skip to Main Content

باب دوم: حصہ چہارم، ماہنامہ ساتھی:مختصر تاریخ

ماہنامہ ساتھی:مختصر تاریخ
تاریخ، نمایاں موضوعات کا علمی وادبی تناظر

ماہنامہ ساتھی پاکستان سے شائع ہونے والا بچوں کا اُردو زبان کا ماہنامہ رسالہ ہے۔ اس کا پہلا شمارہ اگست ۱۹۷۷ء کو کراچی سے شائع ہوا۔ شروع میں اس کا نام پیامی تھا جو مئی ۱۹۷۸ء میں تبدیل کر کے ساتھی کر دیا گیا۱۔ماہنامہ ساتھی کی خاص بات یہ ہے کہ اسے طلبہ مرتب کرتے ہیں، شائع کرتے ہیں اور بڑے پیمانے پر اس کی فروخت میں حصہ لیتے ہیں۔ ماہنامہ ساتھی طلبہ تنظیم ’’اسلامی جمعیت طلبہ (کراچی)‘‘ کی سرپرستی میں شائع ہوتا ہے۔ ساتھی کے مدیر کا طالب علم ہونا ضروری ہے، اگر وہ اپنی پڑھائی مکمل کرلیتا ہے تو وہ مدیر کے عہدے سے فارغ ہوجاتا ہے۔اس لیے پاکستان کی تاریخ میں اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے شائع ہونے والے بچوں کے تمام رسائل میں مدیران کی تبدیلی کا عمل سب سے زیادہ ہوا ہے۔ ماہنامہ ساتھی میں اب تک بیس کے قریب مدیران اپنی خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ اس عمل کی وجہ سے اس کے مثبت اور منفی اثرات بھی رسالے پر مرتب ہوئے ہیں۔ سرِ دست ہم مدیران کی تاریخ کے ذریعے ہی ساتھی کی تاریخ بیان کریں گے کہ کس مدیر کے دور میں کیا کیا کام ہوئے۔

کلیم چغتائی (اگست ۱۹۷۷ئ)
’’کلیم چغتائی‘‘ رسالے کے شریک بانی اور پہلے مدیر تھے۔ ابتدا میں پیامی (ساتھی) کے کل صفحات ۱۶ تھے اور قیمت ۲۰پیسے تھی۔ستمبر ۱۹۷۸ء میںصفحات ۲۴ کردیے گئے۲۔ کلیم چغتائی پیامی (ساتھی) کے ایک ہی شمارے کے مدیر رہے ہیں۔ ایک رنگ اور ہلکے نیلے کاغذ پر شائع ہونے والے اس رسالے کے متعلق کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ رسالہ تسلسل کے ساتھ شائع ہو کر بچوں کے رسائل میں اہم مقام حاصل کرلے گا۔

آفتاب الدین (ستمبر ۱۹۷۸ء تا اگست ۱۹۷۹ئ)
اس کے بعد ’’آفتاب الدین‘‘ ستمبر ۱۹۷۸ء سے ساتھی کے مدیر رہے، اُن کے دور میں پہلا خاص نمبرامتحان نمبر نکالا گیا۳۔ مئی ۱۹۷۸ء میں پیامی کا نام بدل کر موجودہ نام ساتھیرکھ دیا گیا۔ ساتھی کے نام میں تبدیلی میں دو ساتھیوں کو یہ اعزاز حاصل ہوا۔ ان کی تجویز پر ساتھی کا نام رکھا گیا۔ یہ دو لڑکے دہلی بوائز اسکول کے ’’شارق ممتاز‘‘ اور کے ایم اے بوائز اسکول کے طالب علم ’’عبد الرحمن‘‘ تھے۴۔ ستمبر ۱۹۷۸ء میں ساتھی کا ایک رنگ کا سر ورق بنایا گیا۔ اس وقت ساتھی کی قیمت ۵۰پیسے تھی۵۔ ساتھی کے سال نامے کی روایت ستمبر ۱۹۷۹ء سے شروع ہوئی۶۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ ساتھی میں خاص نمبر دو قسم کے شائع ہوتے ہیں، ایک کسی خاص موضوع پر شائع کیا جاتا ہے، جیسے بور نمبر، امتحان نمبر، ابو نمبر وغیرہ۔ جب کہ سال نامہ کے نام سے جو خاص نمبر شائع کیا جاتا ہے، وہ عمومی ہوتا ہے، البتہ اس کی ضخامت خاص نمبر جیسی ہوتی ہے۔

شاہد رفیع مجاہد (ستمبر۱۹۷۹ء تا دسمبر ۱۹۸۳ئ)
ستمبر۱۹۷۹ء میں ’شاہد رفیع مجاہد‘ ساتھی کے مدیر بنے۷۔ساتھی کاپہلا سال نامہ نئے مدیر ’’شاہد رفیع مجاہد‘‘ نے تیار کیا۸۔ جون ۱۹۸۲ء میں ساتھی کا سرورق رنگا رنگ کر دیا گیا۹، اس سے قبل ساتھی کا سرورق ایک رنگ میں شائع ہوا کرتا تھا۔دسمبر ۱۹۸۳ء میں آپ ادارت کی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوگئے۔۱۰

اعظم منہاس (جنوری ۱۹۸۴ء تا اکتوبر ۱۹۸۴ء )
جنوری ۱۹۸۴ء میں ’’اعظم منہاس‘‘ نے مدیر کی حیثیت سے چارج سنبھالا ۱۱۔ آپ نے فروری ۱۹۸۴ء میں امتحان نمبر نکالا۱۲۔ ساتھی اب تک یک رنگا اور بغیر تصاویر کے شائع ہوتا تھا۔اعظم منہاس اکتوبر ۱۹۸۴ء تک ساتھی کے مدیر رہے۔۱۳

سعود کمال عباسی (نومبر ۱۹۸۴ء تا اگست ۱۹۸۷ئ)
اعظم منہاس کے بعد ’سعود کمال عباسی‘ مدیر بنے اور کافی طویل عرصے تک یعنی نومبر ۱۹۸۴ء سے ۱۹۸۷ء تک ساتھی کو سنوارتے رہے۱۴۔ ساتھی کا سائز پہلے کچھ چھوٹا تھا لیکن سعودکمال عباسی نے فروری ۱۹۸۵ء میں اس کے سائز میں اضافہ کیا اور اب تک ساتھی اسی سائز/8.5” “5.5میں شائع ہورہا ہے۔ ان کے دور میں سال نامہ ستمبر سے باقاعدہ شائع ہونا شروع ہوا۔ اس کے علاوہ آزادی نمبر اگست ۱۹۸۵ء میں شائع ہوا۱۵۔اگست ۱۹۸۷ء تک وہ مدیر کے عہدے پر رہے۔۱۶

صادق جمیل (ستمبر ۱۹۸۷ء تا دسمبر۱۹۸۹ئ)
صادق جمیل کے دور میں منیر احمد راشد کا تحریر کردہ ساتھی کا مقبول عام سلسلہ کمانڈو فور ان ہی کے دور میں سال نامے سے شروع ہوا۱۷۔ دسمبر۱۹۸۷ء سے ساتھی کے مختلف سلسلوں پر انعاما ت بھی دینے کی روایت شروع کی گئی۔ اب ہر ماہ کی بہترین تحریر کے مصنف کو انعامات بھی دیے جانے لگے۔ ساتھی اب تک ماہنامہ جیسی باقاعدگی میں نہیں آیا تھا، یہ صادق جمیل ہی کے دور میں ساتھی مجلے کی شکل سے نکل کر ماہنامے کی شکل اختیار کر گیا۔ ساتھی کو باقاعدہ رجسٹریشن جنوری ۱۹۸۹ء میں ملی۱۸۔ اس طرح ’’صادق جمیل‘‘ ستمبر ۱۹۸۷ء سے دسمبر۱۹۸۹ء تک ماہنامہ ساتھی کے ساتھ رہے۔ ۱۹

سید شمس الدین (جنوری۱۹۹۰ء تا دسمبر۱۹۹۱ئ)
’’سید شمس الدین‘‘ جنوری ۱۹۹۰ء سے دسمبر۱۹۹۱ء تک ماہنامہ ساتھی کے مدیر رہے۲۰۔ ’’سید شمس الدین‘‘ کے دور ادارت میں ایک خاص کام یہ ہوا کہ ماہنامہ ساتھی کے اندر تحریروں کے ساتھ اسکیچز لگانے کا سلسلہ شروع ہوا۲۱۔ دو رنگوں میں پہلی بار ساتھی شائع ہوا اور ’’ساتھی رائٹرز ایوارڈ‘‘ کی پہلی منفرد تقریب بھی مارچ ۱۹۹۰ء میں ’سید شمس الدین‘ نے منعقد کی۲۲۔ اسی سال کمپیوٹر نمبرشائع ہوا۲۳۔

قاضی سراج الدین (جنوری ۱۹۹۲ء تا مئی ۱۹۹۴ئ)
نئے مدیر ’’قاضی سراج الدین‘‘ جنوری ۱۹۹۲ء سے مئی ۱۹۹۴ء تک ساتھی کے مدیر رہے۲۴۔ فروری ۱۹۹۲ء میں ساتھی کا پندرہ سالہ نمبرشائع کرکے ماہنامہ ساتھی کی سا لگرہ منائی گئی۔ یہ خاص نمبر ۱۶۰ صفحات کا تھا اور قیمت پانچ روپے تھی۔ پھر اگلے ماہ ’ساتھی رائٹرز ایوارڈ‘ کی تقریب مارچ ۱۹۹۲ء میں منعقد ہوئی۔ اسی ماہ میں ماہنامہ ساتھی ’آل پاکستان چلڈرن میگزین سوسائٹی‘ کا رکن بھی بنا۔ اب ماہنامہ ساتھی کی قیمت مستقل چار روپے کردی گئی۔ جبکہ صفحات موجودہ صفحات ۱۱۲ جتنے ہو گئے۔ اسی سال ساتھی کا خاص نمبر سائنس اسپیشل شائع ہوا۲۵۔ اس سال تین خاص نمبرز شائع ہوئے۔ قاضی سراج کے دور میں جون ۱۹۹۲ء کو ایک تجربہ یہ کیا گیا کہساتھی کے آخری ۱۶ صفحات کو مکمل رنگین کرکے ننھا ساتھی کے نام سے شائع کیا گیا۔ اس حصے میں بہت چھوٹے بچوں کے سن کے مطابق تحریریں تھیں، یہ ایک بہت اچھا تجربہ تھا لیکن یہ صرف ایک ماہ ہی شائع ہوسکا۔ مارچ ۱۹۹۳ء میں سال نامہ شائع ہوا۔ اس کے فوری بعد اپریل کا شمارہ حقوق اطفال نمبر شائع ہوا۲۶۔ اس خاص نمبر کو دعوۃ اکیڈمی نے بچوں کے رسائل میں دوسرا انعام دیا۔ اس سال بھی جولائی ۱۹۹۳ء میں ’ساتھی رائٹرز ایوارڈ‘ کی تقریب منعقد ہوئی جو پھر بہت عرصہ تک منعقد نہ کی جاسکی۔ اگست ۱۹۹۳ء میں قاضی سراج الدین نے جیوے پاکستان نمبر شائع کیا۔ ماہنامہ ساتھی کا سندھی ایڈیشن بھی اگست ۱۹۹۲ء سے ہی نکلنا شروع ہوا ہے۔ اس طرح ماہنامہ ساتھی کو بیک وقت دو زبانوں میں شائع ہونے کا اہم اعزاز حاصل ہوا۔ یعنی اب ساتھی اُردو کے علاوہ حیدر آبادسے سندھی زبان میں بھی شائع ہونے لگا۔سندھی زبان میں شائع ہونے والے ماہنامہ ساتھی کو آپ ایک نیا رسالہ کہہ سکتے ہیں کیوں کہ اس کا مواد مکمل طور پر مختلف ہوتا ہے۔ مارچ ۱۹۹۴ء میں خاص بچے خاص شمارہشائع ہوا۔ اس خاص شمارے کو دعوۃ اکیڈمی نے بچوں کے رسائل میں اول انعام سے نوازا۔ ۲۷

صہیب جمال (جولائی ۱۹۹۴ء تا ستمبر ۱۹۹۵ئ)
’’صہیب جمال‘‘ جولائی ۱۹۹۴ء سے ستمبر ۱۹۹۵ئتک ساتھی کے مدیر رہے۲۸۔ ستمبر ۱۹۹۴ء میں آپ نے ۱۶۰ صفحات پر مشتمل خاص نمبر نکالا،اس خاص شمارے میں ’خوب صورت بیجز‘ کا تحفہ بھی شامل تھا۲۹۔اکتوبر ۱۹۹۴ء میں ابن آس محمد کا شہ زور ناول بھی اسی دور میں شروع ہوا۳۰۔آپ کے دورِ ادارت میں ساتھی کے اشتہارات کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ ستمبر ۱۹۹۵ء میں صہیب جمال فارغ ہوئے تو عبدالحامد نے ساتھی کی ادارت سنبھالی۔

عبد الحامد (اکتوبر ۱۹۹۵ء تا فروری ۱۹۹۷ئ)
اکتوبر ۱۹۹۵ء سے فروری ۱۹۹۷ئتک ’’عبد الحامد‘‘ ساتھی کے مدیر رہے۔ عبد الحامد کے دور میں ساتھی کے اندر رنگا رنگ صفحات کا خاتمہ کردیا گیا۔ وجہ قیمت کو مستحکم کرنے کا بتایا گیا۔ ’عبد الحامد‘نے عام صفحات میں ہی خاص نمبر شائع کیے۔ جس میں صحت نمبر۳۱، فروغ تعلیم نمبر۳۲ اور اطفا ل پاکستان نمبر۳۳ شامل ہے لیکن ان منفرد خاص شماروں میں ماہنامہ ساتھی کے صفحات کم ہی رہے۔ عبد الحامد جاتے جاتے ایک خاص کام ضرور کر گئے کہ ساتھی پبلی کیشنز کے تحت پہلا نا ول کمانڈو فور جو بہت مقبول ہوا تھا اور جس کے شائع کرنے کا بہت بار اعلان کیا گیا تھالیکن شائع نہ ہوسکاتھا، اسے بہترین سرورق کے ساتھ شائع کروایا۔۳۴

عبد الفرید بروہی (مارچ ۱۹۹۷ء تا مارچ ۱۹۹۸ئ)
’’عبد الحامد‘‘ کے بعد ’’عبد الفرید بروہی‘‘ مارچ ۱۹۹۷ء میں آئے۔ آپ نے پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر عزم آزادی نمبر شائع کیا۳۵۔ ماہنامہ ساتھی کے بیس سال مکمل ہونے پر بیس سالہ نمبراس زمانے میں ریکارڈ توڑ صفحات یعنی ۱۴۸ صفحات پر مشتمل نکالا۳۶۔ مارچ ۱۹۹۸ئتک آپ مدیر رہے۔

ضیا شاہد (اپریل ۱۹۹۸ء تا اپریل ۲۰۰۰ئ)
’’ضیا شاہد‘‘ نے اپریل ۱۹۹۸ء کو ماہنامہ ساتھی کا چارج سنبھالا اور آتے ہی پہلے ماہ اپریل ۱۹۹۸ء میں ماں نمبر معمولی صفحات کے اضافے کے ساتھ شائع کیا۔ اس میں کلر صفحات کی کمی تھی۔ اس کمی کو ستمبر کے سال نامے میں پورا کر دیا گیااور بیس سالہ نمبر کی ضخامت کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ۱۶۶ صفحات شائع کیے گئے۔ اس کی قیمت بارہ روپے تھی اور یہ اپنے اندر رنگین صفحات لیے ہوئے تھا۳۷۔ پھر اگلے سال جون ۱۹۹۹ء میں آپ نے ورلڈ کپ اسپیشل۱۳۶ صفحات کے ساتھ نکالا جس میں رنگین صفحات بھی شائع کیے۔ اس خاص نمبر کے بعد نومبر ۱۹۹۹ء میں بغیر صفحات بڑھائے حقوق اطفال نمبر شائع کیا۔ اپریل ۲۰۰۰ئتک اپنی ذمے داری نبھا کر ضیا شاہد نے بھی ساتھی کو الوداع کہا۔

میر شاہد حسین (مئی ۲۰۰۰ء تااپریل۲۰۰۲ئ)
نئی صدی شروع ہوئی تو ’’میر شاہد حسین‘‘ نے ضیا شاہد کی جگہ لے لی۔ ’میر شاہد حسین‘ مئی ۲۰۰۰ء سے اپریل۲۰۰۲ئتک ماہنامہ ساتھی کے مدیر رہے۔آپ نے مئی ۲۰۰۰ء میں صحت و صفائی نمبر شائع کیا۔ جس کے ساتھ ایک خوب صورت پزل کا تحفہ مفت دیا گیا۔ اس خاص نمبر کے ۱۳۶ صفحات تھے۔ پھر ستمبر ۲۰۰۰ء میں سال نامہ شائع کیا۔ اس کے ساتھ دیدہ زیب اسٹیکر کا تحفہ مفت دیا گیا اور صفحات ۱۳۶ ہی رکھے گئے۔ نومبر ۲۰۰۰ء میں آزادی کشمیر نمبر شائع ہوا۔ جس کے صفحات عام شماروں کے برابر تھے۔ اگلے سال صرف دو خاص نمبر شائع ہوئے۔ ایک تو عام شمارے کی موٹائی لیے ہوئے بچے اور امن کے عنوان سے شائع ہوا۳۸۔ جس کے سرورق کو دعوۃ اکیڈمی نے پاکستان بھر میں بہترین سرورق قرار دیا اور دوسرا خاص نمبر سال نامہ اکتوبر۲۰۰۱ء میں شائع ہوا۔ اس کے صفحات کی تعداد ۱۵۲ رکھی گئی تھی لیکن خاص بات یہ تھی کہ اس کے ساتھ ایک منفرد لیڈو || Lido گیم کا تحفہ مفت دیا گیا۔ جس میں اچھائی اور برائی کے درمیان میں فر ق کرتے ہوئے جنت تک پہنچنے کی تلقین کی گئی تھی۔ اپریل۲۰۰۲ء میں میر شاہد حسین رخصت ہوئے۔

راحیل یوسف (اپریل ۲۰۰۲ء تا ستمبر ۲۰۰۳ئ)
’’راحیل یوسف‘‘ اپریل۲۰۰۲ء سے ستمبر ۲۰۰۳ئتک ساتھی کے مدیر رہے۔ان کے دور میںساتھی کو ۲۵ سال مکمل ہوچکے تھے اور آپ ہی کے دور میں ماہنامہ ساتھی کا پچیس سالہ نمبر شائع کیا۔ رنگا رنگ صفحات اور خوب صورت آئیڈیاز پر مشتمل اس خاص نمبر کی قیمت سب سے زیادہ یعنی ۲۰ روپے تھی۳۹۔ جولائی ۲۰۰۳ء میں حیرت ناک نمبر عام شمارے کے صفحات میں شائع کیا مگر یہ رنگا رنگ صفحات ساتھ لیے ہوئے تھا۔ ستمبر ۲۰۰۳ء میں راحیل یوسف نے بہت جلدی ساتھی کو چھوڑ دیا اور کاشف شفیع کے حوالے کر دیا۔

کاشف شفیع (اکتوبر ۲۰۰۳ء تا نومبر ۲۰۰۵ئ)
’’کاشف شفیع‘‘ کا دورِ ادارت اکتوبر ۲۰۰۳ء سے نومبر ۲۰۰۵ء تک تھا۔ آپ نے اکتوبر ۲۰۰۳ء میں سال نامہ شائع کیا۔ جس کے صفحات کی تعداد ۱۷۶ رکھی گئی۔ اگلے سال مئی ۲۰۰۴ء میں ایک منفرد سلسلہ جیتو کمپیوٹر کوئز شروع کیا۔ اسی شمارے سے دوبارہ رنگین صفحات کا آغاز مستقل کر دیا گیا۔ جولائی ۲۰۰۴ء میں جنگل نمبر۱۴۴ صفحات کے ساتھ شائع ہوا۔ پھر اگلے ماہ ہی آزادی نمبر۱۲۰ صفحات کے ساتھ آیا اور اکتوبر۲۰۰۴ء میں سال نامہ بھی شائع کر دیا۔ اس کی قیمت ۱۸ روپے تھی اور صفحات ۱۷۶ تھے۔یوں ایک سال میں تین خاص شمارے شائع ہوئے۔ مارچ ۲۰۰۵ء میں بہت عرصہ بعد ایک اور مقبول قسط وار ناول گوریلا فائٹرز شانِ مسلم کے قلم سے شائع ہوا۔ ستمبر۲۰۰۵ء میں حسب معمول سال نامہ شائع ہوا۔ جس کے ساتھ ایک منفرد کارڈ گیم مفت دیا گیا۔ اس کی قیمت ۱۸ روپے اور صفحات ۱۹۲ تھے۔

نجیب احمد حنفی (دسمبر ۲۰۰۵ء تا مارچ ۲۰۱۰ئ)
’’نجیب احمد حنفی‘‘ ماہنامہ ساتھی کے سب سے طویل عرصے تک مدیر رہے، اُنھوں نے ماہنامہ ساتھی کی ادارت میں بھی بہت زیادہ وقت گزارا۔وہ دسمبر ۲۰۰۵ء سے مارچ ۲۰۱۰ء تک ساتھی کے مدیر رہے۔ دسمبر ۲۰۰۵ء میں قائد اعظم نمبر شائع ہوا۔ خاص نمبر کے ساتھ ایک قائد اعظم کی آٹو گراف بک بھی مفت دی گئی تھی۔ اس کے صفحات۱۶۰تھے۔۲۰۰۶ء میں دو خاص نمبر ساتھی نے شائع کیے۔ ستمبر ۲۰۰۶ء کا سالنامہ اور دسمبر ۲۰۰۶ ء میں عالم اسلام نمبر۔ ستمبر۲۰۰۷ء میں تیس سالہ نمبر شائع ہوا۔ ۳۰روپے قیمت کے ساتھ ۲۰۰ صفحات پر مشتمل یہ سال نامہ اب تک شائع ہونے والے سالناموں اور خاص نمبروں کو صفحات کے لحاظ سے پیچھے چھوڑگیا۔ اس کے ساتھ اینیمل کارڈ گیم کا تحفہ بھی تھا۔ جنوری ۲۰۰۸ء میں نجیب احمد حنفی کی ادارت میں ہی ۱۵۲صفحات پر مشتمل کارنامہ نمبر نکالا گیا۔ اس خاص نمبر کی قیمت ۲۰ روپے رکھی گئی۔ جون ۲۰۰۸ء میں ۱۵۲صفحات کا بور نمبر نکالا گیا۔ بور نمبر کی قیمت معمولی فرق کے ساتھ ۲۲روپے مقرر کی گئی۔ اس خاص نمبر میں بور قارئین کو جھنجھنا بطور تحفہ بھجوایا گیا۔ نومبر ۲۰۰۸ء کو ۱۶۰صفحات اور ۳۰ روپے کی قیمت میں سال نامہ لایا گیا۔ جولائی ۲۰۰۹ء میں ۱۵۲صفحات پر مشتمل شرارت نمبر اور نومبر۲۰۰۹ء میں ۱۶۸صفحات پر مشتمل سال نامہ شائع کیا گیا۔ ان کی قیمت بالترتیب ۲۵اور ۳۰ تھی۔ یہ ’’نجیب احمد حنفی‘‘ کی ادارت میں شائع ہونے والا ان کے دور کا آخری خاص شمارہ تھا۴۰۔

شمعون قیصر
نجیب احمد حنفی کے بعداپریل۲۰۱۰ء سے مارچ ۲۰۱۳ء تک ’’شمعون قیصر‘‘ ساتھی کے مدیر رہے۔ شمعون قیصر نے اپنی ادارت میں جون ۲۰۱۰ء میں ۱۶۸ صفحات پر مشتمل سائنس نمبر نکالا۔ اب تک قیمتوں میں معمولی فرق کے ساتھ خاص نمبر شائع کیے جا رہے تھے۔ سائنس نمبر کی قیمت بھی ۳۰روپے رکھی گئی تھی۔ جبکہ نومبر ۲۰۱۰ء میں ۱۶۸صفحات ۳۰روپے کی قیمت پر مشتمل سال نامہ لایا گیا۔ اس سال نامے میں بچوں کے لیے سندباد 4Dسینما کا مفت ٹکٹ بھی شامل تھا۴۱۔ جولائی ۲۰۱۱ء میں طویل مدت کے بعد ساتھی کی قیمت میں ۵روپے کا اضافہ کرکے ۲۵ روپے کا کر دیا گیا۔ اگست۲۰۱۱ء میں تعمیر پاکستان نمبر اور دسمبر ۲۰۱۱ء میں سال نامہ شائع ہوا۔سال نامے کے ساتھ گزشتہ سال کی طرح سندباد 4Dسینما کا مفت ٹکٹ شامل تھا۴۲۔ اس سال بھی دو خاص نمبر شائع ہوئے تھے۔ جولائی ۲۰۱۲ء میں ۱۶۰ صفحات کا سیر سپاٹے نمبر نکالا گیا۔ نومبر ۲۰۱۲ء میں ۱۶۸صفحات پر مشتمل سال نامہ شائع کیا گیا۔ سیر سپاٹے نمبر کی قیمت ۳۵روپے جب کہ سال نامے کی قیمت ۴۵ روپے مقرر کی گئی۔ اس سال نامے میں بھی سند باد 4D سینما کا ٹکٹ موجود تھا۴۳۔ شمعون قیصر کے دور میں نئے لکھاریوں کی رہنمائی کے لیے بنایا گیا ’’ساتھی گائیڈنس فورم‘‘ متحرک ہوا۴۴۔ جاتے جاتے شمعون قیصر نے کاغذ کی بڑھتی ہوئی قیمت کے سبب ساتھی کی قیمت میں مزید ۵روپے کا اضافہ کردیا۴۵۔

فصیح اللہ حسینی (اپریل۲۰۱۳ ء تا مارچ ۲۰۱۶ئ)
شمعون قیصر کے بعد ’’فصیح اللہ حسینی‘‘ اپریل۲۰۱۳ء سے مارچ۲۰۱۶ء تک ساتھی کے مدیر رہے۔ ’’فصیح اللہ حسینی‘‘ نے جون ۲۰۱۳ء میں بچپن نمبر شائع کیا۔ یہبچپن نمبر ’’نجیب احمد حنفی‘‘ کے ۳۰ سالہ نمبر کے تعاقب میں ۲۰۰صفحات کا نکالاگیا۔ اس خاص نمبر میں جہاں دلچسپ انعامی سلسلے تھے۔ وہیں کچھ خاص قارئین کے لیے جو بچپن نمبر پڑھنے کے باوجود تشنگی محسوس کر رہے تھے، ان کے لیے بذریعہ کوپن ’’چسنی ‘‘ دینے کا اعلان کیا گیا۴۶۔ اس خاص نمبر کی قیمت ۵۰روپے طے کی گئی تھی۔ ۲۰۱۳ء کے ماہ نومبر میں ۲۴۰ صفحات اور ۵۰ روپے پر مشتمل ساتھی کا پینتیس سالہ نمبر شائع کیا گیا۔ جون ۲۰۱۴ء میں مریخ نمبر نکالاگیا۔ بچوں کے ادب میں پہلی بار کسی رسالے نے اس موضوع پر خاص نمبر نکالا تھا۔ ان تمام خاص نمبرز اور سالناموں کی قیمتیں مستقل ۵۰ روپے ہی رکھی گئی تھیں۔ پچھلی روایتوں کے برعکس اس بار سال نامہ اکتوبر ۲۰۱۴ء میں لایا گیا۔ ۲۰۱۵ء کے ماہ مئی میں ۱۷۶ صفحات پر مشتمل آئیڈیا نمبر لایا گیا۔ جب کہ سال نامہ ۱۶۸صفحات اور ۵۰ روپے کی قیمت پر مشتمل نکالا گیا۴۷۔ سید فصیح اللہ حسینی کے بعد محمدطارق خان ساتھی کے مدیر بنے۔

محمد طارق خان (اپریل ۲۰۱۶ء تا اپریل ۲۰۱۹ئ)
اپریل ۲۰۱۶ء سے اپریل ۲۰۱۹ء تک ’محمد طارق خان‘ ساتھی کے مدیر رہے۔ محمدطارق خان نے ساتھی کی ادارت اپریل ۲۰۱۶ء میں سنبھالی۔ اپریل ۲۰۱۶ء میں ہر کہانی کے آخر میں مشکل الفاظ کے معنی کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ۲۰۱۶ء سے ساتھی میں نئے سلسلے بھی شامل کیے گئے جس میں آپ کی نگارشات۴۸، الفا ظ کا تعاقب۴۹وغیرہ شامل ہیں۔ نومبر۲۰۱۶ء میں سال نامہ لایا گیا، جس میں ساتھی کے’ لوح‘ میں تبدیلی کی گئی۔ ۲۰۱۷ء میں شعبہ آئی ٹی کے تحت ویب سائٹ کا افتتاح کیا گیا۵۰۔ مئی ۲۰۱۶ء میں ۱۶۸ صفحات پر مشتمل ابو نمبر شائع کیا گیا۔ اس خاص شمارے کی قیمت ۶۰ روپے تھی جب کہ اس کے اگلے ماہ ہی یتیم بچوں کے حوالے سے باہمت بچے نمبر لایا گیا۵۱۔ یہ خاص نمبر ۱۱۶ صفحات پر مشتمل تھا اور اس میں عام شمارے میں سے صرف ۴ صفحات ہی زائد شائع کیے گئے۔ اسی سال نومبر ۲۰۱۶ء میں ۱۶۸ صفحات پر مشتمل سال نامہ شائع کیا گیا جب کہ اس شمارے کی قیمت ۵۰ روپے رکھی گئی۔ مئی ۲۰۱۷ء میں ۲۰۴ صفحات پر مشتمل بھول نمبر شائع کیا گیا۔اس رسالے کی قیمت ۶۰ روپے تھی۔ جب کہ اس سال نومبر ۲۰۱۷ء میں ساتھی کی تاریخ کا ضخیم ترین رسالہ چالیس سالہ نمبر ۲۸۸ صفحات پر مشتمل شائع کیا گیا، اس خاص شمارے میں سرورق کی تصویر پر مشتمل ’’پزل‘‘ کا تحفہ ہر رسالے کے ساتھ دیا گیا۔ یہ خاص شمارہ ساتھی کے چالیس سال مکمل ہونے پر شائع کیا گیا تھا۔ ۲۸۸ صفحات پر مشتمل اس رسالے کی قیمت صرف ۸۰ روپے رکھی گئی، چالیس سالہ نمبر کی تقریب رونمائی نومبر ۲۰۱۷ء کو آرٹس کونسل کراچی میں کی گئی تھی۵۲۔ اگلے سال مئی ۲۰۱۸ء میں بچوں اور معاشرے میں موجود شکایات کے رجحان پر مشتمل خاص شمارہ شکایت نمبر شائع کیا گیا، اس خاص شمارے کے ۲۰۸ صفحات جبکہ ۸۰ روپے قیمت رکھی گئی تھی۔ نومبر ۲۰۱۸ء میں ۱۷۶ صفحات اور ۸۰ روپے کی قیمت کے ساتھ سالنامہ شائع ہو ا۔ محمد طارق خان مارچ ۲۰۱۹ء کو رخصت ہوئے۔

عبدالرحمن مومن (اپریل ۲۰۱۹ء تامارچ ۲۰۲۲ئ)
عبدالرحمن مومن نے مدیر کی نشست سنبھالتے ہی جولائی ۲۰۱۹ء میں اسکول نمبر کا اجرا کیا۔ اس خاص شمارے کی قیمت ۸۰ روپے جبکہ صفحات ۱۶۸ رکھے گئے، جبکہ اسی سال سال نامہ نومبر کی جگہ دسمبر میں لایا گیا۵۳۔ اس کی قیمت بھی ۸۰ روپے اور صفحات ۱۶۸ رکھے گئے۔ ملک میں کورونا وائرس کے پھیلائو کے سبب جہاں دیگر بہت سے رسائل شائع نہیں ہوئے وہیںساتھی کے چار شمارے اپریل تا جولائی ۲۰۲۰ء آن لائن www.satheemagazine.com شائع کیے گئے۵۴۔ ۲۰۲۰ء ماہِ دسمبر میں کھیل نمبر شائع ہوا۔ اس سال ساتھی کا صرف ایک خاص شمارہ شائع ہوا جب کہ سال نامہ ’’کورونا وبا‘‘ کی نظر ہوگیا۔ جولائی ۲۰۲۱ء میں گھبراہٹ نمبر ، دسمبر میں ۲۰۲۱ء میں سال نامہ شائع کیا گیا۔ ان دونوں خاص شماروں کی قیمت ۸۰ جبکہ صفحات ۱۶۸ رکھے گئے تھے۔ عبدالرحمن مومن کے دورِ ادارت میں تمام ہی خاص شمارے ۱۶۸ صفحات پر شائع ہوئے۔
مارچ ۲۰۲۲ء میں آپ بھی مدیر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ جب کہ تادمِ تحریر ’’عاقب جاوید‘‘ اس وقت ماہنامہ ساتھی کے مدیر ہیں۔
ساتھی کے خاص نمبر ز کی ایک طویل تاریخ ہے، نت نئے موضوعات پر خاص نمبر ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ذیل میں ان خاص نمبرز کی فہرست دی جارہی ہے، اس فہرست میں سالنامے شامل نہیں کیے گئے ہیں، اگر چہ سال نامہ بھی اتنی ہی ضخامت اور منفرد آئیڈیاز پر مشتمل ہوا کرتا ہے۔ ان سال ناموں کا تذکرہ ہم مدیران کی تاریخ میں کرچکے ہیں، جب کہ موضوعات کی انفرادیت کی وجہ سے نکلنے والے خاص نمبرز کی فہرست کو الگ سے بھی دیا جارہا ہے۔

ماہنامہ ساتھی کے خاص نمبرز کی فہرست۵۵

شمار ۔ موضوع ۔ ماہ وسال ۔ صفحات ۔ مزید تفصیلات
۱ ۔ امتحان نمبر ۔ مارچ ۱۹۷۸ء ۔ ۳۲ صفحات ۔ ۔۔۔
۲ ۔ امتحان نمبر ۔ مارچ ۱۹۸۱ء ۔ _____ ۔ ۔۔۔
۳ ۔ امتحان نمبر ۔ فروری ۱۹۸۴ء ۔ ۵۰ صفحات ۔ ۔۔۔
۴ ۔ رمضان المبارک نمبر ۔ مئی، جون ۱۹۸۶ء ۔ ۶۴ صفحات ۔ ۔۔۔
۵ ۔ آزادی نمبر ۔ اگست ۱۹۸۵ء ۔ ۶۴ صفحات ۔ ۔۔۔
۶ ۔ کمپیوٹر اسپیشل نمبر ۔ جولائی ۱۹۹۰ء ۔ ۱۱۲ صفحات ۔ ۔۔۔
۷ ۔ پندرہ سالہ نمبر ۔ فروری ۱۹۹۲ء ۔ ۱۶۰ صفحات ۔ ۔۔۔
۸ ۔ آزادی کشمیر نمبر ۔ جولائی ۱۹۹۲ء ۔ ۱۲۸ صفحات ۔ ۔۔۔
۹ ۔ سائنس اسپیشل ۔ نومبر ۱۹۹۲ء ۔ ۱۳۶ صفحات ۔ ۔۔۔
۱۰ ۔ حقوق اطفال نمبر ۔ اپریل ۱۹۹۳ء ۔ ۱۱۲ صفحات ۔ دعوۃ اکیڈمی کی طرف سے دوسرا انعام
۱۱ ۔ جیوے پاکستان نمبر ۔ اگست ۱۹۹۳ء ۔ ۱۳۶ صفحات ۔ ۔۔۔
۱۲ ۔ خاص بچے خاص شمارہ ۔ مارچ ۱۹۹۴ء ۔ ۱۴۴ صفحات ۔ دعوۃ اکیڈمی کی طرف سے اول انعام
۱۳ ۔ صحت اسپیشل ۔ فروری ۱۹۹۶ء ۔ ۱۴۸ صفحات ۔ ۔۔۔
۱۴ ۔ فروغِ تعلیم نمبر ۔ اپریل ۱۹۹۶ء ۔ ۱۲۸ صفحات ۔ ۔۔۔
۱۵ ۔ اطفال پاکستان نمبر ۔ مارچ ۱۹۹۷ء ۔ ۱۱۲ صفحات ۔ ۔۔۔
۱۶ ۔ عزم آزادی نمبر ۔ اگست ۱۹۹۷ء ۔ ۱۶۸ صفحات ۔ ۔۔۔
۱۷ ۔ بیس سالہ نمبر ۔ نومبر ۱۹۹۷ء ۔ ۱۴۸ صفحات ۔ ۔۔۔
۱۸ ۔ ماں نمبر ۔ اپریل ۱۹۹۸ء ۔ ۱۲۸ صفحات ۔ ۔۔۔
۱۹ ۔ ورلڈ کپ اسپیشل ۔ جون ۱۹۹۹ء ۔ ۱۳۶ صفحات ۔ ۔۔۔
۲۰ ۔ حقوق اطفال نمبر ۔ نومبر ۱۹۹۹ء ۔ ۱۱۲ صفحات ۔ ۔۔۔
۲۱ ۔ صحت و صفائی نمبر ۔ مئی ۲۰۰۰ء ۔ ۱۳۶ صفحات ۔ خوب صورت پزل کا تحفہ
۲۲ ۔ آزادی کشمیر نمبر ۔ نومبر ۲۰۰۰ء ۔ ۱۱۲ صفحات ۔ ۔۔۔
۲۳ ۔ بچے اور امن نمبر ۔ جولائی ۲۰۰۱ء ۔ ۱۱۲ صفحات ۔ سرورق کو دعوۃ اکیڈمی نے پاکستان بھر میں بہترین سر ورق قرار دیا
۲۴ ۔ پچیس سالہ نمبر ۔ ستمبر ۲۰۰۲ء ۔ ۲۴۰ صفحات ۔ ۔۔۔
۲۵ ۔ حیرت ناک نمبر ۔ جولائی ۲۰۰۳ء ۔ ۱۱۲ صفحات ۔ ۔۔۔
۲۶ ۔ جنگل نمبر ۔ جولائی ۲۰۰۴ ء ۔ ۱۴۴ صفحات ۔ ۔۔۔
۲۷ ۔ آزادی نمبر ۔ اگست ۲۰۰۴ء ۔ ۱۲۰صفحات ۔ ۔۔۔
۲۸ ۔ قائدِ اعظم نمبر ۔ دسمبر ۲۰۰۵ء ۔ ۱۶۰ صفحات ۔ قائد اعظم کی آٹو گراف بک بطور تحفہ
۲۹ ۔ عالمِ اسلام نمبر ۔ دسمبر۲۰۰۶ء ۔ ۱۶۸ صفحات ۔ ۔۔۔
۳۰ ۔ تیس سالہ نمبر ۔ ستمبر ۲۰۰۷ء ۔ ۲۰۰ صفحات ۔ اینیمل کارڈ گیم کا تحفہ
۳۱ ۔ کارنامہ نمبر ۔ جنوری۲۰۰۸ء ۔ ۱۵۲ صفحات ۔ ۔۔۔
۳۲ ۔ بور نمبر ۔ جون ۲۰۰۸ء ۔ ۱۵۲ صفحات ۔ جھنجھنا بطور تحفہ
۳۳ ۔ شرارت نمبر ۔ جولائی ۲۰۰۹ء ۔ ۱۵۲ صفحات ۔ ۔۔۔
۳۴ ۔ سائنس نمبر ۔ جون۲۰۱۰ء ۔ ۱۶۸ صفحات ۔ ۔۔۔
۳۵ ۔ تعمیر پاکستان نمبر ۔ اگست ۲۰۱۱ء ۔ ۱۶۸ صفحات ۔ ۔۔۔
۳۶ ۔ سیر سپاٹے نمبر ۔ جولائی ۲۰۱۲ء ۔ ۱۶۰صفحات ۔ ۔۔۔
۳۷ ۔ بچپن نمبر ۔ جون ۲۰۱۳ء ۔ ۲۰۰صفحات ۔ چسنی کا تحفہ، مخصوص قارئین کے لیے
۳۸ ۔ پینتس سالہ نمبر ۔ نومبر ۲۰۱۳ء ۔ ۲۴۰صفحات ۔ ۔۔۔
۳۹ ۔ مریخ نمبر ۔ جون ۲۰۱۴ء ۔ ۲۰۰ صفحات ۔ ۔۔۔
۴۰ ۔ آئیڈیا نمبر ۔ مئی ۲۰۱۵ء ۔ 176صفحات ۔ ۔۔۔
۴۱ ۔ ابو نمبر ۔ مئی ۲۰۱۶ء ۔ ۱۶۸ صفحات ۔ ۔۔۔
۴۲ ۔ باہمت بچے نمبر ۔ جون ۲۰۱۶ء ۔ ۱۱۶ صفحات ۔ ۔۔۔
۴۳ ۔ بھول نمبر ۔ مئی ۲۰۱۷ء ۔ ۲۰۴ صفحات ۔ ۔۔۔
۴۴ ۔ چالیس سالہ نمبر ۔ نومبر ۲۰۱۷ء ۔ ۲۸۸ صفحات ۔ پزل کا تحفہ
۴۵ ۔ شکایت نمبر ۔ مئی ۲۰۱۸ء ۔ ۲۰۸صفحات ۔ ۔۔۔
۴۶ ۔ اسکول نمبر ۔ جولائی ۲۰۱۹ء ۔ ۱۶۸ صفحات ۔ ۔۔۔
۴۷ ۔ کھیل نمبر ۔ دسمبر ۲۰۲۰ء ۔ ۱۶۸ صفحات ۔ ۔۔۔
۴۸ ۔ گھبراہٹ نمبر ۔ جولائی ۲۰۲۱ء ۔ ۱۶۸ صفحات ۔ ۔۔۔

ماہنامہ ساتھی کی تاریخ ان کے مدیران کے دورِ ادارت سے جڑی ہوئی ہے، اس لیے ہر مدیر کے دور میں ہونے والی اہم پیش رفتوں کو یہاں بیان کیا گیا ہے۔ ماہنامہ ساتھی میں مدیران کی تبدیلی کا عمل اس رسالے کا خاص طرّہ امتیاز کہا جاسکتا ہے۔ اس عمل کی وجہ سے جہاں رسالے کو بہت سے فوائد پہنچتے ہیں، اسی طرح، ٹیم کی تبدیلی رسالے کے معیار کو اُوپر نیچے کردیتی ہے۔ چوں کہ ساتھی رسالہ ایک طلبہ تنظیم کے ذمہ داران چلارہے ہیں جو خود بھی طالب علم ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کا تجربہ نہ ہونے کے برابر یا بہت ہی کم ہوتا ہے، جس کے اثرات رسالے میں نظر آتے ہیں۔ ہر مدیر کا عکس رسالے میں نظر آتا ہے۔ کہانیوں کے انتخاب سے لے کر نظموں کی پسندیدگی تک، ہر معاملے میں مدیر کے مزاج اور پسند کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ساتھی رسالے کو بہت اچھے مدیران بھی میسر آئے ہیں جنھوں نے ساتھی کے معیار کو بہتر بنایا، قلم کاروں کی ٹیم بنائی اور بچوں کے ادب میں بہت اچھا اضافہ کیا۔ ٹیم کی تبدیلی کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ نت نئے آئیڈیاز ساتھی میں دَر آئے۔ ساتھیکی ٹیم میں شامل نوجوانوں کی صحافتی تربیت بھی اس عرصے کے دوران ہوتی رہی، اگر کسی نے یہاں سے نکل کر صحافت یا پھر بچوں کی صحافت میں قدم رکھا تو اس نے بہت جلد کامیابیاں سمیٹیں۔ ساتھی کے اب تک بیس مدیر تبدیل ہوچکے ہیں اور اب اکیسویں مدیر نے ذمے داریاں سنبھال لی ہیں۔ ساتھی کی ایک لمبے عرصے سے پریکٹس یہ ہے کہ ساتھی میں آنے والا شخص پہلے سال مجلس ادارت میں بطور معاون کام کرتا ہے۔ اس ایک سال میں سب سے قابل اور سینئر طالب علم مجلس ادارت کا انچارج مقرر کردیا جاتا ہے۔ تین سال مجلس ادارت کی ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد مجلس ادارت کا ذمے دار ’’مدیر‘‘ مقرر ہوتا ہے۔ مدیر کا دورانیہ تقریباً تین برس ہوتا ہے۵۶۔
یہ ایک تنظیمی روایت بن چکی ہے۔ ایسا ضروری بھی نہیں کہ یہ تسلسل برقرار رہے، تنظیمی ضروریات کی وجہ سے مدیر کا دورانیہ آگے پیچھے ہوسکتا ہے۔ نجیب احمد حنفی کے دور سے پہلے تک ساتھی کی باقاعدہ کوئی مشق ایسی نہیں تھی کہ مدیر نے کتنے سال رہنا ہے اور یہ بھی ضروری نہیں تھا کہ مجلس ادارت کا انچارج ہی ’’مدیر‘‘ بنے گا۔ ۲۰۰۶ء کے بعد مدیران کی تبدیلی کے اس عمل میں تسلسل آیا ہے۔۵۷ ساتھی میں کون کتنے عرصے کے لیے مدیر رہا، اس کی فہرست ذیل میں دی جارہی ہے۔

ماہنامہ ساتھی کے مدیران اور ان کے دور ادارت کی فہرست۵۸

شمار ۔ نام ۔ عرصہ
۱ ۔ کلیم چغتائی ۔ اگست۱۹۷۷ء
۲ ۔ آفتاب الدین ۔ ستمبر ۱۹۷۸ء تا اگست ۱۹۷۹ء
۳ ۔ شاہد رفیع مجاہد ۔ ستمبر۱۹۷۹ء تا دسمبر ۱۹۸۳ء
۴ ۔ اعظم منہاس ۔ جنوری ۱۹۸۴ء تا اکتوبر ۱۹۸۴ء
۵ ۔ سعود کمال عباسی ۔ نومبر ۱۹۸۴ء تا اگست ۱۹۸۷ء
۶ ۔ صادق جمیل ۔ ستمبر ۱۹۸۷ء تا دسمبر۱۹۸۹ء
۷ ۔ سید شمس الدین ۔ جنوری۱۹۹۰ء تا دسمبر۱۹۹۱ء
۸ ۔ قاضی سراج الدین ۔ جنوری ۱۹۹۲ء تا مئی ۱۹۹۴ء
۹ ۔ صہیب جمال ۔ جولائی ۱۹۹۴ء تا ستمبر ۱۹۹۵ء
۱۰ ۔ عبد الحامد ۔ اکتوبر ۱۹۹۵ء تا فروری ۱۹۹۷ء
۱۱ ۔ عبد الفرید بروہی ۔ مارچ ۱۹۹۷ء تا مارچ ۱۹۹۸ء
۱۲ ۔ ضیاء شاہد ۔ اپریل ۱۹۹۸ء تا اپریل ۲۰۰۰ء
۱۳ ۔ میر شاہد حسین ۔ مئی ۲۰۰۰ء تااپریل۲۰۰۲ء
۱۴ ۔ راحیل یوسف ۔ اپریل ۲۰۰۲ء تا ستمبر ۲۰۰۳ء
۱۵ ۔ کاشف شفیع ۔ اکتوبر ۲۰۰۳ء تا نومبر ۲۰۰۵ء
۱۶ ۔ نجیب احمد حنفی ۔ دسمبر ۲۰۰۵ء تا مارچ ۲۰۱۰ء
۱۷ ۔ شمعون قیصر ۔ اپریل۲۰۱۰ء تا مارچ ۲۰۱۳ء
۱۸ ۔ سید فصیح اللہ حسینی ۔ اپریل۲۰۱۳ ء تا مارچ ۲۰۱۶ء
۱۹ ۔ محمد طارق خان ۔ اپریل ۲۰۱۶ء تا اپریل ۲۰۱۹ء
۲۰ ۔ عبدالرحمن مومن ۔ اپریل ۲۰۱۹ء تامارچ ۲۰۲۲ء
۲۱ ۔ عاقب جاوید ۔ اپریل ۲۰۲۲ء تاحال

ساتھی کی تاریخی تفصیلات دیگر رسائل کے مقابلے میں زیادہ ہے، اس کی دو اہم وجوہ ہیں۔ پہلی وجہ مدیران کی ایک لمبی فہرست ہے، جو کرسی ادارت پر متمکن نظر آتی ہے۔ دوسری اہم وجہ ساتھی کے خاص شمارے اور سال ناموں کی روایت ہے، جو تسلسل کے ساتھ شائع ہوتے رہے، ہر مدیر نے کچھ انوکھا کرنے کی غرض سے بچوں کے ادب میں گراں قدر اضافہ کیا۔یہ تاریخ مزید بڑھ سکتی ہے، اگر ہم اس میں ساتھی کی شان دار روایت ’’ساتھی رائٹرز ایوارڈ‘‘ کا تذکرہ کریں۔ ساتھی کے کم وبیش ۱۴؍ایوارڈ تقریبات منعقد ہوچکی ہیں۵۹۔ان تقریبات میں ساتھی کے نمایاں قلم کاروں کو ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے۔
ساتھی کے تحت بچوں کے لیے منعقد مشاعرے اور ’’ساتھی گائیڈنس فورم‘‘ کے ذریعے قلم کاروں کی تربیت ساتھی کی ادبی کاوشوں کا ثبوت ہے۔ ساتھی کو صرف ایک رسالے کے طور پر نہیں بلکہ ایک ادارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ ایک انسٹیٹیوٹ ہے، جہاں کچھ طلبہ ادارتی اورانتظامی اُمور سیکھتے ہیں۔ نئے قلمکاروں کو تربیت فراہم کرتے ہیں، بچوں کی تربیت اور اُنھیں مثبت تفریح فراہم کرنے کے لیے رسالے کی اشاعت کے ساتھ ساتھ ان کے لیے علمی وادبی محفلوں کا انعقاد کرتے ہیں۔
ماہنامہ ساتھی بچوں کے ادب میں اپنا کردار نمایاں طور پر گزشتہ تینتالیس (۴۳) برس سے ادا کررہا ہے۔

موضوعات:
ماہنامہ ساتھی کے ابتدائی شماروں میں ہمیں کہانیوں کا ویسا تنوع نہیں ملتا جیسا کہ بچوں کے کسی رسالے میں ہونا چاہیے۔یوں کہہ لیجیے کہ ساتھی دیگر بچوں کے رسائل کی طرح جلدی بڑا نہیں ہوا۔اِسے بڑھنے، سجنے اور سنورنے میں خاصا وقت لگا۔ آپ اسی سے اندازہ لگالیجیے کہ ساتھی کا آغاز اگست ۱۹۷۷ء میں ہوا تھا اور یہ بچوں کا رسالہ بنا خاکوں کے شائع ہوتا تھا، ۱۹۹۰ء کے عشرے میں اس رسالے کے اندر باقاعدہ اسکیچز لگنے کا آغاز ہوا۶۰۔ابتدا میں اس کا سائز بھی چھوٹا تھا۔ رنگین صفحات نہ تصویریں۔ سپاٹ سے انداز میں چند تحریریں شائع کردی جاتی تھیں۶۱۔
رفتہ رفتہ ساتھی کے سائز میں اضافے کے ساتھ اس میں موجود تحریروں کے موضوعات میں بھی نمایاں فرق نظر آنے لگا۔ رنگین تصاویر کے ساتھ نت نئے موضوعات پر کہانیاں شائع ہونے لگیں۔
ان موضوعات میں دینی اور اسلامی تاریخی تحریروں کے علاوہ، اخلاقی کہانیاں، سائنس فکشن، معاشرتی کہانیاں، مہماتی کہانیاں، جانوروں کی کہانیاں، سلسلہ وار ناولز، مزاحیہ تحریریںاور معلوماتی مضامین(مختلف موضوعات پر) شامل ہیں۔ ان موضوعات پر متنوع قسم کی تحریریں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان موضوعات میں۱۹۷۷ء سے لے کر ۲۰۰۰ء تک جو چیز ہمیں متواتر نظر آتی ہے، وہ مسئلہ کشمیر ہے۔ تقریباً ہر شمارے میں اس موضوع کا احاطہ کیا گیا ہے۔۶۲
مذہبی رجحان رکھنے والے بچوں کے رسائل میں ایک چیز کے اندریہ قدر مشترک نظر آئی کہ ان کے ہاں مافوق الفطرت عناصر کو یک جنبش قلم نکال باہرکردیا گیا تھا۔ اس قسم کی کہانیوں سے حتی الامکان رسالوں کو بچایا گیا ہے۔ حتیٰ کہ جانوروں وغیرہ کو موضوع بناتے ہوئے جو تحریریں لکھی گئیں، ان میں بھی زندگی کے تلخ تجربات شامل کیے گئے۔ ہم پیچھے اس بات کا ذکر کرچکے ہیں کہ کسی چیز کی کثرت ٹھیک نہیں ہوتی۔لیکن ان عناصر کو بالکل نظر انداز کردینا بھی ٹھیک نہیں۔ یہ تو بچوں کا مقبول میدان ہے۔ یہاں بچہ تحیر محسوس کرتا ہے۔ نیکی اور بدی کو محسوس کرتا ہے،ان کہانیوں میں اتنی زیادہ کشش ہے کہ یہ بچوں کو مسحور کرتی ہیں۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اکیسویں صدی ہے اور اس صدی میںبچے کیوں کر ایسی کہانیوں پر یقین کریں گے اور اس سے محظوظ ہوں گے لیکن یہ سوال کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ ’’جے کے رولنگ‘‘ کا لکھا گیا ناول ہیری پورٹر اسی صدی کا ہے۶۳۔ اُسے جدید دنیا کے ہوشیار ترین بچوں نے جس رغبت سے دیکھا، وہ ہمارے سامنے ہے۔بچوں کے لیے آج بھی مافوق الفطرت کرداروں پر مبنی کہانیاں لکھی جارہی ہیں اور ان کہانیوں پر مشتمل فلمیں بن رہی ہیں۔ اس لیے اس موضوع کو نظر انداز کردینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔
ماہنامہ ساتھی میں زندگی سے قریب ترین کہانیوں کی اشاعت ہمیں بکثرت نظر آتی ہیں۔ ساتھی میں ہر دوسری کہانی کے مرکزی موضوع کا لُب لُباب اسلام، پاکستان ، کشمیرہوتا تھا۔ اگست ۱۹۸۱ء سے لے کر اکتوبر ۱۹۸۱ء تک شائع ہونے والی کہانی مشن نمبر ۵۳۰ افغان جہاد کے پس منظر میں تحریر کی گئی۶۴۔ اس وقت سویت یونین کا افغانستان میں کنٹرول تھا۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے پاکستانیوں کی ہمدردی افغانیوں کے ساتھ تھی۔ اس ہمدردی کا اظہار، کہانیوں اور نظموں میں ہوتا تھا۔ مشن نمبر ۵۳۰ کو ایک مہماتی کہانی کہا جاسکتا ہے، جس میں مجاہدین دشمن کو ناکوں چنے چبوادیتے ہیں اور اس عزم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ایک نا ایک دن افغانستان کو آزاد کرواکر دَم لیں گے۔
ایسا بھی نہیں تھا کہ ساتھی میں دوسری قسم کی کہانیاں شائع نہیں ہوتی تھیں بلکہ جب ہم تھوڑا آگے بڑھ کر ۱۹۸۵ء کے شماروں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں منفرد قسم کی کہانیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ عقل مند کاریگر(لوکو مل ایس کھتری)۶۵، کایا کلپ(سرور انبالوی) ۶۶اور جس کا کام اسی کو ساجھے (کلیم چغتائی) ۶۷جیسی کہانیاں بچوں کے ذوق کو بڑھاوا دیتی ہیں۔
کلیم چغتائی کی تحریر جس کا کام اسی کو ساجھے دیکھیے کہ کہانی ہی کہانی میں بچوں کو زندگی کا ایک اہم فلسفہ سمجھایا جارہا ہے۶۸۔ اللہ نے مردوعورت کے ذمّے الگ الگ کام لگائے ہیں۔ ان میں سے جو بھی دوسرے کے حصے کاکام کرتا ہے یا تو وہ اسے بگاڑ دیتا ہے یا پھر اسے اس طریقے سے نہیں کرپاتا جس طرح متعلقہ شخص کرتا ہے۔ اس کہانی میں بھی ایک ایسے ہی شخص کی کہانی ہے جو اپنی بیوی سے شرط لگاتا ہے کہ وہ گھر کے کام کاج زیادہ آسانی سے کرلے گا لیکن کہانی کے آخر میں وہ شخص اس بات پر نادم ہوتا ہے اور سمجھ جاتا ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔
یہ ایک معاشرتی تحریر ہے۔ معاشرے کا ایک اہم کلیہ بچوں کو سمجھایا گیا ہے۔ جب بچہ اس بنیادی کلیے سے ناواقف ہو تو بڑے ہو کر وہ زندگی کی اس پیچیدگی کو سلجھا نہیں پاتا اور مرد وعورت کی برتری کی بحث میں پڑ جاتا ہے۔ ایسی کہانیوں سے ابتدا ہی میں بچے کو ذہنی تربیت دے دی جاتی ہے۔
اسی طرح جانوروں کے موضوع پر سلیم مغل کی تحریر کردہ کہانی پھولوں والی بستی ملاحظہ کیجیے۔ اس تحریر میں بھیڑیے اور سانپ کی فطرت کا تذکرہ ہے کہ کیسے وہ جانوروں کو اپنی لچھے دار گفتگو کے دام میں پھنسا کر اپنا مستقل ٹھکانہ وہیں بنالیتے ہیں۔کچھ عرصے بعد جنگل میں بے اطمینانی اور خوف پھیلنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس تحریر میں انجانے لوگوں پر جلد بھروسہ کرنے کا خوف ناک انجام بتایا گیا ہے۶۹۔
اسی طرح کشمیر کے موضوع پر ساتھی میں متعدد کہانیاں شائع ہوئیں، ان کہانیوں میں مظلوم کشمیریوں سے اظہار ہمدردی اور قابض بھارتی فوج سے نفرت کا اظہار ہوتا تھا۔کشمیر کے موضوع پر یہ وہ کہانیاں ہیں جنھوں نے پاکستان کی آنے والی نسلوں کو کشمیر کے مسئلے سے آگاہ رکھا اور اسے بھولنے نہیں دیا۔بچوں کے تقریباً ہر رسالے میں ہمیں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ظلم وستم کے خلاف تحریریں، مضامین اور نظمیں وقتاً فوقتاً نظر آتی ہیں۔
زندہ باد پاکستان(قلم آشنا) میں مقبوضہ کشمیر کے ’’ٹیپو‘‘ کو پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۷۰۔ یہ جذبہ آج بھی ہمیں کشمیر میں نظر آتا ہے۔ متعدد ایسی ویڈیوز آج بھی ہم دیکھتے ہیں جس میں کشمیری بچے پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کررہے ہوتے ہیں۔
ماہنامہ ساتھیمیں المیے کو بھی موضوع بنایا گیا ہے، حالاں کہ ایسی حساس کہانیاں بچوں کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ بن یامین کی تحریر معصوم میں ایک ایسے بچے کے بارے میں بتایا گیا جو اپنی معصومانہ طبیعت کی وجہ سے مصنف کا دل موہ لیتا ہے لیکن اس بچے کے والد کا ایک حادثے میں انتقال ہوجاتا ہے اور پھر ایک دن جشن آزادی کے موقع پر ’’معصوم‘‘ کو بھی وطن دشمن عناصر فائرنگ کرکے شہید کردیتے ہیں۷۱۔
اسی تناظر میں جولائی ۱۹۹۲ء میں ہمیں آزادی کشمیر نمبر کا اجرا بھی نظر آتا ہے، جس میں کشمیر سے متعلق مضامین، کہانیاں اور نظمیں شامل کی گئی تھیں۔۷۲
سائنس کے موضوع پر ساتھی میں وقتاً فوقتاً کہانیاں شائع ہوتی تھیں لیکن اس موضوع پر نومبر ۱۹۹۲ء میں ساتھی نے باقاعدہ خاص شمارہ بعنوان سائنس اسپیشل نمبر شائع کیا۔ جس میں چاند کے دشمن، کیمیا سے کیمسٹری تک،بو علی سینا کا انٹرویو، وقت سے فرار، سائنسی تجربات، سب سے چھوٹا ریڈاراور وقت کا مذاق جیسی تحریریں شامل تھیں۷۳۔اسی شمارے میں غالب کی زمین میں عبدالقادر کی لاجواب نظم پوچھتا ہوں میں کیمیا کیا ہے شائع ہوئی۷۴۔

اک پہیا ہے نقطۂ آغاز
کون جانے انتہا کیا ہے
چاند تاروں کی ہوگئی تسخیر
پوچھتا ہوں میں کیمیا کیا ہے

ماہنامہ ساتھی میں ۱۹۸۹ء اور ۱۹۹۰ء کے دوران کن کن موضوعات پر تحریریں شائع ہوئیں اس کا جائزہ ’’دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد‘‘ کے ’’شعبہ بچوں کا ادب‘‘ نے لیا۔ اس جائزے کے مطابق ماہنامہ ساتھی میں ان ان موضوعات پر تحریریں شائع کی گئی ہیں۔

ماہنامہ ساتھی ۱۹۸۹ئ۷۵ اور ۱۹۹۰ء ۷۶کے شماروں کا جائزہ

شمار عنوانات ۱۹۸۹ء ۱۹۹۰ء
۱ دینی تحریریں ۷ ۱۰
۲ اسلامی تاریخی تحریریں ۱۰ ۷
۳ اخلاقی کہانیاں ۴۸ ۲۷
۴ معاشرتی تحریریں ۲ ۲۳
۵ مہماتی کہانیاں ۵ ۴
۶ جذبہ حب الوطنی پر مبنی کہانیاں ۴ ۱۱
۷ سائنس فکشن ۔ ۵
۸ سلسلہ وار ناول ۲ ۲
۹ مزاحیہ تحریریں ۳ ۱۵
۱۰ غیر ملکی ادب سے تراجم ۲ ۲
۱۱ سفر نامے ۔ ۔
۱۲ تصویری کہانیاں ۔ ۔
۱۳ شخصیات ۲ ۸
۱۴ ڈراما ۳ ۔
۱۵ معلوماتی مضامین ۲۳ ۳۶
۱۶ مافوق الفطرت کہانیاں ۔ ۔
۱۷ نظمیں ۲۸ ۴۵
۱۸ حمد و نعت ۳ ۲
۱۹ مستقل سلسلے ۔ ۷
۲۰ متفرقات ۲۹ ۲۱

اس جائزے کے مطابق ماہنامہ ساتھیمیں سب سے زیادہ اخلاقی اور معاشرتی کہانیاں شائع کی گئی ہیں۔جب کہ ان دو برسوں میں سفرنامے، تصویری کہانیاں اور مافوق الفطرت کہانیاں شائع ہی نہیں کی گئی ہیں۔تحریروں کے انتخاب میں توزان کی کمی دیکھنے کو ملتی ہے۔
ماہنامہ ساتھی چوں کہ مسلسل ۱۹۷۷ء سے شائع ہوتا آرہا ہے، اس لیے ابتدا میں جن موضوعات سے صرف نظر کیا گیا۔ بعد میں ان موضوعات پر بھی ساتھی میں کہانیاں اور مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔
خصوصاً ۲۰۰۶ء کے بعد ساتھی میں موضوعات کے حوالے سے ہمیں ایک ایسا تنوع دیکھنے کو ملتا ہے جو شاذ ہی بچوں کے کسی رسالے میں موجود ہو۔ روایتی موضوعات سے ہٹ کر نا صرف نثر میں بلکہ نظم میں بھی ہمیں نت نئے تجربات نظر آتے ہیں۔ جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو یہ تجربات ہمیں آنکھ مچولی میں بھی نظرآتے ہیں لیکن اس عرصے کے دوران ہونے والی انقلابی سائنسی اور سماجی تبدیلیوں نے بچوں کے ادب پر گہرا ثر ڈالا ہے۔ اسی طرح موضوعات میں بھی بدلائو آیا ہے۔ اب کرداروں کی کسی ایک واقعے سے کایا نہیں پلٹتی بلکہ تبدیلی کا عمل دھیرے دھیرے ہوتا ہے۔ انگریزی اور عربی ادب کے اثرات بھی بہت زیادہ بچوں کے ادب میں دَر آئے ہیں۔
تصاویر:
چوں کہ بچوں کے رسائل میں تصاویر لازم وملزوم سمجھی جاتی ہیں، اس لیے ہمیں ساتھی کے ابتدائی شمارے تصاویر کے نہ ہونے کی وجہ سے پھیکے پھیکے سے لگتے ہیں۔ ۱۹۷۷ء سے لے کر ۱۹۹۹۰ء تک شائع ہونے والے شماروں میں بغیر تصاویر کے تحریریں شائع ہوتی رہیں، حتیٰ کہ سرورق بھی یک رنگے اور بغیر تصاویر کے شائع کیے جاتے تھے ۔ ابتدا میں رسالے کاتب لکھا کرتے تھے۔ کمپیوٹر آنے کے بعد پورا شمارہ ماسوائے کہانیوں کی سرخیوں کے، کمپوز کیا جانے لگا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، چوں کہ سرخیاں ہاتھ کی لکھی ہوئیں زیادہ جاذب نظر آتی ہیں، اس لیے آج بھی کمپیوٹر سے سرخیاں بنانے کے علاوہ کاتب سے بھی سرخیاں لکھوائی جاتی ہیں، ان سرخیوں کو اسکین کرکے استعمال کیا جاتا ہے۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے سے ساتھی میں کہانیوں اور مضامین کے ساتھ تصویروں کا استعمال شروع ہوا۔ ۷۷
خاکوں کی اشاعت ہونے لگی تو مختلف مصوروں نے اس میں حصہ لیا۔ہمارا جائزہ ۱۹۷۰ء سے ۲۰۰۰ء تک کے ادوار پر مشتمل ہے، اس لیے اس عرصے میں شائع ہونے والے خاکوں اور اس کے بنانے والوں کا تذکرہ کیا جائے گا۔ ۲۰۰۰ء کے بعد ساتھی میں اور بھی اچھے اچھے مصوروں نے خاکے بنائے لیکن اس وقت وہ ہمارا موضوع نہیں۔
ابتدا میں ہمیں خاکے بنانے والوں میں صباح الدین۷۸، شانی اختر۷۹، ابن آس۸۰، مومن رحیم۸۱ اور شائستہ مومن۸۲، شبیر خان۸۳ اور حیدر ۸۴وغیرہ کے نام نظرآتے ہیں۔
مومن رحیم آنکھ مچولی میں بھی اپنے خوب صورت اسکیچز کے حوالے سے مشہور تھے۔ جبکہ ابن آس ساتھی کے لیے کہانیاں بھی لکھا کرتے تھے۔ اُنھوں نے ساتھی کے لیے متعدد اسکیچز بنائے۔ بچوں کے اُردو رسائل کا ایک معاملہ یہ بھی رہا ہے کہ مصوروں کے ناموں کو کسی بھی رسالے نے زیادہ نمایاں نہیں کیا، چہ جائیکہ مصور نے تصویر کے ساتھ اپنے دستخط خود نہ کردیے ہوں۔ دستخط میں بھی کوئی نام پڑھنے میں آجاتا ہے اور کچھ دستخط تو ایسے کیے گئے ہیں کہ سوائے مصنف کے شاید ہی کسی کو سمجھ آئے۔
آنکھ مچولی نے یہ کام اچھا کیا کہ اپنے اجرا کے کچھ عرصے بعد ادارتی صفحے پر مدیران کے نام کے ساتھ مصور کا نام بھی باقاعدہ دیا۸۵ لیکن اس میں ایک مسئلہ یہ رہا کہ رسالے میں اگر کسی دوسرے مصور کی ایک آدھ تصویر شائع ہوگئی تو اس کا نام ادارتی صفحے پر ہمیں نظر نہیں آتا۔اس کا آسان حل تو یہ ہے کہ ہر تصویر کے ساتھ تصویر بنانے والے کا نام بھی نمایاں ہو۔ یہ روایت انگریزی ادب میں تو موجود ہے لیکن اُردو ادب میں عنقا ہے۔
ماہنامہ ساتھی میں رنگین خاکے بھی شائع ہوتے رہے ہیں۸۶۔ درمیان میں ایسا بھی ہوا کہ رسالے سے رنگین صفحات ختم کردیے گئے جس کی وجہ سے رسالہ رنگین خاکوں سے مزین نہیں کیا جاسکا۔ یہ عبدالحامد کا دورِ ادارت تھا۔جس میں قیمت کو مستحکم کرنے کے لیے رنگین صفحات ختم کیے گئے ۸۷۔
ماہنامہ ساتھی کے مختلف ادوار میں کس قسم کے اسکیچز شائع ہوتے رہے ہیں۔آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

’’ابن آس‘‘ کی تحریر کردہ جاسوسی کہانی تلاش کا نومبر۱۹۹۱ء میں بنایا گیا ’’شانی اختر‘‘ کا خاکہ۸۸

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دسمبر۱۹۹۲ء میں’’ صندل طاہر‘‘ کی تحریر کتنے معصوم ہیں یہ پہ بنایا گیا ’’ابن آس‘‘ کا خاکہ۸۹

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم کلیم ہو(قلم آشنا) پر بنایاگیا خاکہ ،جو دسمبر ۱۹۹۴ء میں شائع ہوا۹۰

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دسمبر۱۹۹۷ء میں’’ عتیقہ اظہر‘‘ کی تحریر پھولوں کی وادی کا اسکیچ۹۱

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اظہر عباس کی کہانی نیا عزم پر بنایا گیا احمد کمال کا خوب صورت خاکہ ۹۲

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان اسکیچز(Sketches) میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی محسوس ہوتی ہے۔ خاکوں کی اچھی اشاعت کے لیے کاغذ کا معیار، مشین کا اچھا ہونا، پلیٹوں اور فلموں کی اچھی کوالٹی بہت اثر ڈالتی تھی۔ اس وقت ٹریسنگ سے فلمیں اور فلموں سے پلیٹیں بنا کرتی تھیں، جس کی وجہ سے طباعت پر اثر پڑتا تھا۔ یہ سلسلہ ساتھی میں ۲۰۰۶ء تک رہا۔ نجیب احمد حنفی کے دور میں یہ سلسلہ شروع ہواکہ ٹریسنگ کے بجاے فلمیں اور پھر پلیٹیں بننے لگیں تو اس میں ہمیں مزید بہتری نظر آئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اب طباعت نے بھی بہت زیادہ ترقی کرلی ہے۔ اب فلمیں بنانے کا کام بھی ختم ہوا اور اب کمپیوٹر سے رسالہ تیار ہوکر پلیٹس بننے کے لیے چلا جاتا ہے، ان پلیٹوں پر رسالے کی چھپائی کا عمل ہوتا ہے۹۳۔
کاغذ کا معیار اچھا ہو تو چھپائی کا بہت اچھا نتیجہ سامنے آتا ہے۔ ساتھی رسالہ اس وقت ۴۲ گرام کے نیوز پیپر پر پرنٹ ہوتا ہے، رنگین صفحات کے لیے ۵۲ گرام کا نیوز پیپر استعمال کیا جاتا ہے۔ چوں کہ کاغذ کا معیار زیادہ اچھا نہیں ہے، اس لیے اس پر رنگین چھپائی کا وہ نتیجہ نہیں آتا، جو آنا چاہیے۹۴۔اس کے مقابلے میں سرورق کی چھپائی زیادہ عمدہ ہوتی ہے، اس کی وجہ ۱۱۳ ؍گرام کا آرٹ پیپر ہے۔ ساتھی کو پرنٹنگ کے معیار میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔

سرگرمیاں:
جیسا کہ ہم ابتدا میں بتاچکے ہیں کہ ساتھی نے بتدریج ترقی کی اور اس کی رفتار بہت دھیمے تھی۔ اس لیے ابتدائی شماروں میں ہمیں نہ مستقل سلسلے نظرآتے ہیں اور نہ ہی کوئی انعامی سلسلہ ملتا ہے۔ ابتدا میں ساتھی کے صفحات بھی کم تھے۹۵۔ جب ساتھی کے صفحات بڑھائے گئے تو اس میں مستقل سلسلوں کا بھی باقاعدہ آغاز ہوا، اور انعامی سلسلہ بھی شروع کیا گیا۔

مستقل سلسلے:

ساتھی کے مستقل سلسلوں میں نمایاں سلسلے یہ تھے۔
۱۔ القرآن، سرچشمۂ ہدایت، خوشبو، اچھی باتیںسچی باتیں،مشعل ِراہ
۲۔ پیام، بہت قیمتی بات، آپ سے کچھ کہنا ہے
۳۔ رنگی برنگی دنیا
۴۔ مختصر پُراثر،مختصر دلچسپ نصیحت آموز
۵۔ میرے نام، آپ کی باتیں، ساتھی ڈاک خانہ،ساتھی کی ڈاک مدیر کی بات،
آپ کا صفحہ، ایڈیٹر کی میز پر
۶۔ اخبارِ ساتھی
۷۔ مسکرائیے، کڑوی کسیلی گولیاں،آلو بخارے، بل پڑ گئے بل،ہنسیں ورنہ،
لطیفے وطیفے
۸۔ تعارفی نشست، آؤ بنائیں دوست، بزم ساتھی
۹۔ ساتھی انسائیکلو پیڈیا
۱۰۔ ادیبوں کی ڈائری

القرآن ابتدا میں شائع ہوتا تھا۹۶۔اس میں مہینے کی مناسبت سے یا پھر کوئی عمومی آیت شامل کی جاتی تھی۔ یہ رسالے کا دوسرا صفحہ ہوتا تھا۔ ساتھی میں چوں کہ مدیر کی تبدیلی کا عمل جلد جلد ہوتا تھا، اس لیے ہر مدیر مستقل سلسلوں میں یا تو تبدیلی کردیتا یا پھر اس کا عنوان بدل دیتا۔ بہت سارے سلسلوں کو ویسے ہی جاری بھی رہنے دیا جاتا تھا۔ بعد میں القرآن کے علاوہ، سرچشمۂ ہدایت۹۷، خوشبو۹۸، اچھی باتیںسچی باتیں۹۹، باتوں سے خوشبو آئے۱۰۰، مشعل ِراہ۱۰۱ کے سلسلے شروع کیے گئے۔
سرچشمۂ ہدایت میں کوئی حدیث بیان کرنے کے ساتھ بچوں کو سمجھانے کے لیے اس کی تشریح کردی جاتی تھی۔
مثلاً: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’خرابی اور نامرادی ہے اس شخص کے لیے جو جھوٹی باتیں اس لیے کہتا ہے تاکہ لوگوں کو ہنسائے، خرابی ہے اس کے لیے، خرابی ہے اس کے لیے۔‘‘
تشریح: اس حدیث میں ان لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ جو باتیں کرتے ہوئے کچھ جھوٹ کی آمیزش کرکے گفتگو کو چٹپٹی اور مزے دار بناتے ہیں اور اس سے لُطف کا سامان کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس بُری عادت سے بچنے کی توفیق دے۔(آمین)۱۰۲
اس سلسلے کی ایک خامی یہ تھی کہ اس میں کبھی کبھار حدیث کا حوالہ موجود نہیں ہوتا تھا۔ قرآن اور حدیث سمیت کسی بھی کتاب کا اقتباس دیا جارہا ہو تو اس کا حوالہ ضرور دینا چاہیے۔
اسی طرح خوشبو، اچھی باتیں سچی باتیںاور مشعل ِ راہ میں کوئی حدیث یا قرآن کی آیت اور اس کی تشریح بیان کی جاتی تھی جب کہ باتوں سے خوشبو آئے میں کوئی حدیث بیان کی جاتی تھی اور ان احادیث پر اشعار شائع کیے جاتے تھے۔
مثال کے طور پر:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔(متفق علیہ)

ہر بشر کا بشر سے ہے ناتا
ہے یہ قول رسولؐ سمجھاتا
رحم کرتا نہیں جو اوروں پر
رحم اس پر نہیں کیا جاتا

یہ ایک انوکھا خیال تھا۔ کچھ عرصہ چلنے کے بعد یہ سلسلہ بھی بند کردیا گیا۔۱۰۳

پیام، ساتھی کا اداریہ ہوتا تھا۱۰۴۔ اس میں مدیر قارئین سے مخاطب ہوتا اور اس سے ہلکی پھلکی گپ شپ یا پھر مہینے کی مناسب سے کوئی نصیحت کردی جاتی تھی۔ کبھی کبھار مدیر رسالے میں کسی سلسلے کی اہمیت کے حوالے سے قارئین کو آگاہ کررہا ہوتا ہے۔ اداریہ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے ناموں سے بھی شائع ہوتا رہا جن میں بہت قیمتی بات۱۰۵، آپ سے کچھ کہنا ہے۱۰۶ شامل ہے۔ ساتھی میں زیادہ تر اداریے ناصحانہ ہوا کرتے تھے۔
مثال کے طو ر پرجنوری ۱۹۹۹ء میں ضیا شاہد کا لکھا گیا اداریہ ملاحظہ کیجیے:

عزیز ساتھیو! آپ کا کیا خیال ہے اس نوکر کے بارے میں جو اپنے مالک کے سامنے اس کی بڑی تعریفیں کرتا ہے لیکن جب مالک اسے کوئی حکم دیتا ہے تو وہ اس کے احکامات رَد کردیتا ہے اور اسی طرح کھڑے ہو کر مالک کی زبانی تعریف کرتا رہتا ہے۔ مالک اس سے پانی مانگتا ہے، لیکن وہ پانی لانے کے بجاے ’’مالک اچھا ہے، مالک اچھا ہے‘‘ کی گردان کرتا رہتا ہے لیکن پانی لا کر نہیں دیتا۔
آپ کا کیا خیال ہے اس نوکر کے بارے میں!!
یقینا آپ سے پاگل قرار دیں گے کیوں کہ اس کا مالک اس حرکت پر اسے نوکری سے نکالنے والا ہوگا۔
کیا آپ نے کچھ دیر کے لیے سوچا کہ کہیں ہمارا معاملہ اس نوکر جیسا تو نہیں اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو یقینا ہم کہہ اُٹھیں گے کہ بالکل اپنے رب کے ساتھ ہمارا بھی یہی معاملہ ہے۔ہم بھی اس کے احکامات کو رَد کررہے ہیں۔
مگر ہمارا رب ہمیں موقع دے رہا ہے کہ ہم اپنے آپ کو تباہی سے بچالیں قبل اس کے کہ موت آجائے۔ بُرے کاموں سے توبہ کرکے اس کے سپاہی بن کر اس کے دین کو قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔ تب یقینا مالک ہم سے خوش ہو کر ہمیں بطور انعام جنت میں داخل فرمادے گا۔یہی نئے سال کا پیغام اور عید کا تحفہ ہے۔
آپ کا ساتھی۱۰۷
رنگی برنگی دنیا دراصل رنگین صفحات پر دلچسپ تصویروں پر ہونے والے تبصروں پر مشتمل ہوتا تھا۱۰۸۔ رنگین صفحات پر عموماً کوئی دلچسپ مضمون بھی شائع کیا جاتا تھا۔ تصویروں پر تبصروں کے ساتھ معلومات بھی ہوتی تھیں، اسے آپ باتصویر مختصر مضمون بھی کہہ سکتے ہیں۔مثال کے طور پراکتوبر ۱۹۹۴ء کے شمارے میں ایک ہرے رنگ کی مکڑی کی تصویر دی گئی ہے اور اس کے نیچے لکھا ہے:

پتے میں کیا ہے؟ تصویر میری کھینچو…!

ساتھیو! مکڑیاں تو آپ نے بہت سی دیکھی ہوں گی اور کچھ تو ڈرتے بھی ہوں گے۔ کم از کم ہم نہیں ڈرتے، لیکن کبھی آپ اپنے حساس کیمرے سے کسی چھوٹی چیز کی تصویر لے رہے ہوں تو اچانک اس چیز پر کوئی اور چیز بیٹھ جائے اور وہ آپ کو گھورنے لگے تو آپ یقینا ڈر جائیں گے۔بالکل ایسا ہی اس کیمرہ مین کے ساتھ ہوا جو ایک پتے کی تصویر بنا رہا تھا تو اچانک یہ آٹھ آنکھوں والی مکڑی اسے متواتر گھورنے لگی جو کہ فلوریڈا (امریکا) میں پائی جاتی ہے۔اس کیمرہ مین نے موقع غنیمت جان کر اس حیرت انگیز مکڑی کی تصویر کھینچ لی۱۰۹۔

یہ مختصر سی دلچسپ رُوداد ہر تصویر کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔
مختصر پُراثردراصل نئے قلمکاروں کی نگارشات پر مشتمل ہوتا تھا۱۱۰، ہم اس سے قبل بتاچکے ہیں کہ یہ سلسلہ بچوں کے تقریباً ہر رسالے میں موجود ہوتا ہے، اس سے نہ صرف نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے بلکہ مستقبل کے نامور قلمکار اسی طریقۂ کار سے بڑے ادیب بنتے ہیں۔ یہ سلسلہ ایک ایسی مشق رہی ہے جس نے بلاشبہ بچوں کے ادب کو بہت اچھے نام دیے ہیں۔ یہ سلسلہ مختصر دلچسپ نصیحت آموز کے نام سے بھیساتھی میں چلتا رہا۱۱۱۔
میرے نام۱۱۲، آپ کی باتیں۱۱۳، ساتھی ڈاک خانہ۱۱۴، ساتھی کی ڈاک مدیر کی بات۱۱۵، آپ کا صفحہ۱۱۶، ایڈیٹر کی میز پر۱۱۷، دراصل خطوط کے وقتاً فوقتاً تبدیل ہونے والے نام ہیں۔ اس سلسلے میں قارئین اپنی راے سے آگاہ کرتے تھے کہ اُنھیں رسالے میں کیا چیز بہت اچھی لگتی تھی اور کون سا سلسلہ، مضمون یا کہانی اُنھیں پسند نہیں آئی۔ عموماً اس سلسلے میں قارئین کی آرا ہوتی ہیں اور قارئین بھی زیادہ تر بچے ہوتے ہیں، اس لیے ان کے تبصرے اتنے جاندار نہیں ہوتے۔ ہاں یہ ہے کہ کبھی کبھار پرانے قاری اگر تبصرہ کرتے تھے تو اس میں بڑی اہم باتوں کی نشاندہی ہوتی تھی۔
اس سلسلے کے حوالے سے مدیران کو پرانے لکھنے والے قلمکاروں کی راے لینی چاہیے، اس سے دو فائدے ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہ رسالے کے حوالے سے ایک پختہ راے آجاتی ہے اور دوسرا جو بچے بڑے قلمکاروں کے ان خطوط کو دیکھتے اور پڑھتے ہیں تو اُنھیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ تبصرہ لکھنے کا ڈھنگ آتا ہے۔ادبی قسم کے تبصروں سے آشنائی ہوتی ہے۔
دسمبر ۱۹۹۸ء میں آپ کی باتیں میں ’’چودھری محمد اعظم تبسم‘‘ کا ڈوڈیال آزاد کشمیر سے خط شائع ہوا ہے ، وہ لکھتے ہیں:

اکتوبر کے شمارے کا سرورق بہت خوب صورت تھا، لیکن میری خواہش ہے کہ شمارے کے سرورق پر کبھی فیصل مسجد کی تصویر بھی لگائیں تاکہ ساتھی کے قارئین میں مسجد سے شغف بڑھے۔قرآن کہانی بہت پسند آئی، اللہ کی قدرت ابولخوزیم نیازی کا بہت اچھا مضمون تھا۔ رانا آصف فاروقی کی تحریر میں کتنا غلط تھا بہت شان دار کہانی تھی۔ دیگر رسالہ بھی پسند آیا۔ ساتھی میں کوئی سوال جواب کا انعامی سلسلہ شروع کریں۔
٭…ہم نے آپ کی تجویز نوٹ کرلی ہے۔ ان شاء اللہ اس پر غور کیا جائے گا۔ رسالے کی پسندیدگی کا شکریہ۔۱۱۸

ساتھی میں بڑے قلم کار بھی کبھی کبھار خط لکھا کرتے تھے، جنھیں بہت اہتمام سے شائع کیا جاتا تھا۔

اخبارِ ساتھی خبروں کا سلسلہ تھا۱۱۹۔ اس میں ’’بزم ساتھی‘‘ کے تحت ہونے والی سرگرمیوں کا تذکرہ ہوتا تھا۱۲۰۔ جنوری ۱۹۹۹ء میں اخبارِ ساتھی میں اسٹڈی ٹور کے عنوان سے ’’عثمان حنیف‘‘ کی رپو تاژ شائع ہوئی ہے، جس میں وہ اپنے بزم ساتھی کی ٹیم کے ہمراہ پی اے ایف میوزیم کی سیر کو گئے تھے۱۲۱۔
اسی طرح اسی شمارے میں اگلے صفحے پر ٹیلنٹ ایوارڈ ۹۸ء کے نام سے ناظم آباد بزم ساتھی کے تحت منعقد کیے گئے پروگرام کی تفصیلات درج ہیں۔ اس کی رپورٹ ’’کاشف زیدی‘‘ نے بنائی۱۲۲۔ یہ وہی کاشف زیدی ہیں جو چند برس بعد ہمیں ساتھی کی مجلس ادارت کی ٹیم کا حصہ نظرآتے ہیں۱۲۳۔
بچوں کا کوئی رسالہ ہو اور اس میں لطائف کا سلسلہ شامل نہ ہو، ایسا ممکن نہیں۔ ماہنامہ ساتھی نے بچوں کی تفریح طبع کے لیے لطائف کا باقاعدہ سلسلہ جاری کیا۔ وقتاً فوقتاً لطائف کے مستقل عنوانات سال دو سال بعد تبدیل ہوتے رہے۔ ساتھی میں لطائف ان عنوانات کے تحت شائع ہوتے رہے۔

٭…مسکرائیے۱۲۴
٭…کڑوی کسیلی گولیاں۱۲۵
٭…آلو بخارے۱۲۶
٭…بل پڑ گئے بل۱۲۷
٭…ہنسیں ورنہ۱۲۸
٭…لطیفے وطیفے۱۲۹

لطائف میں خیال رکھا جاتا تھا کہ وہ کسی قوم کے خلاف نہ ہو۔ اُس سے کسی کی دل آزاری نہ ہو اور ایسا لطیفہ بھی نہ ہو، جس میں اسلام کے کسی شعائر کامذاق اُڑ رہا ہو۔ابتدا میں ساتھی کے لطائف بہت ہی عمومی نوعیت کے ہوتے تھے۔ بعد میں اس سلسلے میں بھی ہمیں بہتری دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہم یہاں ۸۰ئ، ۹۰ کے عشرے کے منتخب لطائف دے رہے ہیں۔ اس سے لطائف کے معیار اور ساتھی کے مزاج کا اندازہ ہوجاتا ہے۔

حجام جو بہت تیز استرے سے شیو کررہا تھا۔ گاہک سے پوچھنے لگا :’’آپ کتنے بھائی ہیں؟‘‘
گاہک نے جواب دیا: ’’اگر تمھارے اُسترے سے بچ گیا تو چار ہوں گے ورنہ تین ہی سمجھو۔‘‘۱۳۰
٭…٭
تنخواہ کا لفافہ لے کر مزدور کمشنر کے پاس آیا اور کہا:’’ اس میں پانچ روپے کم ہیں۔‘‘ [یاد رہے کہ یہ۱۹۹۰ء کی بات ہے، اس وقت پانچ روپے ایک مزدور کے لیے معنی رکھتے تھے]
کمشنر نے کہا:’’ پچھلی بار جب تمھارے لفافے میں پانچ روپے زیادہ چلے گئے تو تب تم میرے پاس کیوں نہیں آئے۔‘‘
’’ تب آپ نے پہلی بار غلطی کی تھی جسے میں برداشت کرگیا لیکن بار بار کی غلطی میں برداشت نہیں کرسکتا۔‘‘ مزدور نے اطمینان سے جواب دیا۔۱۳۱
٭…٭
ایک بچی نے پولیس کے سپاہی کو دیکھ کر پوچھا:’’کیا آپ پولیس والے ہیں۔‘‘
’’ہاں۔‘‘پولیس والے نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’میری امی کہتی ہیں اگر تم تنہا ہو اور کسی کی مدد کی ضرورت پڑے تو کسی پولیس والے سے کہہ دینا۔‘‘
بچی نے کہا۔
’’ہاں ہاں تمھاری امی ٹھیک کہتی ہیں، بولو کیا بات ہے۔‘‘ پولیس والے نے پوچھا۔
’’میری ناک صاف کردیں اور جوتے کے تسمے باندھ دیں۔‘‘ بچی نے معصومیت سے کہا۔۱۳۲

یہ تین ادوار کے تین لطائف ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو ان میں تبدیلی نظر آتی ہے۔ ساتھی نے لطیفوں کا معیار بڑھانے کے لیے انعامی لطائف کا بھی اعلان کیا۔ جس میں سب سے اچھے لطیفے پر انعام دیا جاتا تھا۔

تعارفی نشست۱۳۳، آؤ بنائیں دوست۱۳۴، بزم ساتھی۱۳۵، ساتھی ڈائریکٹری۱۳۶ ایک ہی سلسلے کے مختلف نام تھے۔ اس سلسلے میں بچے اپنا تعارف کروانے کے ساتھ اپنا مشغلہ بتاتے تھے اور اس میں بچے کا پتا بھی تحریر ہوتا تھا۔ پتا دینے کی وجہ قلمی دوستی تھی۔ اس سے پہلے ہم نے آنکھ مچولی اور ہمدرد نونہال کا جائزہ لیا۔ ان دونوں رسائل میں بھی یہ سلسلہ کم وبیش ایسے ہی چل رہا تھا اور بچوں کی ایک بڑی تعداد اس سلسلے میں حصہ لیتی تھی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سلسلے کی اہمیت ختم ہوگئی اور بچوں کا ایک بہت ہی مقبول سلسلہ وقت کی نظر ہوکر بند ہوگیا۔

ساتھی انسائیکلو پیڈیا میں کسی شخصیت ،جگہ یا چیز کے حوالے معلومات فراہم کی جاتی تھی۱۳۷۔ معلومات کی فراہمی کے اس سلسلے کو انسائیکلو پیڈیا کہا گیا۔ اسے آپ معلوماتی مضامین بھی کہہ سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر دسمبر ۱۹۹۸ء کا ساتھی انسائیکلو پیڈیا ملاحظہ کیجیے کہ جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ابن بطوطہ کے حوالے سے معلومات دی گئی ہے۱۳۸۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ کے برگزیدہ نبی تھے اور آگے قرآن میں ان کے بتوں کو توڑنے والے اور حضرت اسماعیل کو قربان کرنے والے واقعے کا تذکرہ کیا گیا ہے۔اسی طرح ابن بطوطہ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ مراکش میں پیداہونے والے اس مشہور جغرافیہ دان اور سیاح نے ملکوں ملکوں کی سیر کی۔ مختلف عہدوں پر نوکری کی اور ایک طویل سفر کے بعد بالآخر اپنے ملک آپہنچا۔ ابن بطوطہ کے سفرنامے آج بھی مشہور ومعروف ہیں۱۳۹۔
ادیبوں کی ڈائری بچوں کے ادیب اور مصور ابن آس تحریر کیا کرتے تھے۱۴۰۔ اس ڈائری میں ادیبوں کے مشاغل اور ان کی مصروفیات کے حوالے سے بتایا جاتا تھا۔ عموماً بچے ادیبوں کی زندگی سے متعلق جاننا چاہتے ہیں اور وہ ان کے بارے میں پڑھ کر خوش ہوتے ہیں، ان کی باتوں کو یاد رکھتے ہیں۔ اس لیے اس سلسلے کو جہاں قلمکاروں میں پذیرائی حاصل تھی وہیں بچے بھی اس ڈائری سے اپنے پسندیدہ قلمکاروں کے شب وروز کے بارے میں معلومات رکھتے تھے۔
اس میں عام قسم کی خبروں کو طنزومزاح سے دلچسپ بنایا جاتا تھا۔ ابن آس کی یہ ڈائری کافی عرصے تک چلتی رہی اور پھر یہ سلسلہ ساتھی میں ختم کردیا گیا۔

انعامی سلسلے:
ماہنامہ ساتھی میں انعامی سلسلہ ابتدا میں نہیں تھا، بعد میں سوال وجواب پر مبنی سلسلہ شروع کیا گیا۔ غوروفکر۱۴۱، مشکل کا حل۱۴۲ اور پہیہ ۱۴۳ کے نام سے ان انعامی سلسلوں میں کبھی سوال دے دیے جاتے تھے، جن کے قارئین نے جواب دینے ہوتے تھے، جبکہ مشکل کا حل میں مختلف تصویریں دے کر ان میں کوئی قدرِ مشترک پوچھی جاتی تھی۔
نومبر ۱۹۹۱ء میں غوروفکر میں کچھ ایسے سوالات پوچھے گئے تھے۔

۱: قیصر روم کی ٹوپی میں کیا لکھا ہوا تھا؟
۲: زمین کے پرت کی گہرائی کتنی ہے؟
۳: ہندوستان کے سب سے پہلے وزیر خزانہ کون تھے؟ ۱۴۴ وغیرہ

اس طرح کے سوال جواب سے نا صرف بچوں کی ذہنی مشق ہوتی تھی، بلکہ ان کی معلومات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا تھا۔ یہ بنیادی باتیں یاد ہونا ایک عام سی بات تھی۔ جب کہ آج کے مقابلے میں جب ہم رسائل پڑھنے کا کم ہوتا رجحان دیکھتے ہیں اور اس طرح کی معلومات کا جب بچوں سے ذکر کرتے ہیں تو اس کے لیے اُنھیں ’’گوگل(Google) ‘‘ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ان سلسلوں میں ہوسکتا ہے کہ کچھ معلومات انوکھی ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو علم نہیں ہوپاتا، لیکن یہ بنیادی معلومات کہ عشرہ مبشرہ والے صحابہ کون اور کتنے ہیں؟ پاکستان کا نام کس نے تجویز کیا؟ یا پھر پاکستان کے پہلے وزیراعظم کا نام کیا ہے ؟تو وہاں بچہ ہمیں ہونق بنا ہوا نظر آتا ہے۔ جبکہ یہ وہ بنیادی معلومات ہیں جو بچوں کو معلوم ہونی چاہیے۔
ذہنی آزمائش کے کھیل اب نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ رسائل میں بھی وہ مسابقت نظر نہیں آتی جو ہونی چاہیے تھی۔ اس ساری صورت حال کی ذمہ داری نہ رسائل پر ڈالی جاسکتی ہے اور نہ اسکول کی تعلیم پر…اس میں جہاں حکومت وقت برابر کی شریک ہے وہیں والدین بھی اس بات کے ذمے دار ہیں کہ اُنھوں نے بچوں میں مطالعے کے رُجحان کو بڑھانے میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔ یہ ایک قومی المیہ ہے کہ مطالعہ کا سب سے بہترین وقت بچپن ہوتا ہے اور اس میں بھی بچہ مطالعے سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ساری چیزوں کو ڈیجیٹل غلبے پر ڈال کر نااُمیدی کا اظہار کیا جاتا ہے، اس سب کے برعکس دنیا کے ترقی یافتہ کسی ایک ملک میں کتاب اور اس کے پڑھنے والوں کی کیا صورت حال ہے؟ ان سب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

حصہ نثر
ماہنامہ ساتھی کو اگرچہ ابتدا میں بڑے بڑے نام لکھنے کے حوالے سے میسر نہیں آئے لیکن یہ ضرور ہوا کہ ساتھی میں لکھنے والے زیادہ تر قلم کار ملکی سطح پر بچوں کے معروف ادیب بنے۔ان ادیبوں نے نہ صرف ساتھی بلکہ بچوں کے دیگر رسائل میں بھی لکھا اور بچوں کے ادب میں گراں قدر اضافہ کیا۔ساتھی کے ان نمایاں لکھاریوں میں احمد حاطب صدیقی، کلیم چغتائی، منیر احمد راشد، قاضی سراج، ابن آس، صہیب جمال، سید کاشان جعفری، نذیر انبالوی، خادم حسین مجاہد، عنایت علی خان (شاعر)، حفصہ صدیقی،اسماعیل صدیقی(بن یامین)،راحیل یوسف،مریم ظہیر، عبدالقادر(شاعر)، صفیہ سلطانہ صدیقی، عامر یونس، افتخار کھوکھر، افروز اقبال، فرید بروہی، فیض لدھیانوی(شاعر)، یاسمین حفیظ، سید صفدر رضا رضوی،شاہد نور،آر ایم راہی، قاسم بن نظر، آصف جاوید نقوی، فرزانہ روحی اسلم، ڈاکٹر عمران مشتاق، جدون ادیب، بیگم ثاقبہ رحیم الدین،علی اکمل تصور، خلیل جبار، مجیب ظفر انوار حمیدی، نوشاد عادل، فریحہ ابتسام راؤ، میر شاہد حسین، شازیہ فرحین، عبدالرشید عاصم کے نام شامل ہیں۱۴۵۔
ان ادیبوں میں بہت سارے ایسے بھی تھے جو بچوں کے لیے کہانیوں کے ساتھ ساتھ دل چسپ مضامین اور نظمیں بھی لکھا کرتے تھے۔مثلاً: کلیم چغتائی، احمد حاطب صدیقی۔
۱۹۷۷ء سے لے کر ۲۰۰۰ء تک ماہنامہ ساتھیکے شائع ہونے والے شماروں کا جائزہ لیتے ہوئے درج ذیل تحریریں ایسی ہیں کہ جنھیں ہم ساتھی کی نمائندہ کہانیاں کہہ سکتے ہیں، اس کے علاوہ ماہنامہ ساتھی میں دلچسپ قسم کے مضامین بھی شائع ہوتے رہے ہیں، ان میں بھی چند دلچسپ مضامین کا انتخاب ہم یہاں پیش کریں گے۔

۱۹۷۷ء سے ۲۰۰۰ تک ماہنامہ ساتھی میں شائع ہونے والی کہانیوں کی منتخب فہرست۱۴۶

شمار ۔ کہانی کا نام ۔ قلمکار ۔ ماہ وسال
۱ ۔ چھینا جھپٹی ۔ ڈاکٹر افتخار کھوکھر ۔ مارچ ۱۹۸۷ء
۲ ۔ امن کو سلام کرو ۔ نصیرالدین احمد ۔ جنوری۱۹۹۰ء
۳ ۔ بھائی بھلکڑ ۔ شکیل سحر عباس ۔ فروری ۱۹۹۰ء
۴ ۔ موت کے منھ میں تین گھنٹے ۔ سید کاشان جعفری ۔ فروری ۱۹۹۰ء
۵ ۔ دارلحکومت میں تباہی ۔ راحیلہ جبیں بدر ۔ مارچ ۱۹۹۰ء
۶ ۔ وطن سے رشتہ ۔ ایم سلیم ۔ اپریل ۱۹۹۰ء
۷ ۔ تین بھائی ۔ ذیشان بن صفدر ۔ اپریل ۱۹۹۰ء
۸ ۔ شارٹ کٹ ۔ بن یامین ۔ نومبر ۱۹۹۱ء
۹ ۔ آخری ٹیکہ ۔ ڈاکٹر عمران مشتاق ۔ نومبر ۱۹۹۱ء
۱۰ ۔ تلاش ۔ ابن آس ۔ نومبر ۱۹۹۱ء
۱۱ ۔ خوب صورت ۔ راحیل یوسف ۔ دسمبر ۱۹۹۲ء
۱۲ ۔ فنکار ۔ قلم آشنا ۔ اکتوبر ۱۹۹۴ء
۱۳ ۔ مٹول ۔ ابن بشیر ۔ اکتوبر ۱۹۹۴ء
۱۴ ۔ تم کلیم ہو ۔ قلم آشنا ۔ دسمبر ۱۹۹۴ء
۱۵ ۔ بتنگڑ ۔ فریحہ ابتسام راؤ ۔ دسمبر ۱۹۹۴ء
۱۶ ۔ آدھی چوری ۔ سعدیہ صدیقی ۔ اپریل۱۹۹۷ء
۱۷ ۔ طوفانی عزم ۔ مجاہدہ ملک ۔ دسمبر ۱۹۹۷ء
۱۸ ۔ وہی پرانا منظر ۔ ایس ایم آصف حسین ۔ جنوری ۱۹۹۸ء
۱۹ ۔ گلابی امرود ۔ مریم ظہیر ۔ جنوری ۱۹۹۸ء
۲۰ ۔ ہولناک معرکہ ۔ م س بابر ۔ فروری ۱۹۹۸ء
۲۱ ۔ انجام ۔ فرید الحق حقی ۔ دسمبر ۱۹۹۸ء
۲۲ ۔ عید کارڈ کی تلاش ۔ رؤف نظامی ۔ جنوری ۱۹۹۹ء
۲۳ ۔ پکی نوکری ۔ سید صفدر رضا رضوی ۔ جنوری ۱۹۹۹ء
۲۴ ۔ جلی کٹی مرچیں ۔ قاسم بن نظر ۔ دسمبر ۱۹۹۹ء
۲۵ ۔ حویلی کا راز ۔ مرزا ادیب ۔ دسمبر ۱۹۹۹ء

ماہنامہ ساتھی کے بیشتر ابتدائی شماروں میں کہانیوں کے موضوعات میں ہمیں تنوع کی کمی لگتی ہے۔ ماہنامہ ساتھی کے ابتدائی شمارے دیکھ کر اسے بچوں کے لیے ایک مکمل رسالہ قرار نہیں دیا جاسکتا تھا لیکن ۱۹۹۰ء کے بعد ماہنامہ ساتھی نے ترقی کا ایک ایسا پلٹا کھایا کہ بہت جلد اس رسالے نے ادب اطفال میں اپنی جگہ بنالی۔ بچوں کے لیے لکھنے والے ادبا وشعرا اس کی جانب متوجہ ہوئے۔ اگرچہ ان ادبا میں ہمیں وہ بڑے نام نظر نہیں آتے، جو آنکھ مچولی نے اپنے گرد اکھٹے کیے تھے لیکن ساتھی نے اپنے قلم کاروں کی الگ سے ٹیم بنائی، ان میں زیادہ تر قلم کار نوجوان تھے اور اُنھوں نے ابھی لکھنا شروع کیا تھا۔ بعد میں یہی نوجوان ادیب ہمیں بڑے منجھے ہوئے ادیبوں کی فہرست میں نظر آتے ہیں۔ ماہنامہ ساتھی میں ۲۰۰۶ء کے بعد تبدیلی کا انقلاب محسوس ہوتا ہے، اس کے بعد ساتھی اپنے معیار اور نت نئے خیالات کے باعث پاکستان کے مقبول رسائل میں شمار ہونے لگا ہے، لیکن چوں کہ ہمارا موضوع اس وقت ۱۹۷۰ء سے ۲۰۰۰ء تک کے جائزے پر مشتمل ہے، اس لیے اسی دورانیے میں ہونے والے کام کا جائزہ لیا جائے گا۔
ماہنامہ ساتھی میں شائع ہونے والی ہر کہانی میں کسی نہ کسی مقصد کو کارِ فرما رکھا جاتا تھا۔ اچھے قلم کار ان کا اسلوب ان کہانیوں کو بھی دلچسپ بناتا تھا۔ عموماً کسی خاص پروپیگنڈے کے پرچار کے لیے لکھا جانے والا ادب بہت زیادہ معیاری نہیں ہوتا لیکن کہانی کے پیچھے ایک قابل ادیب کا ہاتھ ہو تو تحریر نکھر جاتی ہے۔اس کے علاوہ بھی ساتھی میں عمومی موضوعات پر بہت اچھی اچھی کہانیاں لکھی گئیںجن میں قاری کے جذبہ تحیر کو اُبھارا جاتا، ان کے ذوق کی تسکین کرتے ہوئے اُنھیں کہانی سے جوڑ کر خوب محظوظ کیا جاتا تھا۔
موت کے منھ میں تین گھنٹے(سید کاشان جعفری)کی تحریر کو دیکھیے، جس میں معروف سائنس دان ’’کسنجر ‘‘کے آتش فشاں میں گزارے گئے تین گھنٹوں کا تذکرہ کیا گیا۔ اس کہانی میں جہاں ایک طرف بچوں کو معلومات دی گئی ہے، وہیں اس میں تجسس کا عنصر بھی ہے کہ کیا کسنجر اس مہم کو سر کر پائیں گے۔۱۴۷
اسی طرح وطن سے رشتہ(ایم سلیم) جذبہ حب الوطنی پر مشتمل ایک کہانی ہے جس میں کہانی کا کردار یعقوب کو چند اسمگلر وطن کے خلاف استعمال کرنے کی ٹھانتے ہیں لیکن وہ انکار کردیتا ہے، اس انکار کی اسے بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے اور بالآخر دشمن پر حملہ کرتے ہوئے ان کی گولیوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔اگر چہ یہ ایک روایتی کہانی ہے، لیکن اس قسم کی کہانیاں بچوں میں حب الوطنی کا ایک ایسا تاثر چھوڑتی ہے جو تاعمر اس پر اثر انداز رہتا ہے۱۴۸۔
تم کلیم ہو (قلم آشنا) میں ایک بچوں کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔ گیراج میں کام کرنے والا لڑکا، خون دے کر اسکول کے ایک بچے کی جان بچاتا ہے۔ جس کے جواب میں اس کے والدین اس بچے کو تعلیم دلوانے کا عہد کرتے ہیں۔اس کہانی کا ایک اقتباس دیکھیے:
بریکوں کی چرچراہٹ سن کر راہ چلتے لوگ ہڑبڑا گئے، کالو ہڑبڑا گیا۔ سب آواز کی طرف دوڑ پڑے۔ اُنھوں نے زمین پر گرے لڑکے کو اٹھایا۔ وہ بے ہوش ہوگیا تھا اور اس کی پیشانی سے بہت سارا خون بہہ رہا تھا۱۴۹۔

تحریر میں جہاں آئیڈیا اہم ہوتا ہے، وہیں تحریر میں قلمکار کا اسلوب اس تحریر کا حسن بڑھا یا گہنا دیتا ہے۔ یہاں ہمیں قلمکار کی گرفت نظر آتی ہے۔ وہ قاری کو چونکا کر روکنا جانتا ہے اور وہ اس حادثے کے ذریعے قاری کو تھوڑی دیر کے لیے روک دیتا ہے۔
آدھی چوری (سعدیہ صدیقی) کا ابتدا ہی دیکھ لیجیے کہ کیسے قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ قاری ابتدا ہی سے تجسس میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ آخر گھر کا آدھا سامان کہاں غائب ہے۔ یہ ایک کشمیر کے موضوع پر کہانی ہے، لیکن اس بات کا پتا بالکل اختتام پر چلتا ہے۔
کریمہ دو ہفتے اپنے میکے میں گزارنے کے بعد جب اپنے گھر پہنچی تو اس کے ہوش وحواس جیسے گم ہوگئے۔ اس کے ہوش وحواس اس لیے گم ہوئے کہ اس نے واپس آکر دیکھا کہ اس کا گھر آدھا رہ گیا ہے اور باقی آدھا گھر تو جیسے کہیں چلا گیا ہے یا چوری ہوگیا ہے۔کریمہ نے دیکھا کہ گھر کی دیواریں تو اپنی جگہ پر ہیں لیکن گھر کی آدھی کراکری غائب ہے، گھر کی اپنی چھتیں اپنی جگہ قائم تھیں لیکن گھر میں مردانہ ،زنانہ کپڑے آدھے رہ گئے تھے۔ گھر کا فرش بھی اپنی جگہ پر موجود تھا لیکن اس پر بچھی ہوئی دریاں اور چارپائیاں آدھی رہ گئی تھیں۔
اس کے علاوہ یہی کچھ گھر میں موجود زنانہ اور مردانہ سوٹوں کے ساتھ ہوا تھا۔ بستروں سمیت بکس، صندوق یہاں تک کہ اشیاے خورونوش مثلاً آٹا،چاول، چینی کے ساتھ بھی ہوا تھا۔کریمہ اس لیے بھی حیران تھی کہ آدھے گھر کا صفایا کرنے والوں نے باقی آدھے گھر کا صفایا کیوں نہیں کیا۱۵۰۔

اس تحریر کے آخر میں یہ عقدہ کھلتا ہے کہ گھر کے بڑے اباجی کشمیری مجاہدین کو گھر کا آدھا سامان دینے کے لیے لے گئے ہیں۔
اس میں ایثار کی صفت کو اُبھارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ساتھی میں تقریباً ہر شمارے میں ہمیں کشمیر کے موضوع پر کوئی کہانی یا پھر نظم نظر آتی ہے۔
جلی کٹی مرچیں (قاسم بن نظر)۱۵۱،حویلی کا راز(مرزا ادیب)۱۵۲، میں ہمیں ایک دوسرا رنگ دیکھنے کو ملتا ہے۔
جلی کٹی مرچیں میں ہمیں شوخی نظر آتی ہے۔ یہ تحریر بچوں کو محظوظ کرتی ہے۔ عموماً مزاح کو پسند کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ مزاحیہ چیزیں زیادہ پڑھی جاتی ہے اور یہی رنگ ہمیں ساتھی میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگر چہ یہ رنگ برسوں بعد ساتھی میں آیا لیکن یہ رنگ ساتھی کے قارئین کو ایسا پسند آیا کہ قاسم بن نظر اور حماد ظہیر جیسے قلمکار اسی طرح کی مزاحیہ تحریروں کے ذریعے قارئین میں مقبول ہوتے چلے گئے۔ جلی کٹی مرچیں کایہ رنگ دیکھیے:

اب خود ہی انصاف کیجیے، ہمارے جیسے اچھے بھلے تعلیم یافتہ انسان کو یہ زیب دیتا ہے کہ دوپہر کے کھانے کے بعد آرام کے وقت دو گلی پیچھے رہائش پذیر خالہ عشرت بذریعہ ٹیلی فون اپنے گھر میں مہمانوں کی ناگہانی آمد کی بروقت اطلاع دے کر فوری طور پر دو کلو مرغی، ڈھائی کلو چاول اور دو درجن کیلے اس کڑکتی دھوپ میں لانے کا آرڈر دیں۔
اب ہم نے خالہ عشرت کا حد درجہ لحاظ کرتے ہوئے ان کی فرمائش پوری کردی اور الٰہ دین کے جن کی طرح ان کے سامنے مطلوبہ سامان لے کر حاضر ہوگئے ۔ انہی نے ہم سے تھیلیاں لیں اور کیلے کی تھیلیاں کھولنے لگیں تو یہ جملہ ہمارے منھ سے پھسل پڑا: ’’ارے خالہ تکلف کی کیا ضرورت ہے، آپ کا حکم بجالانا تو ہمارا فرض ہے۔‘‘
خالہ عشرت ہمیں گھورتے ہوئے بولیں:
’’تو تکلف کون کررہا ہے، میں تو یہ دیکھ رہی تھی کہ تم راستے میں دو چار کیلے تو نہیں کھا گئے۔‘‘۱۵۳

اسی طرح حویلی کا راز ہے۔ یہ کہانی ایک روایتی کہانی نہیں ہے جس میں کوئی سرپھرا حویلی سر کرنے جاتا ہے اور پھر وہاں ڈاکوؤں کے کسی گروہ کو بے نقاب کرتا ہے، بلکہ اس میں ایک نیا پن ہے اور یہی نیا پن کہانی کو تازگی بخش رہا ہے۱۵۴۔ مرزا ادیب بچوں کے لیے مشہور لکھنے والے ہیں، بڑے ادیبوں سے ہمیں یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ کچھ نیا بچوں کے لیے لے کر آئیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ اس کہانی میں بھی ہمیں ایک نیا انداز دیکھنے کو ملتا ہے۔
مجموعی طور پر اس خاص دورانیے میں ہمیں کہانیوں میں زیادہ تنوع نظرنہیں آتا لیکن اس کے باوجود ساتھی میں متعدد ایسی کہانیاں شائع ہوئیں جنھیں شاہکار کہانیاں قرار دیا جاسکتا ہے۔ ساتھی کے ابتدا میں مقصدیت کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی، بعد میں آہستہ آہستہ ہمیں ان تحریروں میں دلچسپی کے عنصر کو فوقیت دینے کا رجحان نظرآتا ہے۔
ماہنامہ ساتھی میں مضامین کی بھی اشاعت ہوتی رہی۔ بہت ہی کارآمد اور منفرد موضوعات پر مضامین دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ مضامین زیادہ تر انگریزی سے ترجمہ کیے جاتے تھے۔ ہر شمارے میں ایک آدھ مضمون کی اشاعت لازمی ہوتی تھی۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوا کہ مضمون بہت ہی خشک ہوگیا یا پھر اعداد وشمار اتنے زیادہ دے دیے جاتے کہ مضمون ثقیل ہوجاتا۔ ذیل میں ساتھی میں شائع ہونے والے چند مضامین کی فہرست دی جارہی ہے۔

۱۹۷۷ء سے ۲۰۰۰ تک ماہنامہ ساتھی میں شائع ہونے والے چندمضامین کی فہرست۱۵۵

شمار ۔ مضمون کا نام ۔ مضمون نگار ۔ ماہ وسال
۱ ۔ ابن بطوطہ ۔ حامد محی الدین ۔ فروری ۱۹۹۰ء
۲ ۔ خلا کی سیر ۔ محمد عمر قریشی ۔ اپریل ۱۹۹۰ء
۳ ۔ شوتو کان کراٹے ۔ سیف الرحمن اعوان ۔ نومبر ۱۹۹۱ء
۴ ۔ کیمو فلاج کے بانی ۔ اسماعیل سعید صدیقی ۔ دسمبر ۱۹۹۲ء
۵ ۔ سانپ ۔ مطلوب طالب ۔ دسمبر ۱۹۹۲ء
۶ ۔ قومی کھیل ہاکی سیکھیے ۔ مظہر جبلپوری ۔ اکتوبر ۱۹۹۴ء
۷ ۔ مادہ کیا ہے؟ ۔ عامر اقبال ۔ دسمبر ۱۹۹۴ء
۸ ۔ کمپیوٹر کیا ہے؟ ۔ عارف ممتاز حیدر ۔ اپریل۱۹۹۷ء
۹ ۔ پیٹرونا ٹاور ۔ ذیشان بن صفدر ۔ جنوری ۱۹۹۸ء
۱۰ ۔ جدید سائنس اور قرآن ۔ ٹیپو صدیقی ۔ جنوری ۱۹۹۸ء
۱۱ ۔ شجر کی کہانی، اس کی اپنی زبانی ۔ ابو نصر عبداواجد رفیق ۔ فروری ۱۹۹۸ء
۱۲ ۔ بچوں کے قائد ۔ غلام حسین میمن ۔ دسمبر ۱۹۹۸ء
۱۳ ۔ ساتھی انسائیکلو پیڈیا ۔ ادارہ ۔ جنوری ۱۹۹۹ء
۱۴ ۔ شہاب ثاقب کی تباہی ۔ رامین قاضی ۔ جنوری ۱۹۹۹ء
۱۵ ۔ موت سے جنگ ۔ ذوہیب علی زاہد ۔ دسمبر ۱۹۹۹ء

’’اسماعیل احمد صدیقی‘‘ کا ترجمہ کردہ مضمون کیمو فلاج کے بانیمیں حشرات الارض کی ایک خاص خصوصیت کا تذکرہ ملتا ہے۱۵۶۔یہ کیمو فلاج کی خصوصیت ہے، جس میں حشرات دشمن کے حملوں سے بچنے کے لیے خود کو چھپالیتے ہیں، چھپانے کے اس عمل کو ’’کیمو فلاج‘‘ کہتے ہیں۔بچوں کا ان حشرا ت سے کہیں نہ کہیں واسطہ پڑتا ہے، خصوصاً تتلی تو ایک ایسی چیز ہے جسے بچوں کا پسندیدہ حشرہ کہا جاسکتا ہے۔تتلی کس طرح کیمو فلاج کرتی ہے، اس کے بارے میں درج ہے :

مختلف حشرات اپنی جسمانی ساخت اور رنگت کے اعتبار سے کیمو فلاج کرتے ہیں۔ مثلاً…بہت سی تتلیاں ان پودوں کی رنگت اختیار کرلیتی ہیں، جن پر وہ بیٹھتی ہیں اور بہت سی تتلیاں اپنے رنگ برنگے دھبے والے پروں کی وجہ سے دشمن کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۱۵۷۔

اس مضمون کو تصویروں سے بھی مزین کیا گیا ہے، لیکن رنگین صفحات دو رنگوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے تصویریں زیادہ اچھی شائع نہیں ہوسکی ہیں۔
اسی شمارے میں ’’مطلوب طالب‘‘ کا ایک دلچسپ مضمون بعنوان سانپ شائع ہوا ہے۱۵۸۔ اس میں سانپ سے متعلق چند اہم اور دلچسپ باتیں بتائی گئی ہیں۔
ساتھی انسائیکلو پیڈیا میں کسی بھی چیز، جگہ یا شخص کے حوالے سے معلومات آسان الفاظ میں بچوں کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ بھی ساتھی کے قارئین بہت پسند کرتے تھے۱۵۹۔ اس پسندیدگی کا اظہار ساتھی کے خطوط میں ہوتا تھا، جہاں بچے خط لکھ کر رسالے کے حوالے سے اپنی پسند اور ناپسندیدگی کا ذکر کرتے ہیں۔
سائنسی موضوعات پر بھی بہت سارے مضامین شائع کیے گئے۔بچوں کے لیے لکھنے والے کچھ مضمون نگار ایک کام یہ کرتے ہیں کہ تحریر میں معلومات کا پورا سمندر انڈیل دیتے ہیں، جس کی وجہ سے مضمون کو سمجھنا اور اسے ہضم کرنا بچوں کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ مضمون سے دلچسپی ختم ہوجاتی ہے اور گویا کبھی کبھار تو یوں لگتا ہے جیسے بچہ نصابی کتاب کھول کر بیٹھ گیا ہو۔
مدیران کو ان چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ مضمون کو زیادہ طویل نہیں ہونا چاہیے۔بہت زیادہ معلومات نہ ہو، اتنی ہو جتنی ایک بچے کے لیے اس کی عمر کے حساب سے ملنی چاہیے۔مضمون کا عنوان بھی دلچسپ ہونا ضروری ہے، تاکہ قاری مضمون کی طرف متوجہ ہوسکے۔
ساتھی میں اگرچہ بہت زیادہ مضامین شائع نہیں ہوئے، لیکن اکثر مضامین اچھے لکھے گئے ہیں۔
حصہ نثر میں ہمیں سفرنامہ بھی نظر آتا ہے۔ ابو غازی محمد نے ساتھی میں بہت سارے سفرنامے تحریر کیے۔ چترال کے عنوان سے اکتوبر ۱۹۹۴ء میں ان کا سفرنامہ شائع ہوا تھا۱۶۰۔

حصہ نظم:
ماہنامہ ساتھی میں نظم کا شعبہ ہمیں بہت پیچھے نظرآتا ہے۔ نظمیں مشکل اور بچوں کی ذہنی اُپچ سے دور محسوس ہوتی ہیں۔ بچوں کو محظوظ کرنے کے حوالے سے ہمیں جو رنگ نظموں کا آنکھ مچولی میں نظر آتا ہے، وہ یہاں عنقا ہے لیکن اس سب کے باوجود ساتھی میں چند ایک نظمیں ایسی بھی شائع ہوئیں جو آپ کو چونکادیتی ہیں۔ بچوں کو خوب محظوظ بھی کرتی ہیں۔ ان نظموں کو ذرا بڑے بچوں کے لیے لکھا گیا ہے۔ ۱۳ سال سے ۱۷ سال تک کے بچے ان نظموں کو خوب سمجھ سکتے ہیں۔
ساتھی میں موجود بیشتر مواد، جو چاہے نثر میں ہو یا نظم میں وہ بہت زیادہ چھوٹے بچوں کے لیے نہیں ہے، وہ نو عمر بچوں کے لیے تحریر کیا گیا ہے، یہ وہ بچے ہیں جو جماعت ششم سے جماعت دہم میں زیر تعلیم ہیں۔ ساتھی میںزیادہ چھوٹے بچوں کے لیے صرف ایک دفعہ ایک ماہ ہی آخری ۱۶ صفحات رنگین شائع کیے گئے تھے۱۶۱ لیکن قاضی سراج کے دور میں ہونے والی یہ مشق ایک ماہ سے زیادہ نہ چل سکی۔
ساتھی میں کلاسک ادب میں اسماعیل میرٹھی، علامہ اقبال کی نظمیں شائع ہوتی رہیں لیکن تازہ نظموں میں ہمیں زیادہ بڑے نام نظر نہیں آتے۔ اس وقت بچوں کے لیے لکھنے والے معروف شعرا میں احمد حاطب صدیقی اور عنایت علی خان کے نام ہمیں ساتھی میں بھی نظرآتے ہیںلیکن بہت کم۔
ساتھی میں شائع ہونے والی چند چنیدہ نظموں کی فہرست ذیل میں دی جارہی ہے، ان نظموں سے ساتھی میں حصہ نظم کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
۱۹۷۷ء سے ۲۰۰۰ تک ماہنامہ ساتھی میں شائع ہونے والی چندنظموں کی فہرست۱۶۲

شمار ۔ نظم کا نام ۔ شاعر ۔ ماہ وسال
۱ ۔ میرے ارادے ۔ محمد وسیم اسماعیل ۔ فروری ۱۹۹۰ء
۲ ۔ عظیم قوم ۔ عنبر چغتائی ۔ اپریل ۱۹۹۰ء
۳ ۔ لاہور ۔ نعمان شیخ ۔ اپریل ۱۹۹۰ء
۴ ۔ دو پیڑ تھے بچارے ۔ احمد حاطب صدیقی ۔ دسمبر ۱۹۹۲ء
۵ ۔ روح قائد کا شکوہ ۔ عبدالقادر ۔ دسمبر ۱۹۹۲ء
۶ ۔ شکریہ ۔ عنبر چغتائی ۔ دسمبر ۱۹۹۲ء
۷ ۔ میں فیل اگر ہوجاؤں ۔ مرتضیٰ ساحل تسلیمی ۔ اکتوبر ۱۹۹۴ء
۸ ۔ ہاتھی ۔ کاشف کانپوری ۔ اپریل۱۹۹۷ء
۹ ۔ پچاس سال ۔ عبدالقادر ۔ جنوری ۱۹۹۸ء
۱۰ ۔ نااُمید تو نہیں ہیں… ۔ ساجدہ فرحین فرحی ۔ جنوری ۱۹۹۸ء
۱۱ ۔ یہ بازی ہم ہی جیتیں گے ۔ داؤد حسین بابر ۔ فروری ۱۹۹۸ء
۱۲ ۔ بد حواسی ۔ افروز اقبال ۔ دسمبر ۱۹۹۸ء
۱۳ ۔ قائد کا فرمان ۔ فیض لدھیانوی ۔ دسمبر ۱۹۹۸ء
۱۴ ۔ لو آگئی ہے سردی ۔ غافل کرنالی ۔ جنوری ۱۹۹۹ء
۱۵ ۔ ننھی لبابہ ۔ ڈاکٹر رضیہ عزیز ۔ جنوری ۱۹۹۹ء
احمد حاطب صدیقی کی نظم دو پیڑ تھے بچارے بچوں میں اتنی زیادہ مقبول ہوئی کہ اس نظم کو کئی درسی کتب کے نجی ناشران نے اپنی کتاب کا بھی حصہ بنایا۱۶۳۔ مختصر مصرعے اور مقفیٰ اشعار، جس میں ردیف موجود نہیں، اپنی پوری آہنگ اور موسیقیت کے ساتھ بچوں کو محظوظ کرتی ہوئی ان کو سبق دے رہی ہے۔
آپ دیکھیے کہ اس نظم کو پڑھ کر ایک بچہ کیوں کر کسی درخت کو نقصان پہنچانے کا سوچ سکتا ہے۔ یہ نظم تو بچے کو حساس بنارہی ہے کہ درخت کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔ نظم دیکھیے:

دو پیڑ تھے بچارے

بستی میں اک کنارے
دو پیڑ تھے بچارے
کہتے تھے اپنا دُکھڑا
کس کو سُنائیں پیارے
انساں نے ہم سے بدلے
کس بات کے اُتارے
ہم تو اُنھیں دکھائیں
دِلکش حسیں نظارے
خود پاس کچھ نہ رکھیں
پھل اُن کو دے دیں سارے
اُن کے مویشیوں کو
دیں ہم ہی سبز چارے
بارش ہو، ہم جو چھوڑیں
کچھ بھاپ کے غبارے
ہو دھوپ چِلچِلاتی
تب ہم بنیں سہارے
گرمی میں ہم چلائیں
ٹھنڈی ہوا کے دھارے
گندی ہوا کو چھانیں
شاخوں کو ہم پسارے
لیکن صلہ یہ پایا
اِن خدمتوں کا پیارے
مارے کوئی کلھاڑی
کوئی چلائے آرے
بچوں کا غول آیا
جب بھی تلے ہمارے
شاخیں کسی نے توڑیں
پتھر کسی نے مارے
چاقو سے نام کھودا
چھلکے بھی چھیل اُتارے
ہم تو یہاں پہ اُگ کر
مارے گئے ہیں، مارے
جنگل میں ہم جو اُگتے
ہوتے مزے ہمارے
دِن شہری زندگی کے
کس دُکھ سے ہیں گزارے۱۶۴

اس طرح کی نظمیں بچوں کو محظوظ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ایک ایسی تربیت کررہی ہوتی ہیں جو شاید برسوں کی محنت بھی نہ کر پائے۔ آپ ان نظموں کو ’’اُستاد نظمیں‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ یہ بچوں کو کسی اُستاد کی مانند لے کر چلتی ہیں، اُنھیں احساس دلاتی ہیں ۔ اُن کا احساس بتاتا ہے کہ نظم اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی یا نہیں۔
اس طرح کی نظمیں ایک سانس میں پڑھ کر آگے گزار دینے والی نہیں ہوتیں۔ اگر سرپرست بچوں کے رسائل کو پڑھتے ہوں تو ان نظموں کو بہت اہتمام کے ساتھ گھر میں پڑھا جاسکتا ہے۔ شاعر اس نظم کے ذریعے جو احساس قاری میں پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ تاثر پیدا کرنے کے لیے نظم کو اہتمام سے پڑھنا ضروری ہے۔
اسی طرح عنبر چغتائی کی نظم شکریہ پڑھیے۱۶۵۔ نظم آپ کو چونکا دیتی ہے۔ ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے جب آپ نظم کو روایتی نظم سمجھتے ہیں لیکن جیسے ہی اس مزے دار نظم کے آخری شعر پر پہنچتے ہیں تو اُچھل پڑتے ہیں۔ شاعر کی اس ڈرامائی تبدیلی پر اُسے داد دینے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔
عنبر چغتائی کی اس نظم کو دیکھیے کہ آخری مصرعے میں کیسا ڈرامائی انکشاف پایا جاتا ہے:

اک بڑی کمپنی کا منیجر
صدر جلسہ تھا اور ڈائریکٹر
کچھ اِدھر، کچھ اُدھر تھے بیٹھے ہوئے
اپنی دولت کے بل پر اینٹھے ہوئے
پڑھی سیکرٹری نے جب روداد
ہر طرف سے مل مبارک باد
کمپنی کو بہت منافع ہوا
حصہ داروں کو خوب حصہ ملا
جمع تھے سب ملازم وافسر
اک جواں کو بلایا ڈائس پر
پھر اُٹھا تمکنت سے منیجر
اور مخاطب ہوا وہ مائیک پر
آج سے ٹھیک تین سال ہوئے
تم یہاںآکے اہلکار بنے
سال بھر ہی میں اہلمد تھے یہاں
دوسرے سال شعبے کے نگراں
اب یہ اعزاز ہم بڑھاتے ہیں
نائب مہتمم بناتے ہیں
یہ صلہ ہے تمھاری محنت کا
اور انعام نیک نیت کا!
سر جھکا کے وہ بولا ابا جان
شکریہ آپ کا بڑا احسان۱۶۶

نظم کے اختتام پر پہنچتے ہی قاری چونک جاتا ہے، اس کے لبوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔اس نظم میں معاشرے کی ایک ایسی ناہمواری کا تذکرہ ہے جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ گئی ہے۔ اس نظم کو آپ صرف بچوں کے لیے قرار نہیں دے سکتے، اس نظم سے بڑے بھی خوب محظوظ ہوسکتے ہیں۔ جس طرح بہت ساری نظمیں اور کہانیوں پر صرف بڑوں کی اجارہ داری نہیں ہوتی اور بڑوں سے زیادہ بچے اس کہانی یا نظم کو پسند کرتے ہیں بالکل ایسے ہی ایسی نظمیں بڑے بھی پسند کرتے ہیں جس میں معاشرے کے کسی المیے پر طنز ہو۔ کوئی پرانی بات نئے انداز سے کی گئی ہو۔
قائد کا فرمان(فیض لدھیانوی)۱۶۷، اور روح قائد کا شکوہ (عبدالقادر)۱۶۸ میں قائد سے مراد قائداعظم ہیں، قائداعظم بچوں کی نظموں کے ایک اہم کردار ہیں، اس کردار کو لے کر بچوں کو آپ نصیحتیں کرسکتے ہیں اور بچوں کے بہت سے شاعروں نے اس کردار اور موضوع پر نظمیں لکھی ہیں۔ یہ شاعر پرمنحصر ہے کہ وہ اپنی نظم کو کتنا دلچسپ بنا کر قاری کے سامنے پیش کرتا ہے۔
نظموں کے مجموعی جائزے میں ہمیں اس شعبے پر گرفت مضبوط نظر نہیں آتی۔ نظمیں ہر شمارے میں دو، تین یا پھر ایسا بھی ہوا کہ ایک ہی نظم پورے شمارے میں شائع کی گئی۔ ہمارا تجزیہ ۲۰۰۰ء تک تھا، ۲۰۰۶ء کے بعد ساتھی میں حصہ نظم ہمیں مکمل ردھم میں نظرآتا ہے، خصوصاً اس دور میں عبدالقادر، عنایت علی خان، صفدر علی صفدر، شام درانی، تنویر پھول، ضیاء الحسن ضیا، شمیم فاطمہ، ضیاء اللہ محسن کے نام نمایاں ہیں۔

حوالہ وحواشی:

۱ ۔ پیامی، اگست ۱۹۷۷ئ، ناشر:اسلامی جمعیت طلبہ ،ص:۱ ؛ دیکھیے:ماہنامہ_ساتھی https://ur.wikipedia.org/wiki/
۲ ۔ ساتھی، ماہنامہ، ستمبر ۱۹۷۸ء ، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۲
۳۔ _________، مارچ ۱۹۷۸ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۱
۴۔ _________،مئی ۱۹۷۸ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۳
۵۔ _________،ستمبر ۱۹۷۸ئ،ص۱
۶۔ _________، ستمبر۹ ۱۹۷ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۴
۷۔ ایضاً
۸۔ ساتھی، ماہنامہ،۱۹۸۲ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۱
۹۔ _________، جون ۱۹۸۲ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۲
۱۰۔ _________، دسمبر ۱۹۸۳ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ،۳
۱۱۔ _________،جنوری ۱۹۸۴ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۳
۱۲۔ _________، فروری ۱۹۸۴ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۲
۱۳ ۔ _________، اکتوبر ۱۹۸۴ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۱
۱۴۔ _________، نومبر ۱۹۸۴ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۱
۱۵۔ _________،اگست ۱۹۸۵ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۲
۱۶ ۔ _________، اگست ۱۹۸۷ء ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱
۱۷۔ _________، ستمبر۱۹۸۸ئ، ص۳۵ ؛ کمانڈو فور ماہنامہ ساتھی کے مقبول ترین ناولوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، یہ ناول قسط وار شائع ہوا
ہے، جب کہ اب تک اس ناول کے آٹھ (۸) ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ مزید دیکھیے: راشد، منیر احمد، جون ۱۹۹۳ئ، کمانڈو فور، ساتھی پبلی
کیشنز، کراچی،ص۲
۱۸ ۔ _________،جنوری ۱۹۸۹ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱
۱۹۔ _________،دسمبر۱۹۸۹ء ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱
۲۰ ۔ _________،دسمبر۱۹۹۱ء ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱
۲۱۔ _________،جنوری ۱۹۹۰ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱۳
۲۲۔ _________،اپریل ۱۹۹۰ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۳۳
۲۳۔ _________،جولائی ۱۹۹۰ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱۲
۲۴۔ _________،جنوری ۱۹۹۲ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱۱
۲۵ ۔ _________،نومبر ۱۹۹۲ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۳
۲۶۔ _________،اپریل ۱۹۹۳ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۷۷
۲۷ ۔ _________،مارچ ۱۹۹۴ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۷۸
۲۸ ۔ _________،جولائی ۱۹۹۴ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۲۱
۲۹۔ _________،ستمبر ۱۹۹۴ء ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۳۴
۳۰۔ _________،اکتوبر ۱۹۹۴ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱۰۲
۳۱۔ _________،فروری ۱۹۹۶ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۶۶
۳۲۔ _________،اپریل ۱۹۹۶ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۸۹
۳۳۔ _________،مارچ ۱۹۹۷ئ؛ اطفال پاکستان نمبر کی اشاعت کے موقع پر مدیر عبدالفرید بروہی بن گئے تھے، چوں کہ اس کا مکمل کام
عبدالحامد کے دور میں ہوا تھا، اس لیے اس خاص شمارے کو ان کے دورِ ادارت میں شمار کیا گیا ہے۔
۳۴۔ راشد، منیر احمد، جنوری ۱۹۹۷ئ، کمانڈو فور، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی،ص۲
۳۵۔ ساتھی، ماہنامہ، اگست ۱۹۹۷ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۹۹
۳۶۔ _________، نومبر ۱۹۹۷ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی،ص ۲۱
۳۷۔ _________،ستمبر۱۹۹۸ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی،ص ۴۵
۳۸۔ _________،جولائی ۲۰۰۱ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی،ص ۵۷
۳۹ ۔ _________،ستمبر ۲۰۰۲ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی،ص ۳۲
۴۰۔ _________، نومبر۲۰۰۹ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی،ص ۶۷
۴۱۔ _________، نومبر ۲۰۱۰ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۴۱
۴۲۔ _________،دسمبر ۲۰۱۱ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۴۱
۴۳۔ _________، نومبر ۲۰۱۲ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۴۱
۴۴۔ _________،اپریل۲۰۱۲ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۳۱
۴۵۔ _________،جنوری ۲۰۱۳ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۵۶
۴۶ ۔ _________،جون ۲۰۱۳ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۲۰۰
۴۷۔ _________،نومبر ۲۰۱۶ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۴۵
۴۸۔ _________،جولائی ۲۰۱۶،مشمولہ: آپ کی نگارشات،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۶۶
۴۹۔ _________، نومبر ۲۰۱۶ئ،الفا ظ کا تعاقب،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱۰۰
۵۰۔ دیکھیے ویب گاہ: www.satheemagazine.com
۵۱۔ ساتھی، ماہنامہ،جون ۲۰۱۶ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۴۵
۵۲۔ دیکھیے ویب گاہ: https://www.urdupoint.com/daily/livenews/2017-11-15/news-1289847.html
۵۳۔ ساتھی، ماہنامہ،دسمبر ۲۰۱۹ء
۵۴۔ دیکھیے ویب گاہ: www.satheemagazine.com
۵۵۔ ساتھی، ماہنامہ،مارچ ۱۹۷۸ء ، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۷۵
۵۶۔ عبدالرحمن مومن، ۲۰ ؍اکتوبر ۲۰۲۱ئ، ساتھی کی تاریخ، غیر مطبوعہ انٹرویو، مملوکہ: اعظم طارق کوہستانی، ص۵
۵۷۔ ایضاً
۵۸۔ ساتھی، ماہنامہ،اگست ۱۹۷۷ء ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۶۷
۵۹۔ دیکھیے ویب گاہ: ماہنامہ_ساتھی https://ur.wikipedia.org/wiki/
۶۰۔ ساتھی، ماہنامہ، نومبر ۱۹۹۱ئ، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۲۹
۶۱۔ _________،اگست۱۹۷۷ء ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۳۲
۶۲۔ دانش، س۔م، دسمبر ۱۹۹۲ئ، ضرب کاری، مشمولہ:ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۶۳
۶۳۔ میو، ندیم سبحان، ۲۸ ستمبر ۲۰۱۷ئ،ہیری پورٹر کی مقبولیت اور اُلوؤں کی شامت ، روزنامہ ایکسپریس، کراچی،ص۲
۶۴۔ صحرائی، حسین،اگست ۱۹۸۱ئ، مشن نمبر ۵۳۰، مشمولہ: ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱۹
۶۵۔ کھتری، لوکو مل ایس، ستمبر ۱۹۸۵ئ، عقل مند کاریگر،مشمولہ: ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱۳
۶۶ ۔ انبالوی، سرور،ستمبر ۱۹۸۵ئ، کایا کلپ، مشمولہ: ماہنامہ’ ساتھی‘،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱۰۰
۶۷۔ چغتائی، کلیم ،ستمبر ۱۹۸۵ئ، جس کا کام اسی کو ساجھے، مشمولہ: ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۹۱
۶۸۔ ایضاً
۶۹ ۔ مغل، سلیم ، پھولوں والی بستی، مشمولہ:ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص:۲۷
۷۰۔ آشنا، قلم، جون ۱۹۹۴ئ، زندہ باد پاکستان، مشمولہ: ماہنامہ’ ساتھی‘،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۲۹
۷۱۔ بن یامین،جون ۱۹۹۴ئ، معصوم، مشمولہ: ماہنامہ ’ساتھی‘،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۸
۷۲ ۔ ماہنامہ ساتھی، جولائی ۱۹۹۲ء ،آزادی کشمیر نمبر، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۵۱
۷۳۔ _________، نومبر ۱۹۹۲ئ، سائنس اسپیشل نمبر، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۳۲
۷۴۔ عبدالقادر، نومبر ۱۹۹۲ئ، پوچھتا ہوں میں کیمیا کیا ہے، مشمولہ:ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۳۲
۷۵۔ کھوکھر، محمد افتخار،۱۹۸۹ئ، بچوں کے رسائل کا جائزہ، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد، ص۸۵
۷۶۔ ساتھی، ماہنامہ، جنوری۱۹۹۰ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۷۷
۷۷۔ _________،جنوری۱۹۹۸ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۵۰
۷۸ ۔ _________،مئی۱۹۹۱ئ، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۳۱
۷۹۔ _________،جنوری۱۹۹۲ئ، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۴۵
۸۰ ۔ _________،اپریل۱۹۹۲ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۲۹
۸۱۔ _________،اکتوبر۱۹۹۴ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۸۸
۸۲۔ _________، اپریل۱۹۹۴ئ، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۹
۸۳۔ _________،اکتوبر۱۹۹۴ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۷
۸۴۔ _________، جنوری۱۹۹۹ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۶۷
۸۵۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ، جنوری ۱۹۹۷ئ، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱
۸۶ ۔ ساتھی، ماہنامہ،اکتوبر۱۹۹۴ئ، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۳۶
۸۷۔ _________، فروری۱۹۹۸ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۳۴
۸۸۔ _________،نومبر ۱۹۹۱ئ، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۴۹
۸۹ ۔ _________، دسمبر ۱۹۹۲ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۷۹
۹۰ ۔ _________،د سمبر ۱۹۹۴ء ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۸۸
۹۱۔ _________،دسمبر ۱۹۹۷ء ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۲۱
۹۲۔ _________، دسمبر ۱۹۹۹ء ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۵۱
۹۳۔ فصیح اللہ حسینی، ۲۰ ؍اکتوبر ۲۰۲۱ئ، ساتھی کی تاریخ، غیر مطبوعہ انٹرویو، مملوکہ: اعظم طارق کوہستانی، ص۶
۹۴۔ ایضاً
۹۵۔ ساتھی، ماہنامہ،دسمبر ۱۹۸۷ء ؛ ابتدا میں’ساتھی‘ بتیس (۳۲)صفحات پر شائع ہوتا تھا، بعد میں اس کے صفحات بڑھا کر ۱۱۲ کردیے گئے۔
۹۶۔ _________،اپریل۱۹۹۰ء ، القرآن،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۲
۹۷۔ _________،اپریل۱۹۹۴ء ،سرچشمۂ ہدایت،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۲
۹۸۔ _________،جنوری۱۹۹۹ء ، خوشبو،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۲
۹۹۔ _________،اکتوبر۱۹۹۴ء ، اچھی باتیںسچی باتیں،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱
۱۰۰۔ _________،دسمبر۱۹۹۴ء ،باتوں سے خوشبو آئے،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۴
۱۰۱۔ _________،دسمبر ۱۹۹۲ء ، مشعل ِراہ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۲
۱۰۲۔ _________، دسمبر۱۹۹۴ء ، باتوں سے خوشبو آئے،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۴
۱۰۳۔ _________،اکتوبر۱۹۹۴ء ، باتوں سے خوشبو آئے،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۴
۱۰۴۔ _________،دسمبر۱۹۹۹ء ، پیام،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۵
۱۰۵۔ _________،جنوری۱۹۹۹ء ، بہت قیمتی بات،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۵
۱۰۶۔ _________،اکتوبر۱۹۹۴ء ،آپ سے کچھ کہنا ہے،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۵
۱۰۷۔ _________، جنوری۱۹۹۹ء ، بہت قیمتی بات،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۵
۱۰۸۔ _________،اکتوبر۱۹۹۴ئ،رنگ برنگی دنیا،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۸۵
۱۰۹۔ ایضاً
۱۱۰۔ ساتھی، ماہنامہ،اپریل۱۹۹۰ئ،’مختصر پُراثر‘،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۷۸
۱۱۱۔ _________،مارچ ۱۹۸۷ئ، مختصر دلچسپ نصیحت آموز،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۵۰
۱۱۲۔ _________،جنوری ۱۹۹۴ء ،میرے نام،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۸۵
۱۱۳۔ _________،جنوری ۱۹۹۹ء ،آپ کی باتیں،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۵۷
۱۱۴۔ _________، اپریل۱۹۹۷ء ، ساتھی ڈاک خانہ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۹۰
۱۱۵۔ _________، اکتوبر۱۹۹۴ء ، ساتھی کی ڈاک مدیر کی بات،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۴۰
۱۱۶۔ _________، اپریل۱۹۹۰ء ، آپ کا صفحہ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۹۳
۱۱۷۔ _________،دسمبر۱۹۹۲ء ، ایڈیٹر کی میز پر،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۶۷
۱۱۸ ۔ _________،دسمبر۱۹۹۸ء ،آپ کی باتیں،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۶۴
۱۱۹۔ _________،جنوری۱۹۹۹ء ، اخبارِ ساتھی،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۹۴
۱۲۰۔ ’’اسلامی جمعیت طلبہ کراچی‘‘ کی اسکول کے طلبہ کی تنظیم کا نام ’’بزم ساتھی‘‘ ہے۔ اس تنظیم کے تحت نا صرف ماہنامہ ساتھی کی بڑے پیمانے پر
ترسیل اور تقسیم ہوتی ہے وہیں اس تنظیم کے تحت ہونے والے مقابلوں، سرگرمیوں وغیرہ کی خبریں ساتھی کی زینت بنتی تھیں۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا
جیسے ’’بزم نونہال‘‘ کی خبریں ہمدرد نونہال میں شائع ہوتی تھیںلیکن اس میں ایک معاملہ یہ ہے کہ بزم نونہال صرف ہمدرد کے اسکولوں تک
محدود ہے جب کہ بزم ساتھی کا دائرہ کار کراچی کے گلی کوچوں تک پھیلا ہوا ہے۔دیکھیے: فصیح اللہ حسینی، ۲۰ ؍اکتوبر ۲۰۲۱ئ، ساتھی کی تاریخ،
غیر مطبوعہ انٹرویو، مملوکہ: اعظم طارق کوہستانی، ص۷
۱۲۱۔ ساتھی، ماہنامہ،جنوری۱۹۹۹ء ،’اخبارِ ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۹۴
۱۲۲۔ _________، جنوری۱۹۹۹ء ، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۹۶
۱۲۳۔ _________،جولائی۲۰۰۵ء ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۳
۱۲۴۔ _________،فروری۱۹۹۰ء ،مشمولہ: مسکرائیے،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۹۱
۱۲۵۔ _________،جنوری۱۹۹۹ء ،مشمولہ:کڑوی کسیلی گولیاں،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۶۳
۱۲۶۔ _________، دسمبر۱۹۹۴ء ،آلو بخارے،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۵۸
۱۲۷۔ _________،اپریل۱۹۹۷ء ، بل پڑ گئے بل،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۳۹
۱۲۸۔ _________،دسمبر۱۹۹۷ء ، ہنسیں ورنہ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۳۵
۱۲۹۔ _________، دسمبر۱۹۹۲ء ،لطیفے وطیفے،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۷۵
۱۳۰۔ _________،مارچ ۱۹۹۷ء ، مسکرائیے،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۴۶
۱۳۱۔ _________، فروری ۱۹۹۰ئ، مسکرائیے،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۹۱
۱۳۲۔ _________،فروری ۱۹۹۸ئ،کڑوی کسیلی گولیاں،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۴۰
۱۳۳۔ _________،مارچ۱۹۸۷ئ، تعارفی نشست،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۵۷
۱۳۴۔ _________،دسمبر۱۹۹۹ئ، آؤ بنائیں دوست،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱۱۰
۱۳۵۔ _________،نومبر۱۹۹۱ئ، بزم ساتھی،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱۰۸
۱۳۶۔ _________،دسمبر۱۹۹۲ئ، ساتھی ڈائریکٹری،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱۰۷
۱۳۷۔ _________،دسمبر۱۹۹۸ئ، ساتھی انسائیکلو پیڈیا،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱۸
۱۳۸۔ ایضاً
۱۳۹۔ ایضاً، ص ۲۰
۱۴۰۔ ابن آس،دسمبر۱۹۹۴ئ، ادیبوں کی ڈائری، مشمولہ: ماہنامہ ’ساتھی‘،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱۱۸
۱۴۱۔ _________، اپریل۱۹۹۰ئ، مشمولہ: غوروفکر،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۷۵
۱۴۲۔ _________، جنوری۱۹۹۹ئ، مشمولہ:مشکل کا حل،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱۸
۱۴۳۔ _________، دسمبر۱۹۹۷ئ، مشمولہ: پہیہ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱۱۰
۱۴۴۔ _________،نومبر۱۹۹۱ئ، مشمولہ: غوروفکر،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۹۸
۱۴۵۔ _________،اگست ۱۹۷۷ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۳۲
۱۴۶ ۔ ایضاً
۱۴۷۔ جعفری، سید کاشان، فروری ۱۹۹۰ئ، موت کے منھ میں تین گھنٹے، مشمولہ: ماہنامہ’ ساتھی‘،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۴۱
۱۴۸۔ سلیم، ایم، اپریل ۱۹۹۰ئ، وطن سے رشتہ، مشمولہ: ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱۳
۱۴۹۔ آشنا، قلم ،دسمبر ۱۹۹۴ئ، تم کلیم ہو، مشمولہ: ماہنامہ’ ساتھی‘،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۸۸
۱۵۰۔ صدیقی، سعدیہ، اپریل۱۹۹۷ئ، آدھی چوری، مشمولہ: ماہنامہ’ ساتھی‘،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۸۰
۱۵۱۔ قاسم بن نظر، دسمبر ۱۹۹۹ئ، جلی کٹی مرچیں، مشمولہ: ماہنامہ ’ساتھی‘،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۷
۱۵۲۔ ادیب ،مرزا، دسمبر ۱۹۹۹ئ، حویلی کا راز، مشمولہ: ماہنامہ ’ساتھی‘،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۲۱
۱۵۳۔ قاسم بن نظر،دسمبر ۱۹۹۹ئ، جلی کٹی مرچیں، مشمولہ:ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۸
۱۵۴۔ ادیب، مرزا،دسمبر ۱۹۹۹ئ، حویلی کا راز، مشمولہ:ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۲۱
۱۵۵۔ ساتھی، ماہنامہ،اگست ۱۹۷۷،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۵۶
۱۵۶۔ صدیقی، اسماعیل احمد،دسمبر۱۹۹۲ئ، کیمو فلاج کے بانی، مشمولہ:ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۶
۱۵۷۔ ساتھی، ماہنامہ،اگست ۱۹۷۷،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۸
۱۵۸۔ طالب، مطلوب ،دسمبر۱۹۹۲ئ، سانپ، مشمولہ:ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۲۶
۱۵۹۔ ساتھی، ماہنامہ،دسمبر۱۹۹۸ئ، ساتھی انسائیکلو پیڈیا، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱۸
۱۶۰۔ محمد، ابو غازی، اکتوبر ۱۹۹۴ئ، چترال،مشمولہ:ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۶۱
۱۶۱۔ ساتھی، ماہنامہ،جون۱۹۹۶ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۲
۱۶۲۔ _________،اگست ۱۹۷۷ئ، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱
۱۶۳۔ صدیقی، احمد حاطب،دسمبر ۱۹۹۲ئ، دو پیڑ تھے بچارے، مشمولہ:ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱۰
۱۶۴۔ ایضاً
۱۶۵۔ عنبر چغتائی،دسمبر ۱۹۹۲ئ، شکریہ،مشمولہ:ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۷۴
۱۶۶۔ ایضاً
۱۶۷۔ فیض لدھیانوی ، دسمبر۱۹۹۸ئ، قائد کا فرمان،مشمولہ:ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۲۶
۱۶۸۔ عبدالقادر،دسمبر ۱۹۹۲ئ، روح قائد کا شکوہ ،مشمولہ:ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۳۰

رسائل میں جدید رجحانات کا مطالعہ

سن ۲۰۰۰ء کے بعد دنیا جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہوئی، اُس کا اندازہ ہی شاید کوئی لگا سکے۔ سائنس اور ٹیکنا لوجی کے انقلابات کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر پوری دنیا متاثر ہوئی۔
ہمارے پڑوسی ملک افغانستان کے متاثر ہونے کی وجہ سے جہاں پاکستان ، سیاسی، معاشرتی، معاشی طور پر تبدیل ہوا وہیں ان تمام محرکات کے اثرات ادب پر بھی پڑے۔ اس طرح لامحالہ ہم بچوں کے اَدب میں بھی تبدیلیاں دیکھتے ہیں۔
بچوں کے ادب کے موضوعات میں تنوع کے باعث پہلے جو کہانیاں اور نظمیں کشمیر کے موضوع پر رسائل کا حصہ تھیں، اب ان میں افغانستان کو بھی موضوع بنایا جارہا ہے۔ جدید سائنس وترقی کے ذرائع نے بھی دنیابھر میں موجود بچوں کے اَدب تک رسائی میں اضافہ کردیاہے۔ امریکا سے شائع ہونے والے Highlights میگزین کے اثرات ہمیں مقامی پرچوں میں نظر آنے لگیہیں۱۔ بچوں کے رسائل میں رنگین صفحات بڑھنے لگے اور کہانیوں کے موضوعات کے ان رجحانات نے تنوع اختیار کرلیا۔
ہم نے گزشتہ صفحات میں جن رسائل کا جائزہ لیا۔ ان رسائل میں ہمدرد نونہال، تعلیم وتربیت اور ماہنامہ ساتھی اب بھی شائع ہورہے ہیں جب کہ آنکھ مچولی زمانے کی نظر ہو کر بند ہوگیا، آنکھ مچولی تقریباً بارہ سال تک (مارچ ۱۹۹۷ئ) شائع ہوتا رہا۲۔
بچوں کے رسائل میں تعلیم وتربیت سب سے قدیم رسالہ ہے جو مسلسل اپنی اشاعت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ تعلیم وتربیت کے موجودہ مدیر ’’ظہیر سلام‘‘ ہیں جو اس رسالے کے ناشر بھی ہیں ، اسی طرح رسالے کے ادراتی معاملات کو اسسٹنٹ ایڈیٹر ’’عابدہ اصغر ‘‘ دیکھتی ہیں۳۔ تعلیم وتربیت کے عملے میں اور کون لوگ شامل ہیں، اس کے حوالے سے تفصیلات رسالے میں شائع نہیں کی جاتیں، جب کہ کئی برس قبل تک تعلیم وتربیتمیں کام کرنے والے تمام کارکنان کے نام باقاعدہ شائع کیے جاتے تھے۴۔تعلیم وتربیت میں جہاں کئی نئے مصنّفین میں اضافہ ہوا، وہیں بہت سارے لکھنے والے ایسے بھی ہیں جو گزشتہ کئی برسوں سے اپنا قلمی تعاون تعلیم وتربیت کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تعلیم وتربیت کے موجودہ ادیبوں اور شعرا میں کلیم چغتائی، نذیر انبالوی، جاوید بسام، ناصر محمود فرہاد، ڈاکٹر طارق ریاض، غلام حسین میمن، کاشف ضیائی، محمد فیصل علی، احمد عدنان طارق، علی اکمل تصور، عبدالرشیدفاروقی، عبدالحمید عابد، محمد فاروق دانش، ریاض عادل، زبیدہ سلطانہ،نیر رانی شفق، وقاص اسلم، رانا محمد شاہد، محمد ندیم اختر، ریاض حسین قمر، محمد نسیم عالم، افضال عاجز، ضیاء الحسن ضیا، راشد علی نواب شاہی، ڈاکٹر عمران مشتاق، فرزانہ چیمہ اور علی عمران ممتاز کے نام نمایاں ہیں ۵۔
رسالے کے مستقل سلسلوں میں حمد، نعت،درس قرآن وحدیث، داؤدی علمی آزمائش ( دماغ لڑاؤ)، بوجھو تو جانیں، کیا آپ جانتے ہیں ، کھیل دس منٹ کا، آئیے مسکرائیں، بچوں کا انسائیکلو پیڈیا، پسند اپنی اپنی ، میری زندگی کے مقاصد، کھوج لگا یئے، آپ بھی لکھیے، ایڈ یٹر کی ڈاک، بلاعنوان، ہونہار مصور شامل ہیں۶۔
ان میں بیش تر سلسلے پرانے ہیں اور اسی نام سے چل رہے ہیں جس نام سے ۲۰۰۰ء سے قبل چل رہے تھے جب کہ قلمی دوستی کو میری زندگی کے مقاصد میں تبدیل کر دیا گیا ہے۷۔ اب بچے کی تصویر اور اس کا مقصدِ زندگی تحریر ہوتا ہے۔ قلمی دوستی کی طرح اس میں پتا نہیں دیا جاتا، اسی طرح بلا عنوان میں ہمیں کمپیوٹر ائزڈ تصویریں دیکھنے کو ملتی ہیں۸۔ ہاتھ سے بنائی گئی تصاویرکا استعمال کم کردیا گیا ہے۔ خطوط والے سلسلے ایڈ یٹر کی ڈاک میں قارئین کو باقاعدہ جواب بھی دیا جانے لگا ہے۹۔
کہانیوں، مضامین کا معیار اس طرح کا نہیں ہے جیسا ہم ۲۰۰۰ء سے قبل یا اس کے چند برس بعد تک دیکھتے ہیں، بچوں کے بڑے ادیب تعلیم وتربیت میں کبھی کبھار تو نظر آتے ہیں، مستقل نہیں لکھتے ہیں۔
طباعت کے لحاظ سے بھی تعلیم وتربیت۹۰ء کی دہائی کا معیار بر قرار نہیںرکھ پایا ہے۔ حالاں کہ طباعت کے میدان میں جدید مشینوں کے آجانے سے بہت فرق پڑا ہے۔ تعلیم وتربیت کا سائز ساتھی اور ہمدرد نو نہال کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔ بچوں کی عمر کے مطابق ہے اور بڑے سائز میں اچھی تزئین کاری بھی ممکن ہے لیکن ادارے کی مجموعی عدم دلچسپی کے باعث تعلیم وتربیت کے تمام شعبے متاثر نظر آتے ہیں۔ مدیران اورمعاونین کی ایک بڑی ٹیم کے ساتھ کام کرنے والا رسالہ اب مدیران اور معاونین کے حوالے سے بھی سکڑ گیا ہے۔تعلیم وتربیت کو اگر دوبارہ بچوں کا محبوب رسالہ بننا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بین الاقوامی معیار کو ملحوظِ خاطر رکھے۔

۱۹۵۳ء سے شائع ہونے والا ہمدرد نونہال اس وقت اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ شائع ہورہا ہے۱۰۔ جس طرح مئی ۱۹۸۸ء میں ہم تعلیم وتربیت کو ایک بالکل بدلے ہوئے رسالے کی طرح دیکھتے ہیں۔ اسی طرح اگست ۲۰۲۰ء کو ہمدرد نونہال کا شمارہ اپنے پرانے سائز میں نئے انداز سے شائع ہوا۔ رسالے کی اشاعت ’’آرجی بلیو کمیونی کیشنز (پرائیوٹ) لمیٹڈ‘‘ کی زیر نگرانی کی جانے لگی۔ ابتدا میں ہمدرد نونہالکے مدیر ’’مسعود احمد برکاتی ‘‘تھے۔ جو ایک طویل عرصے تک نونہال کے مدیر رہے۔ ۱۰ دسمبر ۲۰۱۷ء کو اُن کے انتقال کے بعد کچھ عرصے کے لیے رسالہ ’’سلیم فرخی ‘‘نکالتے رہے۱۱۔چند ماہ بعد ’’سلیم مغل‘‘ رسالے کے مدیر بنائے گئے لیکن وہ زیادہ عرصہ ہمدرد نونہال سے وابستہ نہیں رہے اور اگست ۲۰۲۰ء سے رسالہ ایک پرائیوٹ ادارے کے حوالے کردیا گیا۔’’ عظمیٰ خطیب نواز‘‘ رسالے کی مدیر ہ بنادی گئیں۔ رسالے میں اُردوحصے کے نائب مدیر ’’سلیم فرخی‘‘، جب کہ انگریزی حصے کی نائب مدیرہ ’’نورالعین کلوڈی‘‘ کو بنایا گیا۱۲۔
اگست ۲۰۲۰ء سے رسالے میں یہ چند بڑی تبدیلیاں کی گئیں۔
۱۔ رسالے کو بیک وقت دوز بانوں اُردو اور انگریزی میں شائع کیا جانے لگا۔
۲۔ رسالے کے صفحات ۱۲۰ سے ۱۶۰ کر دیے گئے۔ (اُردو صفحات ۹۶۔ انگریزی صفحات ۶۴)
۳۔ رسالے کو مکمل رنگین کر دیا گیا۔
۴۔ رسالے کی قیمت ۳۵ روپے سے بڑھا کر ۱۰۰ روپے کردی گئی۔
۵۔ رسالے میں باقاعدہ اُردو اور انگریزی حصے کے ادارتی وانتظامی اُمور کے نگران ومعاونین کے نام دیے جانے لگے۱۳۔
۶۔ جولائی میں خاص نمبر شائع کیا گیا جس میں ۲۰۸ صفحات اُردو اور ۱۶۰ صفحات انگریزی زبان کے شامل کیے گئے۔ یوں کل ۳۶۸ صفحات کا ضخیم ترین رسالہ شائع کیا گیا تھا۔ اس خاص شمارے میں کورونا وبا کے پیش نظر بچوں کو ’’ماسک‘‘ کا تحفہ دیا گیا۱۴۔
۷۔ رسالے کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ان حصوں میں ملتی جلتی تحریروں اور سلسلوں کو یکجا کیا گیا ہے۔
ان حصوں کے نام یہ رکھے گئے ہیں۔
روشنی ،ہمارا سرورق، ناولٹ، ہماری دنیا سفر نامہ، نظم ، قصہ کہانی، جذبہ باہم، صحت کی بات مزے کی بات، نونہال کاوش اور علم دوست نونہال۔ اسی طرح انگریزی حصوں کو بھی مختلف نام دیے گئے ہیں۱۵۔
ہمدرد نونہال میں ہونے والی یہ تبدیلیاں خوشگوار ہیں۔ ایک بڑے عرصے بعد بڑی خوب صورت تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔ خصوصاً تزئین کاری کا معاملہ بہت گھمبیر ہوچکا تھا۔ رسالے کی بہت خراب تزئین کاری کے باعث شکل وصورت بدل گئی تھی۔ اب ہمدرد نونہال میں بین الاقوامی معیار کی ڈیزائینگ ہورہی ہے۔ خاکوں کے لیے ’’ویکٹر فارمیٹ‘‘ کا استعمال کیا جارہا ہے۱۶۔
ہمدرد نونہال میں سرگرمیوں اور مضامین کی تعداد بہت زیادہ بڑھادی گئی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بچوں کے لیے رسالہ خریدنے والے والدین بچوں کے رسائل میں کہانیوں کے مطالعے سے زیادہ تعلیمی قسم کی سرگرمیوں کو پسند کر تے ہیں۔ اس وجہ سے رسائل کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ سرگرمیوں کو بنیاد بنا کر رسالہ مرتب کیا جائے۔ لیکن اس کے منفی اثرات بھی ہیں، اس حوالے سے بچوں کی معروف ادیبہ سیما صدیقی بچوں کے ایک رسالے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں:

ورک شیٹ اور ذہنی آزمائش کے سلسلے معیاری ہیں۔ آج کل کے بچوں کا ’’وژ ن‘‘ بہت وسیع ہے لہٰذا ن کو متوجہ کرنا اور متوجہ رکھنا خاصا مشکل کام ہے۔ ذہنی سرگرمیوں اور کہانیوں کا تناسب ساٹھ اور چالیس فیصد محسوس ہوا۔ کہانیاں چالیس فی صد کم تھیں۔ان کا تناسب بڑھانا چاہیے۔تاکہ بچوں کو یہ اسکول لائبریری کی کوئی ایکٹویٹی بک نہ لگے۔ بلکہ’’تفریحی رسالہ‘‘لگے۔ذہنی اور معلوماتی رجحانات کو فروغ دینا رسالے کی کامیابی ہے مگر ساتھ ہی بچوں کی تخیلاتی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنا بے حد ضروری ہے اور یہ کہانیوںکے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مثلاًاگر کہانی نگارلکھے کہ جن کی آنکھیں انگارہ جیسی، رنگت کوے جیسی اور جسامت ہاتھی جیسی تھی تو لفظوں سے بنی اس تصویر کو بچہ اپنے چشم تصور سے دیکھ سکے گا۔ جتنا لکھا ہے اس سے آگے بھی سوچ سکے گا۱۷۔

۲۰۰۰ء سے قبل کے جائزے میں ہمیں ہمدرد نونہال کے اندر طرح طرح کی مزے دار کہانیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بڑے ادیب نو نہال سے جڑے نظر آتے ہیں۔ نونہال نے اسی طویل عرصے میں بڑے ادیبوں کی تحریروں پر اکتفا کیا لیکن خود قلم کاروں کی کوئی ایسی ٹیم تشکیل نہ دے سکے جو نونہال کو اپنی دلچسپ تحریروں سے سجاتے۔ اور نہ ہی یہ سلسلہ ہمیں تعلیم وتربیت میں نظر آتا ہے۔اس سلسلے کا اعزاز یقینا ماہنامہ ساتھی کو جاتا ہے کہ اُنھوں نے اپنے قلم کاروںپر مشتمل ایک ایسی ٹیم بنائی ہے جو مستقل بنیادوں پر ساتھی میں لکھتے رہتے ہیں۱۸۔
دیگر رسائل کو بھی اس سلسلے میں کوشش کرنی ہوگی کہ وہ بچوں کے معروف ادیبوں سے لکھوانے کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والے قلم کاروں کے لیے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کرے۔ قلم کاروں کے لیے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد ’’دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد‘‘ کے شعبہ ’’بچوں کا ادب‘‘ کا خاصا ہوا کرتا تھا لیکن کئی برس سے اب ان تربیتی نشستوں کا سلسلہ موقوف ہوچکا ہے۱۹۔
ہمدرد نونہال میں کہانیوں کے معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ خود ہمدرد نونہال کے پرانے شماروں کا مطالعہ کر کے موجودہ رسائل کو دیکھا جائے تو تحریروں میں زمین وآسمان کا فرق نظر آئے گا۔ اس فرق کو ختم کر کے مزید آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہمدرد نونہال کے موجودہ لکھنے والوں میں سلیم فرخی ،م۔ص ایمن، فہمینہ ارشد، حامد مشہود، نسرین شاہین، ثمینہ پروین، شمیم نوید ، انجم حسن، جاوید بسام، نذیر انبالوی، احمد عدنان طارق، رانا قمر شاہد، عشرت جہاں، عروج سعد، حائمہ وزیر، حافظ محمد دانیال حسن، محمد اکرم وارثی کے نام نمایاں ہیں۲۰۔
ماہنامہ ساتھی نے ’’کاشف شفیع‘‘ کے دور ادارت سے کافی تبدیلیاں پیدا کر لی تھیں۔ جہاں کہانیوں اور مضامین میں منفرد خیال پیش کیے گئے، وہیں طباعت کے میدان میں بھی ماہنامہ ساتھی میں ہمیں تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ خوب صورت ، دلکش اسکیچز اور رنگا رنگ سرورق نے ساتھی کو دیگر رسائل میں نمایاں کر دیا تھا۲۱۔ وہیں کہانیوں کے اچھے معیار نے ادب اطفال میں ماہنامہ ساتھی کی وقعت بڑھادی۔
اس عرصے میں ساتھی کے عموماً قلم کار صرف ماہنامہ ساتھی میں لکھتے رہے۔ ان نمایاں لکھاریوں میں حماد ظہیر، سیما صدیقی، نجیب احمد حنفی، جاوید بسام ، نائلہ صدیقی ،بینا صدیقی، گل رعنا صدیقی، عظمیٰ ابو نصر صدیقی، محمد الیاس نواز، احمد حاطب صدیقی، راحمہ خان، فاطمہ نور صدیقی، فوزیہ خلیل، فصیح اللہ حسینی، ضیاء اللہ محسن، نگہت حسین، حسام چند ریگر، مریم سرفراز، اُمّ ایمان، الطاف حسین، جدون ادیب، عمران شمشاد، ابن آس محمد، معروف احمد چشتی کے نام نمایاں ہیں جب کہ شعرا میں ہمیں تنویر پھول، ضیاء الحسن ضیا، شریف شیوہ، احمد حاطب صدیقی، ضیاء اللہ محسن، ارسلان اللہ خان نے اپنی مزے دار نظموں سے ماہنامہ ساتھی کو سجایا۲۲۔
ماہنامہ ساتھی نے اپنے موضوعاتی خاص شماروں کی روایت بر قرار رکھی۔ جولائی ۲۰۲۱ء میں ماہنامہ ساتھی نے ملکی صورت حال کے پیش نظر گھبراہٹ نمبر کا اجرا کیا لیکن اس خاص شمارے میں بچوں کی مزے مزے کی گھبرا ہٹوں کا ذکر ہے۲۳۔
اس خاص شمارے میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے پہلی گھبراہٹ کے نام سے ’’نگہت حسین‘‘ کی تحریر موجود ہے، جس میں پہلی وحی کے وقت کا تذکرہ ہے۲۴۔ اسی طرح فوزیہ خلیل کی پارس گھبرا گیا۲۵حماد ظہیر کی کہانی چچا گھبراؤ۲۶ بھی اسی شمارے میں شامل ہے۔ گھبراہٹ نامہکے نام سے ضیاء اللہ محسن کی نظم جہاں بچوں کو محظوظ کر رہی ہے ۲۷، وہیں الیاس نواز کا ڈراما خالہ کی گھبراہٹ بچوں کو کھلکھلانے پر مجبور کرتی ہے۲۸۔ بچوں میں گھبراہٹ کے حوالے سے طبی نقطۂ نظر سے ماہر نفسیات ڈاکٹر اقبال آفریدی کا انٹرویو بھی شامل ہے۲۹۔ یہ خاص شمارہ ۱۶۸ صفحات پر شائع کیا گیاہے اور اس کی قیمت ۸۰ روپے رکھی گئی ہے۔
جولائی ہی میں ہمدرد نونہال کا بھی خاص شمارہ شائع ہوا ،یہ کسی خاص موضوع پر نہیں تھا۔ اسے سالنامہ تصور کیا جاسکتا ہے۳۰۔ نونہال اور ساتھی کے خاص شمارے کا جائزہ لیں تو دونوں رسائل میں یہ فرق نظر آتا ہے۔

ماہنامہ ساتھی۳۱ ماہنامہ نونہال۳۲
موضوع گھبراہٹ نمبر خاص شمارہ
صفحات ۱۶۸ ۳۶۸
قیمت ۸۰ ۲۵۰
رنگین صفحات ۴۰ مکمل
زبان اُردو اُردو ، انگریزی

اس چارٹ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں رسائل کے وسائل میں کتنا فرق ہے۔ ایک موضوع اور زبان کو چھوڑ کر باقی تمام چیزوں کا تعلق وسائل سے ہے۔ پاکستان میں بچوں کے ادب میں وسائل کی کمی کا مسئلہ ہر دور میں رہا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے بہت اچھے رسائل چند عرصے سے زیادہ نہیں چل سکے۔
طباعت واشاعت کے لحاظ سے ہمدرد نونہال کی صورت حال اچھی ہے جب کہ ماہنامہ ساتھی اور تعلیم وتربیتکو اس شعبے پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اس عرصے کے دوران پوری دنیا ایک عجیب مسئلے سے دوچارہوئی۔یہ مسئلہ کورونا وائرس کا تھا۔ کورونا کی وبا نے جہاں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ وہیں بچوںکے ادب پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے۔ ان اثرات کی وجہ سے جہاں رسائل کی سرکولیشن میں کمی آئی، وہیں کچھ رسائل شائع ہی نہیں ہوئے جب کہ بیشتررسائل صرف آن لائن شائع ہوئے۔ بچوں کے بیشتر رسائل چند بنیادی غلطیوں کی وجہ سے وہ معیار پیش نہیں کررہے جو بچوں کا عالمی ادب تقاضا کرتا ہے، بچوں کے رسائل کو چاہیے کہ وہ ان نکات پر عمل درآمد یقینی بنائے۔ ان نکات میں کمی بیشی بھی کی جاسکتی ہے۔

۱۔ رسائل میں ان کی ٹیم کے باقاعدہ نام ادارتی صفحے پر موجود ہو اور کوئی فرضی نام شامل نہ ہو۔
۲۔ مصور وں کے ہاتھوں سے بنائی گئیں تصاویر کا زیادہ سے زیادہ استعمال رسالے کو خوب صورت بناتا ہے۔وہیں اچھے ویکٹر والی کمپیوٹرائزڈ تصویروں کا استعمال کریں۔
[پاکستان میں ایسے کئی مصور موجود ہیں جو اچھے ویکٹر پر مشتمل خوب صورت خاکے بناتے ہیں]
۳۔ کتابت کرنے والے، تصویر بنانے والے، صاحب مضمون یا کہانی نویس کا نام لازماً درج کریں۔
۴۔ رسالے کے لیے ایسا کاغذ استعمال کریں جس پر رنگین صفحات اپنی پوری چمک کے ساتھ آسکیں۔
۵۔ کہانیوں اور مضامین کا معیار بڑھائیں۔ روایتی خیالات اور سطحی مکالموں والی تحریروں سے پرہیز ضروری ہے۔
۶۔ رسالے کی تزئین کاری اچھے انداز سے کریں جوبچوں کو جاذب نظر لگے۔
۶۔ بچے متحرک اور تبدیلی پسند کرنے والے ہوتے ہیں۔ اس لیے برسوں سے چلے آئے سلسلوں کو تبدیل کیا جاناچاہیے یا اُس میں کوئی ایسی تبدیلی لائی جائے جو بچوں کو محظوظ کر سکے۔
۷۔ رسالے میں کوئی بھی پرانی تحریر شائع کرتے وقت اُس کا حوالہ ضرور دیں کہ وہ پہلے کب چھپ چکی ہے۔
۸۔ بچوں کے بڑے ادیبوں سے لکھوانے کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔اس سے نئے لکھنے والوں کو بھی سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
۹۔ رسالے میں عمر کے لحاظ سے فونٹ کا استعمال کیا جائے تاکہ زیادہ چھوٹا فونٹ بچوں کی صحت پر منفی اثر نہ ڈالے۔
۱۰۔ جدید دنیا کا تقاضا ہے کہ بچوں کی عمر کا تعین کرکے رسالہ نکالا جائے۔ اسی طرح رسالے میں صرف لڑکوں کو ہی کہانی کا موضوع نہ بنایا جائے بلکہ کہانیوں کے کردار میں لڑکیوں کے کردار کو بھی شامل کیا جائے، اسی طرح لڑکیوں کے خاص موضوعات پر خصوصی کہانیاں لکھوائی جاسکتی ہیں۔مثلاً سر کے بالوں اور بالوں میں جوئوں کا مسئلہ، لڑکیوں میں غیبت کی عادت، سگھڑ لڑکی کی خصوصیات پر مشتمل کئی موضوعات کا احاطہ کیا جاسکتا ہے۔پاکستان میں معروف ادیب احمد حاطب صدیقی نے بچیوں کے لیے خاص طور پر نظمیں اور کہانیاں لکھی ہیں۳۳۔
پاکستان میں لڑکیوں کے لیے خاص طور پر بزم گل۳۴اور کھلتی کلیاں ۳۵کے نام سے رسائل نکالے گئے لیکن وہ چند عرصہ چلنے کے بعد بند ہوگئے۔ اس قسم کے خاص رسائل کا اجرا بھی کیا جاسکتا ہے۔
بچوں کے ادب میں نت نئے زایوں سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مشرقی وسطیٰ، یورپ ، امریکا اور افریقا سے شائع ہونے والے بچوں کے رسائل کا جائزہ لے کر اپنے مقامی حالات کے مطابق رسائل میں جدت لائی جاسکتی ہے۔

حوالہ وحواشی:

۱۔ بحوالہ ویب گاہ:https://www.highlightskids.com/
۲۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ، مارچ ۱۹۹۷ئ، کراچی
۳۔ تعلیم وتربیت، ماہنامہ، اکتوبر ۲۰۲۱ئ، فیروز سنز، لاہور، ص۲ ۱
۴۔ _______________، ستمبر ۲۰۰۰ئ، فیروز سنز ، لاہور، ص ۴۱
۵۔ _______________، جنوری ۲۰۱۲ء تا اکتوبر ۲۰۲۱ئ،لاہور،ص۵۶
۶۔ _______________، اکتوبر ۲۰۲۱ئ، فیروز سنز، لاہور، ص ۲۱
۷۔ تعلیم وتربیت، ماہنامہ، جون ۲۰۲۱ئ، فیروز سنز، لاہور،ص ۷۸
۸۔ ایضاً، ص۶۴
۹۔ ایضاً، ص ۵۵
۱۰۔ ہمدردنونہال، ماہنامہ، جولائی ۱۹۵۳ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی،ص۴
۱۱۔ عباس، قمر، ڈاکٹر، ۲۶ مئی ۲۰۱۹ئ، ہمدرد نونہال اور مسعود احمد برکاتی،روزنامہ ’جنگ‘، کراچی، ص۲
۱۲۔ ہمدردنونہال،اگست ۲۰۲۰ئ، آرجی بلیو کمیونی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، کراچی، ص ۱
۱۳۔ ایضاً
۱۴۔ ہمدردنونہال،ماہنامہ، جولائی۲۰۲۱ئ،’ خاص شمارہ‘، آرجی بلیو کمیونی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، کراچی
۱۵۔ ایضاً، ص ۲ تا ۴
۱۶۔ بسام، جاوید، جولائی ۲۰۲۱ئ، دسواں آدمی، مشمولہ:’ ہمدرد نونہال‘، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی،ص۱۰۸
۱۷۔ صدیقی، سیما، نومبر ۲۰۲۱ئ، خط۔۔۔جو آپ نے لکھا، مشمولہ: ’بچوں کا آشیانہ‘،آشیانہ پبلی کیشنز، کراچی، ص ۴۶
۱۸۔ بحوالہ ویب گاہ:ماہنامہ_ساتھی https://ur.wikipedia.org/wiki/
۱۹۔ کھوکھر، محمدافتخار، ۲۰۱۳ئ، روشنی کا سفر، شعبہ بچوں کا ادب، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد، ص:۱۷
۲۰۔ ہمدردنونہال،اگست ۲۰۲۰ء تا اکتوبر ۲۰۲۱ئ، آرجی بلیو کمیونی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، کراچی،ص۱
۲۱۔ ماہنامہ ساتھی، ستمبر ۲۰۰۵ ئ، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی،ص۲۱
۲۲۔ __________، جنوری۲۰۰۵ء ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی،ص۸۱
۲۳۔ __________، جولائی ۲۰۲۱ئ، گھبراہٹ نمبر،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۶
۲۴۔ حسین، نگہت، جولائی ۲۰۲۱ئ، پہلی گھبراہٹ، مشمولہ: ’ماہنامہ ساتھی‘،’ گھبراہٹ نمبر‘،کراچی، ص۱۱
۲۵۔ خلیل، فوزیہ، جولائی ۲۰۲۱ئ، پارس گھبراگیا،مشمولہ: ’ماہنامہ ساتھی‘،’ گھبراہٹ نمبر‘،کراچی، ص۱۹
۲۶۔ ظہیر، حماد، جولائی ۲۰۲۱ئ، چچا گھبراؤ، مشمولہ: ’ماہنامہ ساتھی‘،’ گھبراہٹ نمبر‘،کراچی، ص۲۸
۲۷۔ محسن،ضیاء اللہ، جولائی ۲۰۲۱ئ، گھبراہٹ نامہ، مشمولہ: ’ماہنامہ ساتھی‘،’ گھبراہٹ نمبر‘،کراچی، ص۴۶
۲۸۔ نواز،محمد الیاس، جولائی ۲۰۲۱ئ، خالہ کی گھبراہٹ، مشمولہ: ’ماہنامہ ساتھی‘،’ گھبراہٹ نمبر‘،کراچی، ص۱۱۶
۲۹۔ جاوید، عاقب، جولائی ۲۰۲۱ئ، ایک ملاقات اُن کے ساتھ، مشمولہ: ’ماہنامہ ساتھی‘،’ گھبراہٹ نمبر‘،کراچی، ص۹۲
۳۰۔ ہمدردنونہال، جولائی۲۰۲۱ئ، ’خاص شمارہ‘، آرجی بلیو کمیونی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، کراچی،ص۲۳
۳۱۔ جاوید، عاقب، جولائی ۲۰۲۱ئ،گھبراہٹ نمبر، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی،ص۴۵
۳۲۔ ہمدردنونہال، جولائی۲۰۲۱ئ، ’خاص شمارہ‘، آرجی بلیو کمیونی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، کراچی،ص۸۷
۳۳۔ صدیقی، احمد حاطب، ۲۰۱۷، یہ بات سمجھ میں آئی نہیں، ادارہ مطبوعات طلبہ، کراچی،ص۲
۳۴۔ بزم گل، جنوری تا مارچ ۲۰۱۴ئ، اسلامی جمعیت طالبات،کراچی،ص۲
۳۵۔ دو ماہی کھلتی کلیاں، جنوری فروری ۲۰۱۷ئ، وی شائن پبلی کیشنز، کراچی،ص۲۳

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top