skip to Main Content

شیر کی خالہ

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

ممانی جان نے چھوٹے سے پیالے میں دودھ ڈالا اور منہ سے آواز نکالی۔ فوراً ہی دوسرے کمرے سے ”میاؤں“ کی آواز سنائی دی اور اگلے ہی لمحے ایک خوب صورت بلی دوڑتی ہوتی چلی آئی۔ بلی سیدھی دودھ کے پیالے کے پاس پہنچی اور منہ پیالے میں ڈال کر دودھ پینے لگی۔ ذرا سی دیر میں، اس نے زبان سے چاٹ کر پیالہ پوری طرح صاف کر دیا۔ پھر وہ اطمینان سے ایک طرف بیٹھ خُر خُر کرنے لگی۔
ماہ رُخ کو یہ بلی بہت اچھی لگی۔ اس نے بلی کو پیار سے پچکارا تو بلی آہستہ سے اٹھی اور ماہ رخ کے قریب، دم ہلاتی ہوئی آگئی۔
شام میں ماموں جان گھر آئے، ماہ رخ نے انہیں دیکھتے ہی کہا:
”السلام علیکم، ماموں جان! آج آپ مجھے بلیوں کے بارے میں بتائیے گا۔“
”بیٹی!ماموں جان ابھی تھکے ہوئے آئے ہیں، ذرا آرام تو کرنے دو۔“ ماہ رخ کی امی نے ٹوکا۔
”ہاں واقعی، ابھی تو میں تھکا ہوا ہوں، رات میں ان شاء اللہ بات کریں گے۔“ ماموں جان یہ کہتے ہوئے غسل خانے میں چلے گئے۔

٭٭٭

رات کے کھانے کے بعد ماہ رخ نے ماموں جان کو ان کا وعدہ یاد دلایا۔ ماموں جان مسکرائے اور بولے:”موسم اچھا ہے، چلو چھت پر محفل جماتے ہیں۔“
موسم واقعی اچھا تھا، بہت خوش گوار ہوا چل رہی تھی۔ ماہ رخ اور ماموں جان ایک چارپائی پر بیٹھ گئے۔ ماہ رخ کی امی اور ممانی جان بھی اوپر آکر دوسری چارپائی پر بیٹھ گئیں اور آپس میں باتیں کرنے لگیں۔
”ماہ رخ! آپ کو معلوم ہے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کو بلی بہت پسند تھی۔“ ماموں جان نے پوچھا۔
”نہیں، ماموں جان۔“
”یہ صحابی تھے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے ان کا نام عبد شمس تھا، لیکن لوگ انہیں ابو ہریرہ کہنے لگے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک بلی پالی ہوئی تھی، وہ اس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ رات کو ایک درخت میں جگہ بنا کر بلی کو سلا دیتے۔ صبح جب بکریاں چرانے کے لیے نکلتے تو بلی ان کے ساتھ ہو لیتی۔ اس وقت حضرت ابو ہریرہ کی عمر کم تھی۔ وہ اس بلی کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ اسی لیے ان کا نام ابو ہریرہ رکھ دیا گیا۔ دراصل عربی زبان میں ’ہرہ‘ بلی کو کہتے ہیں۔ اس کی تصغیر’ہریرہ‘ ہے۔ تصغیر کا مطلب ہے، چھوٹا کرنا۔ جیسے ہم ’باغ‘ کی تصغیر ’باغیچہ‘ بناتے ہیں یعنی چھوٹا باغ۔ اس طرح چھوٹی بلی کو عربی میں ’ہریرہ‘ کہتے ہیں۔ خیر، تو حضرت ابو ہریرہ جب ایمان لے آئے تو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے، آپ کا نام عبد شمس سے بدل کر عمیر رکھ دیا، لیکن لوگ آپ کے نام ابو ہریرہ سے اتنے مانوس ہو چکے تھے کہ سب آپ کو ابو ہریر ہ ہی کہتے رہے۔“
”ماموں جان! بلی کا خیال رکھا جائے تو ہمیں ثواب ملے گا؟“
”بلی ہی نہیں، جس جانور کا پالنا جائز ہو، اس کی خوراک، صحت اور دیگر ضرورتوں کا خیال رکھنے سے ثواب ملے گا، اور اگر خیال نہ رکھا تو گناہ ہو گا۔ ایک حدیث نبوی میں ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہد ہد، چیونٹی، شہد کی مکھی اور بلی کو مارنے سے خاص طور پر منع فرمایا ہے۔ ایک اور حدیث میں آپﷺ نے فرمایا کہ ایک بہت عبادت کرنے والی عورت کو اللہ تعالیٰ نے صرف اس وجہ سے عذاب دیا کہ اس نے ایک بلی کو باندھ کر بھوکوں مار ڈالا تھا۔“
”ماموں جان! بلیوں کے بارے میں کچھ اور بتائیے۔“
”ہاں، ضرور! آپ کو یہ تو معلوم ہوگا کہ بلی، شیر کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ گھر یلو بلی کی چالیس قسمیں ہیں۔ چونتیس قسمیں جنگلی ہیں۔“
”ماموں جان! بلی اندھیرے میں دیکھ سکتی ہے؟“
”بہت دھیمی روشنی میں دیکھ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بلیوں کی آنکھیں اس طرح کی بنائی ہیں کہ ان کو کم روشنی میں دیکھنے میں دشواری نہیں ہوتی۔ ان کی آنکھوں کی بناوٹ ایسی ہے کہ جب ان پر روشنی پڑتی ہے تو وہ چمکتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ آپ کبھی کسی بلی کو اندھیرے میں دیکھیں، اس کی آنکھیں چمکتی ہوئی نظر آئیں گی۔ اس کے علاوہ بلی کی مونچھیں بہت حساس ہوتی ہیں۔ ان کی مدد سے بلی اندھیرے میں رکاوٹوں سے ٹکرائے بغیر ان سے ہٹ کر نکل جاتی ہے۔“
”ماموں جان!بلی کی سننے کی صلاحیت کیسی ہوتی ہے؟“
”بہت عمدہ۔ بلی ایسی آوازیں بھی سن لیتی ہے جو انسان نہیں سن سکتا۔ بہت مدہم ارتعاش ہو، اسے بھی محسوس کر لیتی ہے۔ زلزلے کی وجہ سے زمین ہلنے لگتی ہے، بعض اوقات زمین کا یہ لرزنا اتنا ہلکا ہوتا ہے کہ ہمیں محسوس نہیں ہوتا، مگر بلی اسے محسوس کر لیتی ہے۔ اس کے علاوہ بلی کی قوت شامہ یعنی سو نگھنے کی حس بھی بہت اچھی ہوتی ہے۔ اللہ نے بلی کو ایسی صلاحیت دی ہے کہ یہ سینکڑوں میٹر کے فاصلے سے دوسری بلی کی بو محسوس کر لیتی ہے۔“
”ماموں جان! بلیاں سبزی کھا لیتی ہیں؟“
”نہیں نہیں!“ ماموں جان مسکرا پڑے۔ ”بلیوں کا تعلق گوشت کھانے والے جانوروں کے خاندان سے ہے۔ ویسے تو گھر میں رہنے والی بلیاں، روٹی، دودھ وغیرہ بھی پی لیتی ہیں، لیکن ان کی اصل خوراک گوشت ہے۔ بلی چوہوں کی دشمن ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر بلی کا پیٹ بھر جائے تو یہ آرام سے سو جاتی ہے یا پھر اور کچھ کھانا پسند نہیں کرتی۔ بلی کے منہ میں تیس دانت ہوتے ہیں۔ اللہ نے اس کو ایسی زبان عطا فرمائی ہے جس پر خاص قسم کے ابھار ہوتے ہیں۔ یہ ابھار، گوشت کو ہڈی سے الگ کرنے میں کام آتے ہیں۔ بلی کے متعلق ایک دلچسپ بات سنو کہ بلی میٹھی چیز کا ذائقہ مشکل ہی سے محسوس کرتی ہے لیکن پانی کے ذائقے میں معمولی سی تبدیلی کو محسوس کر سکتی ہے۔“
”ماموں جان! بلی کا وزن کتنا ہوتا ہے؟“
”گھر یلو بلی اگر چھوٹی ہو تو اس کا وزن دو سے تین کلوگرام تک ہوتا ہے۔ بڑی بلیاں سات سے نو کلو گرام تک وزنی ہوتی ہیں۔“ ”ماموں جان! میں نے دیکھا ہے، بلیاں بہت صاف ستھری رہتی ہیں۔“
”ہاں! بلی میں یہ عادت اچھی ہے۔ یہ اپنی زبان سے خود کو اور اپنے بچوں کو چاٹ کر صاف رکھتی ہے۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ اس عمل میں اپنے اور اپنے بچوں کے جسم کے بہت سے بال بھی نگل جاتی ہے۔ یہ بال بلی کے پیٹ میں گولا بن جاتے ہیں تو ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کبھی کبھی بلی گھاس یا پودے کھا لیتی ہے؟“
”کچھ بلیاں تو بہت بڑے بڑے بالوں والی ہوتی ہیں نا؟“
”ہاں! لمبے بالوں والی ایرانی بلیاں کہلاتی ہیں۔ درمیانے بالوں والی، برما اور ترکی سے تعلق رکھتی ہیں۔ چھوٹے بالوں والی بلیاں، برطانیہ، ناروے، اسکاٹ لینڈ، مصر اور جاپان میں ملتی ہیں۔ تھائی لینڈ کی سیامی بلیاں بھی درمیانے بالوں والی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ شمالی امریکہ میں تو بغیر بالوں والی بلی بھی پائی جاتی ہے اور آئرلینڈ کے ایک جزیرے پر تو بغیر دم کی بلی بھی ملتی ہے۔“
”ہائے اللہ بغیر دم کی بلی۔“ ماہ رخ نے تعجب سے کہا۔
”ہاں، اللہ کے لیے تو کوئی کام مشکل نہیں۔ اچھا، تم نے دیکھا ہوگا، بلیاں بہت اونچائی سے چھلانگ لگا کر زمین پر آ جاتی ہیں۔ ان کو کچھ نہیں ہوتا۔ اگر ہم ایسی چھلانگ لگا ئیں تو لازماً چوٹ لگ جائے گی۔ دراصل بلی کا جسم اللہ نے ایسا بنایا ہے اور اس کو ایسے پنجے عطا کیے ہیں کہ اونچائی سے چھلانگ لگانے کے باوجود اسے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ اس کے پنجوں میں ایسے ناخن ہوتے ہیں جو ضرورت پڑنے پر پنجوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ یہ ناخن حملہ کرنے میں بھی کام آتے ہیں اور دیوار وغیرہ پر چڑھتے ہوئے گرفت قائم رکھنے میں بھی۔ انہی ناخنوں کی مدد سے کچھ بلیاں درختوں وغیرہ پر ایسے نشانات لگا دیتی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان بلیوں کا علاقہ یہاں سے شروع ہوتا ہے یا یہاں ختم ہوتا ہے۔“
”ماموں جان! بلی میاؤں میاؤں کر کے، ایک دوسرے سے باتیں کر لیتی ہیں؟“
”ظاہر ہے، ہماری آپ کی طرح با قاعدہ گفتگو تو نہیں کر سکتی، لیکن ساٹھ سے زیادہ مختلف آوازیں نکال کر اپنے پیغام اپنے بچوں یا دوسری بلیوں تک پہنچاسکتی ہے۔“
”ماموں جان! آپ کی بلی جب بچے دے گی تو ایک بچہ مجھے بھجوائیے گا، میں اسے پالوں گی۔“ ماہ رخ نے فرمائش کی۔
”ٹھیک ہے، بھیج دیں گے۔ ارے! ہماری بلی تو چپکے سے آ کر یہاں پاس ہی بیٹھ گئی اور ہمیں پتا بھی نہ چلا۔“ماموں جان نے قریب بیٹھی ہوئی بلی کو دیکھ کرآواز نکالی۔
بلی دم ہلاتی ہوئی اٹھی اور ماموں جان کے پیر کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ اسی وقت ممانی جان کی آواز آئی:
”بھئی ہم لوگ تو نیچے جارہے ہیں، آپ لوگ بھی آ جا ئیں۔“
پھر سب لوگ چھت سے اترنے کے لیے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top