ہم فائل خریدنا چاہیں تو تم سے کیسے رابطہ کر سکتے ہیں؟‘‘ فائل واپس حاصل کرنے کے لئے ،عماد نے جاننا چاہا۔
’’ہم تم سے خود ہی رابطہ کر لیں گے۔‘‘یہ کہتے ہی سیاہ پوش نے عماد کی دونوں کنپٹیاں زور سے مسل کر اُسے بیڈ پر ڈال دیا۔ عماد اب دو تین گھنٹے تک ہوش میں نہیں آ سکتا تھا۔دونوں سیاہ پوش جب سیڑھیاں اُتر کے نیچے پہنچے تو اُن کے دونوں ساتھی کوریڈور میں کھڑے ہانپ رہے تھے۔اُن کے پاس ہی ایک بھاری بھرکم وجود بے ہوشی کے عالم میں زمین پہ پڑا تھا۔
’’یہ کون ہے؟‘‘سیاہ پوشوں کے لیڈر نے سرگوشی کی۔
’’یہ ایک کمرے سے بے حد چوکناانداز میں کاریڈور میں نکلا تھا۔اُس کے ہاتھ میں ایک خوفناک ریوالور بھی تھا۔مجھے موقع مل گیا تو میں نے اپنے ریوالور سے اُس کا سر بجا دیا۔میں نے احتیاطاً سر پہ ریوالور کا ایک اور وار بھی کر دیا تھا۔‘‘سیاہ پوش کا لہجہ فخر آمیز تھا۔
سیاہ پوشوں کے لیڈر نے ایک ننھی سی ٹارچ سے بے ہوش آدمی کے چہرے پہ روشنی ڈالی اور اور وہ بری طرح چونک اُٹھا۔بے ہوش آدمی کا تعلق کسی سفید فام نسل سے تھا۔وہ کچھ دیر کھڑا سوچتا رہا پھر حکم دینے والے انداز میں بولا۔’’اِسے اُٹھا لو۔ ہم اسے ساتھ لے کر جائیں گے۔‘‘دو سیاہ پوش اُسے اُٹھا کر چلنے لگے۔وہ آدمی خاصہ بھاری بھرکم اور لمبا تڑنگا تھا۔اُسے اُٹھاتے ہوئے انہیں پسینے آ گئے۔وہ بلاآخر اُسے لے کر گاڑی تک پہنچ ہی گئے۔اُسے گاڑی کی ڈکی میں ٹھونس کر وہ سب روانہ ہو گئے۔صبح صادق کی روشنی پھیلنے لگی تھی جب وہ ایک مخصوص جگہ پہنچ کر رُک گئے۔ڈکی کھولی گئی تاکہ بے ہوش آدمی کی منتقلی عمل میں آ سکے۔اگلا ہی لمحہ چونکا دینے والا تھا۔ڈکی خالی تھی اور وہ آ دمی غائب ہو چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجاہد نے ضرغام کی کوٹھی سے پچاس میڑ آگے جا کر موٹر سائیکل روک دی۔ہر طرف سناٹے کی حکمرانی تھی۔اب تک انہیں کوئی مشکوک بندہ نظر نہیں آیا تھا۔نہ ہی پتہ چل رہا تھا کہ وہاں کوئی نگرانی کے لئے موجود ہو۔اندھیرے سے جب آنکھیں مانوس ہو گئیں تو وہ بے آواز ضرغام کی کوٹھی کی جانب چل پڑے۔موٹر سائیکل انہوں نے ایک درخت کے پیچھے چھوڑ دی تھی۔کوٹھی کے داخلی دروازے پہ کوئی گارڈ یا چوکیدار موجود نہیں تھا۔ہو کا عالم طاری تھا اور ہر طرف خاموشی تھی۔انہیں دور مومن کی گاڑی کا ہیولہ نظر آ رہا تھا۔پلان کے مطابق انہیں گاڑی کوٹھی سے سو میٹر دور کھڑی کر کے حالات کا جائزہ لینا تھا۔انہیں اب تشویش ہو رہی تھی کہ اب تک مومن کو اصل کام کر لینا چاہئے تھا۔
’’نہ جانے کیوں مجھے کسی گڑبڑ کا احساس ہو رہا ہے۔‘‘شیردل نے دھیرے سے مجاہد کے کان میں سرگوشی کی۔
’’مجھے بھی کچھ ایسا ہی احساس ہو رہا ہے۔‘‘جواب بھی سرگوشی میں آیا۔
’’پھر کیا کرنا چاہئے؟‘‘شیردل نے پوچھا۔شیردل گروپ میں آپس کے صلاح و مشورہ پر بہت زور دیا جاتا تھا۔
’’میرا خیال ہے کہ ہم اگلی اسٹریٹ سے گھوم کر مومن کی کار کے عقب میں پہنچتے ہیں۔‘‘مجاہد کے مشورے کو شیردل نے پسند کیا۔وہ بھی ایسا
ہی سوچ رہا تھا۔
پھر انہوں نے ایسا ہی کیا۔انہوں نے کوشش کی تھی کہ اُن کے قدموں کی آواز زیادہ نہ گونجے۔وہ جیسے ہی دوسری اسٹریٹ تک پہنچے تو اُن کی رفتار تیز ہو گئی۔پوری اسٹریٹ سنسان پڑی تھی۔انہیں گھوم کر واپس پہنچنے میں پانچ منٹ لگ گئے۔ابھی وہ گاڑی سے بیس میٹر دور ہی تھے کہ انہیں خطرے کا احساس ہو گیا۔گاڑی کے پاس دو طویل القامت اشخاص کی موجودگی سے وہ لمحے بھر کے لئے اُلجھن کا شکار ہو گئے۔اُن کا حلیہ اور قد و قامت مومن اور غازی سے مختلف تھے۔شیردل اور مجاہد دونوں آہستہ آہستہ بے آواز گاڑی کی طرف بڑھنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مومن اور غازی دونوں کی گردنوں پہ سرد لوہے کا دباؤ تھا۔وہ گردن گھما کر اپنے دشمنوں کی طرف نہیں دیکھ سکتے تھے۔
’’تم نے غلط لوگوں کو روکا ہے۔ہمارے پاس معمولی سی رقم ہے اور ہماری گاڑی بھی کوئی اتنی شان دار نہیں۔‘‘غازی نے گردن بائیں جانب موڑنے کی کوشش کی۔
’’حرکت نہیں کرنا ورنہ تمہاری زندگی کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی۔‘‘ جواباً اُسے ایک غراہٹ کے ساتھ وارننگ دی گئی۔غازی وہیں ساکت ہو گیا مگر خاموش رہنا اُس کی سرشت میں ہی نہیں تھا۔اِس لئے پھر بول پڑا۔’’آپ کیا انشورنس کمپنی میں کام کرتے ہیں کہ لوگوں کو زندگی کی ضمانت اور گارنٹی وغیرہ دیتے رہتے ہیں۔‘‘
’’میں اور انشورنس کمپنی۔نہیں تو۔۔۔۔۔یہ تم نے کیا بکواس شروع کر دی ہے؟‘‘ وہ بری طرح سے جھنجھلا گیا تھا۔
’’اگر آپ کو نہیں پسند تو نہیں کرتے بکواس۔‘‘غازی دھیرے سے مُنہ ہی مُنہ میں بڑبڑایا۔
’’تم کون ہو اور ہمیں کیوں روکا ہے؟‘‘مومن نے اُن کا مطمع نظر جاننا چاہا۔
’’ہم کالے چور ہیں۔تم سے مطلب؟‘‘اِس بار جواب مومن کے قریب سے آیا۔لہجہ پھاڑ کھانے والا تھا۔
’’یار یہ تو بتاؤ کہ تم کالے چور ہی کیوں ہو۔لال،سبز یا پیلے چور کیوں نہیں؟‘‘غازی پھر بول پڑا۔
’’بڑی زبان چل رہی ہے۔ہمیں زبانیں کترنا بھی آتی ہیں۔‘‘غازی کے سر پہ کھڑے ہوئے آدمی نے اپنے ہتھیار سے ایک ہلکی سی چوٹ اُس کے سر پہ لگاتے ہوئے کہا۔
’’ارے باپ رے! آپ کالے چور ہی سہی۔میں آپ کو نیلاپیلاچور کہنے والا کون؟‘‘غازی نے گدی کو سہلاتے ہوئے جواب دیا۔چوٹ تکلیف دے رہی تھی۔
’’تم دونوں کار سے باہر نکلو اور دونوں ہاتھ سر پہ رکھ لو۔‘‘انہیں سخت لہجے میں حکم دیا گیا۔
’’ہینڈز اپ!اپنی گنز زمین پہ گرا دو ورنہ ہم گولی چلانے میں ذرا بھر بھی رعایت نہیں کریں گے۔‘‘غازی اور مومن نے شیردل اور مجاہد کی آوازیں پہچان لی تھیں۔اُن کے دل بلیوں اچھلنے لگے۔حملہ آوروں کو اُن کے ساتھیوں نے کور کر لیا تھا۔
’’جلدی کرو! اپنی گنز گرا دو ورنہ۔۔۔۔‘‘شیردل کے لہجے میں ایسی درندگی بھری ہوئی تھی کہ انہوں نے فوراً ہی کوئی چیز زمین پہ گرنے کی
آواز سُنی۔تھوڑی دیر بعد دوسری گن بھی زمین پہ پڑی تھی۔
غازی اور مومن دونوں گاڑی سے باہر نکلے۔حملہ آوروں کے ہاتھ سر سے اُٹھے ہوئے تھے اور اُن کے پیچھے شیردل اور مومن مستعد انداز میں کھڑے تھے۔
اچانک ’’اوغ‘‘ کی آواز آئی اور شیردل کے سامنے کھڑا آدمی لہرا کر زمین پر گرنے لگا۔غازی نے اُسے زمین پہ گرنے سے پہلے ہی تھام لیا۔وہ جان گیا تھا کہ شیردل نے اُس کی گدی پر اپنے ریوالور سے وار کیا تھا۔شیردل گھوم کے گاڑی کی دوسری طرف گیا اور یہ ہی عمل اُس نے دوسرے آدمی پہ بھی دہرایا۔وہ دونوں بے ہوش ہو گئے تھے۔شیردل کے ہاتھ میں ریوالور تھا جب کہ مجاہد نے اپنے قلم سے ہی کام چلا لیا تھا۔
انہوں نے جلدی سے دونوں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر ایک کو گاڑی کی ڈکی میں ٹھونس دیا اور دوسرے کو گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ پٹخ دیا۔وہ اُن کے مُنہ میں کپڑا ٹھونسنا نہیں بھولے تھے۔مضبوط رسی کا گچھا گاڑی میں پہلے سے ہی موجود تھا۔ایسی چیزوں کا انتظام اُن کے پاس ہمیشہ رہتا تھا۔ضرغام کو وہ گاڑی سے پہلے ہی نکال چکے تھے۔
حملہ آوروں سے نمٹ کر انہوں نے ضرغام کے گھر کی گھنٹی بجائی۔مومن اور شیردل دونوں نے ضرغام کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔غازی اور مجاہد گاڑی کے پاس ہی رُک گئے تھے۔
دو یا تین منٹ کے بعد کسی کے قدموں کی آواز آئی۔’’کون ہے؟‘‘ایک سہمی سہمی سی آواز اُن کے کانوں سے ٹکرائی۔
’’ڈیڈی! یہ میں ہوں۔‘‘اُن کے جواب دینے سے پہلے ضرغام بول پڑا۔داخلی دروازہ ایک دھماکے سے کھل گیا اور کسی نے ضرغام کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیا۔تھوڑی دیر بعد وہ ڈاکٹر اشرف شیرازی کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ڈاکٹر شیرازی سرخ و سفید رنگت اور بھاری جسم والے میانہ قامت کے انسان تھے۔اُن کی عمر پچاس پچپن سال کے لگ بھگ تھی۔مسز شیرازی عام گھریلو خاتون تھیں اور ضرغام اِس وقت اُن کی گود میں چڑھا ہوا تھا۔
مومن نے مختصراً ساری روداد سُنائی اور ڈاکٹر شیرازی کے سوالوں کے جواب دئیے۔ڈاکٹر شیرازی نے بتایا کہ’’ ضرغام کو اغوا کرنے والوں
نے فون کر کے اُن کو بتا دیا تھا۔انہوں نے فوری کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ آئندہ رابطہ کر کے اپنا مطالبہ پیش کریں گے۔انہوں نے پولیس سے رابطہ کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی تھی۔‘‘
ڈاکٹر شیرازی نے انہیں ناشتے کے لئے روکناچاہا مگر انہوں نے معذرت کر لی۔وہ انہیں ضرغام کا خیال رکھنے کی تاکید کر کے واپس اپنی گاڑی تک آ گئے۔وہاں صورت حال جوں کی توں تھی۔اب اسٹریٹ پہ اکا دکا لوگ نظر آ رہے تھے۔ غازی کا خیال تھا کہ وہ فجر کی نماز کے لئے مقامی مسجد کا رُخ کر رہے تھے۔غازی ہی کے مشورے پر انہوں نے قیدیوں کو نصرت صاحب کے پاس لے جانے کا فیصلہ کر لیا۔مومن نے گاڑی اسٹارٹ کی اور ایک جانب مناسب رفتار سے چل پڑا۔مجاہد اور شیردل مناسب فاصلہ رکھ کر موٹرسائیکل پہ اُن کے پیچھے روانہ ہو گئے۔راستے میں انہوں نے فجر کی نماز اداکی اور مجرموں کو نصرت صاحب کے حوالے کرنے کی نیت سے چل پڑے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح کواپنے آ فس آئے ہوئے تین گھنٹے ہو چکے تھے۔اب تک وہ خاصا دفتری کام نمٹا چکے تھے کہ انہیں ایک ملاقاتی کے آنے کی اطلاع دی گئی۔کچھ سوچ کر انہوں نے ملاقاتی کو فوراً بلوا لیا۔ملاقاتی جیسے ہی اُن کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ بری طرح چونک اُٹھے۔
آنے والا ایک مشہور اخبار کا کرائم رپورٹر باسط علی تھا۔کرنل فاتح سے اُس کا تعارف رسمی سا ہی تھا۔علیک سلیک کے بعد کرنل فاتح نے نہایت شائستہ انداز میں اُس کے آنے کا مقصد پوچھا۔
’’کرنل صاحب! اُمید ہے کہ میں آپ کے کام میں حارج نہیں ہوا۔‘‘باسط علی نے تمہید باندھی۔
’’باسط صاحب! آپ اپنے آنے کا مقصد بیان کریں اور تکلفات میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘کرنل فاتح ہاتھ اُٹھا کر بولے۔
’’سب سے پہلے تو میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ جو بچہ دہشت گردی کے واقعہ کے بعد آپ نے پولیس اسٹیشن کے حوالے کیا تھا وہ میرا بیٹا ہے۔دھماکے کے بعد کی افراتفری اور ہڑبونگ میں اُس کا ہاتھ میری بیوی کے ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا۔اللہ نے آپ کو ہمارے لئے فرشتہ بنا دیا۔‘‘باسط علی بے حد ممنون تھا۔
’’ارے یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ویسے بھی بچہ میرے بیٹے شیردل کو ملا تھا۔مجھے خوشی ہے کہ آپ کا بیٹا آپ کو مل گیا۔‘‘کرنل فاتح کا انداز سادگی لئے ہوئے تھا۔
’’بہرحال میں آپ دونوں کا مشکور ہوں۔‘‘شکرگزاری باسط علی کے چہرے پہ لکھی ہوئی تھی۔
’’اور اب اصل بات بھی بتا دیں۔‘‘
’’اصل بات۔۔۔کیا مطلب؟‘‘باسط علی حیران ہو کر پوچھنے لگا۔
’’بھئی آپ یہاں صرف شکریہ ادا کرنے تو نہیں آئے ہوں گے،یقیناًآپ کی تشریف آوری کسی اہم معاملے کے سلسلے میں ہی ہو گی۔‘‘کرنل فاتح نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اوہ میں سمجھا۔‘‘باسط علی خفت سے مسکرایا۔’’جیسا آپ کے بارے میں سُنا اُس سے بڑھ کر پایا۔‘‘جواباً کرنل فاتح کُچھ نہیں بولے ،تو باسط علی نے سلسلہ کلام کو جوڑتے ہوئے کہا۔’’آپ کا کہنا ٹھیک ہے میں ایک اور معاملہ آپ کے علم میں لانا چاہتا ہوں۔ہو سکتا ہے کہ بات کُچھ بھی نہ ہو اور میں ہی رائی کا پہاڑ بنا رہا ہوں۔مجھے بات چوں کہ اہم لگی اس لئے آپ کے علم میں لانا ضروری جانا۔‘‘
’’میں سُن رہا ہوں۔آپ کہئے۔‘‘
’’میں ایک حکومتی وفد کے ساتھ نیویارک گیا ہوا تھا اور رات ہی واپس آیا ہوں۔واپسی پر جہاز میں میری سیٹ سے آگے والی سیٹ پہ ایک سفید فام امریکی بیٹھا ہوا تھا جو پرواز کے دوران اپنے سیل فون پر بات کر رہا تھا۔آپ کے علم میں ہی ہو گا کہ آج کل پرواز کے دوران مسافروں کو اپنے سیل فون پر بات کرنے کی سہولت میسر ہے۔‘‘باسط علی نے اُن کی طرف دیکھتے ہوئے وضاحت کی۔
’’جی مجھے معلوم ہے۔آپ اپنی بات مکمل کریں۔‘‘کرنل فاتح کا جواب مختصر تھا۔
’’اُس امریکی نے کئی فون کالز کیں اور اُن میں سے چند خاصی مبہم تھیں جیسے کوڈ ورڈز میں بات کی گئی ہو۔ایک کال خصوصاً مجھے کھٹک گئی۔‘‘باسط علی نے ایک لمحے کا توقف کیا اور پھر کہنے لگا۔’’اُس نے وہ کال ہیبرو(Hebrew) یعنی کہ عبرانی زبان میں کی۔‘‘
’’عبرانی زبان؟مگر آپ کو کیسے پتہ چلا کہ وہ عبرانی زبان تھی۔‘‘کرنل فاتح نے اعتراض کیا۔
’’میں نے کئی سال پہلے کسی حد تک عبرانی زبان پہ عبور حاصل کیا تھا۔میں اُس وقت ایک بڑے قومی روزنامہ اخبار سے منسلک تھا اور اُن کے مشرقِ وسطیٰ ڈیسک کو دیکھتا تھا اور میری ذمہ داریوں میں اسرائیل کے عبرانی زبان کے اخبارات کا مطالعہ اور کام کی خبروں پہ نظر رکھنا بھی شامل تھا۔‘‘باسط علی جیسے کہیں کھو سا گیا۔
’’عبرانی زبان میں کی گئی کال سے آپ نے کیانتیجہ اخذ کیا؟‘‘کرنل فاتح نے سوال کیا۔
’’میں کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر سکا۔‘‘باسط علی نے جواب دیا۔’’اُس نے پھر کوڈ ورڈز کا استعمال کیا تھا۔‘‘
’’اور کچھ۔۔۔۔۔۔؟‘‘کرنل فاتح کا انداز ایسا تھا کہ جیسے وہ بات کو جلد ختم کرنے کے متمنی ہوں۔
باسط علی اُن کا اشارہ سمجھ گیا اور جلدی سے کہنے لگا۔’’میرا مقصد آ پ کا وقت ضائع کرنا نہیں۔میں بات کو سمیٹنے کی جلد کوشش کرتا ہوں۔‘‘
’’جی میں سُن رہا ہوں۔آپ بات مکمل کیجئے۔بات اگر کام کی ہو توہمارے پاس سُننے کے لئے بہت وقت ہے۔‘‘کرنل فاتح کے انداز سے بوریت کا شائبہ تک نہیں ملتا تھا۔
باسط علی نے اُن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔’’وہ جب ائیرپورٹ پہ اُترا تو امیگریشن اور کسٹم کے معاملات میرے سامنے ہی پیش آئے۔اُس کے پاس امریکی پاسپورٹ تھا۔ائیرپورٹ پہ اُسے ایک بڑی سی گاڑی لینے کے لئے آئی ہوئی تھی۔مجھے نہ جانے کیا سوجھی کہ میں نے اُس کی گاڑی کا پیچھا شروع کر دیا اور بڑی ہوشیاری سے تعاقب کر کے اُس کی رہائش گاہ کا پتہ چلا لیا۔‘‘
کرنل فاتح بڑے صبرسے باسط علی کی کہانی سُن رہے تھے۔انہیں یقین تھا کہ اب وہ ایک بڑا نکشاف کرنے والا تھا۔
باسط علی کا اگلا جملہ کسی انکشاف سے کم نہ تھا۔وہ بولا۔’’وہ گاڑی بغدادی صاحب کی کوٹھی میں داخل ہوئی تو میں نے تعاقب کا سلسلہ ختم کر دیا اور سوچا کہ یہ اطلاع آپ تک پہنچانا ضروری ہے۔‘‘
چند لمحوں کے لئے خاموشی چھا گئی۔کرنل فاتح سوچ میں گم تھے اور باسط علی اُن ہی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’’بس یا کوئی اور بات۔کوئی اور کلیو۔اُس آدمی کا حلیہ وغیرہ؟‘‘انہوں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد پوچھا۔
’’میں ایک خاص بات تو بتانا بھول ہی گیا کہ میں نے اپنے اسمارٹ فون سے اُس کی تصویر کھینچ لی تھی۔‘‘تصویر کا بتاتے ہوئے باسط علی کا لہجہ فخریہ ہو گیا۔
کرنل فاتح نے باسط علی کے اسمارٹ فون پہ تصویر دیکھی تو اُن کی پیشانی پہ بل پڑ گئے۔باسط علی انہیں بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔پوچھ بیٹھا۔’’آپ اِ س آدمی کو جانتے ہیں؟‘‘
’’شاید۔۔۔‘‘ان کا یک لفظی جواب مبہم سا تھا۔
کرنل فاتح نے اس بات کا انتظام کیا کہ وہ تصویر محفوظ کر لی جائے اور پھر انہوں نے باسط علی کو رخصت کرتے ہوئے اُس کا شکریہ ادا کیا اور مستقبل میں رابطہ رکھنے کی تاکید کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصرت صاحب ابھی اپنے دفتر میں آ کر بیٹھے ہی تھے کہ اُن کے سیل فون پر ایک ایس ایم ایس موصول ہوا۔ایس ایم ایس اُن کے بھتیجے شیردل کی طرف سے تھا۔
’’چاچو! ہم آپ کے دفتر کی طرف آ رہے ہیں۔کہیں جائیے گا نہیں۔ہمارے پاس آپ کے لئے ایک’’ تحفہ ‘‘موجود ہے۔‘‘
انہوں نے جلدی سے ایس ایم ایس کا جواب دیا اور پھر اپنے اسسٹنٹ کو کافی لانے کے لئے کہا۔صبح ہونے میں اب کچھ ہی دیر تھی۔وہ ساری رات گھر نہیں جا سکے تھے اور ایسا اکثر ہو جاتا تھا۔رات کا ’’معرکہ‘‘ اُن کے ذہن میں ابھی تک تازہ تھا۔اُس آ دمی کے فرار کا انہیں سخت قلق تھا۔وہ ابھی تک نہیں سمجھ سکے تھے کہ وہ فرار ہوا کیسے؟وہ اور اُن کے ساتھی سب ہی حیران رہ گئے تھے کہ وہ چلتی ہوئی کار کی بند ڈکی سے کیسے غائب ہو گیا۔نصرت صاحب نے اپنے اُس خاص ’’سیف ہاؤس‘‘ سے وہ تمام سامان فوراً منتقل کروا دیا تھا جس سے اُس کی خاص حیثیت کا پتہ چل سکتا اور ساتھ ہی انہوں نے اُس کی خفیہ نگرانی کا بندوبست بھی کروا دیا تھا۔
اُن کا ذہن شیردل کے ایس ایم ایس کی وجہ سے بھی اُلجھا ہوا تھا۔اِس بات کا تو انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ شیردل پارٹی بھی شاید کہیں رات بھر مصروف رہی ہے۔وہ اِس بات پر بھی حیران تھے کہ انہیں اِس بات کا کیسے یقین تھا کہ وہ اتنی صبح انہیں اپنے دفتر میں مل جائیں گے۔اچانک ایک خیال سے اُن کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ آ گئی۔اُن کا بیٹا غازی یقیناشیردل کے ساتھ ہو گا اور اُسے پتہ ہو گا کہ وہ کام کے سلسلے میں گھر سے باہر ہیں۔
وہ ابھی کافی ختم بھی نہ کرنے پائے تھے کہ انہیں شیردل اور اُس کے دوستوں کی آمد کی خبر دی گئی۔شیردل اور مجاہد ہی اُن کے دفتر میں داخل ہوئے تھے۔
’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاۃ۔۔۔‘‘شیردل اور مجاہد دونوں نے بیک وقت سلام کیا۔نصرت صاحب نے جواب دیا۔شیردل نے مختصراً اپنے آنے کی وجہ بیان کی۔نصرت صاحب نے اپنے ماتحتوں کو بھیج کر غازی اور مومن سے دو ملزموں کی وصولی کی۔انہوں نے فوراً ڈاکٹر اشرف شیرازی کی کوٹھی کی خفیہ نگرانی کے احکامات جاری کئے اور شیردل اور مجاہد سے چائے یا کافی کا پوچھا۔
’’چاچو! کیا صرف چائے یا کافی پر ہی ٹرخائیں گے۔تگڑے سے ناشتے کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘شیردل نے شوخی سے سوال کیا۔
’’خیال نیک ہے۔بہتر ہے کہ گھر چلتے ہیں اور تمہاری چچی کے ہاتھوں سے بنے مزیدار ناشتے کا مزہ لیتے ہیں۔‘‘وہ جواباً مسکرائے۔
آدھے گھنٹے کے بعد وہ نصرت صاحب کے گھر بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔بیگم نصرت نے پہلے تو شیردل کے سر پہ بندھی پٹی کے بارے میں استفسار کیا اور پھرکرنل فاتح اور دوسرے گھر والوں کی خیریت دریافت کی ۔ اِس بات کی شکایت بھی کی کہ ایک عرصے سے ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے کرنل صاحب کی فیملی سے ملاقات نہیں ہوئی۔
’’چچی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ویسے آپ آخری بار کب ہمارے گھر آئی تھیں؟‘‘شیردل نے شرارتی انداز میں پوچھا۔
’’بس بیٹے وہ مصروفیت ہی ایسی ہے کہ کیا کریں؟‘‘چچی جواباً اُسے گھور کر رہ گئیں۔
’’چچی میں ایک بات پہ آپ سے شرط لگا سکتا ہوں کہ۔۔۔۔۔‘‘شیر دل نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’وہ کیا۔۔۔؟‘‘وہ بے اختیار پوچھ بیٹھیں۔
اگر آپ امی سے یہ ہی بات کریں گی ناں تو جانتی ہیں وہ کیا جواب دیں گی؟‘‘شیردل کے چہرے پہ بدستور شرارتی مسکراہٹ تھی۔’’وہ کہیں گی۔بس بہو! کیا کریں۔مصروفیت ہی ایسی ہے۔تمہارے بھائی جان کے پاس ہمارے لئے وقت نہیں ہو تا اسی لئے کہیں آنے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘شیردل کی امی رشتے میں بڑی تھیں اور انہیں ’’بہو‘‘ کہہ کر ہی بلاتی تھیں۔
شیردل کی بات پہ سب ہی مسکرانے لگے تھے۔
’’میں بھابھی کو بتاؤں گی کہ اُن کے لائق فائق بیٹے کے اُن کے بارے میں کیا خیالات ہیں؟‘‘انہوں نے بھی جواباً وار کیا۔
اسی طرح کی نوک جھونک میں ناشتہ کیا گیا اور چائے پی گئی۔جب وہ سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے تو نصرت صاحب نے اُن سے شہر کے حالات کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔شیردل اور اُس کے ساتھی نصرت صاحب سے قریبی رابطے میں رہتے تھے اور نصرت صاحب کا ڈیپارٹمنٹ ضرورت کے لحاظ سے اُن کی ہر ممکن مدد کرتا تھا۔نصرت صاحب بھی ’’محکمانہ حدود ‘‘کے اندر رہتے ہوئے ضروری باتیں اُنہیں بتا دیتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصرت صاحب وقت پہ میٹنگ کے لئے پہنچ گئے تھے۔میٹنگ کرنل فاتح کے دفتر میں ہو رہی تھی۔کرنل فاتح کا ایک سینئر آفیسر حبیب خان اور نصرت صاحب کا سیکنڈ ان کمان سرفراز بھی موجود تھے۔میٹنگ دونوں ایجنسیوں میں تعاون کو فروغ دینے کے لئے ہر ماہ ہوتی تھی۔ موجودہ میٹنگ ہر لحاظ سے بے حد اہم تھی۔کرنل فاتح کا دفتر ساؤنڈ پروف تھا اور اُس وقت دروازے پہ روشن سرخ نشان یہ بتانے کے لئے کافی تھا کہ کسی کو بھی اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں۔
میٹنگ میں پہلے تو ملک اور خصوصاً شہر کے نازک حالات پہ بات ہوئی اور پھر نصرت صاحب نے ایک فائل نکال کر اپنے سامنے رکھ لی۔
کرنل فاتح کی اجازت پا کر وہ بتانے لگے کہ وہ فائل اُن کے ہاتھ کیسے لگی تھی۔’’فائل میں آٹھ ایسی شخصیات کا ذکر ہے جو کہ بیرونِ ملک مقیم ہیں اور حکومت چاہتی ہے کہ وہ واپس ملک میں آ کر ہمارے جوہری توانائی کے منصوبوں کو فروغ دیں۔وہ سب چوں کہ اپنے میدان میں ماہر تسلیم کئے جاتے ہیں اِس لئے اُن کو اپنے ملک کے لئے کام پہ راضی کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔بہرحال خوشی کی بات یہ ہے کہ انہوں نے ملک کے لئے کام کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے بلکہ ڈاکٹر اشرف شیرازی تو واپس آ کر اپنا کام بھی شروع کر چکے ہیں۔‘‘
نصرت صاحب نے بات ختم کی اور پھر مختصراً ڈاکٹر اشرف شیرازی کے بیٹے ضرغام کے اغوا اور بازیابی کا ذکر کیا۔
’’ہمیں ایسی نادر شخصیات اور ماہر لوگوں کی حفاظت کا فول پروف انتظام کرنا پڑے گا۔ورنہ وہ اپنا کام دل جمعی سے نہیں کر سکیں گے۔‘‘حبیب خان نے اپنی کرسی پہ جھکتے ہوئے کہا۔
’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔پتہ چلا ہے کہ ڈاکٹر اشرف شیرازی اپنی فیملی کو واپس برطانیہ بھیج رہے ہیں مگر وہ خود ادھر ہی رہیں گے۔‘‘ نصرت صاحب نے بتایا۔
کرنل فاتح نے ایک تصویر سب کے سامنے رکھتے ہوئے پوچھا کہ’’ کیا وہ اس شخص کو جانتے ہیں؟‘‘
نصرت صاحب نے تصویر دیکھی تو جیسے اچھل ہی پڑے۔وہ اسی سفید فام شخص کی تصویر تھی جو چلتی گاڑی کی ڈکی سے فرار ہو گیا تھا۔کہنے لگے۔’’میں اسے نام سے تو نہیں جانتا مگر وہ۔۔۔۔۔۔۔‘‘پھر انہوں نے اُس کے ساتھ ہونے والے ٹاکرے کا احوال مختصراً بیان کیا۔
کرنل فاتح بولے۔’’اس کا نام نارمن زبسکی ہے۔یہودی ہے اور امریکی پاسپورٹ رکھتا ہے۔فری لانسر کے طور پر مشہور ہے ۔’’موساد‘‘ اور ’’سی آئی اے‘‘ دونوں کے لئے کام کرتا ہے۔سننے میں آیا ہے کہ حال ہی میں اُس نے ’’را‘‘ کے لئے بھی کوئی کام کرنے کی حامی بھری ہے۔اِس وقت یہ شخص ہمارے ملک میں موجود ہے اور باقاعدہ ویزہ لے کر ایک کمپنی کے سیلز ڈائرکٹر کی پوسٹ پہ آیا ہے۔‘‘
’’وہ کمپنی بغدادی صاحب کی ملکیت ہے؟‘‘ نصرت صاحب نے سوال کیا۔
کرنل فاتح کے لہجے میں ہلکی سی حیرت تھی۔انہوں نے جواباً اثبات میں سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا تھا۔
میٹنگ میں کئی اہم فیصلے کئے گئے اور دونوں خفیہ ایجنسیوں کے باہمی تعاون کو مزید بڑھانے کی ضرورت کو محسوس کیا گیا اور اس سلسلے میں کئی اہم نکات پہ اتفاق کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوپہر کے ایک بجے کا وقت تھا۔احمد شیرانی طبعیت ناساز ہونے کی وجہ سے آج گھر پر ہی موجود تھے۔وہ ہلکا سا لنچ لے کر ابھی بیٹھے ہی تھے کہ انہیں نئے مالی کی آمد کی اطلاع دی گئی۔کچھ سوچ کر انہوں نے اُسے بلا لیا۔اُن کا مالی آج سویرے ہی دو دن کی چھٹی لے کر اپنے گاؤں گیا تھا۔پتہ چلا تھا کہ اُس کی ماں بیمار تھی۔وہ کہہ گیا تھا کہ وہ اپنے کسی عزیز کو بھیج دے گا تاکہ صاحب کو کوئی تکلیف نہ ہو۔
نیا مالی ادھیڑ عمرکا تھا اور اُس کا حلیہ ویسا ہی تھا جیسے کہ کسی مالی کا ہو سکتا تھا۔وہ لمبے قد کا تھا اور مضبوط جسم کا مالک تھا۔
’’صاحب جی سلام! ‘‘اپنے دائیں کان کی لو کو مروڑتے ہوئے اُس نے سلام کیا۔اُس وقت احمد شیرانی کے ساتھ اُن کی بیگم بھی تھیں۔اُن سے کچھ فاصلے پر ایک لمبا تڑنگا شخص دونوں بازو سینے پر لپیٹے کھڑا تھا۔
’’ہوں! تو تم ہو نئے مالی۔تمہارا نام کیاہے؟‘‘احمد شیرانی نے پوچھا۔
’’سرکار!میرا نام کرم الٰہی ہے۔اسلم بابا میرا رشتے کا بھائی ہے۔‘‘کرم الٰہی اب بھی دائیں کان کی لو کو مروڑ رہا تھا۔شاید یہ اُس کی عادت تھی۔احمد شیرانی اچانک چونک اُٹھے۔جیسے کوئی بات یاد آ گئی ہو۔کمرے میں موجود اُس لمبے تڑنگے آدمی نے ایک عجیب انداز سے احمد شیرانی کی جانب دیکھا۔نئے مالی نے اس بات کو نوٹ کیا البتہ اُس کا چہرہ سپاٹ ہی رہا۔
’’سچی بات تو یہ ہے کہ دو ایک روز ہم بغیر مالی کے بھی گزار سکتے تھے مگر اسلم بابا کو پودوں کی فکر بہت رہتی ہے۔‘‘احمد شیرانی نے صوفے سے اُٹھتے ہوئے کہا۔اسلم بابا ا‘ن کے مالی کا نام تھا اور وہ اُسے خاندان کا حصہ ہی سمجھتے تھے۔
’’آپ کہاں چلے؟‘‘اُن کو اُٹھتے دیکھ کر بیگم احمد شیرانی نے پوچھا۔
’’بھئی اب چوں کہ کرم الٰہی صاحب آ ہی گئے ہیں تو کیوں نا اُن سے لان کا کچھ کام ہی کروا لیا جائے۔‘‘احمد شیرانی نے کرم الٰہی کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’آپ رہنے دیں۔آپ کی طبعیت بھی ٹھیک نہیں۔میں دیکھ لیتی ہوں۔‘‘بیگم احمد شیرانی نے انہیں روکنا چاہا۔
’’بیگم!آپ ہماری فکر نہ کریں۔پودوں اور پھولوں کو دیکھ کر طبعیت کو جو سکون و مسرت ملتی ہے وہ یقیناہماری صحت کے لئے مفید ثابت ہو گی۔‘‘احمد شیرانی یہ کہتے ہوئے باہر لان کی طرف چل پڑے۔
احمد شیرانی کی کوٹھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھی۔کہنے کو وہ لان تھا ویسے وہ ایک باغ سے کم نہ تھا۔رنگا رنگ پھول،خوبصورت پودے اور پھل دار درخت ایک عجب بہار دکھلا رہے تھے۔احمد شیرانی اور کرم الٰہی جب چلتے ہوئے گلاب کی کیاریوں تک پہنچے تو احمد شیرانی نے دبی آواز میں کہا۔’’فاتح! یہ تم کیسے حلیہ میں ہو؟مجھے تمہیں اِس حلیہ میں دیکھ کر دکھ ہوا ہے۔‘‘کرنل فاتح کی عادت تھی کہ جب کبھی وہ مضطرب ہوتے تو دائیں کان کی لو کو مروڑتے رہتے۔احمد شیرانی کا خیال تھا کہ آج وہ صرف انہیں احساس دلانا چاہتے تھے کہ مالی کے بھیس میں کون ہے۔
’’میں یہاں کسی مقصد کے تحت آیا ہوں۔تم نے مجھے جس سیل فون سے ایس ایم ایس کیا تھا وہ ہم نے ٹریس کر لیا تھا۔ہمیں پتہ چل گیا تھا کہ سیل فون کی سِم اسلم بابا کے نام ہے۔ہم نے اسلم بابا کو یہاں سے ہٹا دیا تاکہ تم سے حالات کا پتہ چل سکے۔اب تم اختصار سے اصل بات بتا دو۔‘‘کرم الٰہی نے جو کہ دراصل کرنل فاتح تھے،نے کن اکھیوں سے کار پورچ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔وہ لمبا تڑنگا آدمی کار پورچ کے پاس کھڑا تھا اور اُن کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔
’’اُس لمبے تڑنگے آدمی کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں۔اُس کا نام بادل ہے۔اُس سمیت تین آدمی ہر وقت ہماری نگرانی کرتے رہتے ہیں۔‘‘احمد شیرانی نے کیاری پہ جھکتے ہوئے ایسا انداز اختیار کیا جیسے کرم الٰہی کو پودوں کے سلسلے میں ہدایات دے رہے ہوں۔
’’یہ سلسلہ کب سے چل رہا ہے۔‘‘کرنل فاتح نے کیاری سے کھرپی اُٹھاتے ہوئے پوچھا۔
’’پچھلے پانچ دنوں سے۔اُنہوں نے میرے بیٹے جہانگیر کو اغوا کر لیا ہے اور مجھے مجبور کیا جا رہا ہے کہ میں اپنی چاروں کیمیکل فیکٹریز انہیں کچھ عرصے کے لئے لیز پر دے دوں۔‘‘احمد شیرانی نے بڑی مشکل سے تیزی سے اُمڈتے ہوئے آنسوؤں کو روکا۔جہانگیر اُن کا چھوٹا بیٹا تھا اور شیر دل کا ہم عمر اور اچھا دوست بھی تھا۔
’’کچھ پتہ چلا کہ فیکٹریز کو لیز پر لینے ولا کون ہے اور وہ کیا چاہتا ہے؟‘‘کرنل فاتح نے دبے لہجے میں پوچھا۔
’’جو آدمی سامنے آیا ہے اُس کا نام شہباز خان ہے۔سُنا ہے کہ وہ بغدادی صاحب کا دایاں بازو ہے۔مقصد کا پتہ نہیں۔‘‘
’’گھبرانے کی ضرورت نہیں۔میں شہباز خان اور بغدادی دونوں کو دیکھ لوں گا۔تم خاموشی سے حالات کو دیکھتے رہو۔میں ابھی ایک سِم نیچے
گراؤں گا۔تم خاموشی سے اُسے اُٹھا لینا اور جب بھی موقع ملے تو مجھے ایس ایم ایس کے ذریعے حالات سے مطلع رکھنا۔‘‘کرنل فاتح نے غیر محسوس انداز میں کوئی چیز کیاری میں گرائی۔
اُس وقت وہ دونوں ہی کیاریوں کے پاس زمین پہ جھکے ہوئے تھے۔اِس لئے کرنل فاتح کی حرکت دور سے دیکھنا ممکن نہیں تھا۔
’’ہر وقت ایک آدمی ہمارے سر پہ سوار رہتا ہے۔رات کو بھی ایک آدمی ہمارے بیڈ روم کے باہر بیٹھا رہتا ہے۔وہ میرے سیل فون بار بار چیک کرتے ہیں اور مجھے سخت تاکید کی ہوئی ہے کہ اگر پولیس یا قانون سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو وہ جہانگیر کو ۔۔۔۔۔‘‘احمد شیرانی کا لہجہ بھرا گیا اور وہ اپنا جملہ مکمل نہ کر سکے۔
’’میں ابھی دو دن یہاں ہوں۔البتہ رات کو یہاں سے خفیہ طور پہ نکل جایا کروں گا۔ابھی تم مجھے نئے پودے لانے کے لئے بھیج دو تاکہ میں اپنے آدمیوں کو کام سے لگا سکوں۔‘‘کرنل فاتح یہ کہہ کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔وہ اور احمد شیرانی کافی دیر تک پودوں کا معائنہ کرتے رہے۔
کار پورش کی طرف آتے ہوئے،احمد شیرانی کہہ رہے تھے۔’’کرم الٰہی!تم تو بڑے اچھے مالی ہو۔اگر تم چاہو تو اسلم بابا کے آ جانے کے بعد بھی تم ہمارے ہاں کام کر سکتے ہو۔‘‘
’’آپ مائی باپ ہیں صاحب۔میری سرکاری پکی نوکری ہے۔آپ کی مہربانی ہے۔آپ کو جب بھی کوئی کام ہو گا میں آ جایا کروں گا۔‘‘کرنل فاتح مالی کا رول بڑی عمدگی سے نبھا رہے تھے۔
’’کرم الٰہی! تم ڈرائیور کے ساتھ چلے جاؤ اور نرسری سے نئے پودے لے کر آ جاؤ۔‘‘احمد شیرانی نے تاکید کی تو کرم الٰہی نے جواباً سر جھکا دیا۔
تھوڑی دیر بعدکرم الٰہی ڈرائیور کے ساتھ نرسری کی جانب روانہ ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کا دھندلکا ابھی پھیلنا ہی شروع ہوا تھا کہ شیردل،مومن کے گھر سے نکل آیا۔آج سارے دوستوں نے کافی وقت اکٹھا گزارا تھا اورشیر دل تنظیم کے حوالے سے کئی اہم باتوں پہ اصولی اتفاق کیا گیا تھا۔
شیردل اپنی موٹر سائیکل پر تھا۔ابھی وہ مومن کے گھر سے بمشکل چند سو میڑ کا فاصلہ ہی طے کر پایا تھا کہ کوئی بری طرح سے اُس کی موٹر سائیکل سے ٹکرایا۔
’’بھئی دیکھ کر تو چلو کرو۔وہ تو میری موٹر سائیکل کی اسپیڈ کم تھی ورنہ۔۔۔۔۔۔‘‘شیردل اپنی دھن میں کہے جا رہا تھا کہ اچانک اُسے ایک عجیب سا احساس ہوا۔موٹر سائیکل سے ٹکرانے والا اُس کے لئے اجنبی نہیں تھا۔
’’تم۔۔۔۔۔ت۔۔۔۔م۔۔۔۔‘‘شیردل کے مُنہ سے نکلا۔ابھی اندھیرا ایسا نہ تھا کہ وہ کم اسٹریٹ لائٹ میں بھی اُسے نہ پہچان سکتا۔
’’تم۔۔۔۔۔یعنی کہ تم شیردل۔۔۔۔‘‘یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کے لئے لڑکھڑایا اور پھر نیم بے ہوشی کے عالم میں شیردل پر لد گیا۔شیردل ’’ارے ارے‘‘ ہی کرتا رہ گیا۔
وہ نوجوان شیردل پہ کچھ اس طرح سے ڈھیر ہوا تھا کہ شیردل موٹر سائیکل سمیت گرتے گرتے بچا۔’’ارے۔۔۔ارے اُٹھو۔یہ کیا کر رہے ہو؟‘‘شیردل نے اپنی بوکھلاہٹ پہ قابو پانے کی کوشش کی تھی۔
’’تم شیر دل ہو نا؟انکل کرنل فاتح کے بیٹے ۔‘‘اُس نوجوان نے سنبھالا لینے کی کوشش کی تھی۔شیردل نے اثبات میں سر ہلانا ہی کافی جانا۔
’’مجھے یہاں سے جلد نکالو۔وہ پیچھے آرہے ہیں۔‘‘نوجوان اچانک دہشت زدہ ہوتے ہوئے چلایا۔
’‘تم جہانگیر ہی ہو نا؟‘‘شیردل کا انداز سوالیہ تھا۔
’’ہاں ! میں جہانگیر ہی ہوں۔مگر تم یہاں سے نکلو۔ورنہ وہ مجھے پھر پکڑ لیں گے۔‘‘جہانگیر نام کا وہ نوجوان،شیردل کے پیچھے موٹر سائیکل کے کیرئیر پہ بیٹھتے ہوئے بولا۔
شیردل نے موٹر سائیکل کو ریس دی اور موٹر سائیکل گولی کی طرح آگے بڑھی۔جہانگیر نے شیردل کی کمر کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔وہ کرنل فاتح کے بچپن کے دوست احمد شیرانی کا بیٹا تھا۔شیردل کا ہی ہم عمر تھا۔شیردل مسلسل اُسی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔وہ تیزی سے موٹر سائیکل کو بھگا رہا تھا۔موٹر سائیکل کے عقبی آئینہ میں وہ دیکھ سکتا تھا کہ ایک سُرخ رنگ کی کار طوفانی رفتار سے اُن کے پیچھے چلی آ رہی تھی۔شیردل نے موٹر سائیکل کی رفتار مزید بڑھا دی۔یکایک پیچھے آنے والی کار کی رفتار بھی تیز ہو گئی۔درمیانی فاصلہ گھٹنے لگا تھا۔شیردل کو اِس بات کا بھی خدشہ تھا کہ اگر تعاقب کرنے والی کار سے فائرنگ شروع ہو گئی تو پھر کیا ہو گا؟موٹر سائیکل کی رفتار میں مزید اضافہ خطرناک بھی ثابت ہو سکتا تھا، پھر بھی وہ اپنی سی کوشش کر رہا تھا۔پھر وہ ہی ہوا جس کا ڈر تھا۔کار سے فائرنگ شروع ہو گئی تھی۔شیردل نے موٹر سائیکل کو تیزی سے لہرانا شروع کر دیا۔جہانگیر نے اُس کی کمر اور مضبوطی سے تھام لی۔شیردل کی کوشش تھی کہ کسی طرح تعاقب کرنے والی کار سے پیچھا چھڑایاجائے۔جیسے ہی ایک ذیلی سڑک سامنے آئی تو وہ تیزی سے اُس پہ مڑ گیا۔کار بھی اُس کے ساتھ ہی مڑگئی تھی۔شیردل کو پتہ تھا کہ آگے ٹیڑھی میڑھی گلیوں کا ایک جال سا بچھا ہوا تھا۔کچھ گلیاں ایسی بھی تھیں جہاں کار آسانی سے داخل نہیں ہو سکتی تھی۔شیردل کا خیال تھا کہ ایسی ہی کسی گلی سے بچ کر نکلا جا سکتا ہے۔گلیوں میں لوگوں کی آمد و رفت تھی۔لوگ گھروں کی دیواروں کے ساتھ سمٹ کر کھڑے ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔کار والوں نے گلیوں میں داخل ہونے کے بعد سے فائرنگ نہیں کی تھی۔
شیردل سوچ رہا تھا کہ اگر انہوں نے مزید فائرنگ نہ کی تو وہ یقینااُن کو جلد ہی چکمہ دے کر نکل جائے گا۔اُس کی غلط فہمی جلد ہی دور ہو گئی۔جیسے ہی ایک سنسان گلی آئی تو کار سے ایک برسٹ فائر کیا گیا۔شیردل نے بڑی خوبی سے موٹر سائیکل کو لہرا کر اپنا دفاع کیا۔اچانک شیردل کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔وہ گلی قریب آ رہی تھی جس میں کار کا داخل ہونا مشکل تھا اور تیزی سے آگے بڑھنا تو تقریباً ناممکن ہی تھا۔اُس نے جیسے ہی اُس گلی میں ٹرن لیا تو فضا ایک بھیانک چیخ سے تھرا گئی۔شیردل کا موٹر سائیکل پہ کنٹرول ڈگمگانے لگا اور وہ خود حواس قائم رکھنے کی سر توڑ کوشش کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرم الٰہی یعنی کرنل فاتح پودوں کی نرسری میں گھوم پھر کر پودوں کا نتخاب کر رہے تھے۔احمد شیرانی کے ڈرائیور نے گاڑی میں ہی رکنے کو ترجیح دی تھی اور یوں کرنل فاتح کا کام آسان ہو گیا تھا۔وہ پودوں کی خریداری بھی کر رہے تھے اور بڑے محتاط انداز میں اپنے سیل فون پہ اپنے ماتحتوں سے رابطے میں بھی تھے اور انہیں مناسب ہدایات بھی دے رہے تھے۔اچانک انہوں نے اپنا سیل فون بڑی مہارت سے اپنے کپڑوں میں چھپا لیا۔انہیں اچانک ہی احساس ہوا تھا جیسے کوئی اُن کی نگرانی کر رہا ہو۔وہ بڑے چوکنا انداز میں لیکن بظاہر سست اور تھکے تھکے سے لگ رہے تھے۔جیسے ہی انہوں نے نگرانی کر نے والے کا چہرہ دیکھا تو وہ حیرت زدہ سے رہ گئے۔انہوں نے اُسے احمد شیرانی کے گھر پر دیکھا تھا۔وہ اُس کا نام نہیں جانتے تھے۔وہ اُلجھن میں پڑ گئے کہ کیا وہ واقعی ہی اُن کا پیچھا کرتے ہوئے نرسری تک آ پہنچا تھا یا پھر یہ صرف اتفاق تھا؟انہوں نے اِس بات کا خاص خیال رکھا تھا کہ اُن کا تعاقب نہ کیا جا سکے اور انہیں پورا یقین تھا کہ جس کار میں وہ نرسری پہنچے تھے، اس کا تعاقب نہیں کیا گیا تھا۔
انہیں جب یہ اطلاع دی گئی کہ اُن کا سامان تیا ر ہے تو وہ ڈرائیور کی مدد سے پودے،کھاد اور دوسرا سامان گاڑی میں رکھنے لگے۔اُن کی نگرانی کرنے والا اتنی دیر میں غائب ہو چکا تھا۔انہیں یقین تھا کہ وہ نظروں سے اتنی آسانی سے اوجھل نہیں ہو سکے گا۔اُن کے دو ماتحت اُس کے پیچھے تھے۔کرنل فاتح نے مخصوص اشارے سے انہیں آگاہ کر دیا تھا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔اب وہ بڑے پرسکون انداز میں احمد شیرانی کے گھر کی جانب گامزن تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصرت صاحب کے فون کی گھنٹی بجی۔وہ کوئی فائل دیکھ رہے تھے۔بے دھیانی کے عالم میں انہوں نے فون کا کریڈل اُٹھایا اور بولے۔’’ہیلو۔‘‘
’’رات کا حساب برابر ہو گیا۔ویسے تو ابھی تم پر میرا کافی ادھار باقی ہے۔پھر کبھی سہی۔‘‘دوسری جانب سے تمسخرانہ انداز اختیار کیا گیا تھا۔
’’کون بول رہا ہے؟‘‘نصرت صاحب کی پیشانی شکن آلود ہو گئی۔
’’تمہارا دوست اگر تم سمجھو تو ورنہ دشمنی تو پکی ہے ہی۔۔۔‘‘دوسری طرف بولنے والا شائستہ انداز میں اردو بول رہا تھا مگر لہجے سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کوئی غیر ملکی تھا۔
’’جو کہنا ہے جلد کہو۔میرے پاس فالتو باتوں کے لئے وقت نہیں ہے۔‘‘نصرت صاحب کے لہجے میں تیزی آگئی۔
’’مائی ڈئیر نصرت! مصروفیت تو تمہیں ہم اب ایسی دیں گے کہ سر کھجانے کا وقت نہیں ملے گا۔‘‘
’’کیا بکواس ہے۔‘‘نصرت صاحب غرائے اور ساتھ ہی انہوں نے سامنے رکھے ہوئے ایک فون کا بٹن دبایا۔یہ اُن کے اسسٹنٹ کے لئے اشارہ تھا کہ وہ معلوم کرے کہ نصرت صاحب کو کال کس نمبر سے کی جا رہی ہے۔
’’بکواس نہیں ہے۔میں عرض کر رہا ہوں۔تمہارا رات والاٹھکانہ اب ٹھکانہ نہیں رہا۔‘‘ایک قہقہہ لگا کر دوسری جانب سے فون منقطع کر دیا گیا۔
تھوڑی دیر بعد اُن کے اسسٹنٹ نے انہیں بتایا کہ کال ٹریس نہیں ہو سکی۔وہ نمبر کہیں ایکسچینج میں موجود نہیں تھا۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے۔‘‘نصرت صاحب مُنہ ہی مُنہ میں بڑبڑائے۔وہ خود سے ہی مخاطب تھے۔انہوں نے اشارہ کیا تو اسسٹنٹ خاموشی سے کمرے کا دروازہ بند کر کے رخصت ہو گیا۔
فون کال اُن کے لئے غیر متوقع تھی۔یوں تو اکثر اوٹ پٹانگ قسم کے فون بھی آتے رہتے تھے اور ایسے فون بھی ہوتے تھے جس میں لوگ گمنام رہتے ہوئے اہم اطلاع بھی دے دیتے تھے۔وہ فون کال اِس لحاظ سے عجیب و غریب تھی۔نصرت صاحب کا خیال تھا کہ فون کال کا تعلق یقینارات والے معاملے سے تھا۔کچھ دیر بعد اِس بات کی تصدیق بھی ہو گئی جب انہیں بتایا گیا کہ ’’سیف ہاؤس‘‘ دھماکے سے اُڑا دیا گیا تھا۔یہ وہ ہی جگہ تھی جہاں وہ رات کو غیرملکی قیدی کو بے ہوش کر کے لے جا رہے تھے اور وہ راستے میں ہی غیر محسوس انداز میں کار کی ڈکی کھول کر فرار ہو گیا تھا۔نصرت صاحب فوراً ہی سیف ہاؤس پہنچے۔تباہی کی شدت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا تھا کہ آس پاس کی کوٹھیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا۔کوئی جانی نقصان تو نہیں ہو اتھا البتہ آس پاس کی کوٹھیوں میں موجود کُچھ لوگ زخمی ضرور ہوئے تھے۔نصرت صاحب کو یہ بات مطمئن کرنے کے لئے کافی تھی کہ انہوں نے محض احتیاط کے طور پر سیف ہاؤس سے تمام ضروری سامان ایک دوسری جگہ منتقل کروا دیا تھا جس میں ضروری ریکارڈ اور اہم فائلیں بھی شامل تھیں۔اُن کی احتیاط کام آ گئی تھی گو کہ انہیں اب بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ مخالفین کا جوابی وار اتنا جلدی اور بھرپور ہو گا۔سیف ہاؤس میں اُس وقت کوئی بھی موجود نہیں تھا اِس لئے جانی نقصان بھی نہیں ہوا تھا۔
سیف ہاؤس ایک کرائے کی عمارت میں قائم تھا اور وہ جانتے تھے کہ محکمے کے لوگ خود ہی بقیہ معاملات سے نمٹ لیں گے۔وہ سیف ہاؤس کے سامنے کھڑے خاموشی سے امدادی کاروائیاں ہوتے دیکھ رہے تھے۔انہوں نے کسی سے کوئی سوال نہیں کیا۔وہ کسی گہری سوچ میں مصروف تھے۔معاملات اُن کی سوچ سے زیادہ اُلجھے ہوئے اورخطرناک تھے۔انہیں کرنل فاتح سے ضروری صلاح و مشورے کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہانگیر کی تکلیف میں ڈوبی ہوئی چیخ نے ایک لمحے کو تو شیردل کو بوکھلا دیا۔موٹر سائیکل لہرانے لگی تھی۔موٹر سائیکل کی رفتار اتنی تیز تھی کہ اگر شیردل اُس کا کنٹرول کھو دیتا تو یقیناسنگین حادثہ رونما ہو سکتا تھا۔شیردل نے اپنے اوسان خطا نہ ہونے دئیے اور حاضر دماغی سے کام لیتے ہوئے موٹر سائیکل کی رفتار کو کچھ کم کیا۔جہانگیر کا جسم بوجھ کی صورت اُس کی کمر پہ آگرا تھا۔
’’جہانگیر تم ٹھیک ہو؟‘‘شیردل چیختی ہوئی آواز میں جہانگیر سے پوچھ رہا تھا۔
’’وہ ۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔میں ٹھیک۔۔۔۔ہوں۔بازو میں۔۔۔۔گولی۔۔۔لگی ہے۔‘‘جہانگیر کی زبان سے اٹک اٹک کر جملہ مکمل ہوا۔
’’میری کمر کو مضبوطی سے تھامے رکھو ،میں تمہیں ہسپتال لے جا رہا ہوں۔‘‘جہانگیر سے یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اُس نے پہلے ہی شیردل کی کمر کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔
یہ جان کر کہ جہانگیر کے بازو میں گولی لگی تھی اور فوری جان کو خطرہ نہیں تھا،شیردل کی کی موٹر سائیکل کی رفتار ایک بار پھر طوفانی ہوگئی تھی۔اب وہ جلد از جلد ہسپتال پہنچنا چاہتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کیوں کیسی رہی؟‘‘نصرت صاحب نے اپنا سیل کان سے لگایا تو آواز آئی۔وہ سیف ہاؤس کی ’’باقیات‘‘ کا معائنہ کر کے ابھی اپنی سرکاری گاڑی تک پہنچے ہی تھے کہ انہیں سیل فون پہ کال آ گئی تھی۔وہ اُسی سفید فام کی کال تھی جس کا نام کرنل فاتح نے نارمن زبسکی بتایا تھا۔
’’اب کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘نصرت صاحب نے خود کو پُرسکون رکھنے کی کوشش کی۔
’’کہنے کو تو ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ویسے اس ناچیز کی بیدار مغزی اور فوری عملی کارروائی کی داد نہ دو گے؟‘‘دوسری جانب فخریہ انداز اختیار کیا گیا تھا۔
’’داد تو میں تمہیں ایسی دوں گا کہ ساری زندگی یاد رکھو گے۔‘‘نصرت صاحب نے دانت پیستے ہوئے جواب دیا۔’’ویسے یہ تم نے گلی محلے کے معمولی غنڈوں والا انداز کیوں اختیار کر لیا ہے۔‘‘
’’بس اتنی سی بات پہ کوئلوں پہ لوٹنے لگے ہو۔‘‘ نصرت صاحب کے چبھتے ہوئے لہجے کا جواب ایک دل جلانے والے قہقہے کی شکل میں آیا۔
’’کوئلوں پہ تو میں تمہیں ایسا لٹاؤں گا کہ بات کرنا ہی بھول جاؤ گے۔‘‘ نصرت صاحب نے اس بار اپنے لہجے کو ذرا خوشگوار بنایا۔
’’ہاں اب ٹھیک ہے۔ہنستے بولتے ہی کام کرنے کا مزہ آتا ہے۔جلد ہی تم سے ملاقات ہوگی۔بائے۔‘‘یہ کہہ کر دوسری جانب سے رابطہ منقطع کر دیا گیا۔
نصرت صاحب گاڑی چلاتے ہوئے کسی گہری سوچ میں غرق تھے۔نارمن زبسکی کا انہیں یوں فون کرنا چوہے بلی والا کھیل لگ رہا تھا۔اُن کے ذہن میں کئی سوالات پیدا ہو رہے تھے۔وہ کیا چاہتاتھا؟فون کرنے کا مقصد کیا تھا؟کیا وہ اپنے اس عمل سے انہیں مرعوب کرنا چاہتا تھا یا انہیں بے بسی میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہا تھا؟یہ تووہ جانتے تھے کہ اُس کی یہاں موجودگی کسی بڑے معاملے کا ہی پیش خیمہ ہو سکتی تھی۔وہ معاملہ کیا تھا؟کیا اُس سے بغدادی صاحب کا بھی کوئی مفاد جڑا ہوا تھا؟
نصرت صاحب شدت سے یہ محسوس کر رہے تھے کہ انہیں کرنل فاتح سے فوراً مشورے کی ضرورت تھی۔اُن کے خیال میں نارمن زبسکی کا کیس درحقیقت کرنل فاتح کی ایجنسی کا ہی تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چھوٹا سا ایک پرائیوٹ ہسپتال تھا۔وہ چھوٹا ضرور تھا لیکن وہاں ہر طرح کی سہولت موجود تھی۔وہ مجاہد کے والد ڈاکٹر اقبال صاحب کی ملکیت تھا۔شیردل گروپ کے لوگ اور کرنل فاتح کی ایجنسی بھی اسے استعمال کرتی تھی۔شیردل بڑی احتیاط سے جہانگیر کو ہسپتال کے عقبی گیٹ کی طرف لے آیا تھا۔وہ اُس وقت سنسان سا تھا۔عقبی گیٹ لانڈری اورسامان کی ڈلیوری وغیرہ کے کام آتا تھا۔شیردل نے سیل فون کان سے لگایا اور کسی سے مختصر سی بات کی۔چند منٹوں کے بعد عقبی گیٹ سے ایک اسٹریچر برآمد ہوا۔شیردل ڈاکٹر اقبال صاحب سے رابطہ کرنے میں کامیاب رہا تھا۔جہانگیر کو جب اسٹریچر پہ منتقل کیا گیا تو وہ بے ہوش تھا اور اُس کی نبض ہلکی رفتار سے چل رہی تھی۔دائیں بازو کی
قمیض خون سے تر تھی۔ہسپتال کے اسٹاف نے فوراً اسٹریچر کو اندر کی جانب دھکیلنا شروع کر دیا۔شیردل کو جہانگیر کی طرف سے جب کچھ اطمینان ہوا تو وہ اپنی موٹر سائیکل ہسپتال کی کار پارکنگ کی طرف لے آیا۔موٹر سائیکل اسٹینڈ پہ جگہ خالی نہ تھی۔شیردل نے موٹر سائیکل ایک ایسی جگہ پارک کی کہ وہ کسی کے لئے دقت کا باعث نہ ہو۔شیردل اور اس کے دوست ان باتوں کا خاص خیال رکھتے تھے کہ اُن کے کسی عمل سے کسی عام آدمی کو تکلیف نہ ہو۔وہ یہ سوچتے تھے کہ اُن سے ہمیشہ لوگوں اور ملک کو فائدہ ہی پہنچے کبھی نقصان نہ ہو۔
شیردل ہسپتال کے استقبالیہ کاؤنٹر کی طرف بڑھا۔تھوڑی دیر کے بعد وہ اُس کاریڈور میں تھا جہاں آپریشن تھیٹر زتھے۔جہانگیر کوسیدھا آپریشن تھیٹر میں ہی لے جایا گیا تھا۔شیردل کے کہنے پر جہانگیر کا اندراج ایک فرضی نام انور سے کیا گیا تھا۔ شیردل کاریڈور میں ٹہلتے ہوئے اچانک چونک اُٹھا۔اُسے خیال آیا تھا کہ اگر جہانگیر کے دشمن پیچھا کرتے ہوئے یہاں پہنچ جائیں تو اُن سے جہانگیر کو کیسے محفوظ رکھا جائے۔کچھ دیر سوچنے کے بعد اُس نے غازی اور مومن کو فون کیا اور انہیں تیزی سے ہسپتال پہنچنے کی تاکید کی۔وہ انہیں بتا چکا تھا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح،کرم الٰہی کے بھیس میں واپس احمد شیرانی صاحب کی کوٹھی پر پہنچے اور بڑی مہارت سے نئے لائے ہوئے پودوں کو کیاریوں میں لگانے لگے۔اُن کے کام کے انداز کو دیکھ کر ایسے ہی لگتا تھا جیسے کہ وہ ساری عمر مالی کا ہی کام کرتے رہے ہوں۔انہیں باغبانی کا شوق بھی تھا اور اپنے گھر میں انہیں اس کا موقع بھی ملتا رہتا تھا۔وہ کام میں یوں مصروف نظر آ رہے تھے کہ جیسے گردو پیش کی طرف دھیان ہی نہ ہو۔ایسا نہیں تھا وہ اپنے گرد و پیش پہ چوکنا انداز میں نظر رکھے ہوئے تھے۔وہ کام سے بظاہر تھک کر سستانے کو ذرا بیٹھے ہی تھے کہ اُن کے لئے چائے آ گئی۔انہوں نے چائے کا پہلا ہی گھونٹ بھرا تھا کہ انہیں گویا سرور سا آ گیا۔معمولی سے کپ میں اُن کی پسندیدہ کافی تھی۔کافی پیتے ہوئے اُن کی آنکھوں میں تشویش کے آثار محسوس کئے جا سکتے تھے۔وہ جانتے تھے کہ احمد شیرانی کو اُن کی پسند اور ناپسند کا پتہ تھا اور اسی لئے اُن کے لئے چائے کی جگہ کافی آئی تھی۔انہیں خدشہ تھا کہ احمد شیرانی کا خانساماں کیا سوچتا ہو گا کہ ایک معمولی مالی کے لئے چائے کی بجائے کافی کیوں بھجوائی جا رہی ہے؟
’’مجھے احمد شیرانی سے بات کرنا ہی ہو گی۔ورنہ تو میری یہاں موجودگی کاسارا پول ہی کھل جائے گا۔‘‘وہ پُر تفکر انداز میں سوچ رہے تھے۔انہیں زیادہ انتظار کی زحمت نہیں اُٹھانی پڑی۔ابھی انہیں احمد شیرانی کی کوٹھی پہ واپس پہنچے ہوئے آدھا گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے احمد شیرانی کو لان کی طرف آتے ہوئے دیکھا۔انہوں نے چوکنے انداز میں آس پاس دیکھا۔انہیں کوئی بھی شخص احمد شیرانی کی نگرانی کرتے ہوئے نظر نہ آیا۔
’’کرم الٰہی! ذرا ہمیں بھی تو بتاؤ کہ آج نرسری سے کیا خرید کر لائے ہو؟‘‘احمد شیرانی نے اُن کے پاس پہنچ کر اونچے لہجے میں پوچھا۔
’’آئیے سرکار!میں آپ کو دکھاتا ہوں۔پھولوں اور پودوں سے آپ کی دلچسپی دیکھ کر خدا قسم اپنا تو دل خوش ہو گیا۔‘‘اُن کا انداز فوراً ہی مودبانہ ہو گیا تھا۔
’’بس کرم الٰہی! آج ذرا فرصت ہے تو تو سوچا پھولوں اور رنگوں کے ساتھ ہی کچھ وقت بتا لیا جائے۔‘‘احمد شیرانی کا لہجہ خوشگوار تھا۔
’’ابے گدھے! یہ کیا کیا؟‘‘انہوں نے دھیمی آواز میں احمد شیرانی کو ڈانٹا۔
احمد شیرانی نے باقاعدہ مُنہ پھیر کر دیکھا جیسے دیکھ رہے ہوں کہ یہاں گدھا کہاں سے آ گیا۔
’’میں تمہیں گدھا کہہ رہا ہوں۔‘‘انہوں نے گویا دانت پیسے۔
’’ہیں مجھے یعنی کہ مابدولت کو۔لو حد ہو گئی۔میں نے ایسا کیا کر دیا؟‘‘احمد شیرانی کا جواب بھی گویا سرگوشی میں ہی آیا۔
’’یہ کافی بھجوانے والی کیا حرکت تھی۔تمہارا خانساماں کیا سوچتا ہو گا۔‘‘وہ ناراضگی سے احمد شیرانی کی طرف دیکھ رہے تھے۔
’’اچھا میں سمجھا۔‘‘احمد شیرانی نے ایک گہرا سانس لیا۔’’میں تو ڈر ہی گیا تھا کہ مجھ سے ایساکیا ’’گدھا پن‘‘ہو گیا ہے کہ تم آنکھیں لال پیلی کر رہے ہو۔تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تمہاری بھابھی نے کافی بنائی تھی کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ اس وقت تمہیں کافی کی کتنی طلب ہوتی ہے۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے کہ کافی بھابھی نے بنائی تھی مگر اُسے لے کر تو تمہارا ملازم ہی آ یا تھا۔وہ سوچتا ہو گا کہ نئے مالی کے بڑے ٹھاٹ ہیں کہ بیگم صاحبہ اُس کے لئے’’چائے‘‘ بنا رہی ہیں۔‘‘وہ سمجھانے والے انداز میں بولے۔
’’یار یہ بات تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔میں نے تمہارے آرام کا سوچا تھا۔‘‘احمد شیرانی نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔
’’آئندہ احتیاط کرنا اور میرے آرام کی فکر مت کرو۔ہمیں اپنے دشمنوں کو کوئی ایسا موقع نہیں دینا چاہئے کہ انہیں کسی قسم کا شک ہو۔ہمیں ابھی تک اُن کے عزائم کے بارے میں بھی علم نہیں۔‘‘وہ سنجیدگی سے بولے۔
’’میں آئندہ محتاط رہوں گا۔‘‘احمد شیرانی نے وعدہ کیا۔
’’اب میرے قریب مت آنا۔جب موقع ملے تو مجھے اُس سِم سے کال کر لینا جو میں نے تمہیں دی تھی۔‘‘انہوں نے تاکید کی۔
وہ احمد شیرانی کو واپس جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور اُن کی کشادہ پیشانی پہ شکنوں کا جال سا پھیل رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیردل کو مومن اور غازی کا شدت سے انتظار تھا۔ اُس کی چھٹی حس کسی بڑے خطرے کا اعلان کر رہی تھی۔اگر جہانگیر کے دشمن ہسپتال تک پہنچ گئے تو جہانگیر کی سلامتی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی تھی۔ساتھ ہی ہسپتال میں موجود دوسرے مریضوں اور اُن کے تیمار داروں کے ساتھ ساتھ ہسپتال کے اسٹاف کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ سکتی تھیں۔اُسے اچانک خیال آیا کہ نصرت انکل کو حالات سے آگاہ کر دینا چاہئے اور اُن کے مشورے کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔یہ سوچ کر اُس نے نصرت انکل کا سیل نمبر ملایا۔نمبر ملتے ہی اُس نے بلا تمہید اُنہیں جہانگیر کے متعلق ساری بات بتا دی۔
انہوں نے وعدہ کیا کہ’’ جلد ہی وہ چند آدمیوں کو ہسپتال بھجوا دیں گے جو سادہ لباس میں ہو ں گے۔‘‘
شیردل نے کار پارک پہ ایک نظر ڈالی۔ابھی تک مومن اور غازی کا کوئی پتہ نہ تھا۔اچانک شیردل کی چھٹی حس جیسے بیدار ہوگئی۔نہ جانے کیا سوچ کر وہ زمین کی طرف جھکتا چلا گیا۔’شُک‘ کی آواز کے ساتھ کوئی چیز اُس کے بالوں کو چھوتے ہوئے گزر گئی۔شیردل کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔کسی نے اُس پہ سائی لینسر لگی خودکار گن سے فائر کیا تھا۔اُس کی چھٹی حس نے اُس کی جان بچا لی تھی۔’’شُک شُک‘‘ کی آوازوں سے شیردل نے اندازہ لگا لیا کہ حملہ کرنے والے ایک سے زائد تھے۔وہ اس بار بھی بال بال بچا تھا۔اُس نے لیٹے ہی لیٹے ایک لمبی کروٹ دائیں جانب لی اور وہ ایک کار کے نیچے پہنچ گیا۔اُس نے دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سُنی۔حملہ آور قریب آتے جا رہے تھے۔شیردل نے تیزی سے خود کو ایسے سمیٹا کہ اُس کا سارا جسم کار کے نیچے چھپ گیا۔
وہ صرف دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سُن رہا تھا اور مزید کوئی فائر نہیں ہوا تھا۔وہ خوف زدہ نہیں تھا مگر وہ مسلح بھی نہیں تھا اور یہ ہی بات اُسے فکر میں مبتلا کر رہی تھی۔خود کار ہتھیاروں سے لیس دشمن سے خالی ہاتھ نمٹنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔شیردل نے خود کو سمیٹتے ہوئے سانس بھی روک لی تھی اور اُس کا دل جیسے اُچھل کے حلق میں پہنچ گیاتھا۔دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز قریب سے قریب تر محسوس ہو رہی تھی۔جسم کا ہر خلیہ گویا سماعت بن گیا تھا۔دوڑتے قدم اچانک تھم سے گئے۔شیردل دیکھ سکتا تھا کہ جس کار کے نیچے وہ چھپا تھا اُس کے دونوں جانب دو دو بوٹ نظر آ رہے تھے۔دو حملہ آور موت کے فرشتے بن کر سر پہ پہنچ گئے تھے۔
’’وہ۔۔۔۔۔۔ادھر ہی کہیں چھپا ہو گا۔‘‘اُن میں سے ایک نے شیردل کو گالی دیتے ہو ئے کہا۔گالی سُن کر شیردل کے اعصاب جیسے تن سے گئے۔اُس نے اپنے اعصاب پہ قابو رکھا اور کسی قسم کی آواز پیدا نہیں کی ورنہ اُس کا دل تو چاہ رہا تھا کہ گالی دینے والے کو ایسا مزہ چکھائے کہ وہ ساری زندگی یاد رکھے۔
’’جانا کہاں ہے؟‘‘دوسرے آدمی نے دانت پیستے ہوئے جواب دیا۔’’یہیں کہیں کسی گاڑی کی آڑ میں چھپا بیٹھا ہو گا مگر موت اُسے ڈھونڈ لے گی۔‘‘
’’اور اگر اُس کے پاس کوئی گن یا کوئی دوسرا ہتھیار ہو ا تو۔۔۔۔؟‘‘پہلے والے نے خدشہ ظاہر کیا۔
’’نہیں یار! ایسا نہیں ہو سکتا۔وہ تو ایک نوجوان سا لڑکا ہے یہیں کہیں چھپا تھر تھر کانپ رہا ہو گا۔ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘دوسرے نے گویا اپنے ساتھی کو تسلی دی۔
’’ڈر کون رہا ہے۔‘‘پہلے والا غرا کر بولا اور ساتھ ہی دوبارہ گالی دی۔اُسے شائد بار بار گالیاں دینے کی بری عادت تھی۔
’’چلو تو پھر اُسے ڈھونڈھتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ گاڑیوں کے نیچے دیکھتے ہیں۔‘‘ دوسرے آدمی کے یہ کہنے سے شیردل کو پتہ چل گیا کہ اُس کی شامت آنے والی ہے۔وہ سوچ رہا تھا کہ کار کے نیچے گھس کر شاید اُس نے اچھا نہیں کیا۔وہ بری طرح پھنس گیا تھا۔
’’میرا خیال ہے کہ اُسے دیکھتے ہی گولی مار دینا چاہئے۔‘‘پہلے نے خیال ظاہر کیا۔
’’کوشش تو کرنی چاہئے کہ وہ زندہ ہاتھ لگ جائے اور ہم اُس سے پوچھ گچھ کر سکیں تاکہ ہمارا شکار ہمیں واپس مل جائے۔‘‘دوسرا آدمی شیردل کو زیادہ خطرناک محسوس ہو رہا تھا۔
’’چلو تو پھر تلاش شروع کرتے ہیں۔‘‘یہ کہہ کر ایک آدمی اُس کار سے دور ہٹتا چلا گیا۔
شیردل کے جسم سے پسینہ بہنے لگا تھا۔وہ بہت ہی دھیرے دھیرے سانس لے رہا تھا۔اُسے خدشہ تھا کہ دوسرا آدمی اپنی تلاش شاید اُسی کار سے کرے اور پھر ایسا ہی ہوا۔وہ زمین پہ جھکتا چلا گیا اور شیردل کا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا۔سب سے پہلے ایک لمبی نال والا ریوالور اندر داخل ہوا اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لمبی نال والا ریوالور اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر پہلے تو شیردل کا دل زور سے دھڑکا اور ہاتھوں پیروں میں سنسناہٹ سی ہونے لگی۔وہ جانتا تھا کہ یہ وقت اعصاب کے امتحان کاتھا۔ریوالور کے ساتھ ساتھ اب ایک چہرے کی جھلک بھی دکھائی دینے لگی تھی۔سوچنے کا وقت نہیں تھا اور شیردل نے سوچ بچار میں وقت ضائع کیا بھی نہیں۔اُس نے فوراً ریوالور پہ ہاتھ ڈال دیا۔اُس نے کوشش کی تھی کہ ریوالور کا رخ اُس کی جانب نہ ہو۔وہ ریوالور چھیننے میں تو کامیاب ہو گیا البتہ ایک فائر ہو گیا۔ریوالور کی نال سے نکلا شعلہ نہ جانے کہاں غائب ہو چکا تھا اور ساتھ ہی اُس آدمی کا سر بھی۔شیردل نے اپنے حواس پہ قابو رکھتے ہوئے ریوالور کا رخ سامنے کرتے ہوئے فائر کر دیا۔اُس کے سامنے صرف دو ٹانگیں تھیں جو گاڑی سے دور ہٹتی جا رہی تھیں۔دائیں پنڈلی پہ ایک سرخ دھبہ نمودار ہو چکاتھا اور ساتھ ہی ایک ہلکی سی چیخ بھی جیسے کوئی سخت تکلیف کو برداشت کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔شیردل نہایت پھرتی سے گاڑی کے نیچے سے نکل آیا تھا۔اُس نے سر کو اوپر اُٹھانے کی غلطی نہیں کی۔وہ دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سُن سکتا تھا۔اُس نے اندازے سے اُسی جانب ایک فائر کر دیا۔دو فائر اُس گاڑی پر بھی کئے گئے جس کے پیچھے وہ لمحہ بھر پہلے تک موجود تھا۔فائر ہونے سے پہلے ہی وہ تیزی سے حرکت کرتے ہوئے دوسری گاڑی کے پیچھے خود کو محفوظ کر چکا تھا۔اچانک ہی پولیس موبائل کے سائرن کی آواز کہیں قریب سے گونجی اور شیردل نے اطمینان کی سانس لی۔دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سے شیردل سمجھ چکا تھا کہ پولیس کی آمد کا سُنتے ہی دشمن نے راہِ فرار اختیار کی تھی۔شیردل نے احتیاط سے سر کو بلند کیا۔وہ بے حد محتاط تھا۔ہوسکتا تھا کہ دشمنوں کا ایک آدھ ساتھی ابھی وہیں چھپا موقع کا انتظار کر رہا ہو۔اُسے گاڑیوں کی آڑ میں چھپے کئی آدمی نظر آئے۔اُن کے چہروں پہ چھائے خوف و ہراس سے پتہ چلتا تھا کہ ہسپتال کے کا ر پاک میں اچانک ہونے والی فائرنگ اُن کے لئے غیر متوقع تھی۔ویسے تو ملک کے جو حالات تھے اُن میں کوئی چیز بھی غیر متوقع نہیں تھی۔اسکول،دفاتر،شاپنگ سینٹرز اور دوسرے عوامی مقامات پہ فائرنگ اور دھماکے ایک عام سی بات تھی۔خاص بات یہ تھی کہ دہشت گردی میں ملوث دہشت گرد واردات کے بعد بڑے آرام سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے تھے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اُن کے سامنے بے بس نظر آتے تھے۔عوام کے ساتھ ساتھ یہ صورت حال شیردل اور اُس کے ساتھیوں کے لئے بھی تکلیف دہ تھی اور وہ اپنی سی کوشش کرتے رہتے تھے۔
شیردل کو پولیس کا انتظار تھا لیکن اُن کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں تھا۔پولیس موبائل کا سائرن اب بھی اپنی کرخت آواز میں بج رہا تھا۔
’’پولیس کو پہنچنے میں اتنی دیر کیوں لگ رہی ہے؟‘‘شیردل زیرِ لب بڑبڑا رہا تھا۔اچانک اُس کی نظرسامنے پڑی اور اُس کے چہرے پہ ایک جان دار مسکراہٹ کھیلنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک چھوٹا سا کیفے تھا۔اُس کی شہرت کچھ خاص اچھی نہ تھی اور اکثر غیرقانونی کام دھندوں میں ملوث لوگ وہاں پائے جاتے تھے۔کیفے اچھی چائے کے لئے شہرت رکھتا تھا۔مجاہد وہاں چائے پینے نہیں آیا تھا۔چائے پینے کا تو بہانہ تھا۔وہ معمول کے مطابق ہی وہاں گیاتھا۔شیردل اور اُس کے ساتھی اکثر وہاں جاتے رہتے تھے۔چائے پینے کے بہانے وہ وہاں پہ آنے والے لوگوں پہ نظر رکھتے تھے۔کوئی نہ کوئی کام کی بات کا پتہ چل جاتا تھا۔ہونے والے جرائم کی سُن گن مل جاتی تھی۔مجاہد نے کونے والی ایک میز منتخب کی تھی۔ویٹر کوچائے کا کہہ کر وہ غیر محسوس انداز میں قریبی میزوں پہ بیٹھے لوگوں کا جائزہ لینے لگا۔ایک میز پہ بیٹھے ہوئے شخص کو دیکھ کر وہ چونک اُٹھا تھا۔اُس کا نام داور تھا۔وہ کئی غیر قانونی دھندوں میں ملوث تھا۔اسمگلنگ،ذخیرہ اندوزی،بلیک مارکیٹنگ اور ایسے ہی کئی دوسرے کام تھے۔یہ اور بات تھی کہ آج تک نہ تو اُس پہ کوئی جرم ثابت کیا جا سکا تھا اور نہ ہی کبھی اُسے سزا ہوئی تھی۔اُس کے ساتھ بیٹھا ہوا آدمی بھی جانا پہچانا لگ رہا تھا مگر وہ ڈرا ہوا سا لگ رہا تھا۔وہ چھوٹے قد کا سیاہ رو آدمی تھا اور اُس کے چہرے پہ چھائی دہشت کا تاثر بہت گہراتھا۔
’’کسی کو ذرا سا بھی شک نہیں ہو گا۔‘‘داور کہہ رہا تھا۔مجاہد اُس کی دھیمی آواز کو بمشکل ہی سُن پا رہا تھا۔
’’اگر میں پکڑا گیا تو۔۔۔۔‘‘چھوٹے قد والے آدمی کا لہجہ خوف سے لرز رہا تھا۔
’’سلیم تمہیں کُچھ بھی نہیں ہو گا۔بس ذرا۔۔۔۔۔۔۔۔رہنے کی ضرورت ہے۔‘‘داور کی بات مجاہد کو مشکل سے ہی سمجھ آ رہی تھی۔
’’گورے صاحب میرا خیال رکھیں گے نا؟‘‘سلیم کا لہجہ رو دینے والا تھا۔’’گورے صاحب‘‘ کا ذکر سُن کر مجاہد کے کان کھڑے ہوئے۔وہ یقیناکسی غیرملکی کا ذکر کر رہا تھا۔
’’تم نے صرف۔۔۔۔۔کو ہی تو جام کرنا ہے۔آگے کام ہمارا ہے۔‘‘داورنہ جانے کس چیز کو جام کرنے کی بات کر رہا تھا کہ مجاہد باوجود کوشش کے نہ سُن سکا۔
’’میرا ایڈوانس؟‘‘چھوٹے قد والے سلیم کا لہجہ یکایک حریصانہ ہو گیا تھا۔
’’چل میرے ساتھ۔تجھے ایڈوانس ابھی دے دیتا ہوں۔تو بھی کیا یاد کرے گا کہ کس رئیس سے پالا پڑا ہے۔‘‘داور یہ کہہ کر اپنی نشست سے اُٹھ کھڑا ہوا تو سلیم کوبھی کھڑا ہونا پڑا۔
سلیم جب داور کے ساتھ اُس کی کار میں بیٹھ کر روانہ ہو گیا تو مجاہد اپنے موٹر سائیکل پہ اُس کا تعاقب کرنے لگا۔اُس نے درمیانی فاصلہ کافی رکھا تھا۔تعاقب زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا۔داور اپنی فیکٹری تک پہنچا تھا۔فیکٹری میں پلاسٹک کی مختلف اشیاء بنتی تھیں۔داور کی شہرت کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل تھا کہ فیکٹری کی عمارت ناجائز کاروبار کے لئے استعمال نہیں ہوتی۔
سلیم تھوڑی دیر کے بعد فیکٹری کی عمارت سے باہر نکلا تو اُس کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں۔اُسے یقینااپنا ’’ایڈوانس‘‘ مل گیا تھا۔سلیم نے ایک ٹیکسی روکی تھی۔مجاہد کو ٹیکسی کا تعاقب کرنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ٹیکسی گلیکسی شاپنگ سینٹرکے سامنے رکی تھی جو کہ شہر کا سب سے بڑا شاپنگ سینٹر تھا۔سلیم شاپنگ سینٹر کے اندر داخل ہوا تو مجاہد بھی بدستور اُس کے پیچھے تھا۔مجاہد کو شاپنگ سینٹر کے تیسرے فلور تک سلیم کا پیچھا کرنا پڑا۔سلیم ایک ایسے دروازے سے اندر غائب ہو گیا جس پر لکھا ہو ا تھا کہ ’’صرف انتظامیہ کے لوگوں کے لئے۔‘‘
مجاہد کچھ سوچ کر ایک دیوار کی آڑ میں کھڑا ہو کر اُس کا انتظار کرنے لگا۔اُسے زیادہ طویل انتظار نہیں کرنا پڑا۔سلیم اُسی دروازے سے باہر نکلا تو وہ شاپنگ سینٹر کے ملازمین کی وردی میں تھا۔وردی پہ لگے بیج کی موجودگی سے پتہ چلتا تھا کہ وہ ایک سپر وائزر تھا اور شاپنگ سینٹر کی لفٹس کی مینٹیننس پہ مقرر تھا۔مجاہد کو اب یاد آگیا کہ اُس نے یقیناسلیم کو لفٹس کے آس پاس دیکھا ہو گا۔مجاہد اِس شاپنگ سینٹر میں اکثر آتا جاتا رہتا تھا۔مجاہد شاپنگ سینٹر سے باہر نکلا تو اُس کے چہرے پہ تفکر کے اثرات دیکھے جا سکتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سامنے سے غازی بے فکر انداز میں چلا آ رہا تھا۔اُس کے ہونٹ سیٹی بجانے والا انداز اختیار کئے ہوئے تھے۔پولیس کی آمد کا اعلان کرتے سائرن کی آواز اُس کے ہونٹوں کا کرشمہ تھی۔دونوں بڑے اچھے انداز میں ایک دوسرے سے ملے۔
’’مومن کہاں ہے؟‘‘شیردل نے پوچھا۔
’’مسجد میں۔‘‘غازی نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا۔’’مومن کا کام تو مسجدوں کو آ باد کرنا ہے نا۔‘‘
’’وہ تو سارے ہی مسلمانوں کا کام ہے۔‘‘شیردل نے دانت پیستے ہوئے کہا۔’’میں اپنے والے مومن کا پوچھ رہا ہوں۔‘‘
’’اچھا ہمارے والا مومن۔میں سمجھا وہ دوسرا والا مومن جس کا ذکر شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ نے اپنے اشعار میں اکثر کیا ہے۔‘‘مومن کی سنجیدگی میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔
’’ہاں وہ ہی والا مومن۔وہ کہاں ہے؟‘‘شیردل نے اُس کی کمر پہ دھپ رسید کرتے ہوئے کہا۔
’’وہ والا مومن مسجد میں نہیں ہے۔ابھی نماز کا وقت جو نہیں ہوا۔‘‘غازی نے اپنی کمر کو سہلاتے ہوئے،شیردل سے درمیانی فاصلہ بڑھا لیا۔
’’یار کبھی سنجیدہ بھی ہو جایا کرو۔وقت کے تقاضے کو ہی سمجھ لیا کرو۔‘‘شیردل نے عاجز آ جانے والے انداز میں کہا۔
’’وقت کا تقاضا اِس وقت کیا ہے؟‘‘غازی کی آ نکھوں میں چمکتی شرارت کی روشنی تھی۔
’’وقت کا تقاضا؟‘‘شیردل نے دانت پیسے۔’’میں ابھی مرتے مرتے بچا ہوں۔‘‘
’’شکر کرو۔بچتے بچتے نہیں مرے ہو اور ابھی زندگی کے ساتھ ساتھ ہوش و حواس بھی قائم ہیں۔‘‘اُس کا سابقہ اندازبرقرار تھا۔
’’اگر تمہاری لایعنی باتیں یوں ہی چلتی رہیں تو کسی کے ہو ش و حواس قائم نہیں بھی رہ سکتے۔‘‘شیردل نے دائیں مٹھی کو گھونسے کی شکل دیتے ہوئے کہا۔
’’اوہ بہت افسوس ہوا یہ سُن کر۔‘‘غازی نے افسوس سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔’’ہوش و حواس کا مرحوم ہو جانا کوئی اچھی بات نہیں۔‘‘
’’غازی کے بچے! اب میں تمہارا سر توڑ دوں گا۔‘‘شیردل جھلا کر رہ گیا۔
’’یہاں تو زبان بندی کا حکم جاری ہو گیا ہے۔‘‘غازی نے مصنوعی آہ بھری۔
شیردل نے جب اُسے ساری بات بتائی تو وہ بھی سنجیدہ ہو گیا اور پھر کہنے لگا۔’’ہماری پولیس کا حال تو تم جانتے ہی ہو۔ابھی تک نہیں پہنچی۔اِسی لئے مجھے پولیس کا سائرن بجانے کی ضرورت پیش آئی۔اُس کا اچھا نتیجہ سامنے آ یا۔تم دیکھ ہی رہے ہو کہ وہ دونوں بھاگ چکے ہیں اور مومن اپنی موٹرسائیکل پہ جسے وہ بائیک کہتا ہے پہ پیچھا کر رہا ہے۔‘‘
’’ہمیں جہانگیر کی حفاظت کا خصوصی انتظام کرنا ہے۔‘‘شیردل نے کہا اور پھر دونوں دوست باتیں کرتے ہوئے ہسپتال کے اندرونی حصے کی جانب بڑھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصرت صاحب کے سیل فون کی گھنٹی بجی۔نمبر اُن کے لئے اجنبی تھا۔انہوں نے سیل فون کان سے لگایا مگر خاموش رہے۔دوسری طرف سے ہیلو کہا گیا۔نصرت صاحب پھر بھی خاموش رہے۔
’’نصرت صاحب! آپ اپنے پرانے دوست کو نہیں پہچانے۔‘‘وہ نارمن زبسکی تھا۔اُس کی منحوس آ واز وہ بھلا کہاں بھول سکتے تھے۔
’’کیا بات ہے؟‘‘نصرت صاحب کا انداز اکھڑا اکھڑا سا تھا۔
’’بات تو بہت گہری ہے اگر آپ کی سمجھ میں آئے۔‘‘نارمن زبسکی کا لہجہ انہیں زہریلا لگا۔’’چار دن میں ایک بڑا واقعہ ہونے والا ہے۔اگر روک سکتے ہیں تو روک لیں۔
’’کیا مطلب؟ کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘نصرت صاحب کو ایک جھٹکا سا لگا۔
’’ہم کہتے نہیں کرتے ہیں۔ٹھیک چار دن بعد۔یاد رکھنا۔‘‘اُس کا لہجہ نہایت خوفناک تھا۔
نصرت صاحب اِس سے پہلے جواباً کچھ کہتے وہ فون بند کر چکا تھا۔نصرت صاحب اُس کی دھمکی پہ غور کرنے لگے۔اُن کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کچھ گڑبڑ ہے۔کچھ خطرناک ہونے والا ہے۔مگر کیا؟کیا کوئی بڑا دھماکہ؟کسی اسکول کالج میں بم کا دھماکہ یا سرکاری تنصیبات کو نقصان پہنچانے کا منصوبہ؟آخر وہ کیا چاہتا تھا اور اُس نے انہیں فون کیوں کیاتھا؟ایسے کام تو انتہائی خفیہ انداز میں انجام دئیے جا تے ہیں نا کہ فون کر کے چیلنج کیا جائے۔انہیں وہ چیلنج ہی محسوس ہو رہاتھا کہ اگر روک سکتے ہو تو مجھے روک لو۔
نصرت صاحب نے سیل فون دوبارہ کان سے لگا لیا۔وہ کرنل فاتح سے بات کرنا چاہتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیر دل نے جہانگیر کو ڈاکٹر اقبال صاحب کے ہسپتال سے ہٹا دیا تھا۔وہ اب ایک دوسرے ہسپتال میں زیرِ علاج تھا اور اب اُس کی حالت تسلی بخش تھی۔شیردل کا فیصلہ درست ثابت ہوا تھا۔کچھ لوگوں نے ہسپتال پہ حملہ کر کے جہانگیر کو لے جانے کی کوشش کی تھی۔مگر جہانگیر وہاں ہوتا تو اُن کے ہاتھ لگتا۔ہسپتال میں نصرت صاحب کی طرف سے متعین پولیس کی گارڈ زنے حملہ آوروں کو ہسپتال میں گھسنے نہیں دیا تھا۔زبردست فائرنگ کے تبادلہ کے بعد حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔وہ اپنے پیچھے اپنے ایک ساتھی کی لاش چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔مرنے والے کی شناخت ہو گئی تھی۔وہ داور کے آدمیوں میں سے تھا۔
شیردل سوچ رہا تھا کہ جہانگیر اُن کے لئے اتنا اہم کیوں ہے کہ اُسے حاصل کرنے کے لئے انہوں نے دن دھاڑے پولیس کی موجودگی میں بھی ہسپتال پر حملہ کرنے سے گریز نہیں کیا۔جہانگیر کی حالت ذرا اور سنبھلتی تو وہ اُس سے پوچھتا کہ اُس پر کیا بیتی۔
شیردل نے کچھ سوچ کر جہانگیر کے والد احمد شیرانی کے گھر کا نمبر ملایا۔دوسری جانب فون کی گھنٹی کچھ دیر تک بجتی رہی اور پھر کسی نے آہستہ سے ہیلو کہا۔
شیردل نے انکل احمد شیرانی کی آواز پہچان کر السلام علیکم کہا اور پھر کہنے لگا۔’’انکل شیرانی! میں آپ سے جہانگیر کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’سوری رانگ نمبر۔‘‘کہہ کر دوسری جانب سے کال منقطع کر دی گئی تھی۔شیردل حیران رہ گیا تھا۔دوسری جانب سے بولنے والے احمد شیرانی ہی تھے۔اُسے اِس بات کا مکمل یقین تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح جب احمد شیرانی کی کوٹھی سے نکلے تو اُن کا حلیہ اس حد تک بدلا ہوا تھا کہ اُن کے قریبی جاننے والے بھی شاید ہی پہچان پاتے۔سر سے پاؤں تک وہ سیاہ لباس میں ملبوس تھے اور رات کی تاریکی کا حصہ معلوم ہوتے تھے۔کوٹھی سے دو سو میٹر کے فاصلے پہ اُن کا ایک ماتحت گاڑی لئے اُن کا انتظار کر رہا تھا۔اُن کے بیٹھتے ہی اُس نے خاموشی سے گاڑی آگے بڑھا دی۔
’’فیکٹری۔‘‘اُن کے مُنہ سے صرف ایک لفظ نکلا اور اُن کے ماتحت نے سر ہلانے پہ ہی اکتفا کیا جیسے سمجھ گیا ہو کہ اُسے کہاں جانا ہے۔
گاڑی اندھیرے کا سینہ چیرتے ہوئے اپنا سفر طے کر رہی تھی۔انجن کی مدھم سی آواز کے علاوہ صرف خاموشی بول رہی تھی۔کرنل فاتح کسی گہری سوچ میں غرق تھے۔اُن کی سوچ کا سلسلہ سیل فون پہ ہونے والی وائبریشن سے منقطع ہو گیا۔احمد شیرانی کے ہاں انہوں نے اپنے سیل فون کو وائبریشن پہ رکھا ہوا تھا۔اک نظر سیل فون کی چمکتی ہوئی اسکرین پہ ڈالتے ہوئے انہوں نے سیل فون کان سے لگا لیا۔
’’ہاں کہو۔‘‘وہ بولے۔دوسری جانب اُن کے دیہی فارم کا نگران شیر محمد تھا۔وہ دیہی فارم کا گارڈ بھی تھا۔چوکیداری کے فرائض بھی انجام دیتا تھا اور فارم کے تمام معاملات کو سنبھالنا اُس کے فرائض میں شامل تھا۔وہ آرمی سے ریٹائرمنٹ لے چکا تھا اور اپنی مصروف سروس میں اُس نے بطور کمانڈو کئی کارنامے انجام دئیے تھے۔فارم کرنل فاتح اور نصرت صاحب دونوں کی مشترکہ ملکیت تھی۔
’’سر ایک اہم بات آپ کے علم میں لانا چاہ رہا تھا۔‘‘دوسری جانب شیر محمد تھا جس کی آواز خاصی مدھم تھی۔
’’کہو! میں سُن رہا ہوں۔‘‘وہ بے حد سنجیدہ تھے۔
دوسری طرف سے شیر محمد کی بات سُن کر وہ پھر سوچ میں پڑ گئے۔شیر محمد بتا رہاتھا کہ’’بغدادی صاحب کے فارم پہ غیر معمولی اور پراسرار سی سرگرمیاں دیکھی گئی ہیں۔وہاں پہ دو سفید فام لوگ بھی دیکھے گئے تھے۔‘‘بغدادی صاحب کا فارم کرنل فاتح کے فارم سے بے حد قریب تھا اور اُس پہ آسانی سے نظر رکھی جا سکتی تھی۔کرنل فاتح نے شیر محمد کو یہ ہی ہدایت دی ’’کہ وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھے اور غیر محسوس انداز میں بغدادی صاحب کے فارم کی نگرانی جاری رکھے۔‘‘
گاڑی اپنی مخصوص رفتار سے اپنی منزل کی طرف گامزن تھی۔کرنل فاتح سوچ رہے تھے کہ’’حالات غیرمعمولی رنگ اختیار کرتے جا رہے ہیں اور ابھی تک اُن کی صحیح سمت کا بھی اندازہ نہیں ہو رہا ہے۔حالات کی بدولت یہ کہا جا سکتا ہے کہ بغدادی صاحب ان واقعات میں کسی نہ کسی حد تک ضرور ملوث ہیں۔مگرابھی بات کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آ رہا۔احمد شیرانی کا معاملہ الگ پریشان کن ہے۔جہانگیر کا اغوا یقینااحمد شیرانی پہ دباؤ برقرار رکھنے کی کوشش ہے۔وہ احمد شیرانی کی چاروں کیمیکل فیکٹریوں کو لیز پہ لینا چاہتے ہیں اور وہ بھی زبردستی۔آخر کیمیکل فیکٹریاں ہی کیوں؟‘‘وہ ابھی تک اپنے سوچ سفر میں یہیں تک پہنچے تھے کہ گاڑی ایک ہلکے سے جھٹکے سے رک گئی۔انہوں نے سوالیہ نظروں سے اپنے ماتحت کی طرف دیکھا تو وہ بول اُٹھا۔’’سر!ہم اپنی منزل پہ پہنچ گئے ہیں۔‘‘
’’جمال! تمہیں بے حد احتیاط کی ضرورت ہے۔ہو سکتا ہے کہ ہمیں بے سر و سامانی اور افراتفری کے عالم میں بھاگنا پڑے۔اِس لئے بڑے چوکس ہو کر بیٹھو اور اپنے آس پاس کے حالات پہ بھی نظر رکھو۔‘‘کرنل فاتح اُسے ہدایات دے کر گاڑی سے نیچے اُتر گئے۔
’’سر! میں آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔‘‘جمال نے بڑے مستعد انداز میں جواب دیا۔
کرنل فاتح نے چند لمحوں تک اپنے آس پاس حالات کی سُن گن لی اور پھر خاموشی سے ایک طرف روانہ ہوگئے۔اُن کا سفر صرف دو تین منٹ کا تھا۔اُن کے سامنے ایک دو منزلہ عمارت کا ہیولہ تھا۔عمارت بڑی لمبی چوڑی تھی اورفیکٹری میں ایسی کئی عمارات تھیں۔فیکٹری کئی ایکڑوں میں پھیلی ہوئی تھی۔کرنل فاتح یہاں پہلے کئی بار آ چکے تھے اور فیکٹری کی عمارات کے محل وقوع سے اچھی طرح آگاہ تھے۔
وہ جیسے ہی فیکٹری کے اور قریب ہوئے تو دو سیاہ پوش سائے بڑے خاموش انداز میں اُن کے پاس پہنچ گئے۔
’’کیا خبریں ہیں؟‘‘وہ سکون سے ایک سیاہ پوش سے پوچھ رہے تھے۔وہ دونوں اُن کے ہی ساتھی تھے۔
’’جو کچھ بھی ہے عمارت کے سب سے بڑے ہال میں ہی ہے۔وہ نئی تعمیر کا حصہ ہے اور ابھی وہاں پہ نیا پلانٹ نہیں لگا ہے۔‘‘لمبے تڑنگے قد کے مالک سیاہ پوش نے مؤدب انداز میں بتایا۔
احمد شیرانی نے انہیں بتایا تھا کہ’’ اُن کی فیکٹری چوں کہ مارکیٹ کی ڈیمانڈ پوری نہیں کر پا رہی اس لئے وہ نیا پلانٹ لگا رہے ہیں۔‘‘
’’کوئی خطرہ؟‘‘
’’بڑا ہال فیکٹری کے ملازمین کے لئے شجرِ ممنوعہ ہے۔وہاں کسی کو جانے کی اجازت نہیں۔اندر سخت پہرہ ہے۔پہرے پہ موجود لوگ سب کو یہ ہی کہتے ہیں کہ احمد شیرانی صاحب کا حکم ہے کہ بڑے ہال میں کوئی نہ جائے۔‘‘دوسرے سیاہ پوش نے اس بار جواب دیا۔وہ میانہ قامت کا چاق و چوبند بندہ تھا۔
’’پہرے کی آج کیا صورت ہے؟‘‘کرنل فاتح نے پوچھا۔وہ جانتے تھے کہ جمعہ کے دن ملازمین کو آدھے دن کی چھٹی ملتی تھی اور وہ فیکٹری کی مسجد میں ہی جمعہ کی نماز پڑھ کر چھٹی کر جاتے تھے۔
’’آج جمعہ ہونے کی وجہ سے پہرے کی صورت عام دنوں جیسی نہیں ہے۔ملازمین کے چھٹی کر جانے کے بعد ،بڑے ہال میں پہرے پہ صرف تین لوگ ہوتے ہیں۔‘‘پہلے سیاہ پوش کا لہجہ اب بھی مؤدب ہی تھا۔
’’یعنی کہ راستہ ہمارے لئے کھلا ہے۔‘‘کرنل فاتح کے انداز کی چستی پہ سیاہ پوشوں نے تبصرہ نہیں کیا۔
’’چلو!آگے بڑھو مگر احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا۔‘‘کرنل فاتح کی ہدایت سُن کر وہ دونوں فوراً ہی مستعد ہو گئے۔
فیکٹری کے اندر داخل ہونے میں انہیں کوئی دشواری پیش نہ آئی۔دونوں سیاہ پوش اُن کے بہترین ساتھیوں میں سے تھے۔انہوں نے راستے کو محفوظ بنا لیا تھا۔رات کی چاندنی کی ہلکی روشنی میں وہ آگے بڑھے جا رہے تھے۔اُن کے ہاتھ میں ٹارچ موجود تھی مگر وہ اُسے جلانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔تاریکی اُن کے بڑھتے قدموں کو روکنے سے قاصر تھی۔جلد ہی وہ عمارت کے اُس حصے کے پاس پہنچ گئے جہاں پہ نیا اور بڑا ہال تعمیر کیا گیا تھا۔عمارت پہ خاصی اونچائی پہ روشن دان بنائے گئے تھے۔بڑے ہال میں داخل ہونے کے دو ہی راستے تھے اور اُن کا ارادہ اُن دونوں راستوں سے اندر جانے کا نہیں تھا۔وہ اندر تو جانا ہی نہیں چاہتے تھے۔اُن کا خیال تھا کہ روشن دان اُن کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔چند لمحوں کے بعد کرنل فاتح ایک موٹی رسی کے سہارے عمارت کی سیدھی دیوار پہ کسی بندر کی سی پھرتی سے چڑھے جا رہے تھے۔وہ تین بائی چار فٹ چوڑا روشن دان تھا۔انہوں نے بڑی احتیاط سے روشن دان سے اندر دیکھنے کی کوشش کی۔اندر دھیمی سی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ہال کے داخلی دروازے کے پاس گارڈز کی وردی میں ملبوس تین افراد بڑے بے فکر انداز میں بیٹھے تھے۔ اُن کے ہاتھوں میں جدید آٹومیٹک گنز نظر آ رہی تھیں۔ہال کے بالکل درمیان میں کچھ تھا۔کوئی گول سی اور بڑی سی چیز۔کرنل فاتح کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ایک عجیب سی بے کلی نے انہیں اچانک ہی آ گھیرا تھا۔ان کے دل کی دھڑکن میں تیزی آتی جا رہی تھی۔وہ چیز کیا تھی؟
وہ اندھیرے میں چمکنے والی کسی دھات سے بنائی گئی تھی۔وہ گول تھی اور اُس کا حجم کئی میٹروں میں پھیلا ہوا تھا۔ وہ ایک بہت بڑی طشتری یا ایک ڈش سے مشابہ تھی۔انہوں نے اندھیرے میں کام کرنے والے ایک ننھے سے خود کار کیمرے سے اُس کی کئی تصاویر بھی لے لیں اور ایک مختصر سی ویڈیو بھی بنا لی۔جتنی خاموشی سے وہ اوپر چڑھے تھے اتنی ہی خاموشی اور تیزی سے وہ نیچے آئے۔تھوڑی دیر کے بعدجب وہ اپنی گاڑی میں واپس جا رہے تھے تو انہیں نصرت صاحب کا فون ملا۔انہوں نے نصرت صاحب کو تاکید کی کہ وہ ڈاکٹر اشرف شیرازی کے گھر پہنچیں اور وہاں سے وہ اکھٹے اپنے فارم تک جائیں گے۔
کرنل فاتح کا خیال تھا کہ معاملہ چوں کہ ارجنٹ ہے اس لئے انہوں نے ڈاکٹر اشرف شیرازی سے ملاقات کاوقت طے کئے بغیر ہی اُن سے ملنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ڈاکٹر اشرف شیرازی اُن سے بڑی اچھی طرح سے پیش آئے۔رات کافی گزر چکی تھی اور ڈاکٹر اشرف شیرازی کی آنکھوں میں نیند ابھی باقی تھی۔
کرنل فاتح نے مناسب الفاظ میں اُن سے ناوقت آنے کی معذرت کی اور یہ بھی کہ انہوں نے ملاقات کا پیشگی وقت بھی نہیں لیا۔آٰ طرح
ڈاکٹر اشرف شیرازی ہنس کر بولے۔’’اس میں معذرت والی تو کوئی بات ہی نہیں۔آپ یقیناکسی ایسے ہی کام سے آئے ہوں گے کہ جس کے لئے انتظار نہیں کیا جا سکتا ہو گا۔‘‘
’’ڈاکٹرصاحب!آپ کا خیال بالکل ٹھیک ہے۔میں نے انتظار کرنا مناسب نہیں سمجھا۔‘‘کرنل فاتح بے حد سنجیدہ تھے۔
’’آپ کہئے میں سُن رہا ہوں ۔‘‘ڈاکٹر اشرف شیرازی فوراً ہی اُن کی جانب متوجہ ہو گئے۔
’’میں سنانے نہیں بلکہ آپ کو کچھ دکھانے کے لئے لایا ہوں۔‘‘یہ کہہ کر کرنل فاتح نے اپنے کیمرے میں محفوظ تصویریں اور ویڈیو انہیں دکھائیں۔
تصاویر دیکھتے ہی ڈاکٹر اشرف شیرازی یک دم چاق و چوبند نظر آنے لگے تھے۔اُن کی آنکھوں سے نیند غائب ہو گئی تھی۔’’کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ یہ تصاویر اور ویڈیو کہاں کی ہیں؟‘‘انہوں نے پوچھا۔
’’میں آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں۔‘‘کرنل فاتح نے اُن کے سوال کو نظر انداز کر دیا تھا۔
ڈاکٹر اشرف شیرازی سمجھ گئے کہ وہ بتانا نہیں چاہتے،اس لئے انہوں نے زیادہ اصراربھی نہیں کیا۔انہوں نے اپنی رائے دی اور ساتھ ہی مزید اضافہ کرتے ہوئے بولے۔’’اگر بھائی جان ہوتے تو وہ زیادہ بہتر رائے دے سکتے تھے کیونکہ یہ اُن کا ہی شعبہ ہے۔‘‘
’’پروفیسر حشام آج کل کہاں ہیں؟‘‘کرنل فاتح اُن کی بات سُن کر چونک اُٹھے تھے۔پروفیسر حشام،ڈاکٹر اشرف شیرازی کے بڑے بھائی تھے اور ملک کے مایہ ناز سائنس دانوں میں اُن کا شمار ہوتا تھا۔
’’بھائی جان! پچھلے چھ مہینوں سے چین میں ہیں اور یقینادفاعی ضروریات کے ہی کسی پروجیکٹ کی وجہ سے ہی اُن کا قیام وہاں اتنا طویل ہو سکتا ہے۔‘‘ڈاکٹر اشرف شیرازی کچھ سوچ کر بولے۔
ڈاکٹر اشرف شیرازی نے تصاویر کے حوالے سے جو انکشاف کیا تھا وہ بہت خوفناک تھا۔ملک کی سا لمیت کو شدید خطرہ لاحق تھا۔
’’حیرت ہے۔میں نے نہ سنا اور نہ ہی کہیں پڑھا کہ پروفیسر حشام ملک سے باہر ہیں اور وہ بھی اتنی طویل مدت کے لئے۔‘‘کرنل فاتح کے لہجے میں حیرت چھپی تھی۔
’’بات تو حیرت کی ہے مگر ہمیں اُن کے ادارے کی جانب سے یہ ہی بتایا گیا تھا۔‘‘ڈاکٹر اشرف شیرازی نے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔
’’کیا مطلب؟‘‘کرنل فاتح چونک اُٹھے۔’’کیا جاتے ہوئے انہوں نے آپ کو کچھ نہیں بتایا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ڈاکٹر اشرف شیرازی نے جواباً کہا۔’’ہمیں تو بھابھی صاحبہ نے بتایا تھا کہ وہ ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔‘‘
’’کیا آپ کو یہ بات عجیب نہیں لگی؟‘‘کرنل فاتح کا لہجہ عجیب سا تھا۔’’یہ پروفیسرحشام کے لئے یہ ایک معمول کی روٹین ہے۔‘‘
’’بھائی جان اکثر غیر ممالک کے دوروں پہ جاتے رہتے ہیں اور کبھی کبھار تو نہایت ہی مختصر نوٹس پہ بھی ان کو جانا پڑا ہے۔پھر ایسا بھی ہے کہ جب وہ گئے ہیں تو میں اس وقت ملک سے باہر تھا۔‘‘ڈاکٹر اشرف شیرازی نے جواب دیتے ہوئے محتاط رویہ اختیار کیا۔
کرنل فاتح نے فوراً ہی کچھ نہیں کہا۔وہ کچھ سوچنے لگے تھے۔ڈاکٹر اشرف شیرازی بھی کسی گہری سوچ کا شکار ہو گئے تھے۔
’’آپ یہاں اچھی طرح سے سیٹل ہو گئے ہیں؟کوئی مشکل تو نہیں۔‘‘کرنل فاتح نے سرسری انداز میں اُن سے پوچھا۔
’’کہاں جناب؟جب سے بیٹے کا اغوا ہوا ہے،سکون نام کی کوئی چیز میسر نہیں۔میری بیوی بیٹے کو لے کر واپس برطانیہ چلی گئی ہیں۔‘‘ڈاکٹر اشرف شیرازی کا لہجہ مغموم ہو گیا۔
’’مجھے یہ سُن کر افسوس ہوا ہے۔‘‘کرنل فاتح نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔’’اورآپ؟‘‘
’’میں اب اسی ملک میں رہوں گا۔میں اپنے ملک کے لئے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا چاہتا ہوں۔زندگی اکثر قربانی مانگتی ہے اور میں یہ قربانی دینے کے لئے تیار ہوں۔‘‘ڈاکٹراشرف شیرازی کے مضبوط ارادے نے کرنل فاتح کو بے حد متاثر کیا۔
ڈاکٹر اشرف شیرازی کے ہاں سے رخصت ہوتے ہوئے وہ پروفیسرحشام کے گھر کا ایڈریس لینا نہیں بھولے تھے۔حالات کی تیز رفتاری کے باعث وہ اب تک کسی حتمی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے تھے۔اتنا وہ جانتے تھے کہ ملک و قوم کے خلاف کوئی گہری سازش ہو رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصرت صاحب اپنے دیہی فارم پہ پہنچے تو شیر محمد نے اُن کا استقبال خاموشی سے کیا ۔اُس کے انداز میں خوشی کا کوئی پہلو نہیں تھا۔وہ کبھی کبھار ہی فارم کا رُخ کرتے تھے اور یہ ہی حال کرنل فاتح کا تھا۔شیر محمد ایک سنجیدہ انسان تھا مگر نصرت صاحب کو اُس کا انداز کھٹک رہا تھا۔اُس کی خاموشی انہیں غیرمعمولی لگی۔
’’شیر محمد سب ٹھیک ہے ناں؟‘‘انہوں نے شیر محمد کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔
’’مالک سب ٹھیک ہے۔‘‘شیر محمد کا لہجہ اُس کے الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔
’’شیر محمدتم یقیناًہم سے کچھ چھپا رہے ہو؟کیا بات ہے؟‘‘نصرت صاحب کو اُس کے انداز سے اب اُلجھن ہونے لگی تھی۔
’’مالک میں کرنل صاحب کا انتظار کر رہا تھا۔‘‘شیر محمد نے آہستہ سے جواب دیا۔
’’وہ تو میں بھی کر رہا ہوں مگر بات کچھ اور ہے۔تم کسی اور وجہ سے پریشان ہو۔‘‘انہوں نے شیر محمد کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا۔
وہ مالک شفیع محمد کا دو دن سے کوئی اتا پتہ نہیں۔‘‘شیر محمد فکرمندی سے بولا۔
’’کون شفیع محمد؟‘‘نصرت صاحب نے پوچھا۔
’’میرا چچا زاد بھائی۔ وہ بغدادی صاحب کے فارم پر چوکیدار ہے۔‘‘شیر محمد نے دبے لہجے میں بتایا۔شیر محمد کے بتانے پہ انہیں یاد آیا کہ اُس کا ایک چچا زاد بھائی کہیں آس پاس ہی کسی فارم کا چوکیدار تھا۔یہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ بغدادی صاحب کے پاس ملازم تھا۔
’’ارے کہیں چھٹی لے کر چلا گیا ہو گا یا اُسے کسی کام سے بھیج دیا ہو گا۔‘‘نصرت صاحب نے اُسے تسلی دی۔
’’نہیں مالک! وہ مجھے بتائے بغیر کہیں نہیں جاتا۔کم سے کم دو تین بار ہر روز ہماری ملاقات ہوتی ہے۔‘‘شیر محمد نے نفی میں سر ہلایا جیسے اُسے نصرت صاحب کی بات سے اتفاق نہ ہو۔
’’پھر بھی اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔وہ جلد ہی واپس آ جائے گا۔ہو سکتا ہے کہ جانے سے پہلے تمہیں بتانے کا اُسے موقع ہی نہ ملا ہو۔‘‘نصرت صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
’’مالک! آپ کا کہنا بھی ٹھیک ہے۔‘‘شیر محمد افسردگی سے بولا جیسے اُسے نصرت صاحب کی بات کا دل سے یقین نہ ہو۔
’’یہاں کے معاملات کیسے ہیں؟کوئی اُلجھن یا پریشانی؟‘‘نصرت صاحب نے گفتگو کے موضوع کو تبدیل کرنے کے لئے پوچھا۔
’’ہمارے ہاں تو اللہ کریم کا بڑا فضل ہے مگر بغدادی صاحب۔۔۔؟‘‘شیر محمد دانستہ خاموش ہو گیا۔
’’بغدادی صاحب ! کیا مطلب؟تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘نصرت صاحب نے حیرانی سے پوچھا۔
شیر محمد نے انہیں بھی وہ تمام باتیں بتا دیں جو وہ کرنل فاتح کو فون پہ بتا چکا تھا۔
’’بغدادی ۔۔بغدادی صاحب۔۔۔‘‘نصرت صاحب نے دانت پیسے۔’’اب وقت آ گیا ہے کہ بغدادی صاحب سے حساب کتاب کر لیا جائے۔‘‘انہوں نے الفاظ اتنے دھیمے انداز میں کہے تھے کہ شیر محمد نہیں سُن سکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجاہد نے شیردل کا سیل فون ملایا۔کال فوراً ہی مل گئی۔اُس نے داور اور سلیم کے درمیان پکنے والی کھچڑی سے شیردل کو آگا ہ کیا۔شیردل نے جب جواباً کچھ نہ کہا تو مجاہد سوچنے لگا کہ شیردل کو شاید اُس کی بات میں ربط و ضبط کی کمی محسوس ہو ئی ہو۔اُس نے اس بات کا اظہار بھی کر دیا۔
دوسری جانب شیردل کا ذہن احمد شیرانی کی فون کال اور ان کے روئیے کی وجہ سے اُلجھا ہوا تھا۔وہ مجاہد کی بات سُن کر چونک اُٹھا تھا۔شرمندگی سے کہنے لگا۔’’مجاہد میرے دوست میں شرمندہ ہوں۔میں نے تمہاری بات توجہ سے سُنی ہی نہیں۔‘‘
’’کوئی بات نہیں۔میں دوبارہ دہرا دیتا ہو ںیا پھر ہم مل بیٹھتے ہیں۔‘‘مجاہد نے صبروتحمل کا مظاہرہ کیا۔
’’میرا خیال ہے کہ تم آ ہی جاؤ۔‘‘دوسری جانب سے شیردل نے اُسے پتہ سمجھا کر کال ختم کر دی۔
مجاہد نے اپنی موٹر سائیکل سنبھالی اور بتائے ہوئے پتہ کی جانب روانہ ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح کا سیل فون مسلسل مصروف تھا۔انہیں اپنے کئی ماتحتوں کی طرف سے اہم خبریں ملیں تھیں۔ایک بڑے شہر میں واقع احمد شیرانی کی کیمیکل فیکٹری میں ایک بڑی سی چمک دار دھات سے بنی ہوئی ڈش کے بارے میں انہیں بتایا گیا تھا۔ان کی ہدایت کے مطابق جگہ کی ضروری تصاویر لے لی گئی تھیں مگر وہاں موجود مسلح لوگوں سے الجھنے کی کوشش سے اجتناب کیا گیا تھا۔انہوں نے دو اور شہروں میں موجود احمد شیرانی کی کیمیکل کی فیکٹریوں کی محتاط انداز میں نگرانی کا حکم دیا تھا۔
شیردل کا فون ان کے تھکے ہوئے اعصاب کو سکون بخشنے کا باعث ثابت ہوا۔شیردل بتا رہا تھا کہ جہانگیر کی بازیابی کیسے ہوئی اور اب وہ کہاں زیرِ علاج تھا۔اس نے یہ بھی بتایا کہ احمد شیرانی نے فون پہ اسے پہچاننے سے انکار کر دیا تھا۔انہوں نے شیردل کو مناسب الفاظ میں احمد شیرانی کے روئیے کی وجہ بتائی تو شیردل کی الجھن ختم ہوئی اور اُس نے سکون کا سانس لیا۔انہوں نے شیردل کو اپنے دیہی فارم پہ پہنچنے کی تاکید کی۔اُن کا ارادہ بھی وہیں جانے کا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باسط علی ایک مشہورقومی اخبار کا کرائم رپورٹر تھا۔ایک برادر اسلامی ملک کے وزیرِ خارجہ خیرسگالی کے دورے پر آ رہے تھے۔وہ اپنے ملک کے مرکزی وزیرِ دفاع بھی تھے۔ایک عام تاثر یہ تھا کہ وہ دونوں ممالک میں مضبوط تعلقات کے فروغ کے لئے یہ دورہ کر رہے تھے۔باسط علی کا خیال مختلف تھا۔وہ سمجھتا تھا کہ موجودہ حالات میں وزیرِخارجہ کا دورہ دفاعی معاہدوں کے سلسلے میں بھی اہم ہو سکتا تھا۔حکومت کی جانب سے دورے کے کوئی خاص اسباب نہیں بتائے گئے تھے اور اُسے ’’معمول‘‘ کے دورے سے ہی تعبیر کیا گیا تھا۔عام طور پر اخبار کی جانب سے ایسے معاملات کی کوریج ظہیر خان صاحب کرتے تھے۔اُن کی اچانک بیماری کی وجہ سے یہ ڈیوٹی باسط علی کے حصے میں آئی۔
باسط علی اُس وقت ائیرپورٹ کے وی آئی پی لاؤنج میں موجود تھا جب وزیرِ خارجہ کے جہاز کے خیریت سے پہنچ جانے کی خبر نشر ہوئی۔اُن کے استقبال کے لئے کئی مقامی ومرکزی وزراء ائیرپورٹ پر موجود تھے۔میزبان وزیرِ خارجہ بھی استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے۔وی آئی پی لاؤنج میں ہی ایک مختصر سی پریس کانفرنس ہوئی جس سے دونوں ملکوں کے وزراء خارجہ نے خطاب کیا۔اس کے بعد وہ گورنر ہاؤس کی طرف روانہ ہو گئے،جہاں صوبے کے گورنر صاحب نے اُن کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام کر رکھا تھا۔باسط علی ملک کے ایک اہم روزنامہ سے منسلک ہونے کی وجہ سے دعوت میں مدعو تھا۔وہ سکیوریٹی گارڈز کی حفاظت میں جاتے ہوئے مہمان وزیرِ خارجہ کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک زور سے چونک اُٹھا۔اُس کے ماتھے پہ شکنوں کا جال سا پھیل گیا۔اُس نے وہاں ایک ایسے شخص کو دیکھا تھا جس کو وہ وہاں دیکھنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔وہ ایک بڑے انگریزی کے اخبار کے نمائندے کے روپ میں تھا۔باسط علی نہیں جانتا تھا کہ اُس نے اخباری نمائندے کا بہروپ بھر رکھا ہے یا وہ حقیقت میں اُس اخبار سے منسلک ہے؟اُس کی چھٹی حس خطرے کا الارم بجانے لگی تھی۔مہمان وزیرِخارجہ سکیورٹی کے حلقے میں یوں چھپ گئے تھے کہ اُن کی ایک جھلک بھی مشکل سے نظر آ رہی تھی۔تو پھر خطرہ آخر کس بات سے
تھا؟اُس آدمی کی وہاں موجودگی کا آخر کیا مطلب تھا؟وہ کیا چاہتا تھا؟وہ وہاں کیوں موجود تھا؟اُس کے چہرے پہ ایک پراسرار سی مسکراہٹ کیوں تھی؟
اُس نے معزز مہمان سے ایک سوال بھی کیا تھا کہ’’ وہ کتنے دنوں کے لئے آئے ہیں اور اُن کے دورے کا اصل مقصد کیا تھا؟‘‘
معزز مہمان نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اُسے دورے کے پلان پروگرام کی طرف توجہ دلائی تھی۔وہ جواباً صرف سر ہلا کر رہ گیا تھا اور اُس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ گہری ہو گئی تھی۔
ؓٓباسط علی کے ذہن میں کئی سوالات چکرا رہے تھے۔وہ اُس آدمی کی وہاں موجودگی سے پریشان ہو گیا تھا۔ایک غیرملکی مہمان کے ساتھ وی آئی پی لاؤنج میں اُس کا پایا جانا یقیناکچھ معنی رکھتا تھا۔اگر وہ اُس انگریزی اخبار کا نمائندہ نہیں تھا تو ایک اہم جگہ پہ اتنی آسانی سے پہنچ جانا ایک خطرناک بات تھی۔اس موقع پہ ایک سوال یہ بھی اُٹھتا تھا کہ سکیورٹی کے ادارے کیا کر رہے تھے؟کیا اُن کے انتظامات اتنے ہی ناقص تھے کہ جس کا جی چاہا مُنہ اُٹھا کر چلا آیا۔وہ سوچ میں گم تھا کہ آخر اپنے سوالات کے جواب کس سے حاصل کرے؟دور اندھیرے میں ایک کرن روشن ہوئی اور اُس کا دماغ گویا دو سو وولٹ کے بلب ایسا روشن ہو گیا۔وہ جان گیا تھا کہ اُسے کیا کرنا چاہئے۔وہ گورنر کے عشائیہ کو بھول ہی گیا تھا۔اُس نے اُس آدمی کا پیچھا کرنے کا فیصلہ کر لیا۔سب لوگ گاڑیوں کی طرف بڑھ رہے تھے۔باسط علی بھی اپنی گاڑی کی طرف جا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھپ دھپ کی آواز کے ساتھ دو تین اچانک ہونے والے فائر نصرت صاحب کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔وہ اپنے لئے مخصوص کئے کمرے سے فوراً ہی باہر کی جانب لپکے تھے۔وہ اس وقت اپنے دیہی فارم میں موجود تھے اور کرنل فاتح کا انتظار کر رہے تھے۔فارم پر ہر وقت شیر محمد کے علاوہ چار مسلح گارڈز موجود رہتے تھے۔وہ آرمی کے ریٹائرڈ کمانڈوز تھے اور ہر گارڈ دس آدمیوں پہ بھاری تھا۔
’’یہاں کیا ہو رہا ہے؟‘‘انہوں نے بلند آواز میں پوچھا۔فارم پر روشنی کا خاطر خواہ انتظام تھا اور رات کی تاریکی میں بھی سامنے کا منظر واضح تھا۔
اُن کے گارڈز نے تین آدمیوں پہ آٹومیٹک گنز تان رکھی تھیں۔اُن کے ہاتھوں میں بھی خود کار ہتھیار نظر آرہے تھے۔
’’یہ لوگ بلا اجازت ہمارے فارم کی دیواریں پھاند کر داخل ہوئے ہیں اور انہوں نے بلاوجہ فائر بھی کئے ہیں ۔‘‘ایک گارڈ نے جواب دیا۔نصرت صاحب نے نوٹ کیا کہ گارڈز کے ساتھ شیر محمد موجود نہیں تھا۔
’’تم لوگوں نے ہمارے فارم میں ناجائزداخل ہونے کی کوشش کیوں کی؟‘‘نصرت صاحب کا لہجہ رعب دار تھا۔
’’ہم ایک چور کے تعاقب میں تھے۔وہ ہمارے فارم پہ واردات کر کے بھاگا تھا۔‘‘وہ لمبے قد کا دبلا پتلا ساآدمی تھا اور اُس کی آنکھوں میں بلا کی چمک تھی۔
’’تمہیں فارم کے مین گیٹ سے آنا چاہئے تھا۔‘‘نصرت صاحب نے نرمی اختیار کرتے ہوئے کہا۔
’’ ہم اپنے مجرم کو پکڑنے کے لئے کوئی بھی طریقہ اختیار کر سکتے ہیں۔‘‘دوسرے آدمی نے جواب دیا۔وہ کوتاہ قد تھا اور جسم گولائی میں پھیلا ہوا تھا۔اُس کا لہجہ آگ لگا دینے والا تھا۔
’’تم شایدنہیں جانتے ہو کہ کس سے بات کر رہے ہو؟‘‘نصرت صاحب کے گارڈ نے کوتاہ قد شخص کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔
’’اور تم بھی شاید نہیں جانتے ہو کہ کس کے آدمی سے بات کر رہے ہو؟‘‘اُس کا انداز حقارت آمیز تھا۔’’ہمیں اس فارم کی تلاشی لینا ہے۔ہمارا مجرم یہیں چھپا ہوا ہے۔‘‘
اُس کی بات سُن کر نصرت صاحب نے بڑی مشکل سے اپنے غصے کو کنٹرول کیا۔انہوں نے غیرمحسوس انداز میں ایک گارڈ کو آنکھ کا اشارہ کیا۔گارڈ نے آگے بڑھ کر ایک زبردست تھپڑ کوتاہ قد شخص کے مُنہ پہ لگایا۔اُس کا چہرہ خفت سے لال ہو گیا۔
گارڈ نے مضبوط لہجے میں اُن سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔’’تم لوگ ہماری زمین پہ غیرقانونی طور پہ داخل ہوئے ہو۔تلاشی لینے کی بات تو ایسے کر رہے ہو جیسے اپنی خالہ کے گھر آئے ہو۔اب تمہارا فیصلہ کرنل صاحب ہی کریں گے۔ہم تو تمہیں ناجائز دراندازی کے کیس میں اندر کروا دیں گے۔‘‘
کرنل صاحب کا سُن کر اُن کے چہرے زرد پڑ گئے۔وہ شاید نہیں جانتے تھے کہ کس کے فارم میں گھسے ہیں۔
’’انہیں غیر مسلح کر کے باندھ دو۔ان کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔‘‘نصرت صاحب نے گارڈز کو ہدایت کرتے ہوئے کہا اور پھر وہ واپس مُڑ گئے۔
’’سر! ہمیں معاف کر دیں۔ہم سے غلطی ہو گئی۔‘‘لمبے قد والا شخص گڑگڑانے لگا۔حالات کے اچانک پلٹا کھانے سے وہ سب یقینابوکھلا گئے تھے۔
’’جیسا کہا ہے ویسا کرو۔اگر کوئی مزاحمت کرے تو تم جانتے ہو کہ کیا کرنا ہے۔‘‘نصرت صاحب نے لمبے آدمی پہ ایک گہری نظر ڈالتے ہوئے ،اپنے گارڈز کو فری ہینڈ دیتے ہوئے کہا۔
نصرت صاحب کو اپنے کمرے میں آئے ہوئے ابھی چند منٹ بھی نہ ہوئے تھے کہ دروازے پہ ہلکی سی دستک ہوئی۔دستک کے انداز سے وہ سمجھ گئے کہ دروازے پر شیر محمد تھا۔
’’آجاؤ شیر محمد! دروازہ کھلا ہے۔‘‘انہوں نے بلند آواز سے کہا۔
شیر محمد مؤدبانہ انداز میں کمرے میں داخل ہوا اور دھیمے لہجے میں انہیں بتانے لگا کہ’’بغدادی صاحب کا منیجر شہباز خان آیا ہے۔ وہ اُن تین آدمیوں کو چھڑانے کے لئے آیا ہے جنہیں ہمارے گارڈز نے پکڑ رکھا ہے۔‘‘
’’اُسے ڈرائنگ روم میں بٹھاؤ۔میں ابھی آتا ہوں۔‘‘نصرت صاحب نے شیرمحمد کو تاکید کی۔
’’جی میں ابھی اُسے ڈرائنگ روم میں بٹھاتا ہوں۔آپ کی اجازت کے بغیر میں نے اُسے اندر بلانا مناسب نہیں سمجھا تھا۔‘‘شیر محمد کی بات سُن کر انہوں نے صرف سر ہلانے پہ ہی اکتفا کیا۔
اپنے’’مہمان‘‘ کو پندرہ منٹ انتظار کروانے کے بعد وہ ڈرائنگ روم کی طرف چل پڑے۔انہوں نے شہباز خان کو پہلے نہیں دیکھا تھا۔وہ انہیں دیکھ کر صوفے سے اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔وہ لمبے قد کا بے حد صحت مند آدمی تھا۔اُس کا رنگ سرخ و سفید اور عمر تقریباً چالیس سال کے قریب تھی۔اُس کا چہرہ کرخت تھا اور آنکھیں کسی خطرناک تیندوے کی طرح تھیں جو اپنے شکار کو پانے کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہو۔
’’جی فرمائیے۔‘‘نصرت صاحب نے نرم لہجے میں اُسے مخاطب کیا۔
’’سر! ہمارے تین آدمی غلطی سے آپ کے فارم میں داخل ہو گئے تھے۔میں آپ سے درخواست کرنے آیا ہوں کہ انہیں چھوڑ دیں۔‘‘شہباز خان نے مہذب انداز میں درخواست کی۔
’’یہ غلطی کی بات بھی آپ نے خوب کہی۔‘‘نصرت صاحب نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا۔’’آپ کے آدمیوں کے حوصلے کی تو داد دینی چاہئے کہ وہ ہمارے فارم کی زبردستی تلاشی لینا چاہتے تھے۔‘‘
’’سر!ان سے غلطی ہو گئی ہے۔ان پڑھ جاہل ہیں۔آپ درگزر کیجئے۔‘‘شہباز خان نے لجاجت اختیار کی۔اُس کا لہجہ اُس کے چہرے کے تاثرات کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔نصرت صاحب کو لگا جیسے بھیڑیا بھیڑ بننے کی کوشش کر رہا ہو۔
’’حیرت ہے اس زمانہ میں بھی آپ نے ان پڑھ اور جاہل ملازم رکھے ہوئے ہیں۔وہ چونکہ ہمارے فارم میں غیر قانونی طور پر داخل ہوئے ہیں اس لئے ہم انہیں پولیس کے حوالے کرنے کا اپنا حق محفوظ رکھتے ہیں۔‘‘نصرت صاحب نے باوقار لہجہ اختیار کیا۔
’’سر! اب آپ جانیں دیں۔انہیں معاف کر دیں۔‘‘شہباز خان کے لہجے سے انہیں لگا جیسے اُس نے ایک کڑوا گھونٹ بڑی مشکل سے بھرا ہو۔
میں اگر انہیں چھوڑ بھی دوں تو بھی اُن کی تربیت کی طرف آپ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘‘نصرت صاحب اُس کی بے بسی سے لطف اندوز ہو تے ہوئے بولے۔
جواباً جب شہباز خان کچھ نہ بولا تو وہ شیر محمد سے کہنے لگے۔’’ان کے آدمی چھوڑدو۔چیک کر لینا کہ اُن کے پاس اسلحہ کا لائسنس ہے یا نہیں۔‘‘
پھر وہ شہباز خان سے پوچھنے لگے۔’’میرا خیال ہے کہ آپ کے ملازمین کے پاس اسلحہ کا لائسنس تو ضرور ہو گا ورنہ بطور ایک پولیس آفیسر کے یہ میرا فرض بنتا ہے کہ انہیں ناجائز اسلحہ رکھنے کے جرم میں پولیس کے حوالے کیا جائے۔‘‘
’’یہ تو آپ کی فرض شناسی ہے کہ آپ ایسا سوچتے ہیں۔‘‘شہباز خان کا لہجہ عجیب سا ہو گیا۔’’میرے آدمیوں کے پاس باقاعدہ اسلحہ کا لائسنس ہے۔اس سلسلے میں آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔شیر محمد ان کے آدمیوں کو باعزت طور پہ رخصت کرنا۔‘‘شیر محمد کو تاکید کر کے وہ شہباز خان کی طرف متوجہ ہوئے۔’’معاف کیجئے گا میں نے آپ سے چائے یا ٹھنڈے کا پوچھا ہی نہیں۔میں اپنی اس کوتاہی پہ معذرت خواہ ہوں۔‘‘
’’آپ کا بے حد شکریہ۔چائے پھر کبھی پی لیں گے۔مجھے اب اجازت دیجئے۔‘‘شہباز خان نے صوفے سے اُٹھتے ہوئے کہا۔
’’جیسے آپ کی مرضی۔اُمید ہے آئندہ بھی ملاقات ہو گی۔‘‘وہ شہباز خان کو رخصت کرتے ہوئے رسمی جملے ادا کرنا نہیں بھولے۔جاتے جاتے شہباز خان نے انہیں ایسی نظروں سے دیکھا کہ اگر موقع ملے تو وہ اُنہیں کچا ہی چبا جائے۔
شہباز خان اور اُس کے آدمی جب رخصت ہو گئے تو شیر محمد اُن کے پاس آیا۔وہ اُسے دیکھ کر مسکرانے لگے۔
’’صاحب! کوئی خاص بات؟‘‘شیر محمد نے پوچھا۔
’’اچھا اب مجھے اُس کے بارے میں بتاؤ جسے شہباز خان کے آدمی ڈھونڈ رہے تھے۔تم نے اُسے کہاں چھپایا ہے؟‘‘وہ سنجیدگی سے پوچھنے لگے۔
’’میں نے چھپایا ہے۔آپ کو شاید غلط فہمی۔۔۔‘‘شیر محمد اپنا جملہ مکمل نہ کر پایا۔
’’میں تو یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ وہ کون ہے؟‘‘نصرت صاحب نے اُسے جملہ مکمل نہیں کرنے دیا تھا۔
’’کون؟‘‘شیر محمد صرف ایک لفظ ہی کہہ سکا۔
نصرت صاحب نے جب ایک نام لیا تو شیر محمد کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔وہ نصرت صاحب کے درست اندازے پہ حیران رہ گیا تھا۔
نصرت صاحب نے شیرمحمد کے چچازاد بھائی شفیع محمد کا نام لیا تھا۔شیر محمد نے انہیں بتا یا تھا کہ شفیع محمد،بغدادی صاحب کے فارم پہ بطور چوکیدار ملازم تھا۔
’’حیرت ہے۔‘‘شیر محمد انہیں ایسے دیکھ رہا تھا جیسے اُن کے سر پہ سینگ نکل آئے ہوں۔پھرکچھ دیر بعد سنبھل کر پوچھنے لگا۔’’صاحب! آپ کو کیسے پتہ چلا؟‘‘
’’شیر محمد! تم شاید بھول گئے ہو کہ میں ایک پولیس والا ہوں۔‘‘نصرت صاحب اُسے حیرت زدہ دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔
’’آپ تو بڑے افسر ہیں۔آپ بھلا پولیس والے کہاں سے ہو گئے۔پولیس والے تو وہ ہوتے ہیں وہ یعنی کہ سپاہی۔‘‘شیر محمد نے معصومیت سے جواب دیا۔
’’واہ شیر محمد! تمہارا بھی جواب نہیں۔‘‘وہ ہنسنے لگے۔’’تمہارے نزدیک صرف سپاہی ہی پولیس والا ہوتا ہے۔افسر کا پولیس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔‘‘
’’صاحب! میرا یہ مطلب نہیں تھا۔میں تو۔۔۔‘‘شیر محمد بے چارہ گڑبڑا کر رہ گیا تھا۔
نصرت صاحب نے اُسے مزید تنگ نہ کرتے ہوئے سنجیدگی اختیار کی۔’’شفیع محمد کو مناسب جگہ پہ چھپایا ہے یا۔۔۔؟‘‘انہوں نے جملہ ادھورا ہی چھوڑ دیا۔
’’اُس کی تو آپ فکر ہی نہ کریں۔‘‘شیر محمد دفعتہً جوش میں آگیا۔’’اُسے میں نے ایسی جگہ پہ چھپایا ہے کہ جہاں کسی کا خیال بھی نہیں جا سکتا۔‘‘
’’یہ ضروری بھی ہے۔‘‘نصرت صاحب کی سنجیدگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔’’اپنے آدمیوں کو چوکس کر دو۔دشمن رات میں حملہ بھی کر سکتا ہے۔‘‘
’’میں نے سب کو سختی سے تاکید کر دی ہے تاکہ ہر کوئی الرٹ رہے۔‘‘شیر محمد بھی تن کر کھڑاہو گیا۔وہ پھر سے کمانڈو بن گیا تھا۔
’’میرا خیال ہے کہ شفیع محمد یقیناکوئی ایسی بات جانتا ہے جو شہباز خان اور اُس کے ساتھیوں کے نزدیک ہمارے یا کسی اور کے لئے جاننا مناسب نہیں۔‘‘نصرت صاحب کسی گہری سوچ میں تھے۔
جواباً شیر محمد خاموش ہی رہا۔نصرت صاحب کچھ دیر تک اُسے دیکھتے رہے پھر بولے۔’’شفیع محمد کو خاموشی سے یہاں لے کر آؤ اور خیال رکھنا کسی کو پتہ نہ چلے۔‘‘شیر محمد نے عادتاً انہیں سلیوٹ کیا اور خاموشی سے کمرے سے نکل گیا۔
نصرت صاحب کو شیر محمد کا پانچ منٹ تک انتظار کرنا پڑا۔شفیع محمد کو دیکھ کر وہ چونک اُٹھے۔یہ اُن کی اُس سے پہلی ملاقات تھی۔شفیع محمد کی حالت خستہ تھی۔اُس کی حالت سے پتہ چلتا تھا کہ اُس پہ خاصا تشدد کیا گیا ہے۔وہ شیر محمد کی طرح اونچا لمبا اور مضبوط جسم کا مالک تھا۔خستہ حالت کے باوجود اُس کے چہرے پہ ایک عزم تھا۔اُس نے انہیں سلام کیا اور سیدھا تن کر کھڑا ہو گیا۔انہوں نے نوٹ کیا کہ ایسا کرتے ہوئے ایک درد کی لہر اُس کے چہرے پہ لہرا کر رہ گئی تھی۔
’’شفیع محمد! تم یہاں بالکل محفوظ ہو۔اللہ کے بعد ہم تمہاری پوری حفاظت کر یں گے۔‘‘نصرت صاحب نے پورے وقار سے کہا۔
’’سر! اللہ تعالیٰ ہی مدد کرنے والا ہے۔وہ ہی حفاظت کرتا ہے اور انسانوں کو وسیلہ بنا دیتا ہے۔‘‘شفیع محمد کا لہجہ مضبوط تھا۔
نصرت صاحب کو اُس کا جواب پسند آیا تھا۔وہ اُسے سراہتے ہوئے بولے۔’’بے شک اس میں تو شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔میں تمہارا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔تمہیں آرام اور علاج کی ضرورت ہے۔‘‘
’’سر!آپ میری فکر نہ کریں۔آپ پوچھئے جو آپ پوچھنا چاہتے ہیں۔‘‘شفیع محمد نے سینہ تان کر جواب دیا۔
’’بغدادی صاحب کے فارم پر تم نے ایسا کیا دیکھ لیا کہ انہیں تم پر اتنا تشدد کرنا پڑا؟‘‘نصرت صاحب نے پوچھا۔
’’سر! میری ڈیوٹی تو چوکیدار کی ہے اس لئے فارم کے اندر کیا ہوتا ہے اُس سے مجھے کچھ خاص لینا دینا نہیں ہوتا۔آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ مجھے اندر کے معاملات سے بے خبر ہی رکھتے ہیں۔ویسے بے خبری اچھی چیز ہے۔‘‘شفیع محمد کا لہجہ آخر میں عجیب سا ہو گیا۔
نصرت صاحب اُس کی طر ف دیکھتے رہے اور جواباً کچھ نہ کہا۔
شفیع محمد نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔’’تین دن پہلے فارم سے ایک نو دس سال کے بچے نے بھاگنے کی کوشش کی تو میں نے اُسے مین گیٹ کے پاس پکڑ لیا۔اُس نے روتے ہوئے بتایا کہ اُسے یہاں اغوا کر کے لایا گیا ہے اور فارم کے اندر دو اور بھی اغوا شدہ بچے موجود ہیں۔اس سے پہلے کہ میں اُس بچے کیلئے کچھ کر سکتا،اُس کے رکھوالے آ گئے۔وہ فارم کے منیجر شہباز خان کے خاص لوگ ہیں اور کسی اور کو جواب دہ نہیں ہیں۔وہ بچے کو مارتے ہوئے فارم کے اندر لے گئے اور مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کر دیا۔‘‘
شفیع محمد نے سانس لینے کے لئے توقف کیا اور پھر کہنے لگا۔’’مجھے یہ سب عجیب و غریب سا لگ رہا تھا۔مجھے خیال آیا کہ مجھے شہباز خان صاحب سے مل کر یہ بات اُن کے علم میں لانی چاہئے۔ہو سکتا ہے کہ اُن کے خاص کارندے اُن کے حکم کے بغیر کوئی غیر قانونی کام کر رہے ہوں۔یہ سوچ کر میں اُن سے ملا۔انہوں نے میری بات توجہ سے سنی اور پھر اپنے ایک خاص بندے رفیق کو بلایا اور مجھے کہا کہ میں اُس کے ساتھ چلا جاؤں۔مجھے محسوس ہوا جیسے انہوں نے رفیق کو ایک خاص اشارہ کیا ہو۔رفیق مجھے لے کر فارم کے ایک ایسے حصہ کی طرف چلا جس کی طرف میں پہلے کبھی نہیں گیا تھا۔وہ ایک اندھیرا سا کمرہ تھا۔میں جیسے ہی اندر داخل ہوا تو دو تین لوگ مجھ پر ٹوٹ پڑے۔جب تک مجھے کچھ سمجھ آتی انہوں نے مار مار کر میرے ہوش ٹھکانے لگا دئیے۔پھر مجھے انہوں نے باندھ لیا اور ایک طویل تشدد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔‘‘
’’وہ تم سے کیا جاننا چاہتے تھے؟‘‘نصرت صاحب نے دھیمے لہجے میں شفیع محمد سے پوچھا۔
’’وہ مجھ سے یہ جاننا چاہتے تھے کہ اُس لڑکے نے مجھے کیا بتا یا تھا؟میں نے انہیں وہ سب بتا دیا جو مجھے معلوم تھا مگر انہیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ان کا خیال تھا کہ میں اُن سے بہت کچھ چھپا رہا ہوں۔‘‘شفیع محمد بتاتے ہوئے اپنا نچلا ہونٹ بری طرح سے چبا رہا تھا۔
’’انہیں ایسا کیوں لگ رہا تھا کہ جیسے تم اُن سے کچھ چھپا رہے ہو؟‘‘نصرت صاحب نے ایک نکتہ اُٹھایا۔
’’اُن کا کہنا تھا کہ وہ لڑکا تقریباً پندرہ بیس منٹ سے غائب تھا اس لئے اُس نے مجھے بہت کچھ بتا یا ہوگا۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ لڑکا میرے پاس تین چار منٹ سے زیادہ نہیں رکا تھا۔باقی کا وقت اُس نے کہاں گزارا وہ مجھے پتہ نہیں۔وہ یقیناکہیں چھپا رہا ہو گا اور موقع ملتے ہی مین گیٹ کی طرف آیا ہو گا۔‘‘شفیع محمد نے آخر میں خود ہی حالات کا تجزیہ بھی بیان کر دیا۔
نصرت صاحب اُس کے تجزئیے سے متفق تھے۔وہ خاموشی سے اُس کی جانب دیکھ رہے تھے اور کچھ سوچ رہے تھے۔کچھ دیر کے بعد انہوں نے شفیع محمد سے پوچھا۔’’یہ ہی بات تھی یا پھر کچھ اور بھی وہ پوچھ رہے تھے؟‘‘
’’شروع شروع میں تو وہ لڑکے کے معاملے سے متعلق ہی سوال جواب اور پوچھ گاچھ کرتے رہے مگر پھر اُن کا انداز بدل گیا۔‘‘شفیع محمد اُن کا سوال سُن کر چونک اُٹھا تھا۔’’اب وہ پوچھ رہے تھے کہ میں نے فارم پہ اب تک کیا کیا دیکھا ہے؟‘‘
’’اور تمہارا جواب کیا تھا؟‘‘
’’میں نے اُن سے ہمیشہ یہ ہی کہا کہ میں تو محض ایک چوکیدار ہوں۔مجھے فارم کے اندرونی معاملات سے بھلا کیا دلچسپی ہو سکتی ہے مگر انہیں تو یقین ہی نہیں آتا تھا۔وہ مسلسل مار پیٹ میں لگے ہوئے تھے کہ مجھے فرار کا ایک موقع مل گیا۔‘‘شفیع محمد کا انداز ایسا تھا جیسے کہ بول بول کر وہ تھک گیا ہو۔
’’اور کیا یہ بات سچ ہے کہ تمہیں فارم کے معاملات سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔‘‘نصرت صاحب نے تیکھے انداز میں سوال کیا۔
’’اب ایسی بات بھی نہیں۔انسان میں تجسس کا مادہ تو ہوتا ہی ہے۔میں نے پچھلے کئی ہفتوں سے یہ محسوس کیا تھا کہ فارم کی فضا کچھ پراسرار سی ہوگئی تھی۔میں نے وہاں غیر ملکیوں کو آتا ہوا دیکھا مگر ہمیشہ یہ ہی ظاہر کیا جیسے میں نے کچھ بھی نہ دیکھا ہو۔‘‘شفیع محمد نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیا۔
’’غیر ملکیوں سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘
’’اُن میں سفید نسل کے لوگ بھی ہیں اور انڈین بھی؟‘‘
’’تمہیں کیسے پتہ چلا کہ وہ انڈین ہیں؟‘‘نصرت صاحب چونک اٹھے تھے۔
’’آپس میں باتیں کرتے ہوئے کبھی کبھار وہ ہندی کے الفاظ بول جاتے تھے۔میں نے دو تین بار ہی سُنا مگر وہ ہندی الفاظ جیسے ’’وشواس،پرنتو ‘‘بولتے تھے اور کئی الفاظ وہ غلط بولتے تھے جیسے’’ غریب‘‘ کو’’ گریب‘‘ کہتے تھے۔‘‘
نصرت صاحب نے شفیع محمد کے مشاہدے کی داددینے میں فراخ دلی کا مظاہرہ کیا۔شفیع محمد کا چہرہ اُن کی بات سُن کر دمکنے لگا تھا۔
’’تمہیں بھاگنے کا موقع کیسے ملا؟‘‘نصرت صاحب نے آخری سوال پوچھا۔
’’وہاں فارم پہ ایک آدمی ہمارے گاؤں کا بھی ہے۔وہ کھانا پکانے پہ معمور ہے۔اُس نے مجھے بھاگنے میں مدددی تھی۔اُس نے وہ کام اتنی ہوشیاری سے کیا تھا کہ اُس پہ کوئی الزام نہیں آئے گا۔‘‘شفیع محمد کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔
نصرت صاحب نے شیر محمد کو تاکید کی کہ شفیع محمد کا خاص خیال رکھے اور یہ کہ وہ کسی کے سامنے نہ آئے۔شیر محمد جب شفیع محمد کو لے کر چلا گیا تو نصرت صاحب اپنی نشست سے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگے۔ان کے انداز سے بے چینی مترشح تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باسط علی نے مناسب فاصلہ رکھ کر اُس گہرے نیلے رنگ کی کار کا تعاقب شروع کر دیا تھا۔اُس کا مطلوبہ آدمی اُسی کار میں سوار تھا۔نیلی کار ایک مناسب رفتار سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھی۔وہ جلدی میں نہیں معلوم ہوتے تھے۔رات کی سیاہی تیزی سے پھیلتی جا رہی تھی لیکن سڑکوں پہ گاڑیوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔یہ ہی وجہ تھی کہ باسط علی کو تعاقب کرنے میں کوئی شواری نہیں ہو رہی تھی۔ اصل مسئلہ تب شروع ہوا جب نیلی کار کا رخ شہر سے باہر جانے والے علاقے کی طرف ہوا۔اب سڑک پہ گاڑیاں کم ہو گئی تھیں۔باسط علی نے اپنی گاڑی کی رفتار کم کرد ی تھی۔اب وہ آگے جانے والی گاڑی کی عقبی لائٹس کو نظر میں رکھ کر ہی تعاقب کر سکتا تھا اور اُس نے ایسا ہی کیا۔تھوڑی دیر بعد باسط علی کو محسوس ہوا کہ نیلی گاڑی والے اپنے تعاقب سے واقف ہو گئے ہیں۔نیلی گاڑی کی رفتار اچانک ہی تیز ہو گئی تھی۔باسط علی کو بھی اپنی گاڑی کی رفتار میں اضافہ کرنا پڑا۔باسط علی کی آنکھیں سامنے جاتی ہوئی گاڑی پر مرکوز تھیں کہ اُس کے اعصاب یکایک تن گئے۔اُس نے گاڑی کی رفتار کو کم کرنے کے لئے ایمرجینسی بریک لگا یا۔سامنے سڑک پہ ایک د ھماکہ سا ہوا تھا۔باسط علی کے ذہن میں لفظ ’’نیلا دھماکہ‘‘ گونجا تھا۔دھماکہ ہوتے ہی نیلے رنگ کی روشنی سڑک پر پھیل گئی تھی اور تیزی سے اپنا حجم بڑھا رہی تھی۔باسط علی کی کار جیسے ہی رکی اُس نے اُسے سڑک سے اتار کر کچے پہ لے لیا۔نیلی روشنی کی حدت باسط علی کو بند کار کے اندر تک محسوس ہو رہی تھی۔اُس کی کار نیلی روشنی سے پچاس میٹر کے فاصلے پر تھی۔نیلی روشنی اچانک ہی غائب ہوگئی جیسے کوئی شعلہ بجھ گیا ہو۔باسط علی کے اعصاب کچھ دیر کے لئے سنسنی کا شکارہوگئے تھے۔اپنے اعصاب پہ قابو پاتے ہی اُس نے گاڑی کو آگے بڑھا دیا۔نیلی کار جب تک غائب ہو چکی تھی۔اب اُس کی تلاش فضول ہی ہوتی۔باسط علی اس علاقے کی طرف پہلے بھی آ چکا تھا اور جانتا تھا کہ یہاں شہر کے امیر اور متمول لوگوں کے فارم تھے۔وہ آہستہ آہستہ گاڑی چلا رہا تھا کہ اچانک گاڑی ایک جانب ڈولنے لگی۔باسط علی پہ یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ گاڑی کا ایک ٹائر پنکچر ہو گیا تھا۔اُس نے گاڑی کو سنبھالتے ہوئے احتیاط سے سڑک سے اتار لیا۔اچانک پیچھے آنے والی ایک گاڑی نے زور سے بریک لگائے اور وہ باسط علی کی گاڑی کے پیچھے رک گئی۔باسط علی کے د ل کی دھڑکن میں غیر معمولی اضافہ اُس کے بڑھتے ہوئے اضطراب کی نشانی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باسط علی کا ہاتھ تیزی سے گاڑی کے گلوو کمپارٹمنٹ کی طرف بڑھا۔اُس نے اپنے ریوالور کو مضبوطی سے ہاتھ میں پکڑا اور تیزی سے گاڑی کا پسنجر سائیڈ کا دروازہ کھولتے ہوئے رات کی تاریکی میں رینگ گیا۔اُس نے سڑک سے ہٹ کر ایک د رخت کے پیچھے خود کو محفوظ کر لیا تھا۔
وہ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ گاڑی کی طرف آتے ہوئے قدموں کی آواز سن رہا تھا۔آنے والے محتاط معلوم ہوتے تھے اور یقینااپنے آس پاس کے ماحول کاچوکنے انداز میں جائزہ لے رہے تھے۔قدموں کی آواز سے معلوم ہوتا تھا کہ آنے والے ایک سے زائد تھے۔قدموں کی آواز جیسے ہی تھمی،باسط علی کے دل کی رفتار بڑھنے لگی۔ایک کرائم رپورٹر ہونے کی وجہ اُس نے جدید انداز میں لڑنے کی ٹریننگ لے رکھی تھی اور وہ خود کار ہتھیاروں کے استعمال سے بھی واقف تھا البتہ ایسے سنگین مواقع اُس کی زندگی میں کم ہی آئے تھے جب اُسے عملی طور پہ ہاتھ پاؤں ہلانے پڑے ہوں۔
’’ارے یہاں تو کوئی بھی نہیں؟‘‘ایک حیرت زدہ آواز باسط علی کے کانوں سے ٹکرائی۔
’’تم ٹھیک کہتے ہو۔کار میں کوئی نہیں۔‘‘باسط علی کے کانوں کودوسری آواز مانوس محسوس ہوئی۔
’’مجھے لگتا ہے کہ کار والے نے خطرہ محسوس کرتے ہی کار سے نکلنے میں ہی عافیت جانی ہو گی۔‘‘دوسری آواز کو باسط علی پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’ پیسنجر سائیڈ کا درواز کھلا ہوا ہے۔گاڑی والا یقینااسی دروازے سے نکلا ہو گا۔‘‘دوسری آواز نے جیسے ہی دوبارہ باسط علی کی سماعت کو چھوا،اُس نے آواز کو پہچان لیا۔آواز پہچاننے کے بعد چھپے رہنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔وہ بلا خوف درخت کے پیچھے سے نکل آیا۔اُس نے ہر احتیاط پسِ پشت ڈال دی تھی۔باہر نکلتے ہی اُس نے کرنل فاتح کو سلام کیا۔اُس کی گاڑی کے پیچھے رکنے والی گاڑی کرنل فاتح ہی کی تھی۔
’’تو یہ آپ ہیں۔‘‘کرنل فاتح نے باسط علی کے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’جی سر! بس اچانک ہی گاڑی کا ایک ٹائر پنکچر ہو گیا۔‘‘باسط علی نے ہاتھ ملتے ہوئے جواب دیا۔رات کی تاریکی میں چہروں کے نقوش اتنے واضح نہیں تھے پھر بھی باسط علی کی آنکھیں اندھیرے سے مانوس معلوم ہوتی تھیں۔
’’ٹائر اچانک نہیں پنکچر ہوتے یقیناکسی نے کوئی شرارت کی ہے۔‘‘کرنل فاتح کے جواب نے باسط علی کو بے چین کر دیا۔ وہ بے چینی سے پوچھنے لگا۔’’سر!میں آپ کی بات کا مطلب نہیں سمجھا؟‘‘
’’مجھے لگتا ہے کہ تمہاری گاڑی کا ٹائر پنکچر کیا گیا ہے۔شاید سائی لینسر کا استعمال کیا گیا ہے۔‘‘کرنل فاتح نے اپنا اندازہ بیان کیا۔
’’سر !آپ کو کیسے پتہ؟‘‘باسط علی اُن کی بات سن کر حیران رہ گیا تھا۔
’’میرا اندازہ ہے۔‘‘وہ جواباً بولے۔
’’آپ شاید ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ایسا ہونا ناممکن نہیں۔‘‘باسط علی کچھ سوچ کر بولا۔اُس کے ذہن میں غیرملکی کی نیلی گاڑی کا تصور آتے ہی وہ بے چین ہو گیا۔اسے یاد تھا کہ جب پہلی بار اس نے کرنل فاتح سے اس کا ذکر کیا تھا تو ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک آئی تھی مگر وہ اس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا۔
’’یقیناًتمہاری بھی کوئی کہانی ہوگی ورنہ رات کے اس پہر تم یہاں نہ ہوتے۔میرا فارم یہاں سے صرف چند قدموں کے فاصلے پرہے۔وہاں چل کر تمہاری کہانی سنیں گے۔‘‘یہ کہہ کر کرنل فاتح اپنی گاڑی کی جانب پلٹے۔
’’سر! وہ میری گاڑی۔۔۔‘‘باسط علی نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’تم میرے ساتھ آؤ ۔گاڑی کی فکر نہ کرو۔میرے ملازم اسے فارم تک لے آئیں گے اور ٹائر بھی تبدیل کر دیں گے۔‘‘کرنل فاتح نے اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔تھوڑی یر بعد باسط علی،کرنل فاتح کے فارم پر موجود تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے کی فضا میں ایک عجیب سی اداسی کااثر محسوس کیا جا سکتا تھا۔خاموشی نے جیسے درویوار کواپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ایک صوفے پہ شہباز خان بیٹھا تھا اور اُس کے سامنے والے خوبصورت صوفے پہ نارمن زبسکی اورمیجر گنپت راؤ بیٹھے ہوئے تھے۔دونوں کے چہروں پہ تفکرآمیز پریشانی کے اثرات تھے۔
’’ہم سے چند قدموں پہ ہمارا دشمن موجود ہے اور ہمارے سینوں پہ مونگ دل رہا ہے۔‘‘میجرگنپت راؤ نے اپنے پتلے پتلے سفاک ہونٹوں کو بھینچتے ہوئے گفتگو کا آغاز کیا۔
’’میجر صاحب! دشمن کو کم تر نہیں سمجھنا چاہئے۔‘‘شہباز خان نے میجر گنپت راؤ کو احساس دلانا چاہا۔
’’کون کم بخت انہیں کم تر سمجھ رہا ہے۔کرنل فاتح ایک طاقت ور دشمن ہے اور پھر اس کے پاس ایجنسی کی طاقت بھی ہے۔‘‘میجر گنپت راؤ اس بار کھل کر مسکرایا تھا۔
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک خطرناک انسان ہے۔‘‘نارمن زبسکی نے بھی اُن کی تائید کی۔’’ایک بات مجھے پریشان کر رہی ہے کہ میری گاڑی کا یہاں تک پیچھا کرنے والا کون تھا؟وہ غالباً پریس کانفرنس سے ہی میرے پیچھے لگ گیا تھا۔‘‘
’’آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔میرے آدمیوں نے سائی لینسر لگی گنز کے ساتھ اُس کی گاڑی کا ٹائر پھاڑ دیا تھا۔وہ یقینااُسے قابو کر لائے ہوں گے۔‘‘شہباز خان نے بے پروائی سے ہاتھ اوپر اُٹھاتے ہوئے کہا۔
’’اُ س آدمی سے مکمل معلومات حاصل کرو ۔کوئی رعایت نہ کرنا۔کہیں وہ کرنل فاتح کا آدمی ہی نہ ہو۔کرنل خطرناک انسان ہے۔‘‘نارمن زبسکی نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
’’تو آپ اس خطرناک انسان سے کیسے دو دو ہاتھ کرنا چاہیں گے؟‘‘شہباز خان نے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’ہم اُس سے دو دو ہاتھ نہیں کرنا چاہتے۔پرنتو(لیکن)ہمارے کام کا تو اصول ہی یہ ہے کہ کھاموشی(خاموشی) سے کام کر کے نکل جاؤ۔وشواس(بھروسہ) کسی پہ نہ کرو اور نہ ہی کسی کو اپنا راز دو۔‘‘میجر گنپت راؤ کے جواب پر نارمن زبسکی نے بھی تائیدی انداز میں سر ہلایا۔
’’میں آپ دونوں کو سمجھ نہیں پایا۔‘‘شہباز خان نے اعترافی انداز میں کہا۔
’’اگر آپ ہمیں سمجھ سکتے تو پھر ہمارے ادھر آنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا۔‘‘نارمن زبسکی بہترین اردو بولتا تھا البتہ لہجہ اہلِ زبان کی طرح نہیں تھا۔میجر گنپت راؤ کبھی کبھار ہندی کے الفاظ بول جاتا تھا۔
’’تو پھر اب آپ کا کیا مشورہ ہے؟وہ خبیث شفیع محمد بھاگ گیا ہے اور ابھی تک میرے آدمی اُسے ڈھونڈھ نہیں سکے ہیں۔‘‘شہباز خان کی پیشانی پہ شکن پیدا ہو گئی تھی۔
’’میرا خیال ہے کہ ہمیں اُن بچوں کو یہاں سے ہٹا دینا چاہئے۔ایسا نہ ہو کہ کہیں کرنل فاتح یہاں چھاپہ ہی مار دے۔‘‘میجر گنپت راؤ نے اپنا خیال پیش کیا۔
’’کرنل فاتح کی اتنی ہمت نہیں۔یہ بغدادی صاحب کا فارم ہے۔‘‘شہباز خان کے لہجے میں غرور دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔
’’تم کرنل فاتح کو نہیں جانتے۔تم اُس کے اختیارات سے بھی ناواقف ہو۔میں غیر ضروری طور پہ اُس سے تصادم نہیں چاہتا۔‘‘نارمن زبسکی سنجیدگی سے بولا۔
’’تو پھر آپ کیا چاہتے ہیں؟‘‘شہباز خان نے بھی جواباً سنجیدگی اختیار کی۔
’’بچوں کو یہاں سے فوراً ہٹا دو بلکہ ہمیں بھی یہاں سے نکل جانا چاہئے۔کرنل فاتح کے فارم سے اتنا قریب ہماری موجودگی کوئی اچھی بات
نہیں ہے۔‘‘نارمن زبسکی یہ کہتے ہوئے اپنی نشست سے اُٹھ کھڑا ہوا۔اُس نے میجر گنپت راؤ کی طرف دیکھا تو وہ بھی کھڑا ہو گیا۔
’’ٹھیک ہے تو پھر ہم چلتے ہیں۔‘‘نارمن زبسکی نے باہر کی جانب قدم اٹھاتے ہوئے کہا۔’’شہباز خان ! بچوں کو فوراً یہاں سے منتقل کر دو۔‘‘
’’آپ فکر ہی نہ کریں۔میں سارا انتظام کر لوں گا۔‘‘شہباز خان نے انہیں تسلی کروائی۔
تھوڑی دیر بعد نارمن زبسکی اور میجر گنپت راؤ دونوں مختلف گاڑیوں میں فارم سے رخصت ہو رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیر دل کے کئی ساتھی کرنل فاتح کے فارم پر جمع ہو چکے تھے۔رات کافی بیت چکی تھی۔سب اس وقت بڑے کمرے میں موجود تھے۔بڑا کمرہ مہمانوں کے بیٹھنے کے لئے مخصوص تھا اور وہیں ان کی خاطر مدارات کے لئے ایک طرف بڑا سا ڈائننگ ٹیبل بھی لگا ہوا تھا۔کرنل فاتح کے ساتھ نصرت صاحب اور باسط علی بیٹھے ہوئے تھے۔دوسرے صوفے پہ شیر دل،مجاہد،غازی اور مومن نے قبضہ جما رکھا تھا۔
کرنل فاتح نے مختصراً بتایا کہ’’ملک کے دشمن ایک خوفناک کارروائی میں مصروف ہیں۔اس بار حملہ شدید ہو گا۔‘‘انہوں نے خطرے کے بارے میں تفصیل نہیں بتائی۔شاید وہ سب کے سامنے اس بات کا ذکر نہیں کرنا چاہتے تھے۔
’’ہمیں اپنے اللہ پہ پورا بھروسہ ہے کہ ہمارے دشمن اس بار بھی منہ کی کھائیں گے۔‘‘شیردل نے ایک عزم سے کہا۔
’’ان شاء اللہ ایساہی ہو گا۔بہرحال ہمیں اپنا فرض تو ادا کرنا ہی ہے۔‘‘کرنل فاتح نے کا انداز تائیدی تھا۔
نصرت صاحب نے شفیع محمد سے حاصل شدہ معلومات کا ذکر کیا۔باسط علی نے فارم تک پہنچنے کی کہانی سنائی کہ وہ کیسے تعاقب کرتے ہوئے فارم تک پہنچا اور کرنل فاتح کے بروقت پہنچنے کی وجہ سے دشمنوں کے وار سے محفوظ رہا۔اس کی کہانی سن کر کرنل فاتح نے نصرت صاحب کی جانب معنی خیز انداز میں دیکھا۔نصرت صاحب سمجھ گئے تھے کہ باسط علی،نارمن زبسکی کا ذکر کر رہا تھا۔
شیردل اور مجاہد نے اپنی کار گزاری پیش کی اور ایسے موقعے پہ غازی نے بھی بہتر سمجھا کہ وہ بھی پولیس سائرن کی کہانی سنا کر کچھ نمبر ہی بنا لے۔
’’غازی اگر تم وقت پہ نہ پہنچتے تو نہ جانے بے چارہ شیردل کیا کرتا۔‘‘مجاہد نے بظاہر اُس کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔
’’کرنا کیا تھا۔وہ شیردل ہے۔شیر نہ تو کسی سے ڈرتے ہیں اور نہ گھبراتے ہیں۔‘‘غازی نے اُس کی بات کو سمجھتے ہوئے ایک نیا ہی نکتہ پیدا کیا۔
’’اور اگر شیر دشمنوں کے حلقہ میں گھر جائے اور گھبرا جائے تو۔۔۔؟‘‘مومن نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’تو پھر وہ شیر نہیں۔شیر کبھی نہیں گھبراتا۔کیوں میرے شیر میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں؟‘‘آخری جملہ کہتے ہوئے اُس نے شیردل کی کمر پہ ایک ہلکا سا دھپ رسید کیا۔
’’بات شیر کی ہو رہی ہے اور شیر میرے نام کا حصہ ہے بس۔‘‘شیردل نے برا سا منہ بنایا۔اس کے انداز کے مصنوعی پن کو سب ہی محسوس کر سکتے تھے۔
’’شیر میرے نام کا حصہ ہے بس۔‘‘غازی نے اس کے لہجے کی نقل کرتے ہوئے کہا۔’’ہم نے خواہ مخواہ ہی تمہیں آگے کر رکھا ہے کہ تم ہمارے شیر ہو۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ یہ باتیں دلچسپ ضرور ہیں مگر ہمیں ابھی کئی مسائل کا سامنا ہے اس لئے ہمیں سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔‘‘نصرت صاحب نے غازی کو گھورتے ہوئے کہا۔غازی نے فوراً ہی سہم جانے کی ایکٹنگ کی۔
کرنل فاتح کچھ کہنا چاہتے تھے کہ ان کے سیل فون کی گھنٹی بجی۔انہوں نے سیل فون کی روشن اسکرین پہ نظر ڈالی اور فون کان سے لگا لیا۔
وہ خاموشی سے فون سنتے رہے،بیچ میں ہوں ہاں بھی کرتے رہے اور آخر میں انہوں نے کچھ احکامات بھی جاری کئے۔انہوں نے فون بند کیا تو سب ان کی جانب متوجہ ہوگئے۔
’’ہمارے لئے ایک اچھی خبر ہے اور ایک بری۔‘‘ان کی مسکراہٹ سے تھکن نمایاں تھی۔
’’اب آپ کہیں گے کہ پہلے اچھی خبر سناؤں یا بر ی خبر۔عموماً ایسے معاملات میں ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘غازی سے چپ نہ رہا گیا۔
’’اور ہم اگر ایساکر ہی لیں تو کیا حرج ہے۔‘‘کرنل فاتح کی مسکراہٹ یک دم ہی جان دار ہو گئی تھی۔
’’تو پہلے بری خبر سنا دیں۔‘‘غازی نے اپنی جانب سے فیصلہ سنا دیا۔
’’اور دوسروں کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘کرنل فاتح نے دوسروں کی رائے بھی جاننا چاہئے۔
’’ابا جان!آپ بھی کس کی باتوں میں آ رہے ہیں۔یہ تو وقت ضائع کرنے کی مشین ہے۔‘‘شیردل نے غازی کی طرف دیکھتے ہوئے چٹکی لی۔
’’مشین کا کام وقت بچانا ہوتا ہے وہ وقت ضائع نہیں کرتی۔مگر کیا کریں تمہارا جرنل نالج بھی تو کمزور ہے ناں۔‘‘غازی نے ایک ٹھنڈا سانس بھرا۔
’’بھائی جان !آپ جلدی بتائیں کہ آپ کے پاس کیا خبریں ہیں؟‘‘نصرت صاحب نے بات کا رخ بدلنا چاہا۔
’’ہم پہلے بری خبر سناتے ہیں آخر اپنے بیٹے غازی کی بات کا بھرم بھی تو رکھنا ہے ناں۔‘‘کرنل فاتح اب کھل کر مسکرا رہے تھے۔’’بری خبر مختصر ہے۔بغدادی صاحب کے فارم سے مختلف اوقات میں تین گاڑیاں نکلی تھیں۔میرے آدمیوں نے ان کا پیچھا کیا لیکن دو گاڑیوں کاسراغ انہوں نے کھو دیا۔‘‘
’’آپ کے آدمی؟کیا مطلب؟آپ کے آدمی کہاں سے آ گئے؟‘‘مجاہد نے حیرت ظاہر کی۔
’’اچھا سوال ہے۔جاگتا ہوا ذہن ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘کرنل فاتح نے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔’’میری جب شیر محمد سے بات ہوئی تھی تو اس کے بعد فوراً ہی میں نے اپنے آدمیوں کی ڈیوٹی لگا دی تھی کہ بغدادی صاحب کی فارم کی نگرانی کریں۔‘‘
’’اور تیسری گاڑی اس کا کیا ہوا۔۔۔؟‘‘غازی نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہی سوال کر دیا۔
’’تیسری گاڑی کا تعلق اچھی خبر سے ہے۔‘‘کرنل فاتح بتانے لگے۔’’میرے آدمیوں نے تیسری گاڑی اپنے قبضہ میں لے لی ہے۔اس گاڑی سے تین بچے برآمد ہوئے ہیں جن کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ شفیع محمد ٹھیک کہہ رہا تھا۔‘‘نصرت صاحب دھیرے سے بڑبڑائے۔
’’کیوں آپ کو شک تھا کہ وہ صحیح نہیں کہہ رہا۔‘‘غازی نے شوخ انداز میں پوچھا۔
’’تم تو چپ ہی رہا کرو۔‘‘نصرت صاحب نے ڈانٹنے والے انداز میں کہا۔
’’حضرات ملاحظہ فرمائیں۔مابدولت کو زبان بندی کا سامنا ہے اس لئے اب ہماری قیمتی باتیں آپ تک نہیں پہنچ پائیں گی۔‘‘غازی نے اعلان کرنے والے انداز میں واویلا کیا۔
’’شکر ہے اب کچھ دیر توتم چپ رہو گے۔‘‘مجاہد نے باچھیں پھیلاتے ہوئے کہا۔
غازی جواباً مجاہد کو گھور کر رہ گیا۔
’’تم سوچ رہے ہو گے کہ کیا زبان بندی سی زبان بندی ہے۔‘‘مومن نے بھی مزہ لیتے ہوئے کہا۔
’’یہ بند زبان کے ساتھ بھی باتیں کر سکتا ہے۔‘‘شیردل بھی شوخ ہوا۔
’’خبردار! جو کسی نے ہمارے بیٹے کی زبان بندی کی بات کی۔اس کی باتیں تو ماحول کو خوش گوار رکھتی ہیں۔‘‘کرنل فاتح نے غازی کی طرف داری کرتے ہوئے کہا تو غازی نے باڈی بلڈنگ کا پوز بناتے ہوئے اپنے بازو کی مچھلیوں کی نمائش کی۔
’’داور اور سلیم کے معاملہ سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟‘‘مجاہد نے کرنل فاتح سے پوچھا تو باتوں کا رخ حالیہ درپیش معاملات کی طرٖ ف ہو گیا۔
’’اور نارمن زبسکی کا برادر ملک کے وزیرِ خارجہ کی ائیر پورٹ پہ کانفرنس میں موجودگی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟‘‘باسط علی منہ ہی منہ میں بڑبڑایا تھا لیکن اس کی آواز اتنی اونچی تھی کہ سب نے ہی سنا۔
’’ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ دو معاملات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں یا ایک دوسرے سے الگ ہیں؟‘‘کرنل فاتح کے انداز سے یہ جاننا مشکل تھا کہ وہ سوال کر رہے ہیں یا باتوں کا تجزیہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
’’میرا خیال ہے کہ یہ دونوں معاملات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں؟‘‘شیر دل نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
’’وہ کیسے؟‘‘غازی نے بے چینی سے پوچھا۔
’’میرا خیال ہے کہ۔۔۔۔۔‘‘شیردل ایک لمحے کو جھجکا پھر بولا۔’’مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ برادر ملک کے وزیرِ خارجہ کے قتل کی سازش نہ ہو۔‘‘
’’کیا۔۔۔؟‘‘شیردل کی بات سن کر سب ہی سناٹے میں آ گئے تھے۔
کمرے میں یک دم خاموشی چھا گئی تھی۔شیردل کی بات نے سب کو سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔شیردل کی نظریں سب کے چہروں طواف کر رہی تھیں۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘نصرت صاحب نے خاموشی کا طلسم توڑتے ہوئے کہا۔
’’کیا کیسے ہو سکتا ہے اور کیوں نہیں ہو سکتا؟‘‘غازی نے بلا سوچے سمجھے ہی کہہ دیا۔
’’اس بات سے تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘نصرت صاحب نے اسے گھورا۔
’’کوئی بھی کام کسی بھی وقت بغیر کسی کو بتائے بغیرہو سکتا ہے۔ہونے والی چیز کو کون روک سکتا ہے۔‘‘غازی کے مسمسی انداز پہ چہروں پہ مسکراہٹ آگئی۔
’’سوچ سمجھ کر بولنا ہی دراصل عقل مندی کی نشانی ہے۔‘‘مومن نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
’’اسی لئے تم ہمیشہ خاموش ہی رہتے ہو۔‘‘غازی کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔
’’بھئی یہ تم لوگ کن باتوں میں پڑ گئے ہو۔ہمیں سنگین معاملات درپیش ہیں۔‘‘کرنل فاتح نے مداخلت کرتے ہوئے انہیں دوبارہ سوچنے پر مجبور کر دیا ۔
’’شیردل! برادر ملک کے وزیرِ خارجہ کے قتل کی سازش؟تم اس بارے میں کیا کہتے ہو؟‘‘نصرت صاحب نے شیردل کی طرف رخ کیا۔
’’نارمن زبسکی کی ائیر پورٹ پہ ایک صحافی کے بھیس میں موجودگی،داور اور سلیم کا گٹھ جوڑ اور سلیم کا ایک ایسی عمارت میں ملازم ہونا جہاں سے مہمان وزیرِ خارجہ کی کاروں کے قافلے کا گزرنا،باسط صاحب کی گاڑی پہ خاموش فائرنگ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نارمن زبسکی کی ہمارے ملک میں موجودگی۔وہ حکومتوں کے تختے الٹنے اور طاقت ور لیڈروں کے قتل کی پلاننگ کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔یہ ساری باتیں کس طرف اشارہ کرر ہی ہیں؟‘‘شیردل نے حالات کا تفصیلی تجزیہ کیا۔
’’تمہاری باتوں میں تو دم ہے۔‘‘نصرت صاحب نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔’’مگر تمہیں کیسے پتہ چلا کہ مہمان وزیرِ خارجہ کا قافلہ گلیکسی شاپنگ سینٹر کے پاس سے گزرے گا؟یہ بات تو شاید ابھی تک میرے ادارے کے ذمہ داروں تک بھی نہ پہنچی ہو۔‘‘
’’یہ میرا اندازہ ہے۔عموماً برادر ممالک کے اہم رہنماؤں کو شہر کے اس حصے سے گزارا جاتا ہے کیونکہ ایک تو وہ بہت ہی خوبصورت علاقہ ہے دوسرے سڑک کے دونوں جانب عوام کے کھڑے ہوکر استقبال کرنے کے معقول انتظامات ہیں اور سڑک پہ لگے جنگلوں کی وجہ سے لوگ سڑک پہ بھی نہیں آ سکتے اور سیکیورٹی کا رسک بھی کم ہوتا ہے۔‘‘شیردل کے تفصیلی جواب نے کرنل کا فاتح کا سینہ فخر سے پھلا دیا۔
’’میرا خیال ہے کہ تم پڑھائی وڑھائی چھوڑو اور آ کر انٹیلی جینس کا ادارہ جوائن کر لو۔‘‘نصرت صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’پڑھائی بھلے چھوڑ دو مگر وڑھائی نہ چھوڑنا ورنہ اتنی عقل مندی کی باتیں نہ کر سکو گے۔‘‘غازی شریر انداز میں مسکرایا۔
’’تم تو مت ہی بولا کرو۔‘‘نصرت صاحب اس سے ناراض ہوئے۔غازی مسکراتا رہا۔مجال ہے جو اس پہ اس بات کا کوئی اثر ہوا ہو۔
’’شیردل کی باتیں دل کو لگتی ہیں۔اگر ہم فرض کر لیں تو کیا ایجنسیوں اور خفیہ اداروں کو اس کے بارے میں علم نہ ہو گا؟‘‘کرنل فاتح نے نکتہ اٹھایا۔
’’یہ تو اب آپ کو یاڈیڈی ہی کو پتہ ہو گا۔‘‘غازی نے مسکراتے ہوئے چوٹ کی۔
’’تم ٹھیک کہتے ہو مگر ہمارے علاوہ دوسرے ادارے بھی ہیں جن کا کام ہی ایسے معاملات کو دیکھنا ہوتا ہے۔‘‘کرنل فاتح نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’اچھا وہ ادارے جو عموماً سوئے رہتے ہیں اور ان کے جاگنے کے اوقات بھی مقرر نہیں ہیں۔‘‘غازی کہاں باز آنے والا تھا۔
’’عام آدمی کے لئے شاید وہ سوئے رہتے ہوں مگروہ اندھیرے کا تیر ہوتے ہیں برخوردار۔وہ عام آدمی کے سامنے کہاں آتے ہیں مگر اپنا کام وہ کرتے رہتے ہیں۔‘‘کرنل فاتح نے سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے کہا۔
’’میں ذرا اپنے ادارے کے ایک سینئر افسر سے رابطہ کر لوں۔‘‘یہ کہہ کر نصرت صاحب نے اپنا سیل فون کان سے لگا لیا۔جب تک وہ فون پہ بات کرتے رہے سب خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے سوچ میں گم نظر آنے لگے۔
’’شیردل کا خیال صحیح تھا۔‘‘نصرت صاحب نے کال ختم کرتے ہوئے کہا ۔’’پرسوں مہمان وزیرِ خارجہ صدر مملکت سے ملاقات کے لئے جائیں گے تو ان کے راستے کا روٹ گلیکسی شاپنگ سینٹر سے ہو کر گزرے گا۔‘‘انہوں نے مزید وضاحت کی۔
کیا ہم روٹ کو آخر وقت میں بدل نہیں سکتے؟‘‘شیردل کے لہجے سے پریشانی کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔
’’روٹ بدلا جا سکتا ہے اگر اور کوئی چارہ نہ ہو تو مگر ایسا کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔‘‘کرنل فاتح سوچتے ہوئے بولے۔
’’انکل!اس میں کیا رکاوٹ ہے؟‘‘مومن نے پوچھا۔
’’خفیہ ایجنسیوں کے لئے یہ بات بڑی شرم کی ہوتی ہے۔وہ عموماً ایسا انتظام کرتی ہیں کہ ممکنہ حادثے سے بچا جائے۔‘‘کرنل فاتح نے بتایا۔
’’اور اگر حادثہ پھر بھی ہو جائے تو۔۔۔۔؟‘‘مجاہد نے سوال کیا۔
’’حادثے تو مکمل انتظامات کے باوجود بھی ہو جاتے ہیں۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔‘‘کرنل فاتح نے کندھے اچکائے۔
’’ہم اسی کھیت کی مولی ہیں اور مولیوں کی جنگ میں ہم سے کوئی نہیں جیت سکتا۔‘‘غازی نے سینہ تانتے ہوئے کہا۔
’’اور گولیوں،اور بموں اور دھماکوں کی جنگ میں۔۔۔۔؟‘‘مومن نے غازی کو گھورتے ہوئے پوچھا۔
’’تم مولیوں کی اہم خصوصیات سے واقف نہیں ہو۔مولیاں ہی جیتیں گی۔‘‘غازی نے ایک بار پھر ماحول کے تناؤ کو کم کرنے کی کوشش کی۔
’’تو پھر تم مولیوں کے ڈھیر اکٹھے کر لو تاکہ۔۔۔۔۔۔‘‘شیردل کا جملہ ادھورا ہی رہ گیا کیونکہ اچانک ہی دھماکے ہونے لگے تھے۔تیز فائرنگ کی آوازیں آنے لگی تھیں۔کمرے میں موجود سب ہی لوگ فوراً زمین پر لیٹ گئے۔لمحوں میں فائرنگ میں شدت آ گئی تھی۔کرنل فاتح نے سب کو کمرے کے اندر ہی رہنے کے لئے کہا اور خود تیزی سے کمرے سے باہر رینگ گئے۔فائرنگ سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ دو طرفہ تھی یعنی ان کی جانب سے بھی جواب دیا جا رہا تھا۔
کرنل فاتح ایک لمبے کاریڈور میں تھے جہاں فائرنگ کی شدت محسوس کی جا سکتی تھی۔گولیاں کاریڈور کی کھڑکیوں کے شیشوں کو چکنا چور کرتے ہوئے دیواروں میں پیوست ہو رہی تھیں اس لئے کرنل فاتح نے زمین سے اٹھنے کی کوشش نہیں کی اور زمین سے چپکے ہی رہے۔ان کے ہاتھوں میں ان کا سروس ریوالور تھا جو ایسی فائرنگ کی صورت میں کسی کام کا نہ تھا۔نہ جانے کہاں سے گولیاں برسائی جا رہی تھیں۔ان کا ذہن بغدادی صاحب کے آ دمیوں کی جانب تھا۔وہ ہی ایسا کر سکتے تھے۔انہیں اچانک ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی ان کے پیچھے ہو۔وہ تیزی سے پیچھے پلٹے اور پھر ایک ٹھنڈا سانس لے کر رہ گئے۔ان کے پیچھے شیردل تھا۔
’’آئندہ کبھی بھولے سے بھی یوں میرے پیچھے نہ آنا۔‘‘کرنل فاتح نے شیردل کو تلقین کی۔’’ہو سکتا تھا کہ میں تمہیں دشمن جان کر فوراً حملہ کر دیتا۔‘‘
’’سوری!میں آئندہ دھیان رکھوں گا۔بس آپ کو اکیلے باہر آتے ہوئے دیکھ کر نہیں رہ سکا۔‘‘شیردل نے فوراً اپنی غلطی مان لی۔
’’اچھی بات ہے۔اپنی غلطی مان لینا بڑائی کی بات ہے۔‘‘کرنل فاتح نے اسے سراہتے ہوئے کہا۔
’’کچھ اندازہ ہوا کہ حملہ کرنے والے کون ہیں؟‘‘شیردل نے سرگوشی کی۔
’’وہ ہی اندازہ جو تمہارا ہے یا کسی کا بھی ایسے حالات میں ہو سکتا ہے۔‘‘انہوں نے بھی سرگوشی میں ہی جواب دیا۔
’’بغدادی صاحب کے آ دمی۔۔۔‘‘شیردل نے آہستہ سے کہا۔کرنل فاتح سر ہلا کر رہ گئے، بولے نہیں۔
’’ہمیں کچھ کرنا چاہئے۔یوں لیٹے لیٹے تو ہم کچھ نہ کر سکیں گے۔‘‘شیر دل نے دوبارہ سرگوشی کی۔
’’ہم فی الحال کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ہمارے پاس فوری طور پہ حملہ کا جواب دینے کے لئے ایمونیشن نہیں ہے۔ہمارے گارڈز جواب دے رہے ہیں۔‘‘کرنل فاتح نے کہا۔
شیردل ان کی بات سن کر خاموش ہو گیا۔
’’ایسی حالت میں اپنی جان کی حفاظت کرنا ہی سب سے بڑا دفاع ہوتا ہے۔‘‘کرنل فاتح نے شاید اس کی خاموشی کو محسوس کر لیا تھا۔
جواباً شیردل کچھ نہ بولا۔فائرنگ کی شدت میں کمی آتی جا رہی تھی اور پھر اچانک ہی فائرنگ رک گئی۔کرنل فاتح اور شیردل نے فائرنگ رک جانے کے باوجود زمین سے اٹھنے کی کوشش نہیں کی۔یہ دشمن کی چال بھی ہو سکتی تھی۔پندرہ منٹ گزر گئے جب کچھ بھی نہ ہوا تو کرنل فاتح نے واپس کمرے کا رخ کیا۔شیردل بھی ان کے پیچھے تھا۔تھوڑی دیر بعد شیر محمد انہیں اطلاع دے رہا تھا کہ حملہ آوروں نے فارم پہ چاروں جانب سے یلغار کی تھی۔حملے میں ایک گارڈ زخمی ہو گیا تھا مگر اس کے زخم تشویش ناک نہ تھے۔شیر محمد نہیں جانتا تھا کہ حملہ آوروں کا کوئی آدمی ہلاک یا زخمی ہوا یا نہیں۔کسی حملہ آور کی چیخ سنائی نہ دی تھی۔
کرنل فاتح خاموشی سے شیر محمد کی باتیں سن رہی تھے۔شیر محمد کے خاموش ہوجانے پر بھی جب وہ کچھ نہ بولے تو نصرت صاحب غصے سے کھڑے ہو گئے اور دانت پیستے ہوئے کہنے لگے۔’’اس بغدادی کو تو میں اب نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
’’بیٹھ جاؤ۔یہ وقت ہوش میں رہنے کا ہے۔جوش سے کام نہیں بنے گا۔‘‘کرنل فاتح نے انہیں صبر وتحمل کی تلقین کی۔
’’بھائی جان! وہ حد سے بڑھتا جا رہا ہے اور ہم بیٹھے دیکھ رہے ہیں۔‘‘نصرت صاحب نے احتجاجاً کہا۔
’’مگر آپ تو کھڑے ہیں۔‘‘غازی سے ایسے عالم میں بھی چپ نہ رہا گیا۔
’’تم چپ رہو۔‘‘نصرت صاحب نے اسے ڈانٹ دیا اور وہ منہ بسورنے کی ایکٹنگ کرنے لگا۔
’’ہمارے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہ حملہ بغدادی صاحب کے آدمیوں نے کیا ہے؟‘‘کرنل فاتح ان سے پوچھ رہے تھے۔
’’جب ہم اس کے آدمیوں کے الٹا لٹکائیں گے تو سب فر فر بول دیں گے۔‘‘نصرت صاحب نے ہاتھ ملتے ہوئے جواب دیا۔
’’مگر کس چارج میں؟‘‘کرنل فاتح مسکرائے۔’’وہ گلی کے غنڈے نہیں ہیں کہ جن پہ پولیس کا راج چلتا ہے۔ہمیں سوچ سمجھ کر ان کے حملے کا جواب دینا ہو گا۔‘‘
’’انکل! مجھے تو لگتا ہے کہ یہ حملہ انہوں نے اس لئے کیا ہے کہ تاکہ ہمیں جواب دے سکیں۔آپ کے آدمیوں نے ان سے اغواشدہ بچے جو چھین لئے تھے۔‘‘مومن نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
’’مجھے لگتا ہے کہ وہ ہماری توجہ اصل بات سے ہٹانا چاہتے ہیں۔‘‘مجاہد نے کہا۔
’’اصل بات۔۔۔؟ نصرت صاحب نے سوالیہ انداز میں مجاہد کی طرف دیکھا۔
’’جی ہاں! اصل بات شاید مہمان وزیرِ خارجہ کے خلاف سازش ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ ہم بغدادی صاحب کے معمولی کارندوں سے الجھتے رہیں اور وہ اپنا کام کر کے نکل جائیں۔‘‘جواب شیردل کی طرف سے آیا۔شیردل کے جواب نے لمحے بھر کے لئے سب کو ششدر کر دیا۔
’’میرا خیال ہے کہ ایسا ہی ہے۔’’کرنل فاتح نے شیردل سے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔’’ہمیں فوراً ایکشن میں آنے کی ضرورت ہے۔‘‘
کچھ دیر کے بعد سب ہی کرنل فاتح کی بات سن رہے تھے۔ایک طویل مشورے کے بعد ان میں اس بات پہ اتفاق ہو گیا کہ آئندہ کیا کرنا ہے۔جب سب نے اپنی ذمہ داریاں سمجھ لیں تو وہ فارم ہاؤس سے رخصت ہو گئے۔باسط علی بھی ان میں شامل تھا اور اس نے اپنی عملی خدمات پیش کی تھیں مگر کرنل فاتح نے اس سے کہا تھا کہ’’ وہ اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے ہی ان کی مدد کر سکتا ہے۔‘‘وہ ان کی بات سن کر خاموش ہو گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اغواشدہ بچوں کو مناسب طبی امداد دی جا چکی تھی۔وہ اب اپنے ہوش و حواس میں تھے۔تینوں ابھی حال ہی میں اپنے والدین کے ساتھ واپس وطن لوٹے تھے۔وہ ڈاکٹر قاضی،پروفیسر رضا اور ڈاکٹر ہوشانی کے بچے تھے۔تینوں اپنے اپنے شعبے کے ماہرین میں شمار ہوتے تھے اور مغربی ممالک میں اعلیٰ مشاہرے اور ترغیبات کو چھوڑ کر وطن کی خدمت کے جذبے کے ساتھ ملک واپس آئے تھے کہ ان کے بچے اغوا ہو گئے۔بچوں کو ان کے اسکول سے اغوا کیا گیا تھا اور وہ بری طرح سے سہمے ہوئے تھے۔بڑی مشکل سے وہ اپنے والدین کا نام پتہ بتا پائے تھے۔کرنل فاتح کی کوششوں سے بچے اپنے گھروں کو واپس جا چکے تھے۔ڈاکٹرہوشانی اور پروفیسر رضا نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ وہ باز آئے ایسے وطن کی خدمت کرنے سے جہاں ان کی جان و مال بھی محفوظ نہیں۔وہ واپس جانے کی بات کر رہے تھے البتہ ڈاکٹر قاضی نے کہا تھا کہ’’لگتا ایسا ہے کہ کوئی شخص یا گروہ نہیں چاہتا کہ ہم اپنے وطن کے لئے کام کریں۔اس لئے بچوں کو اغوا کیا گیا تاکہ ہم ڈر کر بھاگ جائیں۔‘‘
کرنل فاتح ڈاکٹرقاضی کے کے تجزئیے سے متفق تھے۔انہوں نے ڈاکٹر ہوشانی اور پروفیسر رضا کو بہت سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر وہ دونوں بہت زیادہ ڈر گئے تھے۔
کرنل فاتح سوچ رہے تھے کہ ’’کیا اس سارے چکر کے پیچھے بغدادی صاحب،نارمن زبسکی اور میجر گنپت راؤ ہی ہیں یا کچھ دوسرے لوگ بھی ہیں؟اگر دوسرے لوگ بھی ہیں تو وہ کون ہیں اور اب تک نظروں کے سامنے کیوں نہیں؟اگر ایسا ہے تو ان کو کیسے سامنے لایا جائے اور وطن عزیز کو ان کے ناپاک ارادوں سے کیسے بچایا جائے؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہانگیر کا مناسب علاج ہو رہا تھا۔وہ ہسپتال میں رہ رہ کر تنگ آ چکا تھا اور اب گھر جانا چاہتا تھا۔ڈاکٹر صاحب کے کہنے پر شیردل کو بلایا گیا تھا کیونکہ جہانگیر بضد تھا کہ وہ ابھی گھر جائے گا۔
شیردل نے اسے سمجھایا۔’’دیکھو جہانگیر! حالات ابھی ٹھیک نہیں ہیں۔تمہارے والدین کو تمہاری بازیابی کی اطلاع مل چکی ہے اور وہ بھی تم سے ملنے کے لئے بے چین ہیں لیکن دل پہ صبر کا پتھر رکھ کر بیٹھے ہیں۔ان کی بھی نگرانی ہو رہی ہے اور تمہارے دشمن اس بار تمہیں دیکھتے ہی گولی مار دیں گے۔‘‘
’’میں پھر بھی گھر جانا چاہوں گا۔‘‘جہانگیر نے بچوں کی طرح ضد کرتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر جاؤ۔خود بھی موت کا مزہ چکھو اور اپنے ماں باپ کی موت کا بھی سبب بنو۔‘‘شیردل کا لہجہ یکایک سفاک ہو گیا۔
’’کیا ۔۔۔کیا۔۔۔یہ تم کیا کہہ۔۔۔رہے ۔۔ہو؟‘‘جہانگیر شیردل کے انداز پہ بوکھلا گیا۔
’’جب تم نے عقل نہ استعمال کرنے کا ارادہ کر ہی لیا ہے تو پھر تمہاری کوئی بھی مدد نہیں کر سکتا۔‘‘شیردل کا لہجہ بدستور رہا۔
’’میں کیا کروں؟نہ جانے وہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟‘‘جہانگیر نے دونوں ہاتھوں میں سر تھام لیا۔
’’وہ تمہارے ہی نہیں بلکہ ہمارے ملک کے بھی دشمن ہیں۔دشمنوں سے توکچھ بھی بعید نہیں اور پھر ہم ان کے عزائم سے بھی ابھی پوری طرح واقف نہیں۔‘‘شیردل نے لہجے کو ذرا نرم کرتے ہوئے کہا۔
’’اچھا! میں تمہاری بات مانوں گا اور جانے کی ضد بھی نہیں کروں گا ۔کیا تم مجھے ممی اور ڈیڈی سے ملوا سکتے ہو؟‘‘جہانگیر نے امید بھری نظروں سے شیردل کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’میں یہ بات تمہیں بعد میں بتاؤں گا۔اس میں شاید کچھ وقت لگ جائے۔‘‘شیردل نے کوئی حتمی وعدہ نہیں کیا۔
جہانگیر جواباً کچھ نہیں بولا۔اس نے اپنا سر تکیہ پہ رکھ کر آنکھیں موند لیں جیسے کسی لمبے سفر کے بعد اب آرام کی خواہش ہو۔شیر دل ایک لمحے تک اس کی جانب دیکھتا رہا اور پھر آئستگی سے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح نے اگلے ہی دن احمد شیرانی سے مالی کرم الٰہی کے بھیس میں ملاقات کی اور انہیں کچھ بتانے اور سمجھانے لگے۔احمد شیرانی پہلے تو انکار کرتے رہے پھر ان کی بات مان گئے۔ان کے انداز میں ایک عجیب سی بے بسی تھی۔وہ جانتے تھے کہ ان کا بیٹا جہانگیر اب دشمنوں کے قبضے میں نہیں لیکن پھر بھی کرنل فاتح کا مشور یہ تھا کہ وہ شہباز خان کی بات مان کر اپنی چاروں فیکٹریوں کو شہباز خان کی شرائط پر اس کے حوالے کر دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد شیرانی کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے شہباز خان کو فو ن کیا تو اس نے کہا۔’’آپ فون امیر شاہ کو دے دیں۔‘‘امیر شاہ ان لوگوں کا سرغنہ معلوم ہوتا تھا جو احمد شیرانی کے گھر پہ زبردستی قابض تھے۔
احمد شیرانی صاحب خاموشی سے کھڑے امیر شاہ کو فون پر جی جی کرتے سن رہے تھے۔’’آپ فکر ہی نہ کریں خان جی۔میں سمجھ گیا۔‘‘یہ کہہ کر اس نے فون احمد شیرانی صاحب کی طرف بڑھا دیا۔’’خان جی!آپ سے بات کریں گے۔‘‘
’’ہاں تو بھئی شیرانی صاحب! پھر آپ نے کیا فیصلہ کیا؟‘‘شہباز خان دوسری طرف سے فاتحانہ انداز میں پوچھ رہا تھا۔
’’آپ معاہدے کے کاغذات لے کر آ جائیے۔میں آپ کی بات ماننے کے لئے تیار ہوں۔‘‘احمد شیرانی نے اپنے لہجے سے پتہ نہیں لگنے دیا کہ وہ یہ بات کہتے ہوئے کتنے دکھی تھے۔
’’یہ بات ہوئی ناں۔میں ابھی حاضر ہوا۔‘‘شہباز خان کا اونچا قہقہہ ان کے تن بدن میں آگ لگا گیا۔شہباز خان نے انہی کے فون پہ ایک بار امیر شاہ سے پھر بات کی۔
’’سر!ہماری طرف سے آپ کو جو تکلیف ہوئی اس کے لئے ہم معذرت خواہ ہیں۔ہم تو حکم کے غلام ہیں۔اب خان جی کا حکم ملا ہے کہ ہم سب واپس آ جائیں۔اس لئے ہم اب جا رہے ہیں۔‘‘امیر شاہ کی باتیں سن کر ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔
’’کیا تم واقعی ہی جا رہے ہو؟‘‘وہ ابھی تک حیرت زدہ تھے۔
’’جی سر!ہمیں یہ ہی حکم ملا ہے۔‘‘امیر شاہ نے ادب سے جواب دیا۔احمد شیرانی نے دیکھا کہ تھوڑی دیر بعد وہ سب امیر شاہ کے ساتھ رخصت ہو رہے تھے۔
احمد شیرانی صاحب نے احتیاط کا دامن نہ چھوڑتے ہوئے، باتھ روم میں جا کر کرنل فاتح کواپنے سیل فون سے کال کی۔انہوں نے وہ ہی سم استعمال کی تھی جو انہیں کرنل فاتح نے دی تھی۔
کرنل فاتح نے ان سے کہاکہ’’ وہ خاموشی سے شہباز خان سے معاہدہ کر لیں اور فکر نہ کریں ۔ان کی حالات پہ نظر ہے۔‘‘
احمد شیرانی کا دل گھبرا رہا تھا اور نہیں جانتے تھے کہ آئندہ کیا ہونے والا تھا۔اس بات کی انہیں تسلی تھی کہ کرنل فاتح نے معاہدے والی بات کچھ سوچ سمجھ کر ہی کی ہوگی۔
آدھے گھنٹے بعد انہیں ملازم نے شہباز خان کی آمد کی اطلاع دی۔وہ شہباز خان سے بہت اچھی طرح سے پیش آئے اور کوشش کی کہ ان کے چہرے سے گھبراہٹ ظاہر نہ ہو۔
شہباز خان کی مسرت کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔وہ خوشی سے بھرپور لہجے میں بولا۔’’شیرانی صاحب!آپ ہم سے معاہدہ کر کے کبھی بھی گھاٹے میں نہ رہیں گے۔اور آپ کے لئے ایک خوش خبری بھی ہے۔‘‘
’’خوش خبری؟وہ کیا؟‘‘احمد شیرانی نے نہ سمجھ میں آنے والے انداز میں پوچھا۔
’’خوش خبری یہ ہے کہ اب ہمیں آپ کی فیکٹریوں کی لیز نو مہینے کی بجائے صرف چھ مہینے کے لئے چاہئے اور ہم اس کے لئے آپ کو ایک خطیر رقم پیش کریں گے۔‘‘شہباز خان نے شاہانہ انداز میں کہا۔
’’آپ میری فیکٹریوں کا کیاکریں گے؟‘‘احمد شیرانی نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’آپ کااس سے کیا لینادینا۔‘‘شہباز خان نے بے رخی سے کہا۔’’ہم آپ کو مناسب رقم پیش کر رہے ہیں اور اس میں آپ کا کوئی نقصان نہیں ہو گا۔‘‘
’’نہیں میں تو ایسے ہی پوچھ رہا تھا۔‘‘احمد شیرانی جھینپ کر بولے۔
’’اب کام کی بات ہو جائے۔‘‘شہباز خان نے کاغذات کا پلندہ اپنے بریف کیس سے نکالتے ہوئے کہا۔
’’اور میرا بیٹا؟‘‘احمد شیرانی نے بیتابی کا مظاہرہ کیا۔
شہباز خان کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔اس کا انداز خطرناک ہو گیا۔کہنے لگا۔‘‘اگر اس کی زندگی چاہتے ہو تو آئندہ کوئی فضول سوال مت کرنا۔‘‘وہ آپ سے اچانک ہی تم پہ آگیا تھا۔
’’مگر تم نے تو کہا تھا کہ معاہدہ ہوتے ہی میرے بیٹے کو لوٹا دو گے۔‘‘احمد شیرانی کا انداز شکستہ سا تھا۔
’’ہاں کہا تھا مگر اب ہمارا ارادہ بدل گیا ہے۔‘‘شہباز خان کے انداز میں بے پرواہی تھی۔’’تمہارا بیٹا ہمارے پاس حفاظت سے رہے گا تاکہ تم کوئی چالاکی نہ کر سکو اور نہ ہی پولیس کے پاس جا سکو۔‘‘
’’یہ تم اچھا نہیں کر رہے۔‘‘احمد شیرانی اپنی ایکٹنگ پر خود بھی حیران تھے۔وہ جانتے تھے کہ ان کا بیٹا جہانگیر محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
تھوڑی دیر کے بعد معاہدے پر دستخط ہو گئے تو شہباز خان بولا۔’’معاہدے کی کاپی میں جلد ہی بجھوا دوں گا اور خبردار جو کبھی پولیس یا خفیہ والوں کی مدد لینے کی کوشش کی ورنہ تمہارا بیٹا؟‘‘شہباز خان نے گلے پہ ہاتھ پھیر کر اشارتی انداز میں انہیں بتا دیا کہ ورنہ کیا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہمان وزیرِ خارجہ کی صدر مملکت سے ملاقات سے ایک دن پہلے کرنل فاتح اور ان کے ساتھی’’روٹ‘‘ کا معائنہ کر رہے تھے۔شیردل بھی ان کے ساتھ تھا۔سب ہی سادہ لباس میں تھے۔گلیکسی شاپنگ سینٹر کے آس پاس کا علاقہ بڑی توجہ سے دیکھا گیا تھا۔گلیکسی شاپنگ سینٹر کے ملازم سلیم کی ہر دم نگرانی ہو رہی تھی ۔نارمن زبسکی اور میجر گنپت راؤ کے موجودہ ٹھکانے سے کوئی بھی واقف نہیں تھا۔بغدادی صاحب اور ان کے جاننے والوں کی بھی نگرانی جاری تھی۔کرنل فاتح نے ملک کے دو اور اہم سکیورٹی اداروں کو بھی اس مہم میں شامل کر لیا تھا۔دونوں اداروں کے سربراہ ان کی باتیں ماننے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے کیونکہ ان کی انٹیلی جینس نے کوئی ایسی خبر نہ دی تھی۔کرنل فاتح نے بلاخر انہیں قائل کر ہی لیا ۔یہ آپریشن ملک کے تین اہم قانون نافذ کرنے والے ادارے مل کر کر رہے تھے۔کرنل فاتح کو متفقہ طور پہ آپریشن کا انچارج مقرر کیا گیا تھا۔کرنل فاتح اس وقت ایک عام سی موٹر سائیکل پہ شیردل کے ساتھ اپنے مطلوبہ علاقے میں چکر لگا رہے تھے۔دونوں نے میک اپ کا سہارا لے کر بھیس بدل رکھا تھا۔انہیں پہچاننا اتنا آسان نہیں تھا۔وہ گلیکسی شاپنگ سینٹر سے تقریباً آدھا کلو میٹر دور آ چکے تھے جب انہوں نے موٹر سائیکل سڑک کے کنارے پہ روک لی۔انہوں نے کچھ دیکھا تھا اور ان کے ماتھے پہ بل پڑ گئے تھے۔شیردل نے یہ بات نوٹ کر لی تھی۔اس نے ان کی نظروں کا تعاقب کیا اور اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔وہ جانتا تھا کہ کرنل فاتح اس وقت کیا سوچ رہے تھے۔اگر ایسا تھا تو یہ بہت ہی خطرناک صورت حال تھی۔
’’یہاں اس چیز کی موجودگی کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘کرنل فاتح نے منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں۔‘‘شیردل نے سنجیدگی سے کہا تو وہ چونک اٹھے جیسے بھول ہی گئے ہوں کہ شیردل بھی ان کے ساتھ ہے۔
’’تمہارے خیال میں یہ کیاہے؟‘‘انہوں نے پوچھا تو شیردل نے اپنا خیال ظاہر کر دیا۔ان کے سامنے ہی ایک دیو ہیکل کرین کھڑی تھی۔حیرت کی بات تو یہ تھی کہ وہاں کسی بھی تعمیری کام کے آثار نہیں تھے۔
’’پتہ کرنا پڑے گا۔‘‘یہ کہہ کر کرنل فاتح اپنے سیل فون سے کسی کو فون کرنے لگے۔رابطہ ہوتے ہی وہ کسی سے فون پہ چند منٹ تک بات کرتے رہے۔اس دوران شیردل گھوم پھر کر حالات کا جائزہ لیتا رہا۔
’’بلدیہ کی جانب سے تو یہاں کوئی بھی تعمیراتی منصوبہ شروع نہیں ہونے والا اور نہ ہی انہوں نے کسی کو یہاں کرین لانے کی اجازت دی ہے۔‘‘کرنل فاتح نے اپنی گفتگو کا خلاصہ بیان کیا۔
’’اپنے مخصوص نشانات کی وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کرین مقامی بلدیہ کی ہی ہے۔‘‘شیردل اتنی دیر میں کرین کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کر چکا تھا۔
’’بلدیہ والے کہتے ہیں کہ انہیں اس بات کی کوئی خبر نہیں کہ ان کی کرین یہاں کیسے پہنچی۔‘‘کرنل فاتح کچھ سوچتے ہوئے بولے۔’’مجھے اپنے مخصوص ساتھیوں کی ڈیوٹی لگانی پڑے گی کہ وہ معلوم کریں کہ یہ کرین یہاں کیسے پہنچی اور کس مقصد کے لئے یہاں اسے رکھا گیا ہے۔‘‘
شیردل اس دوران کچھ نہیں بولا۔کرنل فاتح نے اپنے آدمیوں کی ڈیوٹی لگا دینے کے بعد ایک جگہ فون کیا اور پھر شیردل سے کہنے لگے۔’’ایسا کرتے ہیں کہ راستے میں پروفیسر حشام کے ہاں سے ہو کر چلتے ہیں۔‘‘گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے وہ شیردل کو پروفیسر حشام کی کہا نی سنانے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’پروفیسر صاحب کا ہم سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ان کے ادارے کی جانب سے ایک دن ہمیں بتایا گیا تھا کہ انہیں اچانک ہی ایک اہم کام کے سلسلے میں چین جانا پڑ رہا ہے۔‘‘بیگم حشام نے نہیں بتایا۔انہیں پروفیسر حشام کی کوٹھی تک پہنچنے میں کوئی دقت نہ ہوئی تھی۔
’’ان کے ادارے کے ذمہ دار لوگ کیا کہتے ہیں؟‘‘کرنل فاتح نے پوچھا۔
’’وہ کہتے ہیں کہ ان کا قیام چین میں طویل ہو گیا ہے۔اگر ایسا بھی ہے تو وہ ہم سے رابطہ تو کر سکتے تھے۔فون کے ذریعے سے،اسکائیپ،ای میل یا کسی اور طریقے سے۔۔۔۔‘‘بیگم حشام کی آنکھیں برسنے کو تیار تھیں۔
’’آپ کی بات درست ہے۔‘‘کرنل فاتح نے سر ہلایا۔’’آج کے دور میں دنیا کے کسی بھی حصے سے فوراً رابطہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘
’’ہمیں لگتا ہے کہ جیسے ہم سے کچھ چھپایا جا رہا ہو۔‘‘بابرحشام نے اپنا خیال ظاہر کیا۔وہ پروفیسر حشام کا بڑا بیٹا تھا۔
’’کیاپروفیسر صاحب کے جانے کے بعد ان کے ادارے کے لوگوں نے ان کے کمرے کی تلاشی لی تھی۔‘‘کرنل فاتح نے بابر سے پوچھا۔
’’جی ہاں! ہمیں بتایا گیا تھا کہ پروفیسر صاحب کے کچھ ضروری کاغذات ان کے کمرے میں موجود ہیں جن کی ضرورت ہے۔‘‘بیگم حشام نے جواب دیا۔
کرنل فاتح نے پروفیسر حشام کے کمرے کا سرسری سا جائزہ لیا۔اس کے بعد وہ بیگم حشام اور بابر سے یہ وعدہ کر کے نکلے کہ وہ پروفیسر صاحب کے بارے میں معلومات حاصل کے انہیں بتائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دن شہر کے چار مختلف حصوں میں بم کے شدید دھماکے ہوئے۔درجنوں لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے۔پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہر طرف بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔
کرنل فاتح نے نصرت صاحب اور شیر دل سے کہا کہ ’’یہ بم دھماکے ہماری توجہ ہٹانے کی ایک کوشش بھی ہو سکتی ہے۔اس لئے ہمیں اپنے مقصد کو سامنے رکھنا چاہئے۔قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا کام انجام دے رہے ہوں گے۔‘‘
’’ہو سکتا ہے کہ ان دھماکوں کی وجہ سے مہمان وزیرِ خارجہ کو صدرِ مملکت سے ملاقات کے لئے کسی محفوظ طریقے سے لے جایا جائے۔‘‘شیردل نے خیال ظاہر کیا۔
’’ہو تو سکتا ہے مگر میرا ایسا خیال نہیں۔‘‘کرنل فاتح بولے اور پھر وہ اپنے سیل فون پہ کسی سے بات کرنے لگے۔
’’پروگرام میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی البتہ حفاظتی انتظامات سخت کر دئیے گئے ہیں۔‘‘کرنل فاتح نے فون پہ ہونے والی گفتگو سے انہیں آگاہ کرتے ہوئے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح اس وقت گلیکسی شاپنگ سینٹر سے آدھا کلومیٹر کے فاصلے پر موجود تھے۔ان کے سامنے دیو ہیکل کرین موجود تھی اور اس کا وہ حصہ یعنی کیبن جس میں کرین ڈرائیور بیٹھتا ہے ،سڑک پہ جھکا ہوا تھا۔سڑک پہ جھکا ہونے کے باوجود وہ زمین سے پچاس میٹر اوپر ہوا میں معلق تھا۔ایک عام آدمی شاید اس کی موجودگی کو محسوس بھی نہ کر سکتا۔وہ کرنل فاتح تھے جو مشکل سے مشکل چیلنج کو قبول کرتے ہوئے نہیں گھبراتے تھے۔
وہ اس وقت سوچ رہے تھے کہ’’کیا ان کا یہاں سب سے الگ بیٹھ رہنا مناسب ہے؟کیا وہ صحیح راستے پہ ہیں؟کیا مجرم یہاں سے حملہ کر سکتے ہیں ؟مگر کیسے؟‘‘انہوں نے کرین کو وہاں سے ہٹانا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ان کے ماتحت جگہ جگہ پھیلے ہوئے تھے اور ابھی تک انہوں نے کوئی غیرمعمولی نقل و حرکت نوٹ نہیں کی تھی۔کرین سے پانچ سو گز دور دو عمارتیں تھیں ایک تین منزلہ عمارت تھی اور دوسری پانچ منزلہ۔دونوں حکومتی اداروں سے متعلق تھیں۔
کرنل فاتح سوچ رہے تھے کہ ’’کرین کی وہاں موجودگی کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آرہی ۔‘‘کرین کے ڈرائیور والے کیبن میں کوئی نہیں تھا۔اس کی کئی بار تلاشی لی جا چکی تھی۔ان کا ایک ماہر نشانہ باز کرین کے کیبن میں چھپا بیٹھا تھا۔یہ عمل رات کے اندھیرے میں ہی مکمل کر لیا
گیا تھا اور اس کے بعد سے کسی نے کرین کے پاس جانے کی کوشش نہیں کی تھی۔
’’آخر کرین کی وہاں کیا ضرورت تھی؟اس کو حملے کی صورت میں کیسے استعمال کیا جا سکتا تھا؟اگر میں ہوتا تو کیا کرتا؟‘‘کرنل فاتح منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہے تھے۔انہوں نے ایک نظر کرین کے کیبن پہ ڈالی اور پھر اپنی نظروں کے زاوئیے کو بدلتے ہوئے آس پاس نظر دوڑانے لگے۔کچھ سوچ کر انہوں نے ایک انتہائی حساس دوربین آنکھوں سے لگائی۔دور کی چیزیں بہت پاس نظر آ رہی تھیں۔وہ چاروں جانب نظریں دوڑا رہے تھے کہ اچانک انہیں کسی کی ہلکی سی جھلک نظر آئی۔انہوں نے دوربین کے بغیر ہی سمت کا اندازہ لگانا چاہا۔انہوں نے کرین کی جانب دیکھتے ہوئے اپنی مطلوبہ سمت کا اندازہ کر لیا۔کچھ دیر وہ اسی جانب دیکھتے رہے۔ان کے ہونٹوں پہ ایک غیرمعمولی سفاک مسکراہٹ تھی۔تھوڑی دیر بعد وہ نہایت احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مخصوص سمت میں روانہ ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قانوں نافذ کرنے والے اداروں نے گلیکسی شاپنگ سینٹر کا غیر محسوس انداز میں گھیراؤ کر لیا تھا۔نصرت صاحب بھی اپنی ٹیم کے ساتھ موجود تھے۔شیردل،مومن اور مجاہد بھی ان کے ساتھ تھے۔غازی کرنل فاتح کی ٹیم میں تھا۔شیردل اس کی بات سن کر حیران رہ گیا تھا کہ وہ کرنل فاتح کی ٹیم میں رہے گا۔شیردل کا اپنا ارادہ تو یہ ہی تھا کہ وہ کرنل فاتح کے ساتھ رہے گا مگر پھر اس نے غازی کی بات مان لی تھی۔شیردل گروپ کے ڈسپلن کا عالم ایسا تھا کہ ایک مرتبہ فیصلہ ہو جانے کے بعد کوئی بھی اس پہ بحث کرنے کی کوشش نہیں کرتا تھا۔ٹیم لیڈرکا فیصلہ سب ہی خوش دلی سے قبول کر لیتے تھے۔
شیردل کو اس دن داور کہیں بھی نظر نہیں آیا۔شیردل سوچ رہا تھا کہ’’ کیا داور کا کام صرف سلیم سے شناسائی پیدا کر کے اپنا کام نکلوانے کی حد تک تھا یا وہ خود براہِ راست اس میں ملوث تھا؟اگر وہ کوئی بڑا کام کر رہا تھا یا پھر کسی تخریبی منصوبے پہ عمل کر رہا تھا تو اسے موقع پہ موجود ہو نا چاہئے تھا؟سلیم جیسے لوگوں پہ سارا کام بھلا کیسے چھوڑا جا سکتا تھا؟اگر وہ خود موجود نہیں تو یقینااس کے آدمی آس پاس ہو ں گے۔اگر ایسا ہے تو وہ کہاں ہیں؟‘‘
شیردل کو ایک آدمی پہ شک ہوا۔وہ اس کوریڈور میں دو تین دفعہ نظر آیا تھا جو گلیکسی شاپنگ سینٹر کی دو عمارتوں کو آپس میں ملاتا تھا۔شیردل نے مومن کو اشارہ کیا تو وہ بھی چونک پڑا۔وہ آدمی درمیانے قد اور بھاری جثے کا تھا۔اس نے سلیٹی رنگ کا شلوار قمیض پہن رکھا تھا۔اس کے انداز دوسروں کو شک میں ڈالنے والے تھے۔اچانک ہی اس نے تیز تیز چلنا شروع کر دیا۔شیردل ایک لمحے کو ٹھٹکا اور پھر اس کے پیچھے چل پڑا۔مومن اس کے ساتھ ہی چل رہا تھا مگر یوں جیسے دونوں کا آپس میں کوئی رابطہ نہ ہو۔اس آدمی کی رفتار تیز ہو چلی تھی اور اس کا رخ اس طرف تھا جہاں ٹیکنیکل اسٹاف کے دفاتر تھے۔وہ آدمی اچانک ہی ان کی نگاہ سے اوجھل ہو گیا۔شیردل نے اب تک رفتارایسی رکھی تھی کہ اس آدمی کو تعاقب کا شک نہ ہو۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ان کے تعاقب اور موجودگی سے آگاہ تھا۔ایک اندازے سے شیردل نے ایک کمرے کو تاکتے ہوئے مومن کو اشارہ کیا تو وہ احتیاط سے کمرے کے اندر داخل ہو گیا۔شیردل نے تھوڑا سا فاصلہ رکھا تھا۔
’’آہ۔۔۔‘‘کی آواز کے ساتھ دھپ سے کوئی زمین پہ گرا تو شیردل نے احتیاط پسندی کو ایک طرف رکھتے ہوئے کمرے میں چھلانگ لگا دی۔مومن زمین پہ پڑا ہوا تھا اور ایک آدمی ایک موٹے سے لوہے کے پائپ سے اس پہ وار کرنے ہی والا تھا کہ شیردل نے تیزی سے کرال کرتے ہوئے اس کی دونوں ٹانگوں پہ ضرب لگائی۔وہ آدمی اپنا توازن قائم نہ رکھ سکا۔وہ دائیں جانب جھکا ہی تھا کہ شیردل کے بائیں پاؤں کی زوردار ٹھوکر اس کی گردن پہ لگی۔اس کے مُنہ سے ایک کریہہ چیخ نکل گئی۔شیردل کی دوسری ٹھوکر اسے زمین پہ لے آئی۔اس نے جلد ہی ہاتھ پاؤں ڈال دئیے۔مومن کے سر پہ ایک چھوٹا سا سر نمودار ہو گیا تھا۔اس کے سر پہ چوٹ لگی تو تھی مگر سر پھٹا نہیں تھا اور نہ ہی خون نکلا تھا۔وہ آنکھیں جھپکاتا ہوا زمین سے اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔اس کا ذہن ابھی قابو میں نہیں تھا۔
’’تم کیسے ہو؟‘‘شیردل نے ہمدردی سے پوچھا۔
’’سر پہ موجود گومڑ کے ساتھ ٹھیک ہی ہوں۔‘‘مومن نے مسکرانے کی کوشش کی۔اس کی آنکھیں اب پوری طرح سے کھل گئی تھیں۔
’’کیا درد زیادہ ہے؟‘‘شیردل نے اس کے سر کو ٹٹولتے ہوئے پوچھا۔
’’درد تو زیادہ نہیں ہے۔میں بس بے خبری میں مار کھا گیا۔‘‘مومن نے جواب دیا۔’’بس آخری لمحے میں میں نے سر کو بچانے کو کوشش کی تھی اس لئے حملہ آور کا ہاتھ بھرپور نہیں پڑ سکا ورنہ میں تو گیا تھا۔‘‘
’’چلو پھر اس مردود کو باندھتے ہیں۔وقت ویسے ہی کم ہے۔‘‘یہ کہہ کر شیردل حملہ آور کے ہاتھ باندھنے لگا۔مومن نے اس کے پاؤں زور سے باندھنے میں کوئی کوتاہی نہ کی۔پھر انہوں نے اس کے منہ میں ایک کپڑا بھی ٹھونس دیا تاکہ وہ شور نہ مچا سکے۔
پھر وہ دونوں اس کمرے سے باہر نکلے۔گلیکسی شاپنگ سینٹر میں خوب رونق تھی۔ہر طرف گہما گہمی کا عالم تھا۔لوگ بے فکری سے شاپنگ کر رہے تھے اورفوڈ کورٹ میں بیٹھے کھا پی رہے تھے۔شاید کسی کے بھی علم میں نہیں تھا کہ گلیکسی شاپنگ سینٹر کے اندر کیسا ڈرامہ کھیلا جا رہا تھا۔
سادہ لباس والے اپنے ڈیوٹی مستعد انداز میں انجام دے رہے تھے۔گلیکسی شاپنگ سینٹر کے سکیورٹی گارڈز بھی بڑے چاق و چوبند تھے۔ان کے ہاتھوں میں جدید اسلحہ نظر آرہا تھا۔شیردل یہ بات جانتا تھا کہ سکیورٹی گارڈز کے بھیس میں کرنل فاتح کی ٹیم کے کمانڈوز آج ڈیوٹی انجام دے رہے تھے۔شیردل نے غیر محسوس انداز میں ایک سکیورٹی گارڈ سے کچھ کہا۔گارڈ نے واکی ٹاکی پہ بات کی تو شیردل بے فکری سے کاریڈور میں آگے بڑھ گیا۔وہ جانتا تھا کہ جس آدمی کو وہ باندھ کر چھوڑ آئے تھے اب جلد ہی وہ حراست میں ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غازی اس وقت اس پانچ منزلہ عمارت میں موجود تھا۔ کمانڈوز کے دستے کے چار ارکان بڑی مستعدی سے پہرہ دے رہے تھے۔عمارت میں کوئی بھی داخل نہ ہو سکتا تھا۔غازی کو کوئی چیزبے چین کر رہی تھی۔کوئی ایسی چیز جو سامنے ہوتے ہوئے بھی نظروں سے اوجھل تھی۔ وہ عمارت کی سب سے نچلی منزل پر تھے۔عمارت کے ساتھ ہی ایک اور تین منزلہ عمارت تھی۔دونوں عمارتیں تیسری منزل پہ ایک مخصوص راستے سے ملی ہوئی تھیں۔وہ راستہ عام طور پہ بند رہتا تھا۔غازی کچھ سوچ کر عمارت کی تیسری منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔اس نے لفٹ کا استعمال کرنے کی بجائے سیڑھیوں کو ترجیح دی تھی۔وہ تیزی سے تیسری منزل پہ پہنچ گیا تھا۔دوسری عمارت کو ملانے والا راستہ بند تھا اور دروازے پہ ایک موٹا سا تالا لٹک رہا تھا۔غازی نے تالے کو ہاتھ لگایا تو وہ آسانی سے کھل گیا۔غازی کا دل دھک سے رہ گیا۔تالا پہلے سے ہی کھلا ہوا تھا۔
’’کیا تالا کسی کی لاپرواہی کی وجہ سے کھلا رہ گیا تھا یا پھر اسے کوئی کھول کر اس عمارت میں گیا تھا؟‘‘
’’وہ کون ہو سکتا تھا؟‘‘
’’کیا وہ کوئی دشمن تھا؟‘‘
’’ایک آدمی تھا یا ایک سے زیادہ لوگ تھے؟‘‘
غازی کے ذہن میں کئی سوالات پیدا ہو رہے تھے اور اس کے پاس کسی بھی سوال کا جواب نہیں تھا۔اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کمانڈوز کے انچارج سے رابطہ کیا۔اس کے پاس واکی ٹاکی ٹائپ کا ایک آلہ تھا جو سائز میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے ہاتھ میں آسانی سے چھپ جاتا تھا اور آسانی سے نظر نہیں آتا تھا۔
انچارج نے اسے بتایا کہ’’اس نے خود دونوں عمارتوں کو ملانے والے راستے کا معائنہ کیا تھا اور تالا بند تھا۔‘‘
تھوڑی دیر بعد انچارج خود غازی کے پاس موجود تھا۔تالا دیکھنے کے بعد اس کی پیشانی پہ لکیروں کا جال سا پھیل گیا۔اچانک وہ چونک پڑا اور بولا۔’’یہاں کوئی آیا ہے۔اور وہ دوست نہیں ہو سکتا ۔‘‘یہ کہتے ہی وہ زمین پہ گرتا چلا گیا۔غازی نے بھی فوراً ہی اس کی تقلید کی۔اگر ان کو ایک لمحے کی بھی دیر ہو جاتی تو سائی لینسر لگی جدید رائفل کی گولیوں کا شکار ہو جاتے۔
غازی کے ہاتھ میں چھوٹے سائز کی ایک گن تھی جو دور مار بھی تھی اور بے آواز بھی تھی۔شیردل گروپ کے تمام ارکان جدید اسلحے کے استعمال سے اچھی طرح واقف تھے ۔یہ اور بات تھی کہ وہ اسلحے کے استعمال سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرتے تھے۔غازی کو ایک آدمی کی جھلک نظر آئی تو اس نے فائر کرنے میں دریغ نہیں کیا۔ایک ہلکی سی چیخ سن کر اسے پتہ چل گیا کہ اس کا نشانہ خطا نہیں ہوا۔اس نے کوشش کی تھی کہ وہ اس آدمی کو صرف زخمی ہی کرے۔اس آدمی کے گرنے کے باوجود وہ زمین سے چپکے رہے اور زمین سے اٹھنے کی کوشش نہیں کی۔چند لمحوں کے لئے خاموشی چھا گئی۔انچارج نے دھیرے سے سر اٹھایا جب کچھ نہ ہوا تو احتیاط سے اس نے اپنے دائیں جانب کروٹ لی اور اس کے ساتھ غازی نے بھی کروٹ لی۔ہر طرف سناٹے کا راج تھا۔وہ بغیر کوئی آواز نکالے اسی جانب بڑھے۔دھپ کی آواز کے ساتھ انچارج پیچھے الٹ کر گرا۔ایک بے آواز گولی شاید اسے چاٹ گئی تھی۔دوسری گولی غازی کے بالوں کو چھوتے ہوئے گزر گئی تو اس نے تیزی سے سر کو جھکایا۔غازی دوڑتے ہو ئے قدموں کی آواز سن کر رہ نہ سکا اور اس نے سمت کا اندازہ کرتے ہوئے گن کا رخ ادھر ہی کر دیا۔اس کی گن سے کئی شعلے اس کی مطلوبہ سمت کی جانب لپکے اور ایک تیز چیخ کی آواز غازی کے سینے میں ٹھنڈک بن کر اتر گئی۔
غازی انچارج کی طرف متوجہ ہوا۔انچارج کے سینے میں ہنسلی کی ہڈی سے تھوڑا سا نیچے گولی لگی تھی۔اس کا سینہ خون سے سرخ ہوتا جا رہا تھا۔وہ ابھی تک ہوش میں تھا۔ایک جھٹکے دار آواز میں غازی سے بولا۔’’میری فکر نہ کریں۔آپ ان کے پیچھے جائیں۔‘‘
غازی نے ایک لمحہ کے لئے سوچا اور پھر وہ تیزی سے ایک سمت میں دوڑتا چلا گیا۔اسے دو آدمی فرار ہوتے ہوئے نظر آئے۔اس نے ان کی ٹانگوں کا نشانہ لیا۔جواباً جب اس کی جانب گولیاں چلائی گئیں تو پھر وہ ساری احتیاط بھول کر اپنی گن کو ان پہ خالی کرتا چلا گیا۔ایک آدمی گرا تھا اور دوسرے کو اس نے لنگڑاتے ہوئے دیکھا تھا۔لنگڑانے والے آدمی کی جھلک اسے بے چین کر گئی تھی۔اس نے میجر گنپت راؤ کی تصویر دیکھ رکھی تھی۔وہ یقیناً میجر گنپت راؤ ہی تھا۔سازش کا جال دور تک پھیلا ہوا تھا۔نہ جانے اس میں کون کون شامل تھا۔تھوڑی دیر بعدکمانڈوز کے زخمی انچارج کو ہسپتال بھیجنے کا انتظام ہو جانے کے بعد غازی نے کرنل فاتح کا سیل فون ملایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح اس وقت تین منزلہ عمارت کے عقب میں موجود تھے۔وہ مکمل طور پہ سیاہ لبادے میں چھپے ہو ئے تھے۔ان کی صرف آنکھیں ہی نظر آ رہی تھیں جو کسی عقا ب کی طرح چمک رہی تھیں۔ان کے ہاتھ میں ایک عجیب سا آلہ تھا جسے انہوں نے دیوار کے ساتھ لگایا۔وہ آلہ بیٹری سے چلتا تھا۔آلے سے ایک لمبی سی تار نکلی جو اوپر جا کر ایک کنڈے کے گرد لپٹ گئی۔کرنل فاتح نے آلے کو ایک ہلکا سا جھٹکا دیا جیسے اس کی مضبوطی جانچنا چاہتے ہوں۔ایسا کرنے کے بعد وہ نہایت مہارت سے عمودی دیوار پہ چڑھتے چلے گئے۔وہ ابھی دیوار سے دو ہاتھ نیچے ہی تھے کہ انہیں چھت سے کوئی نیچے جھانکتا نظر آیا۔
ان کے بدن میں ایک سنسنی کی لہر سی دوڑ گئی۔دشمن کو ان پہ فوقیت حاصل تھی۔ان کے دستانوں میں مقید دونوں ہاتھ تار کے گرد لپٹے ہوئے تھے۔ان کی پوزیشن ایسی نہ تھی کہ وہ اپنی گن نکال کر اپنا دفاع کر سکتے۔دشمن یقیناانہیں اس کا موقع نہ دیتا۔دشمن کے ہاتھ میں ایک تباہ کن آٹومیٹک گن تھی۔اس کا چہرہ بھی نقاب میں چھپا ہوا تھا۔اس نے گن کو سیدھا کیا تو کرنل فاتح کے اعصاب تن گئے۔دل کی دھڑکن میں تیزی کے ساتھ خون کی روانی میں شدت آگئی۔خون ان کی کن پٹیوں میں ٹھوکریں مارنے لگا تھا۔اعصاب شکن لمحات سر پہ آ کھڑے ہوئے تھے۔دشمن کا ہاتھ گن کے اسٹرئیکر پہ دباؤ ڈالنے لگا تھا اور پھر اس نے اسٹرئیکر کو دبا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیردل اور مومن گلیکسی شاپنگ سینٹر میں لاابالی لڑکوں کی طرح گھوم پھر رہے تھے۔انہیں ابھی تک اور کوئی مشتبہ شخص نظر نہیں آیا تھا۔سکیورٹی گارڈز کے بھیس میں کمانڈوز اپنی جگہ پوری طرح سے الرٹ تھے۔کئی جگہوں پہ ٹی وی کی بڑی ایل سی ڈی اسکرینیں نظر آ رہی تھیں جن پہ مہمان وزیرِ خارجہ کاا ستقبال دکھایاجا رہا تھا۔وہ گلیکسی شاپنگ سینٹرسے تقریباً ایک کلو میٹرکے فاصلے پر تھے۔شیردل کو بے چینی ہو نے لگی تھی۔ان کا مطلوبہ دشمن ابھی تک سامنے نہیں آیا تھا اور یہ بات پریشانی کی تھی۔چھپا ہوا دشمن کتنا خطرنک ہوتا ہے یہ وہ جانتا تھا۔اچانک مومن ایک جگہ ٹھٹک کر رک گیا۔اس کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے شیردل نے اس آدمی کو دیکھ لیا جو گھبرایا ہوا لگ رہا تھا۔اس کے جسم پہ گلیکسی شاپنگ سینٹر کے مستقل ملازمین کا یونی فارم تھا۔وہ ٹیکنیکل اسٹاف سے متعلق تھا۔ہاتھ میں ایک بیگ پکڑا ہوا تھا جس میں یقیناٹول وغیرہ ہوں گے۔ وہ گھبرائے ہوئے انداز میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔وہ اپنی گھبراہٹ چھپانے پہ قادر نہیں تھا۔شیردل اور مومن کے ساتھ دو سادہ لباس والے بھی اسے دیکھ کر الرٹ ہو گئے تھے۔شیردل کی آنکھ کا اشارہ دیکھ کر دونوں سادہ لباس والے اس کی طرف روانہ ہو گئے۔
وہ اب اس کارویڈور کی طرف جا رہا تھا جو گلیکسی شاپنگ سینٹر کی دو عمارتوں کو آپس میں ملاتا تھا۔اب وہ سکیورٹی گارڈز کے پاس کھڑا تھا جو اس کا بیگ چیک کر رہا تھے۔پھر اسے اجازت مل گئی اور وہ ایک ائیر کنڈیشننگ یونٹ کی طرف بڑھنے لگا۔شیردل اور مومن تیزی سے اس کی
طرف بڑھے۔وہ اچانک مڑا اور اپنی جگہ پہ رک گیا۔اب اس کے چہرے پہ گھبراہٹ کی کوئی علامات نہ تھیں۔اس کا ہاتھ اپنے بیگ کی طرف بڑھ رہا تھا۔اس نے بیگ سے ہاتھ باہر نکالا اور۔۔۔۔۔
شیردل اور مومن اس سے چند قدم کے فاصلے پر ہی رک گئے تھے اور ان کے ہاتھ اپنی جیبوں کی طرف بڑھ رہے تھے کہ اس نے ہاتھ بیگ سے باہر نکالا۔اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا اسکریو ڈرائیوار تھا۔شیردل اور مومن نے ایک ٹھنڈا سانس لیا اور جیبوں سے ہاتھ باہر ہی رکھے۔
’’تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘مومن نے آگے بڑھ کر اس سے سوال کیا۔
’’مم۔۔۔میں۔۔۔اپنا کام۔۔۔‘‘جواب دیتے ہوئے وہ بوکھلا گیا تھا۔
’’کیسا کام؟‘‘مومن کا لہجہ سخت ہو گیا۔
’’جو مجھے سونپا گیا ہے۔‘‘اس بار وہ سنبھل گیا تھا۔
’’جلدی سے کام بتاؤ۔ وقت ضائع نہ کرو۔‘‘مومن کے انداز نے اسے ٹھٹکنے پہ مجبور کر دیا۔
’’سر!آپ کون ہیں اور مجھ سے یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘اس نے سنبھل کر پوچھا۔اس کے انداز میں احترام موجود تھا۔
’’میں کون ہوں یہ جاننا تمہاری ذمہ داری نہیں۔تمہارے آفیسرز جانتے ہیں کہ میں کون ہوں۔اب جلدی سے میری بات کا جواب دو۔‘‘مومن نے نرمی دکھائے بغیر پوچھا۔
’’سر! مجھے کہا گیا تھا کہ یہاں کا سسٹم ایک بار جا کر چیک کر لوں۔‘‘وہ مرعوب ہو کر بولا۔
’’کس نے کہا تھا؟‘‘اس بار شیر دل نے پوچھا۔
’’وہ جی نئے صاحب نے بولا تھا۔‘‘شیردل کے انداز سے وہ گھبرا گیا تھا۔
’’نیا صاحب!تمہیں کیسے پتہ چلا کہ وہ نیا صاحب تھا؟‘‘شیردل کی نظریں برمے کی طرح اس کے وجود کو چھید رہی تھیں۔
’’انہوں نے خود کہا تھا۔‘‘وہ گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا۔’’وہ آپ ہی کی طرح کا بابو تھا۔میں سمجھا وہ ہمارا نیا صاحب ہو گا۔‘‘اس کے انداز کی بے چارگی نے دونوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کہیں وہ وقت ضائع تو نہیں کر رہے۔
تھوڑی دیر بعد اسے بھی کمانڈوز کی تحویل میں دے کر وہ پھر آنے جانے والوں پہ نظر رکھنے لگے۔ان کا انداز ایسا ہی تھا جیسے وہ وہاں شاپنگ کرنے آئے ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسٹرائیکر پہ اس کی انگلی کے دباؤ کو بڑھتے دیکھ کر ہی ان کا سارا جسم تن گیا تھا۔اسٹرائیکر دبتے ہی شعلوں کی لپک کو محسوس کرتے ہی انہوں اپنے جسم کو ہوا میں ایک جھٹکا سا دیا۔گولیاں ان کے جسم سے چند انچ کے فاصلے سے ہو کر گزر گئیں۔حملہ آور نے دوبارہ ان کا نشانہ لیا۔اس بار اسے کوئی جلدی نہیں تھی۔کرنل فاتح کا سارا جسم اس وقت آنکھ بن گیا تھا۔ان کی پوری توجہ حملہ آور کے ہاتھوں اور اس کی گن پہ جمی ہوئی تھی۔نقاب کے باوجود انہیں لگا جیسے وہ سفاک انداز میں مسکرا رہا ہو۔اس بار گولیوں کی بوچھاڑ سے وہ بمشکل خود کو بچا پائے۔انہوں نے اپنے جسم کو بڑی مہارت سے لہرا کر دوبارہ دیوار کے ساتھ چپکا لیا تھا۔اسی دوران ان کے دائیں ہاتھ نے ایک خنجر ایک خفیہ مقام سے ایسے نکالا تھا کہ منڈیر سے نیچے جھانکتا ہوا حملہ آور اسے نہیں دیکھ سکا تھا۔
کرنل فاتح حیران تھے کہ وہ مسلسل گن کو رپیٹر پہ رکھ کر فائر کیوں نہیں کر رہا۔شاید اسے چوہے بلی کے کھیل میں مزہ آ رہا تھا۔تیسری بار بھی وہ خود کو بڑی مہارت سے ہی بچا پائے۔حملہ آور کی جانب سے ایک لمحے کی مہلت جو انہیں ملی تو ان کے ہاتھ سے خنجر تیزی سے نکلا۔خنجر نے اپنا ہدف تلاش کر لیا تھا۔وہ برق کی رفتار سے حملہ آور کی جانب لپکا اور اس کے حلق میں پیوست ہو گیا۔ایک کریہہ چیخ کے ساتھ وہ پیچھے اُلٹ کر گرا۔کرنل فاتح کے لئے اتنا ہی کافی تھا۔انہیں اوپر پہنچنے میں دیر نہیں لگی۔انہوں نے البتہ احتیاط کا دامن نہیں چھوڑا تھا۔چھت پہ اس حملہ آور کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔وہ ابھی آس پاس کے حالات کا جائزہ لے ہی رہے تھے کہ ان کا سیل فون وائبریٹ کرنے لگا۔انہوں نے سیل فون کان سے لگایا۔دوسری جانب غازی تھا۔غازی سے تمام حالات جان کر انہوں نے اسے محتاط رہنے کی تلقین کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیردل نے کچھ سوچ کر کمانڈوز کے انچارج سے بات کی۔اس نے فوراً ہی دو آدمیوں کو ان کے ساتھ کر دیا۔شیردل ان سے ائیر کنڈیشننگ سسٹم کو چیک کروانا چاہتا تھا۔نہ جانے کیوں اس کی چھٹی حس خطرے کی نشان دہی کر رہی تھی اور اس کا خیال تھا کہ ائیر کنڈیشننگ سسٹم کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کی گئی ہو۔ایسا ہونا ناممکن بھی نہیں تھا۔شیردل نے سب سے پہلے اس کوریڈورکے ائیر کنڈیشننگ سسٹم کو چیک کرنے کے بارے میں سوچا، جو دونوں عمارتوں کو آپس میں ملاتا تھا۔پہلے ایک ٹیکنیشن چھت سے منسلک ائیر کنڈیشننگ سسٹم کے اندر داخل ہوا اور پھر دوسرا بھی کچھ فاصلہ رکھ کر اس کے پیچھے گیا۔سسٹم ایک بڑے سے گول پائپ کی شکل میں تھا جس میں جھک کر چلا جا سکتا تھا۔شیردل اور مومن بے چینی سے ان دونوں کی طرف سے کسی اطلاع کے منتظر تھے۔ساتھ ہی ساتھ وہ آنے جانے والوں پہ بھی نظر رکھ رہے تھے۔تھوڑی دیر بعد ایک ٹیکنیشن گول پائپ سے برآمد ہوا تو اس کے چہرے پہ ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔شیردل فوراً ہی اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔اس کی بات سُن کر اس نے کمانڈوز کے انچارج کے پاس پہنچنے میں دیر نہیں لگائی۔انچارج نے کوریڈور کے دونوں راستوں کو عام لوگوں کے لئے بند کر نے کا حکم دیا۔
لوگوں کو اور گلیکسی شاپنگ سینٹر کی انتظامیہ کو بتایا گیا کہ’’ ائیر کنڈیشننگ سسٹم میں ایک بڑی خرابی کی وجہ سے دونوں عمارتوں کو ملانے والا راستہ بند کیا جا ررہا تھا اور ہو سکتا ہے کہ راستہ چند گھنٹے بند رہے۔‘‘کئی لوگوں نے اس بات کا برا منایا تھا۔راستے کے بند ہونے کے بعد کی کارروائیوں میں صرف چند منٹ لگے۔ائیرکنڈیشننگ سسٹم کے اندر پانچ انتہائی مہلک بم چھپائے گئے تھے۔بموں کو ریموٹ کنٹرول سے بلاسٹ کیا جانا تھا۔کرنل فاتح کی ٹیم میں ہر طرح کے لوگ تھے۔ماہرین نے بموں کو ناکارہ کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔عام لوگوں کو ان کارروائیوں کی ہوا بھی نہ لگنے دی گئی ۔ماہرین کی ٹیم نے ائیر کنڈیشننگ سسٹم کو کچھ دیر کے لئے بند کر کے اس کا مکمل معائنہ کرنے کا فیصلہ کیا
تھا۔ٹی وی کی اسکرین مہمان وزیرِ خارجہ کے استقبال کے مناظر دکھا رہی تھی اور چند ہی منٹ کے بعد کاروں کا جلوس گلیکسی شاپنگ سینٹر کے پاس پہنچنے والا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غازی نے محتاط انداز میں عمارت کا جائزہ لینا شروع کیا۔اب اس کے پاس تین کمانڈوز تھے۔کرنل فاتح نے کہا تھا کہ وہ جلد ہی کچھ اور کمانڈوز کو بھجوا رہے ہیں۔غازی جانتا تھا کہ کرنل فاتح نے زیادہ بھیڑ بھاڑ سے اجتناب کیا تھا۔البتہ ضرورت کا احساس ہوتے ہی انہوں نے کمک منگوانے میں دیر نہیں لگائی تھی۔
غازی ایک کمانڈو کے ساتھ چوکنے انداز میں عمارت کے کوریڈور سے گزر رہا تھا۔کرنل فاتح نے اجازت دی تھی کہ ذرا سا بھی شک ہونے کی صورت میں فائر کرنے سے گزیز نہ کیا جائے۔غازی کو تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کا اندازہ تھا۔اس کے ہاتھ کی انگلی گن کے اسٹرئیکر پہ رکھی ہوئی تھی۔کمانڈو بھی پوری طرح سے چوکنا تھا۔اس کی نگاہوں میں چیتے ایسی چمک تھی۔دونوں نے ایک دوسرے کی کمر سے کمر ملا رکھی تھی تاکہ اچھی طرح سے کور فراہم ہو سکے۔غازی نے اپنے آگے بڑھتے ہوئے قدموں کو یک دم روک لیا تھا۔کمانڈو بھی رک گیا تھا اور جسم کا رواں رواں ایک انجانے خطرے کو محسوس کر رہا تھا۔کاریڈور میں کئی دروازے تھے۔ایک کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔غازی نے کمانڈو کی جانب دیکھا۔نظروں ہی نظروں میں فیصلہ ہوا۔کمانڈو نے دروازے کو ایک ہلکا سا دھکا دیا اور ساتھ ہی زمین پہ گرتا چلا گیا۔دروازہ پورا کھل گیا۔
غازی نے کاریڈور میں ہی پوزیشن سنبھال لی تھی۔دونوں میں اسی بات پہ اتفاق ہوا تھا کہ ایک کمرے کے اندر جائے گا اور دوسرا اسے باہر سے کور دے گا۔
کمانڈو کمرے کے اندر تک زمین پہ پھسلتا چلا گیا۔اس نے خود کو ایک بڑی سی میز کے پاس جا کر روک لیا۔اس نے زمین سے سر اوپر اُٹھانے کی کوشش نہیں کی۔وہ تربیت یافتہ کمانڈو تھا اور حالات کے مطابق عمل کرنے کے لئے تیار تھا۔اس کی عقابی نظروں نے لمحوں میں کمرے کا جائزہ لے لیا تھا۔ وہ سائنس کی لیب کی طرح تھا۔وہ ایک ہال نما لمباسا کمرہ تھا۔کمرے میں موجود سامان اُسے ایک سائنسی لیب ہی ظاہر کر رہا تھا۔بظاہر تو کمرے میں اور کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔کمانڈو نے زمین پہ ہی گھسٹتے ہوئے اپنی پوزیشن کو تبدیل کر کے دم سادھ لیا تھا۔جب کچھ بھی نہ ہوا تو اُس نے نہایت احتیاط سے سر کو اوپر اُٹھایا۔ہال نماکمرے میں شاید کوئی بھی نہ تھا۔کمانڈو نے پھر بھی کوئی خطرہ مول لینے کی کوشش نہ کی۔وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اپنی پوزیشن بدل رہا تھا ۔اپنے انداز سے وہ بے حد پھرتیلا اور چوکنا تھا۔اسے انجانے خطرے کا پوری طرح سے احساس تھا۔وہ کمرے کے بیچ میں پہنچ چکا تھا۔ ابھی تک وہاں پہ کسی موجودگی کا کوئی نشان نہ تھا مگر وہ کوئی بھی خطرہ مول لینے پہ تیار نہ تھا۔غازی کو کمرے میں اس وقت تک داخل نہیں ہونا تھا جب تک اسے ایک مخصوص اشارہ موصول نہ ہوتا ۔
کمانڈو کی نظریں اپنے ممکنہ دشمن کو ڈھونڈھ رہی تھیں وہ اگر کہیں تھا تو اب تک نظروں سے اوجھل تھا۔ ایک ہلکی سی آہٹ سے کمانڈو کے سارے اعصاب تن گئے۔وہ زمین پہ چپک کر رہ گیا۔آہٹ پھر سُنائی دی۔اُس نے تیزی سے اپنی جگہ تبدیل کی اور اچانک کسی کے دوڑتے قدموں کی آواز نے کمانڈو کو چونکا دیا۔ اس نے گن کا رُخ اس جانب کیا۔لمحے بھر کے لئے وہ ہچکچایا۔ایک سوچ نے گن کے اسٹرئیکر پہ انگلی کو دبنے نہیں دیا کہ کہیں وہ غازی نہ ہو اور یہ ہی وہ لمحہ تھا جب اُس ہال نما کمرے کا دروازہ ایک زور دار آواز کے ساتھ بند ہو گیا۔اس نے اسٹرائیکر پہ دباؤ بڑھایا۔گولیاں شعلوں کی صورت بند دروازے سے ٹکرائیں۔مگر دیر ہو چکی تھی۔دروازہ بند ہو چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح بڑے محتا ط انداز میں چھت کا جائزہ لے رہے تھے۔چھت پر چھپنے کے لئے کوئی خاص آڑ موجود نہ تھی۔چھت کے فرش سے چھ فٹ اونچا پانی کا ایک ٹینک تھا۔کرنل فاتح تشویش بھرے انداز میں اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اب وہ چھت پر ایسے جھک گئے تھے کہ دشمن کے لئے آسان شکار نہ ثابت ہوں۔کچھ دیر سوچ کر وہ دھیرے دھیرے پانی کے ٹینک کی طرف بڑھنے لگے۔انہوں نے پوری کوشش کی تھی کہ ان کے قدموں کی آواز پیدا نہ ہو۔گھڑی کی سوئیاں دھیرے دھیرے آگے سرک رہی تھیں اور کرنل فاتح کی رفتار بھی ایسی ہی تھی۔وہ بغیر کسی مشکل کا شکار ہوئے پانی کے ٹینک تک پہنچ گئے۔وہ تھوڑی دیر کے لئے اپنی جگہ پہ ہی دبک کر بیٹھ گئے۔جب انہیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ آس پاس اور کوئی موجود نہیں تو اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے،چوکنا انداز میں ایک بار پھر چاروں طرف دیکھا اور پھر ایک ہی چھلانگ میں وہ پانی کے ٹینک پر پہنچ گئے۔انہوں نے اپنی جدید گن کو ایک طرف رکھ کر ایک چھوٹے سائز کی مشین گن نکالی۔وہ سائز میں ایک عام ریوالور سے تھوڑی سی ہی بڑی تھی۔اب وہ پانی کے ٹینک کا لوہے کا بڑا سا ڈھکن اٹھانے جا رہے تھے۔انہیں زیادہ جدوجہد نہیں کرنی پڑی۔ڈھکن جیسے ہی ایک طرف ہوا وہ تیزی سے کھلے ڈھکن کے سامنے سے ہٹ گئے جیسے کہ اندیشہ ہو کہ وہاں سے گولیوں کی بوچھار ہونے والی ہو۔پانی ٹینک اوپر تک لبا لب بھرا ہوا تھا۔انہوں نے احتیاط سے اس کے اندر جھانکا تو انہیں پانی کے سوا اور کچھ نظر نہ آیا۔انہیں یوں ہی اندیشہ تھا کہ کہیں کوئی دشمن پانی کے ٹینک میں چھپ کر نہ بیٹھا ہو۔ اپنے خیال کے غلط ثابت ہونے پر ان کے چہرے پہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔وہ واپس مڑے اورپانی کے ٹینک کا ڈھکن اٹھانے ہی لگے تھے کہ ایک زوردار ضرب ان کی دائیں پنڈلی پہ لگی۔تکلیف کی شدت اتنی تھی کہ وہ خود کو سنبھال نہ سکے۔ڈھکن ان کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور وہ پانی کے ٹینک کے اندر گرتے چلے گئے۔اگر انہوں نے جلدی سے خود کو سنبھالا نہ ہوتا تو ان کا سر ٹینک کے فرش سے ٹکرایا ہوتا۔وہ فوراً ہی پانی میں سیدھے ہوئے تو ان کے سینے پہ کوئی چیز اتنی زور سے لگی کہ وہ اپنا بند منہ کھولنے پہ مجبور ہوگئے۔انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ پانی کے ٹینک میں ان کا ایک یا زیادہ دشمن موجود ہیں۔انہیں پانی میں غوطہ سا لگا۔انہوں نے پھر سنبھالا لیا اور اس بار حملہ آور کے ایک کاری وار سے بچ گئے۔حملہ آور کے ہاتھ میں ایک عجیب سی برچھی یا تلوار ایسی شے تھی، جس سے اس نے ان کے بائیں پہلو پہ حملہ کیا تھا۔حملہ آور غوطہ خوروں جیسے لباس میں تھا اور اس کی کمر کے ساتھ آکسیجن کا سلنڈر لٹک رہا تھا۔کرنل فاتح کو وہ لمحے بھر کی بھی مہلت نہیں دے رہا تھا۔وہ بار بار اس برچھی ایسی تلوار سے ان پہ حملے کر رہا تھا اور وہ بڑی مشکل سے خود کو اس کے تابڑ توڑ حملوں سے بچا پا رہے تھے۔ایک بار جیسے ہی انہیں موقع ملا تو انہوں نے اس کا برچھی والا ہاتھ قابو کر لیا۔انہوں نے جب اس کی کلائی پہ مخصوص داؤ آزمایا تو اس کی کلائی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔اس کے ہاتھ سے برچھی گر گئی۔اس نے جھک کر انہیں ٹکر مارنے کی کوشش کی تو انہوں نے اس کے سر کو آرم لاک میں جکڑ لیا۔ان کے پھیپھڑے آکسیجن کے لئے فریاد کر رہے تھے۔وہ جانتے تھے کہ وہ زیادہ دیر تک پانی کے نیچے اپنا سانس نہیں روک سکیں گے۔انہیں جو کچھ بھی کرنا تھا وہ جلد ہی کرنا تھا۔حملہ آور اپنا سر چھڑانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔انہوں نے ایک لمحہ سوچا اور پھر اس کے سر کو جھٹکا دیا۔ان کے اس وار سے آج تک کوئی نہیں بچا تھا۔حملہ آور ان کے ہاتھوں میں جھو ل گیا۔انہوں نے اس کا منکا توڑ دیا تھا۔ انہوں نے پھر بھی اسے چھوڑا نہیں۔ایک ہاتھ سے اسے تھامے رہے اور دوسرے ہاتھ سے تیرتے ہوئے اوپر اُٹھنے کی کوشش کی۔اپنی اس کوشش میں وہ کامیاب رہے۔اب وہ منہ کھولے گہرے گہرے سانس لے رہے تھے۔تھوڑی دیر بعد وہ پانی کے ٹینک پر ہی بیٹھے اپنی سانسیں درست کرر ہے تھے۔انہوں نے حملہ آور کا چہرہ بھی دیکھ لیا تھا وہ بہت بڑا اشتہاری مجرم تھا۔اس کے نشانے کی مثال دی جاتی تھی۔کرنل فاتح اسے زندہ پکڑنا چاہتے تھے مگر حالات ایسے ہو گئے تھے کہ اسے ختم کئے بغیر ان کی اپنی زندگی بھی خطرے میں پڑ سکتی تھی۔انہوں نے ٹینک کا اچھی طرح سے جائزہ لے لیا تھا۔اس میں اور کوئی نہیں تھا۔تھوڑی دیر بعد وہ چھلانگ لگا کر ٹینک سے نیچے اُتر آئے اور پھر انہوں نے حملہ آور کو بھی نیچے اُتار لیا۔اس کے ہتھیاروں پہ وہ فوراً ہی قابض ہو گئے تھے۔ان میں ایک دور مار جدید گن تھی جو ایک کلومیٹر دور تک بخوبی نشانہ لے سکتی تھی۔کرنل فاتح کا اندازہ تھا کہ پانی کے ٹینک سے سڑک تک کا فاصلہ سات آٹھ سو میٹر سے زیادہ نہ تھا۔مرنے والا ایک ماہر نشانہ باز تھا۔اس کا نشانہ خطا نہ کرتا۔کرنل فاتح نے اللہ کریم کا شکر ادا کیا جس نے انہیں اس مرحلے پہ کامیاب کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باسط علی نے نصرت صاحب کی جانب دیکھا تو دھیرے سے مسکرا دیا۔نصرت صاحب اس وقت ایک صحافی کے بھیس میں تھے اور ان کے گلے میں ایک بڑے قومی اخبار کا شناختی کارڈ جھول رہا تھا۔مزے کی بات یہ تھی کہ باسط علی اسی اخبار کا کرائم رپورٹر تھا۔وہ دونوں مہمان وزیرِ خارجہ کے کاروں کے جلوس میں تھے۔وہ ایک بڑی سی وین میں تھے جس میں اور بھی کئی صحافی موجود تھے۔باسط علی ان سب کا جائزہ لے رہا تھا۔اسے شک تھا کہ کہیں ان میں نارمن زبسکی نہ چھپا ہو ۔وہ اپنا چہرہ تو چھپا سکتا تھا لیکن ڈیل ڈول چھپانا تو ممکن نہیں تھا۔وہ سب مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے رپورٹرز تھے۔باسط علی نے سکون کا سانس لیا۔وہ ان میں سے بیشتر کو جانتا تھا۔
ایک جگہ کاروں کا جلوس رُک گیا۔پروگرام میں اس کا وہاں رُکنا شامل نہیں تھا۔باسط علی کے ساتھ نصرت صاحب بھی چاق و چوبند نظر آنے لگے تھے۔ پتہ چلا کہ مہمان وزیرِ خارجہ سڑک کے دونوں طرف کھڑے بچوں سے ملنا چاہتے تھے۔وہ سب وین سے نیچے اُتر آئے تھے۔ایک اور وین میں بھی صحافیوں کا گروپ سفر کر رہا تھا۔وہ سب بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے تھے۔صحافیوں کو ایک خاص حد سے آگے جانے کی اجازت نہ تھی۔سکیوریٹی کے لوگ عام لوگوں سے مہمان کو دور رکھنے میں کامیاب تھے۔مہمان وزیرِخارجہ بچوں سے ہاتھ ملا رہے تھے۔ انہوں نے کچھ بچوں کو آٹوگراف بھی دئیے۔
باسط علی ہر طرف نظریں دوڑا رہا تھا کہ اچانک سنسنی کی ایک لہر اس کے وجود کو چھو کر گزر گئی۔وہ بھی صحافیوں میں ہی شامل تھا اور غیرمحسوس طریقے سے مہمان وزیرِخارجہ سے قریب ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔اس کا جثہ اور ڈیل ڈول باسط علی کو شک میں ڈال رہا تھا۔اس کے ہونٹوں میں ای سگریٹ(E-Cigarette) دبا ہوا تھا۔وہ آدمی سکیوریٹی کے لوگوں سے بے حد قریب تھا۔باسط علی کی چھٹی حس کسی خطرے کا اعلان کر رہی تھی۔
اس نے نصرت صاحب کی جانب دیکھا تو وہ ہاں نہیں تھے۔وہ اُسے کہیں بھی نظر نہ آئے۔باسط علی کا پریشانی سے بُرا حال تھا۔اُسے کچھ کرنا چاہئے۔مگر کیا؟وہ کیا کر سکتا تھا؟ہو سکتا تھا کہ اُس کا خیال غلط ہوتا۔وہ کوئی عام صحافی بھی ہو سکتا تھا۔ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا تھا مگر باسط علی خود کو نہ روک سکا۔اُسے کچھ کرنا تھا۔کیا یہ وہ نہیں جانتا تھا۔وہ صرف اتنا جانتا تھا کہ اُسے اُس صحافی کو کسی بھی طرح سے روکنا ہے۔یہ سوچ کر وہ تیزی سے حرکت میں آیا۔تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ سکیوریٹی والوں کے بے حد قریب پہنچ چُکا تھا۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتا کچھ ہوا۔ایک دم ایک ہلچل سی مچی۔
باسط علی نے دو آدمیوں کو زمین پر گرتے ہوئے دیکھا۔ایک تو ان میں وہ صحافی تھا جس کے ہونٹوں میں ای سگریٹ دبا ہوا تھا۔ای سگریٹ اُس کے مُنہ سے نکل چُکا تھا۔دوسرے آدمی کے چہرے کی ایک جھلک دیکھتے ہی باسط علی نے ایک گہرا سانس لیا۔وہ نصرت صاحب تھے۔سکیورٹی والے دونوں کو قابو کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔باسط علی کے ساتھ کئی صحافی وہاں کھڑے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔کسی کو نہیں معلوم تھا کہ کیا ہوا تھا اور لڑنے والے کون تھے؟اور کیوں لڑ رہے تھے؟سکیورٹی والے دونوں کو کھینچ کر وہاں سے دور لے گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غازی دروازے کے قریب ہی موجود تھا جب دروازہ ایک زوردار آواز کے ساتھ کھلا اور بند ہوا۔گولیوں کی بوچھار دروازے سے ٹکرائی تھی۔غازی گولیوں کی آواز سُن کر الرٹ ہو گیا تھا۔ابھی وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ کیا کرے کہ کوئی دھماکے سے اُس سے آ ٹکرایا تھا۔ غازی جھٹکے سے سنبھل نہ سکا اور سامنے کی دیوار سے جا ٹکرایا۔اُس نے ٹکرانے والے کا گھونسہ اپنی طرف بڑھتے دیکھا تو سر کو جھکانے کی کوشش کی۔دیوار سے ٹکرانے کے باوجود اُس نے خود کو سنبھالا دیا۔اسی لئے وہ اپنے چہرے کو اُس زوردار گھونسے سے بچا پایا البتہ اُسے
وہ گھونسہ اپنے دائیں کاندھے پہ وصول کرنا پڑا۔اُسے اپنا دایاں کاندھا سُن ہوتا ہوا محسوس ہوا۔وہ بے جان ہو کو زمین پر گر پڑا۔نتیجے کے طور پہ اُس کی بائیں پنڈلی پہ زوردار ٹھوکر لگی۔غازی نے دوسری ٹھوکر سے بچتے ہوئے اُس نے ٹانگ کو پکڑنے کی کوشش کی تو اُس کے ہاتھ میں ایک جوتا ہی آیا۔حملہ آور رُکا نہیں۔ایک جوتا غازی کے ہاتھ میں چھوڑ کر اُس نے فرار ہونے میں ہی غنیمت جانی۔جب تک غازی کھڑا ہوا اور اُس نے اپنے اعصاب پہ قابو پایا۔حملہ آور فرار ہو چُکا تھا۔
غازی حملہ آور کی صرف ایک جھلک ہی دیکھ پایا تھا اور اُسے اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ میجر گنپت راؤ تھا۔میجر گنپت راؤ بھاگتے ہوئے لنگڑا رہا تھا۔غازی نے صرف ایک لمحے کے لئے سوچا اور پھر اُسی جانب دوڑ پڑا جہاں اُس نے میجر گنپت راؤ کو غائب ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔اُسے نہیں معلوم تھا کہ کمرے کے اندر جانے والے کمانڈو کے ساتھ کیا ہوا؟اتنا وقت ہی نہیں تھا کہ وہ اُس کے بارے میں سوچ سکتا یا اُس کی کوئی مدد کر سکتا۔اُس نے دل کو یہ کہہ کر تسلی دے لی تھی کہ کمانڈو تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور اپنی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔
میجر گنپت راؤ کہیں غائب ہو چکا تھا۔اُس کے قدموں کی آواز بھی نہیں آرہی تھی۔غازی محتاط بھی تھا۔وہ اندھا دھند نہیں دوڑ رہا تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ میجر گنپت راؤ اتنی جلدی کیسے کہیں غائب ہو سکتا ہے۔اُسے نہ جانے زمین کھا گئی تھی یا آسمان۔
غازی نے بھاگتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے ہر طرف توجہ رکھنے کی کوشش کی تھی۔ وہ ایک ان دیکھی سمت سے آنے والی اندھی گولی کا شکار نہیں ہونا چاہتا تھا۔اُس کا خیال تھا کہ میجر گنپت راؤ کہیں راستے میں چھپ گیا تھا اور ابھی کسی موقع کا منتظر تھا۔یہ ہی احتیاط اُس کے کام آگئی۔نہ جانے وہ کیسی سرسراہٹ کی آواز تھی کہ غازی نے اچانک ہی اپنا رُخ تبدیل کیا تھا اور یہ ہی بات اُسے بچا گئی۔وہ یقیناریوالور کا فائر تھا۔ یعنی میجر گنپت راؤ اُس سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔غازی نے جلدی سے خود کو زمین پہ گرا دیا۔ دوسری گولی اُس کے بالوں کو چھوتے ہوئے گزری۔خطرہ سر پہ آپہنچا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باسط علی خاموشی کے ساتھ دوسرے صحافیوں کے ساتھ کھڑا کچھ فاصلے پر ہونے والے ایک سنسنی خیز مقابلے کے نتیجے کا انتظار کر رہا تھا۔وہ نصرت صاحب کی مدد کرنا چاہتاتھا۔ مگر جانتا تھا کہ عملی طور پر اس وقت کچھ بھی کرنا ممکن نہیں تھا۔معاملہ سکیورٹی والوں نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔سکیورٹی والوں نے اتنی خوب صورتی سے گھیرا ڈالا تھا کہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ دوسری طرف کیا ہو رہا تھا؟
ُپندرہ منٹ کے بعد اس نے نصرت صاحب کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا۔وہ جھپٹ کر ان تک پہنچا تو انہوں نے اسے آنکھ سے اشارہ کیا تو اس نے ان کے اشارے کو سمجھتے ہوئے کچھ کہنے سے گریز کیا۔
’’وہ نارمن زبسکی ہی تھا۔‘‘ وہ جب دوسرے لوگوں سے ایک محفوظ فاصلے پر پہنچ گئے تو نصرت صاحب نے دھیمے لہجے میں بتایا۔
’’اچھا! تو میرا شبہ درست تھا۔‘‘باسط علی نے سر ہلایا۔
’’ہاں! وہ نارمن زبسکی ہی تھا۔تم نے اس کا ای سگریٹ تو دیکھا ہی ہو گا۔‘‘نصرت صاحب نے پوچھا۔
جواباً باسط علی نے صرف سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔
’’وہ ای سگریٹ نہیں تھا۔زہریلی سوئیاں پھینکنے کے کام آتا ہے۔ظاہری طور پہ ای سگریٹ ہی لگتا ہے۔‘‘نصرت صاحب بے حد سنجیدہ تھے۔
’’شکر ہے کہ کوئی نقصان نہیں ہوا۔‘‘باسط علی نے شکر ادا کرتے ہوئے کہا۔
’’مجھے جیسے ہی شک ہوا میں نے اسے دھکا دیا۔اسی وجہ سے اس کا نشانہ خطا ہو گیا ورنہ نہ جانے کیا ہو جاتا۔‘‘نصرت صاحب کی آنکھوں میں تشویش کے آثار دیکھے جا سکتے تھے۔
’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔بس اللہ کریم نے ہماری عزت رکھ لی ورنہ اس کم بخت نے تو کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔‘‘باسط علی نے کہا۔
’’سکیورٹی والوں نے اسے میری تحویل میں دینے سے انکار کر دیا تھا۔مجھے یقین نہیں کہ وہ اسے زیادہ دیر تک روک سکیں گے۔‘‘نصرت صاحب کے لہجے سے پریشانی کا پتہ چلتا تھا۔
’’آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ وہ اس کی حفاظت نہ کر پائیں گے؟‘‘باسط علی ان کی بات سُن کر حیران ہوا تھا۔
’’وہ ایک بین الاقوامی مجرم ہے۔ایک پیشہ ور قاتل اور نہایت ہی مکار بھی۔مجھے ڈر ہے کہ وہ نکل بھاگے گا۔‘‘نصرت صاحب نے خیال ظاہر کیا۔
’’اللہ نہ کرے۔‘‘باسط علی نے خلوص سے دُعا کی۔
’’دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔‘‘نصرت صاحب سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غازی نے زمین پہ لیٹے ہی لیٹے ایک قلابازی کھائی۔ایک اور گولی وہیں آ کر لگی جہاں وہ ایک لمحے پہلے تھا۔قلابازی کھاتے ہی غازی کے ہاتھ سے گن نکل گئی۔اسے جب اس بات کا احساس ہوا تو اس نے ایک ہی جگہ رکنے پہ اکتفا نہیں کیا اور یہ ہی بات اس کے بچنے کا باعث بن گئی۔اس نے اچانک دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سنی۔اسے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ وہ کون ہو سکتا تھا۔میجر گنپت راؤ کا کوئی ساتھی بھی ہو سکتا تھا۔
’’شاید مدد آ گئی ہو۔‘‘غازی نے سوچا اور لیٹے ہی لیٹے ایک لمبی چھلانگ لگائی اور اُسے ایک آڑ میسر آ گئی۔ساتھ ہی اس کی نظر دوڑتے قدموں پہ پڑی۔وہ اس کا ساتھی کمانڈو تھا۔اس نے بھی غازی کو دیکھ لیا تھا۔غازی نے سکون کا سانس لیا۔کمانڈو رکا نہیں بلکہ اس نے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے سامنے ایک برسٹ مارا اور غازی کے قریب ہی اس نے آڑ لے لی۔جواباً فوراً ہی کوئی ردِعمل ظاہر نہیں ہوا۔کمانڈو نے اپنی پوزیشن بدلتے ہوئے ایک اور برسٹ مارا۔
’’کہیں وہ فرار نہ ہو گیا ہو۔‘‘غازی نے دھیرے سے سرگوشی کی۔
کمانڈو نے جواب دینے کی بجائے اپنا ہاتھ غازی کی طرف بڑھایا۔غازی یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کے ہاتھ میں غازی کی گن دبی ہوئی تھی۔غازی نے زیادہ سوچنے میں وقت ضائع نہیں کیا کہ کمانڈو نے اتنی جلدی اس کی گن کو زمین سے کیسے اٹھا لیا۔گن کو تھامتے ہوئے اُس نے آنکھوں ہی آ نکھوں میں کمانڈو کا شکریہ ادا کیا۔
’’آپ مجھے کور دیں۔میں آگے جاتا ہوں۔‘‘کمانڈو نے سرگوشی کی۔غازی کی آنکھوں میں ایک لمحے کے لئے ہچکچاہٹ نظر آئی۔دونوں نے لمحوں میں فیصلہ کیا۔کمانڈو اللہ کریم کا نام لے کر ایکشن کے لئے تیار ہو گیا۔وہ زمین پہ پھسلتے ہوئے کاریڈور میں تیزی سے آگے بڑھا اور غازی نے اسے مکمل کور دیا۔کمانڈر کے برسٹ کی تڑتڑاہٹ سے کاریڈور گونج اٹھا۔غازی بھی پیچھے نہیں رہا۔غازی کمانڈو کو مکمل کور دے رہا تھا۔دوسری جانب خاموشی تھی۔دونوں نے ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا اور پھر محتاط انداز میں ایک کمرے کی طرف بڑھنے لگے۔ان کا خیال تھا کہ فائرنگ وہیں سے ہوئی تھی۔کمرے کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا۔تھوڑی دیر بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ میجر گنپت راؤ فرار ہو چکا تھا۔کمرے کی ایک کھلی کھڑکی اس کے فرار کی کہانی سنا رہی تھی۔پھر دونوں نے کئی کمرے بڑے محتاط انداز میں دیکھ ڈالے۔میجر گنپت راؤ یا کسی اوردشمن کی وہاں موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔
تھوڑی دیر کے بعد غازی،کرنل فاتح کو ساری کہانی سُنا رہا تھا۔کرنل فاتح نے بھی مختصراً اپنے معرکہ کی تفصیل بتائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیردل اور مومن چوکس انداز میں اپنی جگہ موجود تھے۔ٹی وی کی بڑی سی اسکرین پہ مہمان وزیرِخارجہ کے قافلے کا منظر بڑی خوب صورتی سے دکھایا جا رہا تھا۔اب یہ قافلہ کسی بھی لمحے گلیکسی شاپنگ سینٹر کے قریب پہنچا چاہتا تھا۔شیردل اور مومن دونوں کا خیال تھا کہ انہوں نے حالات پہ قابو پا لیا ہے اور اب کوئی خطرہ باقی نہیں رہا۔
کیا واقعی کوئی خطرہ باقی نہیں رہا تھا؟یہ وہ سوال تھا جو شیردل کے ذہن میں موجود تھا۔اگر خطرہ تھا تو کہاں تھا؟وہ کون ہو سکتا تھا جو آخری لمحے میں حملہ کر کے سب کو حیران کر دیتا۔سکیورٹی کے انتظامات بظاہر تو مکمل تھے۔کوئی بات تھی جو شیردل کے دل میں کھٹکنے لگی تھی۔شاید یہ اس کی چھٹی حس تھی جو خطرے کا احساس دلا رہی تھی۔خطرہ کیا تھا اور کہاں تھا؟شیردل بے چینی کے عالم میں چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔
’’کیا بات ہے؟کوئی بات تمہیں پریشان کر رہی ہے؟‘‘مومن نے اس کی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں یار! کچھ ہے۔کوئی بات جو اچانک ہی مجھے پریشان کرنے لگی ہے۔کہیں نہ کہیں کوئی خطرہ موجود ہے۔کچھ ایسا جو ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔‘‘شیردل نے جواباً سرگوشی کی۔
’’بظاہر تو سکیورٹی کے انتظامات مکمل نظر آتے ہیں۔‘‘مومن کچھ سوچتے ہوئے بولا۔’’پھر بھی اگر تمہیں شک ہے تو گھوم پھر کر ایک چکر لگا آؤ۔‘‘
شیردل کواس کا مشورہ اچھا لگا اور اس نے فوراً ہی اس پہ عمل کرنے کا ارادہ کر لیا۔مومن وہیں کھڑا رہا اور شیردل ایسے ہی ٹہلنے والے انداز میں آس پاس کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔بظاہر تو سب کچھ ٹھیک ہی تھا۔پھر بھی اس کی چھٹی حس شور مچا رہی تھی اور یہ بے وجہ نہیں ہو سکتا تھا۔ماضی میں وہ اپنی چھٹی حس کی بدولت کئی بار بال بال بچا تھا یا خطرے سے بروقت واقف ہونے کی وجہ سے اپنا بچاؤ کر پایا تھا۔
وہ ایک لمحے کے لئے سکیورٹی کے چیف کے پاس رکا اور پوچھا۔’’سب خیریت ہے نا۔کوئی نئی خبر؟‘‘
’’سب کچھ ٹھیک ہے۔اور کوئی نئی خبر بھی نہیں۔ہاں وہ تو خبر نہیں ہو سکتی۔‘‘یہ کہہ کر چیف اپنے دائیں کان کی لو مسلنے لگا۔
شیردل کے کان کھڑے ہو گئے۔پوچھنے لگا۔’’چھوٹی سی چھوٹی بات کی بھی موجودہ حالات میں اہمیت ہے۔جو بھی بات ہے فوراً بتائیں۔‘‘
’’وہ دراصل ایک کمانڈو کو میں نے ائیر کنڈیشننگ سسٹم کو دوبارہ چیک کرنے کے لئے بھیجا تھا۔‘‘چیف نے ہچکچاتے ہوئے بتایا۔
’’مگر کیوں؟سسٹم کو تو ہم چیک کروا چکے ہیں۔‘‘شیردل نے حیرانی ظاہر کی۔
’’وہ دراصل اس کمانڈو کا ہی آئیڈیا تھا۔اس کا خیال تھا کہ سسٹم کو ایک بار پھر چیک کرنے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘چیف نے بتایا۔
’’آپ کو یہ بات عجیب نہیں لگی۔‘‘شیردل نے الجھن بھرے انداز میں پوچھا۔
’’لگی تھی مگر میں نے زیادہ توجہ نہیں دی کیوں کہ وہ کمانڈو ایک ماہر بھی ہے جو ہر طرح کے بم کو ناکارہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘چیف کے انداز میں اس بار بے چینی تھی۔
’’کیا آپ اس کمانڈو کو اچھی طرح جانتے ہیں۔‘‘شیردل کا لہجہ چبھتا ہوا تھا۔
’’ہاں وہ ہمارا ماسٹر کمانڈو ہے۔شک و شبہ کرنے کا کوئی سوال نہیں تھا۔‘‘چیف نے جواب دیا۔’’کیا مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا؟‘‘
’’پتہ نہیں۔‘‘شیردل سوچ رہا تھا۔’’موجودہ حالات میں تو اپنے سائے سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔‘‘
’’کیا خیال ہے اسے چیک نہ کر لیا جائے۔‘‘چیف نے خیال ظاہر کیا۔
’’کرنا ہی پڑے گا۔چلئے ابھی کرتے ہیں۔‘‘شیردل نے آگے قدم بڑھا دئیے۔
دونوں ائیر کنڈیشننگ سسٹم کے پاس پہنچے۔شیردل کے ساتھ ایک اور کمانڈو بھی تھا اور دونوں بڑی احتیاط سے پائپوں،تاروں اور دوسرے آلات سے بچتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔کمانڈو کچھ عرصہ بم ڈسپوزل اسکواڈ میں بھی کام کر چکا تھا شاید اسی لئے چیف نے اس کا انتخاب کیا تھا۔دونوں کی کوشش تھی کہ اس عمل کے دوران ذرا بھی کھٹکا پیدا نہ ہو۔یہ آسان نہیں تھا۔ہر طرف بے شمار پائپ،موٹی موٹی تاریں اور عجیب و غریب آلات کی وجہ سے ان کی حرکت میں زیادہ تیزی نہیں تھی۔کمانڈو شیردل سے آگے تھا۔یہ چیف ہی کی تجویز تھی۔اچانک کمانڈو سی کر کے رہ گیا۔شاید کسی تار سے الجھ گیا تھا۔
’’کیا ہوا؟‘‘شیردل نے مدھم انداز میں سرگوشی کی۔حالانکہ سرگوشی کو کوئی ضرورت نہیں تھی۔
’’کسی نے مجھ پر بے آواز جدید ہتھیار سے فائر کیا ہے۔‘‘کمانڈو تکلیف میں معلوم ہوتا تھا۔
’’گولی کہاں لگی ہے؟‘‘شیردل نے تشویش ظاہر کی۔
’’بازو کے گوشت کوچھیلتے ہوئے گزری ہے۔‘‘کمانڈو اب سسٹم کے فرش سے چپک گیا تھا۔شیردل نے بھی اس کی تقلید کی تھی۔
وہ ان سے صرف چند میٹر کے فاصلے پر تھا۔وہ جو کوئی بھی تھا کمانڈو کے ہی بھیس میں تھا۔اچانک وہ چلایا۔ائیر کنڈیشننگ سسٹم کی آواز میں اس کا چلانا ایک سرگوشی سے کچھ ہی زیادہ رہا ہو گا۔
’’اپنے ہتھیار پھینک دو ورنہ میرے ہاتھ میں موجود مہلک بم پھٹ جائے گا اور سینکڑوں لوگوں کی موت کے تم ذمہ دار ہو گے۔‘‘شیردل کو اس کا پیغام سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی۔وہ اب ان کے سامنے تن کر کھڑا تھا اور اس کے ایک ہاتھ میں موجود چیز سے اس کے خطرناک عزائم کا پتہ چلتا تھا۔
کمانڈو فائر کرنے کے لئے تیار تھا مگر شیردل نے اسے روک دیا اور جواباً چلایا۔’’ہم اپنی گنز پھینک رہے ہیں۔تم کوئی جذباتی فیصلہ نہ کر بیٹھنا۔‘‘ائیر کنڈیشننگ سسٹم کا شور اتنا تھا کہ چلائے بغیر بات کرنا آسان نہ تھا۔شیردل کی بات سن کر کمانڈو نے اپنی گن کو نیچے کر لیا۔اس نے بھی حالات کی نزاکت کو سمجھ لیا تھا۔
کمانڈو کے بھیس میں موجود حملہ آور نے دیوانگی سے بھرپور ایک قہقہہ لگایا۔وہ ان سے دو قدم مزید قریب ہو گیا تھا۔اس نے شیردل اور کمانڈو کو اپنے ہتھیار پھینکتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
’’تم کون ہو؟تم کمانڈو تو نہیں ہو سکتے؟‘‘شیردل نے اسے باتوں میں لگانا چاہا۔
’’یہ بات تو کوئی بچہ بھی جان سکتا ہے۔تم نے کوئی بڑا تیر نہیں مارا۔‘‘وہ مذاق اڑانے والے انداز میں بولا۔
’’میں نے کب کہا کہ میں نے کوئی بڑا تیر مارا ہے۔‘‘شیردل کا جواب سنجیدگی لئے ہوئے تھا۔
’’بہرحال مجھے تم سے ہمدردی ہے۔تم نے کوشش تو بہت کی لیکن تم ہار گئے۔‘‘اس کے چہرے پہ ایک سفاک مسکراہٹ تھی۔
’’تم کیا کرنا چاہتے ہو؟اور دراصل تم ہو کون؟‘‘شیردل نے اپنا سوال پھر دہرایا۔وہ وقت گزارنے کی کوشش کر رہا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح اسے باتوں میں لگائے رکھے اور مہمان وزیرِ خارجہ کا قافلہ گلیکسی شاپنگ سینٹر سے خیر و عافیت سے گزر جائے۔
’’تم بھی کیا یاد کرو گے کہ مرنے سے پہلے حقیقت جان گئے تھے۔‘‘اس نے خباثت سے بھرپور ایک قہقہہ لگایا۔’’ہو ں تو میں بھی کمانڈو ہی البتہ میرا تعلق سرحد کے اس پار سے ہے۔میں میجر صاحب کا دستِ راست یعنی نائب ہوں۔‘‘
’’تم میجر گنپت راؤ کی بات کر رہے ہو۔‘‘شیردل نے مصنوعی حیرانگی ظاہر کی۔
’’ہاں میں میجر صاحب کا ہی ایک غلام ہوں۔بس بہت باتیں ہو چکیں۔اب مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔‘‘یہ کہہ کر اس نے اپنی گن سیدھی کی۔
’’صرف ایک بات اور پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘شیردل نے غیر محسوس انداز میں اس کی جانب ایک قدم بڑھایا۔
’’چلو جلدی پوچھو۔میرے پاس اب وقت نہیں ہے۔‘‘اس نے اپنی گن کا رخ شیردل کی جانب رکھتے ہوئے پوچھا۔
’’تم نے کمانڈو کی جگہ کیسے لی اور چہرے کو اتنی جلدی کیسے تبدیل کر لیا؟‘‘شیردل کا سوال سن کر وہ مسکرایا اور لمحے بھر کے لئے کچھ نہ بولا۔
’’تمہارا مطلب ہے کہ میں نے اتنی آسانی سے تمہارے کمانڈو کی جگہ کیسے لے لی۔یہ تو بڑا ہی آسان تھا۔وہ میرا ایک بھی ہاتھ برداشت نہیں کر سکا۔‘‘وہ بڑے مزے سے اپنا کارنامہ سنا رہا تھا۔’’پلاسٹک میک اپ نے میرے چہرے کو تمہارے بے چارے کمانڈو کا چہرہ دے دیا اور نتیجہ تو تمہارے سامنے ہی ہے۔آہ۔۔۔۔مم۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔بچاؤ۔۔۔۔‘‘
اچانک نہ جانے کیا ہوا تھا کہ میجر گنپت راؤ کا نائب پیچھے الٹ کر گرا تھا۔شیردل نے موقعے سے فوراً ہی فائدہ اٹھایا اور اس پہ جا پڑا۔جھٹکا لگنے سے اس کے ہاتھ سے وہ ’’مہلک بم‘‘ اچھل کے دور جا پڑا تھا۔
’’مجھے بچاؤ۔۔۔چھ۔۔۔پ۔۔۔۔۔ک۔۔لی۔۔۔چھپکلی۔‘‘میجر گنپت راؤ کا نائب چلا رہا تھا۔شیردل کو پہلے تو اس کی بات کی سمجھ نہ آئی۔جب وہ سمجھ پایا تو اس کا جی چاہا کہ قہقہہ لگا کر ہنسے۔شیردل نے فوراً ہی اس کی کنپٹی سہلا دی اور وہ بے ہوش ہو گیا۔وہ جیسے ہی اسے چھوڑ کر کھڑا ہوا تو اس نے ایک چھپکلی کو اس کی قمیض سے باہر جھانکتے ہوئے دیکھا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ موٹی موٹی تاروں کے ڈھیر میں غائب ہو چکی تھی۔شیردل مسکرا اٹھا۔آج ایک چھپکلی نے ان کی جان بچا دی تھی۔شیردل کے ساتھ آنے والا کمانڈو اتنی دیر میں بم کو ناکارہ کر چکا تھا۔
’’وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔بم بے حد خطرناک تھا۔بم کی ہلاکت خیزی کا شمار کرنا مشکل ہوتا۔‘‘کمانڈو نے بتایا۔
شیردل نے جب اسے چھپکلی والی بات بتائی تو وہ بھی مسکرانے لگا۔’’آپ کے کہنے کا مقصد ہے کہ کہیں سے ایک چھوٹی سی چھپکلی نے اس کی قمیض کے اندر گھس کر ہم سب کی جان بچا لی۔‘‘
’’ہا ں ایسا ہی ہے۔‘‘شیردل نے جواب دیا۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ میجر گنپت راؤ کے نائب کو سکیورٹی کے چیف کے حوالے کر چکاتھا۔ٹی وی کی بڑی سی اسکرین پہ مہمان وزیرِ خارجہ کے قافلے کے گزرنے کا منظر تھا۔شیردل طمانیت سے مسکرایا۔قافلہ گلیکسی شاپنگ سینٹر سے کافی دور جا چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’دشمنوں نے ایک بڑی گہری سازش کی تھی۔وہ برادر اسلامی ملک کے وزیرِ خارجہ کو ہمارے ملک میں قتل کر کے نہ صرف ہمارے ملک کو بدنام کرنا چاہتے تھے بلکہ برادر اسلامی ملک کو ہمارے ساتھ دفاعی معاہدے کرنے سے بھی روکنا چاہتے تھے۔‘‘کرنل فاتح بتا رہے تھے۔
اس وقت سب ہی وہاں موجود تھے۔یہ نشست کرنل فاتح کے فارم ہاؤس میں ہو رہی تھی۔
’’انکل! مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ انہوں نے وہاں وہ دیو ہیکل کرین کیوں کھڑی کی تھی۔وہ اس کا کیا استعمال کرنا چاہتے تھے؟‘‘مجاہد نے کرنل فاتح سے پوچھا۔
کرنل فاتح دھیرے سے مسکرائے۔’’وہ ہمیں صرف الجھانا چاہتے تھے۔کرین کا کوئی بھی استعمال انہوں نے نہیں کرنا تھا۔میں مانتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے لئے وہ مجھے الجھانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔‘‘
’’وہ کیسے انکل؟‘‘مومن نے سوال کیا۔
’’میں یہ سمجھتا رہا کہ وہ کرین کو حملے میں استعمال کریں گے۔میں سوچتا رہا کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟‘‘کرنل فاتح بتا رہے تھے۔’’ایک خیال تو یہ تھا کہ وہ کرین کے ڈرائیور والے بھاری کیبن کو مہمان وزیرِخارجہ کی کار پہ گرانا چاہتے تھے۔مگر کیسے؟دوسری بات یہ بھی ہو سکتی تھی کہ وہ کرین کے کیبن میں کسی ماہر نشانہ باز کو چھپا دیتے۔میں نے کئی باتیں سوچیں لیکن کوئی بھی بات میرے دل کو مطمئن نہ کر سکی۔‘‘
’’کرین کی وہاں موجودگی کی کوئی اور وجہ؟‘‘شیردل گویا خود سے مخاطب تھا۔
’’کافی غور کرنے کے بعد مجھے یہ ہی بات سمجھ میں آئی کہ کرین کی وہاں موجودگی سوائے دھوکے کے اور کچھ نہیں۔کرین کی وجہ سے البتہ میری رہنمائی ان دو عمارتوں کی طرف ہو گئی جہاں وہ معرکے ہوئے۔‘‘کرنل فاتح نے ساری بات تفصیل سے بتائی۔
’’پانی کے ٹینک میں چھپے ہوئے مجرم نے خواہ مخواہ آپ کو چھیڑا، ورنہ وہ خود تو محفوظ تھا۔‘‘غازی نے اپنا خیال پیش کیا۔
’’تم ٹھیک کہتے ہو۔‘‘کرنل فاتح نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔’’میں اسے ٹینک میں چھپا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا۔اصل بات یہ ہے کہ اللہ کریم نے ہمیں دشمنوں کی چالوں سے بچانا تھا اور ہماری عزت کی حفاظت بھی کر نا تھی۔‘‘
اس کے بعد شیردل اور مومن نے گلیکسی شاپنگ سینٹر پہ ہونے والے واقعات سُنائے۔ان سے کچھ سوالات ہوئے اور پھر نصرت صاحب نے نارمن زبسکی کے متعلق بتایا۔
’’اب نارمن زبسکی کس کی تحویل میں ہے؟‘‘کرنل فاتح نے پوچھا۔
’’اب وہ کسی کی بھی تحویل میں نہیں۔‘‘نصرت صاحب نے برا سا مُنہ بنایا۔
’’کیا مطلب؟‘‘غازی نے سوال کیا۔
’’جیسا کہ مجھے اُمید تھی۔وہی ہوا۔سکیورٹی والے اسے زیادہ دیر اپنی تحویل میں نہ رکھ سکے۔جیسے ہی اُسے موقع ملا تو وہ انہیں جل دے کر غائب ہو گیا۔‘‘
’’یہ تو بہت برا ہوا۔ادھر میجر گنپت راؤ کا بھی کوئی پتہ نہیں۔‘‘کرنل فاتح فکرمند ہو گئے۔’’وہ دونوں چوٹ کھائے ہوئے سانپ کی طرح اب ڈسنے کو تیار بیٹھے ہو ں گے۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ ہمیں بغدادی کے تمام ٹھکانوں پہ ریڈ کر نا چاہئے۔وہ دونوں وہیں کہیں چھپے بیٹھے ہو ں گے۔‘‘شیردل نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
’’تمہارا خیال ٹھیک ہے۔‘‘کرنل فاتح نے بتایا۔’’میں اس بات کا پہلے ہی بندوبست کر چکا ہوں۔بڑی مشکل سے مجھے تلاشی کے وارنٹ ملے تھے۔
’’دیکھیں انکل! شاید جلد ہی کوئی اچھی خبر ملے۔‘‘مومن نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اللہ کریم کا فضل و کرم چاہئے۔ان شاء اللہ جلد ہی کچھ اچھی خبر ملے گی۔‘‘کرنل فاتح پُرامید لہجے میں بولے۔
’’میرے خیال میں تو سب سے اچھی خبر یہ ہے کہ ہم نے دشمن کے مذموم مقاصد کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔‘‘ باسط علی نے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیا۔’’مہمان وزیرِخارجہ کا دورہ کامیاب رہا اور دونوں مسلمان ملکوں کے بیچ تعلقات میں بہتری اور استحکام آیا ہے۔‘‘
’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔‘‘نصرت صاحب نے اس کی تائید کی۔
’’یعنی کہ ہمیں یوں مُنہ لٹکا کر نہیں بیٹھنا چاہئے۔‘‘غازی کو تو بس موقع چاہئے تھا۔
’’مُنہ کس نے لٹکایا ہے۔سب کے مُنہ اپنی جگہ پر ہیں۔‘‘مجاہد نے بڑی معصومیت سے کہا۔
’’میں نے محاورہ بولا تھا۔ مگر جناب کا اردو ادب سے کیا تعلق؟‘‘غازی نے پلٹ کر حملہ کیا۔
’’بھائی یہ بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔تم ٹھہرے شاعر اور ادیب اور ہمیں الف کی بے معلوم نہیں۔‘‘شیردل کے ہونٹوں پہ بھی شریر مسکراہٹ مچل اُٹھی۔
’’اگر مدرسے گئے ہوتے تو آج شرمندگی سے بچ گئے ہوتے۔‘‘غازی کہاں باز رہنے والا تھا۔
ان کی نونک جھونک ابھی شاید مزید طول پکڑتی اگر کرنل فاتح کا فون نہ آ گیا ہوتا۔
وہ سیل فون کو کان سے لگا کر ایک محفوظ فاصلے پر چلے گئے تھے۔ان کے چہرے پہ چھائی ہوئی سنجیدگی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ خبر اچھی نہیں۔تھوڑی دیر بعد وہ انہیں بتا رہے تھے کہ’’بغدادی صاحب کے کسی بھی ٹھکانے سے نہ تو کوئی مجرم ہی پکڑا گیا ہے اور نہ ہی کوئی اور قابلِ اعتراض چیز ملی ہے۔بغدادی صاحب نے وزیرِداخلہ اور ان کی منسٹری سے سخت شکایت کی ہے۔‘‘
ان کی بات سن کر کمرے میں ایک سناٹا سا چھا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ارے بھئی سب یوں مُنہ کیوں لٹکا کر بیٹھ گئے ہیں۔اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔‘‘کرنل فاتح نے ان کا حوصلہ بڑھانا چاہا۔
سب کے چہروں پہ تھکی تھکی سے مسکراہٹ دیکھ کر کرنل فاتح بولے۔’’اب کمر باندھ لو۔مقابلہ تو اب شروع ہوا ہے۔دشمن زیادہ دیر انتظار کرنے والا نہیں۔وہ فوراً وار کرے گا۔ہمیں اس کو اس کے حملے سمیت غارت کرنا ہے۔‘‘
’’ان شاء اللہ ایسا ہی ہو گا۔‘‘غازی کا مضبوط لہجہ متاثرکن تھا۔
’’اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔میرا مطلب ہے کہ ہمارا پلان کیا ہونا چاہئے؟‘‘شیردل نے پوچھا۔
’’تمہارا کیا خیال ہے؟ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‘‘کرنل فاتح نے مسکراتے ہوئے گیند اس کے کورٹ میں پھینک دیا۔
’’دشمنوں کا تعاقب اور ان تک اس سے پہلے پہنچنا کہ وہ ہمیں کوئی نقصان پہنچا سکیں۔‘‘شیردل کا جواب ذہانت سے بھرپور تھا۔
’’یہ تو بڑا ہی سیاسی جواب ہے۔‘‘غازی نے شرارت آمیز لہجے میں کہا۔
’’بھائی تمہیں اس میں کون سی سیاست نظر آ گئی؟‘‘مومن نے سادگی سے پوچھا۔
’’یہ ایسا ہی بیان ہے جیسا کہ۔۔۔‘‘غازی نے لمحے بھر کے لئے توقف کیا۔’’ہمارے سیاست دان یا حکومتی عہدے دار دیتے ہیں کہ کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لینے دیں گے اور ایسا کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔اب کوئی ان سے پوچھے کہ وہ انہیں بتا کر ہی توقانون کو اپنے ہاتھ میں لیں گے۔ویسے یہ آہنی ہاتھ کس کے ہوتے ہیں؟‘‘
’’اب یہ بھی تم ہی بتاؤ کہ آہنی ہاتھ کس کے ہوتے ہیں؟‘‘کرنل فاتح نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’حکومت کے اس عہدے دارکے تو نہیں ہو سکتے جو جب ایسا بیان دے رہا ہوتا ہے تو اس کے ’’آہنی ہاتھ‘‘ کانپ رہے ہوتے ہیں اور ہوسکتاہے کہ ڈائس کے پیچھے ٹانگیں بھی کانپ رہی ہوں۔‘‘غازی نے اس بار سنجیدگی اختیار کی۔غازی کی بات سب کے چہروں پہ مسکراہٹ بکھیرنے کا سبب بن گئی۔
’’ایک بات اور بھی ہے۔‘‘غازی اپنی ہی دھن میں مگن تھا۔’’کہا جاتا ہے کہ مجرم کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو قانون کے ہاتھوں سے نہیں بچ سکتا۔حالانکہ بڑا مجرم تو مجرم ہوتا ہی نہیں۔وہ تو ہمارے معاشرے کا ایک معزز شہری ہوتا ہے۔‘‘
’’ایسا ہی ہے۔‘‘باسط علی نے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔’’میرے ساتھ ایسا کئی بار ہوا ہے کہ مکمل ثبوت ہونے کے باوجودمیں ان بڑے لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑ پایا یعنی مجرم معزز ہی رہتا ہے۔اکثر تو اخبارات کے مالکان ایسے ثبوتوں کو چھاپنے پہ ہی تیار نہیں ہوتے۔‘‘
کرنل فاتح اور نصرت صاحب کے چہروں پہ لکھی تحریر بھی صاف پڑھی جا سکتی تھی کہ ’’ان کے ساتھ بھی ایسا کئی بار ہو چکا ہے۔‘‘
’’نیکی اور برائی کی جنگ ازل سے جاری ہے اور قیامت تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔وقتی ناکامی کبھی ہمیں مایوس کر دیتی ہے مگر اللہ کریم کا بیان دلوں کو تقویت دینے والا ہے کہ فتح ہمیشہ اہلِ حق ہی کو ملتی ہے۔‘‘کرنل فاتح کا انداز سنجیدہ تھا۔
’’بات تب بنتی ہے جب ہم خود کو اہلِ حق ثابت کر دیں۔‘‘مجاہد نے نکتہ اٹھایا۔
’’واہ کیا زبردست بات کی ہے۔‘‘کرنل فاتح نے مجاہد کو سراہتے ہوئے کہا۔’’انسان جب اللہ کریم کی آزمائش میں پورا اتر تا ہے تو پھر کامیابی اس کے قدم چومتی ہے۔‘‘
’’ویسے انکل یہ کامیابی جب قدموں کو چومتی ہے تو انسان کیسا محسوس کرتا ہے۔‘‘غازی کا انداز بظاہر سنجیدہ تھا۔
’’جن انسانوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے وہ ہی محسوس کر سکتے ہیں۔تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔دودر دور تک تمہارے لئے اس بات کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔‘‘مومن نے غازی پہ چوٹ کی۔
’’اچھا نجومی صاحب۔تو یہ امکانات کن کن لوگوں کے بارے میں ہیں؟آپ کا علم اس بارے میں کیا کہتا ہے؟‘‘غازی کی زبان بھلا کہاں رکنے والی تھی۔
نصرت صاحب نے غیر سنجیدہ گفتگو کو مزید پھیلنے سے روکتے ہوئے کہا۔’’اب ہمیں اصل مسئلے کی طرف آ جانا چاہے۔ہمیں فوری حکمتِ عملی طے کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ٓان کی بات سے سب ہی نے اتفاق کیا۔
شیردل نے بات شروع کرتے ہوکہا۔’’ہمارا دشمن وقتی طور پہ فرار ہوا ہے یعنی منظرِ عام سے اوجھل ہوا ہے۔موقع ملتے ہی وہ جوابی حملہ کرنے سے باز نہیں آئے گا۔‘‘
’’اس میں کوئی شک نہیں۔‘‘نصرت صاحب نے تشویش کا اظہار کیا۔’’ہم نے اس کے ایک حملے کا جواب دیا ہے جب کہ ہمیں اس کے اصل منصوبے کا ابھی تک علم نہیں۔‘‘
’’اصل منصوبہ کیا ہو سکتا ہے؟‘‘مومن نے دھیرے سے پوچھا۔
’’اصل منصوبے کا علم اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ دشمن ہماری نظروں سے اوجھل نہ ہونے پائے۔اگر ہم اس کی نقل و حرکت پہ نظر رکھ سکیں تو اس کا منصوبہ ہمارے سامنے آ جائے گا۔‘‘کرنل فاتح نے گفتگو کو سمیٹتے ہو ئے کہا۔
’’ویسے انکل!آپ کو تو یونیورسٹی کا پروفیسر ہونا چاہئے تھا۔ما شا ء اللہ کتنی مدلل گفتگو کرتے ہیں۔میرا مطلب ہے کہ کتنا اچھالیکچر دیتے ہیں۔‘‘غازی کا انداز ہلکا پھلکا تھا۔
’’مدلل گفتگو کرنے کے لئے پروفیسر ہونا ضروری نہیں ہوتا۔سمجھ داری اور عقل مندی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ وہ چیزیں ہیں جن سے تم پیدل ہو۔‘‘مجاہد نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’سوار صاحب!ذرا یہ تو بتائیے کہ ایسی کون سی سواری پر آپ سوار ہوتے ہیں کہ عمدہ گفتگو کر پاتے ہیں۔‘‘غازی نے بظاہر سنجیدگی سے پوچھا۔
’’سوار اور سواری کی بھئی تم نے خوب کہی۔‘‘کرنل فاتح نے ہنستے ہوئے کہا اور پھر بات کو سمیٹنے کی خاطر بولے۔’’اچھا بھائی اب سب سنجیدہ ہو کر میری بات سنیں۔ہمارا ایکشن پلان۔۔۔۔۔‘‘
سب لوگ ان کی بات توجہ سے سننے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پلان کے مطابق اب سب کو میک اپ میں رہنا تھا اور شہر بھر میں پھیل کر دشمنوں کی ممکنہ حرکات و سکنات پہ نظر رکھنا تھی۔کرنل فاتح نے شیردل اور غازی کی جوڑی بنا دی تھی اور مجاہد اور مومن کو اکٹھا کر دیا تھا۔ان کو نئے موٹر سائیکل مل گئے تھے اور مختصر سائز کا جدید اسلحہ بھی انہیں دے دیا گیا تھا۔نصرت صاحب کو آزادی دی گئی تھی کہ وہ اپنی فورس کے ساتھ ساتھ کام کرتے ہوئے جیسے بھی ممکن ہو تو دوسروں کی مدد بھی کریں۔کرنل فاتح نے باسط علی کو اپنے ساتھ رکھا تھا جس کی وجہ سے وہ بہت خوش تھا۔
’’یار شیردل!انکل واقعی ہی بہت سیریس ہیں تب ہی تو انہوں نے ایسے اقدامات کئے ہیں۔‘‘غازی اس وقت موٹر سائیکل چلا رہا تھا اور شیردل اس کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔غازی کا اشارہ کرنل فاتح کی طرف تھا۔
’’ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ابا جان کو میں نے اتنا سنجیدہ کم ہی دیکھا ہے۔دشمن اگر نظر سے اوجھل ہو اور اس کے پروگرام کا بھی علم نہ ہو تو وہ بہت خطرناک ہو جاتا ہے۔‘‘شیردل نے جواباً کہا۔
’’دشمن کا ایک پروگرام تو مہمان وزیرِخارجہ کو ہمارے ملک میں قتل کر کے عالمی برادری میں ہمیں رسوا کرنا تھا۔مجھے لگتا ہے کہ دوسرا پروگرام شاید اس سے بھی زیادہ خطرناک ہو۔‘‘غازی نے خدشہ ظاہر کیا۔
’’دشمن کے اصل پروگرام سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے یہ ممکن نہیں کہ ہم کوئی پروگرام ایڈوانس میں بنا سکیں۔‘‘شیردل نے اس کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
’’اب کدھر کا ارادہ ہے؟‘‘غازی نے پوچھا۔وہ رات کے وقت ایک مخصوص علاقے میں اپنے معمول کے مطابق گشت پر تھے۔
’’سوچ رہا ہوں کہ ایک چکر جہانگیر کی طرف لگا لیا جائے۔‘‘شیردل نے کہا۔
’’جہانگیر!یہ انکل کے دوست احمد شیرانی کے بیٹے کا نام نہیں؟‘‘غازی کا انداز سوالیہ تھا۔
’’ہاں یہ وہی ہے۔اب بنو مت تم سب جانتے ہو۔‘‘شیردل غازی کے انداز پہ مسکرا دیا۔اس نے شیردل کی طرف منہ موڑ کر پوچھا تھا۔
’’یہ جاننے کی بھی تم نے خوب کہی۔ہم تو وہاں ہیں کہ ہمیں خود اپنی بھی خبر نہیں۔‘‘غازی نے گنگناتے ہوئے شعر کے مصرعہ کی مٹی پلید کرتے ہوئے جواب دیا۔
غازی کا رخ اب اس ہسپتال کی طرف تھا جہاں جہانگیر کو علاج کے لئے رکھا گیا تھا۔انہوں نے تعاقب کے خدشے کو نظر انداز نہیں کیا تھا۔
جہانگیر کا علاج کامیابی سے چل رہا تھا۔اس نے شیردل کو دیکھتے ہی شکایت کی۔’’یار شیردل!تم تو مجھے ہسپتال میں جمع کروا کے بھول ہی گئے۔‘‘غازی اور شیردل دونوں اس کے ’’ہسپتال میں جمع کروانے والی بات‘‘ پہ مسکرا دئیے۔غازی تو چپ نہیں رہ سکا۔کہنے لگا۔’’جمع کروانے کی بات تم نے خوب کہی جیسے کہ بجلی کا بل جمع کروا دیا اور ہمیشہ کے لئے جمع کروا دیا۔‘‘
’’کیا تمہیں یہاں کوئی تکلیف ہے؟‘‘شیردل نے اس کے بیڈ کے پاس رکھی کرسی پہ بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’یار!یہ کوئی کم تکلیف ہے کہ اپنے شہر میں ہوتے ہوئے میں اپنے خاندان والوں سے نہیں مل سکتا۔‘‘جہانگیر کے انداز میں اداسی تھی۔
’’کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔‘‘غازی نے بے تکلفی اختیار کی۔غازی اس سے پہلے مل چکا تھا اور دوستی کو واجبی ہی کہا جا سکتا ہے۔
’’بھائی میرے!تمہیں یہاں رکھنے کا ایک مقصد تو تمہارا علاج تھا جو کہ کامیابی سے جاری ہے اور دوسرا تمہاری حفاظت مقصود تھی۔‘‘شیردل نے سنجیدگی سے کہا۔
’’وہ تو ٹھیک ہے یار۔مگر میں یہاں بہت بور ہوتا ہوں۔‘‘جہانگیر بہت اکتایا ہوا لگ رہا تھا۔
’’زندہ رہتے ہوئے بور ہونا بہتر ہے بجائے اس کے کہ زندگی کی بازی ہار کے دوسروں کو بور کیا جائے۔‘‘غازی اس کی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرایا۔
’’یہ بات تو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔‘‘جہانگیر نے واضح طور پہ جھرجھری لیتے ہوئے کہا۔
جہانگیر کا جواب سُن کر شیردل نے اطمینان کا سانس لیا ورنہ وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں جہانگیر،غازی کی بے تکلفی کا برا ہی نہ مان جائے۔
جہانگیر کے ساتھ کچھ وقت گزار کر دونوں ہسپتال سے باہر آئے۔ہسپتال کے ڈیوٹی ڈاکٹر نے انہیں بتایا تھا کہ’’جہانگیر کا علاج بہت اچھی طرح سے چل رہا تھا اور وہ صحت یابی کی طرف گامزن تھا۔ابھی وہ ہسپتال سے نکلے ہی تھے کہ شیردل کے سیل فون پہ کال آ گئی۔
شیردل نے نمبر دیکھا تو وہ اجنبی تھا۔اس نے کچھ سوچ کر فون کان سے لگا لیا۔
نہ جانے دوسری طرف سے کیا کہا گیا کہ شیردل کی چوڑی پیشانی پہ شکنیں سی پڑ گئیں۔غازی اسے بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔
’’کیا آپ کو پورا یقین ہے؟بم کہاں چھپایا گیا ہے؟ہمارے پاس کتنا وقت ہے؟‘‘شیردل نے اوپر تلے کئی سوالات کر دئیے تھے۔بم کا سُن کر غازی کے کان کھڑے ہوئے۔شیردل دوسری طرف ہونے والی گفتگو سنتا رہا اور پھر اُس نے واپس ہسپتال کی طرف دوڑ لگا دی۔غازی ایسے موقع پر کیسے پیچھے رہتا۔
شیردل سیدھا ڈیوٹی ڈاکٹر کے کمرے میں گھستا چلا گیا۔ڈاکٹر اظہر ڈیوٹی پہ تھا۔انہیں کمرے میں یوں داخل ہوتے دیکھ کر اس کے چہرے پہ ناخواشگوار اثرات پھیل گئے۔اس نے زبردستی ہونٹوں پہ مسکراہٹ لانے کی کوشش کی مگر اسے اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔
’’ڈاکٹر اظہر! ہماری بات بڑے غور سے سنئے۔ہسپتال میں کسی نے بم رکھ دیا ہے۔ہمیں ابھی اس کی اطلاع ملی ہے۔وقت بالکل بھی نہیں ہے۔آپ فوراً ہسپتال کو خالی کرنے کا حکم دے دیں۔کوئی ایک بھی شخص اندر نہ رہنے پائے۔‘‘شیردل نے بلا تمہید اپنی بات کہہ دی۔وہ ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے اس سے مل کر گیا تھا اس لئے اسے ڈاکٹر کا نام یاد تھا۔
’’مگر یہ میں کیسے کر سکتا ہوں۔ہسپتال کی مینجمنٹ ٹیم سے پوچھے بغیر میں کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا اور ہو سکتا ہے کہ یہ کسی نے شرارت کی ہو۔‘‘وہ تعاون کرنے پہ آمادہ نہیں تھا۔اس کے لہجے میں واضح ہچکچاہٹ تھی۔
’’اگر آپ نے کچھ نہ کیا اور بم کا دھماکہ ہوا تو پھر آپ کی خیر نہیں۔‘‘شیردل کا انداز خوفناک تھا۔
’’اور ویسے بھی اگر آپ اس ہسپتال میں بیٹھے رہے تو پھر آپ کی خیر کی فکر کسے ہو گی؟آپ تو یہاں ہوں گے ہی نہیں۔‘‘غازی نے اشارے سے ہاتھ کو آسمان کی طرف اٹھا تے ہوئے اسے بتایا کہ وہ کہاں ہو گا۔
شیردل اپنی بات کر کے رکا نہیں اس نے غازی سے کہا کہ’’جلدی سے پولیس اور فائر بر یگیڈ کو فون کرو۔میں جب تک ہسپتال کی سکیورٹی کو الرٹ کرتا ہوں۔‘‘یہ کہہ کر شیردل نے دوڑ لگا دی۔
تھوڑی دیر بعد شیردل ہسپتال سے بھاگتا ہوا نکلا۔جہانگیر بھی اس کے ساتھ تھا۔شیردل کی بات کا اثر ہوا تھا۔ہسپتال سے لوگ بھاگ بھاگ کر نکل رہے تھے۔ان میں مریضوں کے علاوہ ہسپتال کا اسٹاف بھی تھا۔غازی بھی چند منٹوں بعد شیردل سے آ ملا۔
’’پولیس والے تو میری بات سننے کے لئے تیار ہی نہیں تھے اس لئے مجبوراً مجھے ڈیڈی کا سہارا لینا پڑا۔‘‘غازی بتا رہا تھا۔’’البتہ فائر بریگیڈ والے چل پڑے ہیں؟‘‘
شیردل نے اس کی طرف تعریفی نظروں سے دیکھا مگر منہ سے کچھ نہ کہا۔وہ ڈاکٹر اظہر کی طرف متوجہ ہو گیا جو اس کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔
’’میں نے آپ کے کہنے پر ایکشن لے تو لیا ہے مگر نہ جانے اس کا نتیجہ کیا نکلے؟اگر کچھ نہ ہوا تو میری ملازمت خطرے میں پڑ جائے گی۔‘‘ڈاکٹر اظہر کافی پریشان معلوم ہوتا تھا۔
’’اللہ کرے کہ کچھ بھی نہ ہو اور میرا خیال غلط ثابت ہو۔‘‘شیردل نے خلوصِ دل سے دعا کی تو ڈاکٹر اظہر عجیب سے انداز میں اس کی طرف دیکھ کر رہ گیا۔
شیردل کا خیال غلط نہ تھا۔ایک زوردار دھماکہ ہوا اور پھر دھماکوں کاسلسلہ سا شروع ہو گیا۔ہسپتال کی عمارت دھوئیں،آگ کی لپٹوں اور دھول مٹی میں چھپ کر رہ گئی۔ڈاکٹر اظہر کا چہرہ فق ہو گیا۔شیردل بے بسی سے کھڑا اپنے ہونٹ کاٹ رہا تھا اور غازی کے چہرے پر ایسے تاثرات تھے کہ اگر بم رکھنے والے اس کے سامنے ہوتے تو وہ انہیں کچا ہی چبا جاتا۔
جب تک پولیس،فائر بریگیڈ اور دوسرے امدادی ادارے وہاں پہنچتے،وہاں میڈیا کے لوگوں نے یلغار کر دی۔ہر چینل دوسروں سے نمبر لے جانا چاہتا تھا اور خبروں کے لئے بھاگ دوڑ شروع ہو چکی تھی۔
شیردل نے غازی کو آنکھ کا اشارہ کیا تو وہ ہجوم سے نکلتا چلا گیا۔تھوڑی دیر بعد وہ موٹر سائیکل لے کر ان کے پاس پہنچا اور پھر وہ تینوں وہاں سے روانہ ہو گئے۔
غازی موٹر سائیکل چلا رہا تھا اور شیردل نے جہانگیر کو درمیان میں بٹھایا تھا۔جہانگیر پہ حادثے کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ اس کے منہ سے آ واز تک نہ نکلی تھی۔موٹر سائیکل پہ تین کی سواری قانوناً جرم تھی مگر اس وقت ان کے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا۔غازی کی کوشش تھی کہ کم مصروف اور قدرے سنسان سڑکوں کا استعمال کیا جائے تاکہ قانوں نافذ کرنے والے اداروں سے مڈبھیڑ نہ ہو۔وہ اس میں کامیاب بھی رہا۔تھوڑی دیر بعد وہ شیردل کے گھر پہنچ گئے۔غازی نے تعاقب کا پورا خیال رکھا تھا اور بظاہر تو ایسا نہیں لگتا تھا کہ کسی نے ان کا تعاقب کیا ہو۔شیردل نے بھی پوری نظر رکھی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح کے سیل فون پہ آنے والی وہ کال کسی اجنبی نمبر سی کی گئی تھی۔ان کے ماتھے پہ بل پڑ گئے۔یہ نمبر چند بہت ہی خاص لوگوں کے پاس تھا۔کچھ سوچ کر انہوں نے کال سننے سے احتراز کیا۔پانچ منٹ کے اندر جب بار بار اسی نمبر سے کال کی گئی تو انہوں نے کال لینے کے لئے سیل فون کان سے لگایا مگر خود خاموش رہے۔دوسری طرف سے بات کرنے والے کووہ فوراً نہیں پہچان سکے۔اس نے جب تعارف کروایا تو انہیں پتہ چلا کہ وہ پروفیسر حشام کا بیٹا بابر تھا۔اب انہیں یاد آیا کہ بابر کو انہوں نے اپنا خاص نمبر دیا تھا۔
بابر کہہ رہا تھا۔’’ان کے گھر پر حملہ ہوا ہے کیا وہ فوراً ہی آ سکتے ہیں یا نہیں؟‘‘
کرنل فاتح نے فوراً ہی اس کی بات کا جواب نہ دیا۔وہ دشمن کی چال بھی ہو سکتی تھی۔آواز جانی پہچانی لگ رہی تھی۔وہ چونکہ صرف ایک ہی بار بابر سے ملے تھے اس لئے یہ کہنا مشکل تھا کہ وہ بابر کی آ واز تھی یا نہیں۔
’’اچھا میں آتا ہوں مگر فوراًآنا ممکن نہیں ہو گا۔آپ اگر خوف محسوس کر رہے ہیں تو مقامی پولیس کو بلوا سکتے ہیں۔میں جلد آنے کی کوشش کروں گا۔‘‘کرنل فاتح نے یہ کہہ کر کال ختم کردی۔
تھوڑی دیر بعد وہ کسی کو فون پہ ہدایت دے رہے تھے کہ ’’پروفیسر حشام کے گھر کے آس پاس پھیل کر حالات کی سُن گن لیں۔‘‘ انہوں نے اپنی خصوصی فورس کے لوگوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تینوں شیردل کے کمرے میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔جہانگیر کے اعصاب ابھی تک دباؤ کا شکار تھے۔اس نے ابھی تک منہ سے ایک بھی لفظ نہیں نکالا تھا۔
’’شیردل!ہسپتال میں بم کے حوالے سے تمہیں کس نے فون کیا تھا؟‘‘غازی نے سوال کیا۔
’’میں نہیں جانتا۔‘‘شیردل کا فوری جواب تھا۔’’اس نے کہا کہ وہ ہمارا خیرخواہ ہے اور وقت آنے پر اپنی اصلیت ظاہر کر دے گا۔‘‘
’’تم نے اس کی بات پہ یقین کیوں کیا؟‘‘غازی نے پوچھا۔
’’اس کا لہجہ ایسا ہی تھا کہ میں اس کی بات کو بلف سمجھنے پہ تیار نہ تھا۔ایک تونہ جانے کیوں لہجہ جانا پہچانا لگ رہا تھا۔دوسرے اس کا میرے سیل نمبر سے واقف ہونا بھی مجھے تشویش میں مبتلا کر رہا تھا۔‘‘شیردل نے سوچتے ہو کہا۔
’’ہو سکتا ہے کہ وہ دشمنوں کے کیمپ میں بیٹھا ہوا ہمارا کوئی خیرخواہ ہی ہو۔‘‘غازی دور کی کوڑی لایا تھا۔
’’ہو سکتا ہے کہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔‘‘شیردل نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔’’ایسا ہونا ناممکن نہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مجھے ہی کیوں اس نے فون کیا۔‘‘
’’اس لئے کہ ماشاء اللہ آپ ہینڈسم ہی بہت ہیں۔‘‘غازی نے بے تکی بات کی تو شیردل نے اسے گھور کر دیکھا تو غازی گھبرا کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔
’’ہو سکتا ہے کہ جس نے بم رکھا ہو اسے ہی ضمیر کی خلش نے مجبور کیا ہو تو اس نے فون کر دیا ہو۔‘‘جہانگیر جو اب اپنے اعصاب پہ قابو پا چکا تھا نے بڑے پتے کی بات کی تھی۔
’’واہ میرے شیر!اب تک منہ پہ ٹیپ لگائے بیٹھے تھے اور اب بولے ہو تو نہ جانے کتنے دور کی کوڑی لائے ہو۔‘‘غازی نے اپنے مخصوص انداز میں تعریف کی۔
’’جہانگیر تمہاری بات میں دم ہے۔‘‘شیردل نے کہا۔
’’شکر ہے تم نے یہ نہیں کہا کہ جہانگیر تمہاری دُم ہے۔‘‘غازی چپ رہ ہی نہیں سکتا تھا۔
’’غازی!پلیز فضول باتوں سے پرہیز کرو۔‘‘شیردل نے اکتا کر کہا۔
’’نہیں نہیں انہیں کہنے دیں۔‘‘جہانگیر نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔’’یہ تو یقیناًجہاں بھی جاتے ہوں گے تو محفل کو زعفران بنا دیتے ہوں گے۔‘‘
’’جیو میرے شیر! تم نے تو یاردل خوش کر دیا ہے۔‘‘غازی نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
’’یہ بو کسی ہے؟میٹھی میٹھی سی۔۔۔۔‘‘جہانگیر نے فضا میں ایک عجیب سی بو کو کو محسوس کرتے ہوئے اچانک کہا تو شیردل اور غازی دونوں چونک اٹھے۔
’’ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔یہ۔۔۔۔یہ۔۔۔۔کچھ۔۔۔۔عجیب سی ۔۔۔بو۔۔۔۔۔‘‘شیردل کی آ واز لڑکھڑانے لگی تھی۔اس نے کرسی سے اٹھنے کی کوشش کی تو ایسا محسوس ہوا جیسے سارے جسم کی جان ہی نکل گئی ہو۔کمرے میں ایک عجیب سی بو والی گیس تیزی سے پھیل رہی تھی۔شیردل نے آخری چیز جو نوٹ کی وہ اس نے غازی کو کمرے کی کھڑکی کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا اور پھر وہ زمین پہ گر گیا۔وہ
ٍٍٍٍٍٍبے ہوش ہو چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح پروفیسر حشام کے گھر سے کچھ فاصلے پر ہی رک گئے۔ان کی نگاہوں نے بظاہر چھپے ہوئے اپنی فورس کے کمانڈوزکو ڈھونڈھ لیا۔وہ سب سادہ لباس میں تھے۔انہیں کوئی مشکوک آدمی نظر نہیں آیا۔پھر بھی انہوں نے احتیاط کا دامن نہیں چھوڑا۔انہوں نے انتظار کرنا بہتر سمجھا۔پانچ منٹ کے بعد ان کی فورس کا ایک کمانڈو ان سے باتیں کر رہا تھا۔ وہ موجودہ مہم کا انچارج تھا۔
’’سر اب تک ہمیں پروفیسر حشام کے گھر کے آس پاس کوئی مشکوک انسان نظر نہیں آیا۔ اب تک نہ کوئی اندر گیا ہے اور نہ ہی کوئی باہر آیا ہے۔‘‘وہ ادب سے انہیں تازہ رپورٹ دے رہا تھا۔
’’کوئی مشکوک کارروائی یا ایسی بات جو معمول سے ہٹ کر ہو؟‘‘کرنل فاتح نے سرسری انداز میں پوچھا۔
’’نہیں سر!ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔آس پاس نگرانی کے بھی کوئی آثار نہیں ملے۔‘‘
’’میں اب پروفیسر حشام کے گھر جاؤں گا۔ایک تو مجھے کور کی ضرورت ہو گی اور دوسرے تم سب کو چوکنا رہنا ہو گا۔جیسے ہی بلی کی میاؤں کی آواز سنائی دے تو فوراً پروفیسر حشام کے گھر کا محاصرہ کر لینا اور چند کمانڈوز کے ساتھ اندر گھس پڑنا۔‘‘کرنل فاتح نے اسے تاکید کی۔
اچانک ان کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ آ گئی۔وہ سوچ رہے تھے کہ’’ اگر غازی یہاں ہوتا تو بلی کی میاؤں والے سگنل پہ ضرور کوئی دلچسپ سا جملہ کہتا۔‘‘
کرنل فاتح نے بڑے محتاط انداز میں اطراف کاجائزہ لینے کے بعد پروفیسر حشام کے گھر کا رخ کیا۔انہوں نے پروفیسر حشام کے بیٹے بابرکو ایس ایم ایس کیا کہ’’ وہ ان کی کوٹھی کے باہر موجود ہیں۔‘‘
پروفیسر حشام ایک وسیع و عریض کوٹھی میں رہتے تھے۔کرنل فاتح ایک بار پہلے بھی وہاں آ چکے تھے۔تھوڑی دیر کے بعد ایک ملازم انہیں بڑے احترام سے کوٹھی کے اندر لے گیا۔بابر نے خود باہر آ کر انہیں اندر لے جانے کی غلطی نہیں کی تھی۔انہیں بابر کی یہ احتیاط پسند آئی تھی۔
بابر ان سے بڑے احترام اور اپنائیت سے پیش آیا۔بابر کا چہرہ دیکھ کر وہ بری طرح سے چونکے تھے۔وہ ایک تھکے اور ہارے ہوئے ایک پریشان آدمی کا چہرہ تھا۔
’’پروفیسر حشام کی کوئی اطلاع؟‘‘انہوں نے صوفہ پہ بیٹھتے ہی پوچھا۔
’’میرا خیال ہے کہ وہ کسی سخت مشکل کا شکار ہیں۔ہو سکتا ہے کہ انہیں اغوا کر لیا گیا ہو۔‘‘بابر نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’اغوا کر لیا گیا ہو۔‘‘کرنل فاتح بری طرح سے چونک اٹھے۔’’یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کیا اغوا کرنے والوں نے رابطہ کیا ہے۔‘‘
’’نہیں رابطہ تو نہیں کیا۔‘‘بابر نے سر نفی میں ہلایا۔’’یہ میرا اندازہ ہے اور اندازہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
’’اندازہ قائم کرنے کی کوئی خاص وجہ؟‘‘کرنل فاتح بابر کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔
بابر ان سے آنکھیں چراتے ہوئے بولا۔’’بس میرا اندازہ ہے۔‘‘
کرنل فاتح کو احساس ہوا کہ بابر کوئی بات چھپا رہا تھا۔وہ بڑے رسان سے بولے۔’’بابر!اگر تم نے مجھے یہاں بلوا ہی لیا ہے تو اب جو بات بھی ہے وہ مجھے سچ سچ بتا دو۔سچ بولنے میں ہمیشہ ہی فائدہ ہو تا ہے۔‘‘
بابر دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے اپنی پیشانی کو سہلا رہا تھا۔وہ یقیناًکسی کشمکش کا شکار تھا۔کرنل فاتح نے اسے مخاطب نہیں کیا۔وہ اسے وقت دینا چاہتے تھے۔یقیناکوئی خاص ہی بات تھی۔ان کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ’’ وہ کوئی ایسی بات تھی جو ان کے لئے جاننا ضروری تھی۔‘‘
بابر سخت کشمکش کے بعد کسی فیصلہ پر پہنچ گیا تو اس کا چہرہ پر سکون ہو گیا۔وہ کرنل فاتح کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے مسکرانے کی کوشش کی مگر اس کے ہونٹ مسکراہٹ سے محروم ہی رہے۔’’میں آپ کو ساری بات بتاتا ہوں شایداس طرح آپ کو صورت حال کا اندازہ لگانے میں آسانی ہو۔‘‘یہ کہہ کر لمحے بھر کو چپ ہو گیا جیسے اپنے خیالات کو مجتمع کر رہا ہو۔
کرنل فاتح نے مداخلت نہیں کی۔خاموشی سے اسے دیکھتے رہے۔
’’کل رات قیامت کی رات تھی۔‘‘اس نے بات شروع کی۔’’میری آنکھ کھلی تو مجھے شدید تکلیف کا احساس ہوا۔کسی کا بھاری ہاتھ میرے سینے پہ رکھا تھا۔میں نے ہڑبڑا کر اٹھنے کی کوشش کی تھی تو کسی نے میرے سینے پہ ہاتھ رکھ کر مجھے پیچھے دھکا دیا تو میں واپس اپنے بستر پہ گر گیا۔پھر اچانک تیز روشنی میری آنکھوں پہ پڑی تو میری آنکھیں خود بہ خود ہی بند ہو گئیں۔وہ ٹارچ کی روشنی تھی۔میں نے چندھیائی ہوئی آنکھوں کو کھولنے کی کوشش کی تو دیکھا کہ۔۔۔۔۔‘‘
کرنل فاتح اندازہ لگا سکتے تھے کہ وہ اپنی کہانی بتاتے ہوئے شدید جذباتی کشمش کا شکار ہے۔انہوں نے خود کو بہت کوشش کے بعد کچھ کہنے سے باز رکھا۔
’’کمرے میں تین لمبے تڑنگے لوگ موجود تھے۔جدید اسلحے سے لیس اور چہروں کو مکمل نقاب میں چھپائے ہوئے۔‘‘بابر نے اپنی کہانی دوبارہ شروع کرتے ہوئے بتایا۔’’وہ میرے بستر کو گھیرے ہوئے تھے اور ایک نقاب پوش کے ہاتھ میں بڑی سی ٹارچ تھی۔‘‘
بابر پھر خاموش ہو گیا لیکن اس بار وہ فوراً ہی سنبھل گیا تھا۔کہنے لگا۔’’ٹارچ والے نقاب پوش نے مجھ سے پوچھا کہ پروفیسر حشام کی نیلی ڈائری کہاں ہے؟‘‘
’’میں اب بتاتا ہوں کہ ہمارے درمیان کیا مکالمے ہوئے۔‘‘بابر نے اچانک انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا تو انہوں نے جواباً صرف سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔
میں نے کہا۔’’یہ تم کس ڈائری کی بات کر رہے ہو؟ڈیڈی کے پاس تو کئی ڈائریاں ہیں۔‘‘
’’میں ڈائریوں کی نہیں صرف ایک ڈائری کی بات کر رہا ہوں۔نیلی ڈائری کی۔‘‘نقاب پوش میری بات سن کر جھنجھلا گیا تھا۔
’’مجھے ان کی ڈائریوں سے کبھی بھی دلچسپی نہیں رہی اور وہ ہم سے اپنے کام کے حوالے سے کبھی بھی بات نہیں کرتے۔‘‘میں نے جواب دیا۔
’’مجھے نیلی ڈائری چاہئے۔وہ ان کی خفیہ ڈائری ہے۔‘‘
’’جیسا کہ تم نے کہا کہ وہ خفیہ ڈائری ہے تو مجھے اس کے بارے میں کیسے علم ہو سکتا ہے۔‘‘
’’آسانی سے بتا دو تو اچھا ہے ۔تم ہمیں جانتے نہیں ہو۔اگر ہم نے تم پر تشدد کرنے کا فیصلہ کر لیا تو تمہیں پچھتانے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔‘‘نقاب پوش نے مجھے دھمکی دیتے ہوئے کہا۔
’’ڈیڈی کا سارا سامان یا تو ان کے آفس میں ہوتا ہے اور یا پھر ان کی اسٹڈی میں۔میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ ڈائری کہاں ہے؟‘‘میں حقیقت میں یہ بات نہیں جانتا تھا مگر وہ یقین کرنے پہ تیار نہ تھے۔
’’ڈائری کا پتہ تو تمہارا باپ بھی بتائے گا۔‘‘نقاب پوش نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
’’تو پھر ان سے ہی پوچھ لو۔‘‘میں نے بے خوفی سے جواب دیا۔
’’پروفیسر ہے کہاں؟پوری کوٹھی میں کہیں بھی موجود نہیں۔‘‘نقاب پوش کا لہجہ اس بار نرم تھا۔
’’کیوں تم نہیں جانتے کہ وہ کہاں ہیں؟‘‘میں نے نقاب پوش کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے سوال کیا۔
’’اگر جانتے ہوتے تو تم سے کیوں پوچھتے۔‘‘نقاب پوش کا لہجہ نرم ہی رہا۔’’اچھا ہمیں یہ ہی بتا دو کہ پروفیسر ہمیں کہاں ملے گا؟‘‘
’’ڈیڈی کسی سرکاری کام کے سلسلے میں ملک سے باہر ہیں۔‘‘میں نے وہ ہی سچائی بتا دی جو میں جانتا تھا۔
نقاب پوش کچھ دیر تک سوچتا رہا پھر اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا۔’’اسے اٹھا کر اسٹڈی میں لے چلو۔‘‘
’’انہیں مجھے اٹھانے کی زحمت نہیں کرنا پڑی کیوں کہ میں شرافت سے ان کے ساتھ چل پڑا تھا۔میں جیسے ہی اسٹڈی میں داخل ہوا تو نقاب پوش کے دونوں ساتھی مجھ پر ٹوٹ پڑے اور انہوں نے مجھے لمحوں میں ڈیڈی کی آرام کرسی سے باندھ دیا۔اسٹڈی کی حالت دیکھ کر یہ اندازہ قائم کرنا مشکل نہیں تھا کہ کسی نے وہاں کی بڑی بے دردی سے تلاشی لی تھی۔پھر انہوں نے ایک عجیب حرکت کی۔‘‘بابر بتا رہا تھا۔
’’عجیب حرکت ۔وہ کیا؟‘‘کرنل فاتح نے پوچھا۔
’’ایک نقاب پوش نے مووی کیمرہ نکالا اور بڑی سہولت سے میری مووی بنانے لگا۔پھر ان کے سرغنہ نقاب پوش نے مجھ سے کہا کہ’’ تم نے اب روتے ہوئے اسی بات کو دہرانا ہے جو ہم تمہیں بتائیں گے۔‘‘
’’روتے ہوئے۔اچھا۔‘‘کرنل فاتح نے آہستہ سے کہا۔
’’انہوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں مووی کیمرے کے سامنے کہوں کہ ڈیڈی ان کی بات مان لیں ورنہ یہ بہت ظالم لوگ ہیں۔یہ مجھے مار ڈالیں گے۔میں کچھ دیر تک تو مزاحمت کی پھر ان کی بات مان لی۔‘‘بابر نے شرمندگی سے سر جھکا لیا جیسے اسے ان کی بات ماننے پر شرمندگی ہو۔
’’وہ ایسا کیوں چاہتے تھے؟کیا پروفیسر حشام ان کے قبضے میں ہیں؟‘‘کرنل فاتح منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہے تھے۔
’’میں نے بہت برا کیا نا؟‘‘وہ ان سے پوچھ رہا تھا اور نظر نہیں ملا پا رہا تھا۔
’’یہ تو حالات پر منحصر ہے۔خیر تم مجھے یہ بتاؤ کہ پھر کیا ہوا؟‘‘کرنل فاتح نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’میرے اعتراف کی مووی بنانے کے بعد وہ مجھے بندھا ہوا چھوڑ کر چلے گئے اور بعد میں مجھے گھر کے ایک ملازم نے رسیوں سے نجات دلائی۔‘‘بابر نے اپنی بات مکمل کی۔
’’اور اس دوران تمہارے گھر والوں کے ساتھ کیا ہوا؟ وہ کیوں بے خبر رہے؟‘‘کرنل فاتح کا انداز جرح کرنے والا تھا۔
’’خوش قسمتی سے وہ گھر پر نہیں تھے اور شہر سے باہر ایک خاندانی تقریب پہ مدعو تھے۔میں ایک ضروری کام کی وجہ سے ان کے ساتھ نہیں جا سکا۔‘‘
’’تمہارے ساتھ جو ہوا اس کی روشنی میں تو یہ ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ پروفیسر کو اغوا کر لیا گیا ہے اور وہ دشمنوں کی قید میں ہیں۔‘‘کرنل فاتح نے اپنا تجزیہ پیش کیا۔
’’تو آپ کو بھی اس بات کا یقین ہے۔‘‘بابر نے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔
’’مجھے لگتا ہے کہ وہ پروفیسر صاحب سے کوئی بات منوانا چاہتے ہیں اور وہ انکار کر رہے ہیں۔اب تمہاری مووی دکھا کر وہ انہیں مجبور کریں گے۔‘‘کرنل فاتح نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’اب کیا ہو گا؟ یہ تو میں نے بہت ہی برا کیا۔‘‘بابر نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔
’’خیر جو ہوا سو ہوا۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ہم اب کیا کریں؟‘‘کرنل فاتح نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا۔
’’میرا خیال ہے کہ آ پ ڈیڈی کے محکمے کے لوگوں سے پوچھیں۔یا پھر ملٹری انٹیلی جینس کے جنرل صاحب سے۔‘‘بابر نے مشور دیا۔
’’تمہارا خیال اچھا ہے۔میں ایسا ہی کروں گا۔اب تم اپنا خیال رکھنا۔میں چند سادہ لباس لوگوں کو چھوڑ کر جاؤ ں گا تاکہ تمہاری حفاظت کی جا سکے۔ویسے تو میرا خیال ہے کہ اب تمہیں کوئی خطرہ نہیں پھر بھی احتیاط اچھی چیز ہے۔‘‘یہ کہہ کر کرنل فاتح وہاں زیادہ دیر تک نہیں
رکے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈوبتے ابھرتے مناظر نے شیردل کے ذہن پہ ایک دھند سی مسلط کر دی تھی۔یادداشت دھندلے دھندلے سے مناظر سے کوئی مطابقت پیدا نہیں کر پا رہی تھی۔کبھی تو اسے یوں محسوس ہوتا جیسے وہ وزن کھو بیٹھا ہو اور بے وزنی کے عالم میں ہوا میں تیر رہا ہو یا پھر گہرے پانی میں ڈوبتا جا رہا ہو۔ذہن ابھی ایک منظر کو پوری طرح اجاگر کرنے کی کوشش ہی کر رہا ہوتا کہ ایک دوسرا منظر اسے دھندلا دیتا۔شیردل کو معلوم نہیں تھا کہ یہ ذہنی آنکھ مچولی کب سے چل رہی تھی اور وہ کہاں تھا؟
اس پل شیردل کی آنکھ کھلی تو جسم کو جھٹکے سے لگ رہے تھے اور وہ جسم کو ہلانے جلانے پہ قادر نہ تھا۔وہ جان گیا تھا کہ اس کا پورا جسم مضبوط رسیوں سے بندھا ہوا تھا۔ذہن پہ بہت زیادہ زور ڈالنے کے باوجود اسے یاد نہ آیا کہ وہ موجودہ حالت میں کیوں تھا؟اسے کس نے باندھا تھا اور کیوں؟یہ تو ظاہر تھا کہ باندھنے والا دوست تو ہرگز نہیں ہو سکتا تھا۔
’’تو پھر وہ کون تھا؟‘‘
شیردل کے لئے گردن ہلانا بھی مشکل تھا۔وہ گردن کو دائیں یا بائیں حرکت دینے سے معذور تھا۔شیردل نے جسم کو حرکت دینے کی کوشش کی تو تکلیف سے اس کے ہونٹوں سے ایک آہ سی نکل گئی۔باریک نائیلون کی رسی جسم میں اترے تو درد اور تکلیف کو آسانی سے برداشت کرناآسان نہیں ہوتا۔شیردل نے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے آنکھوں کو بند کرتے ہوئے ہونٹوں کو سی لیا۔چند لمحات تو اسے صرف اپنی ذہنی قوت کو مجتمع کرنے میں لگے اور اس نے ذہن پہ کسی بھی قسم کا بوجھ ڈالنے سے پرہیز کیا۔
تھوڑی دیر کے بعد اسے محسوس ہوا جیسے درد کی شدت کم ہو گئی ہو۔ذہن پہ چھائی ہوئی دھند کم ہونے لگی تھی۔
’’اسے یاد آ گیا تھا کہ کیا ہوا تھا؟‘‘
وہ اپنے گھر میں تھا جب اک عجیب سی بو نے اس کے حواس پہ حملہ کیا تھا۔جسم اتنی تیزی سے مفلوج ہوا تھا کہ وہ کچھ بھی نہ کر سکا تھا۔اسے نہیں معلوم تھا کہ غازی کے ساتھ کیا ہوا؟وہ یقیناًاعصاب کو مفلوج کر دینے والی کوئی گیس تھی۔ان کے اپنے گھر میں اس گیس کا استعمال اسے الجھن میں ڈال رہا تھا۔اس کا مطلب تھا کہ دشمن پہلے سے ہی گھات لگائے بیٹھے تھے۔
’’گھر کے دوسرے افراد کے ساتھ کیا ہوا؟‘‘اس سوال نے اسے پریشان کر ڈالا۔
اس نے ذہن پہ زور دیا تو اسے یاد آیا کہ جب وہ غازی کے ساتھ اپنے گھر پہنچا تھا تو اس وقت اس کی گھر کے کسی فرد سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اس وقت گھر میں کوئی نہیں تھا۔یہ سوچ کر دل کو کچھ اطمینان سا ہوا۔
اس نے بند آنکھوں کے ساتھ،اپنے موجودہ حالات کا اندازہ لگانا چاہا۔جسم کو جھٹکے لگ رہے تھے۔یعنی وہ کسی سواری پر سوار تھا۔ہوا کی شائیں شائیں کے ساتھ ایک عجیب سا شور تھا۔وہ اندازہ لگانے لگا اور جیسے ہی اسے پتہ چلا اس کے جسم نے پسینہ چھوڑ دیا۔وہ عجیب سا شور سمند کی لہروں کا تھا۔یعنی وہ اس وقت کسی بوٹ یا اسٹیمر وغیرہ میں تھا۔
’’کیا اسے اغوا کر کے کہیں لے جایا جا رہا تھا؟‘‘
’’مگر کہاں؟‘‘
’’کیا پڑوسی ملک؟‘‘
ساتھ ہی اس کے ذہن میں میجر گنپت راؤ کا چہرہ آیا۔اچانک ایک چھوٹا سا دھماکہ ہوا۔اسے تو وہ دھماکہ ہی لگا تھا۔جس جگہ وہ قید تھا اس کا دروازہ کسی نے کھولا تھا اور پھر دروازے سے اندر داخل ہونے والے کو دیکھ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔آنے والے کے چہرے پہ خباثت اور کمینگی کی تحریر تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غازی نے آنکھیں کھولیں تو اس کا سر چکرا رہا تھا۔اسے کچھ یاد نہ تھا۔ذہن میں ایسا کوئی نقش نہ تھا جو اسے بتا سکتا کہ اس وقت وہ کہاں تھا۔ذہنی طور پر اسے سنبھلنے میں کچھ وقت لگا۔جسمانی کمزوری بھی محسوس ہو رہی تھی۔اسے اپنے چہرے پہ نمی سی محسوس ہوئی۔وہ اس وقت زمین پہ لیٹا ہوا تھا۔یہ حیرت کی بات تھی۔وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور حیرانی سے آس پاس نگاہیں دوڑانے لگا۔وہ اس وقت ایک وسیع باغ میں موجود تھا۔باغ جانا پہچانا لگ رہا تھا۔
سوال یہ تھا کہ’’ وہ اس باغ میں کیوں موجود تھا اور زمیں پر کیوں لیٹا ہوا تھا؟‘‘
وہ ابھی اس سوال کو سلجھانے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ اچانک وہ چونک اٹھا۔وہ جان گیا تھا کہ وہ اس وقت انکل کرنل فاتح کے پائیں باغ میں تھا۔
’’وہ باغ میں کیوں تھا اور وہاں کیا کر رہا تھا؟‘‘جیسے سوالات اس کے ذہن میں چکرا رہے تھے اور وہ تیزی سے حالات کا تجزیہ کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔اس سے چند قدموں کے فاصلے پر عمارت کی نچلی منزل کی ایک کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔اس کے ذہن میں ایک پھلجھڑی سی چھوٹی اور اسے سب یاد آ گیا۔اسے یاد آ گیا کہ شیردل کے کمرے میں ایک عجیب سی بو کے محسوس کرتے ہی وہ قریبی کھڑکی کی طرف بڑھا تھا اور کھڑکی کھول کر باہر کود گیا تھا۔پھر کیا ہوا تھا یہ اسے یاد نہیں تھا۔اس کا خیال تھا کہ وہ بے ہوش ہو گیا تھا۔
’’شیردل کا کمرہ۔۔۔۔۔شیردل کہاں ہے؟‘‘وہ جیسے کسی گہری نیند سے جاگا ہو۔
وہ تیزی سے کھلی کھڑکی کی طرف بڑھا۔کھڑکی سے اندر جھانکتے ہوئے بھی اس نے احتیاط کا دامن نہ چھوڑا۔کمرے میں کوئی بھی نہیں تھا اور نہ ہی اب وہ بو محسوس ہو رہی تھی۔کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ کمرے کے اندر کود گیا۔شیردل کا سیل فون ایک طرف فرش پہ پڑا ہوا تھا۔کمرے میں ایسے کوئی آثار نہیں تھے کہ جن سے پتہ چلتا کہ وہاں کسی قسم کی لڑائی یاجدوجہد ہوئی ہو۔شیردل کمرے میں نہیں تھا۔غازی کمرے کی کھلی کھڑکی سے ہی اندر کود گیا۔سارا گھر اس کا دیکھا بھالا تھا۔شیردل اسے کہیں نظر نہ آیا۔شیردل کے گھر کے لوگ بھی موجود نہیں تھے۔خان بابا کا بھی کہیں پتہ نہ تھا۔یہ بات پریشانی کی تھی۔خان بابا گھر والوں کی غیر موجودگی میں کہیں بھی نہیں جاتے تھے۔
غازی نے کچھ دیر سوچنے کے بعد انکل کرنل فاتح کو فون کر نے کا فیصلہ کر لیا۔اس نے سیل فون پہ کال ملائی دوسری طرف گھنٹی بج رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح خاموشی سے گاڑی چلاتے ہوئے کسی گہری سوچ میں تھے۔اس بات کا تو انہیں یقین تھا کہ پروفیسر حشام کو اغوا کر لیا گیا تھا۔یہ حال ہی کا واقعہ بھی نہیں تھا۔وہ چھ ماہ سے غائب تھے اور ان کے محکمے سے متعلقہ افراد کا کہنا یہ ہی تھا کہ وہ ایک اہم کام کے سلسلے میں ملک سے باہر تھے۔کسی نے غالباً یہ بھی کہا تھا کہ وہ کسی پروجیکٹ کے سلسلے میں چین گئے ہوئے تھے۔
کرنل فاتح کا رخ ملکی سلامتی سے متعلق ایک ایسی بلڈنگ کی طرف تھا جہاں پروفیسر حشام کام کرتے تھے۔
پروفیسر حشام کے باس نے انہیں کوئی نئی بات نہ بتائی بلکہ اسی بات پہ زور دیا کہ’’ وہ ابھی تک چین میں ہی ہیں۔‘‘
کرنل فاتح نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح سے پروفیسر حشام کے بارے میں حکومتی سطح پہ معلومات مل سکیں لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے۔انہوں نے ناکام ہونا تو سیکھا ہی نہیں تھا۔انہوں نے ایک فون کال کی اور دوسری طرف سے انہیں فوراً ملاقات کا وقت دے دیا گیا۔
’’پروفیسر حشام کو چھ ماہ پہلے اغوا کر لیا گیا تھا اور ہم نے یہ بات سب سے چھپائی تھی۔‘‘جنرل آغا نے بتایا۔وہ اس وقت ملٹری انٹیلی جینس کے چیف کے سامنے بیٹھے تھے۔
’’انہیں ڈھونڈھنے کی اب تک کی کوششوں کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟‘‘انہوں نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’آپ کے سامنے ہی ہے۔ہم اب تک ان کا پتہ لگانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔‘‘جنرل آغا کے لہجے میں ہلکی سی مایوسی محسوس کی جا سکتی تھی۔
’’آپ کو نیلی ڈائری کے بارے میں کچھ معلوم ہے؟‘‘انہوں نے بابر سے ملی ہوئی معلومات کی روشنی میں پوچھا۔
’’وہ ڈائری محفوظ ہے۔‘‘جنرل آغا کے جواب نے انہیں اطمینان دلا دیا۔
’’ڈائری کے اندراجات سے پروفیسر کے اغوا پر کچھ روشنی پڑتی ہے؟‘‘کرنل فاتح کا انداز سوالیہ تھا۔
’’نہیں۔ڈائری میں کوئی تحریر نہیں صرف مشکل ترین سائنسی کوڈ ہیں۔‘‘جنرل آغا نے ان کی ذہانت کو سراہتے ہوئے جواب دیا۔
’’آپ کے سائنسی ماہرین نے انہیں ڈی کوڈ کر لیا ہو گا؟‘‘
’’کاش ایسا ہوتا۔‘‘جنرل آغا نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔’’وہ مروجہ تمام سائنسی کوڈز سے مختلف ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ وہ پروفیسر حشام کا اپنا وضع کیا ہوا کوڈ ہے۔‘‘
’’دشمنوں کو ان کی نیلی ڈائری کی تلاش ہے۔بابر کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی روشنی میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ وہ بابر کی مووی سے انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘کرنل فاتح کے تجزیہ سے جنرل آغا بھی متفق تھے۔
جنرل آغا کے دفتر سے نکلتے ہی ان کے سیل فون پہ کال آ گئی۔وہ خاموشی سے دوسرے طرف سے کہی گئی بات سن رہے تھے اور ان کی فراخ پیشانی پہ شکنوں کے جال سے پھیل گئے تھے۔
’’تم کون ہو؟پہلے اپنا تعارف کرواؤ۔‘‘وہ فون کرنے والے سے پوچھ رہے تھے۔
’’میں ابھی اپنا تعارف کروانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔البتہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں آپ کاخیرخواہ ہوں۔‘‘دوسری جانب سے کہا گیا۔
’’میں تمہاری بات پہ کیسے یقین کر لوں؟‘‘انہوں نے دھیمے لہجے میں پوچھا۔
’’آپ اپنی کوٹھی پر پہنچیں۔آپ کو سارا پتہ چل جائے گا۔‘‘یہ کہہ کر دوسری طرف سے کال منقطع کر دی گئی۔
کرنل فاتح کی گاڑی تیزی سے اپنی کو ٹھی کی طرف روانہ ہو گئی۔کال کرنے والے نے انہیں یہ بتا کر چونکا دیا تھا کہ ’’شیردل کو اغوا کر لیا گیا ہے۔‘‘وہ ابھی اپنی کوٹھی سے کچھ ہی فاصلے پر تھے کہ ان کے سیل فون کی گھنٹی بج اٹھی۔
کرنل فاتح نے سیل فون کی اسکرین پہ نظر ڈالے بغیر ہی فون کان سے لگا لیا۔دوسری طرف غازی تھا اور وہ انہیں وہ ہی بات بتا رہاتھا جو کہ تھوڑی دیر پہلے وہ اپنے ’’اجنبی خیر خواہ‘‘ سے سن چکے تھے۔انہوں نے کوئی تبصرہ کئے بغیر کال منقطع کر دی۔
ملاقات ہونے پر غازی سے انہیں کوئی نئی بات معلوم نہیں ہوئی۔کافی وقت انہوں نے لوگوں کو ٹیلی فون کرنے پہ لگایا۔انہوں نے اپنے محکمے کے شیردل کمانڈوز کو بھی تیاررہنے کے لئے کہہ دیا۔
شیردل کے حوالے سے انہیں میجر گنپت راؤ اور نارمن زبسکی پہ ہی شبہ تھا۔وہ دونوں گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو چکے تھے۔ان کے مخبر چاروں اور پھیلے ہوئے تھے لیکن ابھی تک کوئی حوصلہ افزا اطلاع موصول نہیں ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چہرہ کسی اور کا نہیں تھا۔وہ میجر گنپت راؤ تھا۔وہ خباثت بھرے انداز سے مسکرایا اور بولا۔’’مجھے امید ہے کہ میرے لوگوں نے تمہارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی ہوگی۔‘‘
شیردل نے تیزی سے امنڈتے ہوئے غصے کو کنٹرول کرنے کے لئے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔چند لمحوں میں ہی اس نے اپنے اعصاب کو پرسکون ہوتے ہوئے محسوس کیا۔اس نے آنکھیں کھولیں۔وہ مسکرایا اور پھر کہنے لگا۔’’نہیں وہ مجھے بڑے آرام سے تم تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔‘‘
’’شاباش!مجھے کرنل فاتح کے بیٹے سے ایسی ہمت اور بہادری ہی کی امید تھی۔‘‘میجر گنپت راؤ نے شیردل کی ہمت کو سراہتے ہوئے کہا۔
’’اگر کوئی حرج نہ ہو تو اب یہ بھی بتاتے جاؤ کہ مجھے کیوں اغوا کیا گیا ہے اور ہم کہاں جا رہے ہیں؟‘‘شیردل کا سوال کرنے کا انداز سرسری سا تھا۔
’’تمہارا اغوا ہماری مجبوری تھا۔ہمیں کرنل فاتح سے کوئی بات منوانی ہے۔اور رہی یہ بات کہ ہم کہاں جا رہے ہیں تو وہ تم جلد ہی دیکھ لو گے۔‘‘میجر گنپت راؤ نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ مجھے قید میں رکھ کر تم کرنل فاتح سے کوئی بات منوا لو گے تو یہ تمہاری خام خیالی ہے۔وہ اصولوں پہ کبھی بھی سمجھوتا نہیں کریں گے۔‘‘شیردل اپنے والد کو جانتا تھا۔
’’اصولوں پہ سمجھوتا کوئی بھی نہیں کرتا مگر جب اکلوتے بیٹے کی جان کو خطرہ ہو تو پھر کوئی اصول اصول نہیں رہتا۔‘‘میجر گنپت راؤ مسکراتے ہوئے بولا۔
’’اصولوں پہ سودا کرنے والے اصول پرست نہیں ہوتے۔ہماری لغت میں انہیں نمک حرام اور غدار کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔‘‘شیردل کی مسکراہٹ دل جلا دینے والی تھی۔
’’ابھی اونٹ پہاڑ کے نیچے آیا نہیں اسی لئے چہک رہے ہو۔‘‘میجر گنپت راؤ جل کر بولا۔
’’اونٹ کون ہے اور پہاڑ کون؟ اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا۔‘‘شیردل نے دھیرے سے کہا۔
’’ہاں تم ٹھیک کہتے ہو۔سب سے بڑا منصف تو وخت (وقت) ہی ہے۔‘‘میجر گنپت راؤ نے اس سے اتفاق کیا۔
’’اگر ممکن ہو تو مجھے پانی پلا دو۔حلق پیاس سے خشک ہو رہا ہے۔‘‘شیردل نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔
’’ہم اس وقت سمندر میں ہیں۔سمندر کا کھارا پانی تو پیاس بجھا نہیں سکتا مگر ہم اتنے ظالم نہیں ہیں۔ہمارے پاس میٹھے پانی کا بھی ذخیرہ ہے۔‘‘میجر گنپت راؤ ایک عجیب انداز سے مسکرایا اور پھر اس نے کسی کو پانی لانے کے لئے کہا۔
شیردل آپ ہی آپ مسکرایا اور سوچنے لگا کہ اگر غازی یہاں ہوتا تو پوچھتا کہ ’’اچھا یہ ہی بتا دو کہ تم کتنے ظالم ہو؟‘‘
شیردل نے ٹھنڈا اور میٹھا پانی پیا اور اللہ کریم کا شکر ادا کیا۔تھوڑی دیر بعد اس پہ غنودگی غلبہ پانے لگی تو اسے احساس ہوا کہ پانی میں یقیناکوئی بے ہوشی کی دوا شامل کی گئی تھی۔اس کے بے ہوش ہونے سے پہلے تک یہ احساس موجود تھا کہ موٹر بوٹ کی رفتار کم ہورہی تھی۔شاید وہ اپنی منزل پہ پہنچنے والی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’آپ کے خیال میں شیردل کو کیوں اغوا کیا گیا ہے؟‘‘نصرت صاحب نے پوچھا۔
’’یہ کہنا مشکل ہے۔ہو سکتا ہے کہ انہوں نے یہ جال میرے لئے بچھایا ہو۔‘‘کرنل فاتح نے کہا۔وہ اس وقت نصرت صاحب کے دفتر میں موجود تھے۔
’’کیا مطلب؟‘‘نصرت صاحب نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’یہ تو سیدھی سی بات ہے۔میرا خیال ہے کہ وہ لوگ میری تاک میں تھے۔انہوں نے بے ہوشی کے لئے مخصوص گیس استعمال کی اور مالِ غنیمت میں شیردل کو لے گئے۔‘‘کرنل فاتح نے جواب دیا۔
’’آپ کا مطلب ہے کہ انہیں آپ کی ضرورت ہے یا آپ سے کوئی بات منوانا چاہتے ہیں۔‘‘نصرت صاحب نے ان کی بات کو سمجھتے ہوئے کہا۔
’’تم ٹھیک سمجھے ہو۔میرا خیال ہے کہ اب وہ شیردل کو یرغمال رکھتے ہوئے مجھ سے کوئی مطالبہ کریں گے۔‘‘کرنل فاتح کسی گہری سوچ میں تھے۔
’’کس قسم کا مطالبہ؟کیا آپ کو کچھ اندازہ ہے؟‘‘
’’ہوں۔تم نے کیا کہا؟‘‘کرنل فاتح گہری سوچ سے چونک اٹھے۔
نصرت صاحب نے اپنا سوال پھر دہرایا۔
’’میں کہہ نہیں سکتا۔‘‘کرنل فاتح نے دھیرے سے سر ہلایا۔’’اگر میں صحیح سوچ رہا ہوں تو یہ مطالبہ پروفیسر حشام کے حوالے سے ہو سکتا ہے۔‘‘
’’ہو سکتا ہے کہ کوئی اور بات ہو۔‘‘نصرت صاحب نے کہا۔
’’ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔میرا خیال ہے کہ یہ میجرگنپت راؤ کی کارستانی ہے۔‘‘کرنل فاتح نے خیال ظاہر کیا۔
’’کیا وہ اس حد تک جا سکتا ہے۔‘‘نصرت صاحب نے حیرت سے پوچھا۔
’’کہا جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں ہر چیز جائز ہے۔‘‘کرنل فاتح دھیرے سے مسکرائے۔’’اس قول کا سہارا وہ ہی لیتا ہے جو کسی اصول یا ضابطے کو نہیں مانتا۔میجر گنپت راؤ کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔‘‘
’’اب ہمیں ان کی طرف سے مطالبہ کا انتظار ہی کرنا پڑے گا۔‘‘
’’ایسا ہی ہے۔مگر ہم ہاتھ پہ ہاتھ رکھے تو نہیں بیٹھ سکتے۔‘‘کرنل فاتح ایک عزم کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’ان شا ء اللہ ہم جلد ان تک پہنچ جائیں گے۔‘‘نصرت صاحب پراعتماد تھے۔
کرنل فاتح جانے کے لئے تیار تھے کہ ان کے سیل فون پہ ایک کال آ گئی۔وہ کرسی پہ بیٹھ گئے اور خاموشی سے کال سننے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیردل کو ہوش آیا تو اسے یہ جاننے میں کچھ وقت لگا کہ وہ اس وقت کہاں تھا۔اسے یاد آ گیا کہ اس نے موٹر بوٹ میں پانی پیا تھا اور پھر وہ بے ہوش ہو گیا تھا۔ہوش آنے کے بعد اس نے محسوس کیا کہ اس کے ہاتھ اور پاؤں بندھے ہوئے نہیں تھے۔ذہن پر کوئی بوجھ نہیں تھا اور جسم میں کسی قسم کی کمزوری محسوس نہیں ہورہی تھی۔وہ زمین پر لیٹا ہوا تھا۔وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔وہ جہاں موجود تھا وہاں روشنی کا کچھ خاص گزر نہیں تھا۔
شیردل کی آنکھوں کو اندھیرے کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے میں کچھ وقت کی ضرورت تھی۔جب وہ اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوا تو اس نے آس پاس نظر دوڑائی۔اندھیرے کی موجودگی کی وجہ سے یہ جاننا مشکل تھا کہ اس وقت رات تھی یا دن ۔وہ ایک لمبا سا کمرہ تھا۔ہر سو اندھیرے کا راج تھا اور کمرے میں کہیں بھی کوئی فرنیچر یا دوسری آرائشی اشیاء نظر نہیں آ رہی تھیں۔شیردل اب اندھیرے سے مانوس ہو چکا تھا اور اس کا خیال تھا کہ وہ اس وقت کسی تہہ خانے میں تھا۔
شیردل نے چند لمحوں کے لئے چند جسمانی ورزشیں کر کے خود کو آنے والے وقت کے لئے تیار کیا۔کمرے کے آخر میں چند سیڑھیاں تھیں جواوپر ایک بڑے دروازے پہ جا کر ختم ہوتی تھیں۔دروازے کی موجودگی اس کے اس خیال کو تقویت دیتی تھی کہ وہ اس وقت ایک تہہ خانے میں قید تھا۔
شیردل آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔کمرے میں کوئی کھڑکی یا کوئی اور دروازہ نہیں تھا۔وہ احتیاط سے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔اس نے گنا۔وہ سات سیڑھیاں چڑھ کر دروازے تک پہنچا تھا۔دروازے کو کھٹکھٹانے سے پہلے اس نے ان کو پکار لینا زیادہ مناسب سمجھا۔
’’کوئی ہے۔ارے کوئی ہے۔‘‘شیردل نے زور سے آواز لگائی۔
کچھ لمحے انتظار کرنے کے بعد وہ پھر چلایا۔’’ارے کوئی ہے یا مجھے قید کر کے سب بھول گئے ہو۔مجھے پیاس لگی ہے۔‘‘شیردل کو پیاس محسوس نہیں ہو رہی تھی لیکن وہ جانتا تھا کہ جن حالات کا وہ شکار ہے اس میں اسے ذہانت اور دور اندیشی سے کام لینا ہو گا۔
جب کچھ بھی نہ ہوا تو شیردل نے دروازے کے بڑے سے ہینڈل پہ ہاتھ رکھ دیا۔ایک زور دور جھٹکا لگنے سے شیردل دور جا کر گرا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح نے فون بند کیا تو ان کے چہرے پہ ایک گہری سوچ کا عکس دیکھا جا سکتا تھا۔نصرت صاحب نے سوال کرنا مناسب نہیں سمجھا۔وہ جانتے تھے کہ اگر کرنل فاتح نے بتانا ہوا تو وہ بناء پوچھے ہی بتا دیں گے اور ایسا ہی ہوا۔
’’میری فورس کے ایک ذمہ دار آفیسر کا فون تھا۔اس کی ڈیوٹی آج کل بندرگاہ پر ہے۔‘‘کرنل فاتح بتانے لگے۔’’اس نے ایک جدید موٹر بوٹ میں ایک لڑکے کو لے جاتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘
’’آپ کے خیال میں وہ ہمارا شیردل ہو سکتا ہے۔‘‘نصرت صاحب کی آنکھیں کسی خیال سے چمک اٹھیں۔
’’ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔‘‘کرنل فاتح نے جواب دیا۔
’’کیا مطلب؟ کیا اس نے لڑکے کی شکل نہیں دیکھی؟‘‘نصرت صاحب نے پوچھا۔
’’نہیں وہ شکل نہیں دیکھ پایا اسے لڑکے کے قدو قامت سے شک سا ہوا تھا اور دوسرا لڑکے کو لے جانے والے اسے اچھے لوگ محسوس نہیں ہوئے۔‘‘کرنل فاتح نے تفصیل بتائی۔
’’تو اس نے ان کو روکا کیوں نہیں؟‘‘نصرت صاحب نے حیرت ظاہر کی۔
’’وہ سادہ لباس میں تھا اور صرف شک ہونے کی صورت میں انہیں کیسے روکتا اور پھر انہوں نے ایسا ظاہر کیا تھا جیسے کہ لڑکا بیمار ہو۔‘‘
’’اس نے آپ کو فون کیوں کیا؟وہ تو کوئی بھی لڑکا ہو سکتا ہے۔‘‘نصرت صاحب کا سوال ذہانت سے بھرپور تھا۔
’’اب تم نے کام کا سوال پوچھا ہے۔‘‘کرنل فاتح مسکرائے۔’’وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ شیردل خیریت سے ہے یا نہیں؟‘‘
’’اچھا تو یہ بات ہے۔‘‘نصرت صاحب نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔’’وہ اپنا شک رفع کرنا چاہتا تھا۔مگر اسے ان کا پیچھا کرنا چاہئے تھا۔‘‘
’’وہ ان کا پیچھا نہیں کر سکتا تھا۔ایک تو اسے فوری طور پر کوئی موٹر بوٹ نہیں مل سکی اور دوسرا، بات ابھی صرف شک کی حد تک ہی تھی۔‘‘کرنل فاتح نے وضاحت کی۔
’’تو اب ہمیں اس بات کا کیسے پتہ چلے گا کہ وہ لڑکا ہمارا شیردل ہی ہے یا نہیں۔‘‘نصرت صاحب کے انداز سے مایوسی چھلک رہی تھی۔
’’اس بات کا پتہ چل جائے گا کہ وہ اس لڑکے کو کہاں لے گئے ہیں۔‘‘کرنل فاتح حوصلہ افزا انداز میں مسکرائے۔وہ جانتے تھے کہ ان کا بھائی شیردل کو کتنا چاہتا ہے۔نصرت صاحب ،شیردل کو غازی کی طرح ہی چاہتے تھے۔
’’مگر کیسے؟‘‘انہوں نے پوچھا۔
’’میری فورس کے لوگ مکمل طور پر ٹرینڈ ہیں اور جانتے ہیں کہ ایسے حالات میں کیا کرنا ہے۔اس نے نیوی والوں سے رابطہ کر لیا تھا۔ وہ ہمیں بتا دیں گے کہ لڑکے کو کہاں لے جایا گیا ہے۔‘‘کرنل فاتح کی بات سن کر نصرت صاحب کو حوصلہ ہوا۔
’’بہرحال ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تو نہیں رہ سکتے۔میری فورس کے لوگ اسے ڈھونڈھ رہے ہیں اور یقیناتم نے بھی اس حوالے سے اپنے محکمہ کے لوگوں کو الرٹ کر دیا ہے۔اللہ کریم سب کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘
’’ایسا ہی ہے۔انشاء اللہ اسے کچھ نہیں ہو گا۔‘‘نصرت صاحب نے خلوصِ دل سے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غازی،مومن اور مجاہدسر جوڑے بیٹھے تھے۔موضوع گفتگو شیردل کا اغوا تھا۔
’’جو بات تم نے بتائی ہے اس سے تو یہ ہی پتہ چلتا ہے کہ دشمنوں نے باقاعدہ پلان کر کے شیردل کو اغوا کیا ہے۔‘‘مومن اس وقت غازی سے مخاطب تھا۔
’’دشمن کہاں وہ ہی کمینہ میجر گنپت راؤ ہو گا۔‘‘غازی نے کچھ ایسے جل کر کہا کہ مومن اور مجاہد کے چہروں پہ مسکراہٹ آ گئی۔
’’تمہارا مطلب ہے کہ میجر گنپت راؤ ہمارا دشمن نہیں؟‘‘مجاہد نے مسکراتے ہوئے اپنا رخ غازی کی طرف کیا۔
’’نہیں وہ ہمارا دشمن نہیں۔‘‘غازی نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’کیا مطلب ؟تو کیا تم اسے دشمن سمجھتے ہی نہیں؟‘‘مومن اس کی بات سن کر حیران رہ گیاتھا۔
’’ہمارے اصل دشمن تو مارِ آستین بغدادی صاحب اور شہباز خان جیسے لوگ ہیں۔گھر کے بھیدی ہی تو لنکا ڈھاتے ہیں۔ورنہ میجر گنپت راؤ جیسے لوگوں کو کامیابی کبھی بھی نصیب نہ ہو۔‘‘غازی کے چہرے پہ غصے کے اثرات دیکھے جا سکتے تھے۔
’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ میجر گنپت راؤ اور نارمن زبسکی جیسے لوگ کسی بھی قوم اور ملک کے لئے شدید خطرے کا باعث ہو سکتے ہیں۔‘‘مومن نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔
’’سوال یہ ہے کہ ہم اب کیا کریں؟شیردل کی کھوج کہاں سے شروع کی جائے؟‘‘مجاہد کے سوال نے سب کو سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔
’’یہ آسان نہیں ہے۔‘‘غازی نے تسلیم کیا۔
’’ہم نہیں جانتے کہ شیردل کو لے جانے والے لوگ کون ہیں؟ہمیں شک ہے کہ وہ میجر گنپت راؤ کے آدمی ہو سکتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی اور لوگ ہوں۔‘‘مومن نے کہا۔
’’جس منظم انداز میں شیردل کا اغوا کیا گیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے کام میں بے حد ماہر لوگ تھے۔جب تک ہمیں کوئی اشارہ یا سراغ نہیں ملتا اس وقت تک۔۔۔۔‘‘مجاہد نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’اس وقت تک؟آگے بھی تو بولو۔‘‘غازی نے اصرار کیا۔
’’اس وقت تک ہمیں شیردل پہ ہی انحصار کر نا پڑے گا۔‘‘مجاہد کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
’’شیردل پر انحصار؟‘‘غازی اور مومن دونوں ہی بیک وقت بول پڑے۔
’’ہاں شیردل پہ انحصار۔‘‘مجاہد نے اپنی بات دہرائی۔’’آخر تم لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہو کہ شیردل ایک عام سا لڑکا نہیں ہے۔وہ کسی کمانڈو سے کم نہیں ہے۔جیسے ہی اسے موقع ملا تو وہ دشمنوں کا گھیرا توڑ کر نکل آئے گا۔‘‘
’’یار بات تو تم نے بڑی عمدہ کی ہے۔‘‘غازی نے اس کی تعریف کی۔
’’ویسے بھی ہمارا ایمان ہے کہ اللہ رحیم و کریم ہے اور وہ ہی سب کی حفاظت کر نے والا ہے۔شیردل کو کچھ بھی نہیں ہو گا۔‘‘مومن نے پر یقین انداز میں کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیردل کو لگنے والا جھٹکا گو کہ سخت تھا مگر وہ برداشت کر گیا۔وہ زمین سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔اب وہ جان گیا تھا کہ انہوں نے اس کے ہاتھ پاؤں کیوں کھول دئیے تھے۔کمرے سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ تھا اور اس دروازے میں بجلی کی رو دوڑ رہی تھی۔دروازے کا ہینڈل ہی نہیں بلکہ پورا دروازہ کسی دھات کا بنا ہوا تھا۔اندھیرے کی وجہ سے شیردل مکمل اندازہ نہیں لگا پایا تھا۔
شیردل زمین سے اٹھا تو جسم کا جوڑ جوڑ درد کر رہا تھا اور پورے جسم میں ایک عجیب سی سنسناہٹ کا احساس تھا۔بجلی کا جھٹکا خاصا زوردار تھا۔
شیردل اک طرف دیوار کا سہارا لے کر بیٹھ گیا۔اسے سنبھلنے کے لئے کچھ وقت درکار تھا۔ابھی وہ پوری طرح نہیں سنبھلا تھا کہ تہہ خانہ ایک دم روشنی سے بھر گیا۔ روشنی اتنی تیز تھی کہ شیردل نے آنکھیں بند کر لیں۔اس کے کان دروازے کے کھلنے کی آواز کا انتظار کر رہے تھے۔جب دروازہ نہیں کھلا تو اس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھول دیں۔تہہ خانے کا کمرہ نیلے رنگ کی روشنی سے بھرا ہوا تھا۔روشنی کمرے کی دیواروں سے پھوٹتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔
’’ہم اپنے دوست کو خوش آمدید کہتے ہیں۔‘‘زبان اردو ہی استعمال کی گئی تھی البتہ لہجہ اجنبی سا تھا۔
’’آپ کا خوش آمدید کہنے کا طریقہ خوب ہے۔‘‘شیردل نے چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہوئے کہا۔اسے بولنے والا نظر نہیں آ رہا تھا۔
’’ہم اپنے دوست کی پریشانی سے واقف ہیں۔وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ ہم اس وقت کہاں ہیں؟کیا ہم ٹھیک کہہ رہے ہیں؟‘‘وہ اجنبی لہجہ اس بار بھی خوش گوار تھا۔
’’یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں۔‘‘شیردل کا انداز سرسری سا تھا۔’’لاسلکی نظام نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اب تو ایک بر اعظم سے دوسرے بر اعظم تک لمحوں میں رابطہ ہو جاتا ہے۔‘‘
’’ہم بر اعظم کی بات نہیں کر رہے ۔ہم تو تم سے بہت ہی قریب ہیں۔‘‘
’’بات قریب یا دور کی نہیں ہے۔مجھے یوں قید کرنے کا تمہارا کیا مقصد ہے؟‘‘شیردل نے پوچھا۔
’’مقصد بھی جلد ہی سامنے آ جائے گا۔اس وقت ہم تمہیں صرف اتنا ہی بتانا چاہتے ہیں کہ یہاں سے فرار کی کوشش تمہیں بہت مہنگی پڑے گی۔اگر اس تہہ خانے سے نکل بھی آئے تو باہر تمہارے پیچھے ایسی ایسی بلائیں لگ جائیں گی کہ پھر ہم بھی تمہیں نہ بچا پائیں گے۔‘‘
’’معلومات مہیا کر نے کا بہت بہت شکریہ۔‘‘شیردل کا اندازطنزیہ تھا۔
’’ہم تمہارا خیال رکھیں گے۔اس لئے بھاگنے کا خیال دل سے نکال دو۔تمہاری ساری ضروریات کا خیال رکھا جائے گا۔جلد ہی تمہیں کھانا اور پانی مل جائے گا۔‘‘جیسے ہی آواز بند ہوئی تو تہہ خانہ سے نیلی روشنی غائب ہو گئی اور ہر طرف گہرا اندھیرا چھا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح کو ملنے والی وہ کال بے حد اہم تھی۔دوسری طرف وہ ’’اجنبی خیرخواہ ‘‘تھا۔وہ کہہ رہا تھا کہ’’شیردل کو اغوا کر لیا گیا ہے اور۔۔۔‘‘یہ کہتے ہی کال کٹ گئی تھی۔دوسری جانب سگنل کمزور تھے یا کوئی اور بات تھی،اس کا اندازہ کرنل فاتح کو نہیں ہو سکا۔
انہیں اپنی فورس کے اس آفیسر سے جو بندرگاہ پہ تعینات تھا سے پتہ چل گیا تھا کہ اس لڑکے کو کہاں لے جایا گیا تھا۔وہ بندرگاہ سے چالیس کلو میٹر دور ایک چھوٹا سا جزیرہ تھا۔جزیرے کا نام خوش بخت تھا۔اس کا مالک سیٹھ عبدالمالک تھا۔سیٹھ عبدالمالک کا شمار ملک کے بڑے صنعت کاروں میں ہوتا تھا۔اس کا ماضی البتہ مشکوک تھا۔ماضی میں اس کا تعلق کئی جرائم پیشہ لوگوں سے رہا تھا اور ایک خیال یہ بھی تھا کہ وہ خود بھی جرائم پیشہ تھا اور ہر قسم کے جرائم میں ملوث تھا۔یہ اور بات تھی کہ کبھی بھی اس کے خلاف کوئی ثبوت مہیا نہ کیا جا سکا تھا۔
پانچ منٹ کے بعد اسی ’’اجنبی خیرخواہ‘‘ کا دوبارہ فون آیا۔اس نے بتایا کہ’’ شیردل کو سیٹھ عبد المالک کے جزیرے میں لایا گیا تھا۔‘‘یہ کہتے ہی اس نے فون بند کر دیا تھا۔
اب اس بات میں کسی قسم کے شک کرنے کی گنجائش نہ تھی کہ ان کی فورس کے جس آفیسر نے جس ’’لڑکے‘‘ کو دیکھا تھا تو وہ شیردل ہی تھا۔
تھوڑی دیر بعد فون پہ مختلف لوگوں سے رابطہ کر رہے تھے۔انہوں نے غازی،مومن اور مجاہد کو بھی تیار رہنے کے لئے کہہ دیا۔ اب وہ ذہنی طور پہ اس مشن پہ جانے کے لئے تیار ہو چکے تھے۔ٍ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیردل کو بھوک لگ رہی تھی۔اس کا خیال تھا کہ وہ اسے بھوکا نہیں رکھیں گے۔کھانا کب ملے گا،اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل تھا۔اسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔تہہ خانہ ایک پل کے لئے روشن ہوا تو شیردل اپنی جگہ پہ الرٹ ہوگیا۔روشنی پل بھر کے لئے تھی اور اتنی تیز تھی کہ شیردل نے دیکھ لیا جو شاید وہ اسے دکھانا چاہتے تھے۔سیڑھیوں کے پاس ایک ٹرے رکھی ہوئی تھی۔اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر کوئی ٹرے رکھ گیا تھا۔شیردل کو کسی آہٹ کا احساس نہ ہوا تھا۔نہ جانے کون کب کھانا رکھ گیا تھا کہ شیردل کے حساس کان بھی اس کی آمد و رفت سے ناواقف ہی رہے تھے۔
شیردل کچھ دیر تک سوچتا رہا اور پھر اس نے یہ ہی مناسب سمجھا کہ ساری فکروں کو ایک طرف رکھ کر پہلے صرف کھانے کی طرف دھیان دے۔وہ اپنی جگہ سے اٹھا تو دیواروں سے پھر نیلی روشنی پھوٹنے لگی۔روشنی البتہ بے حد دھیمی تھی۔وہ مشکل سے ہی سامنے کی چیز دیکھ سکتا تھا۔اس نے کھانے کی ٹرے اٹھائی اور واپس اپنی جگہ پہ آکر بیٹھ گیا۔کھانے میں گوشت کا سالن تھا اور ساتھ ہی سبزی بھی تھی۔دو روغنی نان اور پانی کی ایک بوتل بھی تھی۔شیردل نے کچھ سوچ کر گوشت کے سالن کو ہاتھ نہیں لگایا ۔اسے بھوک محسوس ہو رہی تھی یا واقعی ہی کھانا اچھا تھا کہ اس نے بڑی رغبت سے کھا نا کھایا۔پھر پانی پی کر اللہ کریم کا شکر ادا کیا۔اس نے کھانے کی ٹرے اٹھا کر ایک طرف رکھ دی اور اس کوشش میں اس کا ہاتھ ٹرے کے پیندے سے ٹکرایا۔وہاں کچھ تھا۔وہ کاغذ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا جو بڑی صفائی سے ٹرے کے پیندے سے چپکایا گیا تھا۔وہ دھیمی دھیمی سی مدھم روشنی ابھی تک موجود تھی۔شیردل نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بڑی احتیاط سے کاغذ کو ٹرے سے ایسے الگ گیا کہ وہ اس کی بند مٹھی میں سما گیا۔اس نے بڑی مہارت سے بند مٹھی میں رکھے کاغذ کی عبارت پڑھنے کی کوشش کی۔عبارت پڑھتے ہی وہ بری طرح سے چونکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باسط علی اس وقت سیٹھ عبدالمالک کے بہترین انداز میں سجے ہوئے آراستہ دفتر میں موجود تھا۔وہ وہاں اس کے انٹر ویو کے سلسلے میں آیا تھا۔اس کا صحافی ساتھی جسے انٹر ویو کرنا تھا وہ بیماری کی وجہ سے نہیں آسکا تھا۔اسی وجہ سے اسے آنا پڑا تھا۔وہ سیٹھ عبدالمالک کی شہرت سے اچھی طرح سے واقف تھا۔
سیٹھ عبدالمالک کا تعلق غالباً مکران سے تھا۔اس کا حلیہ ایسا ہی تھا۔اس کی عمر پچاس سال سے کم نہ تھی مگر اپنے ڈیل ڈول اور جثہ سے بمشکل چالیس کا لگتا تھا۔وہ لمبے قد کا تھا۔سیاہ گھنگھریالے بال،چپٹی ناک اور سیاہ رنگت۔اس نے بہترین تراش خراش کا نیا سوٹ پہن رکھا تھا۔نئے سوٹ نے البتہ اس کی شخصیت کو چار چاند نہیں لگائے تھے۔باسط علی کوحیرت اس بات کی تھی کہ اس کے اخبار کو سیٹھ عبدالمالک جیسے شخص کا انٹر ویو لینے کی کیا ضرورت تھی۔
اس نے انٹر ویو کا آغاز کیا۔سیٹھ عبدالمالک نے اسے ہلکے پھلکے انداز میں اپنے بارے میں بتایا۔وہ ساتھ ساتھ اس سے سوالات بھی کرتا رہا۔
سیٹھ عبدالمالک نے اسے بتایا کہ’’اس کا باپ مچھلیوں کا ٹھیکے دار تھا۔وہ مقامی مچھیروں سے مچھلیاں خریدتا اور پھر مارکیٹ میں جا کر بیچ دیتا۔ اس نے اپنے باپ کے ساتھ کچھ عرصہ کام کیا۔خلیجی ممالک اور پڑوسی ملک میں خشک جھینگوں کی بڑی مانگ تھی۔اس نے اس کاروبار کی طرف بھرپور توجہ دی اور نتیجہ خاطر خواہ نکلا۔اس کے بعد تو اس نے جس کاروبار میں بھی ہاتھ ڈالا تو مٹی جیسے سونا بنتی چلی گئی۔اب اس کی لانچیں اور اسٹیمر دور دور تک جاتے تھے۔وہ کیا کرتے تھے یہ اس نے نہیں بتایا۔وہ کئی رفاہی اداروں کی امداد بھی کرتا تھا اور اس حوالے سے لوگ اسے بہت پسند کرتے تھے۔‘‘
’’اپنے جزیرے خوش بخت کے بارے میں کچھ بتائیے۔‘‘باسط علی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’خوش بخت ایک جزیرہ ہے۔‘‘سیٹھ عبدالمالک اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا۔پھر بولا۔’’وہ میری خوش بختی کی علامت ہے۔وہ ایک پرائیوٹ جزیرہ ہے جہاں میں کبھی کبھار ہی جاتا ہوں۔‘‘
’’کبھی ہمیں بھی اپنا خوبصورت جزیرہ دکھائیے۔‘‘باسط علی نے فرمائش کی۔
’’جی جی ضرور۔۔۔۔‘‘سیٹھ عبدالمالک نے دانت نکالے۔’’ابھی تو میں بے حد مصروف ہوں ۔ان شا ء اللہ جب کبھی موقع ملا تو آپ کو ضرور دعوت دوں گا۔‘‘باسط علی کو محسوس ہوا جیسے اس نے اسے ٹالا ہو۔سیٹھ عبدالمالک زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا مگر اسے گفتگو کا سلیقہ تھا اور اردو اچھی طرح سے بول لیتا تھا۔
باسط علی نے انٹر ویو کے بعد اجازت چاہی اور اس کے وسیع و عریض دفتر سے باہر نکل آیا۔وہ کاریڈور میں آہستہ قدموں سے چلا جا رہا تھا کہ اچانک چونک اٹھا۔اس نے ایک آدمی کی جھلک دیکھی تو اس کی پیشانی پہ بل پڑ گئے۔اس آدمی نے شاید باسط علی کو نہیں دیکھا تھا۔وہ تیزی سے سیٹھ عبدالمالک کے دفتر کا دروازہ کھول کر اندر غائب ہو گیا تھا۔باسط علی فوراً ہی محتاط ہو گیا۔وہ اس عمارت سے نکل آیا۔اس کے بعداس نے سیل فون کان سے لگایا۔وہ کسی کو کال کر رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاغذ پہ لکھا تھا کہ’’آدھی رات کو تیار رہنا۔‘‘لکھنے والے کا نام نہیں تھا۔شیردل الجھن میں پڑ گیا۔
اس پیغام کا آخر کیا مطلب تھا؟
ؒ لکھنے والا کون تھا اور کیا چاہتا تھا؟
کیا وہ کوئی دوست تھا یا یہ بھی دشمن کی کوئی چال تھی؟
اگر دوست تھا تو وہ اس کی مدد کیسے کرنا چاہتا تھا؟کیا وہ اس کی رہائی چاہتا تھا؟
اگر دشمن تھا تو اسے یوں پراسرار انداز میں پیغام بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟
وہ تو پہلے ہی دشمن کی قید میں تھا۔یقیناخط بھیجنے والا اس کا خیر خواہ تھا۔
’’ایسا ہی ہے۔وہ یقیناًمیری رہائی چاہتا ہے۔‘‘شیردل کے دل کو کچھ سکون سا محسوس ہوا۔
’’مجھے اس خط سے چھٹکارا پا لینا چاہئے۔‘‘وہ سوچ رہا تھا کہ کیا کرے کہ ’’یہ خط اس کے دشمنوں کے ہاتھ نہ لگے۔ورنہ اس کے ان دیکھے خیر خواہ کے لئے بھی مشکل ہو جاتی۔‘‘
وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ وہ دھیمی دھیمی نیلی روشنی یک دم غائب ہو گئی۔تہہ خانہ میں مکمل تاریکی کا راج ہو گیا۔تاریکی میں شیردل کو اپنے منصوبہ پہ عمل کرنا آسان لگا۔تھوڑی دیر کے بعد وہ آہستہ آہستہ کاغذ کے اس ٹکڑے کو چبا رہا تھا۔اسے نگلنے کے بعد اس نے سکون کا سانس لیا۔یہ بات البتہ وہ کہہ سکتا تھا کہ وہ کاغذ کا ٹکڑا ہرگز لذیذ نہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح اس وقت بندرگاہ سے قریب ہی ایک عمارت میں موجود تھے۔ان کے ساتھ غازی،مومن اور مجاہد بھی تھے۔ان کی فورس کے بھی کئی افراد تھے۔نصرت صاحب بھی اس ’’مہم‘‘ پہ جانا چاہ رہے تھے مگر کچھ سوچ کر کرنل فاتح نے انہیں روک دیا تھا۔وہ ان کے فیصلے سے خوش نہیں معلوم ہوتے تھے مگر انہوں نے جواباً بحث نہیں کی۔وہ بڑے بھائی کا بہت احترام کرتے تھے اور ان کی پیشہ ور قابلیت کا بھی لوہا مانتے تھے۔کرنل فاتح نے انہیں کچھ ہدایات دیں اور پھر انہیں رخصت کر دیا۔
اس عمارت میں ان سب کے چہرے پلاسٹک میک اپ سے تبدیل کئے گئے۔
’’یارمومن! تو کسی بھی طرح ایک لڑکا نہیں لگتا۔عمر کے دس سال تم نے دس منٹ میں گزار دئیے ہیں۔‘‘غازی مومن کے میک اپ کو دیکھ کررہ نہ سکا۔
’’تمہارا مطلب ہے کہ مومن عمر کے حساب سے دس سال بڑا لگتا ہے۔‘‘مجاہد نے اس سے تصدیق چاہی۔
’’تم تو مجھ سے ایسے پوچھ رہے ہوجیسے میں کسی یونیورسٹی کا پروفیسر ہوں اور سوال و جواب کا سیشن چل رہا ہو۔‘‘غازی نے جواب دینے کی بجائے اپنی ہی کہی۔
’’میری توبہ!میں بھلا ایسی غلطی کر سکتا ہوں۔‘‘مجاہد نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔’’پروفیسر صاحب تو پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور جناب کا معاملہ توایسا ہے کہ تعلیم سے دور دور کا واسطہ نہیں۔‘‘
’’اچھا تو بی مینڈک کو بھی زکام ہوا۔‘‘غازی جل کر بولا۔
’’بھائی! بی مینڈک تو نہ کہو۔بھائی مینڈک کہہ لو تو بھی جملہ درست ہو جائے گا۔‘‘مومن نے بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
’’کیا یہ اردو کی کلاس ہے؟‘‘غازی کا انداز سوالیہ تھا۔
’’یہ تو تمہیں ہی معلوم ہو گا۔شروع تو تم نے ہی کی تھی۔‘‘مومن نے بظاہر سنجیدگی اختیار کی۔
’’اگر تمہاری کلاس ختم ہو گئی ہو تو میں بھی کچھ کہوں۔‘‘کرنل فاتح نے کہا تو انہیں احساس ہوا کہ وہ بھی وہاں موجود ہیں۔
’’انکل!آپ نے تو یوں کہا جیسے اس جج نے عدالت میں دو وکیلوں کو بحث کرتے ہوئے کہا تھا کہ خبردار،یہاں ہم بھی موجود ہیں۔‘‘غازی نے تو چپ رہنا سیکھا ہی نہ تھا۔
کرنل فاتح کے ہونٹوں پہ مسکراہت مچلی مگر وہ فوراً ہی سنجیدہ ہو گئے۔’’ہم نے آدھی رات کو روانہ ہونا ہے۔سب تیار رہیں۔‘‘
’’انکل ہم تو تیار ہی ہیں مگر آپ ان صاحب کوبھی سمجھائیے کہ اپنی زبان پہ کنٹرول رکھیں۔ورنہ میک اپ کا سارا بھانڈا ان کی زبان نے پھوڑ دینا ہے۔‘‘مجاہد کا اشارہ غازی کی طرف تھا۔
’’بھانڈا پھوڑنا ایک محاورہ ہے اور اس کا میک اپ سے کوئی لینا دینا نہیں۔‘‘غازی کی مسکراہٹ دل جلا دینے والی تھی۔مجاہد نے بات کو بڑھانے سے پرہیز کیا۔
’’غازی!تمہیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔‘‘کرنل فاتح نے اسے مخاطب کیا تو اس کا منہ بن گیا۔
’’ہم سب کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔‘‘انہوں نے مجاہد اور مومن کی طرف رخ کیا تو غازی نے کرنل فاتح کی نظر بچا کران کی طرف ایک شرارتی مسکراہٹ اچھالی۔
’’دشمن بے حد چالاک ہے۔مجھے یقین نہیں کہ وہ ہمارے میک اپ سے دھوکہ کھا جائے گا مگر اور کوئی چارہ بھی نہیں۔‘‘کرنل فاتح بتا رہے تھے۔’’ایک بات یاد رکھو۔دشمن کو کبھی بھی کمزور نہ جانو۔جب دشمن عیار،مکار اور سفاک بھی ہو تو مزید احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
’’آپ لفظ خطرناک بھول گئے ہیں۔‘‘غازی کی زبان سے پھسل گیا۔
’’میں بھولا نہیں تھا۔میں دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میری باتیں توجہ سے سن بھی رہے ہو یا نہیں۔‘‘کرنل فاتح نے تحمل سے جواب دیا۔
غازی خود اپنی زبان سے تنگ تھا۔اس نے آہستہ آواز میں ’’سوری‘‘ کہا۔مجاہد نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا تھا۔
کرنل فاتح کے سیل فون پہ بیپ کی آواز ہوئی تو انہوں نے سب کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور ان سے کچھ فاصلے پر جا کر فون سننے لگے۔
’’لگتا ہے کوئی اہم کال ہے۔‘‘مومن نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
’’یہ بات تو کوئی بچہ بھی بتا سکتا ہے۔‘‘غازی نے اس کا مذاق اڑایا۔
’’مگر تم نہیں بتا سکتے۔‘‘مومن نے دانت پیسے۔
’’میں تو خیر سے اب بڑا ہو گیا ہوں۔‘‘غازی نے فخر سے بتایا جیسا کہ بڑا ہو جانا کوئی خاص بات رہی ہو۔
’’اچھا !یہ اطلاع کہاں سے آئی ہے؟‘‘مومن کا انداز مذاق اڑانے والا تھا۔
’’میرا خیال ہے کہ چیچو کی ملیاں سے؟‘‘مجاہد نے بظاہر سنجیدگی سے کہا۔
’’نہیں ٹمبکٹو سے۔۔۔‘‘مومن نے اصرار کیا۔
’’آپس میں ہی لگے ہوئے ہو۔کوئی مجھ سے پوچھتا ہی نہیں۔‘‘غازی نے بسورتے ہوئے کہا۔اس کے اس انداز پہ دونوں ہنسنے لگے۔
اس سے پہلے کہ غازی کچھ اور کہتا،کرنل فاتح کال سے فارغ ہو چکے تھے۔سب سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔
’’باسط علی کا فون تھا۔‘‘کرنل فاتح نے ان کے قریب ہی کرسی سنبھالی۔’’اس نے سیٹھ عبدالمالک کے دفتر میں نارمن زبسکی کو داخل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔وہ اس کی نگرانی کرنا چاہتا تھا۔میں نے اسے منع کر دیا ہے۔‘‘
’’انکل !آپ نے کیوں منع کیا؟‘‘مومن نے پوچھا۔
’’نارمن زبسکی اسے پہچانتا ہے۔باسط علی کو اندازہ ہی نہیں کہ نارمن زبسکی کتنا خطرناک ہے۔میں نے اس کی نگرانی پہ اپنی فورس کے کچھ لوگوں کو مقرر کر دیا ہے۔‘‘کرنل فاتح پرسوچ انداز میں کہہ رہے تھے۔
’’کیا اس سے ہمارے پروگرام پہ کوئی اثر پڑے گا؟‘‘غازی نے پوچھا۔
’’تمہارا سوال بڑی ذہانت والا ہے۔‘‘کرنل فاتح بولے۔’’ہو سکتا ہے کہ اس نے باسط علی کو پہچان لیا ہو اور اگر ایسا ہے تو وہ پھر محتاط ہو جائے گا۔‘‘
’’باسط علی آخر سیٹھ عبدالمالک سے ملنے کیوں گیا تھا؟‘‘غازی نے ایک اہم سوال کیا۔
’’باسط علی کو معلوم نہیں مگر ایسا میرے چاہنے پر ہوا۔میں نے اس کے اخبار کے ایڈیٹر سے کہہ کر سیٹھ عبدالمالک کے انٹر ویو کے لئے کہاتھا۔
’’مگر کیوں؟‘‘مجاہد نے پوچھا۔
’’بھائی! اس کا جواب تو تم لوگ دو گے۔یہ کوئی ایسا مشکل بھی نہیں۔‘‘کرنل فاتح مسکرائے۔
’’انکل!آپ چاہتے تھے کہ شاید سیٹھ عبدالمالک انٹرویو میں کوئی ایسی بات بتا دے جو ہمارے کام آ سکے۔‘‘غازی نے جواب دیا۔
’’مگر کیوں؟‘‘مجاہد نے اپنا سوال پھر دہرایا۔
’’اس لئے کہ اکثر لوگ انٹرویو میں کچھ زیادہ ہی بول جاتے ہیں۔اس سے ہمیں ضروری معلومات مل سکتی ہے اور پھر وہ خوش بخت جزیرے کا مالک بھی ہے جہاں پہ شیردل کو لے جایا گیا ہے۔‘‘غازی نے اپنا تجزیہ پیش کیا۔
’’غازی کا کہنا ٹھیک ہے۔میں نے یہ ہی سوچ کر یہ سارا انتظام کیا تھا مگر سیٹھ عبدالمالک نے کوئی کام کی بات نہیں بتائی۔‘‘کرنل فاتح نے غازی کو سراہتے ہوئے بتایا۔
سب تھوڑی دیر تک خاموش رہے۔کرنل فاتح بھی کسی گہری سوچ میں تھے۔وہ ان سب کو تیار رہنے کا کہہ کر کہیں چلے گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیردل کو آدھی رات کا نتظار تھا۔وقت تھا کہ گزرنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔آنکھوں میں نیند نہیں تھی مگر اس نے بہتر سمجھا کہ کچھ دیر آرام کر لے۔سخت اور ٹھنڈے فرش پر نیند کہاں آنی تھی۔شیردل سونے کی کوشش کر رہا تھا مگر نیند نہیں آ رہی تھی۔جب وہ سخت کوشش کے بعد تھک چکا تھا کہ نیند اس پہ مہربان ہو گئی۔وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کتنی دیر سویا مگر جب آنکھ کھلی تو اس نے خود کو نسبتاً تروتازہ اورہشاش بشاش پایا۔وہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس کی آنکھ کسی قسم کے کھٹکے سے کھلی تھی یا وہ اپنی نیند پوری کر کے جاگا تھا۔ہر طرف خاموشی کا راج تھا۔کسی قسم کی کوئی آواز نہیں تھی۔اس کے پاس وقت کو جانچنے کا کوئی پیمانہ نہ تھا۔اس کے ہاتھ پر گھڑی بھی نہیں تھی۔اسے اب انتظار ہی کرنا تھا اور انتظار کر نا شاید دنیا کا سب سے مشکل ترین کام ہے۔شیردل کو ایک طویل انتظار کرنا پڑا۔اسے تو ایسا ہی محسوس ہوا تھا۔ایک آہٹ ہوئی تو اس کے کان کھڑے ہوئے مگر اس نے اپنی جگہ سے ہلنے کی کوشش نہیں کی۔
ٓاس آہٹ کے بعد خاموشی چھا گئی تھی۔شیر دل نے انتظار کرنا ہی بہتر سمجھا۔اس نے تہہ خانہ کی دیوار سے ٹیک لگانی چاہی تو وہ پیچھے الٹ کر گرا۔اس کی کمر کو سہارا دینے کے لئے پیچھے موجود دیوار اب اپنی جگہ پر نہیں تھی۔اس کی کمر پہ چوٹ آئی تھی۔ یقیناکسی خود کار میکینزم کے ذریعہ تہہ خانہ میں موجود ایک خفیہ راستہ اس کے لئے کھول دیا گیا تھا۔
’’وہ کون تھا؟وہ آہٹ کیسی تھی؟‘‘
’’کیا وہ دوست تھا؟ اس کا خیرخواہ یا کوئی۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
شیردل کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ذہن تیزی سے سوچ بچار کر رہا تھا۔اس نے گرنے کے بعد ابھی تک زمین سے اٹھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔وہ اپنی کمر سہلا رہا تھا اور چاروں طرف سن گن لینے کی کوشش کر رہا تھا۔وہ اس وقت ایک چھوٹے سے کمرے میں تھا۔کمرے میں ہلکی سی روشنی تھی۔وہ روشنی چھت اور دیواروں سے پھوٹتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اور تہہ خانہ کی نیلی روشنی سے مختلف تھی۔
اس نے کمرے کا بغور جائزہ لیا۔اس کمرے میں ایک بستر اور کچھ ایسی چیزیں تھیں جن سے پتہ چلتا تھا کہ کمرے میں رہنے والا کوئی گارڈ تھا۔ایک طرف اس کی وردی لٹک رہی تھی۔شیردل نے کچھ سوچ کر وہ وردی اٹھائی۔وردی تو لگتا تھا جیسے اس کے لئے ہی سی گئی ہو۔نام کے بیج کی جگہ FD3لکھا ہوا تھا۔ بیج پہ تصویر نہیں تھی۔یہ بات شیردل کے لئے اطمینان بخش تھی۔اس نے کمرے کا دروازہ آہستہ سے کھولا۔کمرے کا دروازہ ایک لمبی سی سرنگ میں جا کر کھلا۔سرنگ میں اندھیرا تھا۔البتہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کم روشنی کے بلب لگے ہوئے تھے۔سرنگ میں گھٹن کا کوئی احساس نہیں تھا۔نہ جانے کہاں سے ہوا آ رہی تھی۔
شیردل نے احتیاط سے سرنگ میں قدم رکھا۔اس نے کسی کے قدموں کی آواز سننے کی کوشش کی۔ہر سو خاموشی کا راج تھا۔اسے کوئی آواز سنائی نہ دی۔وہ دھیرے دھیرے قدم آگے بڑھانے لگا۔اس نے رفتار کم رکھی تھی تاکہ قدموں کی گونج نہ سنائی دے۔
کچھ فاصلہ طے کر کے وہ ایک دروازے کے پاس پہنچا۔وہ ویسا ہی دروازہ تھا جیسا کہ اس نے ابھی تھوڑی دیر پہلے دیکھا تھا اور وہیں سے اس نے مقامی گارڈ کی وردی پہنی تھی۔کمرے کا دروازہ پوری طرح سے بند نہیں تھا۔شیردل نے کان لگا کر سننے کی کوشش کی مگر اسے کوئی آواز سنائی نہیں دی۔اس نے دروازے کو دھیرے سے اندر کی جانب دھکیلا اور دروازے کی آڑ میں کھڑا ہو گیا۔جب کچھ بھی نہ ہوا تو اس نے دروازے کو ہلکا سا دھکا دیا تو وہ پورا کھل گیا۔اس بار بھی خاموشی ہی چھائی رہی۔شیردل نے کمرے کے اندر داخل ہونے میں دیر نہیں لگائی۔وہ بھی گارڈ کا کمرہ ہی معلوم ہوتا تھا۔کمرے میں کوئی بھی نہیں تھا۔
’’کیا اس کمرے سے بھی تہہ خانہ کا چور دروازہ کھلتاہے؟‘‘اس نے سوچا اور پھر جلدی سے کمرے کی تلاشی لینے لگا۔یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں کہ وہاں ایک جدید مشین پسٹل وافر راؤنڈز کے ساتھ موجود تھا۔اسے ہاتھ میں لے کر شیردل کو تقویت کا احساس ہوا۔
اس نے اب سرنگ میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا۔اس نے احتیاط کا دامن اب بھی نہیں چھوڑا تھا۔حیرت کی بات تھی کہ اب تک سرنگ میں اس کا سامنا کسی سے بھی نہیں ہوا تھا۔شاید وہاں کوئی نہیں تھا۔لیکن ایسا نہیں تھا۔وہ دونوں اچانک ہی سامنے آ گئے تھے۔شیردل کے لئے چھپنے کی کوئی جگہ نہ تھی مگر اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہ تھی۔وہ دونوں ہوش و حواس میں نہیں معلوم ہوتے تھے۔
دونوں نے ویسی ہی وردی پہن رکھی تھی جیسی کہ اس وقت شیردل کے جسم پر بھی تھی۔ان میں سے ایک لمبے قد کا تھا اور دوسرا چھوٹا تھا اور موٹا بھی۔ان کے قریب دوتین خالی بوتلیں ساری کہانی سنا رہی تھیں۔وہ نشے میں مدہوش زمین پر پڑے ہوئے تھے اور ان کے بھاری خراٹے گونج رہے تھے۔شیردل نے ان سے نہ الجھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے آگے کا رخ کیا۔وہ جلد ہی سرنگ کے دہانے پر پہنچ گیا۔ایک بڑا سا جنگلا ایک طرف کو اٹھا ہوا تھا۔یہ شیردل کی خوش قسمتی تھی کہ اسے باہر نکلنے کے لئے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑا۔ وہ سرنگ سے باہر نکلا تو ٹھنڈی اور خوش گوار ہوا نے اس کا ستقبال کیا۔اوپر سے سرنگ کا دہانہ جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا اور آسانی نے نظر نہیں آتا تھا۔
کافی فاصلے پہ ایک بڑی عمارت کا دھندلا سا ہیولا نظر آ رہا تھا۔نیلے آسمان پہ بادلوں کا نام و نشان نہیں تھا۔چاند کی روشنی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔شیردل کو ہر طرف درخت ہی درخت نظر آئے۔وہ باقاعدہ جنگل نہیں تھا اور نہ ہی درختوں کے لگانے میں کوئی ترتیب روا رکھی گئی تھی۔شاید وہ درخت خود رو ہوں۔شیردل نے سرنگ کے لئے دو تین نشانیاں مقر رکیں تاکہ اگر اسے کبھی سرنگ میں واپس جانا ہو تو آسانی سے وہاں پہنچ سکے۔
اس نے درختوں کی جانب قدم بڑھائے۔جیسے جیسے وہ آگے بڑھتا گیا تو درخت گنجان ہوتے چلے گئے او ر ان میں درمیانی فاصلہ بھی کم ہو گیا۔اب وہ باقاعدہ ایک جنگل کی شکل اختیار کر چکے تھے۔روانی سے چلنا اب ممکن نہیں رہا تھا۔شیردل کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑ رہا تھا۔اس کے بازوؤں پہ خراشیں آ گئیں تھیں اور قمیض کئی جگہ سے ادھڑ گئی تھی۔
’’آگے جاؤں یا نہیں؟‘‘وہ سوچ میں پڑ گیا۔ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک ہولناک دھاڑ سے سارا جنگل گونج اٹھا۔
شیردل کا دل ایک لمحے کو کانپ کر رہ گیا۔وہ جنگل کے بادشاہ شیر ببر کی دھاڑ تھی۔
’’یہاں شیر کہاں سے آ گیا؟یہ تو جزیرہ ہے اور جنگل بھی ایسا نہیں کہ یہاں شیر رہتا ہو۔‘‘شیردل نے دل ہی دل میں حیران ہوتے ہوئے سوچا۔شیر کی بندرگاہ سے قریبی جزائر میں موجودگی کے بارے میں نہ تو کبھی سنا تھا اور نہ ہی کہیں پڑھا تھا۔
شیر کی دھاڑ دوبارہ سنائی دی اور اس بار وہ زیادہ قریب تھی۔شیردل نے آس پاس نظر دوڑائی تو اس کے جسم میں خوف کی لہر سی دوڑ گئی۔اسے خود سے قریب ہی ایک جھاڑی میں دو سرخ آنکھیں چمکتی ہو ئی نظر آئیں۔فاصلہ آٹھ دس میٹرسے زیادہ نہیں تھا۔ایک زوردار دھاڑ کی آواز اور پھر زمین ہلنے لگی۔شیردل کے پاس فیصلہ کرنے کے لئے وقت نہیں تھا۔وہ فوراً حرکت میں آ گیا۔
شیردل نے قریبی درخت کی طرف چھلانگ لگائی تھی۔اس کے جسم میں تو جیسے بجلیاں سی بھر گئی تھیں۔وہ درخت کے تنے پہ ہاتھ رکھ کر اچھلا اور پھر مہارت سے درخت پر چڑھتا چلا گیا۔وہ شیر کی پہنچ سے دور ہو گیا تھا۔زمین نیچے اب بھی ہلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی مگر شیر کا کہیں پتہ نہیں تھا۔یہ بات حیرانی کی تھی۔زمین کے ہلنے کو شیردل نے شیر کی تیز حرکت سمجھا تھا۔اب درخت پہ چڑھا وہ چاروں طرف نظریں دوڑا رہا تھا۔اسے نہ تو شیر ہی کہیں نظر آ رہا تھا اور نہ ہی اب زمین ہل رہی تھی۔شیردل اپنی جگہ حیران و پریشان سابیٹھا رہ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح مع اپنی پارٹی کے بندرگاہ پہنچ چکے تھے۔غازی نے ہی اسے ’’پارٹی‘‘ کا نام دیا تھا۔وہ سب بدلے ہوئے حلیہ میں تھے اور آسانی سے پہچانے نہیں جاتے تھے۔وہ دو گروپوں میں بٹ گئے تھ اور انہوں نے جس عمارت کو اپنی رہائش گاہ کے طور پر منتخب کیا تھا وہ ایک درمیانے درجے کا ہوٹل تھا۔دونوں گروپ علیحدہ علیحدہ کمروں میں موجود تھے اور ان کے پاس واضح ہدایات موجود تھیں۔آپس میں رابطے کے لئے طریقہ کار بھی طے کر لیا گیا تھا۔انہوں نے کسی سرکاری عمارت میں ٹھہرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔کرنل فاتح کے خیال میں ہر سرکاری محکمے میں کالی بھیڑیں موجود تھیں۔
وہ شام کے وقت پہنچے تھے۔ انہوں نے رات کا کھانا کمروں میں ہی منگوا لیا تھا۔کھانا بد رنگ اور بد مزہ تھا۔غازی نے خصوصاً منہ بنایا تھا البتہ منہ سے کچھ کہا نہیں۔رات کے دو بجے کرنل فاتح اور ان کے ساتھی ایک موٹر بوٹ میں جزیرہ خوش بخت کی طرف روانہ ہو گئے۔چند گھنٹوں بعد دوسرے گروپ کی روانگی ہونا تھی۔انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کرنا تھا۔
آسمان پہ چاند چمک رہا تھا اور اس کی روشنی خاموش سمندر کے سینے پہ ایک عجیب سا منظر پیش کررہی تھی۔موٹر بوٹ کے انجن کی آواز کے سوا ہر سو خاموشی کا راج تھا۔کر نل فاتح کے ہاتھ میں ایک جدید دور بین تھی او روہ اس اندھیرے میں نہ جانے کیا دیکھ رہے تھے۔
جزیرہ خوش بخت پہنچنے میں انہیں زیادہ دیر نہیں لگی۔ انہوں نے جزیرے سے کچھ فاصلہ رکھ کر دور ہی دور سے حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔جزیرے کے ساحل پہ دو چھوٹی موٹر بوٹس اور ایک بڑا اسٹیمر کھڑا تھا۔اسٹیمر غالباً گہرے سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کے لئے استعمال ہوتا تھا۔جزیرہ زیادہ بڑا نہیں تھا۔البتہ اس پہ درختوں کی بہتات تھی ۔سبزہ بھی یقینارہا ہو گا۔جزیرے پر روشنی موجود تھی۔ان کی موٹر بوٹ نے سارے جزیرے کا چکر تیس منٹ میں مکمل کر لیا تھا۔جزیرے کے مشرقی رخ پر ایک پہاڑی بھی تھی۔
ایک جگہ موٹر بوٹ کی رفتار کم ہوئی اور پھر وہ ایک ایک کر کے موٹر بوٹ سے اترتے چلے گئے۔موٹر بوٹ انہیں چھوڑ کر واپس چلی گئی۔کرنل فاتح کے ساتھ مومن تھا اور ان کی فورس کے تین جوان تھے۔ان کے انداز سے ہی پتہ چل جاتا تھا کہ وہ ٹرینڈ کمانڈو تھے۔کرنل فاتح نے سب کو چلنے پھرنے کے انداز تک تبدیل کرنے کے لئے کہا تھا اور سب کو اس حوالے سے ہنگامی بنیادوں پہ ٹریننگ دی گئی تھی۔کرنل فاتح اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کچھ تشویش کا شکار تھے۔کچھ دیر سوچنے کے بعد انہوں نے اپنے ساتھیوں سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا۔وہ اپنے مخصوص انداز میں انہیں سمجھا رہے تھے اور ان کی فورس کے جوان پوری توجہ سے ان کی بات سن رہے تھے۔ان کی طرف سے مطمئن ہو کر انہوں نے سب کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔وہ اس وقت درختوں کے بیچ میں سے گزر رہے تھے کہ ایک فائر ہوا۔تھوڑی دیر بعد فائرنگ کی آواز سے ساری فضا گونج اٹھی۔کرنل فاتح سمیت سب ہی زمین پر گرتے چلے گئے۔ان کے جدید ہتھیار ان کے ہاتھوں میں نظر آنے لگے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چار افراد تھے۔ان کے پاس جدید ہتھیار تھے۔ان کے انداز اور اجسام کی حرکت سے پتہ چلتا تھا کہ وہ ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان کے چہرے ایک خاص قسم کے غلافی کور سے ڈھکے ہوئے تھے البتہ وہ ڈاکو نہیں دکھتے تھے۔آگے بڑھتے ہوئے وہ بے حد محتاط تھے۔شیر کی دھاڑ جب سنائی دی تو وہ سب درختوں کی آڑ میں ہوگئے تھے اور ان کے ہاتھوں میں جدید اسلحہ گولیاں اگلنے کے لئے تیار تھا۔زمین کی دھمک کو محسوس کرتے ہی انہوں نے درختوں پہ چڑھنے میں دیر نہیں لگائی تھی۔شیر کی دھاڑ دوبارہ نہیں سنائی دی تھی اور تھوڑی دیر بعد زمین کی د ھمک بھی تھم گئی تھی۔وہ محتاط انداز میں اپنی جگہ پہ بیٹھے رہے اور درختوں سے فوراًنیچے اترنے کی کوشش نہ کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گولیاں اچانک ہی برسنے لگی تھیں۔شیردل نے اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگائی تھی کہ گولیوں کا رخ اس کی طرف ہی تھا۔ گولیوں کا رخ درخت کی طرف ہی تھا البتہ وہ شیردل سے دور برس رہی تھیں۔ شیردل پھر بھی اپنی جگہ ہی دبک گیا تھا۔اس نے جواباً فائر کرنے کی کوشش نہیں کی تھی کیوں کہ ابھی وہ محفوظ تھا۔اس طرح دشمنوں کواس کی صحیح پوزیشن کا پتہ چل سکتا تھا۔
’’شیر کی دھاڑ سنائی دی تھی مگر شیر نظر نہیں آیا۔‘‘
’’شیر کہاں گیا؟‘‘
’’کیاچمک دار آنکھیں شیر کی ہی تھیں یا کسی اور جانور کی؟‘‘
’’فائرنگ کون کر رہا ہے ؟یقیناًوہ کئی لوگ ہیں۔‘‘
’’زمین کی دھمک شیر کی حرکت کی وجہ سے تھی یا زلزلے کا جھٹکا تھا؟
’’وہ زلزلہ تو نہیں ہو سکتا تو پھر وہ کیا تھا ؟‘‘
شیردل کے ذہن میں کئی سوالات تھے۔ان سوالات کے جوابات تو شاید وقت ہی دیتا۔اس وقت تو سلامتی کا مسئلہ زیادہ اہم تھا۔گولیاں جس تواتر سے برسنا شروع ہوئی تھیں ویسے ہی اچانک یہ ’’برسات‘‘ کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہو گئی تھی۔شیردل اس فائرنگ سے محفوظ رہا تھا البتہ اس کے دائیں ہاتھ میں دبا مشین پسٹل ایکشن کے لئے پوری طرح سے تیار تھا۔ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے شیردل کا جسم اکڑ گیا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ معمولی سی حرکت بھی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔وہ خاموشی سے انتظار کر رہا تھا اور نہیں جانتا تھا کہ ابھی اسے کتنا انتظار کرنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فائرنگ کی آواز کچھ دیر تک گونجتی رہی۔اس دوران کرنل فاتح کی ٹیم نے جواباً کو ئی کارروائی نہیں کی۔جب تک حالات کا صحیح اندازہ نہ ہو جاتا اس وقت تک خاموشی ہی بہتر تھی۔فائرنگ رکنے کے بعد بھی کسی نے اپنی جگہ سے حرکت نہیں کی تھی۔سب ہی کرنل فاتح کے اشارے کے منتظر تھے۔کرنل فاتح کا مخصوص اشارہ ملتے ہی سب ہی آگے بڑھنے لگے البتہ وہ زمین پہ رینگتے ہوئے ہی چل رہے تھے۔ان کا سفر گو بہت آہستہ آہستہ طے ہو رہا تھا مگر وہ آگے بڑھ رہے تھے۔کرنل فاتح احتیاط سے زمین سے آدھے دھڑ سے اوپر اٹھے اور پھر وہ کھڑے ہوگئے۔تھوڑی دیر بعد وہ سب ہی چلتے ہوئے آگے جا رہے تھے۔ درختوں کی بہتات کی وجہ سے رفتار زیادہ تیز نہیں تھی۔ ابھی وہ درختوں کے بیچ میں سے راستہ بناتے ہوئے چل رہے تھے کہ دھپ دھپ کی آواز کے ساتھ ان کے سامنے چند سائے سے آکھڑے ہوئے تھے۔وہ درختوں سے کودے تھے۔کرنل فاتح اور ان کے ساتھی فوراً ہی اپنی جدید آٹومیٹک گنزکے استعمال کے لئے تیار ہو چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیردل کے لئے اب درخت پہ بیٹھ کر انتظار کرنا مشکل ہو گیا تھا۔کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے درخت سے اترنے کا فیصلہ کر لیا۔فیصلہ کرنے کی دیر تھی تو پھر اس نے زیادہ وقت ضائع نہیں کیا۔وہ درخت سے نیچے اترا اور ایک سمت روانہ ہو گیا۔ابھی وہ تھوڑا ہی فاصلہ طے کر سکا تھا کہ نہ جانے کیا ہوا۔اس کا سر زمین پر اور ٹانگیں ہوا میں جھول رہی تھیں۔جلد ہی اسے احساس ہو گیا کہ اس پر ایک مضبوط جال پھینکا گیا تھا۔اس نے ہاتھ پاؤں ہلانے کی کوشش کی مگر اس کی ایک نہ چلی۔جال اب کھینچا رہا تھا اور شیر دل کے لئے کسی بھی طرح کی حرکت کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔وہ اندازہ لگا چکا تھا کہ جال بے حد مضبوط تھا اور نائیلون کی موٹی رسیوں سے بنے جال کو توڑنا ناممکن تھا۔اگر اس کے پاس خنجر یا چاقو ہوتا تو کوشش کی جا سکتی تھی۔جال میں لپٹا ہوا وہ بے بس ہو گیا تھا۔جال جب پوری طرح سے کھینچا جا چکا تو شیردل کا دم گھٹنے لگا۔سر زمین کی طرف ہونے کی وجہ سے سارا خون سر کی جانب جمع ہو رہا تھا اور شیردل کا سر درد سے پھٹنے لگا تھا۔
’’اگر کچھ دیر اور ایسا ہی رہا تو پھر۔۔۔۔۔۔؟‘‘شیردل اس سے زیادہ نہیں سوچ سکا تھا۔جال کو اچانک جھٹکا لگا تھا اورشیردل اپنے پورے وزن کے ساتھ زمین سے ٹکرایا تھا۔جال زمین پہ پڑا تھا اور شیردل کے جسم کے کئی حصوں میں درد جاگ اٹھا تھا۔اس نے درد کی ٹیسوں کو برداشت کرتے ہوئے خود کو جال میں جکڑ کر پکڑنے والوں کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔اسے لگا جیسے وہ افریقہ کے کسی نیم وحشی اور تمدن و تہذیب سے عاری قبیلے کے ہتھے چڑھ گیا ہو۔وہ تعداد میں کئی تھے اور ان کے ہاتھوں میں مشعلیں تھیں۔وہ سارے اپنے حلیہ سے افریقہ کے باشندے لگتے تھے۔سیاہ رنگت،موٹے موٹے سیاہ ہونٹ اور بھدے نقوش۔ان کے مضبوط جسموں پہ کئی رنگوں سے نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔چہرے بھی رنگوں سے رنگے ہوئے تھے۔ان کے ہاتھوں میں مضبوط لاٹھیاں تھیں۔ان کے ساتھ تین لوگ ایسے تھے جن کے جسموں پہ جدید لباس سجے ہوئے تھے اور ان کے ہاتھوں میں آٹو میٹک رائفلیں تھیں۔رنگت ان کی بھی سیاہ تھی اور نقش و نگار کے اعتبار سے وہ زیادہ مختلف نہیں تھے۔چہروں کو انہوں نے بھی رنگوں سے سجا رکھا تھا۔ان کے ساتھ تین کتے بھی تھے۔وہ عام کتوں سے بڑے تھے اور ان کے چہروں پہ کھیلتی وحشت سے وہ بھیڑئیے لگ رہے تھے۔ان کی سرخ آنکھوں کو دیکھ کر شیردل کو اندھیرے میں چمکتی ہوئی وہ آنکھیں یاد آ گئیں جنھیں وہ شیر کی آنکھیں سمجھا تھا۔اس نے ایسے کتے پہلے نہیں دیکھے تھے۔وہ یہ بھی سمجھ گیا تھا کہ فائرنگ کرنے والے یقیناوہ تینوں رہے ہوں گے جن کے ہاتھوں میں جدید رائفلیں تھیں۔
رائفل بردار لوگوں میں سے ایک نے ان سے کچھ کہا۔وہ زبان شیردل کے لئے اجنبی تھی۔جال کے کونوں کو کئی لوگوں نے تھام رکھا تھا۔انہوں نے جال کو ہلایا۔شاید یہ کسی بات کی طرف اشارہ تھا۔
’’یہ افریقہ کے لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں؟‘‘
’’یہاں کیا ہو رہا ہے۔ان لوگوں کو یہاں کون لے کر آیا ہے؟‘‘
’’یہ کتے بھی عام کتوں سے مختلف ہیں کیا انہیں بھی کسی اور ملک سے لایا گیا ہے۔‘‘
’’مجھے قید کرنے والے کون ہیں؟‘‘
شیردل کے ذہن میں آنے والے خیالات نے اسے زیادہ موقع نہیں دیا۔انہوں نے جال کو سمیٹنا شروع کر دیا تھا۔
’’تم لوگ کون ہو اور مجھے کیوں پکڑ رکھا ہے؟‘‘شیردل نے ان سے سوال کیا۔اس نے اردو زبان ہی استعمال کی۔جواب میں اسے کئی بھدے اور بے ہنگم سے قہقہے سنائی دئیے۔
شیردل نے ہمت نہیں ہاری۔اس نے اپنا سوال انگریزی زبان میں دہرایا۔جواب میں جال کو بری طرح سے جھٹکا لگا اور وہ جال سمیت زمین سے اٹھتا چلا گیا۔
شیردل اب چند لوگوں کے کندھے پر سفر کر رہا تھا۔وہ خاموشی سے سفر کر رہے تھے۔سفر زیادہ دیر تک جاری نہیں رہا۔وہ ایک چھوٹی سی عمارت میں داخل ہوئے۔وہ عمارت شیردل نے پہلے نہیں دیکھی تھی۔وہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔شیردل کو جال سے نجات مل گئی تو وہ اپنی کہنیاں سہلانے لگا۔وہ بری طرح چھل گئی تھیں۔
’’اس کمرے یا عمارت سے نکلنے کی کوشش نہ کرنا۔‘‘ایک رائفل والا بگڑے ہوئے لہجے میں انگریزی میں اس سے مخاطب تھا۔
’’تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو اور تم لوگ کون ہو؟‘‘شیردل نے زمین سے اٹھتے ہوئے پوچھا۔جواباً رائفل والے نے رائفل کا دستہ اس کے سینے پر مارنے کی کوشش کی۔شیردل نے اضطراری طور پر پیچھے ہٹتے ہوئے اس کے وار کو خالی دیا۔
’’اب کوئی سوال نہیں۔‘‘اس نے شیردل کو وارننگ دیتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی اٹھاتے ہوئے کہا۔
وہ شیردل کو اس کمرے میں بند کر کے چھوڑ گئے اور شیردل دیوار کے سہارے بیٹھ کر اپنے خیالات میں کھو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جزیرہ خوش بخت کے قریب پہنچ چکے تھے۔اس ٹیم میں غازی،مجاہد اور تین کمانڈوز تھے۔انہوں نے فوراً ہی جزیرے پر اترنے کی کوشش نہیں کی۔غازی ایک گہری سوچ میں تھا۔اس کی نظریں جزیرے کے مختصر سے ڈاک کی طرف تھیں۔وہاں دو چھوٹی موٹر بوٹس اور ایک اسٹیمر بندھا ہوا تھا۔اچانک غازی کے ہونٹوں پر ایک شریر سی مسکراہٹ نے جنم لیا۔اس نے مسکراتے ہوئے مجاہد کے کان میں کچھ کہا تو مجاہد کے ہونٹوں پر آنے والی مسکراہٹ بے ساختہ تھی۔
’’میرا خیال ہے کہ اس نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔‘‘مجاہد نے غازی کا کندھا پکڑ کر زور سے دبایا۔
غازی نے اپنی ٹیم کے کمانڈوز سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی اس کی تجویز کو پسند کیا۔اگلے دو گھنٹے وہ سب بہت مصروف رہے۔اس وقت صبح کاذب کا وقت تھا۔اب جزیرے کے ساحل پہ کوئی موٹر بوٹ یا اسٹیمر نہیں تھا۔پچھلے دو گھنٹوں کی مصروفیت کے بعد وہ تھک گئے تھے۔انہوں نے موٹر بوٹس اور اسٹیمر کو گہرے سمندر میں جا کر چھوڑ دیا تھا۔اس کے بعد ان کی موٹر بوٹ واپس بندرگاہ کی طرف جا رہی تھی۔شاید ان کا آج کا کام ختم ہو گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے سامنے وہ ہی چاروں تھے۔وہ درختوں سے کود کر ان کے راستے میں آ گئے تھے۔ان کے ہاتھوں میں دبی گنز کا رخ کرنل فاتح اور ان کے ساتھیوں کی طرف تھا۔کسی نے بھی پہل کرنے کی کوشش نہیں کی۔
’’تم لوگ کون ہو اور ہمارا راستہ کیوں روکا ہے؟‘‘کرنل فاتح نے گفتگو میں پہل کی۔
’’اگر یہ ہی سوال میں تم سے کروں تو۔۔۔۔۔۔؟‘‘ان میں سے ایک جولمبے قد اور مضبوط جثہ کا مالک تھا،نے اپنے ساتھیوں سے ایک قدم آگے آتے ہوئے کہا۔وہ شاید ان کا سرغنہ تھا۔زبان اردو ہی استعمال کی گئی تھی۔
’’ضرور کرو۔کس نے روکا ہے البتہ یہ بات تو تم بھی جانتے ہو کہ راستہ ہم نے نہیں تم نے روکا ہے۔‘‘کرنل فاتح نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’نہ جانے مجھے کیوں ایسے لگتا ہے جیسے میں نے تمہاری آواز پہلے بھی سنی ہو۔‘‘سرغنہ اب ان کے مزید قریب آ گیا تھا۔
’’آواز میں کیا ہے؟کئی لوگوں کی آواز آپس میں ملتی ہے۔‘‘کرنل فاتح نے عام سے لہجے میں کہا۔
’’نہیں۔یہ عام سی آواز نہیں ہے۔تم کون ہو؟‘‘وہ اب ان سے صرف دو قدم کے فاصلے پر تھا۔
’’اگر میں پوچھوں کہ تم کون ہو تو پھر۔۔۔۔؟‘‘کرنل فاتح نے بال اس کے کورٹ میں ہی پھینک دی۔
’’اگر مجھے یقین ہو جائے کہ تم ہمارے دشمن نہیں ہو تو ہم دوستوں کی طرح سے بات کر سکتے ہیں۔‘‘
’’اور یہ یقین کیسے حاصل ہوگا؟‘‘
’’اگر تمہیں ناگوار نہ گزرے تو میں تمہارا چہرہ دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘یہ کہتے ہی اس نے ٹارچ روشن کر لی۔
’’مجھے کوئی اعتراض نہیں البتہ میں بھی ایسا ہی کرنا چاہوں گا۔‘‘کرنل فاتح کے پرسکون انداز نے اسے کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔
’’ٹھیک ہے۔پہلے تم میرا چہرہ دیکھ لو۔پھر تو مجھے تمہارا چہرہ دیکھنے کا حق ہو گا نا۔‘‘اس نے دوستانہ انداز میں ٹارچ کا رخ اپنے چہرے کی طرف کیا تو کرنل فاتح چونک اٹھے۔
’’اچھا تو تم استاد قاسم ہو؟‘‘انہوں نے دوستانہ انداز میں پوچھا۔
اب چونکنے کی باری اس کی تھی۔اس نے ٹارچ کا رخ تبدیل کیا اور بولا۔’’یہ چہرہ میں نے پہلے نہیں دیکھا مگر آواز۔۔۔۔‘‘
’’استاد قاسم! تم نے جو چہرہ دیکھ رکھا ہے وہ اس وقت تمہارے سامنے نہیں آ سکتا۔اگر میرے قریب آؤ تو میں تمہاری الجھن دور کر سکتا ہوں۔‘‘
وہ بغیر کسی ڈر اور خوف کے ان کے پاس چلا آیا تو انہوں نے سرگوشی کے انداز میں اسے اپنے بارے میں بتا دیا۔
’’ارے تو یہ آپ ہیں۔میرا اندازہ غلط نہیں تھا کہ یہ آواز میری سماعت سے پہلی بار نہیں ٹکرا رہی۔‘‘اس کے انداز میں اب احترام شامل ہوگیا تھا۔اس نے ان کا نام لینے کی کوشش نہیں کی تھی۔
’’دوستو! ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔یہ ہمارے بہت ہی قابلِ احترام دوست ہیں۔ہمیں اب اپنے ٹھکانے کا رخ کرنا چاہئے۔صبح ہونے میں زیادہ دیر نہیں۔‘‘وہ اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا اور کرنل فاتح اور ان کی ٹیم نے سکون کا سانس لیا تھا۔استاد قاسم کی بات کرنل فاتح نے مان لی تھی اور اب وہ استاد قاسم اور ان کے ساتھیوں کے قدموں کے نشانات پر چلتے ہوئے ان کے پیچھے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیردل کو اس چھوٹے سے کمرے میں بند دو گھنٹے گزر گئے تھے۔وہ دیکھ چکا تھا کہ کمرے سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ تھا۔دروازے کے علاوہ نکلنا ممکن ہی نہیں تھا۔دروازہ کسی مضبوط دھات سے بنا ہوا تھا اور آسانی سے نہیں ٹوٹ سکتا تھا۔
’’آخر یہاں کیا ہو رہا ہے؟‘‘
’’میجر گنپت راؤ نے یہاں کیوں ڈیرہ لگا رکھا ہے؟‘‘
’’ہمارے سکیورٹی کے ادارے کیا کر رہے ہیں؟‘‘
’’کیا ان کے علم میں نہیں ،یا وہ غداری کے مرتکب ہو رہے ہیںیا وہ اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتے ہوئے وطن کے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں؟‘‘
شیردل سوچ رہا تھا۔ایک نہ ٹوٹنے والے خیالات کا سلسلہ تھا۔اس کا دل اپنے وطن کے حالات دیکھ کر کڑھتا تھا۔وہ اور اس جیسے وطن کے سپاہی سروں پہ کفن باندھ کر تن من دھن سے مشکل حالات سے نبرو آزما تھے اور ہر ممکن طریقے سے دشمنوں کا راستہ روک رہے تھے۔کامیابی بھی ملتی تھی اور ناکامی کا مزہ بھی چکھنا پڑتا تھا۔
اچانک ایک خفیف سا کھٹکا ہوا تو شیردل کے کان کھڑے ہوئے۔اس کی سماعت بے حد حساس تھی۔وہ غور سے سننے کی کوشش کرنے لگا لیکن دوبارہ کوئی آواز سنائی نہ دی۔شیردل کے اعصاب تن گئے اور وہ فوراً ہی اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔اس کا انداز ایک چوکنا چیتے جیسا تھا۔وہ دھیرے دھیرے کمرے کے واحد دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔دروازے کے پاس رک کر وہ چوکنا انداز میں آس پاس کی سن گن لینے لگا۔وہاں ہر طرف تاریکی اور خاموشی کا راج تھا۔کسی قسم کی کوئی آواز نہیں تھی۔شیردل نے آہستگی سے دروازے کو دھکا دیا تو اس کی حیرت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔دروازہ کھلا ہوا تھا۔
’’کیا دروازہ پہلے سے کھلا ہوا تھا؟مگر میں نے پہلے چیک کیا تھا۔‘‘
’’تو کیا کسی نے میرے لئے دروازے کو ابھی کھولا ہے۔‘‘
’’یقیناًیہ ہی بات ہو گی۔وہ کھٹکا شاید دروازے کو خاموشی سے کھولنے کے نتیجے میں ہی پیدا ہوا تھا۔‘‘
شیردل اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ دروازہ کیسے کھلا اور کس نے کھولا؟
وہ سوچ رہا تھا کہ’’لگتا ہے کہ یہاں کوئی میرا نادیدہ خیرخواہ ہے۔وہ کون ہے؟ یہ شاید وقت ہی بتائے گا۔‘‘شیردل نے زیادہ سوچنے میں دیر نہیں لگائی۔دروازے سے باہر کی دنیا اس کے سامنے تھی۔وہ ایک کاریڈور میں کھڑا تھا۔ہلکی ہلکی مدھم سی روشنی میں وہ کاریڈور کے آخرتک دیکھ سکتا تھا۔وہ زیادہ طویل نہیں تھا۔وہ محتاط انداز میں آگے بڑھنے لگا۔کاریڈور میں کئی کمروں کے دروازے کھلتے تھے مگر اس وقت وہ بند تھے۔نہ جانے وہاں کوئی رہتا بھی تھا یانہیں۔اگر کوئی تھا تو یقینارات کے اس پہر سو رہا تھا۔شیردل کو ایک دروازہ دوسروں سے ممتاز لگا۔اس کا رنگ بھی مختلف تھا اور وہ سائز میں بھی بڑا تھا۔شیردل نے اس دروازے پہ ہاتھ رکھا تو جان لیا کہ دروازہ کھلا ہوا تھا۔اس نے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے احتیاط کا دامن تھامے رکھا تھا۔اس کے سامنے ایک بڑا سا کمرا تھا۔کمرے میں رکھی ہوئی چیزیں دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا تھا کہ وہ ایک سائنسی تجربہ گاہ تھی۔
’’کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘سوال سن کر شیردل نے اپنا رخ تبدیل کیا۔
اس کے سامنے ایک طویل القامت شخص کھڑا تھا۔اس کی عمر ساٹھ سال سے کم ہرگز نہ تھی۔اس کے سارے بال سفید ہو چکے تھے۔وہ اس وقت سونے کے کپڑوں میں ملبوس تھا اور اس نے ایک لمبا سا گاؤن بھی پہن رکھا تھا۔
’’اب اگر میرا جائزہ لے لیا ہو تو میرے سوال کا جواب بھی دے دو۔‘‘اس آدمی کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی۔
’’میں شیردل ہوں۔میرا مطلب ہے کہ میرا نام شیردل ہے اور آپ۔۔۔؟‘‘
’’میں حشام ہوں۔پروفیسر حشام۔‘‘ان کے انداز میں بے پرواہی تھی اور شیردل کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ پروفیسر حشام کو دیکھ رہا تھا جو کہ چھ ماہ سے ’’چین‘‘ میں تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ استاد قاسم اور اس کے ساتھیوں کے پیچھے پیچھے چلے جا رہے تھے۔استاد قاسم کی ہدایات کی روشنی میں وہ سب بے حد محتاط تھے۔کچھ دیر بعد وہ ایک پہاڑی کے پاس پہنچے تھے۔یہ وہ پہاڑی تھی جو انہوں نے جزیرے کا چکر لگاتے ہوئے مشرقی رخ پر دیکھی تھی۔پہاڑی اتنی چھوٹی بھی نہ تھی بلکہ قریب سے تو ایک چھوٹا موٹا پہاڑ ہی دکھائی دے رہی تھی۔پہاڑی پر جھاڑیوں اور چھوٹے درختوں کی بہتات تھی۔استاد قاسم کا ایک ساتھی ایک جھاڑی کے اندر گھس گیا۔تھوری دیر بعد وہ ایک تنگ سے راستے کے ذریعہ پہاڑی کے اندر داخل ہو رہے تھے۔وہ ایک چھوٹی سی سرنگ تھی جس میں ایک وقت میں دو سے زیادہ آدمیوں کے چلنے کی گنجائش نہیں تھی۔ پہاڑی میں داخل ہونے کا خفیہ راستہ بند ہو چکا تھا۔سرنگ میں روشنی کا کوئی انتظام نہیں تھا۔وہ ٹارچ کی روشنی میں آ گے بڑھ رہے تھے۔سفر زیادہ طویل نہیں تھا۔جیسے ہی سرنگ کا آخری سرا ان کے سامنے آیا تو وہ ایک بڑے سے غار نما کمرے میں کھڑے تھے۔وہاں قدرتی روشنی کی وجہ سے اندھیرا زیادہ نہیں تھا۔وہ یقیناًپہاڑی چٹانوں کی درزوں سے در آنے والی روشنی تھی۔سر پہ آسمان نظر نہیں آتا تھا۔قدرت نے ان کے تحفظ کا انتظام کر دیا تھا۔انہوں نے دو بیٹری سے چلنے والی لائٹس کے ذریعے وہاں معقول روشنی کا بندوبست کیا ہوا تھا۔
کرنل فاتح ،استاد قاسم کو کئی سالوں سے جانتے تھے۔یوں تو اس کا شمار انہی لوگوں میں کیا جا سکتا تھا جو اسمگلر کہلاتے ہیں۔وہ سونے کی اسمگلنگ میں ملوث تھا۔ایک جرائم پیشہ ہونے کے باوجود وہ اپنے وطن سے بے حد محبت کرتا تھا اور وطن کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیار رہتا تھا۔وہ منشیات فروشی کے سخت خلاف تھا اور منشیات کی اسمگلنگ کرنے والوں کا جانی دشمن تھا۔کرنل فاتح نے کئی سال پہلے اس حوالے سے اس سے کئی کام لئے تھے اور ایک بار اس کی جان بھی بچائی تھی۔تب سے وہ ان کا بے حد احترام کرتا تھا اور ان کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیار رہتا تھا۔دو سال سے وہ رابطہ میں نہیں تھے۔آج وہ ایک عجیب موڑ پر آن ملے تھے۔
’’ہاں بھئی قاسم!اب ذرا مجھے بتاؤ کہ یہ سب کیا ہے؟خاص طور پر یہ ٹھکانہ؟‘‘کرنل فاتح نے چائے کے کپ سے چسکی لیتے ہوئے پوچھا۔وہ سب اس وقت زمین پر بچھے گھاس کے بچھونوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔استاد قاسم کے ایک ساتھی نے ان کے لئے چائے بنائی تھی۔
’’سر!آپ سے میں کوئی بات نہیں چھپا سکتا اور آپ کے ساتھی۔۔۔۔‘‘اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’میرے ساتھیوں کی تم فکر نہ کرو۔یہ سب اپنے وطن سے محبت کرنے والے ہیں اور ہم سب اس وقت ایک اہم مہم پر ہیں۔‘‘کرنل فاتح نے اسے یقین دلایا۔
استاد قاسم نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہنا شروع کیا۔’’میرا آپ سے دوسال سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔اس دوران زندگی نے عجب کھیل دکھائے ہیں۔یہ جزیرہ سیٹھ عبدالمالک کی ملکیت ہے۔اسے یہ جزیرہ خریدے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔میں نے اسے خریدنے کی کوشش کی تھی مگر کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔میں اس کے اصل مالک تک نہیں پہنچ سکا تھا۔میری رسائی صرف اس اسٹیٹ ایجنسی تک ہی ہو سکی تھی جن کے پاس اس کی فروخت کا اختیار تھا۔مجھے یقین ہے کہ اس معاملے میں اس کی مدد بیرون ملک سے بھی کی گئی تھی۔وہی ہمارا پڑوسی جو ہمیشہ ہماری پیٹھ پر وار کرنے کے مواقع ڈھونڈتا رہتا ہے۔‘‘
’’یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟کیا اس بات کا کوئی ثبوت ہے؟‘‘کرنل فاتح نے اس سے پوچھا۔
’’ثبوت کی بات آپ نے خوب کہی۔‘‘وہ دھیرے سے مسکرایا تھا۔’’سیٹھ عبدالمالک کی اتنی اوقات ہی نہیں تھی کہ وہ یہ جزیرہ خرید سکتا۔وہ اس وقت ملک کے سب سے بڑے تین منشیات کے اسمگلروں میں سے ایک ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ پڑوسی ملک سے منشیات کے ساتھ ساتھ اسلحے کے انبار منگوائے جاتے ہیں۔ان کی اندرون ملک کے علاوہ خلیجی ممالک میں بھی بہت کھپت ہے۔وہ اس جزیرے کو اپنے ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کرر ہا ہے۔میں کچھ عرصے سے اس کے آدمیوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا ہوں تاکہ یہاں کا کنٹرول حاصل کر سکوں۔‘‘
’’تمہیں یہاں کا کنٹرول حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘کرنل فاتح نے ایک اہم سوال کیا۔
’’آپ کا سوال اپنی جگہ بے حد اہم ہے۔‘‘استاد قاسم نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔’’پہلے پہل تویہ ایک کاروباری رقابت کی وجہ سے تھا۔میں سیٹھ عبدالمالک کو نیچا دکھانا چاہتا تھا اور یہاں سے خلیجی ممالک تک آسان رسائی ممکن ہے۔بعد میں جب میں نے دیکھا کہ سیٹھ عبدالمالک دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے تو میں نے کوشش شروع کر دی کہ یہاں کا کنٹرول حاصل کر لوں تو بہتر ہے۔‘‘
’’تو کیا تم نے یہاں کا کنٹرول حاصل کر لیا؟‘‘کرنل فاتح بھی سنجیدہ تھے۔
’’نہیں ایسا نہیں ہے۔‘‘استاد قاسم کے لہجے میں افسردگی تھی۔’’میں کوشش کر رہا ہوں۔میں کیا اور میری حیثیت ہی کیا ہے ۔پھر بھی میں ملک کے دشمنوں کو اپنی بساط کے مطابق روکنے کی کوشش کرتا رہوں گا۔‘‘
’’بھئی کسی حد تک تو تم نے یہاں کنٹرول ضرور حاصل کر لیا ہے۔‘‘کرنل فاتح کے لہجے میں تحسین تھی۔’’دشمن کے گڑھ میں بیٹھ کر ایسا اڈا بنا لینا کوئی معمولی بات نہیں ۔‘‘
’’یہ اڈا یا پناہ گاہ ہم نے اتفاقاً ہی دریافت کر لی تھی البتہ ہم نے اسے انسانی استعمال کے قابل بنانے کے لئے بہت محنت کی ہے۔‘‘استاد قاسم ان کی تعریف سے خوش ہوتے ہوئے بولا۔
’’وہ تو نظر ہی آ رہا ہے۔‘‘کرنل فتح نے آس پاس نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔’’یقیناًتم لوگوں نے بہت محنت کی ہے۔اس محنت کا کچھ فائدہ بھی ہوا؟‘‘
’’فائدے سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘
’’کیا تم نے اپنا مقصد حاصل کیا؟کس حد تک پیش رفت ہوئی ہے؟‘‘
’’ہم اپنی کوششوں میں مصروف ہیں۔ہم جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دراصل یہاں ہو کیا رہا ہے؟یہاں پر پڑوسی ممالک کے لوگوں کی کافی آمد ہے۔میں نے یہاں پر ملک کے چند سیاست دانوں کو بھی آتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘استاد قاسم نے تفصیل بتائی۔
استاد قاسم کی باتیں سن کر کرنل فاتح کی پیشانی پہ بل پڑ گئے۔وہ فوراً ہی کچھ نہ بولے۔کچھ دیر تک سوچتے رہے پھر پوچھنے لگے۔’’تمہارے خیال میں یہاں کیا ہو رہا ہے؟‘‘
’’اس بات کا جواب مشکل ہے۔‘‘استاد قاسم نے اعتراف کیا۔’’منشیات اور سلحے کی اسمگلنگ تو ہو رہی ہے مگر میرا اپنا خیال ہے کہ وہ صرف ایک آڑ ہے۔یہاں پر کسی قسم کی ملک دشمن کارروائی ہو رہی ہے کیا؟ یہ میں نہیں جانتا۔جاننے کی کوشش کررہاہوں۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔اسمگلنگ کی آڑ میں ملک دشمنی کی جا رہی ہے اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک کے غدار ان کا کام آسان بنا رہے ہیں۔‘‘کرنل فاتح کے لہجے میں اپنے وطن سے محبت کا جذبہ بول رہا تھا۔
’’جی ہاں ایسا ہی ہے۔ہر شخص اپنے فائدے کا پہلے سوچتا ہے۔ملک کی کسی کو فکر نہیں۔‘‘استاد قاسم کی بات کے بعد وہاں خاموشی چھا گئی۔
’’اچھا یہ بتاؤ کہ تم نے اس جزیرے کے بارے میں کیا کیا معلومات حاصل کی ہیں؟‘‘کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کرنل فاتح نے پوچھا۔
’’جزیرہ زیادہ بڑا نہیں ہے۔’’استاد قاسم بتانے لگا۔’’البتہ ہے بے حد زرخیز۔درختوں کی بہتات ہے بلکہ کہیں کہیں تو درختوں کا جنگل اگا ہوا محسوس ہوتا ہے۔جزیرے پر دو اہم عمارتیں ہیں۔ایک کافی بڑی ہے اور دوسری ذرا چھوٹی ہے۔دوسری عمارت میں لوگوں کی آمد و رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔اس عمارت سے کبھی کبھار میں نے ایک سفید بالوں والے بوڑھے کو نکلتے ہوئے دیکھا ہے۔وہ تھوڑی سی چہل قدمی کے بعد واپس عمارت میں چلا جاتا ہے۔میں نے دن میں کبھی کسی کو اس کے پاس جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔رات میں کیا ہوتا ہے اس کا مجھے زیادہ علم نہیں۔‘‘
’’سفید بالوں والا بوڑھا؟‘‘ کرنل فاتح نے زیرِلب کہا۔’’تم نے پتہ چلانے کی کوشش نہیں کی کہ وہ کون ہے؟‘‘
’’کیا وہ ایک اہم شخص ہو سکتا ہے؟میں نے اصل میں اس پہ توجہ ہی نہیں دی۔‘‘استاد قاسم کے لہجے میں ہلکی سی شرمندگی تھی۔
’’ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔‘‘کرنل فاتح بولے۔’’اور دوسری بڑی عمارت کے بارے میں کوئی خاص بات پتہ چلی؟‘‘
’’میرے خیال میں دوسری عمارت ہی ان کا اصل ٹھکانہ یا ہیڈکوارٹر ہے۔وہاں دن بھر لوگوں کی آمد و رفت ہوتی رہتی ہے۔ان میں سے اکثر غیرملکی ہوتے ہیں۔رات کو عمارت کی حفاظت کے لئے محافظ نظر نہیں آتے۔عمارت کی دیواروں میں غالباً کرنٹ دوڑتا رہتا ہے۔میں اپنا ایک ساتھی گنوا چکا ہوں۔‘‘استاد قاسم نے تفصیل سے بتایا۔
’’یہ تو بڑے افسوس کی بات ہے۔تمہارے ساتھی کے ساتھ کیا ہوا تھا؟‘‘کرنل فاتح کے لہجے میں افسردگی تھی۔
’’وہ رات کو اس عمارت میں گھسنے کی کوشش کر رہا تھا۔ہمیں اگلے دن اس کی جلی ہوئی لاش ہی ملی تھی۔ہمیں تو یہ ہی لگا تھا کہ جیسے بجلی کا کرنٹ ہی اس کی موت کا ذمہ دار ہو۔‘‘استاد قاسم کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔
’’اس کے بعد یقیناًکسی نے عمارت میں دوبارہ داخل ہونے کی ہمت نہیں کی ہو گی۔‘‘کرنل فاتح نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔اس کے بعد ایسی کوئی کوشش ہماری جانب سے نہیں کی گئی۔‘‘استاد قاسم نے ٹھنڈا سانس بھرا۔
’’اور کوئی بات جو ہمارے لئے جاننا ضروری ہو؟‘‘کرنل فاتح اور استاد قاسم کے بیچ ہی مکالمہ چل رہا تھا اور دونوں طرف سے کسی نے بھی دخل دینے کی کوشش نہیں کی تھی۔
’’اچھا کیا کہ آپ نے یاد دلا دیا۔‘‘استاد قاسم نے اپنے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔’’یہاں جزیرے پہ افریقہ کے کسی قبیلہ کے نیم وحشی لوگ بھی بستے ہیں۔ان کے ساتھ ایسے کتے بھی ہیں جو اپنے رنگ روپ،جثہ اور صفات میں بھیڑئیے جیسے لگتے ہیں۔وہ لوگ پہاڑی سے قریب ہی چند جھونپڑوں میں رہتے ہیں جو افریقی انداز میں ہی تعمیر کئے گئے ہیں ۔‘‘
’’یہاں پر افریقہ کے لوگوں کا کیا کام؟‘‘کرنل فاتح نے حیرت ظاہر کی۔
’’ہمار ا ان سے ایک دو بار سامنا ہوا ہے اور یہاں شیر بھی پایا جاتا ہے۔‘‘استاد قاسم نے ان کی حیرت میں اضافہ کرتے ہوئے کہا۔
’’یہ جو تم ساری باتیں بتا رہے ہو ان کا آپس میں بھلا کیا تعلق بنتا ہے؟‘‘کرنل فاتح نے شاید یہ سوال خود سے کیا تھا۔کچھ دیر کے لئے خاموشی چھا گئی۔
’’میرا خیال ہے کہ یہ سب شاید لوگوں کو دھوکے میں ڈالنے کے لئے ہے۔‘‘مومن نے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیا۔
’’تمہاری بات میں وزن ہے۔‘‘کرنل فاتح نے اس کی طرف تعریفی انداز میں دیکھا۔
’’مگر ایسا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘استاد قاسم نے سوال کیا۔
’’یہ اہم سوال ہے۔‘‘کرنل فتح نے جواب دیا۔’’ہو سکتا ہے کہ وہ لوگوں کو جزیرے سے دور رکھنا چاہتے ہوں۔‘‘
’’آپ شاید ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں۔‘‘استاد قاسم نے سر ہلایا۔’’ہمارے علاوہ بھی کچھ گروپ کے لوگوں نے یہاں قدم جمانے کی کوشش کی مگر کامیابی کسی کو نہیں ہوئی۔‘‘
جواباً کوئی کچھ نہ بولا۔رات دھیرے دھیرے اپنا سفر طے کر رہی تھی۔وہ سب خاموش تھے۔کچھ لوگ اونگھ رہے تھے اور کچھ سو رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’آپ تو چین میں تھے؟‘‘شیردل کا انداز سوالیہ تھا۔
’’میں اب بھی چین میں ہی ہوں۔‘‘پروفیسر حشام کا انداز معنی خیز تھا۔
’’کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کن لوگوں کے لئے کام کر رہے ہیں؟‘‘شیردل نے سوال پوچھا۔
’’آخر ہم سب یہ سوال جواب کیوں کر رہے ہیں؟‘‘پروفیسر حشام اس کی طرف گھومتے ہوئے بولے۔’’میں یہ جاننا ضروری سمجھتا ہوں کہ تم کون ہو اور یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘
’’میرا نام تو آپ جانتے ہی ہیں کہ شیردل ہے اور میں۔۔۔۔۔‘‘شیردل نے انہیں جزیرے تک پہنچنے کا مختصر حال بتا دیا۔
پروفیسر حشام کی آنکھوں میں بے یقینی اور پریشانی کے رنگ گھلنے لگے تھے۔وہ بولے تو ان کا لہجہ دھیما اور اعتماد سے محروم تھا۔’’مجھے تمہاری باتوں پہ یقین نہیں آ رہا۔میں تو اپنے لوگوں کے لئے ہی کام ر ہا ہوں۔‘‘
’’آپ کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔آپ مجھے بتائیے کہ یہ سب کیسے شروع ہوا۔‘‘شیردل نے ہمدردی سے پوچھا۔
’’یہ سب کیسے شروع ہوا؟‘‘وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہے تھے۔’’انہی دنوں میرا ایک مضمون چھپا تھا۔مضمون دور مار میزائل کے حوالے سے تھا۔اس مضمون کی اشاعت کے بعد مجھ سے قومی سلامتی کے امور سے وابستہ کچھ انتہائی اہم لوگوں نے ملاقات کی۔ان میں ایک قومی وزیر بھی تھا۔‘‘انہوں نے لمحہ بھر کے لئے توقف کیا۔
’’وہ یقیناًبغدادی صاحب ہوں گے۔‘‘شیردل خود کو یہ کہنے سے باز نہ رہ سکا۔بغدادی صاحب کے پاس اس وقت ایک اہم قومی وزارت تھی۔
’’ہاں وہ بغدادی صاحب ہی تھے۔‘‘پروفیسر حشام کی آنکھوں میں پل بھر کے لئے حیرت نمودار ہوئی تھی۔’’بات چیت کا محور ایسے میزائل کی فوری تیاری تھی کیوں کہ ہمارے ہمسائے ملک کی فوجی تیاریوں سے کون واقف نہ ہو گا۔‘‘
’’تو آپ تیار ہو گئے؟‘‘
’’ہاں!مجھے ہونا ہی تھا۔میں نے پہلے بھی میزائل ٹیکنالوجی پہ کام کیا ہے۔البتہ یہ پروجیکٹ اس لحاظ سے اہم ہے کہ ایسا میزائل ہمارے دشمنوں کے پاس بھی نہیں ہے۔‘‘ان کے چہرے پہ کوئی بھی فخریہ علامت نہیں تھی۔
’’میزائل کی تیاری کہاں پر ہو رہی ہے؟‘‘شیردل نے پوچھا۔
یہیں پہ۔اسی جزیرے پہ۔‘‘ان کا جواب مختصر تھا۔
’’یہاں پہ۔اس جزیرے پہ۔‘‘شیردل ان کی بات سن کر حیران رہ گیا تھا۔
’’ہاں۔اس بڑی عمارت میں۔‘‘انہوں نے ہاتھ سے ایک طرف اشارہ کیا پھر خود ہی جھینپنے والے انداز میں ہاتھ نیچے کر لیا۔شیردل سمجھ گیا کہ ان کا اشارہ کس عمارت کی طرف ہے۔
’’آپ جانتے ہیں کہ آپ کی گمشدگی سے آپ کا ادارہ بہت پریشان ہے۔وہ آپ کو ڈھونڈرہے ہیں اور سب سے یہ ہی کہا گیا ہے کہ آپ اس وقت چین میں ہیں۔‘‘شیردل نے لفظوں کے انتخاب میں احتیاط کرتے ہوئے کہا۔
’’میں یہ کیسے مان لوں کہ میں دشمنوں کے ہاتھ میں کھیل رہا ہوں اور اس جزیرے پر کوئی بے حد پراسرار کارروائی ہو رہی ہے؟‘‘انہوں نے بے چینی سے ٹہلتے ہوئے کہا۔
’’حالات آپ کے سامنے ہیں۔کیا آپ نے پچھلے چھ ماہ میں کبھی بھی اپنے گھر والوں سے بات کی ہے؟‘‘شیردل کے سوال نے لمحہ بھر کے لئے تو انہیں خاموش کر دیا۔
’’نہیں۔‘‘انہوں نے اعتراف کیا۔’’مجھ سے کہا گیا تھا کہ یہ پروجیکٹ ملک کے لئے اتنا زیادہ اہم ہے کہ اس دوران میں کسی سے بھی رابطہ نہیں رکھوں گا۔‘‘
’’آپ کے ادارے کے سربراہ سے بھی؟‘‘شیردل کا انداز سوالیہ تھا۔
’’ہاں!اس سے بھی۔‘‘
’’کیا یہ بات ماننے والی ہے؟‘‘
’’اب تمہاری بات سن کر خیال آ رہا ہے کہ اس وقت میں نے کوئی بھی سوال نہیں کیا تھا اور یہ بات یقیناعجیب تھی۔‘‘وہ یاد کرتے ہوئے بولے۔
’’انہوں نے بہت ہی عیاری سے آپ پر وار کیا۔آپ کی ملک سے محبت اور حب الوطنی کو نہایت ہی منفی انداز میں استعمال کیا۔‘‘شیردل کا تجزیہ سن کر وہ چپ کہ چپ رہ گئے۔
’’میزائل کا کام کہاں تک پہنچا ہے؟‘‘شیردل نے دھڑکتے دل کے ساتھ سوال کیا۔
’’تقریباً مکمل ہے بس میری ڈائری آنے کی دیر ہے اور پھر۔۔۔۔۔‘‘انہوں نے جملہ مکمل نہیں کیا۔
’’ڈائری میں ایسا کیا ہے؟‘‘
’’یہ میں نہیں بتا سکتا اور اب جب کہ معاملہ بے حد مشکوک ہو چکا ہے تو میں اس بات کو راز میں ہی رکھنا چاہوں گا۔‘‘ان کا مضبوط لہجہ شیردل کے دل کو بھا گیا۔
’’آپ نے ٹھیک کہا۔ان حالات میں توآپ کو بے حد محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔‘‘شیردل نے ان سے اتفاق کیا۔بات ابھی یہاں تک ہی پہنچی تھی کہ باہر کاریڈور میں قریب آتے ہوئے قدموں کی آواز نے انہیں مضطرب کر دیا۔
’’تم کہیں چھپ جاؤ۔تمہیں ان کے سامنے نہیں آنا چاہئے۔‘‘وہ شیردل کے چھپنے کی جگہ ڈھونڈنے لگے۔
’’آپ میری فکر نہ کریں ۔میں چھپنے کی جگہ تلاش کر لوں گا۔آپ نے کسی قسم کی گھبراہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا۔‘‘شیردل نے سرگوشی کی۔وہ پیچھا ہٹا اور ایک بھاری پردے کے پیچھے چھپ گیا۔چھپنے کے لئے کوئی بہتر جگہ ڈھونڈنے کا وقت ہی نہیں تھا۔شیردل ایک معمولی سے جھری سے باہر دیکھ سکتا تھا۔
آنے والوں کو دیکھ کر وہ بالکل حیران نہیں ہوا۔وہ میجر گنپت راؤ،شہباز خان اور بغدادی صاحب تھے۔میجر گنپت راؤ کا حلیہ بدلا ہوا تھا۔وہ اس وقت ایک اعلیٰ فوجی افسر کے روپ میں تھا۔
’’آپ کیسے ہیں پروفیسر؟‘‘بغدادی صاحب نے گفتگو کا آغاز کیا۔
’’آپ کے سامنے ہوں۔مجھے کیا ہونا ہے۔‘‘ان کے جواب میں تلخی کا پہلو تھا۔
’’کیا بات ہے۔آپ آج کچھ اکھڑے اکھڑے سے ہیں؟‘‘میجر گنپت راؤ کی آواز بالکل بدلی ہوئی تھی۔
’’مجھے یہاں چھ ماہ سے زیادہ ہو گئے ہیں۔میں اب یہاں سے جانا چاہتا ہوں۔میں اپنے گھر والوں سے ملنا چاہتا ہوں۔ ‘‘ان کی بات سن کر آنے والوں کی پیشانیاں شکن آلود ہو چکی تھیں۔
’’پروفیسر!آپ خود اس پروجیکٹ کی اہمیت سے واقف ہیں۔آپ نے خود ہی ساری شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے اس پروجیکٹ کا حصہ بننا پسند کیا تھا۔‘‘بغدادی صاحب نے اپنے لہجے کو نرم ہی رکھا۔
’’وہ تو ٹھیک ہے مگر اب میں تھک گیا ہوں۔‘‘ان کے لہجے کی بیزاری کو سب نے محسوس کر لیا تھا۔
’’اچھا !کچھ کرتے ہیں۔آپ پریشان نہ ہوں۔‘‘میجر گنپت راؤ نے انہیں تسلی دینے کی کوشش کی۔
’’میری ڈائری کا کچھ پتہ چلا؟‘‘
’’آپ کی ڈائری۔۔۔؟‘‘بغدادی صاحب نے لمحہ بھر کا توقف کیا اور پھر بولے۔’’ہم اسے ڈھونڈ رہے ہیں۔جلد ہی مل جائے گئی۔‘‘
’’آپ جانتے ہی ہیں کہ ڈائری کے بغیر کام مکمل نہیں ہو گا۔‘‘ان کی بات سن کر میجر گنپت راؤ کے چہرے پہ طیش کے آثار نمودار ہوئے مگر بغدادی صاحب نے آہستہ سے اس کا ہاتھ دبا دیا۔
’’آپ کوشش تو کریں۔اب بس ہلکی سی آنچ کی کسر رہ گئی ہے۔‘‘بغدادی صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’جی ہاں!آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ہلکی سی آنچ۔۔۔۔۔۔۔‘‘ان کا جملہ ادھورا رہ گیا۔دور کہیں زوردار دھماکے ہوئے تھے کہ ان کی شدت سے عمارت کی کھڑکیاں اور دروازے زور زور سے بجنے لگے تھے۔میجر گنپت راؤ اور بغدادی صاحب کے قدم اکھڑ گئے تھے۔شہباز خان نے گرتے ہوئے پروفیسر حشام کو تھام لیا تھا۔شیردل پیچھے کی طرف گرا تھا۔اس نے بروقت اپنے سر کو دیوار سے ٹکرانے سے بچا لیا تھا۔اس دوران بھی اسے اتنا احساس تھا کہ اس کا وجود پردے کے پیچھے چھپا رہے۔
نہ جانے کتنا وقت گزر گیا تھا۔سب کے چہروں پہ بدحواسی اور پریشانی کی تحریر آسانی سے پڑھی جا سکتی تھی۔
’’نہ جانے کیا ہوا ہے؟ہمیں جا کر دیکھنا ہو گا۔‘‘میجر گنپت راؤ اس وقت کمرے میں ٹہل رہا تھا اور اس کا رخ اس بڑے پردے کی طرف تھا جس کے پیچھے شیردل موجود تھا۔اس نے پردے پہ ہاتھ رکھا اور۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح،ان کے ساتھی،استاد قاسم اور اس کے ساتھی سب ہی دھماکوں کی آواز سے جاگ گئے تھے۔دھماکوں کی گونج سے وہ غار نما کمرہ ابھی بھی گونج رہا تھا۔
’’یہ۔۔یہ۔۔۔کیا ۔۔۔۔تھا؟‘‘استاد قاسم کے ایک ساتھی نے پوچھا تھا۔
’’لگتا ہے کہ حارث اور اس کے ساتھیوں نے کام دکھا دیا ہے۔‘‘استاد قاسم نے سنجیدگی سے کہا۔
’’حارث یقیناکو ئی تمہارا ساتھی ہو گا؟‘‘کرنل فاتح نے خیال ظاہر کیا۔
’’آپ کا خیال صحیح ہے۔‘‘استاد قاسم نے ان کی بات کی تصدیق کی۔’’حارث نے پروگرام کے مطابق آج ان کا ساحل پہ لنگر انداز اسٹیمر اور دوسری بوٹس کو تباہ کرنا تھا مگر۔۔۔۔۔‘‘
’’مگر۔۔۔۔۔‘‘کرنل فاتح نے اس کی طرف دیکھا۔
’’دھماکوں کی شدت سے پتہ چل رہا ہے کہ دھماکے کہیں دور ہوئے ہیں۔اگر دھماکے یہاں قریب ہی ساحل پر ہوتے تو ان کی شدت کہیں زیادہ ہوتی۔‘‘استاد قاسم نے بتایا تو کرنل فاتح دھیرے دھیرے گردن ہلانے لگے جیسے اس کی بات سے متفق ہوں۔
’’استاد!اب کیا کرنا ہے؟ استاد قاسم کے ایک ساتھی نے پوچھا۔
’’ابھی تو ہمیں کچھ بھی نہیں کرنا۔جب تک باہر کے حالات کی ہمیں صحیح خبر نہیں مل جاتی،ہمیں اسی جگہ قیام کرنا ہے۔‘‘استاد قاسم نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’باہر کے حالات کی خبر تم تک کیسے پہنچتی ہے؟‘‘کرنل فاتح جانتے تھے کہ اس جگہ پر سیل فون کے سگنلز نہ ہونے کے برابر تھے۔
استاد قاسم نے ان کے سوال کا عملی جواب دیا۔اس کے ہاتھ میں ایک عجیب و غریب ساخت کا آلہ تھا۔وہ شاید ٹرانسمیٹرتھا۔تھوڑی دیر بعد ہی وہ کسی سے کوڈ ورڈز میں بات کرر ہا تھا۔
وہ سب استاد قاسم کی طرف دیکھ رہے تھے۔وہ ان سب سے بے نیاز اپنی گفتگو میں مصروف تھا اور و ہ دوسری طرف سے کہی گئی بات بہت غور سے سن رہا تھا۔گفتگو سے فارغ ہوتے ہی وہ کہنے لگا۔’’ایک عجیب بات کا پتہ چلا ہے۔‘‘
’’عجیب بات۔وہ کیا استاد؟‘‘استاد قاسم کے ایک ساتھی سے رہا نہ گیا اور اس نے پوچھ لیا۔
’’نواز اور اس کے ساتھیوں کو اسٹیمر اور بوٹس سمندر کے بیچ تیرتی ہوئی ملی تھیں۔بہرحال انہوں نے پلان کے مطابق انہیں تباہ کر دیا۔‘‘وہ اپنے ساتھیوں کا ذ کر کررہا تھا۔
’’اس میں عجیب بات کیا ہے؟‘‘استاد قاسم کے ساتھی نے پھر پوچھا۔
استاد قاسم اپنے ساتھی کو گھورتے ہوئے بولا۔’’نواز لوگوں کو اسٹیمر اور بوٹس جزیرے پر آ کر تباہ کرنی تھیں۔وہ انہیں بیچ سمندر میں تیرتی ہوئی ملیں۔کیا یہ عجیب بات نہیں ہے؟‘‘
’’یہ عجیب بات نہیں ہے۔‘‘کرنل فاتح مسکرائے۔’’میں جانتا ہوں کہ یہ کیسے ہوا ہو گا؟‘‘
’’آپ کیسے جانتے ہیں؟‘‘استاد قاسم حیرت سے انہیں دیکھ رہا تھا۔
’’آپ اسے نہیں جانتے جس نے یہ کیا ہو گا۔‘‘کرنل فاتح ،غازی کا سوچتے ہوئے مسکرا رہے تھے۔’’یہ یقیناًمیرے بھتیجے غازی کی کارستانی ہے۔اس نے شرارتاً ایسا کیا ہو گا البتہ مقصد دشمن کو اس کے سفری ذرائع سے محروم کرنا ہی رہا ہو گا۔‘‘
کرنل فاتح نے مختصراً استاد قاسم کو غازی اور دوسری ٹیم کے بارے میں بتایا تو وہ یوں سر ہلانے لگا جیسے ساری بات سمجھ گیا ہو۔
’’سر!اب آگے کا کیا ارادہ ہے؟‘‘استاد قاسم نے بڑے احترام سے پوچھا۔
’’ارادہ۔۔۔‘‘کرنل فاتح ہلکے سے کھنکھارتے ہوئے بولے۔’’حالات کا جائزہ لے کر ہی کوئی پلان بنایا جاسکتا ہے۔موجودہ حالات میں تم کیا کرتے؟‘‘
’’میرا ارادہ تھا کہ سب سے پہلے’’افریقی قبیلہ‘‘ سے نمٹا جائے۔‘‘
’’اس سلسلے میں تم نے کوئی پلان بنا رکھا ہے کیا؟‘‘
’’جی پلان تو ہے۔اب اگر آپ کی اجازت مل جائے تو ہم اپنے پلان پر عمل کر سکتے ہیں۔‘‘استاد قاسم کا انداز مودبانہ تھا۔
کرنل فاتح کے کہنے پر اس نے سرگوشیوں میں اپنا پلان انہیں بتایا۔جواباً کرنل فاتح نے سر ہلایا جیسے انہیں اس کے پلان ے مکمل اتفاق ہو۔
کچھ دیر تک وہ دونوں سر جوڑے مشورہ کرتے رہے اور پھر کسی ایک بات پہ دونوں متفق ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میجر گنپت راؤ کا ہاتھ پردے پر تھا کہ ایک اور دھماکے کی آواز سن کر وہ پلٹ پڑا۔پروفیسر حشام کا پاؤں پھسل گیا تھا۔وہ زمین پر گرے ہوئے تھے اور شہباز خان انہیں اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا۔میجر گنپت راؤ تیزی سے ان کی طرف بڑھا۔اس کے پہنچنے تک پروفیسر حشام اٹھ چکے تھے۔انہوں نے ایک ہاتھ اپنی کمر پہ رکھا ہوا تھا۔
’’کیا زیادہ ہی چوٹ لگ گئی ہے؟‘‘میجر گنپت راؤ ہمدردی سے پوچھ رہا تھا۔
’’ہاں۔بس وہ۔۔۔اعصاب کچھ قابو میں نہیں ہیں۔شاید ان دھماکوں کا اثر ابھی تک ذہن پر ہے۔‘‘پروفیسر حشام لنگڑا رہے تھے۔شہباز خان نے سہارا دے کر انہیں ایک کرسی پہ بٹھا دیا تھا۔
’’دھماکہ۔۔۔بلکہ دھماکے۔۔۔۔یہ کیسے دھماکے تھے؟‘‘بغدادی صاحب نے میجر گنپت راؤ کی طرف رخ کرتے ہوئے پوچھا تھا۔ان کے چہرے پہ اب بھی ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
’’میں بھی آپ ہی کی طرح لاعلم ہوں۔پتہ چلانا پڑے گا کہ آخر ہوا کیا ہے؟‘‘میجر گنپت راؤ نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔
’’تو پھر چلو۔پروفیسر صاحب سے بعد میں بات کریں گے۔‘‘بغدادی صاحب کی بے تابی کو محسوس کر کے میجر گنپت راؤ نے باہر کی طرف قدم بڑھا دئیے۔
ان کے جانے کے بعد شیردل نے کچھ دیر پردے کے پیچھے ہی خود کو چھپائے رکھا۔پروفیسر حشام سے ’’سب ٹھیک ہے‘‘ کا سگنل ملنے کے بعد ہی وہ پردے سے باہر آیا۔
’’میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔اگر آپ اس وقت اچانک نہ گرے ہوتے تو انہوں نے مجھے دوبارہ پکڑ لینا تھا۔‘‘شیردل نے کہا۔
’’تو پھر کرو۔۔۔‘‘
’’کیا۔۔۔؟‘‘
’’شکریہ ادا کرو۔بھلا کیسے کرو گے؟‘‘پروفیسر حشام موجودہ صورت حال کا مزہ لیتے ہوئے بولے۔
شیردل کو ان کے انداز پہ ہنسی آ گئی۔’’ایسے۔۔۔‘‘یہ کہہ کر وہ انہیں جھک کر سلام کرنے لگا۔پروفیسر حشام بھی ہنسنے لگے۔
’’آپ کے خیال میں یہ دھماکے کیسے تھے؟‘‘وہ ان کے پاس ہی بیٹھتے ہوئے بولا۔
’’یہ دھماکے۔۔۔۔؟کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔بغدادی صاحب کے کسی دشمن کی کارروائی ہو گی۔‘‘وہ اب سنجیدہ تھے۔
’’تو کیا یہاں بغدادی صاحب کے دشمن بھی ہیں؟‘‘شیردل نے چونکتے ہوئے سوال کیا۔
’’کس کے نہیں ہوتے۔‘‘پروفیسر حشام نے اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا۔’’بغدادی صاحب کا کہنا ہے کہ کچھ ملک دشمن لوگوں کو ہمارے کام کی بھنک پڑ گئی ہے۔اس لئے بے حد محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔اسی لئے مجھے زیادہ کہیں باہر نکلنے نہیں دیا جاتا۔‘‘
’’ایک بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ میزائل سازی کا کام تو انتہائی خفیہ رکھا جاتا ہے اور اس کی حفاظت کا بھی خاطر خواہ انتظام کیا جاتا ہے۔اس جزیرے پر اس کام کی کیا ضرورت تھی؟‘‘شیردل کو ایک سوال کافی دیر سے پریشان کر رہا تھا اس لئے وہ اسے زبان پہ لے آیا تھا۔
’’بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔میں نے ایسے نہیں سوچا تھا۔‘‘پروفیسر حشام آہستہ آہستہ ٹہلتے ہوئے بول رہے تھے۔’’اس سے پہلے میں نے جتنے بھی پروجیکٹس پہ کام کیا ہے وہ بے حد خفیہ تھے اور عام آدمی کا وہاں تک پہنچنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔‘‘
’’یہ ہی بات مجھے پریشان کر رہی ہے کہ اتنے اہم کام کے لئے یہ جزیرہ کوئی اچھا انتخاب نہیں ہے۔‘‘شیردل کا انداز الجھن آمیز تھا۔
’’میں حیران ہوں کہ مجھے اس بات کا پہلے خیال کیوں نہیں آیا۔‘‘پروفیسر حشام کی چوڑی پیشانی پہ شکنیں نمودار ہو گئی تھیں۔’’تم شاید ٹھیک کہتے ہو یہاں پر کوئی اور ہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔‘‘
’’اب آپ نے کیا سوچا ہے؟‘‘شیردل نے پوچھا۔
’’ابھی کوئی بات۔۔۔۔۔ارے یہ کیا ہے؟‘‘پروفیسر حشام نے چونکتے ہوئے کہا۔ان کے ہاتھوں پہ ایک چھوٹی سی نیلے رنگ کی یو ایس بی تھی۔وہ شاید انہوں نے اپنی جیب سے نکالی تھی۔
’’شاید یہ آپ کی نہیں ہے؟‘‘شیردل نے خیال ظاہر کیا۔
’’شاید نہیں یقینا۔یہ میری نہیں ہے ۔یہ میری جیب میں کیسے آئی؟‘‘ان کے چہرے پہ پریشانی کے آثار دیکھے جا سکتے تھے۔
’’آپ یہ مت دیکھئے کہ یہ کہاں سے آئی ؟سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اس میں ہے کیا؟دیکھنے سے شاید یہ بھی پتہ چل جائے کہ اس کا آپ کی جیب میں ہونے کا آخر مقصد کیا تھا؟‘‘شیردل کا مشورہ انہیں پسند آیا۔
سب سے پہلے تو انہوں نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور پھر اس یو ایس بی کو اپنے لیپ ٹاپ کے ساتھ اٹیچ کیا۔تھوڑی دیر بعد ایک عجیب منظر ان کے سامنے تھا۔حیرت سے ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کسی نے اسٹیمر اور دونوں موٹر بوٹس کو تباہ کر دیا۔‘‘نارمن زبسکی کا انداز اطلاع دینے جیسا تھا۔
’’اوہ۔تو وہ دھماکے اس سلسلے میں ہوئے تھے۔‘‘میجر گنپت راؤ نے حیرت سے اپنے باریک ہونٹ سکوڑے۔وہ سب واپس بڑی عمارت میں آ گئے تھے۔نارمن زبسکی وہاں پہلے سے موجود تھا۔
’’پتہ چلا کہ یہ کس کا کام تھا؟‘‘بغدادی صاحب نے ایک گندی گالی دیتے ہوئے پوچھا۔
ابھی تو نہیں لیکن جلد ہی پتہ چل جائے گا۔‘‘نارمن زبسکی نے بے پرواہی سے جواب دیا۔
’’میں تو ان خبیثوں کو زندہ جلا دوں گا۔’’میجر گنپت راؤ نے اپنی بھرپور نفرت کا اظہار کیا۔
’’اگر ملے تو ضرور جلا دینا۔‘‘نارمن زبسکی کی بات کو طنز سمجھتے ہوئے میجر گنپت راؤ غصہ میں آ گیا۔کہنے لگا۔’’تمہارا اس بات سے کیا مطلب ہے؟‘‘
’’کوئی مطلب نہیں۔میں نے بس ایک بات ہی کی تھی۔’’نارمن زبسکی نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔
’’تم نے مجھ پہ طنز کیا تھا اور میں کسی کا بھی طنز برداشت نہیں کرتا۔‘‘میجر گنپت راؤ کا انداز یکایک خوفناک ہو گیا تھا۔
’’تو تم کیا کرو گے؟‘‘نارمن زبسکی بڑی پھرتی کے ساتھ اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے بولا۔
’’ارے۔۔۔ارے۔۔۔۔یہ تم لوگ کیا کر رہے ہو؟دماغ کو ٹھنڈا رکھو۔‘‘بغدادی صاحب نے دونوں کے بیچ میں آتے ہوئے کہا۔
انہوں نے جلد ہی دونوں کے درمیان بیچ بچاؤ کروا دیا۔میجر گنپت راؤ کے چہرے پہ بدمزگی کے آثار بڑے واضح تھے۔
’’یہ وقت آپس میں لڑنے کا نہیں ہے۔ہمیں اپنا مشن پورا کرنا ہے اور جلد سے جلد اس حوالے سے ضروری کام مکمل کرنے ہیں۔‘‘بغدادی صاحب نے دونوں کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’مجھے تمہارے پروجیکٹ سے کچھ نہیں لینا دینا۔میں پروفیشنل ہوں بس اپنا کام کرتا ہوں۔جیسے ہی پروجیکٹ ختم ہوا تو میں تمہیں پہچاننے سے بھی انکار کر دوں گا۔‘‘نارمن زبسکی کا غصہ بھی ابھی تک ختم نہیں ہوا تھا۔
نارمن زبسکی کی بات نے سب کو حیران کر دیا تھا۔کچھ دیر تک تو کوئی بول ہی نہ سکا۔
’’اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ تم ہمیں دھوکا نہیں دو گے؟‘‘میجر گنپت راؤ تو ویسے ہی خار کھائے بیٹھا تھا۔وہ چپ نہ رہ سکا۔
’’میں نے کبھی کسی سے دھوکا نہیں کیا۔اپنا کام ہمیشہ ذمہ داری سے کیا ہے البتہ اگر میرے ساتھ دھوکا ہو تو پھر میں کبھی بھی معاف نہیں کرتا۔‘‘نارمن زبسکی کا لہجہ دل دہلا دینے والا تھا۔
’’ارے بھائی یہ تم لوگ کیسی باتیں لے بیٹھے ہو۔ہم سب کو مل کرکام کرنا ہے صرف کام۔‘‘بغدادی صاحب نے حالات کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی۔’’کرنل کے بیٹے کے سلسلے میں کیا ہو رہا ہے؟‘‘
نارمن زبسکی نے جواب میں کمرے میں موجود ایک بڑی اسکرین پر نظر ڈالی۔وہاں ایک پورا کنٹرول سسٹم تھا۔اس نے کئی بٹن دبائے۔اب اسکرین پر ایک تہہ خانہ کا منظر تھا۔تہہ خانہ تاریک تھا۔یکایک نیلی روشنی سے تہہ خانہ جگمگانے لگا۔
’’ارے! وہ کہاں گیا؟‘‘نارمن زبسکی نے کنٹرول سسٹم کے کئی بٹن دبائے۔پورا تہہ خانہ اسکرین پہ نظر آ رہا تھا۔
’’لگتا ہے کہ کرنل کا سپتر کہیں اڑن چھو ہو گیا ہے۔‘‘میجر گنپت راؤ کا لہجہ طنز بھرا تھا۔
’’یہ تمہارا ہی سیٹ کیا ہوا سسٹم ہے۔اگر وہ اڑن چھو ہو گیا ہے تو یہ بھی تمہارے ہی لوگوں کی غفلت کی وجہ سے ہوا ہے۔‘‘نارمن زبسکی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
’’ارے تم پھر لڑنے لگے۔‘‘بغدادی صاحب نے اپنا سر پیٹ لیا۔’’کچھ اس لونڈے کا کرو۔اس کا فرار خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘
’’شہباز خان! تم کچھ گارڈز لے کر اس کی تلاش میں نکلو۔وہ ہمیں ہر قیمت پہ چاہئے۔‘‘میجر گنپت راؤ نے شہباز خان کو حکم دیتے ہوئے کہا۔
’’جی سر! میں فوراً ہی روانہ ہو رہا ہوں۔‘‘شہباز خان کے جانے کے بعد کمرے میں خاموشی سے چھا گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استاد قاسم نے کرنل فاتح کے ساتھ مل کر کچھ ایسی حکمت عملی اختیار کی تھی کہ ’’افریقی قبیلہ‘‘ ان کے آگے نہ ٹک سکا۔وہ ابھی سو رہے تھے کہ انہیں اس افتاد سے واسطہ پڑ گیا۔سب کو باندھ لیا گیا۔ان کے تین لیڈر بھی پکڑے گئے تھے جو انہیں برے نتائج کی دھمکیاں دے رہے تھے۔سب کو خاموشی سے پہاڑی کے خفیہ راستے سے اندر لے جایا گیا۔استاد قاسم نے جب ذرا سختی کی تو ’’افریقی قبیلہ‘‘کی پول کھل گئی۔ان سب کا تعلق ایسے علاقے سے تھا جہاں مکرانی یا بلوچی بولی جاتی تھی۔انہیں ماہانہ تنخواہ ملتی تھی اور یہ سلسلہ پچھلے چند ماہ سے چل رہا تھا۔ان کا کام تمام ناپسندیدہ لوگوں کو جزیرے سے دور رکھنا اور خصوصاً دونوں عمارتوں کے قریب نہ آنے دینا تھا۔انہیں سے پتہ چلا کہ شیر کی آواز ایک خاص قسم کے میکینزم کی مرہونِ منت تھی۔بڑے سائز کے کتے بھی ان تک پہنچائے گئے تھے۔زمین کی زلزلے جیسی گڑگڑاہٹ بھی کسی خاص میکینزم کی بدولت تھی۔کرنل فاتح اب تک کی کارروائی سے بہت مطمئن تھے۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ استاد قاسم اور چند مخصوص لوگوں کے ساتھ اپنی خفیہ پناہ گاہ سے نکل رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر حشام کا لہو جیسے رگوں میں جم گیا تھا۔وہ ان کے بڑے بیٹے بابر کی ویڈیو تھی۔جس میں اسے بندھا ہوا دکھایا گیا تھا اور وہ ان سے اپیل کر رہا تھا کہ ’’ان‘‘ کی بات مان لی جائے ورنہ نتائج کی ذمہ داری ان پر ہو گی۔‘‘
’’حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ وہ یو ایس بی آپ کی جیب میں کیسے آئی؟‘‘شیردل نے ان کی توجہ ویڈیو سے ہٹانے کے لئے کہا۔
’’ابھی ایک گھنٹے پہلے تک وہ میری جیب میں نہیں تھی کیونکہ پہلے میں نے کچھ ڈھونڈنے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تھا۔‘‘پروفیسر حشام اب اپنی بوکھلاہٹ پہ قابو پا چکے تھے۔
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جان بوجھ کر آپ کی جیب میں ڈالی گئی اور یہ کام شہباز خان کا ہی ہو سکتا ہے۔‘‘شیردل نے پرسوچ انداز میں کہا۔
’’کیا تم شہباز خان کو جانتے ہو؟اسے ایسا کر نے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘پروفیسر حشام نے حیرانی ظاہر کی۔
’’جی ہاں میں اسے جانتا ہوں۔‘‘شیردل کا جواب تھا۔’’میرا خیال ہے کہ اس ویڈیو کے ذریعے وہ آپ کو پہلے سے آگاہ کر دینا چاہتا تھا کہ آپ کو کسی مقام پہ یہ ویڈیو دکھا کر مجبور کیا جائے گا کہ آپ ان کی بات مان لیں۔‘‘
’’تمہاری بات میں بہت وزن ہے۔‘‘انہوں نے شیردل کے تجزیہ کو سراہتے ہوئے کہا۔
’’میرا خیال ہے کہ جب آپ گرے تھے تو اسی وقت اس نے سب کی نظر بچا کر وہ یو ایس بی آپ کی جیب میں منتقل کی ہو گی۔‘‘شیردل کی یہ بات بھی دل کو لگتی تھی اور پروفیسر حشام نے اس کی تائید کی تھی۔
’’تمہارا خیال ہی درست معلوم ہوتا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ مجھے جلد ہی ان کا کسی ناگوار مطالبہ کو سننے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔‘‘
’’ہونا تو ایسے ہی چاہئے۔‘‘شیردل نے ان کے خیال کی تائید کی۔
’’ایک بات وہ نہیں جانتے کہ میرے بغیر یہ میزائل نہیں بن سکتا۔‘‘پروفیسرحشام کا لہجہ مضبوط تھا۔
’’آپ کی بات ٹھیک ہے مگر مجھے شک ہے کہ انہوں نے متبادل انتظام ضرور کیا ہو گا۔‘‘شیردل کی بات سن کر وہ حیران ہو گئے۔
’’متبادل انتظام؟ وہ بھلا کیا ہو سکتا ہے؟‘‘پروفیسر حشام منہ ہی منہ میں بڑبڑا کر رہ گئے تھے۔
’’ہو سکتا ہے کہ انہوں نے کسی متبادل انتظام کے طور پہ اپنے سائنس دانوں کو بھی میزائل سازی میں لگا رکھا ہو۔‘‘شیردل نے وضاحت کی۔’’میرا مطلب اس موجودہ پروجیکٹ سے ہے۔‘‘
’’تمہاری بات سن کر مجھے یاد آیا کہ ابھی حال ہی میں انہوں نے مجھے تین دن کی ’’چھٹی‘‘دی تھی کہ میں آرام کروں۔‘‘پروفیسر حشام بولے۔
’’آپ کی اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے اپنے سائنس دان بھی اس پروجیکٹ میں کام کر رہے ہیں اور کون جانے کہ وہ اپنے طور پر اسے مکمل کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔‘‘شیردل نے کہا۔
’’ایسا ہو سکتا ہے مگر ایسا کرنا آسان نہیں ہے۔‘‘پروفیسر حشام نے اصرار کیا۔’’ایک خاص کوڈ کے بغیر تو میں خود بھی اب اس پہ کام نہیں کر سکتا۔‘‘
’’ہمیں جلد ہی اس بات کا پتہ چل جائے گا۔‘‘شیردل بولا۔’’ ان کی کوشش ہو گی کہ پروجیکٹ آپ ہی مکمل کریں۔اگر ایسا نہ ہوا تو پھر آپ ان کا اصل روپ دیکھ سکیں گے۔پھر وہ آپ کو بابر والی ویڈیو دکھا کر مجبور کرنا چاہیں گے۔‘‘
’’تمہارا تجزیہ درست ہی معلوم ہوتا ہے۔‘‘پروفیسرحشام بولے۔ان کے چہرے پہ تشویش دیکھی جا سکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح کی ٹیم کے ساتھ شہباز خان اور اس کے گارڈز کا اچانک ہی سامنا ہو گیا تھا۔دونوں جانب سے فائرنگ ہو نے لگی۔کرنل فاتح اور استاد قاسم اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے پوری طرح تیار تھے۔انہوں نے اپنے چہرے مکمل طور پہ چھپا رکھے تھے۔صرف آنکھیں ہی کھلی تھیں۔مقابلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا۔شہباز خان کی ٹانگ میں گولی لگی تھی۔اس کے گارڈز بھاگتے ہوئے اسے پیچھے ہی چھوڑ گئے تھے۔شہباز خان زندہ پکڑ ا گیا تھا اس کے ساتھ دو زخمی گارڈز بھی تھے۔شہباز خان کو پہچان کر کرنل فاتح نے مزید آگے بڑھنے کا ارادہ ترک کر دیا۔انہوں نے واپسی کا ارادہ کر لیا اور تھوڑی دیر بعد وہ سب اپنے محفوظ ٹھکانے پر پہنچ چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح اور شہباز خان کے بیچ ہونے والی جھڑپ انہوں نے بڑی اسکرین پہ دیکھی تھی۔شہباز خان اور گارڈز کی گرفتاری اور انہیں وہاں سے لے جانے کا عمل بھی ان کے سامنے تھا۔اس کے بعد وہ سب اچانک ہی کہیں گم ہو گئے تھے۔ان کا سسٹم جزیرے کے بیشتر حصوں کو کور کرتا تھا۔وہ شائد ایسا ہی حصہ تھا جہاں خفیہ کیمروں کی پہنچ نہیں تھی۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے۔وہ کون لوگ تھے؟‘‘میجر گنپت راؤ دانت پیس کر بولا۔
’’ظاہر ہے کہ ہمارے دشمن ہی ہیں۔ان کے انداز سے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے کام میں ماہر لوگ ہیں۔‘‘نارمن زبسکی کا تجزیہ بے لاگ تھا۔
’’مگر وہ کون ہو سکتے ہیں؟‘‘بغدادی صاحب جیسے خود سے سوال کر رہے تھے۔
’’کہیں کرنل تو اپنی ٹیم کے ساتھ نہیں پہنچ گیا؟‘‘میجر گنپت راؤ نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
’’ایسا ناممکن بھی نہیں۔‘‘نارمن زبسکی بول پڑا۔ہم سے ایک غلطی ہو گئی۔‘‘
’’غلطی؟وہ کیا؟‘‘میجر گنپت راؤ نے پوچھا۔
’’ہم خاموشی سے ان کے بیچ ہوتا مقابلہ دیکھتے رہے۔ہمیں زلزلہ لانے والا میکینزم چلا دینا چاہئے تھا۔‘‘نارمن زبسکی افسوس کرتے ہوئے بولا۔
’’اب تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔‘‘میجر گنپت راؤ نے مختصر سا تجزیہ کیا۔
’’مجھے تو اس بات کی فکر کھائے جا رہی ہے کہ کہیں وہ شہباز خان سے سب کچھ اگلوا نہ لیں۔‘‘بغدادی صاحب کا انداز گھبراہٹ لئے ہوئے تھا۔
’’شہباز خان ایسا نہیں ہے۔‘‘میجر گنپت راؤ نے نفی میں سر ہلایا۔’’وہ مرتا مر جائے گا مگر ہمارا راز کبھی نہیں کھولے گا۔‘‘
’’یہ تمہاری خام خیالی ہے۔‘‘بغدادی صاحب پریشان تھے۔’’ شدیدتشدد کے آگے بڑے بڑے سچ بولنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ شہباز خان اتنی آ سانی سے کچھ نہیں بتائے گا۔‘‘میجر گنپت راؤ نے ان کی بات سے اتفاق نہیں کیا۔’’دوسرا اسے اصل معاملے کی ہم نے بھنک بھی نہیں پڑنے دی۔‘‘
’’یہ تو تم ٹھیک ہی کہہ رہے ہو۔سوال یہ ہے کہ ہمیں اب آگے کیا کرنا چاہئے؟‘‘بغدادی صاحب کا سوال اہم تھا۔
اس سوال کا جواب نارمن زبسکی کی طرف سے آیا۔’’میرا خیال ہے کہ ہمیں اب پروفیسر پہ سختی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پروجیکٹ جلدی سے مکمل ہو۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ ہمیں اب اپنی اصل صورت میں اس کے سامنے آنا ہو گا۔‘‘بغدادی صاحب کی بات کی دونوں نے تائید کی۔
’’میرا خیال ہے کہ ہمیں اب دیر نہیں کرنا چاہئے۔اب پروفیسر پہ فوراً سختی کرنا بے حد ضروری ہے۔‘‘نارمن زبسکی کا لہجہ حتمی تھا۔
’’تو پھر چلیں؟‘‘میجر گنپت راؤ نے سوالیہ انداز میں ان کی طرف دیکھا۔
’’ہاں !اب دیر مناسب نہیں۔‘‘نارمن زبسکی نے اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا۔’’اس سے پہلے ہمیں اپنے تمام گارڈز کو پورے جزیرے پہ پھیلا دینا چاہئے تاکہ وہ نہ تو کسی کو جزیرے میں داخل ہونے دیں اور ساتھ ہی جزیرے پہ موجود ہمارے دشمنوں کو تلاش کریں اور دیکھتے ہی گولی سے اڑا دیں۔‘‘
نارمن زبسکی کے مشورے کی دونوں نے ہی تائید کی۔جب گارڈز کو حکم جاری ہو گیا تو وہ سب پروفیسر حشام کی جانب چل پڑے۔صبح ہونے میں اب زیادہ دیر نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہباز خان کی ٹانگ سے کافی خون بہہ گیا تھا مگر وہ ابھی تک ہوش میں تھا۔اس نے گرفتاری سے لے کر پہاڑی کے خفیہ راستے سے داخل ہوکر محفوظ ٹھکانے تک پہنچ جانے تک کسی قسم کی مزاحمت کی اور نہ ہی کسی قسم کا احتجاج کیا۔کرنل فاتح کے لئے یہ بات حیرت کا باعث تھی۔انہوں نے یہ احتیاط ضرور کی تھی کہ پہاڑی کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی شہباز خان کی آنکھوں پہ پٹی باندھ دی گئی تھی۔
شہباز خان کی آنکھوں سے پٹی ہٹائی گئی تو اس کی بینائی کو ماحول سے مطابقت پیداکرنے میں کچھ دیر لگی۔
’’شہباز خان! کیسے مزاج ہیں؟‘‘کرنل فاتح نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’اس مالک کا شکر ہے۔وہ جس حال میں بھی رکھے۔‘‘شہباز خان نے درویشانہ انداز میں نظریں آسمان کی جانب اٹھاتے ہوئے جواب دیا۔وہاں آسمان تو نظر نہیں آ رہا تھا۔غار کی چھت سے ہی نظریں ٹکرا کر لوٹ آتی تھیں۔
’’اب کیا سوچا ہے؟‘‘کرنل فاتح کا سوال سن کر شہباز خان مسکرایا اور کہنے لگا۔’’میں نے کیا سوچنا ہے۔سوچنے کا کام تو اب آپ کا ہے۔‘‘
’’کہتے رہو۔کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘کرنل فاتح بھی جواباً مسکرائے۔
’’کیا ایسا ممکن ہے کہ میں آپ سے تنہائی میں چند باتیں کر سکوں۔‘‘اس بار اس کی آواز دبی ہوئی تھی۔
کرنل فاتح اسے لے کر غار کے ایک کونے میں آ گئے اور پھر بولے۔’’اب سب کچھ کہہ دو جو تم جانتے ہو۔میں تشدد نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
جواباً شہباز خان نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا۔’’میں آپ کو سب کچھ بتانے کے لئے ہی تو گرفتار ہوا ہوں۔ورنہ میری گرفتاری اتنی آسان نہ تھی۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘کرنل فاتح کی پیشانی پہ لکیریں نمودار ہو گئیں۔
’’میں آسان شکار نہیں ہوں۔جو مجھے جانتے ہیں وہ میری بات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔میں اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘وہ تلخی سے مسکرایا۔
’’تم اپنے جرائم کو غلطیوں سے تعبیر نہ کرو۔ملک دشمنی اور غداری کی سزا جانتے ہو؟‘‘کرنل فاتح کے لہجہ میں بھی خشکی در آئی تھی۔کچھ دیر تک ان کے بیچ تکلیف دہ خاموشی آ ٹھہری۔
’’میں تو اب تک انہیں غلطیاں ہی سمجھتا رہا ہوں مگر آپ کی بات درست ہے۔‘‘اس نے ان کی بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا۔’’میں اب آپ کو سب کچھ بتا دینا چاہتا ہوں۔‘‘
’’یہ کایا پلٹ کیسے ہوئی؟میں وجہ جان سکتا ہوں؟‘‘کرنل فاتح نے پوچھا۔
’’وجہ۔۔۔۔۔؟‘‘شہباز خان جیسے کہیں کھو گیا۔’’مجھے اس بات کا احساس بہت دیر سے ہوا کہ میں ملک دشمن عناصر کے لئے کام کر رہا ہوں۔میں اسے ’’کام‘‘ ہی سمجھتا تھا۔مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ ان کے عزائم خطرناک ہیں۔‘‘
کرنل فاتح خاموشی سے سن رہے تھے اور انہوں نے اس موقع پہ کچھ پوچھنے کی کوشش نہیں کی۔
شہباز خان کہہ رہا تھا۔’’انسان جب تک دلدل میں پوری طرح اتر نہ جائے اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کتنی بری طرح سے پھنس چکا ہے۔‘‘
’’تمہیں اپنے پھنسنے کا احساس کیسے ہوا؟‘‘اس بار کرنل فاتح نے پوچھ لیا۔
’’احساس تو بہت پہلے ہو گیا تھا مگر میرا ضمیر ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی جاگا ہے۔‘‘شہباز خان کا سر جھک گیا تھا۔’’وہ بھی اس وقت جب میجر گنپت راؤ نے ایک موقع پر مجھے سخت سست کہا اور ایسے الفاظ استعمال کئے جن کا مطلب غدار کتے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔‘‘
’’تو ضمیر بھی اس وقت جاگا جب اپنا ہی دامن کانٹوں میں الجھ گیا۔‘‘کرنل فاتح کا انداز سرسری سا تھا۔اس میں طنز کا شائبہ تک نہ تھا۔
’’شاید ایسا ہی ہے۔’’شہباز خان نے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔’’جب خود پہ چوٹ پڑے تو بڑے بڑے ہل جاتے ہیں۔میں کس گنتی میں ہوں۔‘‘
’’یہ ہم کن باتوں میں الجھ گئے۔تم مجھے اس جزیرے کے بارے میں بتانا چاہتے تھے۔‘‘کرنل فاتح نے اسے اصل بات کی طرف لاتے ہوئے کہا۔
شہباز خان دھیمے انداز میں انہیں بتانے لگا۔پروفیسر حشام کا سن کر کرنل فاتح چونک اٹھے البتہ ان کے چہرے سے حیرانی کا اظہار نہیں ہوا۔
وہ شہباز خان سے سوالات کرتے رہے۔اس سے خفیہ راستوں کے بارے میں جاننا چاہا۔شہباز خان نے کوئی بھی بات نہیں چھپائی۔ان کے تمام سوالات کا جواب دیا۔
وہ یہ جان کر حیران نہیں ہوئے کہ انہیں کئی بار فون کرنے والا ’’خیرخواہ‘‘ شہباز خان ہی تھا۔
شہباز خان نے انہیں یہ بھی بتایا کہ’’اس نے ان غیر معمولی کتوں کو ایک زہریلی دوا دے دی تھی جس سے کتوں کی حالت غیر ہو جانے کی وجہ سے انہیں پڑوسی ملک میں علاج کے لئے لے جایا گیا ہے۔‘‘
’’اب سمجھ میں آیا کہ جب ہم نے ’’افریقی قبیلہ‘‘پہ قابو پایا تو ہمیں کتے نظر کیوں نہیں آئے تھے۔‘‘کرنل فاتح نے پرسوچ انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔’’مگر تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘انہوں نے شہباز خان سے پوچھا۔
’’میں آپ کے لئے آسانی پیدا کرنا چاہتا تھا۔‘‘شہباز خان کی آنکھیں سچ بول رہی تھیں۔’’جب مجھے اس بات کا یقین ہو گیا کہ مجھے ان دشمن ملک لوگوں کا مزید ساتھ نہیں دینا تو پھر یہ کرنا آسان ہو گیا۔‘‘
’’کیاوہ کتے بہت خطرناک تھے؟‘‘
’’بے حد خطرناک۔‘‘شہباز خان نے بتایا۔’’علاج کے بعد انہیں واپس آنے تک جتنا وقت لگے گا اس وقت تک ہمیں جزیرے کے معاملات سے نمٹ لینا چاہئے۔‘‘
’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ایسا ہی ہو گا۔‘‘کرنل فاتح کا لہجہ مضبوط تھا۔
کرنل فاتح نے شہباز خان سے ساری معلومات لینے کے بعد استاد قاسم سے مشورہ کیا اور پھر وہ اپنے آئندہ پلان پہ عمل کرنے کے لئے تیار ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بغدادی صاحب،میجرگنپت راؤ اور نارمن زبسکی کی آمد اچانک اور غیر متوقع تھی۔اس کے باوجود پروفیسر حشام کو اتنا موقع ضرور مل گیا تھا کہ وہ شیردل کو مناسب جگہ چھپا سکتے۔
’’خیریت؟آپ لوگ اس وقت؟‘‘پروفیسر حشام کالہجہ نرم تھا۔
’’پروفیسر!اب ہم سے انتظار نہیں ہوتا۔تم پروجیکٹ کو کب مکمل کر رہے ہو؟‘‘بغدادی صاحب کا رویہ جارحانہ تھا۔
’’پروجیکٹ مکمل ہونے میں تو کچھ وقت لگے گا ہی۔ایسے پروجیکٹ خاصا وقت لے لیتے ہیں۔‘‘پروفیسر حشام کے اطمینان میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔
’’ہمارے پاس وقت ہی تو نہیں ہے۔ہمیں واضح جواب چاہئے۔‘‘میجر گنپت راؤ نے تیوریاں چڑھا کر کہا۔
’’اب ہتھیلی پہ سرسوں تو نہیں جمائی جا سکتی۔‘‘انہوں نے کندھے اچکائے۔
’’جمائی جا سکتی ہے۔بتاؤں کیسے؟‘‘میجر گنپت راؤ کا لہجہ خونخوار ہو گیا۔
’’یہ آپ مجھ سے کس لہجہ میں بات کر رہے ہیں؟‘‘پروفیسر حشام کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
’’اسی لہجہ میں جس میں تم سمجھتے ہو۔ہمیں تو ایسا لہجہ بہت پہلے ہی اختیار کر لینا چاہئے تھا۔‘‘بغدادی صاحب نے دانت پیستے ہوئے جواب دیا۔
’’میں سمجھ نہیں سکا۔تم لوگ کیا چاہتے ہو؟‘‘پروفیسر حشام نے سہم جانے کی ایکٹنگ کی۔ وہ کمال کی اداکاری کر رہے تھے۔
’’پروفیسر!اب ہمارے پاس وقت بالکل بھی نہیں ہے۔ہمیں فوری نتائج کی ضرورت ہے۔‘‘اس بار نارمن زبسکی نے ان کے کندھوں پہ دباؤ ڈالتے ہوئے کہا۔
’’میں اب تک نہیں سمجھ سکا کہ تم لوگ ایسا کیوں کر رہے ہو؟پروجیکٹ کی پروگریس تمہارے سامنے ہے۔کوئی بات تم سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔‘‘پروفیسر حشام کا انداز الجھا الجھا سا تھا۔
’’میرا خیال ہے کہ اب ہمیں اصل صورت میں سامنے آ نا ہی ہو گا۔‘‘یہ کہہ کر بغدادی صاحب نے اشارہ کیا تو میجر گنپت راؤ نے بابر والی ویڈیو سیٹ کر کے اجازت طلب نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔
بغدادی صاحب کی اجازت سے اس نے ویڈیو چلا دی۔ویڈیو زیادہ طویل نہیں تھی۔پروفیسر حشام کا چہرہ ویڈیو دیکھ کر دھواں دھواں ہو رہا تھا۔
’’یہ۔۔۔۔یہ۔۔۔۔سب کچھ۔۔۔۔کیا ۔۔۔ہے؟میرے ۔۔۔بیٹے کے ساتھ۔۔۔۔۔۔تم لوگوں نے کیا۔۔۔۔کیا ہے؟‘‘پروفیسر حشام کے منہ سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ ہی نکل رہے تھے۔
’’ابھی تو کچھ نہیں کیا لیکن اگر تم نے ہماری بات نہ مانی تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔‘‘میجر گنپت راؤ نے سفاک لہجہ میں جواب دیا۔
’’تم لوگ کیا چاہتے ہو؟‘‘پروفیسر حشام ڈرے ڈرے انداز میں بولے۔
’’جلد از جلد پروجیکٹ مکمل کرو ورنہ تمہارا بیٹا اس دنیا میں نہیں رہے گا۔‘‘بغدادی صاحب کے چہرے سے بھی نقاب سرک چکی تھی۔
’’میں پروجیکٹ پہ کام کر تو رہا ہوں۔‘‘ان کا لہجہ رو دینے والا تھا۔
’’ہمیں معلوم ہے کہ آپ کوشش کررہے ہیں مگر اب ہمیں فوری نتائج کی ضرورت ہے۔‘‘نارمن زبسکی نے قدرے نرم انداز میں انہیں عزت سے مخاطب کیا تھا۔
’’نیلی ڈائری کے بغیر آگے بڑھنا آسان نہیں ہو گا۔‘‘وہ دھیمے لہجے میں بولے۔
’’تو ایسے نہیں مانے گا۔‘‘یہ کہہ کر میجر گنپت راؤ نے طیش میںآ کر انہیں ایک زوردار گھونسہ رسید کر دیا۔پروفیسر حشام گھونسہ کھاتے ہی الٹ کر پیچھے گرے۔جب تک نارمن زبسکی اور بغدادی صاحب،میجر گنپت راؤ کو روکتے وہ پروفیسر حشام کی گھونسوں ،طمانچوں اور ٹھوکروں سے درگت بنا چکا تھا۔
پروفیسر حشام لڑنے بھڑنے والے آدمی نہیں تھے۔اپنا دفاع نہ کر سکے۔ایک آدھ منٹ کی اس ’’لڑائی‘‘ میں انہیں اچھی خاصی مار پڑنے کی وجہ سے وہ زمین پہ بے دم سے پڑے تھے اور لگتا تھا کہ وہ بے ہوش ہو چکے ہیں۔
’’ایک تو تمہارا یہ غصہ کام خراب کر دیتا ہے۔‘‘بغدادی صاحب نے میجر گنپت راؤ کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔
’’تم اس بڈھے کو میرے حوالے کر دو پھر دیکھنا میں کیسے اس سے کام لیتا ہوں۔‘‘میجر گنپت راؤ کا غصہ ابھی کم نہیں ہوا تھا۔
’’مارپیٹ سے کام تو سڑک کے غنڈے لیتے ہیں اور ہم سڑک کے غنڈے نہیں ہیں۔‘‘نارمن زبسکی نے طنزیہ لہجہ اختیار کیا تھا۔
’’اس بات سے تمہاراکیا مطلب ہے؟‘‘میجر گنپت راؤ بگڑ گیا۔’’تم مجھے سڑک کا غنڈہ کہہ رہے ہو۔‘‘
’’نہیں یار!وہ یہ نہیں کہہ رہا بلکہ تمہیں سمجھانا چاہ رہا ہے کہ جلدبازی سے کام خراب ہو سکتا ہے۔‘‘بغدادی صاحب نے میجر گنپت راؤ کو سمجھانا چاہا مگر وہ تو ہتھے سے ہی اکھڑ گیا۔
’’تم دونوں سمجھتے ہو کہ میں جلدبازی کر رہا ہوں۔اس بڈھے کو نہیں دیکھتے جو ہمیں جھوٹی آشا(آس۔امید )دلا کر کام کو لمبا کر رہا ہے۔‘‘اس کے تیور ابھی بھی خطرناک تھے اور وہ نارمن زبسکی کو ناپسندیدہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
’’میرا خیال ہے کہ ہم فضول بحث میں الجھنے کی بجائے کام کی بات کریں۔‘‘نارمن زبسکی نے بیزاری سے کہا۔
’’تو مہاشے!جرا(ذرا) آپ ہی ہمیں سمجھا دیں کہ کام کی بات کیا ہے؟‘‘میجر گنپت راؤ نے طنزیہ لہجہ اختیار کیا۔
’’ہمیں دیکھنا چاہئے کہ کہیں پروفیسر زیادہ زخمی تو نہیں ہو گیا۔‘‘نارمن زبسکی اس کے لہجہ کو نظرانداز کرتے ہوئے پروفیسر حشام پہ جھک گیا۔
تھوڑی دیر وہ ان کا معائنہ کرتا رہا اور پھر سیدھے ہوتے ہوئے بولا۔’’پروفیسر تو بے ہوش ہو گیا ہے۔اسے فوری طبی امداد کی ضرورت ہے۔‘‘
میجر گنپت راؤ نے جواباً برا سا منہ بنایا مگر کچھ کہانہیں۔بغدادی صاحب کے کسی کو فون کرنے کی دیر تھی کہ تھوڑی ہی دیر میں پروفیسر حشام کو وہاں سے کسی اور جگہ منتقل کیا جا چکا تھا۔ان کے ساتھ وہ تینوں بھی جا چکے تھے۔ان کے جانے کے بعد شیردل اپنی کمین گاہ سے نکل آیا۔کچھ دیر وہ سوچتا رہا اور پھر تیزی سے وہ فون کی طرف بڑھا۔اس کے ہاتھ تیزی سے ایک نمبر ڈائل کر رہے تھے۔اس نے بار بار وہ نمبر ڈائل کیا مگر دوسری طرف سے شاید جواب نہیں مل رہا تھا۔کچھ سوچ کر اس نے ایک دوسرا نمبر ڈائل کیا۔اس بار دوسری طرف فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح کے سیل فون پہ ایک بار بیل بجنے کے بعد بند ہو گئی۔انہوں نے دیکھا کہ سیل فون کے سگنل بے حد کمزور تھے۔نمبر ان کے لئے اجنبی تھا۔
انہوں نے وہ نمبر شہباز خان کو دکھایا تو اس کے ماتھے پہ سوچ کی لکیریں پھیل گئیں۔تھوڑی دیر بعد بولا۔’’یہ تو پروفیسر حشام کی لیبارٹری کا نمبر ہے۔مگر وہ آپ کو کیوں فون کر رہے ہیں؟‘‘
’’اصل بات یہ نہیں کہ وہ مجھے فون کیوں کر رہے ہیں بلکہ یہ کہ ان کے پاس میر ا سیل فون نمبر کہاں سے آیا؟‘‘کرنل فاتح کے چہرے پہ تشویش کے آثار تھے۔
’’کہیں یہ وہ لڑکا نہ ہو۔‘‘شہباز خان اچانک چونک اٹھا۔ اسے شیردل یاد آ گیا تھا۔وہ کرنل فاتح کو اس کے بارے میں بتانا بھول گیا تھا۔
’’کون سا لڑکا؟‘‘کرنل فاتح پوچھ بیٹھے۔
شہباز خان انہیں شیردل کے بارے میں بتانے لگا۔انہوں نے اس سے کئی سوال کئے۔اب اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا کہ وہ شیردل تھا۔ان کے سینے سے ایک طمانیت بھری سانس نکلی۔
’’یہاں تو سیل فون کے سگنلز بے حد کمزور ہیں۔کیا ہم کسی اور ذریعہ سے لیبارٹری سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں؟‘‘کرنل فاتح نے پوچھا تو شہباز خان نے نفی میں سر ہلایا اور پھر بولا۔’’ایک ہی ذریعہ ہے کہ ہم لیبارٹری خود جائیں۔‘‘
’’اس بارے میں سوچنا پڑے گا اور صحیح وقت کا تعین کرنا بھی ضروری ہوگا۔‘‘کرنل فاتح سنجیدگی سے بولے۔
اسی اجنبی نمبر سے دوتین بار کال آئی مگر ایک بیل کے بعد ہی بند ہو جاتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یہ کون ہے؟‘‘نارمن زبسکی نے پوچھا۔وہ اس وقت پروفیسر حشام کو ڈاکٹر کے سپرد کر کے سوچ بچار کے لئے جمع ہوئے تھے۔
’’صاحب! آپ جب سیٹھ صاحب سے ملنے کے لئے گئے تھے تو یہ بندہ آس پاس ہی منڈلا رہا تھا۔ہم نے قابو کر لیا۔‘‘بتانے والا ایک گارڈ تھا۔وہ ہی نارمن زبسکی کی اجازت سے’’قیدی‘‘ کو لے کر آیا تھا۔سیٹھ صاحب سے اس کی مراد سیٹھ عبدالمالک سے تھی جو کہ جزیرہ خوش بخت کا مالک تھا۔
’’یہ یہاں کیسے پہنچا؟‘‘بغدادی صاحب نے پوچھا۔
’’آج ہی اسٹیمر پہ جو نیا مال آیا ہے اس کے ساتھ ہی ہمیں اس کی ’’ڈلیوری‘‘ بھی ملی ہے۔‘‘جس انداز میں میں اس نے لفظ ڈلیوری بولا تھا اسے سن کر سب ہی مسکرانے لگے تھے۔
’’اس سے کچھ پوچھ گچھ کی؟‘‘اس بار میجر گنپت راؤ نے پوچھا۔
’’صاحب! پوچھ گچھ ہی کے لئے تو آپ کے پاس لائے ہیں۔‘‘گارڈ سادگی سے بولا۔
’’سر!یہ لوگ مجھے ناجائز پکڑ کر لائے ہیں۔میں تو ایک اخبار کا رپورٹر ہوں اور کہانی کی تلاش میں گھو م رہا تھا۔‘‘قیدی نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنی بپتا سنا نے کی کوشش کی۔وہ باسط علی تھا جو بے خبری میں ہی مارا گیا تھا۔پکڑنے والوں نے اس کی خوب پٹائی کی تھی۔اس کا نچلا ہونٹ پھٹ گیا تھا اور خون سیاہ ہو کر ہونٹوں اور اس کے بائیں رخسار پہ جم سا گیا تھا۔
’’رپورٹر!مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں نے تمہیں کہیں دیکھا ہے۔‘‘نارمن زبسکی نے اس کے قریب ہوتے ہوئے اس کے چہرے پہ نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔
’’سر!میں نے توآج آپ کو پہلی بار دیکھا ہے۔‘‘باسط علی نے دہائی دی۔
’’پہلی بار دیکھا ہے۔‘‘یہ کہہ کر نارمن زبسکی نے ایک زوردار مکا باسط علی کے پیٹ میں مارا۔وہ درد سے دوہرا ہو گیا اور درد کو برداشت کرتے ہوئے بولا۔’’سر!میری بات کا یقین کریں۔یہ لوگ مجھے خواہ مخواہ ہی اٹھا لائے ہیں۔‘‘
’’تمہاری بات کا تو ہم ابھی یقین کریں گے۔بس دو منٹ کی بات ہے۔‘‘یہ کہہ کر نارمن زبسکی اس پہ پل پڑا۔لاتیں،مکے اور گھونسوں نے لمحوں میں ہی باسط علی کو خون میں نہلا دیا۔نارمن زبسکی اسے اس وقت تک مارتا رہا جب تک وہ بے ہوش نہیں ہو گیا۔
’’کیا تم اس رپورٹر کو جانتے ہو؟‘‘بغدادی صاحب نے نارمن زبسکی سے پوچھا۔
’’ہاں یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘نارمن زبسکی ایک گندی سی گالی دیتے ہوئے بولا۔’’اسی منحوس کی وجہ سے میں مہمان وزیرِ خارجہ کو قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔‘‘اس نے باسط علی کو پہچان لیا تھا۔
’’اوہ!تو وہ یہ تھا۔‘‘بغدادی صاحب نے بھی باسط علی کے بے ہوش جسم کو ٹھوکر مارنا اپنا فریضہ جانا۔
’’کمبکھت(کمبخت) کی وجہ سے ایک اچھا موقع ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔‘‘میجر گنپت راؤ کیوں پیچھے رہتا۔
’’اب اس کا کیا کرنا ہے؟‘‘بغدادی صاحب نے زمین پہ پڑے ہوئے باسط علی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
’’کرنا کیا ہے؟ٹکڑے کر کے سمندر میں ڈال دیں گے۔مچھلیوں کی مفت کی دعوت ہو جائے گی۔‘‘نارمن زبسکی کے ہونٹوں پہ ایک سفاک مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’ٹکڑے کرنے سے پہلے اس سے پوچھنا پڑے گا کہ یہ ہمارے پیچھے کیوں لگا؟‘‘بغدادی صاحب کا لہجہ سنجیدہ تھا۔
’’آپ مجھے بے وقوف سمجھتے ہیں۔‘‘نارمن زبسکی کا انداز ناراضگی والا تھا۔’’ہم پہلے اس کی زبان کھلوائیں گے اور پھر۔۔۔۔۔‘‘ایک خوفناک مسکراہٹ لمحے بھر کو اس کے چہرے پہ لہرائی۔
’’نہیں!میں نے تو ایسے ہی پوچھا تھا۔‘‘بغدادی صاحب بات کو بڑھانا نہیں چاہتے تھے۔
تھوڑی دیر بعد باسط علی کو وہاں سے لے جایا جا چکا تھا اور وہ پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غازی کے سیل فون پہ کال آ رہی تھی۔نمبر اس کے لئے اجنبی تھا۔اس نے کچھ سوچ کر اپنا سیل کان سے لگا لیا۔
’’ارے! یہ تم ہو۔‘‘غازی تو پہلے جملہ کے بعد ہی اچھل پڑا تھا۔دوسری طرف سے کچھ کہا گیا جس نے غازی کو سنجیدہ کر دیا ورنہ وہ تو فوراً ہی شروع ہو جاتا۔
’’ہم تم سے زیادہ دور نہیں ہیں۔ہم یہاں انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب بلاوا آتا ہے اور ہم بھی ایکشن میں آ جائیں۔‘‘غازی نے شیردل کو بتایا۔دوسری طرف شیردل ہی تھا۔
شیردل اسے اب تک کے حالات بتا رہا تھا کہ اچانک دوسری طرف کسی کے گرنے کی آواز آئی۔فون کی لائن نہیں کٹی تھی۔غازی بے چینی سے ہیلو ہیلو کر رہا تھا مگر دوسری جانب سے کوئی جواب نہیں دے رہا تھا۔کسی کے زمین پہ گرنے کی آواز تھی اور پھر لائین کٹ گئی۔
غازی نے اپنے ساتھیوں کو شیردل سے ہونے والی گفتگو کے بارے میں بتایا اور ان سے مشورہ طلب کیا۔سب کا مشورہ یہ ہی تھا کہ ابھی کچھ کرنے کی بجائے کرنل فاتح کے اشارے کا انتظار کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیردل غازی سے فون پہ بات کر رہا تھا۔اس سے پہلے اس نے کرنل فاتح کا سیل نمبر ملایا تھا مگر سگنلز کی کمزوری کی وجہ سے بات نہیں ہو سکی تھی۔وہ فون کرتے ہوئے اپنے ماحول سے کچھ دیر کے لئے بے گانہ سا ہو گیا اور یہ ہی بات اسے مہنگی پڑی۔کسی نے پیچھے سے زور سے اس کے سر پہ وار کیا تھا۔نہ جانے کس جبلت کے تحت شیردل نے جلدی سے سر کو جھکایا تھا اور یوں وہ وار اس کے سر کی بجائے اس کے بائیں کندھے کو برداشت کرنا پڑا۔فون اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا۔درد کی ایک تیز لہر نے بائیں کندھے کو مفلوج سا کر دیا تھا۔وہ کرسی پہ آگے کی جانب لڑھک گیا تھا۔اس نے کرسی کو تیزی سے پیچھے دھکیلتے ہوئے خود کو زمین پہ گرا دیا تھا۔اس کے سامنے مخصوص وردیوں میں دو گارڈز تھے۔دونوں کے ہاتھوں میں آٹومیٹک گن تھیں۔ان میں سے ایک نے گن کے ساتھ ہی شیر دل کے سر کو نشانہ بنایا تھا۔تھوڑی دیر میں وہاں گھمسان کی جنگ چھڑ گئی تھی۔شیر دل کو جیسے ہی اندازہ ہوا کہ وہ اسے زندہ گرفتار کرنا چاہتے ہیں تو اس کا حوصلہ بڑھ گیا۔اس نے آگے بڑھ کر ایک گارڈ کے ہاتھ پہ کک لگائی تو اس کی آٹومیٹک گن ہوا میں اچھلی اور پھر زمین پہ گر کر دور تک لڑھکتی چلی گئی۔دوسرے گارڈ نے دوبارہ گن کو لاٹھی کی طرح ہی استعمال کرنا چاہا مگر اب شیردل ہوشیار ہو چکا تھا۔اس نے گارڈ کے وار کو خالی دیتے ہوئے اس کے منہ پہ گھونسہ مارا۔نہ جانے گھونسہ زور سے لگا تھا یا کوئی اور بات تھی کہ گارڈ کے ہاتھ سے گن چھوٹ گئی۔شیردل یہ ہی چاہتا تھا۔اس نے دونوں پہ تابڑ توڑ حملے شروع کر دئیے۔دونوں پوری کوشش کے باوجود شیردل پہ قابو پانے میں ناکام رہے تھے۔شیردل ان دونوں کی پٹائی کرنے میں اتنا مصروف تھا کہ ایک بار پھر اپنے عقب سے غافل ہو گیا۔اس بار سر پہ لگنے والی چوٹ ایسی تھی کہ اس کی آنکھوں کے آگے کئی سورج طلوع ہو کر غروب ہو گئے۔زمین پہ گر کر بے ہوش ہونے سے پہلے کی آخری یاد یہ تھی کہ اسکے سر پہ وار کرنے والا ایک تیسرا گارڈ تھا۔اب نہ جانے وہ دوسرے دونوں گارڈز کے ساتھ ہی آیا تھا اور کہیں چھپ رہا تھا یا اس نے بعد میں انٹری دے کر شیردل کو بے ہوش کر دیا تھا۔شیردل کو
بے ہوش دیکھ کر دونوں پٹنے والے گارڈز نے سکون کا سانس لیا۔ان کا سانس پھول گیا تھا اور وہ بری طرح سے ہانپ رہے تھے۔ان میں سے ایک نے فون کا ریسیور دوبارہ کریڈل پہ رکھ دیا اور پھر وہ شیردل کو ڈنڈا ڈولی کرتے ہوئے ایک جانب روانہ ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سر!وہ پروفیسر کو ہوش نہیں آرہا۔‘‘ڈاکٹر انہیں بوکھلائے ہوئے انداز میں بتا رہا تھا۔
’’کیا مطلب؟ہوش کیوں نہیں آ رہا؟کہیں مکر تو نہیں کر رہا۔‘‘بغدادی صاحب کی تیوریوں پہ بل پڑ گئے تھے۔وہ سب لوگ ابھی بیٹھے سوچ بچار میں ہی مصروف تھے کہ پروفیسر حشام کی دیکھ بھال کرنے والے ڈاکٹر نے آ کر انہیں یہ خبر سنا دی تھی۔
’’ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘نارمن زبسکی شاید خود سے مخاطب تھا۔
’’سر!پروفیسر کے سر پہ چوٹ لگی ہے اور اس پہ گہری بے ہوشی طاری ہے۔‘‘ڈاکٹر ابھی تک بوکھلایا ہوا تھا۔
’’ایسا کیسے ہو سکتا ہے، سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘بغدادی صاحب نے اس کی بڑبڑاہٹ شاید سن لی تھی۔
’’میں سوچ رہا تھا کہ پروفیسر کو مارتے ہوئے ہم نے کوشش کی تھی کہ اس کے سر پہ چوٹ نہ لگے تو پھر وہ بے ہوش کیسے ہو گیا؟‘‘نارمن زبسکی نے جواب دیا۔
’’ہو سکتا ہے کہ ہم سے بے احتیاطی ہو گئی ہو اور بڈھے کا سر نشانہ بن ہی گیا ہو۔‘‘میجر گنپت راؤ نے اپنا خیال ظاہر کیا۔اسے خود معلوم تھا کہ اس نے پروفیسر کے سر پہ دو تین ٹھوکریں ماری تھیں مگر اس کا سچ بولنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
’’شاید ہم سے بے احتیاطی ہوئی ہے۔‘‘نارمن زبسکی نے میجر گنپت راؤ پہ ایک اچٹتی سی نظر ڈالی۔
’’اب جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔اب کیا کرنا ہے؟‘‘بغدادی صاحب نے مسئلہ کے حل کی طرف آنا چاہا۔
’’اب علاج تو میڈیکل ٹیم نے ہی کرنا ہے۔ڈاکٹر تم کیا کہتے ہو؟‘‘نارمن زبسکی نے ڈاکٹر کی طرف رخ کرتے ہوئے پوچھا۔
’’سر!پروفیسر کا علاج یہاں ممکن نہیں۔ان کے سر کا سی ٹی اسکین(CT Scan) ضروری ہے جو کہ ہمارے پاس موجود نہیں۔اس کے بغیر شاید صحیح تشخیص ممکن نہ ہو سکے۔‘‘ڈاکٹر نے ڈرتے ڈرتے بتایا۔
’’اچھا تم جاؤ۔ہم ٖفیصلہ کرنے کے بعد تمہیں بتائیں گے۔‘‘بغدادی صاحب نے ڈاکٹر کو جانے کا شارہ کیا۔
’’یہ تو عجیب مسئلہ ہو گیا۔‘‘ڈاکٹر کے جانے کے بعد میجر گنپت راؤ نے زبان کھولی۔
’’یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ پروفیسر کے بغیر ہمارا مشن فیل ہو جائے گا۔ہمیں پروفیسر کو ہوش میں لانا ہو گا۔اس کا فوری علاج ضروری ہے۔‘‘نارمن زبسکی کا اندازفیصلہ کن تھا۔
’’میں تمہاری بات سے اتفاق کرتا ہوں۔‘‘بغدادی صاحب نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’اتفاق تو میں بھی کرتا ہوں مگر یہ ہو گا کیسے؟‘‘میجر گنپت راؤ نے پوچھا۔
’’ہمیں پروفیسر کو علاج کے لئے شہر لے جانا پڑے گا۔‘‘نارمن زبسکی نے کہا۔
’’یہ خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔‘‘میجر گنپٹ راؤ نے اندیشہ ظاہر کیا۔
’’یہ سارا معاملہ ہی خطرناک ہے اور تھا۔‘‘نارمن زبسکی نے بے پرواہی سے کہا۔’’اب اس بات کا فیصلہ کرنا پڑے گا کہ پروفیسر کو شہر لے جایا جائے یا تمہارے ملک؟‘‘
’’میرے ملک؟‘‘میجر گنپت راؤ تو اچھل ہی پڑا۔
’’میرا خیال ہے کہ تمہارے ملک ہی لے جانا ٹھیک ہو گا۔دو چار دن میں وہ علاج کے بعد پروفیسر کو واپس لے آئیں گے اور ساتھ ہی وہ ادویات اور ضروری چیزیں جن کی علاج کے لئے ضرورت پڑ سکتی ہے، وہ بھی لیتے آئیں گے۔‘‘نارمن زبسکی کا مشورہ بغدادی صاحب کے دل کو بھا گیا۔وہ بولے۔’’ایسا کرنا ہی وقت کی ضرورت ہے۔‘‘
میجر گنپت راؤ جب جواباً کچھ نہیں بولا تو اسی فیصلے پہ اتفاق ہو گیا۔سوچ بچار کے بعد پروفیسر کو ایک ایسی لانچ میں لے جانے کا فیصلہ ہوا جو سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کے کام آتی تھی البتہ اس کا استعمال اکثر غیرقانونی کاموں کے سلسلے میں ہوتا تھا۔
ڈاکٹر اور اس کی ٹیم کو فیصلہ سے آگاہ کر دیا گیا۔ڈاکٹر کے چہرے پہ چھائی ہوئی پریشانی ان سب کے علم میں تھی۔ڈاکٹر کچھ کہنا چاہتا تھا مگر کچھ سوچ کر وہ خاموش ہی رہا۔
اسے اس بات کا اندیشہ تھا کہ’’ پروفیسر کے علاج میں جتنی دیر ہوگی ان کے لئے خطرہ اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔‘‘
تھوڑی دیر بعد پروفیسر کے سفر کے انتظامات شروع ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح اور شہباز خان رات کے اندھیرے میں چھوٹی عمارت کی طرف آہستگی سے بڑھ رہے تھے۔چھوٹی عمارت پروفیسر حشام کی لیبارٹری کی حیثیت رکھتی تھی۔شہباز خان لنگڑا کر چل رہا تھا۔اس نے اپنا چہرہ کپڑے سے چھپا رکھا تھا اور کوشش کی تھی کہ اپنی مخصوص چال کو بدل سکے۔لنگڑاہٹ کی وجہ سے اس کے لئے آسانی ہو گئی تھی۔
اس نے ایسا راستہ اختیار کیا تھا کہ جہاں کسی سے سامنا ہونے کا امکان نہ ہو۔مگر سامنا تو ہونا ہی تھا اور ہوا بھی اچانک ہی۔
’’خبردار!وہیں رک جاؤ ورنہ اپنے پیروں پہ کبھی نہ چل سکو گے۔‘‘دونوں کو ٹھٹک کر رک جانا پڑا۔وہ جزیرے کے محافظوں میں سے تھا اور اس کے ہاتھ میں آٹومیٹک گن دیکھنے کے بعد دونوں نے رک جانا ہی مناسب سمجھا۔
’’کون ہو تم لوگ اور یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘گارڈ نے سخت لہجہ اختیار کیا تھا۔
’’ارے جسونت! یہ میں ہوں۔شہباز خان۔‘‘شہباز خان نے چہرے سے کپڑا ہٹاتے ہوئے کہا۔
’’اوہ آپ۔مجھے شما(معاف) کر دیجئے۔‘‘گارڈ نے گن نیچے کرتے ہوئے کہا۔اس کا نام جسونت تھا۔
’’کوئی بات نہیں۔یہ تم نے کیا اٹھا رکھا ہے؟‘‘شہاز خان نے جسونت کے پیچھے دو گارڈر کی طرف اشارہ کیا۔وہ دونوں شیردل کو اٹھائے ہوئے تھے۔
’’صاحب!خطرناک چھوکرا ہے۔ہم نے ابھی پروفیسر کی لیب سے پکڑا ہے۔‘‘جسونت کا انداز فخریہ تھا۔
’’شاباش! مجھے تم سے یہ ہی امید تھی۔‘‘شہبا خان نے ان کی کوششوں کو سراہا تو ان کے سینے فخر سے پھول گئے۔’’اب اس کا کیا کرنا ہے؟‘‘
’’جناب !میجر صاحب کے پاس لے جائیں گے۔‘‘دوسرا گارڈمؤدب ہو کر بولا۔
’’نہیں اس کی ضرورت نہیں۔‘‘شہباز خان نے ہاتھ اٹھا کر انہیں روک دیا۔’’اسے میں خود دیکھ لوں گا۔تم اسے لے کر میرے پیچھے آؤ۔‘‘
تینوں گارڈز خاموشی سے ان کے پیچھے چل پڑے۔شہباز خان کی نظریں ایک لمحے کے لئے کرنل فاتح سے ملیں۔دونوں نے نظروں ہی نظروں میں کوئی فیصلہ کیا اور آگے چل پڑے۔ایک نسبتاً محفوظ جگہ پہنچ کر وہ اتنی تیزی سے حرکت میں آئے کہ گارڈز کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔گارڈز نہیں جانتے تھے کہ شہباز خان کی ’’کایا پلٹ‘‘ چکی ہے۔وہ بے خبری میں مارے گئے تھے۔چند لمحوں کا کھیل تھا اور وہ تینوں زمین پہ بے ہوش پڑے تھے۔ان کی آنکھوں میں منجمد ہو جانے والی حیرت شہباز خان سے سوال کر رہی تھی کہ ’’ہمارے ساتھی ہوکر تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘
وہ شیردل ہی تھا جسے دو گارڈز نے اٹھا رکھا تھا۔شیردل زمین پہ پڑا ہوا تھا اور ابھی تک بے ہوش تھا۔کرنل فاتح کی کوششوں سے اسے جلد ہی ہوش آ گیا۔دونوں باپ بیٹا بڑی محبت سے ایک دوسرے سے ملے۔
آدھے گھنٹے کے بعد وہ اپنے محفوظ ٹھکانے تک پہنچ چکے تھے۔تھوڑی دیر بعد شہباز خان بھی ان سے آ ملا۔
’’قیدیوں کا کیا بنا؟‘‘کرنل فاتح نے پوچھا۔
’’وہی جو ایسے لوگوں کا مقدر ہوتا ہے۔‘‘شہباز خان کا لہجہ سفاک تھا۔’’اب قیامت سے پہلے شاید ہی کوئی ان کے بارے میں جان سکے۔‘‘
کرنل فاتح نے دھیرے سے سر ہلایا لیکن اس سے یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ اس کے عمل سے متفق تھے یا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غازی کو ابھی تک کرنل فاتح سے کوئی اشارہ موصول نہیں ہوا تھا مگر کوئی بات تھی کہ اسے پریشان کر رہی تھی۔اس نے کمانڈوز کے انچارج سے مشورہ کیا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ رات کو وہ جزیرے کی طرف روانہ ہو جائیں گے۔انہوں نے ایسا ہی کیا۔
آسمان پہ تاروں کی روشنی ان کے ہم سفر تھی۔چاند بھی ہم راہ تھا البتہ اس کی روشنی ان کی کوئی مدد نہ کر سکتی تھی کیوں کہ وہ شروع دنوں کا چاند تھا۔وہ ایک تیز رفتار لانچ میں تھے اور ان سے کچھ فاصلے پہ کوسٹ گارڈز کی دولانچیں بھی غیر محسوس انداز میں ان کے ساتھ چل رہی تھیں۔
ابھی وہ جزیرے کے پاس ہی پہنچے تھے کہ انہیں کسی لانچ کے مخالف سمت میں روانہ ہونے کی آواز سنائی دی۔غازی نے کچھ دیر سوچنے کے بعد لانچ کے پیچھے جانے کا فیصلہ کر لیا۔کوسٹ گارڈز کی تیز رفتار لانچوں نے جلد ہی اس لانچ کو جا لیا۔وہ ماہی گیروں کی لانچ تھی۔انہوں نے کوسٹ گارڈز کی لانچوں کو دیکھ کر اپنی رفتار آہستہ کر لی تھی۔وہ یقیناًٹکراؤ سے بچنا چاہتے ہوں گے۔
’’ہم تمہاری لانچ کی تلاشی لینا چاہتے ہیں۔‘‘رہبر کے انچارج کی گونج دار آواز کا ارتعاش دور تک پہنچا ہو گا۔رہبر کوسٹ گارڈ کی ایک لانچ کا نام تھا۔
’’صاحب!آپ مائی باپ ہیں۔ہم تو گریب (غریب) مجدور(مزدور) ہیں۔مچھیاں پکڑتے ہیں اور اپنے بچوں کو روٹی کھلاتے ہیں۔‘‘اس لانچ کا انچارج ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔اس کے چہرے پہ مسکینی تھی مگر اس کا نداز مسکینوں والا نہیں تھا۔چہرے سے وہ بدمعاش لگتا تھا اور اس کے ساتھ موجود’’ماہی گیر‘‘بھی چہروں سے ماہی گیر نہیں لگتے تھے۔
’’ہم پھر بھی تلاشی لیں گے۔کیا پتہ تم لانچ میں کیا لے جا رہے ہو؟‘‘رہبر کا انچارج کوسٹ گارڈز کے تین سپاہیوں کے ساتھ اس وقت ماہی گیروں کی لانچ پہ کھڑا تھا۔
’’صاحب!آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ہماری روجی(روزی) پہ لات نہ ماریں۔‘‘لانچ کے انچارج نے لجاجت بھرا انداز اختیار کیا تھا۔
’’تلاشی لینے سے تیری روزی پہ لات پڑتی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ توضرور کوئی ناجائز مال لے جا رہا ہے۔‘‘رہبر کا انچارج غضب ناک ہو گیا۔’’چلو پھیل جاؤ اور اچھی طرح سے تلاشی لو۔‘‘رہبر لانچ سے ابھی چند سپاہی ہی ماہی گیروں کی لانچ پہ کودے تھے کہ اچانک فائرنگ شروع ہو گئی۔کچھ دیر تک تو پتہ ہی نہ چل سکا کہ کون کس پہ فائرنگ کر رہا ہے۔کوسٹ گارڈز اپنی ٹریننگ کے مطابق فوراً ہی لانچ کے فرش پہ گر کر پوزیشن لے چکے تھے۔
غازی لوگوں کی لانچ ابھی کچھ فاصلے پہ تھی۔صورت حال واضح ہو گئی تھی۔ماہی گیروں کی لانچ سے کوسٹ گارڈز پہ فائرنگ کی جا رہی تھی۔غازی لوگوں کی لانچ اور کوسٹ گارڈز کی دوسری لانچ مجاہد نے فوراً ہی محفوظ فاصلہ رکھتے ہوئے ماہی گیروں کی لانچ کو گھیر لیا۔دونوں طرف سے فائرنگ ہو رہی تھی۔نہ جانے ایسا اتفاقاً ہوا تھا یا ان سے بوکھلاہٹ میں غلطی ہو گئی تھی کہ ان کی لانچ کی سرچ لائٹس جل اٹھی تھیں۔کوسٹ گارڈز کے گارڈز کے لئے اب کھلا میدان تھا۔انہوں نے تاک تاک کر نشانے لگائے۔تھوڑی دیر بعد ماہی گیروں کی لانچ کوسٹ گارڈز کے قبضہ میں تھی۔
غازی کے ہاتھوں میں موجود گن سے صرف چند فائر ہی ہوئے تھے۔یہ خاص گن تھی اور واٹر پروف تھی۔لانچ پہ قبضہ ہوتے ہی غازی نے اپنی گن کو کوٹ کی جیب میں رکھ لیا۔وہ خاص جیکٹ تھی اور اس مہم کے لئے ان سب کو مکمل طور پہ ایسے ہتھیار اور آلات دئیے گئے تھے جن کی ضرورت پڑ سکتی تھی۔غازی کو دور ایک ایسی آواز سنائی دی جیسے کوئی چیز سمندر کے پانی میں گری ہو۔ایک بار اور وہی آواز سنائی دی۔اس بار غازی کو سمت کا اندازہ بھی ہو گیا۔اس کے اعصاب تن گئے اور جسم حرکت کے لئے تیار ہو گیا۔
اس نے فوراً ہی پانی میں چھلانگ لگا دی اور تیزی سے اسی سمت بڑھنے لگا جہاں اسے کوئی چیز پانی میں گرنے کی آواز آئی تھی۔غازی تیز رفتاری سے پیراکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مطلوبہ مقام کے پاس پہنچا تو اس نے ایک چہرہ پانی میں ڈوبتے ابھرتے دیکھا۔وہ تیزی سے اس کی طرف لپکا۔اچانک اس کے پیٹ میں لگنے والی چوٹ نے اسے احساس دلایا کہ ڈوبنے والا تو اسے ڈبانے کی کوشش کر رہا تھا۔غازی اب محتاط ہو گیا تھا۔اس سے چند قدم کے فاصلے پہ اس نے دو لوگوں کو دیکھا۔ایک ڈوب رہا تھا اور دوسرا اسے بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔بچانے والے نے ہی اس کے پیٹ میں لات رسید کی تھی۔سمندر کے بھاری پانی کی وجہ سے چوٹ کا اثر کم محسوس ہو اتھا۔
’’میرے راستے سے ہٹ جاؤ ورنہ کاٹ کر رکھ دوں گا۔‘‘اس کے ایک ہاتھ میں ایک لمبا سا خنجر لہرا رہا تھا اور دوسرے ہاتھ سے وہ ڈوبنے والے کو تھامے ہوئے تھا۔غازی کو احساس ہوا کہ ڈوبنے والا شاید بے ہوش تھا۔اس کے جسم میں کوئی حرکت نہیں ہو رہی تھی۔
’’تم یہاں سے بچ کر نہیں نکل سکتے۔ابھی میرے ساتھی آتے ہی ہوں گے۔‘‘غازی نے اس کی دھمکی کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
’’تم جھوٹ بول رہے ہو۔ جب فائرنگ کا ہنگامہ چل رہا تھا تو میں بڑی احتیاط سے پانی میں کودا تھا اس لئے کسی کو پتہ نہیں چلا تھا۔‘‘وہ لمبے بالوں والا،ایک کرخت اور خطرناک چہرے کا مالک شخص تھا۔وہ ماہی گیروں کی لانچ کا انچارج تھا۔
’’تم جلد ہی میرے ساتھیوں کو دیکھ لو گے۔‘‘غازی کب ہار ماننے والا تھا۔اسے خود یقین نہیں تھا کہ اس کے ساتھیوں میں سے کسی کو اس بات کا پتہ چلا تھا یا نہیں۔اسے کچھ وقت کی ضرورت تھی۔
’’اگر ایسا ہوا تو تم خود ہی دیکھ لو گے کہ میں کیا کرتا ہوں۔‘‘اس کے لہجہ کی خوفناکی نے لمحہ بھر کے لئے غازی کو متاثر کیا۔
’’دیکھ تو تم لو گے اور یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟بے ہوش لگتا ہے۔‘‘غازی غیر محسوس انداز میں اس کے قریب ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’یہ میرا ساتھی ہے۔اس کی زندگی اگر بچانا ضروری نہ ہوتی تو تم میری خاک کو بھی نہ پاسکتے۔‘‘
’’سمندر میں خاک کہاں؟تمہیں یو ں کہنا چاہئے تھا کہ تم میرے جسم پہ موجود پانی کے ایک قطرہ کو نہ پا سکتے۔‘‘غازی نے ہمدردانہ انداز میں اسے مشورہ دیا تو وہ اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔
’’تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے۔یہ تم کیسی باتیں کر رہے ہو؟‘‘وہ حیرت زدہ تھا۔
’’دماغ کے بارے میں تم بالکل بھی فکر نہ کرو۔ابھی پچھلے مہینے ہی مکمل چیک اپ کروایا ہے۔‘‘غازی کا انداز سنجیدگی لئے ہوئے تھا۔
’’مکمل چیک اپ۔تو کیا انہیں تمہارے دماغ میں مغز نام کی کوئی چیز نظر آئی تھی؟‘‘وہ طنزیہ انداز میں پوچھنے لگا تھا۔
’’ہاں نظر آئی تھی۔چیز نہیں بلکہ چیزیں۔خون،شریانیں اور ذہانت پیک۔‘‘غازی کے ہونٹوں پہ ایک شریر مسکراہٹ کھیلنے لگی تھی۔
’’ذہانت پیک۔یہ کیا بلا ہوتی ہے؟‘‘وہ حیران نظر آ رہا تھا۔
’’ذہانت واقعی بلا ہوتی ہے۔ یہ سی پیک نہیں ہوتی بہت زیادہ پیک ہو تی ہے اور جس کے پاس ہوتی ہے وہ دوسروں کو پیک کرنے میں مدد دیتی ہے۔‘‘غازی نے ایک اور بے پر کی اڑائی۔
’’تم تو دماغ کا دہی بنا دیتے ہو۔‘‘وہ جھنجھلا کر بولا۔
’’کیسا ہوتا ہے؟مزیدار ہوتا ہے نا؟‘‘غازی نے بڑے رازدانہ انداز میں پوچھا۔
’’پتہ نہیں۔‘‘وہ جواباً بولا۔’’تم بات کو کہاں سے کہاں لے جاتے ہو۔تمہارے ساتھی تو یقیناتم سے تنگ آ جاتے ہوں گے۔‘‘
’’نہیں وہ تو بہت انجوائے کرتے ہیں۔میرے بغیر ان کا ایک پل گزارا نہیں ہوتا۔‘‘غازی نے تصور ہی تصور میں شیردل،مجاہد اور مومن کو اپنی بات پہ سر دھنتے ہوئے دیکھا اور دھیرے سے مسکرا دیا۔
’’وہ دیکھ لو۔اس پل میرے دوست میرے ساتھ ہیں۔وہ میرے بناء رہتے ہی نہیں۔‘‘غازی نے جو اسے اتنی دیر اسے باتوں میں لگا رکھا تھا، اپنے آس پاس دیکھتے ہوئے اطمینان بھری سانس لی۔چار پانچ کمانڈوز انہیں گھیرے میں لے چکے تھے۔
اسے اچانک ہی احساس ہوا تھا کہ وہ گھر گیا ہے۔اس نے وحشت بھرے انداز میں ایک چیخ مارتے ہوئے خنجر کو ہوا میں لہرایا۔
’’خنجر پھینک دو ورنہ سر کے اندر روشن دان کھول دیں گے۔‘‘رہبر کے انچارج نے اپنی واٹر پروف گن لہرا کر وارننگ دی۔
’’میرے قریب کوئی نہ آئے ورنہ۔۔۔۔۔؟‘‘وہ وحشت بھرے انداز میں چلایا۔
’’ورنہ کیا۔۔۔۔؟‘‘جواباً پوچھا گیا۔
’’ورنہ میں اسے مار ڈالوں گا۔‘‘اس نے ایک ہاتھ سے ڈوبنے والے اپنے ساتھی کا سر اوپر کرتے ہوئے کہا۔
’’اپنے ساتھی کو مار کر تم کون سی بہادری دکھاؤ گے؟‘‘رہبر کا انچارج اس کی بات سن کر بے پروائی سے بولا تھا۔
’’یہ میرا نہیں شاید تمہارا ساتھی ہے۔‘‘اس کے خوفناک چہرے پہ ایک زہریلی مسکراہٹ کھیلنے لگی۔
’’کیا مطلب؟یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘غازی کا دل ایک لمحہ کو کانپ اٹھا۔
’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔اب سب میرے راستے سے ہٹ جائیں اور مجھے ایک لانچ فوراً دی جائے ورنہ تمہارا یہ ساتھی تو گیا۔‘‘اس نے خنجر کو بے ہوش شخص کی گردن پہ رکھ دیا تھا۔
’’آخر یہ ہے کون؟تم خواہ مخواہ ہمیں چکر دینے کی کوشش نہ کرو۔‘‘رہبر کا انچارج کا انداز جھنجھلایا ہوا تھا۔
’’اس کا نام۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘اس نے نام بتایا تو غازی کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔وہ سناٹے میں آ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح نے اب راست اقدام کا فیصلہ کر لیا تھا۔وہ کچھ دیر تک بہت مصروف رہے تھے۔رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی جب وہ اپنے محفوظ ٹھکانہ سے باہر نکلے تھے۔ان کے ساتھ شہباز خان اور چند دوسرے ساتھی تھے۔استاد قاسم کو پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا۔ اسے کرنل فاتح نے اچھی طرح سے سمجھا دیا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے؟
وہ جنگل سے گزر ہے تھے کہ اچانک سارا جنگل روشنیوں سے جگمگا اٹھا اور پھر ساتھ ہی زمین ان کے پاؤں سے نکل گئی۔زلزلے کے جھٹکوں سے وہ سنبھل ہی نہ سکے اور پھر بڑے بڑے جالوں میں جکڑے گئے۔
’’خوش آمدید کرنل فاتح۔امید ہے آپ ہمیں ایک اچھا میزبان پائیں گے۔‘‘ایک تیز آواز سے سارا جنگل گونج اٹھا تھا۔انہیں’’خوش آمدید‘‘ کہنے والی آواز کرنل فتح کے لئے اجنبی نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے پروفیسر حشام کا نام لیا تھا اور وہ نام غازی کے لئے اجنبی ہرگز نہیں تھا۔اس کے ساتھیوں کو شاید پروفیسر حشام کی اہمیت کا علم نہ ہوتا مگر وہ خود جانتا تھا۔پروفیسر بے ہوش تھے اور اپنا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔غازی جانتا تھا کہ اب ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہو گا۔اچانک ہی ایک خیال کیا آیا کہ اس کے چہرے پہ ایک کھلنڈری مسکراہٹ کھیلنے لگی۔
’’بچاؤ ۔۔۔۔بچاؤ۔۔۔۔یہ میرے پاؤں کون کھینچ رہا ہے؟‘‘غازی ’’ڈوبنے‘‘لگا تھا وہ ہاتھ پاؤں مار رہا تھا اور ساتھ ہی چیخ رہا تھا۔’’کوئی نیچے ہے۔مجھے نیچے کھینچ۔۔۔۔۔نے۔۔۔۔۔۔والا۔۔۔۔۔۔۔کون۔۔۔۔۔‘‘غازی شور مچا رہا تھا اور پھر اس کی آواز ڈوب گئی۔
یہ سب اتنی تیزی سے ہوا کہ کسی کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ ہوا کیا ہے؟
غازی نے ڈوبنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے جو مہلت حاصل کی تھی اس نے اس سے فوراً ہی فائدہ اٹھانے کا سوچا تھا۔وہ سمندر کے کھارے پانی میں اندازے سے ایک جانب تیزی سے بڑھتا جا رہا تھا۔جیسے ہی اس نے انسانی ٹانگوں کو محسوس کیا تو اس نے تیزی سے ان کو جکڑتے ہوئے ،مخالف کے پیٹ میں زوردار ٹکر ماری تھی۔غازی اتنی تیزی سے عمل میں آیا تھا کہ کوئی اصل صورت حال کو سمجھ ہی نہیں پایا تھا۔
وہ پروفیسر کے پاس ہی دوبارہ سمندر کی سطح پہ ابھرا تھا۔غلطی سے وہ ٹکرپروفیسر حشام کے پیٹ میں لگی تھی اور وہ سمندر کے پانی میں ڈوبنے لگے تھے۔خنجر لہراتا ہوا ماہی گیروں کی لانچ کا انچارج بھی دھکا لگنے سے سنبھل نہیں سکا تھا۔غازی نے تیزی سے اس پہ حملہ کیا تھا۔ابتدائی طور پر تووہ بوکھلا گیا تھا مگر پھر سنبھل کر اس نے خنجر کا بھرپور وار غازی کی گردن پہ کیا۔ غازی نے کمال مہارت سے وار کو بچاتے ہوئے ایک زوردار مکا اس کے دائیں جبڑے پہ رسید کیا جسے وہ بچا نہ سکا۔ساتھ ہی غازی چیخا۔’’پروفیسر حشام کو بچائیں۔‘‘
غازی کے ساتھی فوراً ہی حرکت میں آئے اور پروفیسر کی طرف بڑھے جو سمندر کی سطح پر نظر نہیں آ رہے تھے۔پروفیسر کو بچا لیا گیا تھا اور انہیں تیزی سے لانچ کی طرف لے جایا گیا۔
غازی کی کوششوں سے اس کے ہاتھوں سے خنجر نکل گیا تھا۔دونوں ہی ایک دوسرے پہ بڑھ چڑھ کر حملے کر رہے تھے اور پھر غازی کی گردن اس کی گرفت میں آ گئی۔اس نے غازی کے سر کو پانی میں ڈبوتے ہوئے،گردن پہ دباؤ برقرار رکھا۔غازی کو سانس لینے میں مشکل ہو رہی تھی۔اسے لگ رہا تھا جیسے کہ اس کی جان قطرہ قطرہ جسم سے نکل رہی ہو۔سانس سینے میں ہی گھٹ کر رہ گیا تھا اور اعصاب ساتھ چھوڑتے جا رہے تھے۔ اس نے کوشش کرتے ہوئے اس کے پیٹ پہ ضرب لگانی چاہی مگر ہاتھوں میں تو جیسے جان ہی نہیں تھی۔گردن پہ پڑتا دباؤ اب ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا تھا اور ذہن پہ دھند بڑھتی جا رہی تھی۔چند لمحے اور گزرتے تو زندگی کی ڈور ٹوٹ جاتی۔غازی پہ بے ہوشی یا موت کا غلبہ بڑھتا جا رہا تھا اور پھر اس کے دونوں بازو پہلو میں لٹک کر رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آواز ان کے لئے اجنبی نہیں تھی۔وہ میجر گنپت راؤ کی آواز کو کیسے بھول سکتے تھے۔وہ ہندی کے ساتھ ساتھ اردو بھی اچھی بولتا تھا البتہ کہیں کہیں اس سے تلفظ کی غلطی ہو جاتی تھی۔
’’بھائی!مہمان نوازی کا انوکھا طریقہ تم نے ایجاد کیا ہے۔‘‘کرنل فاتح نے خوش دلی سے جواب دیا۔
’’ایجاد تو نہ جانے کس نے کیا تھا البتہ ہمارے صحیح وقت پہ کام آ گیا ہے۔‘‘میجر گنپت راؤ کا لہجہ طنزیہ تھا۔
کچھ دیر کے بعد انہیں بڑی عمارت میں پہنچا دیا گیا۔وہ مسلح گارڈز کے نرغے میں تھے۔وہیں ان کی ملاقات بغدادی صاحب،نارمن زبسکی اور میجر گنپت راؤ کے ساتھ ہوئی۔
’’کیوں کرنل کیسی رہی؟‘‘بغدادی صاحب نے ایک بے ہنگم قہقہہ لگاتے ہوئے پوچھا۔
’’کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں۔‘‘کرنل فاتح کا جواب سن کر نارمن زبسکی مسکرا دیا۔
’’کرنل!اب ہم تمہیں دکھائیں گے کہ ہم یہاں کیا کر رہے ہیں؟تمہیں یہ جاننے کی بہت اِچھا(خواہش) تھی نا۔‘‘بغدادی صاحب کے لفظ ’’اِچھا‘‘ کہنے پہ کرنل فاتح چونک اٹھے اور انہیں ایک عجیب سا احساس ہوا۔
’’بغدادی صاحب!آپ جو نظر آتے ہیں وہ آ پ ہیں نہیں۔آپ شاید ہمارے ’’نامہربان پڑوسی ملک‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘کرنل فاتح نے بغدادی صاحب کی آنکھوں میں آ نکھیں ڈالتے ہوئے پوچھا تھا۔
’’ہاں! اس میں کوئی شک نہیں کرنل کہ تم بہت ذہین ہو۔‘‘بغدادی صاحب نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔’’اگر تم یہ بات جان ہی گئے ہو تو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اس معلومات سے تم کبھی فائدہ نہیں اٹھا سکو گے۔‘‘
’’تمہارا اصل نام کیا ہے؟‘‘کرنل فاتح کے سرسراتے ہونٹوں نے سوال کیا۔
’’پرشوتم لعل!میں تمہارے ملک میں بھگوان کی کرپا(فضل) سے تیس سال سے ہوں۔اور اپنے متروں(دوستوں) کی خدمت کر رہا ہوں۔‘‘بغدادی صاحب نے اپنا اصل نام بتانے میں کوئی حرج نہ سمجھا تھا۔
’’پرشوتم لعل!تم اکیلے ہی ہو یا اور بھی تمہارے ساتھی سیاست کو گندہ کر رہے ہیں؟‘‘کرنل فاتح کا لہجہ آگ ایسا تھا۔
’’سیاست تو بڑی پوتر(پاک) شے ہوتی ہے۔‘‘پرشوتم لعل عیاری سے مسکرایا۔’’ایک نہیں یہاں تو کئی بغدادی موجود ہیں مگر وہ سارے سسٹم کا یوں حصہ بن چکے ہیں کہ تم کیا کسی کو بھی پتہ نہیں چل سکتا۔‘‘
’’تم شاید ہمیں جانتے نہیں ہو۔ان چھپے ہوئے موذی سانپوں کی گردن ہم ضرور موڑیں گے۔‘‘کرنل فاتح نے ایک عزم سے کہا۔
جواباًُ پرشوتم لعل ہنس پڑا۔’’بالکے پہلے اپنی تو خیر منا لو۔ہم تمہیں اب سورج دیکھنے نہیں دیں گے۔‘‘
’’تو کیا اب سورج پہ بھی تمہارا راج ہو گیا ہے۔‘‘کرنل فاتح نے مذاق اڑایا۔
’’یہ تو تمہیں جلد ہی پتہ چل جائے گا۔‘‘میجر گنپت راؤ نے جو ان کے قریب ہی کھڑا تھا ،نے ان کے سر کے بال زور سے کھینچتے ہوئے جواب دیا۔
’’تمہارے جیسے کمینے دشمنوں سے میں نہیں ڈرتا۔‘‘کرنل فاتح نے سر کوجھٹکا دیا تو میجر گنپت راؤ جھلاہٹ کا شکار ہو گیا۔اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور وہ کرنل فاتح پہ پل پڑا۔پرشوتم لعل اور نارمن زبسکی ارے ارے ہی کرتے رہ گئے۔
کرنل فاتح نے پہلے تو خود کو اس کے حملوں سے بچانے کی کو شش کی اور موقعے کی تلاش میں رہے۔جیسے ہی انہیں موقع ملا انہوں نے دیر نہیں کی۔میجر گنپت راؤ کی گردن ان کے آرم لاک میں آگئی ۔انہوں نے زور سے جھٹکا دیا تو میجر گنپت راؤ کا سانس رکنے لگا۔’’خبردار!اگر کوئی بھی اپنی جگہ سے ہلا تو میں اس کی گردن توڑ دوں گا۔‘‘وہ غرائے اور ہر طرف سنسنی سی پھیل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غازی کا ذہن سائیں سائیں کر رہا تھا۔اعصاب ساتھ نہیں دے رہے تھے اور موت کا تاریک سایہ آنکھوں کے سامنے لہرانے لگا تھا۔کوئی خیال یا سوچ اب ذہن میں نہیں تھی۔ڈوبتے ہوئے ذہن کے ساتھ اچانک ہی ایک جھٹکا لگا۔اسے اپنے پہلو میں شدید تکلیف کا احساس ہوا۔طلسم جیسے ٹوٹ گیا تھا۔ذہن پہ چھائی دھند چھٹنے لگی تھی اور پہلو پہ لٹکتے ہاتھوں میں ایک لہر سی دوڑ گئی تھی۔اسے احساس ہوا کہ اس کے پہلو میں کسی چیز سے زور دار ٹھوکر لگائی گئی تھی۔شاید حملہ آور نے اپنی ٹانگ کا ستعمال کیا تھا۔اس کی گردن پہ دباؤ کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہو گیا تھا اور وہ سانس ذرا سہولت سے لینے لگا تھا۔اس کی نگاہوں کے سامنے جو منظر آیا اسے دیکھ کر وہ پھر سے جی اٹھا۔دو کمانڈوز اس پہ حملہ کرنے والے پہ جھپٹ رہے تھے۔وہ بھی تیزی سے ان کی مدد کو لپکا۔تھوڑی دیر کے بعد وہ اس پہ قابو پا چکے تھے۔غازی کو اپنے پہلو میں تکلیف کا احساس تو موجود تھا مگر وہ اس تکلیف کو برداشت کر سکتا تھا۔
غازی اور کمانڈوز کے انچارج نے مشورے کے بعد یہ ہی فیصلہ کیا کہ’’ پروفیسر حشام کی بے ہوشی کی وجہ سے انہیں فوراً طبی امداد مہیا کرنے کی ضرورت کی وجہ سے شہر کا رخ کرنا ہی مناسب رہے گا۔‘‘پروفیسر حشام گہری بے ہو شی کا شکار تھے۔ان کے پیٹ سے پانی نکال دیا گیا تھا اور انہیں فوری طبی امداد دی گئی تھی۔غازی ان کی طرف دیکھتے ہوئے تشویش کا شکار تھا۔موٹر بوٹ تیزی سے اپنا سفر طے کر رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیردل تیزی سے جھاڑیوں میں رینگ گیا تھا۔زلزلے کے جھٹکے ابھی بھی محسوس ہو رہے تھے مگر وہ زمین سے یوں چمٹا ہوا تھا جیسے زمین ہی کا حصہ ہو۔کرنل فاتح اور ان کے ساتھیوں کا بڑے بڑے جالوں میں الجھ جانا اور پھر ان کی گرفتاری اس نے اپنی آ نکھوں سے دیکھی تھی۔’’زلزلہ‘‘جب رک گیا اور ہر طرف ہو کا عالم طاری ہو گیا تو شیردل اپنی کمین گاہ سے نکلا۔ہر ممکن طریقے سے اس نے تیزی سے مگر احتیاط سے سفر کیا اور یوں تھوڑی دیر کے بعد وہ استاد قاسم کے پاس پہنچ گیا۔کرنل فاتح کی گرفتاری کا سن کر استاد قاسم فکر مند ہو گیا۔
’’فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ابا جان پہلے بھی ایسے حالات کا شکار ہوئے ہیں وہ یقیناکوئی راستہ نکال لیں گے۔‘‘شیردل نے اسے تسلی دینا چاہی۔
’’ہمارا دشمن بے حد کمینہ ہے اور پھر اسے ہمارے پڑوسی ملک کی بھی پوری مدد حاصل ہے۔‘‘استاد قاسم کی تشویش کم نہیں ہوئی تھی۔
’’ہمارے ساتھ ہمارا اللہ ہے۔اس کی ذات سے ہمیشہ بہتری کی امید ہی رکھنی چاہئے۔‘‘شیردل کے لہجہ نے استاد قاسم کو بہت حوصلہ دیا۔
کچھ دیر مشورہ کرنے کے بعد دونوں اسی نتیجے پر پہنچے کہ دو گھنٹے کے بعد وہ کرنل فاتح اور ان کے ساتھیوں کو چھڑانے کی مہم پہ نکلیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصرت صاحب کی گھڑی پہ ہونے والے ارتعاش کی وجہ سے ان کی دائیں کلائی کانپنے لگی تھی۔یہ گھڑی انہیں کرنل فاتح نے دی تھی اور ان کے سامنے ایک خاص مقصد تھا۔وہ فوراً حرکت میں آئے۔ان کی ٹیم پہلے سے ہی تیار تھی۔چار مختلف شہروں میں ٹرینڈ کمانڈوز کی ٹیمیں فوراً حرکت میں آئیں اور تیزی سے اپنے ہدف کی طرف بڑھنے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹروں کی سر توڑ کوشش کی بدولت پروفیسر حشام کی بے ہوشی ختم ہوئی۔ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ کسی مہلک گیس کی وجہ سے ان کے اعصاب تقریباً مردہ ہو گئے تھے۔ان کے سر پہ شدید چوٹ کے آثار بھی پائے گئے تھے۔البتہ دماغ اندرونی ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رہا تھا۔
انہیں جب ہوش آیا تو کچھ دیر تک ان کی نگاہیں یوں ہی خلا میں گڑی رہیں۔انہیں کئی گھنٹوں کے بعد ہو ش آ یا تھا اور اس کے بھی دوگھنٹوں کے بعد انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ’’ وہ دوستوں میں ہیں اور دشمنوں سے ان کی جان چھوٹ گئی ہے۔‘‘
ڈاکٹروں نے ابھی ان سے ملنے پہ پابندی لگا دی تھی۔غازی کو ان کے ہوش میں آنے کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن ابھی ان سے ملاقات نہیں ہو سکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل فاتح کی مضبوط کلائی نے میجر گنپت راؤ کی گردن کو جکڑ رکھا تھا اور وہ اسے لے کروسیع کمرے کے ایک کونے میں ہو گئے تھے تاکہ ان پہ بے خبری میں کوئی وار نہ کر سکے۔
’’کرنل! یہ تم اچھا نہیں کر رہے۔تمہاری موت بے حد درد ناک ہو گی۔‘‘پرشوتم لعل نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
’’ابھی تو تم اپنی خیر مناؤ۔‘‘کرنل فاتح کا انداز چوکنا تھا۔
’’خیر تو تم اب اپنے ملک کی مناؤ۔جلد ہی تم دیکھ لو گے کہ ہم کیسے تمہارے بڑے بڑے شہروں میں تباہی پھیلاتے ہیں۔‘‘پرشوتم لعل کا لہجہ بے حد زہریلا تھا۔
’’کیا مطلب؟‘‘کرنل فاتح کی کشادہ پیشانی پہ شکنیں نمودار ہو گئیں۔
’’مطلب بھی جلد ہی سمجھ میں آ جائے گا جب تم خود اپنی آنکھوں سے اپنے شہروں کی تباہی دیکھو گے۔‘‘پرشوتم لعل کا لہجہ بدستور زہریلا رہا۔
’’آپ اب خاموش ہو جائیں۔یہ راز کی باتیں ہیں اور ہمیں انہیں وقت سے پہلے سب کے سامنے نہیں لانا چاہئے۔‘‘نارمن زبسکی نے پرشوتم لعل کو مزید کچھ کہنے سے روکنا چاہا۔
’’یہ راز کی باتیں تھیں۔‘‘پرشوتم لعل کے انداز میں بے پرواہی تھی۔’’پروفیسر حشام کی بیماری کی وجہ سے ہم اپنے پلان اے پہ تو عمل نہیں کر سکیں گے البتہ پلان بی بھی تمہیں کافی نقصان پہنچائے گا۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں کہ پلان اے اور بی کیا ہیں؟‘‘کرنل فاتح کا انداز سرسری سا تھا۔
’’میں تمہیں ضرور بتاؤں گا کیوں کہ اب تم یہاں سے زندہ بچ کر تو نہیں جاؤ گے۔‘‘پرشوتم لعل مسکرایا۔’’مرنے سے پہلے یہ جاننا تمہارا حق ہے کہ تم نے کیوں اپنی جان لٹائی؟‘‘
’’بغدادی صاحب !آپ جذباتی ہو رہے ہیں۔کرنل کی باتوں میں نہ آئیں۔‘‘نارمن زبسکی ابھی تک پرشوتم لعل کو بغدادی صاحب ہی کہہ رہا تھا اور اسے باز رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔’’وہ باتوں ہی باتوں میں سارا منصوبہ جان لینا چاہتے ہیں۔آپ ایسا موقع انہیں نہ دیں۔‘‘
’’میں کوئی بچہ نہیں ہوں۔‘‘پرشوتم لعل نے برا سا منہ بنایا۔’’میں اتنا رحم دل تو ہوں ہی کہ مرنے والے کی آخری اِچھا( خواہش )پوری کرسکوں۔کیوں کرنل میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟‘‘
’’میرا خیال ہے کہ مرنے والے کی آخری خواہش تو بڑے سے بڑا دشمن بھی پوری کر سکتا ہے اور آپ تو پھر ہمارے بغدادی صاحب ہیں۔‘‘کرنل فاتح کے لہجہ میں واضح طنز تھا۔
’’ہم تمہاری آخری خواہش ضرور پوری کریں گے۔‘‘پرشوتم لعل کا لہجہ شاہانہ ہو گیا۔’’لیکن تم پہلے گنپت کوچھوڑ دو ورنہ میرا ایک اشارہ کرنے کی دیر ہے اور تمہارے سارے ساتھی خاک و خون میں تڑپتے نظر آئیں گے۔‘‘
’’لو چلو چھوڑ دیا۔تم بھی کیا یاد کرو گے کہ کس رئیس سے پالا پڑا تھا۔‘‘یہ کہتے ہوئے انہوں نے میجر گنپت راؤ کو ایک دھکے سے آگے کی طرف دھکیلا۔
میجر گنپت راؤ سنبھلنے کی کوشش میں بھی لڑکھڑا کر رہ گیا۔اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔’’کرنل! میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے شمشان گھاٹ پہنچاؤں گا۔‘‘اس نے کرنل فاتح کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’اچھا تو تم مردے ڈھونے کا کام بھی کر لیتے ہو۔‘‘کرنل فاتح نے اس کا مذاق اڑایا۔
’’تمہارا مردہ تو میں ہی خراب کروں گا۔‘‘اس کا لہجہ بہت خراب تھا۔وہ ایک ہاتھ سے اپنی گردن کی مالش کر رہا تھا۔
’’پرشوتم لعل! یہ مت سمجھنا کہ میں نے کسی ڈر یا خوف کی وجہ سے میجر کو چھوڑ دیا ہے۔‘‘کرنل فاتح کا انداز پرسکون تھا۔’’مجھے بتاؤ یہ سب کیا گورکھ دھندہ ہے؟‘‘
’’میں نے تمہیں کہا تھا نا کہ مرنے والے کی آخری اچھا(خواہش) میں ضرور پوری کروں گا۔‘‘پرشوتم لعل کے چہرے پہ خباثت بھری مسکراہٹ تھی۔’’بس ایک منٹ صبر کر لو۔ذرا سائنس دان انیل دوبے کو آ جانے دو۔‘‘یہ کہہ کر اس نے کسی کو اشارہ کیا تو وہ سر جھکا کر چلا گیا۔
انیل دوبے متوسط قد و قامت کا گہری سیاہ رنگت والا ادھیڑ عمر شخص تھا۔اس کا انداز فدویانہ تھا۔
’’دوبے! ذرا ہمارے اس سجن کو بتا نا تو پروفیسر کا پروجیکٹ کہاں تک پہنچا ہے؟اور ہمارے پلان بی کا کیا ہو رہا ہے؟‘‘پرشوتم لعل نے مسکراتے ہوئے دوبے سے کہا۔
’’سر! پروفیسر کا ڈیزائن کیا ہوا دور مار میزائل پرواز کے لئے تیار ہے بس ایک آنچ کی کسر باقی ہے۔جیسے ہی پروفیسر نے وہ کوڈ لگایا تو میزائل اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جائے گا۔‘‘دوبے کا سر جھکا ہوا تھا۔
’’کیوں وہ کوڈ تمہیں معلوم نہیں؟‘‘کرنل فاتح نے دوبے کو خود ہی مخاطب کرتے ہوئے پوچھ لیا۔
جواب میں دوبے نے پرشوتم لعل کی طرف دیکھا جیسے اس سے جواب دینے کی اجازت مانگ رہا ہو۔جواباً پرشوتم لعل بول پڑا۔’’دوبے پروفیسر کے ساتھ ہی کام کر تا رہا ہے۔صرف ایک کوڈ کی کمی ہے جو دوبے پروفیسر سے نہیں لے سکا۔پروفیسر وہ کوڈ بھول گیا ہے جو اس کی کسی نیلی ڈائری میں لکھا ہوا ہے۔‘‘
کرنل فاتح نے یوں سر ہلایا جیسے ساری بات سمجھ گئے ہوں۔وہ بولے۔’’اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تمہارا میزائل والا منصوبہ ناکام ہو گیا۔ویسے یہ منصوبہ تھا کیا؟‘‘
’’تم اسے ناکام نہیں کہہ سکتے۔‘‘پرشوتم لعل نے برا سا منہ بنایا۔’’وقتی طور پہ اس پہ کام رکا ہوا ہے۔ہمارا پلان بی ہی تمہاری تباہی کے لئے کافی ہے۔جب بھی ہم نے یہ میزائل استعمال کئے تو ہزاروں میل کے رقبہ میں ہر طرف موت ہی موت بچھی نظر آئے گی۔‘‘آخر میں اس کا انداز ڈرامائی ہو گیا تھا۔
کرنل فاتح نے دیکھا کہ ان کے ساتھیوں پہ یہ بات سن کر عجیب سا اثر ہوا تھا۔کچھ بے چین لگ رہے تھے اور کچھ ایسے لگ رہے تھے جیسے کہ حوصلہ ہار گئے ہوں۔انہوں نے اپنی توجہ پرشوتم لعل پر مرکوز کرتے ہوئے کہا۔’’مارنے والے سے بچانے والا زیادہ بڑا ہے۔اللہ کریم نے ہمیں ایک بڑی تباہی سے بچا لیا۔‘‘
’’بچایا وچایا کوئی نہیں بس ذرا تمہیں تھوڑا وقت مل گیا ہے زندگی گزارنے کا۔‘‘میجر گنپت راؤ نے اس بار جواب دیا اور مزید کہا۔’’سب سے زیادہ مزے کی بات تو یہ ہے کہ پروفیسر ہمارے لئے کام کر رہا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اپنے ملک کے بڑی خدمت کر رہا ہے۔‘‘یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگا تو اس کے ساتھ کئی ساتھی بھی ہنسنے لگے۔
’’اور پلان بی کیا ہے؟‘‘کرنل فاتح اپنے مخصوص انداز میں ان سے ساری معلومات حاصل کر لینا چاہتے تھے۔
’’ہم نے سوچا تھا کہ اگر کسی وجہ ے میزائل والا منصوبہ ناکام ہوا تو بھی تمہارے ملک کو زیادہ سے زیادہ نقصان کیسے پہنچایا جائے۔ہمارے سائنس دانوں نے چار چھوٹے مگر بے حد تباہ کن دور مار میزائل بنائے ہیں۔وہ ہمیشہ اپنے ٹارگٹ پہ ہٹ کر کے تباہی پھیلاتے ہیں۔تمہارے متر(دوست) احمد شیرانی کی چار کیمیکل فیکٹریوں میں ہم نے میزائل کو گائیڈ کرنے والی بڑی بڑی ڈشز لگائی ہیں۔وہ ڈشز ایک طرح سے ریسیور کا کام کرتی ہیں۔جب میزائل چھوڑا جاتا ہے تو وہ ڈش کے احاطہ میں سفر کرنے والی مخصوص شعاعوں کا تعاقب کر کے ڈش سے جا کر ٹکراتا ہے اور پھر تباہی مچا دیتا ہے۔‘‘پرشوتم لعل مزے لے لے کر بتا رہا تھا اور کرنل فاتح اور ان کے ساتھیوں کے چہرے پہ ایک رنگ آ رہا تھا اور ایک جا رہا تھا۔
’’اور اگر ڈش کام نہ کرے یا وہاں سے ہٹا دی جائے تو پھر میزائل کا کیا بنتا ہے؟‘‘کرنل فاتح ایسی حالت میں بھی کہ ان کا دل دھک دھک کر رہا تھا،سوال پوچھنے سے باز نہیں آئے۔
’’اول تو ایسا ہونا ہی ممکن نہیں کیوں کہ تمہارے متر کا جوان بیٹا ہمارے قبضہ میں ہے اور وہ کبھی بھی اس کی موت نہیں چاہے گا۔پھر اس نے ہمیں چاروں فیکٹریاں اپنی ’’خوشی‘‘ سے لیز پر دی ہیں۔بے چارے کی چاروں فیکٹریاں جب میزائل ہٹ کرنے سے تباہ ہوں گی تو ذرا سوچو فیکٹریوں میں موجود کیمیکل کی موجودگی سے جو تباہی مچے گی اس سے کتنا مزہ آئے گا۔‘‘پرشوتم لعل نے پلان بی بتاتے ہوئے کہا۔
’’شہر میں جو کئی سائنس دانوں کے بچوں کو اغوا کرنے کا سلسلہ تھا وہ کیا تھا؟‘‘کرنل فاتح آج ساری ہی باتیں جان لینا چاہتے تھے۔
’’جب ہمیں پتہ چلا کہ تمہاری حکومت نے مغربی ممالک میں کام کرنے والے اپنے سائنس دانوں کو واپس ملک آنے کے لئے کہا ہے اور انہیں پرکشش پیکجز کی آفر کی جا رہی ہے تو ہمیں اس بات کی بہت تشویش ہوئی۔‘‘پرشوتم لعل سنجیدگی سے بتا رہا تھا۔’’اس لئے یہ پروگرام ترتیب دیا گیا کہ ان کے بچوں کو اغوا کر کے ایک تو ان سے تاوان لیا جائے اور دوسرا انہیں مجبور کیا جائے کہ وہ ملک چھوڑ کر واپس مغربی ممالک کو لوٹ جائیں۔‘‘
’’تمہیں اس میں کتنی کامیابی نصیب ہوئی؟‘‘انہوں نے پوچھا۔
’’زیادہ نہیں۔‘‘اس نے منہ بنایا۔’’صرف دو تین سائنس دان ہی گھبرا کر واپس گئے ہیں اور پھر تم اور تمہارے ساتھیوں نے بھی ہمارا راستہ کاٹنے کی کوشش کی تھی۔‘‘
اسی دوران کرنل فاتح کے ہاتھ پہ بندھی ہوئی مخصوص گھڑی پہ ہلکا سا ارتعاش تین بار ہوا۔انہوں نے گھڑی پہ ایک نظر ڈالی اور ساتھ ہی اطمینان کا سانس لیا۔انہیں گرفتار کرنے کے بعد چوں کہ انہیں بڑی عمارت کے اسی کمرے میں لایا گیا تھا اس لئے ان کی تلاشی اچھی طرح سے نہیں لی گئی تھی۔انہوں نے گھنٹہ بھر پہلے ہی اپنی گھڑی کا ایک مخصوص بٹن دبایا تھا اور نصرت صاحب کو ان کا پیغام مل گیا تھا۔
’’سر سر !گگ۔۔گجب(غضب) ہو گیا۔‘‘ایک شخص دوڑتا ہوا کمرے میں داخل ہوا تو سب ہی اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔اس کا ماہی گیری کا لباس پانی سے نچڑ رہا تھا جیسے وہ ابھی ابھی سمندر سے نکل کر آیا ہو۔تھوڑی دیر بعد اس بات کی تصدیق بھی ہو گئی۔
اس نے بتایا کہ’’ کوسٹ گارڈز کی بوٹس نے ان کا تعاقب کر کے پروفیسر کو ان سے چھین لیا تھا۔‘‘
’’کیا بکواس کر رہے ہو؟‘‘پرشوتم لعل دھاڑا۔’’خطرہ دیکھ کرتم نے پروفیسر کو موت کے گھاٹ کیوں نہ اتار دیا؟‘‘
’’سرجی! کوشش کی تھی پر رام کی مرجی(مرضی) نہیں تھی۔‘‘وہ ڈرے ڈرے انداز میں بولا۔
’’رام کی مرجی نہیں تھی۔‘‘یہ کہہ کر پرشوتم لعل نے اپنی جیب سے پسٹل نکالا اور اس کے سینے میں تین گولیاں اتار دیں۔’’تیری موت تو رام کی مرجی سے ہی ہوئی ہے نا۔‘‘اس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہیں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیردل،استاد قاسم اور اس کے تین ساتھی محتاط انداز میں تیزی سے بڑی عمارت کی جانب بڑھے جا رہے تھے۔ عمارت ایک پہلو سے گولائی کی شکل میں تھی اور ساری گولائی کی تعمیر میں رنگ دار شیشہ استعمال کیا گیا تھا۔شیشے کی دیوار سے اندر دیکھنا ممکن نہیں تھا۔وہ سب ابھی شیشے کی دیوار سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھے کہ دیوار درمیان سے آسمان کی طرف اٹھتی چلی گئی،جیسے کسی بڑی سی الماری کے دونوں پٹ کھل گئے ہوں۔اس میں سے تین افراد باہر آئے۔انہوں نے عجیب و غریب لباس پہن رکھے تھے۔اپنے لباس سے وہ کسی خلائی مہم کے خلاباز لگتے تھے۔ان کے ہاتھوں میں عجیب و غریب سی چھوٹی نال کی گنز تھیں۔شیردل کا خیال تھا کہ وہ شعاعی گنز ہو سکتی ہیں۔اگر اس کا خیال ٹھیک تھا تو وہ شعاعیں جس جان دار پہ بھی پڑ جاتیں تو اسے لمحہ بھر میں جلا کر رکھ دیتیں۔
شیردل اور استاد قاسم نے ان پہ قابو پانے کا فیصلہ کر لیا۔جیسے ہی وہ قریب آئے تو یہ سب ان پہ جا پڑے۔انہوں نے کوشش یہ ہی کی تھی کہ شعاشی گنز حاصل کر لیں یا ان کے ہاتھوں سے گرا دیں۔شیردل کی زوردار ٹھوکر نے اس کے مقابل کے ہاتھوں سے گن نکال دی تھی۔چند منٹوں کے اندر ہی وہ ان سب پہ قابو پا چکے تھے۔ان میں سے ایک ہو ش میں تھا اور دو بے ہوش ہو چکے تھے۔ان کے ہاتھ اور پاؤں باندھنے کے بعد وہ انہیں گھنی جھاڑیوں کے بیچ لے آئے تھے۔
شیردل نے جو شخص ہوش میں تھا اس سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی مگر اس نے کچھ بھی بتانے سے انکار کر دیا۔شیردل نے چند لمحے سوچ بچار کے بعد شعاعی گن کو اس کی طرف سیدھا کیا اور بولا۔’’اگر تم ہمیں کچھ بھی نہیں بتا نا چاہتے تو پھر تم ہمارے لئے غیرضروری ہو اس لئے ہم تمہیں اوپر بھیج دیتے ہیں۔‘‘
شعاعی گن کا رخ اپنی طرف دیکھ کر اس کی آنکھیں خوف سے پھٹ گئیں۔’’پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘وہ زور سے چلایا تو شیردل کو اس کے منہ پہ ہاتھ رکھنا پڑا۔
’’آواز زیادہ بلند نہ ہو اور ہمارے سولات کا صحیح صحیح جواب دینے کی صورت میں تمہاری بچت کی صورت نکل سکتی ہے ورنہ۔۔۔‘‘شیردل نے شعاعی گن کا رخ دوبارہ اس کی طرف کر دیا۔
تھوڑی دیر میں وہ فر فر سارے سوالات کے جواب دے رہا تھا۔اس نے بتایا کہ’’ وہ لیبارٹری کے اس حصہ کا انچارج ہے جہاں پہ میزائل اپنے ٹارگٹ پہ حملہ کرنے کے لئے تیار کھڑے ہیں۔‘‘اس سے تمام معلومات حاصل کرنے کے بعد شیردل نے اسے بھی بے ہو ش کر دیا۔ان کے دو ساتھی بے ہوش ہو جانے والوں کو لے کر اپنے مخصوص ٹھکانہ کی طرف چل پڑے۔
استاد قاسم کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد شیردل،استاد قاسم اور ان کا ایک ساتھی عمارت کے اندر جانے کے لئے تیار ہو گئے۔انہوں نے وہ خلابازوں والا لباس پہن لیا۔وہ لباس ایٹمی تابکاری سے بچانے والا تھا۔شیردل کے ہاتھ میں ایک مخصوص ریمورٹ کنٹرول تھا۔اس نے اس کا ایک بٹن دبایا تو شیشے کی دیوار نے انہیں راستہ دے دیا۔ایک اور بٹن دبانے سے وہ راستہ بند ہو گیا اور دیوار اپنی جگہ واپس آگئی۔اسے دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ شیشے کی دیوار میں کوئی راستہ بھی ہو سکتا ہے۔
ان کے سامنے ہی چار میزائل سر اٹھائے لانچرپہ کھڑے تھے۔لیبارٹری میں رات کے اس پہر صرف دو تین لوگ ہی موجود تھے اور انہوں نے بھی ایک خاص کپڑے سے بنے ہوئے لباس پہن رکھے تھے۔ان کے چہرے البتہ نظر آ رہے تھے۔ان سے کسی نے بھی تعرض نہیں کیا۔ تھوڑی دیر لیبارٹری کا غیر محسوس انداز میں چکر لگانے کے بعد شیردل عمارت کے اس حصے سے اچھی طرح واقف ہو گیا۔جو لوگ لیبارٹری میں کام کر رہے تھے انہوں نے ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی تھی اور یہ ہی بات ان کے لئے مضر ثابت ہوئی۔انہیں بے ہوش کر کے باندھنے میں انہیں زیادہ دشواری نہیں ہو ئی۔انہیں ایسی جگہ چھپا دیا گیا کہ وہ آسانی سے نظر نہ آ سکیں۔ابھی وہ اپنے اس عمل سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ انہیں قدموں کی آہٹ سنائی دی۔قدموں کی آہٹ سے پتہ چلتا تھا کہ اس طرف آنے والے لوگوں کی تعداد کافی ہے۔آنے والوں میں کرنل فاتح اور ان کے ساتھیوں کو دیکھ کر شیردل کا دل عجیب انداز سے دھڑکنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’دوبے!میزائل کے ٹیسٹ کا وقت آگیا ہے۔چل کے ذرا ہمیں اپنی مہارت تو دکھاؤ۔‘‘پرشوتم لعل کے چہرے پہ خباثت بھری مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
چاق و چوبند گارڈز کے پہرے میں انہیں اس ہال میں لایا گیا جہاں چار دور مار میزائل موجود تھے۔
’’ارے یہ گوبند،سکھی اور ہرجیت کہاں گئے؟‘‘دوبے نے چاروں طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔وہ رات والے عملے کو ڈھونڈھ رہا تھا۔
’’حرام کھور(حرام خور)!کہیں پڑ کر سو رہے ہوں گے۔‘‘میجر گنپت راؤ نے بے پرواہی سے کہا۔
’’سر! ان کے بغیر میزائل لانچ نہیں ہو سکتے۔میں اکیلا یہ سب کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘دوبے نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔
’’تو جا کر ڈھونڈو اپنے ان۔۔۔۔۔۔‘‘پرشوتم لعل نے انہیں ایک گندی سی گالی دیتے ہوئے دوبے کو اشارہ کیا۔
دوبے ہال کے ایک دروازے سے اندر کسی کمرے کی طرف جانے لگا تو نہ جانے کیا ہوا کہ وہ پھسل کر زمین پہ گرا۔کسی کو اس کے گرنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔شیردل کے ہونٹوں پہ ایک مسکراہٹ آ گئی لیکن یہ مسکراہٹ کسی نے نہیں دیکھی۔شیردل نے استاد قاسم کی ٹانگ کو لمحے بھر کے لئے حرکت میں آتے ہوئے دیکھا تھا اور دوبے زمین پہ نظر آ رہا تھا۔
’’اس کمبخت کو کیا ہوا؟‘‘پرشوتم لعل نے اسے زمین پہ پڑے دیکھ کر بیزاری سے کہا۔
’’میں دیکھتا ہوں۔‘‘یہ کہہ کر نارمن زبسکی دوبے کی طرف بڑھا۔پھر نہ جانے کیا ہوا؟ نارمن زبسکی کے منہ سے ایک سسکی سی نکلی اور وہ بھی زمین پہ نظر آیا۔استاد قاسم نے جیسے ہی اسے دوبے پہ جھکتے ہوئے دیکھا تو اس کے سر پہ اپنی گن سے ضرب لگائی تھی۔شیردل کو اسی لمحے کا انتظار تھا۔وہ اور اس کا دوسرا ساتھی تیزی سے حرکت میں آئے۔شیردل نے پرشوتم لعل کی گردن کو اپنے بائیں ہاتھ کی گرفت میں لے کر دائیں ہاتھ میں موجود شعاعی گن اس کے سر سے لگا دی۔اس کے ساتھی نے اپنے قریب کھڑے ہوئے ایک گارڈ کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا۔استاد قاسم نے بڑے ہی چوکنا انداز میں نارمن زبسکی کو سنبھال لیا تھا۔
’’خبرداربغدادی صاحب! اپنے گارڈز کو کہیں کہ اپنا سارا اسلحہ سامنے زمین پہ ڈھیر کر دیں۔‘‘شیردل کے لہجہ میں موجود سفاکی کو محسوس کر کے پرشوتم لعل کانپ اٹھا۔
’’تت۔۔۔تم۔۔۔۔کون ہو۔۔؟‘‘پرشوتم لعل ہکلا کر رہ گیا۔اپنے ہی ساتھیوں کو خود پہ اسلحہ تانے دیکھ کر وہ بوکھلا گیا تھا۔
’’ہم تمہارے دوست تو ہرگز نہیں ہیں۔خبردار!اپنے ہاتھ پیچھے رکھو۔‘‘شیردل نے ایک گارڈ کو اپنی گن سیدھے کرتے دیکھ کر وارننگ دی اور پھر اس کی شعاعی گن سے چند شعلے سے لپکے اور گارڈ کے جسم سے لپٹ گئے۔دوسرا لمحہ حیران کن تھا۔گارڈ کا جسم سوکھی ہوئی لکڑی کی طرح جل رہا تھا۔وہ خوف کے مارے چلا رہا تھا اور ہال میں چکراتا پھر رہا تھا ۔اس کے ہاتھ سے گن پہلے ہی نکل چکی تھی۔چند منٹ میں ہی اس کا جسم جل کر کوئلہ ہو چکا تھا۔پرشوتم لعل اور اس کے دوسرے ساتھیوں کے چہرے خوف و ہراس کا شکار ہو گئے تھے۔
’’اب اگر کسی نے زیادہ دلیر بننے کی کوشش کی تو اس کا حال بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا۔‘‘شیردل نے کوئلہ ہوجانے والے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وارننگ دی۔
’’سب لوگ ہتھیار پھینک دیں۔‘‘پرشوتم لعل کے منہ سے گھٹی گھٹی آواز برآمد ہوئی۔جواباً اس کے تمام گارڈز نے اپنے ہتھیار پھینک دئیے۔
کرنل فاتح اور ان کے ساتھیوں نے فوراً ہی تبدیل ہو جانے والے حالات کے مطابق کارروائی کی۔انہوں نے تمام لوگوں کی تلاشی لی کہ کہیں کسی کے پاس کوئی چھپا ہوا ہتھیار نہ ہو۔کئی گارڈز کے پاس سے ریوالور اور پسٹل بھی برآمد ہوئے۔
کرنل فاتح بڑے فخر سے اپنے بیٹے شیردل کی طرف دیکھ رہے تھے۔اس نے حالات کا پانسہ پل بھر میں اپنے حق میں کر لیا تھا۔پرشوتم لعل اور اس کے ساتھیوں کو باندھ لیا گیا تھا۔پرشوتم لعل کے منہ سے غلیظ گالیاں نکل رہی تھیں اور وہ انہیں خطرناک نتائج کی دھمکیاں دے رہا تھا۔استاد قاسم سے برداشت نہ ہوا تو اس نے بڑھ کر پرشوتم لعل کے منہ پہ زوردار ٹھوکر رسید کی۔اس کے کئی دانت ٹوٹ کے منہ سے باہر آ گئے اور خون میں تر چہرہ خوفناک لگنے لگا۔
’’اب اگر تیری گندی زبان نے ذرا سا بھی زہر اگلا تو میں تجھے جان سے مار دوں گا۔‘‘استاد قاسم کی پھنکار سن کر پرشوتم لعل کا رنگ فق ہو گیا۔
’’یہ میجر گنپت راؤ کہاں ہے؟‘‘ شیردل نے تمام بندھے ہوئے لوگوں کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔’’وہ نظر کیوں نہیں آ رہا؟‘‘
اب سب نے اس طرف دھیان دیا تو پتہ چلا کہ میجر گنپت راؤ غائب تھا۔نہ جانے کس وقت وہ موقع دیکھ کر وہاں سے غائب ہو گیا تھا۔
’’آخر وہ کہاں جا سکتا ہے؟‘‘استاد قاسم نے ہر طرف نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
’’میں یہیں ہوں میرے دوستو۔میں بھلا کہاں جاؤ ں گا۔آخر تمہارا حساب بھی تو چکتا کرنا ہے۔‘‘ہال کے شیشے والی دیوارسے میجر گنپت راؤ نے داخل ہوتے ہوئے کہا۔شیشے والی دیوار کھلی ہوئی تھی۔اس کے ساتھ جدید ہتھیاروں سے لیس سات گارڈز بھی تھے۔ اس کے اپنے ہاتھ میں چھوٹی نال کی اسرائیلی یوزی گن تھی جو کہ بے حد تباہی پھیلا سکتی تھی۔
’’سب ہتھیار چھوڑ دیں ورنہ میں اس کی کھوپڑیاں اڑا دوں گا۔‘‘وہ استاد قاسم کے قریب تھا اور اس کی گن استاد قاسم کے سر سے لگ گئی تھی۔
کرنل فاتح نے سب کو اشارہ کیا تو زمین پہ چھوٹے بڑے ہتھیاروں کا ڈھیر لگ گیا۔لمحہ بھر میں پانسہ پلٹ گیا تھا۔اچانک شیردل نے ایک لمبی چھلانگ لگائی اور تیزی سے میجر گنپت راؤ کے گھٹنوں پہ چوٹ لگاتے ہوئے زمین پہ پھسلتا چلا گیا۔میجر گنپت راؤ لڑکھڑا کر رہ گیا۔اس نے پھر بھی یوزی گن کا رخ شیردل کی طرف کر کے ایک برسٹ مار دیا۔کرنل فاتح کا دل ایک لمحے کے لئے رک سا گیا۔وہ اور ان کے ساتھی میجر گنپت راؤ اور ان کے ساتھیوں پہ ٹوٹ پڑے۔ایک زور دار دھکا لگنے سے میجر گنپت راؤ کے ہاتھوں سے یوزی گن نکل گئی۔اسے دھکا دینے والا شیردل تھا۔تھوڑی دیر میں ہال میدانِ جنگ بن چکا تھا۔میجر گنپت راؤ کے ساتھی اپنی گنز کو لاٹھی کی طرح استعمال کرنے پر مجبور تھے۔ایک دو نے فائر کرنے کی کوشش کی مگر کوئی خاص نقصان نہ کر سکے۔ایک گارڈ جب زمین پہ گرا تو فوراً ہی ساکت ہو گیا۔استاد قاسم اس سے لڑ رہا تھا۔وہ جلدی سے اپنے ایک ساتھی کی مدد کے لئے بڑھا۔زمین پہ گرا ہوا گارڈ اچانک اٹھا۔اس نے ایسا ظاہر کیا تھا جیسے وہ بے ہو ش ہو گیا ہو۔اس نے گن سیدھی کی اور گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔استاد قاسم کو کئی گولیاں لگیں او روہ زمین پہ گر گیا۔گارڈ کو مزید گولیاں چلانے کا موقع نہیں ملا۔شیشے کی کھلی دیوار سے درجنوں گولیوں نے اس کا سینہ چھلنی کر دیا تھا۔
’’اب گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔میں آ گیا ہوں۔‘‘غازی کی چہکتی ہوئے آ واز نے جیسے شیردل اور کرنل فاتح کی ہمت کو جواں کر دیا۔
میجر گنپت راؤ کو زندہ گرفتار کر لیا گیا تھا۔اس کے تین ساتھی اس لڑائی میں اپنی زندگی کھو بیٹھے تھے۔پرشوتم لعل بھی زندگی ہار گیا تھا۔اس کی کنپٹی سے خون بہہ رہا تھا۔نہ جانے اسے کس کی گولی لگی تھی؟
کرنل فاتح نے شیردل کو گلے لگایا اور وہ اس کے سارے جسم کو ٹٹول رہے تھے۔
’’میں ٹھیک ہوں۔یہ لباس بلٹ پروف ہے۔‘‘شیردل نے ان کی تشویش کم کرنا چاہی۔وہ ابھی تک اس اسپیشل لباس میں ہی تھا۔
’’ہیں یہ تم چاند سے کب واپس آئے؟‘‘غازی اس کے لباس کی طرف اشارہ کر کے پوچھ رہا تھا۔
’’مجھے آئے ہوئے تو کچھ دیر ہو گئی لیکن جناب کی تشریف آواری کیسے ہوئی؟‘‘شیردل نے جواباً مسکراتے ہوئے کہا۔دونوں دوست گلے مل رہے تھے۔
’’مجھے پتہ چلا کہ میرے ساتھیوں کو میری ضرورت ہے اس لئے ہم ہوا کے گھوڑے پہ سوار ہو کر پہنچ گئے؟‘‘غازی نے قدرے سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے کہا۔
’’ہو ا کا گھوڑا؟کیا مطلب؟‘‘شیردل نے پوچھا۔
’’فوجی ہیلی کاپٹر۔‘‘غازی مسکرایا۔’’اس وقت اس پورے جزیرے کو آرمی کے ایک مخصوص کمانڈوز کے دستے نے گھیرے میں لیا ہواہے اور فضا میں فوجی ہیلی کاپٹر چکرلگا رہے ہیں۔اس کے علاوہ ان کی مدد کوسٹ گارڈز اور نیوی کی بوٹس نے بھی کی ہے۔‘‘
’’یہ سب کیسے ہوا؟‘‘شیردل سب کچھ فوراً جاننے کا متمنی تھا۔
’’صبر میرے شیر۔’’غازی نے اس کے کاندھے کو تھپتھپاتے ہوئے کہا۔’’پہلے تو یہاں سے نکلیں پھر ساری باتیں ہوں گی۔‘‘
کرنل فاتح نے آرمی کے آپریشن انچارج سے ملاقات کی ۔وہ کرنل رینک کا آفیسر تھا۔وہ کسی زمانے میں کرنل فاتح کا ماتحت تھا۔میزائل کو دیکھ کر اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔چھوٹی عمارت میں وہ بڑا میزائل نامکمل حالت میں موجود تھا جسے پروفیسر حشام نے ذیزائن کیا تھا۔آرمی کے کمانڈوز تمام اہم جگہوں پہ قبضہ کر چکے تھے۔
تمام قیدیوں کو سخت پہرے میں باہر لے جایا گیا۔کچھ دیر بعد وہ سب کوسٹ گارڈز کی لانچ کے ذریعے واپس شہر کا رخ کر رہے تھے۔بڑے مجرموں میں میجر گنپت راؤ ان کی لانچ پر ہی تھا جبکہ نارمن زبسکی دوسرے قیدیوں کے ساتھ ایک دوسری لانچ پر تھا۔کرنل فاتح نے میجر گنپت راؤ کو اپنی ہی لانچ پہ رکھنا پسند کیا تھا۔
وہ ماہی گیری کی تین چار لانچیں تھیں جو سمندر میں آہستہ آہستہ حرکت کر رہی تھیں۔کرنل فاتح والی لانچ جیسے ہی ایک لانچ کے قریب پہنچی تو اس سے شدید فائرنگ شروع ہو گئی۔کوسٹ گارڈز بھی جواباً فائرنگ کر نے لگے۔
’’یہ آخر کیا ہو رہا ہے؟‘‘مومن نے پوچھا ۔اس وقت وہ سب لانچ کے فرش پر لیٹے ہوئے تھے۔
’’شاید میرے ساتھی مجھے چھڑانے کے لئے پہنچ گئے ہیں۔‘‘ان کے قریب ہی بندھے ہوئے میجر گنپت راؤ نے پرامید لہجہ میں کہا۔
’’تمہارے ساتھی؟مگر وہ تو ماہی گیروں کی لانچ معلوم ہوتی ہے۔‘‘غازی نے لیٹے لیٹے ہی جواب دیا۔
مزید پوچھنے پر میجر گنپت راؤ نے بتایا کہ’’جب وہ میزائل والے ہال سے غائب ہوا تھا تو اسے اپنے ملک سے رابطہ کرنے کا موقع مل گیا تھا اور اس نے مدد کی درخواست کی تھی۔‘‘
’’اب دیکھنا میں تم سب کا کیا حشر کرتا ہوں۔‘‘میجر گنپت راؤ ایسے موقع پر بھی ڈینگ مارنے سے باز نہ آیا۔
’’میجر! ایک بات تو طے ہے کہ اگر ایسا موقع آیا کہ ہمیں پسپائی اختیار کرنا پڑی تو ہم تمہیں زندہ تو ان کے ہاتھوں نہیں جانے دیں گے۔‘‘یہ کہہ کر کرنل فاتح نے اپنا ریوالور اس کی کنپٹی سے لگا دیا۔میجر گنپت راؤ کا رنگ سیاہ پڑ گیا۔
ماہی گیروں کی پانچ چھ کشتیوں سے اس وقت شدید فائرنگ ہو رہی تھی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ کرنل فاتح والی بوٹ بڑی صفائی سے راستہ بنا کر نکل گئی۔وہ خیریت سے شہر پہنچ گئے تھے۔بعد میں پتہ چلا کہ نیوی کی گن بوٹس اور فوجی ہیلی کاپٹروں نے ماہی گیری کرنے والی ان بوٹس کو گھیر لیا تھا۔شدید فائرنگ میں ان کے پندرہ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔جب کہ نیوی کے دو جوانوں نے شہادت پائی تھی۔دو درجن سے زائد افراد کو زندہ گرفتار کر لیا گیا تھا۔زندہ بچ جانے والوں نے خود کو ماہی گیر ظاہر کیا تھا اور وہ ماہی گیری کی آڑ میں اسمگلنگ کرتے تھے۔نارمن زبسکی لانچ سے غائب ہو گیا تھا۔وہ بیچ سمندر کے کیسے غائب ہوا؟یہ ابھی تک ایک راز ہی تھا۔لانچ میں جہاں اسے رکھا گیا تھا۔ وہاں رسی کے چند ٹکڑے ہی مل سکے تھے۔ غالب خیال یہ ہی تھا کہ وہ رسی سے بندھے ہاتھوں پیروں کو کسی طرح کھول کر سمندر میں کود گیا ہو گا اور پھر شاید کسی لانچ کے ذریعے فرار ہو گیا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’میرا خیال ہے کہ وہ ماہی گیر نہیں تھے اور نہ ہی وہ اسمگلر تھے۔‘‘مجاہد نے اپنا خیال ظاہر کیا۔وہ سب اس وقت آرمی کے ایک’’سیف ہاؤس‘‘ میں تھے۔
’’انٹرنیشنل معاملات کی وجہ سے اکثر لوگ ایک آڑ کی صورت میں کام کرتے ہیں۔‘‘کرنل فاتح نے بتایا۔’’میجر گنپت راؤ نے جب مدد کی درخواست کی ہوگی تو انہوں نے اپنے ایجنٹس کو ماہی گیروں کے بھیس میں بھیج دیا ہو گا۔ماہی گیری کی وہ بوٹس تو بس ایک آڑ ہی فراہم کرتی ہیں۔‘‘
’’بھائی جان!بہتر ہے کہ آپ ہمیں اس کیس کے بارے میں شروع سے بتائیں۔‘‘نصرت صاحب بول پڑے۔آرمی کے آپریشن میں وہ بھی شامل تھے۔
’’یہ کیس۔۔۔۔‘‘کرنل فاتح سوچ میں پڑگئے۔’’اچھا جو میں سمجھ سکا ہوں وہ بتاتا ہوں،کہیں کہیں میں نے قیاس سے بھی کام لیا ہے اور پھر ہمیں غازی سے بھی اس کی کہانی سننی ہے۔‘‘
’’مجھ بے چارے سے تو میری کہانی فوراً ہی سن لیں کہ کہانی زیادہ طویل نہیں اور بندہ فوراً سنانے کے لئے بے تاب بھی ہے۔‘‘غازی فوراً ہی شروع ہو گیا۔
’’یار! ایک تو تم چپ نہیں کرتے ہو۔بس جب دیکھو تمہاری زبان چلتی رہتی ہے۔‘‘مجاہد نے ایک چٹکی لی۔
’’بھائی میری زبان ہے کوئی گولی تو نہیں جو چلتی رہتی ہے۔یہ بے چاری تو بس گفتگو کرنے کے بہانے ڈھونڈھتی ہے۔‘‘غازی نے مسکین سی صورت بناتے ہوئے کہا۔
’’بھائی اس سے پہلے کہ یہ بات بحث کی صورت اختیار کرے ہمیں کام کی باتیں کر لینی چاہئیں۔‘‘کرنل فاتح نے انہیں روکتے ہوئے کہا۔’’غازی! تم اپنی کہانی سناؤ۔‘‘
’’میری کہانی۔یہ تو کسی ناول کا نام ہو سکتا ہے۔‘‘غازی نے اسٹارٹ لیا اور پھر سنبھل کر بتانے لگا۔’’جب وہ پروفیسر حشام کے ہسپتال میں ہوش میں آنے کا انتظار کر رہا تھا تو اس نے اپنے اباجان(نصرت صاحب) سے رابطہ کر لیا تھا۔وہ فوراً ہی ہسپتال پہنچ گئے تھے۔ہوش میں آنے کے بعد پروفیسر نے کسی سے بھی بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔انہیں اتنے بڑے دھوکے کا شکار ہونا پڑا تھا کہ وہ اپنے وطن میں ہوتے ہوئے بھی شک و شبہ کا شکار تھے۔انہوں نے اپنے ادارے کے سربراہ سے ملنے کا ارادہ ظاہر کیا تو جنرل صاحب کو اطلاع دی گئی۔جنرل صاحب نے بھی پہنچنے میں دیر نہیں لگائی۔پروفیسر صاحب کی اسٹوری سننے کے بعد جنرل صاحب فوراً ہی حرکت میں آگئے تھے۔انہوں نے جنرل صاحب کو یہ بات بتا دی تھی کہ انہیں شک ہو جانے کی وجہ سے انہوں نے نیلی ڈائری کا چکر چلایا تھا۔وہ مخصوص کوڈ ان کے ذہن میں محفوظ تھا۔‘‘
ایک لمحہ کے توقف کے بعد وہ پھر بولا۔’’آرمی کے کمانڈوز کا جو مخصوص دستہ اس آپریشن میں استعمال ہوا وہ جنرل صاحب کے حکم پہ ہی ترتیب دیا گیا تھا۔ان کی مہربانی سے مجھے بھی اس میں شامل کر لیا گیا۔ابا جان تو پہلے سے ہی شامل تھے۔ یہ تھی میری کہانی۔‘‘اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اب سب کرنل فاتح کی طرف دیکھ رہے تھے۔انہوں نے کہنا شروع کیا۔’’کہانی کا آغاز مختلف جگہوں پہ دھماکوں سے شروع ہوا۔شروع میں تو خیال یہ ہی تھا کہ یہ دہشت گردوں کی کارروائی ہے۔جب ہمارا واسطہ میجر گنپت راؤ سے ہوا تو پھر میرا خیال بدل گیا۔میں نے سوچا کہ ان دھماکوں کی آڑ میں کوئی خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔یہیں بغدادی صاحب تصویر میں داخل ہو تے ہیں۔‘‘
’’مگر بغدادی صاحب تو اکثر تصویر سے باہر ہو جاتے ہیں۔‘‘غازی کی بات پہ چند چہروں پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔بغدادی صاحب یا پرشوتم لعل کا فی موٹا تھا۔
’’بغدادی صاحب پہ ہمیں کچھ عرصہ سے شک تھا کہ وہ مشکوک سرگرمیوں والے لوگوں سے مل رہے تھے۔‘‘کرنل فاتح نے دوبارہ اپنی بات شروع کی۔’’بغدادی صاحب،میجر گنپت راؤ اور نارمن زبسکی کی مثلث نے ہمیں چونکا دیا تھا۔اس سلسلے میں کئی معرکے ہوئے۔دوسرے ملکوں سے واپس اپنے وطن لوٹنے والے سائنس دانوں کے بچے اغوا کئے گئے۔ان سے تاوان بھی مانگا گیا اور ان کو واپس جانے پہ بھی مجبور کیا گیا۔آفرین ہے ہمارے محب وطن سائنس دانوں پرکہ ایک دو کے سوا سب نے اس پریشر کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔پھر برادر اسلامی ملک کے وزیرِ دفاع کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی اور ہم نے دشمنوں کا منصوبہ اللہ کریم کی نصرت سے ناکام بنا دیا۔‘‘
’’اس نصرت کا نام کہیں باسط علی تو نہیں۔‘‘غازی شرارت سے مسکرایا۔باسط علی بھی وہیں تھا۔ وہ نارمن زبسکی کی قید میں تھا اور ان کے ساتھ ہی شہر واپس آیا تھا۔
’’اللہ کریم وسیلے بناتے ہیں۔باسط علی بھی اس کام میں وسیلہ ہی بنا تھا۔‘‘کرنل فاتح نے کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کیا۔’’دشمنوں کا اصل منصوبہ تو بے حد گھناؤنا تھا۔انہوں نے پروفیسر حشام کو یوں اغوا کیا کہ انہیں آخر تک اسی بات کا یقین دلایا گیا کہ انہیں حفاظت سے اس جزیرے پہ حکومت اور ان کے ادارے کے حکم پہ رکھا گیا ہے تاکہ وہ اپنے میزائل پروگرام پہ کام کر سکیں۔وہ تباہ کن دور مار میزائل سے ہمارے ہی وطن کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔انہوں چالاکی سے کام لیتے ہوئے پلان بی بھی بنا رکھا تھا۔اس پلان کے مطابق وہ چھوٹے سائز کے چاردورمار میزائل ہمارے چار بڑے شہروں پر فائر کرنا چاہتے تھے۔وہ میزائل اپنے ٹارگٹ کو بڑی مہارت سے ہٹ کرتے ہیں۔احمد شیرانی صاحب کے بیٹے کو اغوا کر کے ان کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی چاروں کیمیکل فیکٹریوں کو لیز پر دے دیں۔فیکٹریاں چار بڑے شہروں میں قائم ہیں۔اس طرح سے فیکٹریوں کا کنٹرول حاصل کیا گیا اور وہاں چار بڑی ڈشز لگائی گئیں۔وہ ایک خاص دھات سے بنائی گئی تھیں اور میزائل کے لئے ٹارگٹ کا کام کرتی تھیں۔‘‘
’’حیرت کی بات ہے کہ فیکٹریوں کے ورکرز کو اس تبدیلی کا پتہ نہیں چلا۔‘‘شیردل نے سوال اٹھایا۔
’’انہوں نے عارضی طور پہ کیمیکل کی پروڈکشن روک دی تھی بس دکھاوے کے لئے تھوڑا بہت کام ہو رہا تھا۔ورکرز کی زیادہ تعداد کو تین تین مہینے کی تنخواہ دے کر رخصت کر دیا گیا تھا اور ان سے کہا گیا تھا کہ جب دوبارہ پروڈکشن شروع ہو گئی تو انہیں واپس بلا لیا جائے گا۔‘‘کرنل فاتح نے بتایا۔
’’بھائی کمال کے عیار لوگ ہیں۔‘‘نصرت صاحب نے ایک گہری سانس لی۔
’’اس میں کوئی شک نہیں۔‘‘کرنل فاتح نے ان کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔’’ہم نے خاموشی سے ان فیکٹریوں کی خفیہ نگرانی شروع کروا دی۔نصرت کو میں نے ایک مخصوص گھڑی دی تھی اور ہم نے مختلف کوڈز طے کر لئے تھے۔آرمی کا ایک انٹیلی جینس کا ادارہ بھی اس سلسلے میں ہماری مدد کر رہا تھا۔‘‘
پھر انہوں نے جزیرے میں پیش آنے والے واقعات بتائے اور کہا۔’’جب ہمیں گرفتار کر کے بدمعاشوں کے ٹولے کے سامنے لایا گیا تو میں نے اپنی گھڑی کا ایک مخصوص بٹن دبایا تو نصرت کو فوراً خبر ہو گئی۔اس نے انٹیلی جینس کی مدد سے چاروں فیکٹریوں پہ چھاپہ مار کر تمام مجرموں کو گرفتار کر لیا۔ان کے ساتھ دو تین سائنس دان بھی تھے۔چمکیلی دھات والی ان ڈشز کو فیکٹریوں سے ہٹا دیا گیا اور سائنس دانوں نے انہیں بے ضرر بنا دیا۔‘‘انہوں نے نصرت صاحب کی طرف دیکھا جیسے ان کی تائید چاہ رہے ہوں۔
’’آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔‘‘نصرت صاحب نے ان کی تائید کی۔’’ایسا ہی ہوا تھا۔فیکٹریوں کی حفاظت پہ مامور اسٹاف کے وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ہلکی پھلکی جھڑپوں کے سوا کچھ نہ ہوا۔ہم نے آسانی سے ان پہ قابو پالیا تھا۔پھر میں نے گھڑی کے ایک مخصوص بٹن کے ذریعے آپ کو بتا دیا تھاکہ ہم نے اپنا کام کر لیا ہے۔‘‘
’’آخر آپ نے انہیں اتنی ڈھیل کیوں دی؟فیکٹریوں پہ چھاپہ پہلے بھی ڈالا جا سکتا تھا۔‘‘مومن نے نکتہ اٹھایا۔
’’ہاں! ایسا کیا جا سکتا تھا مگر پھر دشمن ہوشیار ہو جاتا اور اگر وہ اپنا منصوبہ بدل دیتا تو شاید ہمیں خبر ہی نہ ہوتی اور ہم بے خبری میں مار کھا جاتے۔ ‘‘کرنل فاتح کا لہجہ سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔’’مجھے استاد قاسم کی موت کا بے حد افسوس ہے۔اس نے مجرم ہوتے ہوئے محبِ وطن ہونے کا ثبوت دیا۔‘‘
’’اسے شہادت کی موت نصیب ہوئی۔‘‘شیردل نے دھیرے سے کہا تو سب نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’اب میجر گنپت راؤ اور اس کے گرفتار ساتھیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟‘‘شیردل نے پوچھا۔
’’انہیں ملک کے قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔‘‘کرنل فاتح کا جواب مختصر تھا۔
’’اور نارمن زبسکی۔۔۔۔؟‘‘مجاہد نے پوچھا۔
’’اس سے شاید زندگی کے پھر کسی موڑ پر ملاقات ہو گی۔‘‘کرنل فاتح مسکرائے۔’’اصل کام تو اب شروع ہو گا۔آستین کے سانپوں کو ڈھونڈھ کر کیفرِ کردار تک پہنچانا ہوگا اور ساتھ ہی ان لوگوں کو بھی ڈھونڈناہوگا جو سالوں سے ہمارے جیسا روپ بنا کرہمارے ہی ساتھ رہتے ہوئے اپنی بہروپیت کو چھپائے ہمیں دھوکا دے رہے ہیں۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ نئے مشن پہ جانے سے پہلے تھوڑی دیر سو لیا جائے تو بہتر ہے۔‘‘غازی نے اتنی سنجیدگی سے کہا کہ سب حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔
’’میں نے کیا کیا ہے؟بس سونے کی اجازت ہی تو مانگی ہے۔‘‘یہ کہہ کر غازی نے اپنے کمرے کا رخ کیا اور اپنے پیچھے کئی چہروں پہ مسکراہٹ چھوڑ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔